Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلامی نظامِ تعلیم
قدیم نظامِ تعلیم
جدید نظامِ تعلیم
ایک انقلابی قدم کی ضرورت
مقصد کا تعین
دین ودنیا کی تفریق مٹا دی جائے
تشکیلِ سیرت
عملی نقشہ
ابتدائی تعلیم
ثانوی تعلیم
اعلیٰ تعلیم
اختصاصی تعلیم
لازمی تدابیر
عورتوں کی تعلیم
رسم الخط
انگریزی کا مقام

اسلامی نظامِ تعلیم

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

جدید نظامِ تعلیم

اس کے بعد اس نظامِ تعلیم کو لیجئے جو انگریزوں نے یہاں قائم کیا۔ دنیا میں جو بھی نظامِ تعلیم قائم کیا جائے، اس میں اوّلین بنیادی سوال یہ ہوتا ہے کہ آپ کس قسم کے آدمی تیار کرنا چاہتے ہیں اور آدمیّت کا وہ کیا نقشہ آپ کے سامنے ہے جس کے مطابق آپ لوگوں کو تعلیم وتربیّت دے کر ڈھالنا چاہتے ہیں؟ اس بنیادی سوال کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یقینا انگریز کے سامنے انسانیّت کا وہ نقشہ ہرگز نہیں تھا جو مسلمانوں کے سامنے ہونا چاہیے۔ انگریز نے یہ نظامِ تعلیم یہاں اس لیے قائم نہیں کیا تھا کہ مسلمانوں کی تہذیب کو زندہ رکھنے اور ترقی دینے کے لیے کارکن تیار کرے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ چیز اس کے پیشِ نظر نہیں ہو سکتی تھی۔ پھر اس کے پیش نظر انسانیّت کا وہ نقشہ بھی نہیں تھا جو خود اپنے ملک انگلستان میں اس کے پیش نظر تھا۔ وہ اس مقصد کے لیے یہاں آدمی تیار کرنا نہیں چاہتا تھا جس کے لیے وہ اپنے ملک میں اپنی قوم کے لیے تیار کرتا تھا۔ وہ یہاں ایسے لوگ تیار کرنا نہیں چاہتا تھا جو ایک آزاد قومی حکومت کو چلانے کے لیے موزوں ہوں۔ یہ جنس تو اسے اپنے ملک میں مطلوب تھی، نہ کہ ہمارے ملک میں۔ یہاں جس قسم کے آدمی تیار کرنا اس کے پیشِ نظر تھا ان کے اندر اولیں صلاحیت وہ یہ دیکھنی چاہتا تھا کہ وہ باہر سے آ کر حکومت کرنے والی ایک قوم کے بہتر سے بہترآلہ کار بن سکیں۔ اس کو یہاں ایسے آدمی درکار تھے جو اس کی زبان سمجھتے ہوں، جن سے وہ ربط اور تعلق رکھ سکے اور کام لے سکے، جو اس کے ان اصولوں کو جانتے اور سمجھتے ہوں، جن پر وہ ملک کا نظام چلانا چاہتا تھا، اور جن میں یہ صلاحیّت ہو کہ وہ اس سرزمین میں انگریز کے منشا کو خود انگریز کی طرح پورا کر سکیں۔ یہی مقصد تھا جس کے لیے اس نے موجودہ نظامِ تعلیم قائم کیا تھا۔
