Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
مقدمہ
مسئلہ جبر و قدر کی حقیقت
اختیار و اضطرار کا ابتدائی اثر
مسئلہ جبر و قدر کا نقطۂ آغاز
مابعد الطبیعی نقطۂ نظر
فلسفے کی ناکامی
طبیعی نقطۂ نظر
سائنس کی ناکامی
اخلاقی نقطۂ نظر
اخلاقیات کی ناکامی
دینیاتی نقطۂ نظر
صحیح اسلامی مسلک
متکلمین اسلام کے مذاہب
مذہب قدر
قرآن مجید سے قدریہ کا استدلال
مذہب جبر
قرآنِ مجید سے جبریہ کا استدلال
متکلمین کی ناکامی
تحقیق مسئلہ
امور ماورائے طبیعت کے بیان سے قرآن کا اصل مقصد
مسئلہ قضا و قدر کے بیان کا منشا
عقیدۂ تقدیر کا فائدہ عملی زندگی میں!
تناقض کی تحقیق
حقیقت کی پردہ کشائی
مخلوقات میں انسان کی امتیازی حیثیت
ہدایت و ضلالت
عدل اور جزا و سزا
جبرو قدر

مسئلہ جبرو قدر

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

تناقض کی تحقیق

یہ مقدمہ ذہن نشین کر لینے کے بعد اب اس سوال کی طرف آیئے کہ قرآنِ مجید خاص تقدیر کے مسئلے پر بحث کیے بغیر جو مختلف اشارات ضمناً دوسرے مباحث کے سلسلے میں اس کی جانب کرتا ہے آیا ان میں حقیقتاً کوئی تناقض ہے بھی یا نہیں؟
اگر کسی شے کو مختلف علتوں کی جانب منسوب کیا جائے تو اس پر تناقض کا حکم صرف اس صورت میں لگایا جا سکتا ہے جب کہ اس کی صرف ایک ہی علّت ہو، لیکن اس کی متعدد علتیںہوں تو ایسی صورت میں اس کو کبھی ایک علت کی جانب اور کبھی دوسری علت کی جانب نسبت دینے میں کوئی تناقض نہ ہو گا۔ مثلاً اگر ہم کبھی یہ کہیں کہ کاغذ کو پانی نے ترکیا اور کبھی یہ کہ اسے آگ نے ترکیا اور کبھی یہ کہ اسے مٹی نے ترکیا تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ تم نے متناقص باتیں کہی ہیں کیونکہ کاغذ کی تری ایک ہی علت کی طرف منسوب ہو سکتی ہے لیکن اگر ہم کبھی یہ کہیں کہ ملک کو بادشاہ نے فتح کیا اور کبھی یہ کہ ملک کو سپہ سالار نے فتح کیا، اور کبھی یہ کہ اسے فوج نے فتح کیا اور کبھی یہ کہ اسے سلطنت نے فتح کیا اور کبھی اس فتح کو فرداً فرداً فوج کے ہر سپاہی کی طرف منسوب کریں، تو ان مختلف اقوال پر تناقض کا حکم نہیں لگایا جا سکتا اس لیے کہ فتح کا یہ واقعہ مجموعی طور پر اُن سب کی طرف بھی منسوب ہو سکتا ہے اور ایک ایک وجہ سے ان علتوں میں سے ہر علت کی طرف بھی۔
پھر اگر شے میں متعدد علتوں کی تاثیرات اس طرح غلط ملط ہوں کہ مخاطب کی عقل کسی طور سے اس کے اندر ہر علت کی تاثیر کو جدا جدا کر کے ہر ایک کا حصہ الگ الگ متعین نہ کر سکتی ہو، اور نہ ایسے کسی تجزیہ و تحلیل اور اس طرح کے کسی حساب کو سمجھ سکتی ہو، تو اس صورت میں متکلم کے لیے صحیح انداز بیان یہی ہو سکتا ہے کہ وہ اجمال کے طور پر اس کو ایک ایک علت کی طرف منسوب کرے اور مخاطب اگر کسی غلط فہمی کی بنا پر اس شے کو صرف ایک ہی علت کی جانب نسبت دے رہا ہو تو اس کی تردید کر دے۔ مثال کے طور پر اسی فتح کے واقعہ کو لیجیے۔ اس میں بادشاہ، سپہ سالار، فوج، سلطنت اور فرداً فرداً ہر سپاہی کی قوتیں شریک ہیں، مگر وہ اس طرح باہم ملی جلی ہیں کہ ہم کسی تجزیہ و تحلیل اور کسی حساب سے یہ معلوم نہیں کر سکتے کہ اس واقعہ کے اندر ہر ایک کا حصہ کس قدر ہے۔ اس لیے زیادہ صحیح یہ ہو گا کہ اس واقعہ کو ان میں سے ہر ایک کی طرف برسبیل اجمال نسبت دی جائے اور اگر کوئی شخص ان میں سے محض کسی ایک کی طرف اس کو حصر و تعیین کے طور پر منسوب کر رہا ہو تو کہہ دیا جائے کہ اس کا قول غلط ہے۔
