Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرض ناشر
دیباچہ طبع اوّل
دیباچہ طبع پنجم
اِسلام اور جاہلیّت کی اُصولی و تاریخی کش مکش
زِندگی کے چار نظریے
۱۔ جاہلیّت خالصہ
۲۔ جاہلیّتِ مشرکانہ
۳۔ جاہلیّت ِراہبانہ
۴۔ اِسلام
انبیا علیہم السلام کا مشن
نبی کے کام کی نوعیت
خلافتِ راشدہ
جاہلیّت کا حملہ
مجددین کی ضرورت
شرحِ حدیث ’’مَنْ یُّجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا‘‘
کارِ تجدید کی نوعیت
مجدد کی تعریف
مجدد اور نبی کا فرق
الامام المہدی
امت کے چند بڑے بڑے مجددین اَور اُن کے کارنامے
عمربن عبدالعزیز ؒ
ائمہ اربعہ
امام غزالی ؒ
ابنِ تیمیہؒ
شیخ احمد سرہندیؒ
شاہ ولی اللّٰہ دہلویؒ کا کارنامہ
تنقیدی کام
تعمیری کام
نتائج
سید احمد بریلویؒ اور شاہ اسمٰعیل شہید
اسبابِ نکامی
ضمیمہ
منصب تجدید اور امام مہدی کے متعلق چند تصریحات
کشف و الہام کی حقیقت اور چند مجدد ین کے دعاوی
تصوف اور تصور شیخ
ایک بے بنیاد تہمت اور اس کا جواب
المہدی کی علامات اور نظامِ دین میں اس کی حیثیت
مسئلہ مہدی

تجدید واحیائے دین

”اسلام کی اصطلاحی زبان کے جو الفاظ کثرت سے زبان پر آتے ہیں ان میں سے ایک لفظ ”مجدد“بھی ہے۔ اس لفظ کا ایک مجمل مفہوم تو قریب قریب ہر شخص سمجھتا ہے، یعنی یہ کہ جو شخص دین کو از سر نو زندہ اور تازہ کرے وہ مجدد ہے لیکن اس کے تفصیلی مفہوم کی طرف بہت کم ذہن منتقل ہوتے ہیں۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ تجدید دین کی حقیقت کیا ہے، کس نوعیت کے کام کو تجدید سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ، اس کام کے کتنے شعبے ہیں، مکمل تجدید کا اطلاق کس کارنامے پر ہو سکتا ہے اور جزوی تجدید کیا ہوتی ہے؟ اسی ناواقفیت کا نتیجہ ہے کہ لوگ ان مختلف بزرگوں کے کارناموں کی پوری طرح تشخیص نہیں کر سکتے جن کو تاریخ اسلام میں مجدد قرار دیا گیا ہے۔ وہ بس اتنا جانتے ہیں کہ عمر ابن عبد العزیز بھی مجدد، امام غزالی بھی مجدد، ابن تیمیہ بھی مجدد، شیخ احمد سرہندی بھی مجدد اور شاہ ولی اللہ بھی مجدد، مگر ان کو یہ معلوم نہیں کہ کون کس حیثیت سے مجدد ہے اور اس کا تجدیدی کارنامہ کس نوعیت اور کس مرتبہ کا ہے۔ اس ذ ہول اور غفلت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جن ناموں کے ساتھ ”حضرت“، ”امام“، ”حجت الاسلام “، ”قطب العارفین“، ”زبدة السالکین“اور اسی قسم کے الفاظ لگ جاتے ہیں ان کی عقیدت مند ی کا اتنا بو جھ دماغوں پر پڑ جاتا ہے کہ پھر کسی میں یہ طاقت نہیں رہتی کہ آزادی کے ساتھ ان کے کارناموں کا جائزہ لے کر ٹھیک ٹھیک مشخص کر سکے کہ کس نے اس تحریک کے لیے کتنا اور کیسا کام کیا ہے اور اس خدمت میں اس کا حصہ کس قدر ہے۔ عموماً تحقیق کی نپی تلی زبان کے بجاے ان بزرگوں کے کارنامے عقیدت کی شاعرانہ زبان میں بیان کیے جاتے ہیں جن سے پڑھنے والے پر یہ اثر پڑتا ہے اور شاید لکھنے والے کے ذہن میں بھی یہی ہوتا ہے کہ جس کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ فرد کامل تھا اور اس نے جو کچھ بھی کیا وہ ہر حیثیت سے کمال کے آخری مرتبے پر پہنچا ہوا تھا۔ حالانکہ اگر اب ہم کو تحریک اسلامی کی تجدید و احیا کے لیے کوئی کوشش کرنی ہے تو اس قسم کی عقیدت مندی اور اس ابہام و اجمال سے کچھ کام نہ چلے گا۔ ہم کو پوری طرح اس تجدید کے کام کو سمجھنا پڑے گا۔ اور اپنی پچھلی تاریخ کی طرف پلٹ کر دیکھنا ہوگا کہ ان بہت سی صدیوں میں ہمارے مختلف لیڈروں نے کتنا کتنا کام کس کس طرح کیا ہے ، ان کے کارناموں سے ہم کس حد تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اور ان سے کیا کچھ چھوٹ گیا ہے جس کی تلافی پر اب ہمیں متوجہ ہو نا چاہیے۔ “ مولانا مودودیؒ نے اس کتاب کے مندرجہ بالا دیباچے ہی میں اس کتاب کی غرض وغایت بتادی ہے۔ سید مودودیؒ مزید لکھتے ہیں: ”یہ مضمون ایک مستقل کتاب چاہتا ہے۔ مگر کتاب لکھنے کی فرصت کہاں۔ یہی غنیمت ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب کا ذکر خیر چھڑ گیا جس کی وجہ سے اس مضمون کی طرف چند اشارے کرنے کا موقع نکل آیا۔ شاید کہ اِنھیں اشاروں سے کسی اللہ کے بندے کو تاریخ تجدید و احیاے دین کی تدوین کا راستہ مل جائے۔ یہ مقالہ جو اس وقت کتابی شکل میں شائع کیا جا رہا ہے، ابتدا جر یدہ”الفرقان“بریلی کے شاہ ولی اللہ نمبر کے لیے لکھا گیا تھا۔ اس لیے اس میں شاہ صاحب کے تجدیدی کارناموں پر نسبت زیادہ مفصل نگاہ ڈالی گئی ہے اور دوسرے مجد دین کے کام کا ذکر ضمنی طور پر کیا گیا ہے۔ اس مقالہ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ اس میں تمام مجد دین کے کارناموں کا احاطہ مقصود نہیں ہے بلکہ صرف ان بڑے بڑے مجددین کا ذکر کیا گیا ہے جو اسلام کی تاریخ پر اپنا ایک مستقل نشان چھوڑ گئے ہیں۔ نیز یہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ تجدید کا کام بہت لوگوں نے کیا اور ہر زمانہ میں بہت لوگ کرتے ہیں مگر ”مجدد“کا لقب پانے کے مستحق کم ہی ہوتے ہیں۔ “

پی ڈی ایف ڈاؤنلوڈ کریں

تنقیدی کام

پہلے عنوان کے سلسلہ میں شاہ صاحب نے پوری تاریخ اِسلام پر تنقیدی نگاہ ڈالی ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے، شاہ صاحب پہلے شخص ہیں جن کی نظر تاریخ اِسلام اور تاریخ مسلمین کے اصولی فرق اور باریک فرق تک پہنچی اور جس نے تاریخ مسلمین پر تاریخ اِسلام کے نقطہ نظر سے نقد و تبصرہ کرکے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ ان بہت سی صدیوں میں اِسلام قبول کرنے والی اقوام کے درمیان فی الحقیقت اِسلام کا کیا حال رہا ہے۔ یہ ایک ایسا نازک مضمون ہے جس کی پیچیدگیوں میں پہلے بھی لوگ الجھے رہے ہیں اور اب تک الجھے ہوئے ہیں۔ چنانچہ شاہ صاحب کے بعد کوئی ایسا صاحب نظر نہ اٹھا جس کے ذہن میں حقیقی تاریخ اِسلام کا، تاریخ مسلمین سے الگ کوئی واضح تصور ہوتا۔ شاہ صاحب کے کلام میں مختلف مقامات پر اس کے متعلق اشارات موجود ہیں۔ مگر خصوصیت کے ساتھ ازالۃ الخفا کی فصل ششم میں انھوں نے صفحہ ۱۲۲ سے صفحہ ۱۵۸ ({ FR 6724 }) تک مسلسل تاریخ مسلمین پر تبصرہ کیا ہے اور کمال یہ کیا ہے کہ ایک ایک دور کی خصوصیات اور ایک ایک زمانہ کے فتنوں کو بیان کرتے ہوئے آں حضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ان پیشین گوئیوں کو بھی نقل کرتے گئے ہیں جن میں ان حالات کی طرف صریح اشارات پائے جاتے ہیں۔ اس تبصرہ میں قریب قریب ان تمام جاہلی آمیزشوں کی نشان دہی ہو گئی ہے جو مسلمانوں کے عقائد، علوم، اخلاق، تمدن اور سیاست میں ہوتی رہیں۔
پھر شاہ صاحب نے خرابیوں کے اس ہجوم میں کھوج لگا کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان میں بنیادی خرابیاں کون سی ہیں جن سے باقی تمام خرابیوں کا شجرئہ نسب ملتا ہو اور آخر کار دو چیزوں پر انگلی رکھ دی ہے۔ ایک اقتدارِ سیاسی کا خلافت سے بادشاہت کی طرف منتقل ہونا۔ دوسرے روحِ اجتہاد کا مردہ ہو جانا اور تقلید ِ جامد کا دماغوں پر مسلّط ہو جانا۔
پہلی خرابی پر انھوں نے ازالہ میں پوری تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔ خلافت اور بادشاہی کے اصولی و اصطلاحی فرق کو جس قدر واضح صورت میں انھوں نے بیان کیا ہے اور جس طرح احادیث سے اس کی تشریح کی ہے، اس کی مثال ان سے پہلے کے مصنّفین کی تحریروں میں نہیں ملتی۔ اسی طرح اس انقلاب کے نتائج کو بھی جس صراحت کے ساتھ انھوں نے پیش کیا ہے وہ اگلوں کے کلام میں مفقود ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ارکانِ اِسلام کی اقامت میں فتورِ عظیم برپا ہو گیا… حضرت عثمانؓ کے بعد کسی فرماں روا نے حج قائم نہیں کیا بلکہ اپنے نائب ہی مقرر کرکے بھیجتے رہے، حالانکہ اقامت حج خلافت کے لوازم میں سے ہے۔ جس طرح تخت پر بیٹھنا، تاج پہننا اور شاہانِ گذشتہ کی شہ نشین میں بیٹھنا قیصر و کسریٰ کے لیے علامت پادشاہی تھا اسی طرح حج خود اپنی امارت میں قائم کرنا اِسلام میں علامت ِ خلافت ہے۔‘‘({ FR 6725 })
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’پہلے وعظ اور فتوٰی دونوں خلیفہ کی رائے پر موقوف تھے۔ خلیفہ کے بغیر نہ وعظ کہا جا سکتا تھا اور نہ کوئی فتوٰی دینے کا مجاز تھا مگر اس انقلاب کے بعد وعظ اور فتوٰی دونوں اس نگرانی سے آزاد ہو گئے بلکہ بعد میں تو فتوٰی دینے کے لیے جماعت صالحین کے مشورے کی قید بھی نہ رہی۔‘‘({ FR 6726 })
پھر فرماتے ہیں:
’’ان لوگوں کی حکومت مجوسیوں کی حکومت کے مانند ہی ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ نماز پڑھتے اور کلمہ شہادت زبان سے ادا کرتے رہے ہیں۔ ہم اسی تغیر کے دامن میں پیدا ہوئے ہیں، معلوم نہیں آگے چل کر خدا تعالیٰ کیا دکھانا چاہتا ہے۔‘‘({ FR 6727 })
رہی دوسری خرابی تو شاہ صاحب نے ازالہ میں، حجت میں، بدور بازغہ میں، تفہیمات میں، مسویٰ اور مصفی میں اور قریب قریب اپنی ہر تصنیف میں اس پر ماتم کیا ہے۔
ازالہ میں فرماتے ہیں:
