اس نفاق کے بعد دوسری چیز جس کو ہم پرانے اور نئے مسلمان کی زندگی سے خارج کرنا چاہتے ہیں‘ اور جس کے خارج کرنے کی ہر مدعی ایمان کو دعوت دیتے ہیں‘ وہ تناقض ہے۔ تناقض سے ہماری مراد یہ ہے کہ آدمی جس چیز کا زبان سے دعویٰ کرے‘ عمل سے اس کی خلاف ورزی کرے۔ نیز یہ بھی تناقض ہے کہ آدمی کا اپنا عمل ایک معاملے میں کچھ ہو اور دوسرے معاملے میں کچھ۔ اس لیے اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے اپنی پوری زندگی کو خدا کی بندگی میں دے دیا ہے تو اسے جان بوجھ کر کوئی حرکت بھی ایسی نہ کرنی چاہئے جو بندگی رب کی ضد ہو اور اگر بشری کمزوری کی بنا پر ایسی کوئی حرکت اس سے سرزد ہو جائے تو اسے اپنی غلطی کا اعتراف کرکے پھر بند گئی رب کی طرف پلٹنا چاہئے۔ ایمان کے مقتضیات میں سے یہ بھی ایک اہم مقتضا ہے کہ پوری زندگی ضبغتہ اللہ میں رنگی ہوئی ہو۔ پچرنگی اور چورنگی تو درکنار دو رنگی زندگی بھی دعوائے ایمان کے ساتھ میل نہیں کھاتی۔ ہمارے نزدیک یہ بات بہروپئے پن سے کم نہیں ہے کہ ہم ایک طرف تو خدا اور آخرت اور وحی اور نبوت اور شریعت کو ماننے کا دعویٰ کریں اور دوسری طرف دنیا کی طلب میں لپکے ہوئے ان درس گاہوں کی طرف خود دوڑیں‘ دوسروں کو ان کا شوق دلائیں اور آپ خود اپنے اہتمام میں ایسی درس گاہیں چلائیں جن میں انسان کو خدا سے دور کرنے والی‘ آخرت کو بھلا دینے والی‘ مادہ پرستی میں غرق کر دینے والی تعلیم دی جاتی ہے۔ ایک طرف ہم خدا کی شریعت پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کریں‘ اور دوسری طرف ان عدالتوں کے وکیل اور جج بنیں اور انہی عدالتوں کے فیصلوں پر حق اور غیر حق کے فیصلہ کا دارومدار رکھیں جو شریعت الٰہی کو ایوان عدالت سے بے دخل کرکے شریعت غیر الٰہی کی بنیاد پر قائم کی گئی ہوں۔ ایک طرف ہم مسجد میں جاجا کر نمازیں پڑھیں اور دوسری طرف مسجد سے باہر نکلتے ہی اپنے گھر کی زندگی میں اپنے لین دین میں‘ اپنی معاش کی فراہمی میں‘ اپنی شادی بیاہ میں‘ اپنی میراثوں کی تقسیم میں‘ اپنی سیاسی تحریکوں میں اور اپنے سارے دنیوی معاملات میں خدا اور اس کی شریعت کو بھول کر‘ کہیں اپنے نفس کے قانون کی‘ کہیں اپنی برادری کے رواج کی‘ کہیں اپنی سوسائٹی کے طور طریقوں کی‘ اور کہیں خدا سے پھرے ہوئے حکمرانوں کے قوانین کی پیروی میں کام کرنے لگیں‘ ایک طرف ہم اپنے خدا کو بار بار یقین دلائیں کہ ہم تیرے ہی بندے ہیں اور تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور دوسری طرف ہر اس بت کی پوجا کریں جس کے ساتھ ہمارے مفاد‘ ہماری دلچسپیاں اور ہماری محبتیں اور آسائشیں کچھ بھی وابستگی رکھتی ہوں۔ یہ اور ایسے ہی بے شمار متناقضات جو آج مسلمانوں کی زندگی میں پائے جاتے ہیں جن کے موجود ہونے سے کوئی ایسا شخص جو بینائی رکھتا ہو‘ انکار نہیں کرسکتا۔ ہمارے نزدیک وہ اصلی گھن ہیں‘ جو امت مسلمہ کی سیرت و اخلاق کو اور اس کے دین و ایمان کو اندر ہی اندر کھائے جاتے ہیں‘ اور آج زندگی کے ہر پہلو میں مسلمانوں سے جن کمزوریوں کا اظہار ہو رہا ہے‘ ان کی اصل جڑ یہی تناقضات ہیں‘ ایک مدت تک مسلمانوں کو یہ اطمینان دلایا جاتا رہا ہے کہ تم شہادت توحید و رسالت زبان سے ادا کرنے اور روزہ و نماز وغیرہ چند مذہبی اعمال کرلینے کے بعد خواہ کتنے ہی غیر دینی اور غیر ایمانی طرز عمل اختیار کر جائو‘ بہرحال نہ تمہارے اسلام پر کوئی آنچ آسکتی ہے اور نہ تمہاری نجات کوکوئی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے‘ حتیٰ کہ اس ڈھیل (Allowance)کی حدود اس حد تک بڑھیں کہ نماز روزہ بھی مسلمان ہونے کے لیے شرط نہ رہا اور مسلمانوں میں عام طور پر یہ تخیل پیدا کر دیا گیا کہ ایک طرف ایمان اور اسلام کا اقرار ہو‘ اور دوسری طرف ساری زندگی اس کی ضد ہو‘ تب بھی کچھ نہیں بگڑتا۔ لن تمسنا النار الا ایاما معدودات۔اسی چیز کا نتیجہ آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اسلام کے نام کے ساتھ ہر فسق‘ ہر کفر‘ ہر معصیت و نافرمانی اور ہر ظلم و سرکشی کا جوڑ آسانی سے لگ جاتا ہے اور مسلمان مشکل ہی سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ جن راہوں میں وہ اپنے اوقات‘ اپنی محنتیں‘ اپنے مال‘ اپنی قوتیں اور اپنی قابلیتیں اور اپنی جانیں کھپا رہے ہیں اور جن مقاصد کے پیچھے ان کی انفرادی اور اجتماعی کوششیں صرف ہو رہی ہیں وہ اکثر ان کے ایمان کی ضد ہیں‘ جس کا وہ دعویٰ رکھتے ہیں۔ یہ صورت حال جب تک جاری رہے گی‘ اسلام کے دائرے میں نو مسلموں کا داخلہ بھی کوئی مفید نتیجہ پیدا نہ کرسکے گا کیونکہ جو منتشر افراد اس کان نمک میں آتے جائیں گے وہ اسی طرح نمک بنتے چلے جائیں گے۔ پس ہماری دعوت کا ایک لازمی عنصر یہ ہے کہ ہم ہر مدعی ایمان کی زندگی کو ان تناقضات سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہر مومن سے یہ ہے کہ وہ حنیف ہو‘ یکسو ہو۔ ایک رنگ مومن و مسلم ہو۔ ہر اس چیز سے کٹ جائے‘ اور نہ کٹ سکتا ہو تو پیہم کٹنے کی جدوجہد کرتا رہے‘ جو ایمان کی ضد اور مسلمانہ طریق زندگی کے منافی ہو۔ اور خوب اچھی طرح مقتضیات ایمان میں سے ایک ایک تقاضے کو سمجھے اور اسے پورا کرنے کی پیہم سعی کرتا رہے۔