یہی حال انسان کے افعال کا ہے۔ ہر فعل جو انسان سے سرزد ہوتا ہے اس میں متعدد اسباب شامل ہوتے ہیں اور اس کے ظہور و صدور میں ہر سب کا کچھ نہ کچھ حصہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر میں اس وقت کچھ لکھ رہا ہوں۔ میرے اس فعل کتابت کا تجزیہ کیجیے تو اس میں اسباب کا ایک پورا سلسلہ آپ کو نظر آئے گا۔ مثلاً لکھنے کے لیے میرا اختیار و ارادہ میرے اندر جو بے شمار ذہنی اور جسمانی قوتیں موجود ہیں ان سب کا اس ارادے کے تحت کام کرنا اور خارجی قوتوں کا جو بے حد و حساب ہیں اور جن سے بہت سی قوتیں میرے علم میں بھی نہیں ہیں۔ میری مساعدت کرنا۔
پھر ان اسباب کی الگ الگ تحلیل کیجیے۔ یہ بے شمار خارجی قوتیں جو اس وقت اس فعل میں میری مساعدت کر رہی ہیں ان میں سے کسی کو بھی نہ میں نے بنایا ہے، نہ فراہم کیا ہے، نہ میں ان پر اتنی قدرت رکھتا ہوں کہ انھیں اپنی مساعدت پر مجبور کر سکوں، وہ خدا ہی ہے جس نے ان کو اس طور پر بنایا اور اس طرح فراہم کر دیا ہے کہ جب میں لکھنے کا ارادہ کرتا ہوں تو یہ ساری قوتیں میری مساعدت کرنے لگتی ہیں اور اگر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ میری مساعدت نہ کریں تو میں لکھ نہیں سکتا۔
اسی طرح جب میں خود اپنے اوپر نگاہ ڈالتا ہوں تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ میرا موجود اور زندہ ہونا، میرا حسن تقویم پر ہونا، میرے جسم کے ان اعضا کا جو کتابت کے فعل میں حصہ لیتے ہیں صحیح و سلامت ہونا، میرے اندر اُن طبیعی قوتوں کا موجود ہونا جن سے میں اس فعل میں کام کر لیتا ہوں اور میرے دماغ میں حافظہ، تفکر علم اور دوسری بہت سی چیزوںکا پایا جانا، ان میں سے کوئی شے بھی نہ میری کاری گری کا نتیجہ ہے، نہ میرے اختیار میں ہے ان سب کو بھی اسی خدا نے اس طور پر بنایا ہے کہ جب میں لکھنے کا ارادہ کرتاہوں تو یہ سب چیزیں میرا ساتھ دیتی ہیں اور اگر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی شے میرا ساتھ نہ دے تو میں کتابت میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔
رہا میرا اختیار و ارادہ تو اس کی حقیقت بھی میں نہیں جانتا۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ پہلے کچھ خارجی اسباب اور کچھ باطنی اسباب سے میرے اندر لکھنے کی خواہش پیداہوتی ہے۔ پھر میں غور کرتا ہوں کہ لکھوں یا نہ لکھوں۔ پھر دونوں پہلوئوں کے درمیان موازنہ کرنے کے بعد میں لکھنے کے پہلو کو اختیار کرتا ہوں اور جب میرا میلان فعل کی جانب قوی ہوتا ہے تو میں فعل کا ارادہ کر کے اپنے اعضا کو اس کے لیے حرکت دیتا ہوں۔ اس خواہش سے لے کر اقدامِ فعل تک جتنی چیزیں ہیں ان میں سے کسی چیز کا بھی میں خالق نہیں ہوں، بلکہ مجھے اب تک یہ بھی پوری طرح معلوم نہیں ہو سکا کہ خواہش اور اقدام فعل کے درمیان کتنی باطنی قوتیں کام کرتی ہیں اور اس کام میں ان کا کتنا حصہ ہے۔ مگر یہ بات وجدانی طور پر اپنے اندر پاتا ہوں کہ خواہش اور اقدام فعل کے درمیان کوئی مقام ایسا ضرور ہے جہاں میں فعل اور ترک فعل میں سے کسی ایک چیز کو آزادانہ اختیار کرتا ہوں اور جب میں آزادی کے ساتھ کسی ایک پہلو کو اختیار کر لیتا ہوں تو مجھے یہ قدرت اپنے اندر محسوس ہوتی ہے کہ جس پہلو کو میں نے اختیار کیا ہے اس کے لحاظ سے اپنے وسائل داخلی اور اسباب خارجی کو استعمال کروں۔ میں اپنے اس اختیار اور آزادیِ ارادہ کو کسی دلیل سے ثابت نہیں کر سکتا۔ مگر کوئی دلیل میرے اور کسی انسان کے ذہن میں اس وجدانی احساس کو دور نہیں کر سکتی حتیٰ کہ جو شخص انتہا درجے کا جبریہ ہے اس کا وجدان بھی اس احساس سے خالی نہیں ہے، خواہ وہ اپنے فلسفیانہ مسلک کی خاطر کتنی ہی شدت کے ساتھ اس کا انکار کرتا ہو۔
