Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلامی ریاست میں ذمیّوں کے حقوق
غیر مسلم رعایا کی اقسام:
معاہدین:
مفتوحین:
ذمّیوں کے عام حقوق
حفاظت جان
فوجداری قانون:
دیوانی قانون:
تحفظ عزت:
ذمّہ کی پائیداری:
شخصی معاملات:
مذہبی مراسم:
عبادت گاہیں:
جزیہ و خراج کی تحصیل میں رعایات:
تجارتی ٹیکس
فوجی خدمت سے استثناء:
فقہائِ اسلام کی حمایت
زائد حقوق جو غیر مسلموں کو دیے جا سکتے ہیں
نمائندگی اور رائے دہی:
تہذیبی خود اختیاری:
آزادیٔ تحریر و تقریر وغیرہ
تعلیم:
ملازمتیں
معاشی کاروبار اور پیشے:
غیر مسلموں کے لیے تحفظ کی واحد صورت:
ضمیمۂ اوّل
ضمیمۂ دوم
حقوق شہریت

اسلامی ریاست میں ذِمّیوں کے حقوق

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

جزیہ و خراج کی تحصیل میں رعایات:

جزیہ و خراج کے معاملہ میں ذمّیوں پر تشدد کرنا ممنوع ہے۔ ان کے ساتھ نرمی اور رفق کی تاکید کی گئی ہے اور ان پر ایسا باڑ ڈالنے سے منع کیا گیا ہے جسے اٹھانے کی ان میں قدرت نہ ہو۔ حضرت عمرؓ نے حکم دیا تھا کہ لایکلفوا فوق طاقتھم جتنا مال دنیا ان کی طاقت سے باہر ہو اس کے ادا کرنے کی انہیں تکلیف نہ دی جائے۔ (کتاب الخراج ص۸ ، ۸۲)
جزیہ کے عوض ان کی املاک کا نیلام نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہٗ نے اپنے ایک عامل کو فرمان بھیجا تھا کہ لاتبیعن لھم فی خراجھم حمارًا ولا بقرہ ولا کسوۃ شیئاً ولا حنفاً خراج میں ان کا گدھا، ان کی گائے، ان کے کپڑے نہ بیچنا۔ (فتح البیان ج۴ ص ۹۳)
ایک اور موقع پر اپنے عامل کو بھیجتے وقت حضرت علیؓ نے فرمایا:۔
’’ان کے جاڑے گرمی کے کپڑے اور ان کے کھانے کا سامان اور ان کے جانور جن سے وہ کھیتی باڑی کرتے ہیں، خراج وصول کرنے کی خاطر ہرگزنہ بیچنا، نہ کسی کو درہم وصول کرنے کے لیے کوڑے مارنا، نہ کسی کو کھڑا رکھنے کی سزا دینا، نہ خراج کے عوض کسی چیز کا نیلام کرنا۔ کیونکہ ہم جو ان کے حاکم بنائے گئے ہیں۔ تو ہمارا کام نرمی سے وصول کرنا ہے۔ اگر تم نے میرے حکم کے خلاف کیا تو اللہ میرے بجائے تم کو پکڑے گا اور اگر مجھے تمہاری خلاف ورزی کی خبر پہنچی تو میں تمہیں معزول کر دوں گا‘‘۔ (کتاب الخراج ص۹)
جزیہ کی تحصیل میں ان پر ہر قسم کی سختی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے شام کے گورنر حضرت ابو عبیدہؓ کو جو فرمان لکھا تھا اس میں منجملہ اور احکام کے ایک یہ بھی تھا کہ:۔
وامنع المسلمین من ظلمھم والاضراربھم واکل اموالھم الا بحلھا (کتاب الخراج ص۸۲)
’’مسلمانوں کو ان پر ظلم کرنے‘ اور انہیں ستانے اور ناجائز طریقہ سے ان کے مال کھانے سے منع کرو‘‘۔
شام کے سفر میں حضرت عمر ث نے دیکھا کہ ان کے عامل جزیہ وصول کرنے کے لیے ذمّیوں کو سزا دے رہے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ ان کو تکلیف نہ دو، اگر تم انہیں عذاب دو گے۔ تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب دے گا۔ لا تعذب الناس فان الذین یعذبون الناس فی الدنیا یعذبھم اللّٰہ یوم القیامہ۔ (کتاب الخراج۷۱)
