آخری نمونۂ اجتہاد فاضل جج نے ایسے بچوں کی حضانت کے مسئلے میں کرکے بتایا ہے جن کی مائیں اپنے شوہروں سے جدا ہو چکی ہیں۔ اس معاملے میں وہ سورۂ بقرہ کی آیت ۲۳۳ اور سورۂ طلاق کی آیت ۶ نقل کرکے حسب ذیل دو باتیں ارشاد فرماتے ہیں اور دونوں قرآنی الفاظ کے حدود سے صریحاً خارج ہیں:
پہلی بات وہ یہ فرماتے ہیں کہ ’’ان آیات کی روسے مائوں کو پورے دو سال اپنے بچوں کو دودھ پلانا ہو گا۔‘‘ حالانکہ جو آیات انھوں نے نقل کی ہیں ان کی رو سے پورے دو سال تو درکنار، بجائے خود دودھ پلانا بھی لازم نہیں کیا گیا ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیت میں فرمایا گیا ہے۔ وَالْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّـتِمَّ الرَّضَاعَۃَ۰ۭالبقرہ 233:2’’اور مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلائیں پورے دو سال اس شخص کے لیے جو رضاعت پوری کرانا چاہتا ہو‘‘ اور سورۂ طلاق والی آیت میں فرمایا گیا ہے: فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ۰ۚ الطلاق 65:6 َّ ’’پھر اگر وہ تمھارے لیے بچے کو دودھ پلائیں تو ان کی اجرت انھیں دو۔‘‘
دوسری بات وہ یہ فرماتے ہیں کہ: ’’قرآن میں ایسی کوئی ہدایت نہیں ہے کہ ایک عورت اگر طلاق پا کر دوسری شادی کر لے تو پہلا شوہر اس سے اپنا بچہ لے سکتا ہے۔ اگر محض اس بِنا پر کہ اس نے دوسری شادی کر لی ہے وہ بچے سے محروم ہو سکتی ہے تو میں کوئی وجہ نہیں سمجھتا کہ ایک مرد دوسری شادی کر لینے کی صورت میں کیوں نہ اپنے بچے سے محروم ہو۔‘‘
یہ بات ارشاد فرماتے وقت فاضل جج کو غالباً یہ خیال نہ رہا کہ چند سطر اوپر جو آیات انھوں نے خود نقل کی ہیں، ان میں بچے کو باپ کا قرار دیا گیا ہے اوراول سے لے کر آخر تک ان میں سارے احکام اسی بنیاد پر دیے گئے ہیں کہ بچہ باپ کا ہے۔ عَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہٗ رِزْقُھُنَّ وَکِسْوَتُھُنَّ ’’جس کا بچہ ہے اس کے ذمے (دودھ پلانے والی ماں کے) کھانے کپڑے کا خرچ ہے۔‘‘ وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْٓا اَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ البقرہ 233:2 ’’اور اگر تم (کسی دوسری عورت سے) اپنے بچے کو دودھ پلوانا چاہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔‘‘ فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ الطلاق 6:65 ’’پھر اگر وہ تمھارے لیے بچے کو دودھ پلائیں تو ان کی اجرت ان کو دو۔‘‘ ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج سے یہ بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی کہ قرآن کے یہ الفاظ بچے کے معاملے میں باپ اورماں کی پوزیشن کے درمیان کیا فرق ظاہر کر رہے ہیں۔
بنیادی غلطی
ان تینوں مسائل میں فاضل جج نے اس انداز میں بحث کی ہے کہ گویا قرآن خلا میں سفر کرتا ہوا سیدھا ہمارے پاس پہنچ گیا ہے۔ مسلم معاشرے کا کوئی ماضی نہیں ہے جس میں اس کتاب کے احکام سمجھنے سمجھانے اور اس پر عمل کرنے کا کوئی کام کبھی ہوا ہو، اور جس سے ہمیں کسی قسم کے کوئی نظائر کہیں ملتے ہوں۔ کوئی نبی نہ تھا جس پر یہ قرآن اترا ہو، اور اس نے اس کے کسی حکم کا مطلب بیان کیا ہو، یا اس پر عمل کرکے بتایا ہو۔ کوئی خلفا، کوئی صحابہ، کوئی تابعین، کوئی فقہا، کوئی قاضی اور حکام عدالت اس امت میں نہیں گزرے ہیں۔ ہمیں پہلی مرتبہ ہی ان مسائل سے سابقہ پیش آ گیا ہے کہ یہ قرآن جو تعدد ازواج کی اجازت دیتا ہے، یا چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا مقرر کرتا ہے، یا بچوں کی حضانت کے متعلق کچھ ہدایات دیتا ہے، ان پر ہم کیا قواعد وضوابط بنائیں۔ اس طرح کے تمام معاملات میں تیرہ چودہ سو برس کا اِسلامی معاشرہ ہمارے لیے گویا معدوم محض ہے۔ سب کچھ ہمیں قرآن ہاتھ میں لے کر نئے سرے سے کرنا ہے، اور وہ بھی اس طرح جس کے چند نمونے اوپر ہمارے سامنے آتے ہیں۔