Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلامی نظمِ معیشت کے اُصول اور مقاصد(۱)
اسلام نظامِ معیشت کے بنیادی مقاصد
شخصی آزادی کی حفاظت
اخلاقی اصلاح پر زور اور جبر کا کم سے کم استعمال
اسلام نظام معیشت کے بنیادی اصول
شخصی ملکیت محدود حق
مساوی تقسیم کے بجائے منصفانہ تقسیم ِ دولت
کمائی کے ذرائع میں حلال وحرام کی تمیز
استعمالِ دولت کے طریقوں میں حلال و حرام کی تمیز
افراد کی دولت پر معاشرے کے حقوق
زکوٰۃ
زکوٰۃ اور ٹیکس کا فرق
ٹیکس لگانے کے اختیارات
قانونِ وراثت
اسلامی نظامِ معیشت کی خصوصیات
معاشی عوامل اور ان کا تناسب
دوسرے سوال کا جواب
تیسرے سوال کا جواب
چوتھے سوال کا جواب

اسلامی نظمِ معیشت کے اُصول اور مقاصد

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

تیسرے سوال کا جواب

تیسرا سوال یہ کیا گیا ہے کہ کیا ہم بلا سود معاشی نظام قائم کرسکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یقیناً کرسکتے ہیں۔ پہلے صدیوں تک ایسا نظام قائم رہا ہے اور آج بھی اگر آپ اسے قائم کرنا چاہیں اور دوسروں کی اندھی پیروی سے نکل آئیں تو اس کا قائم کرنا مشکل نہیں ہے۔ اسلام کے آنے سے پہلے دنیا کا معاشی نظام اسی طرح سود پر چل رہا تھا جس طرح آج چل رہا ہے۔ اسلام نے اس کو بدلا اور سود کو حرام کر دیا۔ پہلے وہ عرب میں حرام ہوا۔ پھر جہاں جہاں اسلام کی حکومت پہنچتی گئی وہاں سود ممنوع ہوتا چلا گیا اور پورا معاشی نظام اس کے بغیر چلتا رہا۔ یہ نظام صدیوں چلا ہے۔ اب کوئی وجہ نہیں کہ وہ نہ چل سکے۔ اگر ہم میں اجتہاد کی قوت ہو اور ہم ایمانی طاقت بھی رکھتے ہوں اور یہ ارادہ بھی رکھتے ہوں کہ جس چیز کو خدا نے حرام کیا ہے اس کو ختم کریں تو یقیناً آج بھی ہم اسے ختم کر کے تمام مالی اور معاشی معاملات چلا سکتے ہیں۔ میں اپنی کتاب ’’سود‘‘ میں وضاحت کے ساتھ بتا چکا ہوں کہ درحقیقت اس میں کوئی بہت بڑی پیچیدگی نہیں ہے۔ مسئلے کی نوعیت بالکل صاف اور سادہ ہے۔ سرمائے کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قرض کی شکل میں آئے اور ایک متعین منافع لے، قطع نظر اس سے کہ اس روپے پر محنت کرنے والوں اور تنظیم کی خدمت انجام دینے والوں کو منافع حاصل ہو یا نہ ہو۔ سود میں اصل خرابی یہی ہے کہ ایک شخص یا ایک ادارہ اپنا سرمایہ صنعت یا تجارت یا زراعت کو قرض کی شکل میں دیتا ہے اور اس سے پیشگی اپنا ایک خاص منافع طے کرلیتا ہے۔ اس کو اس سے کوئی بحث نہیں کہ مدت مقررہ کے اندر اس کاروبار میں نقصان ہو رہا ہے یا نفع، اور نفع ہو رہا ہے تو کتنا ہو رہا ہے۔ وہ سال بسال یا ماہ بماہ اپنا طے شدہ منافع وصول کرتا چلا جاتا ہے اور اصل کی واپسی کا بھی حق دار رہتا ہے۔ اس کے لیے کوئی وجہ جواز پیش نہیں کی جاسکتی ۔ اس کے برعکس اسلام جو اصول پیش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر آپ قرض دیتے ہیں تو پھر قرض کی طرح دیجئے۔ صرف اپنا قرض واپس لینے کا حق رکھتے ہیں۔ اور اگر آپ منافع حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر سیدھی طرح شریک یا حصہ دار بن کر معاملہ کیجئے۔ اپنا روپیہ زراعت میں یا تجارت میں یا صنعت میں، جس میں بھی آپ لگانا چاہتے ہیں اس شرط پر لگایئے کہ اس میں جتنا بھی منافع ہوگا وہ ایک خاص تناسب سے آپ کے اور کام کرنے والوں کے درمیان تقسیم ہو جائے گا۔ یہ انصاف کا تقاضا بھی ہے اور اس طرح سے معاشی زندگی بھی پھل پھول سکتی ہے۔ کون سی دقت ہے سود کے طریقے کو ختم کر کے اس دوسرے طریقے کو رائج کرنے میں ؟ جو روپیہ اب قرض کے طور پر لگایا جاتا ہے وہ آئندہ سے شرکت کے اصول پر لگایا جائے۔ حساب جس طرح سود کا ہوسکتا ہے اسی طرح منافع کا بھی ہوسکتا ہے ۔ کوئی خاص مشکل اس میں نہیں ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہمارے اندر اجتہاد کی صلاحیت نہیں ہے بلکہ ہمیں اندھی تقلید کی عادت پڑی ہوئی ہے۔ جو پہلے سے ہوتا چلا آ رہا ہے وہی ہم آنکھیں بند کر کے چلائے جائیں گے۔ اجتہاد سے اپنے لیے کوئی راستہ نہ نکالیں گے۔ مولوی غریب کو طعنہ دیا جاتا ہے کہ وہ اندھی تقلید کرتا ہے اور اجتہاد سے کام نہیں لیتا، حالانکہ خود اندھے مقلد ہیں اور اجتہاد کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ بیماری لگی ہوئی نہ ہوتی تو اب تک یہ مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔

شیئر کریں