’’دولت شام (اموی سلطنت) کے خاتمہ تک کوئی اپنے آپ کو حنفی یا شافعی نہ کہتا تھا، بلکہ سب اپنے اپنے ائمہ اور اساتذہ کے طریقہ پر دلائل شرعی سے استنباط کرتے تھے، دولتِ عراق (عباسی سلطنت) کے زمانہ میں ہر ایک نے اپنا ایک نام معین کیا اور یہ کیفیت ہو گئی کہ جب تک اپنے مذہب کے بڑوں کے نص نہ پاتے کتاب و سنت کی دلیل پر فیصلہ نہ کرتے۔ اس طرح وہ اختلافات جو تاویل کتاب و سنت کے مقتضیات سے ناگزیر طور پر پیدا ہوتے تھے، مستقل بنیادوں پر جم کر رہ گئے۔({ FR 6728 }) پھر جب دولت عرب کا خاتمہ ہو گیا یعنی ترکی اقتدار کا زمانہ آیا اور لوگ مختلف ممالک میں منتشر ہوئے، تو ہر ایک نے جو کچھ اپنے مذہب فقہی سے یاد کیا تھا اسی کو اصل بنا لیا۔ پہلے جو چیز مذہب مستنبط تھی اب وہ سنت مستقرہ بن گئی۔ اب ان کے علم کا مدار اس پر رہ گیا کہ تخریج پر تخریج کریں اور تفریع پر تفریع۔ ‘‘({ FR 6729 })
مصفّٰی میں لکھتے ہیں:
’’ہمارے زمانے کے سادہ لوح اجتہاد سے بالکل برگشتہ ہیں۔ اونٹ کی طرح ناک میں نکیل پڑی ہے۔ اور کچھ نہیں جانتے کہ کدھر جا رہے ہیں۔ ان کا کاروبار ہی دوسرا ہے۔ یہ بے چارے ان امور کی سمجھ بوجھ کے لیے مکلف ہی نہیں ہیں۔ ‘‘ ({ FR 6730 })
حجت کے مبحث ہفتم میں اور انصاف میں شاہ صاحب نے اس مرض کی پوری تاریخ بیان کی ہے اور ان خرابیوں کی نشان دہی کی ہے جو اس کی بدولت پیدا ہوتی ہیں۔
تاریخی تنقید کے بعد شاہ صاحب اپنے زمانہ کی حالت کا جائزہ لیتے ہیں اور ایک ایک کو نام بنام پکار کر اس کے نقائص بیان کرتے ہیں۔ تفہیمات میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’یہ وصی (یعنی خود شاہ صاحب) ایسے زمانہ میں پیدا ہوا ہے جبکہ لوگوں میں تین چیزیں خلط ملط ہو گئی ہیں:
(۱) دلیل بازی اور یہ یونانی علوم کے اختلاط کی بدولت ہے۔ لوگ کلامی مباحث میں مشغول ہو گئے ہیں۔ یہاں تک کہ عقائد میں کوئی گفتگو ایسی نہیں ہوتی جو استدلالی مناظرات سے خالی ہو۔
(۲) وجدان پرستی اور یہ صوفیوں کی مقبولیت اور ان کی حلقہ بگوشی کی وجہ سے ہے جس نے مشرق سے مغرب تک لوگوں کو گھیر رکھا ہے، یہاں تک کہ ان حضرات کے اقوال و احوال لوگوں کے دلوں پر کتاب و سنت اور ہر چیز سے زیادہ تسلّط رکھتے ہیں۔ ان کے رموز و اشارات اس قدر دخل پا گئے ہیں کہ جو شخص ان رموز و اشارات کا انکار کرے یا ان سے خالی ہو وہ نہ مقبول ہوتا ہے، نہ صالحین میں شمار ہوتا ہے۔ منبروں پر کوئی واعظ ایسا نہیں جس کی تقریر اشاراتِ صوفیہ سے پاک ہو اور درس کی مسندوں پر کوئی عالم ایسا نہیں جو ان کے کلام میں اعتقاد اور خوض کا اظہار نہ کرے۔ ورنہ اس کا شمار گدھوں میں ہونے لگتا ہے۔ پھر امرا و روسا وغیرہ کی کوئی مجلس ایسی نہیں جن کے ہاں لطف ِکلام اور بذلہ سنجی اور تفنن کے لیے صوفیہ کے اشعار اور نکات کھلونا بنے ہوئے نہ ہوں۔
(۳) طاعت اور یہ اس بنا پر ہے کہ لوگ ملت اسلامیہ میں داخل ہیں۔
