یہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے‘ اس پر جب آپ غور کریں گے تو یہ بات بآسانی آپ کی سمجھ میں آجائے گی کہ جنگ کی جوتقسیم جارحانہ (Aggressive) اور مدافعانہ (Defensive) کی اصطلاحوں میں کی گئی ہے‘ اس کا اطلاق سرے سے ’’اسلامی جہاد‘‘ پر ہوتا ہی نہیں۔ یہ تقسیم صرف قومی اور ملکی لڑائیوں پر ہی منطبق ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اصطلاحاً ’’حملہ‘‘ اور ’’مدافعت‘‘ کے الفاظ ‘ایک ملک یا ایک قوم کی نسبت سے ہی بولے جاتے ہیں۔ مگر جب ایک بین الاقوامی پارٹی‘ ایک جہانی نظریہ و مسلک کو لے کر اٹھے۔۔۔ اور تمام قوموں کو انسانی حیثیت سے اس مسلک کی طرف بلائے۔۔۔ اور ہر قوم کے آدمیوں کو مساویانہ حیثیت سے پارٹی میں شریک کرے۔۔۔ اور محض مسلکِ مخالف کی حکومت کو مٹاکر اپنے مسلک کی حکومت قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرے‘ تو ایسی حالت میں اصطلاحی ’’حملہ‘‘ اور اصطلاحی ’’مدافعت‘‘ کا قطعاً کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ اگر اصطلاح سے قطع نظر کرلی جائے‘ تب بھی ’’اسلامی جہاد‘‘ پر جارحانہ اور مدافعانہ کی تقسیم منطبق نہیں ہوتی۔ ’’اسلامی جہاد‘‘ بیک وقت جارحانہ بھی ہے اور مدافعانہ بھی۔ جارحانہ اس لیے‘ کہ مسلم پارٹی مسلکِ مخالف کی حکمرانی پر حملہ کرتی ہے۔۔۔ اور مدافعانہ اس لیے کہ خود اپنے مسلک پر عامل ہونے کے لیے حکومت کی طاقت حاصل کرنے پر مجبور ہے۔ ’’پارٹی‘‘ ہونے کی حیثیت سے اس کا کوئی گھر نہیں ہے‘ کہ وہ اسکی مدافعت کرے۔ اس کے پاس محض اپنے اصول ہیں‘ جنکی وہ حمایت کرتی ہے۔ اسی طرح وہ مخالف پارٹی کے گھر پر بھی حملہ نہیں کرتی‘ بلکہ اس کے اصولوں پر حملہ آور ہوتی ہے۔۔۔ اور اس حملہ کا مدعا یہ نہیں ہے کہ اس سے زبردستی اس کے اصول چھڑائے جائیں‘ بلکہ مدعا صرف یہ ہے کہ اس کے اصولوں سے حکومت کی طاقت چھین لی جائے۔