اس تقریر سے معلوم ہوا کہ فعل کتابت کے صدور میں جتنے اسباب و علل کام کرتے ہیں ان کو تین جدا جدا سلسلوں پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
-1 وہ خارجی اور داخلی اسباب جن کا فراہم ہونا کتابت کا ارادہ کرنے سے پہلے ضروری ہے۔
-2میرا کتابت کو اختیار کر کے اس کا ارادہ کرنا۔
-3وہ خارجی اور داخلی اسباب جن کی مساعدت کے بغیر لکھنے کے فعل کا صادر ہونا ممکن نہیں ہے۔
ان تینوں سلسلوں میں سے پہلے اور تیسرے سلسلے میں جتنے اسباب ہیں ان کے متعلق تو اوپر کہا جا چکا ہے کہ ان کو خدا نے فراہم کیا اور سازگار بنایا ہے اور ان میں سے کسی پر بھی میری حکومت نہیں ہے۔ اس لیے ان کے اعتبار سے میرا فعل کتابت خدا ہی کی طرف منسوب ہو گا جس کی ’’توفیق‘‘ اس کام میں میرے شامل حال ہوئی ہے۔ رہی بیچ کی کڑی تو وہ ایک لحاظ سے میری طرف منسوب ہو گی کیونکہ وہاں میں نے ایک طرح کا آزادانہ اختیار و ارادہ استعمال کیا ہے اور ایک پہلو سے وہ خدا کی طرف منسوب ہو گی جس نے اپنی مقرر کردہ حدود کے اندر مجھ میں یہ قوت پیدا کی کہ ارادہ کروں اور آزادی کے ساتھ اپنا اختیار استعمال کروں۔
یہ تو تھا مجردفعل کا حال جو اپنی حقیقت میں بجز ایک حرکت کے اور کچھ نہیںہے، لیکن انسانی افعال بعض اضافی اور اعتباری حیثیتوں سے اپنے اندر دو پہلو رکھتے ہیں۔ ایک خیر کا پہلو اور دوسرا شر کا پہلو۔ مجرد فعل پر نہ خیر کا حکم لگایا جا سکتا ہے اور نہ شر کا۔ البتہ انسان کی نیت اس کو شر بھی بنا سکتی ہے اور خیر بھی (اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ)مثال کے طور پر میں راستے میں ایک اشرفی پڑی ہوئی دیکھتا ہوں ور اسے اٹھا لیتا ہوں۔ میرا اس کو اٹھا لینا محض ایک حرکت ہے، جو نیک و بد دونوں حیثیتوں سے خالی ہے، لیکن اگر اس اٹھا لینے کے فعل میں میری نیت یہ ہے کہ میں دوسرے کے مال سے بلا کسی حق کے خود فائدہ اٹھائوں تو یہ شر ہے اوراگر میری نیت یہ ہے کہ اس کے مالک کو تلاش کر کے اسے واپس دے دوں تو یہ خیر ہے۔ صورت اوّل میں میری نیت کے ساتھ ایک اور قوت کی تحریک بھی شامل ہو گی جس کو شیطان کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور میرا یہ فعل تین علتوں کی طرف منسوب ہو گا۔ ایک خدا، دوسرا شیطان، تیسرا خود میں۔ صورت دوم میں اس فعل کی نسبت دو علتوں کی جانب ہو گی۔ ایک خدا دوسرا میں۔
اس سے معلوم ہوا کہ ہم ہر انسانی فعل کو دو یا تین علتوں کی طرف منسوب کر سکتے ہیں مگر یہ کسی طرح ہماری سمجھ میں نہیں آ سکتا کہ فعل میں ان علتوں کی تاثیر کس کس مقدار میں ہے۔ خصوصاً یہ حساب اس حیثیت سے اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے کہ ان تاثیرات کا تناسب تمام انسانوں کے افعال میں یکساں نہیں ہے بلکہ ہر انسان کے فعل میں جداگانہ ہے، اس لیے کہ ہر انسان کے اندر اس کے آزادانہ اختیار اور اس کی مجبوریوں کی مقداریں مختلف ہوتی ہیں۔ کوئی مبداء فیاض سے زیادہ زبردست قوت تمیز، زیادہ صحیح قوتِ فیصلہ، ملکوتیت کی جانب زیادہ قوی میلان اور شیطانی وساوس کا مقابلہ کرنے کی زیادہ طاقت لے کر آیا ہے اور کوئی کم اور اسی کمی و زیادتی پر جس کا تناسب ہر شخص کے اندر مختلف ہے افعال میں انسان کی شخصی ذمہ داری کے کم یا زیادہ ہونے کا انحصار ہے۔ ایسی حالت میں یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے کہ افعال میں انسان، خدا اور شیطان کی تاثیرات کا کوئی ایسا تناسب بتایا جا سکے جو عمومیت کے ساتھ تمام انسانی افعال میں پایا جاتا ہو۔