ہشام بن حکم نے ایک سرکاری افسر کو دیکھا کہ وہ ایک قبطی کو جزیہ وصول کرنے کے لیے دھوپ میں کھڑا کر رہا ہے۔ اس پر انہوں نے ملامت کی اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہا کو یہ فرماتے سنا ہے کہ:۔
ان اللّٰہ عزوجل یعذب الذین یعذبون الناس فی الدنیا (ابودائود کتاب الخراج بابا الفئی والا مارہ)
’’اللہ عزوجل ان لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں۔‘‘
فقہاء اسلام نے نادہندوں کے حق میں صرف اتنی اجازت دی ہے کہ انہیں تادیباً قید بے مشقت کی سزا دی جا سکتی ہے۔ امام ابو یوسفؒ لکھتے ہیں کہ ولکن یرفق بھم ویحبسون حتی یورواماعلیھم۔ (کتاب الخراج ص ۷۰)
جو ذمّی محتاج اور فقیر ہو جائیں انہیں صرف جزیہ سے معاف ہی نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے لیے اسلامی خزانے سے وظائف بھی مقرر کیے جائیں گے۔ حضرت خالدؓ نے اہل حیرہ کو جو امان نامہ لکھ کر دیا تھا اس میں وہ لکھتے ہیں:۔
وجعلت لھم ایّما شیخ ضعف عن العمل او اصابتۃ اٰفۃ من الاٰفات اوکان غنیا فاقتضر وصار اھل دینہ یتصدقون علیہ طرحت جزیتہ وعیل من بیت مال المسلمین ھو وعیالہٗ (کتاب الخراج ص ۸۵)
’’میں نے ان کے لیے یہ حق بھی رکھا ہے کہ جو کوئی شخص بڑھاپے کے سبب ازکار رفتہ ہو جائے یا اس پر کوئی آفت نازل ہو جائے، یا وہ پہلے مالدار تھا پھر فقیر ہو گیا یہاں تک کہ اس کے ہم مذہب لوگ اس کو صدقہ خیرات دینے لگے، تو اس کا جزیہ معاف کر دیا جائے اور اسے اور اس کے بال بچوں کو مسلمانوں کے بیت المال سے مدد دی جائے گی۔‘‘
ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے ایک ضعیف العمر آدمی کو بھیک مانگتے دیکھا اور اس سے اس ذلیل حرکتوں کا سبب دریافت کیا۔ اس نے کہا کہ جزیہ ادا کرنے کے لیے بھیک مانگتا ہوں اس پر آپ نے اس کا جزیہ معاف کر دیا اور اس کے لیے وظیفہ مقرر کیا اور اپنے افسر خزانہ کو لکھا:۔
’’خدا کی قسم یہ ہرگز انصاف نہیں ہے کہ ہم اس کی جوانی میں اس سے فائدہ اٹھائیں اور بڑھاپے میں اس کو رسوا کریں۔‘‘ (کتاب الخراج ص ۷۲۔ فتح القدیر ج۴ ص ۳۷۳)
دمشق کے سفر میں بھی حضرت عمرث نے معذور ذمّیوں کے لیے امدادی وظائف مقرر کرنے کے احکام جاری کیے تھے۔ (فتوح البلدان للبلاذری طبع یورپ ص ۱۲۹)
اگر کوئی ذمّی مر جائے اور اس کے حساب میں جزیہ کا بقایا واجب الادا ہو تو وہ اس کے ترکہ سے وصول نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے وارثوں پر اس کا بار ڈالا جائے گا۔ امام ابو یوسفؒ لکھتے ہیں:۔
ان وجت علیہ الجزیۃ فمات قبل ان توخذ منہ اواخذ بعضھا وبقی البعض لم یوخذ بذالک ورثتہ ولم توخذ من ترکتہ
(کتاب الخراج ص۷۰۔ المبسوط ج ۱۰ ص ۸۱)
’’اگر کسی ذمّی پر جزیہ واجب ہو اور وہ اس کو ادا کرنے سے پہلے مر گیا تو اس کے ورثاء سے وہ وصول نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے ترکہ سے لیا جائے گا۔‘‘

شیئر کریں