زمانہ جاہلیت میں ’’الرِّبٰوا‘‘ کا اطلاق جس طرزِ معاملہ پر ہوتا تھا، اس کی متعدد صورتیں روایات میں آئی ہیں۔
قتادہؒ کہتے ہیں جاہلیت کا ربوٰا یہ تھا کہ ایک شخص، ایک شخص کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرتا اور ادائے قیمت کے لیے ایک وقت مقررہ تک مہلت دیتا۔ اگر وہ مدت گزر جاتی اور قیمت ادا نہ ہوتی تو پھر وہ مزید مہلت دیتا اور قیمت میں اضافہ کر دیتا۔
مجاہدؒ کہتے ہیں جاہلیت کا ربوٰ یہ تھا کہ ایک شخص کسی سے قرض لیتا اور کہتا کہ اگر تو مجھے اتنی مہلت دے تو میں اتنا زیادہ دوں گا۔ (ابن جریر، جلد سوم ، ص ۶۲)
ابوبکر جصاص کی تحقیق یہ ہے کہ اہل جاہلیت ایک دوسرے سے قرض لیتے تو باہم یہ طے ہو جاتا کہ اتنی مدت میں اتنی رقم راس المال سے زیادہ ادا کی جائے گی۔ (احکام القرآن، جلد اول)۔
امام رازیؒ کی تحقیق میں اہل جاہلیت کا یہ دستور تھا کہ وہ ایک شخص کو ایک معین مدت کے لیے روپیہ دیتے اور اس سے ماہ بماہ ایک مقررہ رقم سود کے طور پر وصول کرتے رہتے۔ جب وہ مدت ختم ہو جاتی تو مدیون سے رأس المال کا مطالبہ کیا جاتا۔ اگر وہ ایسا نہ کرسکتا تو پھر ایک مزید مدت کے لیے مہلت دی جاتی اور سود میں اضافہ کر دیا جاتا۔
(تفسیر کبیر، جلد دوم، ص ۳۵۱)
کاروبار کی یہ صورتیں عرب میں رائج تھیں، انھی کو اہلِ عرب اپنی زبان میں ’’الربوٰا‘‘ کہتے تھے، اور یہی وہ چیز تھی جس کی تحریم کا حکم قرآن مجید میں نازل ہوا۔