پس جیسا کہ اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے، انسانی افعال کو ان کی علتوں کی طرف نسبت دینے کی صحیح صورت بجز اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ اجمالی طور پر ان کو یا تو بیک وقت تمام علتوں کی طرف منسوب کیا جائے یا کبھی ایک علت کی جانب اور کبھی دوسری کی جانب اور اگر کوئی شخص غلط فہمی سے ان کو صرف ایک علت کی طرف نسبت دے کر دوسری علتوں کی نفی کرتا ہو تو اس کی تردید کر دی جائے۔
ٹھیک یہی طریقہ ہے جو قرآنِ مجید میں اختیار کیا گیا ہے۔ اگر آپ ان اشارات کا تتبع کریں جو قرآنِ مجید میں مسئلہ جبر و قدر کی طرف کیے گئے ہیں تو کو حسب ذیل عنوانات کے تحت مرتب کر سکتے ہیں۔

(1) تمام امور کی نسبت خدا کی طرف:
وَاِنْ تُصِبْھُمْ حَسَـنَۃٌ يَّقُوْلُوْا ہٰذِہٖ مِنْ عِنْدِ اللہِ۝۰ۚ وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَيِّئَۃٌ يَّقُوْلُوْا ہٰذِہٖ مِنْ عِنْدِكَ۝۰ۭ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللہِ۝۰ۭ فَمَالِ ہٰٓؤُلَاۗءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُوْنَ يَفْقَہُوْنَ حَدِيْثًاo
النساء4: 78
اگر انھیں کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر برائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے۔ کہو سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے۔ پھر ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات نہیں سمجھتے۔
وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ہُوَ۝۰ۭ وَاِنْ يَّمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌo الانعام6:17
اور اگر اللہ تجھے کوئی نقصان پہنچائے تو اسے دور کرنے والا اس کے سوا کوئی نہیں اور اگر تجھے نفع پہنچائے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
فَيُضِلُّ اللہُ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُo ابراہیم14:4
پس اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ سب پر غالب اور دانا ہے۔
وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْـثٰى وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِہٖ۝۰ۭ وَمَا يُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ وَّلَا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِہٖٓ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ۝۰ۭ فاطر35:11
نہیں حاملہ ہوتی کوئی مادہ اور نہ بچہ جنتی ہے مگر وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے اور نہیں دراز ہوتی کسی کی عمر اور نہ کم ہوتی ہے مگر وہ ایک کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔
لَہٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَقْدِرُ۝۰ۭ اِنَّہٗ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌo الشوریٰ42:12
آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اس کے قبضے میں ہیں، جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے نپا تلا کر دیتا ہے اور وہ ہر چیز سے واقف ہے۔
وَلَوْ بَسَطَ اللہُ الرِّزْقَ لِعِبَادِہٖ لَبَغَوْا فِي الْاَرْضِ وَلٰكِنْ يُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَاۗءُ۝۰ۭ اِنَّہٗ بِعِبَادِہٖ خَبِيْرٌۢ بَصِيْرٌo الشوریٰ42:27