پھر اس زمانہ کی ایک بیماری یہ ہے کہ ہر ایک اپنی رائے پر چلتا ہے اور بگ ٹٹ چلا جا رہا ہے، نہ متشابہات پر جا کر رکتا ہے نہ کسی ایسے امر میں دخل دینے سے باز رہتا ہے جو اس کے علم سے بالاتر ہو۔ احکام کے معانی اور اسرار پر ہر ایک اپنی عقل سے کلام کر رہا ہے اور جو کچھ جس نے سمجھ لیا ہے اس پر دوسروں سے مناظرہ و مباحثہ کر رہا ہے۔ دوسری بیماری یہ ہے کہ فقہ میں حنبلی اور شافعی وغیرہ کے سخت اختلافات پائے جاتے ہیں، ہر ایک اپنے طریقہ میں تعصب برتتا ہے اور دوسروں کے طریقہ پر اعتراض کرتا ہے۔ ہر مذہب میں تخریجات کی کثرت ہے اور حق اس غبار میں چھپ گیا ہے۔‘‘
اسی کتاب میں ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’مَیں ان پیر زادوں سے جو کسی استحقاق کے بغیر باپ دادا کی گدیوں پر بیٹھے ہیں، کہتا ہوں کہ یہ کیا دھڑے بندیاں تم نے کر رکھی ہیں؟ کیوں تم میں سے ہر ایک اپنے طریقہ پر چل رہا ہے اور کیوں اس طریقہ کو سب نے چھوڑ رکھا ہے جسے اللّٰہ تعالیٰ نے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر اتارا تھا؟ تم میں سے ہر ایک امام بن بیٹھا ہے، اپنی طرف لوگوں کو بلا رہا ہے اور اپنے آپ کو ہادی و مہدی سمجھتا ہے، حالانکہ وہ ضال و مضل ہے ہم ہرگز ان لوگوں سے راضی نہیں جو دُنیا کے فوائد کی خاطر لوگوں سے بیعت لیتے ہیں، یا اس لیے علم حاصل کرتے ہیں کہ اغراضِ دنیوی حاصل کریں، یا لوگوں کو اپنی طرف دعوت دیتے ہیں اور اپنی خواہشاتِ نفس کی اطاعت ان سے کراتے ہیں۔ یہ سب راہ زن ہیں، دجال ہیں، کذاب ہیں، خود بھی دھوکے میں ہیں اور دوسروں کو بھی دھوکا دے رہے ہیں…
مَیں اُن طالبانِ علم سے کہتا ہوں جو اپنے آپ کو علما کہتے ہیں کہ بے وقوفو! تم یونانیوں کے علوم اور صرف و نحو و معانی میں پھنس گئے اور سمجھے کہ علم اس کا نام ہے، حالانکہ علم تو کتاب اللّٰہ کی آیت محکمہ ہے، یا پھر وہ سنت ہے جو رسولؐ سے ثابت ہو… تم پچھلے فقہا کے استحسانات اور تفریعات میں ڈوب گئے، کیا تمھیں خبر نہیں کہ حکم صرف وہ ہے جو اللّٰہ اور اس کے رسول نے فرمایا ہو؟ تم میں سے اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب کسی کو نبی کی کوئی حدیث پہنچتی ہے تو وہ اس پر عمل نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ میرا عمل تو فلاں کے مذہب پر ہے نہ کہ حدیث پر۔ پھر وہ حیلہ یہ پیش کرتا ہے کہ ’’صاحب! حدیث کا فہم اور اس کے مطابق فیصلہ تو کاملین و ماہرین کا کام ہے اور یہ حدیث ائمہ سلف سے چھپی تو رہی نہ ہو گی، پھر کوئی وجہ تو ہو گی کہ انھوں نے اسے ترک کر دیا، جان رکھو یہ ہرگز دین کا طریقہ نہیں ہے۔ اگر تم اپنے نبیؐ پر ایمان لائے ہو تو اس کا اتباع کرو خواہ کسی مذہب کے موافق ہو یا مخالف…
مَیں ان متقشف واعظوں، عابدوں اور خانقاہ نشینوں سے کہتا ہوں کہ اے زہد کے مدعیو!تم ہر وادی میں بھٹک نکلے اور ہر رطب و یا بس کو لے بیٹھے۔ تم نے لوگوں کو موضوعات اور اباطیل کی طرف بلایا۔ تم نے خلقِ خدا پر زِندگی کا دائرہ تنگ کر دیا، حالانکہ تم فراخی کے لیے مامور تھے نہ کہ تنگی کے لیے۔ تم نے مغلوب الحال عشاق کی باتوں کو مدارالیہ بنا لیا ہے حالانکہ یہ چیزیں پھیلانے کی نہیں لپیٹ کر رکھ دینے کی ہیں…
