Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلامی نظامِ تعلیم
قدیم نظامِ تعلیم
جدید نظامِ تعلیم
ایک انقلابی قدم کی ضرورت
مقصد کا تعین
دین ودنیا کی تفریق مٹا دی جائے
تشکیلِ سیرت
عملی نقشہ
ابتدائی تعلیم
ثانوی تعلیم
اعلیٰ تعلیم
اختصاصی تعلیم
لازمی تدابیر
عورتوں کی تعلیم
رسم الخط
انگریزی کا مقام

اسلامی نظامِ تعلیم

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

ثانوی تعلیم

اس کے بعد اب ہائی سکول کی تعلیم کو لیجئے۔ اس مرحلے میں سب سے پہلی چیز جسے میں ضروری سمجھتا ہوں، وہ یہ ہے کہ عربی زبان کو بطور لازمی زبان پڑھایا جائے۔ اسلام کے اصل مآخذ سارے عربی زبان میں ہیں۔ قرآن عربی میں ہے، حدیث عربی میں ہے۔ ابتدائی صدیوں کے فقہاء اور علماء نے جتنا کام کیا ہے وہ سب عربی میں ہے۔ اسلامی تاریخ کے اصل مآخذ بھی عربی زبان ہی میں ہیں۔ کوئی شخص اسلام کی اسپرٹ پوری طرح سے نہیں سمجھ سکتا اور نہ اس میں اسلامی ذہنیت اچھی طرح پیوست ہو سکتی ہے جب تک وہ قرآن کو براہِ راست اس کی اپنی زبان میں نہ پڑھے۔
محض ترجموں سے کام نہیں چلتا۔ اگرچہ ہم چاہتے ہیں کہ ترجمے بھی پھیلیں تاکہ ہمارے عوام الناس کم از کم یہ جان لیں کہ ہمارا خدا ہمیں کیا حکم دیتا ہے۔ لیکن ہمارے تعلیم یافتہ لوگوں میں کوئی ایسا نہیں ہونا چاہیے جو عربی زبان سے ناواقف ہو۔ اس لیے ہم عربی کو بطور ایک لازمی مضمون کے شامل کرنا چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ایک شخص جب ہائی اسکول سے فارغ ہو کر نکلے تو اس کو اتنی عربی آتی ہو کہ وہ ایک سادہ عربی عبارت کو صحیح پڑھ اور سمجھ سکے۔
ثانوی تعلیم کا دوسرا مضمون قرآن مجید ہونا چاہیے جس کے کم از کم دو پارے ہر میٹرک پاس طالب علم اچھی طرح سمجھ کر پڑھ چکا ہو۔ وقت بچانے کے لیے ایسا کیا جا سکتا ہے کہ ہائی اسکول کے آخری مرحلوں میں عربی زبان قرآن ہی کے ذریعہ پڑھائی جائے۔
تیسرا لازمی مضمون اسلامی عقائد کا ہونا چاہیے جس میں طلبہ کو نہ صرف ایمانیات کی تفصیل سے آگاہ کیا جائے بلکہ انہیں یہ بھی بتایا جائے کہ ہمارے پاس ان عقائد کے دلائل کیا ہیں؟ انسان کو ان کی ضرورت کیا ہے؟ انسان کی عملی زندگی سے ان کا ربط کیا ہے؟ ان کے ماننے یا نہ ماننے کے کیا اثرات انسانی زندگی پر مترتب ہوتے ہیں؟ اور ان عقائد پر ایمان لانے کے اخلاقی اور عملی تقاضے کیا ہیں؟ یہ امورایسے طریقے سے طلبہ کے ذہن نشین کیے جائیں کہ وہ محض باپ دادا کے مذہبی عقائد ہونے کی حیثیت سے ان کو نہ مانیں بلکہ یہ ان کی اپنی رائے بن جائیں۔