اگر اللہ اپنے بندوں کے لیے رزق کشادہ کر دیتا وہ زمین میں سرکش ہو جاتے مگر وہ ایک اندازے سے نازل کرتا ہے۔جو وہ چاہتا ہے وہ اپنے بندوں کے حال سے واقف ہے اور سب کچھ دیکھتا ہے۔
(2) فعل کی نسبت بندے کی طرف:
اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰىo وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىo النجم53:38-39
یہ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دو سرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر جس کی وہ سعی کرے۔
لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۝۰ۭ لَہَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْہَا مَااكْتَسَبَتْ۝۰ۭ البقرہ2:286
اللہ کسی نفس کو مکلف نہیں کرتا مگر اس کی قدرت کے لحاظ سے جو کچھ اس نے کمایا اس کا فائدہ اسی کے لیے ہے اور جو گناہ اس نے سمیٹا اس کا وبال بھی اسی پر ہے۔
اِنَّ ہٰذِہٖ تَذْكِرَۃٌ۝۰ۚ فَمَنْ شَاۗءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّہٖ سَبِيْلًاo المزمل73:19
یہ تو ایک یاددہانی ہے، پھر جس کا جی چاہے اپنے رب کا راستہ لے لے۔
(3) فعل خیر کی نسبت بندے کی طرف:
وَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَيُوَفِّيْہِمْ اُجُوْرَھُمْ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِـمِيْنَo
اٰلِ عمران3: 57
رہے وہ لوگ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں تو اللہ ان کے پورے اجر انھیں دے گا اور وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔
اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَيْبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ۝۰ۭ وَمَنْ تَزَكّٰى فَاِنَّمَا يَتَزَكّٰى لِنَفْسِہٖ۝۰ۭ وَاِلَى اللہِ الْمَصِيْرُo فاطر35:102
تم بہرحال انھی لوگوں کو متنبہ کر سکتے ہو جو اپنے خدا سے بے دیکھے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔ جو شخص پاکیزگی اختیار کرتا ہے اپنے ہی لیے کرتا ہے اور سب کو خدا کی طرف پلٹنا ہے۔
وَالَّذِيْ جَاۗءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖٓ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُتَّـقُوْنَo الزمر39:33
اور جو شخص سچائی لایااور جس نے سچائی کو مانا ایسے ہی لوگ پرہیزگار ہیں۔
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَـقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ہُمْ يَحْزَنُوْنَo
احقاف46: 13
جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے پھر اس پر ثابت قدم رہے، ایسے لوگوں کے لیے کسی خوف اور رنج کا مقام نہیں۔
(4) فعل شر کی نسبت خدا کی طرف:
اَتُرِيْدُوْنَ اَنْ تَہْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللہُ۝۰ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ سَبِيْلًاo النساء4:88
کیا تم چاہتے ہو کہ جسے اللہ نے گمراہ کر دیا ہے اسے تم راستہ دکھائو حالانکہ جسے اللہ نے گمراہ کر دیا، اس کے لیے تم ہرگز راستہ نہیں پا سکتے۔
وَمَنْ يُّرِدِ اللہُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَہٗ مِنَ اللہِ شَـيْـــــًٔـا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَمْ يُرِدِ اللہُ اَنْ يُّطَہِّرَ قُلُوْبَہُمْ۝۰ۭ المائدہ5:41