مَیں امرا سے کہتا ہوں کہ تمھیں خدا کا خوف نہیں آتا؟ تم فانی لذتوں کی طلب میں مستغرق ہو گئے اور رعیت کو چھوڑ دیا کہ ایک دوسرے کو کھا جائے۔ علانیہ شرابیں پی جا رہی ہیں اور تم نہیں روکتے۔ زنا کاری، شراب خواری اور قمار بازی کے اڈے برسر عام بن گئے ہیں اور تم ان کا انسداد نہیں کرتے۔ اس عظیم الشان ملک میں مدت ہائے دراز سے کوئی حد شرعی نہیں لگائی گئی۔ جسے تم ضعیف پاتے ہو اسے کھا جاتے ہو اور جسے قوی پاتے ہو اسے چھوڑ دیتے ہو۔ کھانوں کی لذت، عورتوں کے نازوانداز، کپڑوں اور مکانوں کی لطافت، بس یہ چیزیں ہیں جن میں تم ڈوب گئے ہو، کبھی خدا کا خیال تمھیں نہیں آتا…
مَیں ان فوجی آدمیوں سے کہتا ہوں کہ تمھیں اللّٰہ نے جہاد کے لیے، اعلائے کلمہ حق کے لیے، شرک و اہل شرک کا زور توڑنے کے لیے فوجی بنایا تھا۔ اسے چھوڑ کر تم نے گھوڑ سواری اور ہتھیار بندی کو پیشہ بنا لیا۔ اب جہاد کی نیت اور مقصد سے تمھارے دل خالی ہیں، پیسا کمانے کے لیے سپاہی گری کا پیشہ کرتے ہو، بھنگ اور شراب پیتے ہو، ڈاڑھیاں منڈاتے ہو اور مونچھیں بڑھاتے ہو، بندگانِ خدا پر ظلم ڈھاتے ہو اور تمھیں کبھی اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ حرام کی روٹی کما رہے ہو یا حلال کی۔ خدا کی قسم تمھیں ایک روز دُنیا سے جانا ہے پھر اللّٰہ تمھیں بتائے گا کہ کیا کرکے آئے ہو…
مَیں ان اہلِ حرفہ اور عوام سے کہتا ہوں کہ تم میں سے امانت و دیانت رخصت ہو گئی ہے۔ اپنے رب کی عبادت سے تم غافل ہو گئے ہو اور اللّٰہ کے ساتھ شرک کرنے لگے ہو۔ تم غیر اللّٰہ کے لیے قربانیاں کرتے ہو اور مدار صاحب اور سالار صاحب کی قبروں کا حج کرتے ہو۔ یہ تمھارے بدترین افعال ہیں۔ تم میں سے جو کوئی شخص خوش حال ہو جاتا ہے وہ اپنے لباس اور کھانے پر اتنا خرچ کرتا ہے کہ اس کی آمدنی اس کے لیے کافی نہیں ہوتی اور اہل و عیال کی حق تلفی کرنی پڑتی ہے، یا پھر وہ شراب نوشی اور کرایہ کی عورتوں میں اپنی معاش اور معاد دونوں کو ضائع کرتا ہے…
پھر مَیں مسلمانوں کی تمام جماعتوں کو عام خطاب کرکے کہتا ہوں۔ کہ اے بنی آدم! تم نے اپنے اخلاق کھو دیے، تم پر تنگ دلی چھا گئی اور شیطان تمھارا محافظ بن گیا۔ عورتیں مردوں پر حاوی ہو گئی ہیں اور مردوں نے عورتوں کو ذلیل بنا رکھا ہے اور حلال تمھارے لیے بدمزہ بن گیا ہے…
اے بنی آدم! تم نے ایسی فاسد رسمیں اختیار کرلی ہیں جن سے دین متغیر ہو گیا ہے۔ مثلاً روزِ عاشورا کو تم جمع ہو کر باطل حرکات کرتے ہو۔ ایک جماعت نے اس دن کو ماتم کا دن بنا رکھا ہے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ سب دن اللّٰہ کے ہیں اور سارے حوادث اللّٰہ کی مشیت سے ہوتے ہیں؟ اگر حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ اس روز شہید کیے گئے تو اور کون سا دن ہے جس میں کسی محبوبِ خدا کی موت واقع نہ ہوئی ہو؟ کچھ لوگوں نے اس دن کو کھیل تماشوں کا دن بنا رکھا ہے۔ پھر تم شب برات میں جاہل قوموں کی طرح کھیل تماشے کرتے ہو اور تم میں ایک گروہ کا یہ خیال ہے کہ اس روز مُردوں کو کثرت سے کھانا بھیجنا چاہیے۔ اگر تم سچے ہو تو اپنے اس خیال اور ان حرکات کے لیے کوئی دلیل لائو۔ پھر تم نے ایسی رسمیں بنا رکھی ہیں جن سے تمھاری زِندگی تنگ ہو رہی ہے۔ مثلاً شادیوں میں فضول خرچی، طلاق کو ممنوع بنا لینا، بیوہ عورت کو بٹھائے رکھنا۔ اس قسم کی رسموں میں تم اپنے مال اور اپنی زِندگیوں کو خراب کر رہے ہو اور ہدایاتِ صالحہ کو تم نے چھوڑ دیا ہے، حالانکہ بہتر یہ تھا کہ ان رسموں کو چھوڑ کر اس طریق پر چلتے جس میں سہولت تھی نہ کہ تنگی۔ پھر تم نے موت اور غمی کو عید بنا رکھا ہے، گویا تم پر کسی نے فرض کر دیا ہے کہ جب کوئی مرے تو اس کے اقربا خوب کھانے کھلائیں۔ تم نمازوں سے غافل ہو، کوئی اپنے کاروبار میں اتنا مشغول ہوتا ہے کہ نماز کے لیے وقت نہیں پاتا اور کوئی اپنی تفریحوں اور خوش گپیوں میں اتنا منہمک ہوتا ہے کہ نماز فراموش ہو جاتی ہے۔ تم زکوٰۃ سے بھی غافل ہو، تم میں کوئی مال دار ایسا نہیں جس کے ساتھ بہت سے کھانے والے لگے ہوئے نہ ہوں ‘ وہ ان کو کھلاتا اور پہناتا ہے مگر زکوٰۃ اور عبادت کی نیت نہیں کرتا۔ تم رمضان کے روزے بھی ضائع کرتے ہو اور اس کے لیے طرح طرح کے بہانے بناتے ہو۔ تم لوگ سخت بے تدبیر ہو گئے ہو۔ تم نے اپنی بسر اوقات کا انحصار سلاطین کے وظائف و مناصب پر کر رکھا ہے اور جب تمھارا بار سنبھالنے کے لیے سلاطین کے خزانے کافی نہیں ہوتے تو وہ رعیت کو تنگ کرنے لگتے ہیں…‘‘({ FR 6731 })
ایک اور جگہ تفہیم میں فرماتے ہیں:
’’جو لوگ حاجتیں طلب کرنے کے لیے اجمیر یا سالار مسعود کی قبریا ایسے ہی دوسرے مقامات پر جاتے ہیں وہ اتنا بڑا گناہ کرتے ہیں کہ قتل اور زنا کا گناہ اس سے کم تر ہے۔ آخر اس میں اور خود ساختہ معبودوں کی پرستش میں فرق کیا ہے؟ جو لوگ لات اور عُزّٰی سے حاجتیں طلب کرتے تھے اُن کا فعل ان لوگوں کے فعل سے آخر کس طرح مختلف تھا؟ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم اُن کے برعکس ان لوگوں کو صاف الفاظ میں کافر کہنے سے احتراز کرتے ہیں کیوں کہ خاص ان کے معاملہ میں شارع کی نص موجود نہیں ہے مگر اصولاً ہر وہ شخص جو کسی مردے کو زندہ ٹھہرا کر اس سے حاجتیں طلب کرتا ہے اس کا دل گناہ میں مبتلا ہے۔ ‘‘ ({ FR 6732 })
یہ اقتباسات بہت طویل ہو گئے ہیں، مگر تفہیمات جلد دوم کے چند فقرے اور تقاضا کر رہے ہیں کہ انھیں بھی اس سلسلہ میں ناظرین تک پہنچا دیا جائے۔ فرماتے ہیں:
’’نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ ’’تم بھی آخرکار اپنے سے پہلے کی اُمتوں کے طریقے اختیار کر لو گے۔ اور جہاں جہاں انھوں نے قدم رکھا ہے وہاں تم بھی رکھو گے حتّٰی کہ اگز وہ کسی گوہ کے بل میں گھسے ہیں تو تم بھی ان کے پیچھے جائو گے۔ صحابہؓ نے پوچھا یا رسول اللّٰہ پہلی اُمتوں سے آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں، فرمایا ’’اور کون؟‘‘ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔
’’سچ فرمایا اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے وہ ضعیف الایمان مسلمان دیکھے ہیں جنھوں نے صلحا کو اَرْبَابٌ مِّنْ دُ وْنِ اللّٰہ بنا لیا ہے اور یہود و نصاریٰ کی طرح اپنے اولیا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ہے، ہم نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو کلامِ شارع میں تحریف کرتے ہیں اور نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی طرف یہ قول منسوب کرتے ہیں کہ نیک لوگ اللّٰہ کے لیے ہیں اور گناہ گار میرے لیے۔ یہ اسی قسم کی بات ہے جیسی کہ یہودی کہتے ہیں کہ لَنْ تَمَسَّـنَا النَّارُ اِلَّآ اَيَّامًا مَّعْدُوْدَۃً۝۰ۭ البقرہ 80:2 (ہم دوزخ میں نہ جائیں گے اور گئے بھی تو بس چند روز کے لیے) سچ پوچھو تو آج ہر گروہ میں دین کی تحریف پھیلی ہوئی ہے۔ صوفیہ کو دیکھو تو ان میں ایسے اقوال زبان زد ہیں جو کتاب و سنت سے مطابقت نہیں رکھتے خصوصاً مسئلہ توحید میں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شرع کی انھیں بالکل پروا نہیں ہے۔ فقہا کی فقہ کو دیکھو تو اس میں اکثر وہ باتیں ملتی ہیں جن کے ماخذ کا پتا ہی نہیں۔ مثلاً دہ دردہ کا مسئلہ ({ FR 6733 })اور کنوئوں کی طہارت کا مسئلہ ({ FR 6734 }) رہے اصحابِ معقول اور شعرا اور اصحابِ ثروت اور عوام تو ان کی تحریفات کا ذکر کہاں تک کیا جائے۔‘‘({ FR 6735 })
ان اقتباسات سے ایک دھندلا سا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شاہ صاحب نے مسلمانوں کے ماضی اور حال کا کس قدر تفصیلی جائزہ لیا ہے اور کس قدر جامعیت کے ساتھ ان پر تنقید کی ہے۔
اس قسم کی تنقید کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سوسائٹی میں جتنے صالح عناصر موجود ہوتے ہیں، جن کے ضمیر و ایمان میں زِندگی اور جن کے قلب میں بھلے اور بُرے کی تمیز ہوتی ہے، انھیں حالات کی خرابی کا احساس سخت مضطرب کر دیتا ہے۔ ان کی اسلامی حِس اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ اپنے گرد و پیش کی زِندگی میں جاہلیّت کا ہر اثر انھیں کھٹکنے لگتا ہے۔ ان کی قوتِ امتیاز اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ زِندگی کے ہر پہلو میں اِسلام اور جاہلیّت کی آمیزشوں کا تجزیہ کرنے لگتے ہیں اور ان کی قوتِ ایمانی اس قدر بیدار ہو جاتی ہے کہ خارزارِ جاہلیّت کی ہر کھٹک انھیں اصلاح کے لیے بے چین کر دیتی ہے۔ اس کے بعد مجدد کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ ان کے سامنے تعمیر نو کا ایک نقشہ واضح صورت میں پیش کرے تاکہ حالت موجود کو جس حالت میں بدلنا مطلوب ہے اس پر وہ اپنی نظر جما سکیں اور تمام سعی و عمل اسی سمت میں مرکوز کر دیں۔ یہ تعمیری کام بھی شاہ صاحبؒ نے اسی خوبی اور جامعیت کے ساتھ انجام دیا جو ان کے تنقیدی کام میں آپ دیکھ چکے ہیں۔

شیئر کریں