ان شواہد سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اسلامی قومیّت کی تعمیر میں نسل و وطن اور زبان و رنگ کا قطعاً کوئی حصہ نہیں ہے۔ اس عمارت کو جس معمار نے بنایا ہے اس کا تخیل ساری دنیا سے نرالا تھا، اس نے تمام عالمِ انسانی کے موادِ خام پر نظر ڈالی جہاں جہاں سے اس کو اچھا اور مضبوط مسالہ ملا، اس کو چھانٹ لیا۔ ایمان اور عملِ صالح کے پختہ چُونے سے ان متفرق اجزاء کو پیوستہ کر دیا اور ایک عالم گیر قومیّت کا قصر تعمیر کیا جو سارے کرئہ ارضی پر چھایا ہوا ہے۔ اس عظیم الشان عمارت کا قیام و دوام منحصر ہے اس پر کہ اس کے تمام مختلف الاصل، مختلف الشکل، مختلف المقام اجزاء اپنی جدا جدا اصلیتوں کو بھول کر صرف ایک اصل کو یاد رکھیں۔ اپنے جدا جدا رنگ چھوڑ کر ایک رنگ میں رنگ جائیں۔ اپنے الگ الگ مقاموں سے قطع نظر کرکے ایک مخرج صدق سے نکلیں اور ایک مدخل صدق میں داخل ہوجائیں۔ یہی وحدت ملّی اس بنیان مرصوص کی جان ہے۔ اگر یہ وحدت ٹوٹ جائے اگر اجزائے ملت میں اصلوں اور نسلوں کے جدا جدا ہونے، اپنے وطن اور مقام کے مختلف ہونے، اپنے رنگ و شکل کے متنوع ہونے اور اپنی اَغراض دنیوی کے متضاد ہونے کا احساس پیدا ہوجائے تو اس عمارت کی دیواریں پھٹ جائیں گی ، اس کی بنیادیں ہل جائیں گی، اور اس کے تمام اجزاء پارہ پارہ ہوجائیں گے جس طرح ایک سلطنت میں کئی سلطنتیں نہیں بن سکتیں، اسی طرح ایک قومیّت میں کئی قومیتیں بھی نہیں بن سکتیں۔ اسلامی قومیت کے اندر نسلی، وطنی، لسانی اور لونی قومیتوں کا جمع ہونا قطعاً محال ہے۔ ان دونوں قسم کی قومیتوں میں سے ایک ہی قائم رہ سکتی ہے اس لیے کہ:
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
پس جو مسلمان ہے اور مسلمان رہنا چاہتا ہے اسے تمام قومیتوں کے احساس کو باطل اور سارے خاک و خون کے رشتوں کو قطع کرنا پڑے گا اور جو ان رشتوں کو قائم رکھنا چاہتا ہے اس کے متعلق ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ اسلام اس کے قلب و روح میں نہیں اُترا۔ جاہلیت اس کے قلب و دماغ پر چھائی ہوئی ہے۔ آج نہیں تو کل وہ اسلام سے چھوٹے گا اور اسلام اس سے۔