جسے اللہ نے فتنے میں ڈالنے کا ارادہ کر لیا ہو اُسے تم اللہ سے کچھ بھی نہیں بچا سکتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ ہی نے پاک کرنا نہ چاہا۔
وَمَنْ يُّرِدْ اَنْ يُّضِلَّہٗ يَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَيِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاۗءِ۝۰ۭ كَذٰلِكَ يَجْعَلُ اللہُ الرِّجْسَ عَلَي الَّذِيْنَ لَايُؤْمِنُوْنَo الانعام6:125
اور جسے اللہ گمراہ کرنے کا ارادہ کر لے اس کے سینے کو ایسا تنگ کرتا ہے گویا وہ آسمان میں چڑھا جا رہا ہے۔ اس طرح اللہ ناپاکی کو ان لوگوں پر ڈالتا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔
وَّجَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِہِمْ اَكِنَّۃً اَنْ يَّفْقَہُوْہُ وَفِيْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرًا۝۰ۭ وَاِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْاٰنِ وَحْدَہٗ وَلَّوْا عَلٰٓي اَدْبَارِہِمْ نُفُوْرًاo بنی اسرائیل17:46
اور ہم نے اُن کے دلوں پر غلاف چڑھا دیے ہیں جن کی وجہ سے وہ اس کلام کو نہیں سمجھتے اور ان کے کانوں میں گرانی پیدا کر دی ہے اور اُن کا حال یہ ہے کہ جب تم قرآن میں اکیلے اللہ کا ذکر کرتے ہو تو وہ نفرت سے منہ پھیر لیتے ہیں۔
(5) فعل شر کی نسبت شیطان کی طرف:
اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاۗءِ۝۰ۚ البقرہ2:268
شیطان تمھیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور تم کو شرمناک افعال کا حکم دیتا ہے۔
وَزَيَّنَ لَہُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبِيْلِ فَہُمْ لَا يَہْتَدُوْنَo النمل27:24
اور شیطان نے ان کے برے اعمال کو ان کے لیے خوشنما بنا دیا، اور راہِ راست سے روک دیا۔ اس وجہ سے وہ راستہ نہیں پاتے۔
(6) فعل شر کی نسبت بندوں کی طرف:
وَمَآ اَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ۝۰ۭ النساء4:79
اور ہر برائی جو تمھیں پیش آتی ہے وہ تمھاری اپنی وجہ سے ہوتی ہے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَوَاۗءٌ عَلَيْہِمْ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَo البقرہ2:6
حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے حق کو ماننے سے انکار کر دیا ہے اب ان کے لیے یکساں ہے خواہ تم انھیں ڈرائو یا نہ ڈرائو وہ ماننے والے نہیں۔
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ o البقرہ2:39
اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری نشانیوں کو جھٹلایا وہ اہل دوزخ ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَيْنٰہُمْ فَاسْتَــحَبُّوا الْعَمٰى عَلَي الْہُدٰى فَاَخَذَتْہُمْ صٰعِقَۃُ الْعَذَابِ الْہُوْنِ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَo حٰم السجدہ41:17
رہے ثمود تو ہم نے انھیں راستہ دکھایا مگر انھوں نے اندھے بن کر چلنے کو سیدھی راہ اختیار کرنے پر ترجیح دی۔ پس ایک زبردست کڑکے نے انھیں آ لیا جس میں ذلت کی سزا تھی اور یہ ان کی بری کمائی کا نتیجہ تھا۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ۝۰ۭ اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo التحریم66:7
اے وہ لوگو! جنھوں نے کفر کیا تھا! آج معذرت نہ پیش کرو تم کو وہی بدلہ تو دیا جائے گا جیسے تم عمل کرتے تھے۔
كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْيَتِيْمَo وَلَا تَحٰۗضُّوْنَ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِo وَتَاْكُلُوْنَ التُّرَاثَ اَكْلًا لَّمًّاoۙ وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّاo الفجر89:17 تا20
ہرگز نہیں! تم یتیم کو عزت نہیں دیتے اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں ابھارتے اور مردوں کی میراث حق ناحق کھاتے ہو اور مال کی محبت میں سخت حریص ہو۔
وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا يَّرَہٗo الزلزال99:8
اور جس نے ذرّہ برابر برائی کی وہ اسے دیکھ لے گا۔
(7) خیر کی ابتدا انسان کی جانب سے اور تکمیل خدا کی جانب سے:
قُلْ اِنَّ اللہَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ اَنَابَo الرعد13:27
کہو اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور اپنی طرف آنے کا راستہ بتاتا ہے صرف اس شخص کو جو اس کی طرف رجوع کرے۔
(8) شر کی ابتدا انسان کی جانب سے اور تکمیل خدا کی جانب سے:
وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُ الْہُدٰى وَيَتَّبِـعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰى النساء4:115
اور جو کوئی ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور اہل ایمان کی راہ کے بجائے دوسری راہ چلے تو اسے ہم اسی راستے پر موڑ دیتے ہیں جس پر وہ خود مڑ گیا۔
(9) پھر جہاں انسان نے اپنے گناہ کی ذمہ داری خدا پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو جانا چاہا وہاں اس کی تردید کر دی گئی:
وَقَالُوْا لَوْ شَاۗءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰہُمْ۝۰ۭ مَا لَہُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ۝۰ۤ اِنْ ہُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَo
الزخرف43: 20
اور انھوں نے کہا کہ اگر رحمن چاہتا تو ہم ان فرشتوں کی پرستش نہ کرتے، لیکن ان کو اس معاملے (مشیت الٰہی) کا کوئی علم نہیں ہے وہ محض اٹکل سے یہ باتیں کہتے ہیں۔
وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَيْہَآ اٰبَاۗءَنَا وَاللہُ اَمَرَنَا بِہَا۝۰ۭ قُلْ اِنَّ اللہَ لَا يَاْمُرُ بِالْفَحْشَاۗءِ۝۰ۭ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo الاعراف7:28
اور جب کبھی انھوں نے کوئی فحش کام کیا تو کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا ہے اور اللہ نے ہم کو اس کا حکم دیا ہے۔ اے پیغمبر! ان سے کہہ دو کہ اللہ بری باتوں کا حکم نہیں دیتا کیا تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہو جن کا تم کو علم نہیں ہے۔
(10) اور جہاں انسان نے اپنی ہی تدبیر کو سب کچھ سمجھا اور تقدیر الٰہی کا انکار کیا وہاں اس کی بھی تردید کر دی گئی:
يَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا ھٰہُنَا۝۰ۭ قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِيْ بُيُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِيْنَ كُتِبَ عَلَيْہِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِھِمْ۝۰ۚ اٰلِ عمران3:154
وہ کہتے ہیں اگر معاملات کے طے کرنے میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہوتا تو ہمارے آدمی وہاں (میدانِ جنگ میں) نہ مارے جاتے۔ اے پیغمبر ان سے کہو کہ اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن کے لیے مارا جانا لکھ دیا گیا تھا وہ اپنے مرنے کی جگہ پر خود جا پہنچتے۔
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں