موخر الذکر دونوں اصولوں کی بنیاد اس پور ے طرزِ عمل پر قائم ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خلفاء نے برتا تھا۔ اس کی تشریح امام ابو یوسف رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب الخراج میں اس طرح فرماتے ہیں:
’’امام عادل کو حق ہے کہ جو مال کسی کی ملک نہ ہو اور جس کا کوئی وارث بھی نہ ہو اس میں سے ان لوگوں کو عطیے اور انعام دے جن کی اسلام میں خدمات ہوں… جس شخص کو وُلاۃِ مہدیین (راہِ راست پر چلنے والے فرمانروائوں) نے کوئی زمین عطا کی ہو اسے واپس لینے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ لیکن جو زمین کسی حاکم نے ایک سے چھینی اور دوسرے کو بخشی تو اس کی حیثیت اس مال کی سی ہے جو ایک سے غصب کیا گیا اور دوسرے کو عطا کر دیا گیا۔‘‘
کچھ دور آگے چل کر پھر لکھتے ہیں:
’’پس جن جن اقسام کی زمینوں کا ہم نے ذکر کیا ہے کہ امام ان کو عطا کرسکتا ہے ان میں سے جو زمین بھی عراق اور عرب اور الجبال اور دوسرے علاقوں میں ’’ولاۃ مہدیین‘‘ نے کسی کو دی ہے، بعد کے خلفاء کے لیے حلال نہیں ہے کہ اسے واپس لیں یا ان لوگوں کے قبضے سے نکالیں جن کے پاس ایسی زمینیں اس وقت موجود ہیں، خواہ وہ انہوں نے وراثت میں پائی ہوں یا وارثوں سے خریدی ہوں۔‘‘
آخر میں اس بحث کو ختم کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’پس یہ نظیریں ثابت کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی زمینیں عطا کی ہیں اور آپؐ کے بعد خلفاء بھی دیتے رہے ہیں۔ آنحضرتؐ نے جس کو بھی زمین دی یہ دیکھ کر دی کہ ایسا کرنے میں صلاح اور بہتری ہے ۔ مثلاً کسی نو مسلم کی تالیف قلب، یا زمین کی آبادی۔ اسی طرح خلفائِ راشدین نے بھی جس کو زمین دی یہ دیکھ کر دی کہ اس نے اسلام میں کوئی عمدہ خدمت انجام دی ہے، یا وہ اعدائے اسلام کے مقابلے میں کارآمد ہوسکتا ہے، یا یہ کہ ایسا کرنے میں بہتری ہے۔‘‘
(کتاب الخراج، ص ۳۲۔۳۵)
یہ تصریحات امام ابو یوسفؒ نے دراصل عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے اس سوال کے جواب میں فرمائی ہیں کہ جاگیروں کی شرعی حیثیت کیا ہے، اور ایک فرماں روا کہاں تک ایسا کرنے کا مجاز ہے؟ اس کا جو کچھ جواب امام صاحب نے دیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے عطائے زمین بجائے خود تو ایک جائز فعل ہے، مگر نہ سب زمین دینے والے یکساں ہیں اور نہ سب لینے والے۔ ایک عطیہ وہ ہے جو عادل، متدین، راست رو اور خدا ترس حکمرانوں نے دیا ہو۔ اعتدال کے ساتھ دیا ہو۔ دین اور ملت کے سچے خادموں کو، یا کم از کم مفید اور کارآمد لوگوں کو دیا ہو۔ کسی ایسی غرض کے لیے دیا ہو جس کا فائدہ بحیثیت مجموعی ملک اور ملت ہی کی طرف پلٹتا ہو۔ اور ایسے مال میں سے دیا ہو جس کے دینے کے وہ مجاز تھے۔ دوسرا عطیہ وہ ہے جو ظالموں اور جابروں اور نفس پرستوں نے دیا ہو۔ برے لوگوں کو دیا ہو۔ بری اغراض کے لیے دیا ہو۔ بے تحاشا دیا ہو۔ اور ایسے مال میں سے دیا ہو جس کے دینے کا ان کو حق نہ تھا۔ یہ دو مختلف طرح کے عطیے ہیں اور دونوں کا حکم یکساں نہیں ہے۔ پہلا عطیہ جائز ہے اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو برقرار رکھا جائے۔ دوسرا عطیہ ناجائز ہے اور انصاف چاہتا ہے کہ اسے منسوخ کیا جائے۔ بڑا ظالم ہے وہ جو دونوں طرح کے عطیوں کو ایک ہی لکڑی سے ہانک دے۔