اسلامی عقائد کے ساتھ ساتھ اسلامی اخلاقیات کو بھی ابتدائی تعلیم کی بہ نسبت ثانوی تعلیم میں زیادہ تفصیل اور تشریح کے ساتھ بیان کیا جائے اور تاریخ سے نظیریں پیش کرکے یہ بات ذہن نشین کی جائے کہ اسلام کے یہ اخلاقیات محض خیالی اصول اور کتابی نظرئیے نہیں ہیں بلکہ عمل میں لانے کے لیے ہیں اور فی الواقع اس سیرت وکردار کی ایک ایسی رائے عام پیدا کرنے کی کوشش کی جائے کہ اسلام جن اوصاف کی مذمّت کرتا ہے، طلبہ خود ان اوصاف کو بُرا سمجھیں، ان سے بچیں اور اپنی سوسائٹی میں ان صفات کے لوگوں کو ابھرنے نہ دیں۔ اور اسلام جن اوصاف کو محمود اور مطلوب قرار دیتا ہے، ان کو وہ خود پسند کریں، انہیں اپنے اندر نشوونما دیں اور ان کی سوسائٹی میں انہی اوصاف کے لوگوں کی ہمت افزائی ہو۔
میٹرک کے معیار تک پہنچتے پہنچتے ایک بچہ جوان ہو چکا ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں اس کو اسلامی زندگی کے متعلق ابتدائی تعلیم وتربیت کی بہ نسبت زیادہ تفصیلی احکام جاننے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں اس کو شخصی اور ذاتی زندگی، خاندانی زندگی اور تمدن ومعاشرت اور لین دین وغیرہ کے متعلق ان تمام ضروری احکام سے واقف ہونا چاہیے جو ایک جوان آدمی کے لیے درکار ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ احکام کو اتنی تفصیل کے ساتھ جانے کہ مفتی بن جائے۔ لیکن اس کی معلومات اتنی ضرور ہونی چاہئیں کہ وہ اس معیار کی زندگی بسر کر سکے جو ایک مسلمان کا معیار ہونا چاہیے۔ یہ کیفیّت تو نہ ہو کہ ہمارے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی نکاح، طلاق، رضاعت اور وراثت کے متعلق کوئی سرسری علم بھی نہیں ہوتا اور اس ناواقفیت کی وجہ سے بسا اوقات وہ شدید غلطیاں کر جاتے ہیں جن سے سخت قانونی پیچیدگیاں واقع ہو جاتی ہیں۔
تاریخ کی تعلیم میں ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہائی اسکول کے طلبہ (جن غریبوں کو آج تک تاریخ انگلستان پڑھائی جا رہی ہے) نہ صرف اپنے ملک کی تاریخ پڑھیں بلکہ اس کے ساتھ اسلام کی تاریخ سے بھی واقف ہوں۔ ان کو تاریخِ انبیاء سے واقف ہونا چاہئے تاکہ یہ جان لیں کہ اسلام ایک ازلی وابدی تحریک ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں یکایک شروع نہیں ہوئی تھی۔ ان کو سیرتِ نبویؐ اور سیرت خلفائے راشدینؓ سے بھی واقف ہونا چاہیے تاکہ وہ ان مثالی شخصیتوں سے روشناس ہو جائیں جو ان کے لیے معیارِ انسانیت کا درجہ رکھتی ہیں۔ خلافتِ راشدہ کے بعد سے اب تک کی تاریخ کا ایک مجمل خاکہ بھی ان کے سامنے آ جانا چاہیے تاکہ وہ یہ جان لیں کہ مسلمان قوم کن کن مراحل سے گزرتی ہوئی موجودہ دور تک پہنچی ہے۔ یہ تاریخی معلومات نہایت ضروری ہیں۔ جس قوم کے نوجوانوں کو خود اپنے ماضی کا علم نہ ہو اس کے اندر اپنی قومی تہذیب کا احترام کبھی پیدا نہیں ہو سکتا۔