اس نظامِ تعلیم میں اس نے جتنے علوم پڑھائے، ان میں اسلام کا کوئی شائبہ نہ تھا اور نہ ہو سکتا تھا۔ خود یورپ میں ان سارے علوم کا جو ارتقاء ہوا تھا وہ تمام تر خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کی رہنمائی میں ہوا تھا۔ جو مذہبی طبقہ وہاں موجود تھا، وہ پہلے ہی فکر وعمل کے میدان سے بے دخل کیا جا چکا تھا۔ اس لیے تمام علوم کا ارتقاء خواہ وہ سائنس میں ہو یا فلسفہ، تاریخ ہو یا عمرانیات، ایسے لوگوں کے ہاتھوں ہوا۔ جو اگر خدا کے منکر نہ تھے تو کم از کم اپنی دنیوی زندگی میں خدا کی رہنمائی کی کوئی ضرورت بھی محسوس نہ کرتے تھے۔ انگریز نے اپنے انہی علوم کو لا کر، انہی کتابوں کے ساتھ اس ملک میں رائج کیا، اور آج تک انہی علوم کو اسی طرز پر یہاں پڑھایا جا رہا ہے۔ اس نظام تعلیم کے تحت جو لوگ پڑھتے رہے ان کا ذہن قدرتی طور پر بغیر اپنے کسی قصور اور اپنے کسی ارادے کے آپ سے آپ اس طرح بنتا چلا گیا کہ وہ دین سے اور دینی نقطۂِ نظر سے اور دینی طرزِ فکر سے روز بروز بعید تر ہوتے چلے گئے۔ ظاہرہے کہ جو شخص اپنی تعلیم کے نقطۂ آغاز سے لے کر اپنی انتہائی تعلیم تک دنیا کے متعلق جتنی معلومات بھی حاصل کرے وہ ساری کی ساری خدا پرستی کے نقطۂ نظر سے خالی ہوں، اس کے ذہن میں آخر خدا کا اعتقاد کیسے جڑ پکڑ سکتا ہے۔ اس کی درسی کتابوں میں خدا کا کہیں ذکر ہی نہ ہو، وہ تاریخ پڑھے تو اس میں پوری انسانی زندگی اپنی قسمت آپ ہی بناتی اور بگاڑتی نظر آئے، وہ فلسفہ پڑھے تو اس میں کائنات کی گتھی خالقِ کائنات کے بغیر ہی سلجھانے کی کوشش ہو رہی ہو۔ وہ سائنس پڑھے تو اس میں سارا خانۂ ہستی کسی صانع حکیم اور ناظم ومدبّر کے بغیر چلتا ہوا دیکھا جائے، وہ قانون، سیاست، معیشت اور دوسرے علوم پڑھے تو ان میں سرے سے یہ امر زیر بحث ہی نہ ہو کہ انسانوں کا خالق ان کے لیے زندگی کے کیا اصول اور احکام دیتا ہے، بلکہ ان سب کا بنیادی نظریہ ہی یہ ہو کہ انسان آپ ہی اپنی زندگی کے اصول بنانے کا حق رکھتا ہے، ایسی تعلیم پانے والے سے کبھی یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ تو خدا کا انکار کر، وہ آپ سے آپ خدا سے بے نیاز اور خدا سے بے فکر ہوتا چلا جائے گا۔
یہ تعلیم خدا پرستی اور اسلامی اخلاق سے تو خیر خالی ہے ہی، غضب یہ ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوانوں میں وہ بنیادی اخلاقیات بھی پیدا نہیں کرتی جن کے بغیر کسی قوم کا دنیا میں ترقی کرنا تو درکنار، زندہ رہنا بھی مشکل ہے۔ اس کے زیر اثر پرورش پا کر جو نسلیں اٹھ رہی ہیں وہ مغربی قوموں کے عیوب سے تو ماشاء اللہ پوری طرح آراستہ ہیں مگر ان کی خوبیوں کی چھینٹ تک ان پر نہیں پڑی ہے۔ ان میں نہ فرض شناسی ہے، نہ مستعدی وجفاکشی، نہ ضبطِ اوقات، نہ صبر وثبات، نہ عزم واستقلال، نہ باقاعدگی وباضابطگی، نہ ضبطِ نفس، نہ اپنی ذات سے بالا کسی چیز کی وفاداری، وہ بالکل خود رو درختوں کی طرح ہیں جنہیں دیکھ کر یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ان کا کوئی قومی کریکٹر بھی ہے، ان کو معزز سے معزز پوزیشن میں ہو کر بھی کسی ذلیل سے ذلیل بددیانتی اور بدکرداری کے ارتکاب میں دریغ نہیں ہوتا۔ ان میں بدترین قسم کے رشوت خور، خویش پرور، سفارشیں کرنے اور سننے والے، بلیک مارکٹنگ کرنے اورکرانے والے، ناجائز درآمد برآمد کرنے اور کرانے والے، انصاف اور قانون اور ضابطے کا خون کرنے والے، فرض سے جی چرانے اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکے مارنے والے، اور اپنے ذرا سے مفاد پر اپنی پوری قوم کے مفاد اور فلاح کو قربان کر دینے والے، ایک دو نہیں ہزاروں کی تعداد میں، ہر شعبۂ زندگی میں، ہر جگہ آپ کو کام کرتے نظر آتے ہیں۔ انگریز کے ہٹ جانے کے بعد مملکت کو چلانے کی ذمّہ داری کا بار اسی تعلیم کے تیار کیے ہوئے لوگوں نے سنبھالا ہے اور چند سال کے اندر ان بے سیرت کارکنوں کے ہاتھوں ملک کا جو حال ہوا ہے، وہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ اور جونسل اب اس نظامِ تعلیم کی درس گاہوں میں زیر تربیّت ہے اس کے اخلاق وکردار کا حال آپ چاہیں تو درس گاہوں میں، ہوسٹلوں میں، تفریح گاہوں میں اور قومی تقریبات کے موقع پر بازاروں میں دیکھ سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ تعلیم میں خدا پرستی اور اسلامی اخلاق نہ سہی، آخر وہ اخلاق کیوں نہیں پیدا ہوتے جو انگریزوں میں، جرمنوں میں، امریکیوں میں اور دوسری ترقی یافتہ مغربی قوموں میں پیدا ہوتے ہیں؟ ان کے اندر کم از کم بنیادی انسانی اخلاقیات تو پائے جاتے ہیں، یہاں وہ بھی مفقود ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
میرے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ بنیادی انسانی اخلاقیات پیدا کرنے کی فکر وہ نظامِ تعلیم کرتا ہے جو ایک آزاد قوم اپنے نظامِ زندگی کو چلانے کے لیے بناتی ہے۔ اس کو لامحالہ اپنے تمدن کی بقا اور ارتقاء کی خاطر ایسے کارکن تیار کرنے کی فکر ہوتی ہے جو مضبوط اور قابل اعتماد سیرت کے مالک ہوں۔ انگریز کوایسے کارکنوں کی ضرورت اپنے ملک میں تھی نہ کہ ہمارے ملک میں۔ اس ملک میں تو انگلستان کے برعکس اسے وہ اخلاق پیدا کرنا مطلوب تھے جو بھاڑے کے ٹٹوئوں (Mercenaries)کے ہونے چاہئیں کہ اپنے ہاتھوں میں اپنے ہی ملک کو فتح کرکے اپنی قوم کے دشمنوں کے حوالے کر دیں اور پھر اپنے ملک کا نظم ونسق اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے چلاتے رہیں۔ اس کام کے لیے جیسے اخلاقیات کی ضرورت تھی، ویسے ہی اخلاقیات انگریزوں نے یہاں پیدا کرنے کی کوشش کی اور انہی کو پیدا کرنے کے لیے وہ تعلیمی مشینری بنائی جو آج تک جوں کی توں اسی شان سے چل رہی ہے۔ اس مشین سے ایک آزاد ملک کے لیے قابل اعتماد پرزے ڈھلنے کی اگر کوئی شخص توقع رکھتا ہے تو اسے پہلے اپنی عقل کے ناخن لینے کی فکر کرنی چاہیے۔

شیئر کریں