اس تعلیم کے ساتھ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہائی اسکول کے مرحلے میں طلبہ کی عملی تربیّت کا سلسلہ بھی شروع ہو جائے۔ مثلاً ہائی اسکول میں کوئی مسلمان طالب علم ایسا نہیں ہونا چاہیے جو نماز کا پابند نہ ہو۔ طلبہ کے اندر ایسی رائے عام پیدا کی جانی چاہیے کہ وہ اپنے درمیان ایسے طالب علموں کو برداشت نہ کریں اور ازروئے قاعدہ بھی کوئی ایسا طالب علم مدرسے میں نہ رہنا چاہیے جو مدرسے کے اوقات میں نماز نہ پڑھتا ہو۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ نماز ہی وہ بنیاد ہے جس پر عملاً اسلامی زندگی قائم ہوتی ہے۔ یہ بنیاد منہدم ہو جانے کے بعد اسلامی زندگی ہرگز قائم نہیں رہ سکتی۔ اس لحاظ سے بھی آپ کو سوچنا چاہیے کہ ایک طرف تو آپ ایک طالب علم کو بتاتے ہیں کہ نماز فرض ہے اور تیرے خدا نے یہ تجھ پر فرض کی ہے۔ دوسری طرف آپ اپنے عملی برتائو سے روز یہ بات اس کے ذہن نشین کرتے ہیں کہ اس فرض کو فرض جانتے اورمانتے ہوئے بھی اگر توادا نہ کرے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ آپ اسے روزانہ منافقت کی اور ڈیوٹی سے فرار کی اور بودی سیرت کی مشق کرا رہے ہیں۔ کیا آپ امید رکھتے ہیں کہ یہ تعلیم وتربیت پا کر جب وہ باہر نکلے گا تو آپ کے تمدن اور آپ کی ریاست کا ایک فرض شناس کارکن ثابت ہو گا؟ اپنے سب سے بڑے فرض کی چوری میں مشاق ہو جانے کے بعد تو وہ ہر فرض میں سے چوری کرے گا، خواہ وہ سوسائٹی کا فرض ہو یا ریاست کا یا انسانیت کا۔ اس صورت میں آپ کو اسے ملامت نہ کرنی چاہیے بلکہ اس نظامِ تعلیم کو ملامت کرنی چاہیے جس نے اوّل روز سے اس کو یہ سکھایا تھا کہ فرض ایک ایسی چیز ہے جس کو فرض جاننے کے بعد بھی چھوڑا جا سکتا ہے۔ اپنے نوجوانوں کو خدا سے بے وفائی سکھانے کے بعد آپ یہ ہرگز امید نہ رکھیں کہ وہ قوم‘ ملک، ریاست، کسی چیز کے بھی مخلص اور وفادار ہوں گے۔ تعلیم کے کورس میں بلند خیالات اور معیاری اوصاف بیان کرنے کا آخر فائدہ ہی کیا ہے۔ اگر سیرت وکردار کو ان خیالات اور معیارات پر قائم کرنے کی عملاً کوشش نہ کی جائے۔ دل میں اونچے خیالات رکھنے اور عمل ان کے خلاف کرنے سے رفتہ رفتہ سیرت کی جڑیں بالکل کھوکھلی ہو جاتی ہیں اور ظاہر ہے کہ جن لوگوں کی سیرت ہی بودی اور کھوکھلی ہو وہ مجرد اپنی ذہنی اور علمی قابلیتوں سے کوئی کارنامہ کرکے نہیں دکھا سکتے۔ اس لیے ہمیں ثانوی تعلیم کے مرحلے میں، جب کہ نئی نسلیں بچپن سے جوانی کی سرحد میں داخل ہوتی ہیں، اس امر کی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ ایک ایک لڑکے اور لڑکی کے اندر مضبوط سیرت پیدا کریں اور انہیں یہ سکھائیں کہ تمہارا عمل تمہارے علم کے مطابق ہونا چاہیے۔ جس چیز کو حق جانو اس کی پیروی کرو۔ جسے فرض جانو اسے ادا کرو۔ جسے بھلائی جانو اسے اختیار کرو اور جسے برا جانو اسے ترک کر دو۔
جہاں تک ثانوی مرحلے کے عام مضامین کا تعلق ہے وہ اپنی جگہ جاری رہیں گے۔ البتہ ان کے نصاب کی کتابیں اسلامی تصوّرات کی روشنی میں اور ان کے پس منظر کے ساتھ از سرِ نو تیار کرنی پڑیں گی۔

شیئر کریں