اجتماعی عمل کی اولین خصوصیت یہ ہے کہ اس سے ایک خاص قسم کی نفسیاتی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک شخص انفرادی طور پر کسی ذہنی کیفیت کے تحت کوئی کام کر رہا ہو اور اس کے گرد و پیش دوسرے لوگوں میں نہ وہ ذہنی کیفیت ہو اور نہ وہ اس کام میں اس کے شریک ہوں، تو وہ اپنے آپ کو اس ماحول میں بالکل اجنبی پائے گا۔ اس کی کیفیت ذہنی صرف اسی کی ذات تک محدود اور صرف اسی کی نفسی قوتوں پر منحصر رہے گی، اسے نشوو نما پانے کے لیے ماحول سے کوئی مدد نہ ملے گی، بلکہ ماحول کے مختلف اثرات اس کیفیت کو بڑھانے کے بجائے الٹا گھٹا دیں گے۔ لیکن اگر وہی کیفیت پورے ماحول پر طاری ہو۔ اگر تمام لوگ ایک ہی خیال اور ایک ہی ذہنیت کے ماتحت ایک ہی عمل کر رہے ہوں تو معاملہ برعکس ہوگا۔ اس وقت ایک ایسی اجتماعی فضا بن جائے گی جس میں پوری جماعت پر وہی ایک کیفیت چھائی ہوئی ہوگی اور ہر فرد کی اندرونی کیفیت ماحول کی خارجی اعانت سے غذا لے کر بے حد و حساب بڑھتی چلی جائے گی۔ ایک شخص اکیلا برہنہ ہو اور گرد و پیش سب لوگ کپڑے پہنے ہوئے ہوں تو وہ کس قدر شرمائے گا؟ بے حیائی کی کتنی بڑی مقدار اسے برہنہ ہونے کے لیے درکار ہوگی اور پھر ماحول کے مختلف اثرات سے اس کی شدید بے حیائی بھی کس طرح بار بار شکست کھائے گی؟ لیکن جہاں ایک حمام میں سب ننگے ہوں وہاں شرم بے چاری کو پھٹکنے کا موقع بھی نہ ملے گا۔ اور ہر شخص کی بے شرمی دوسروں کی بے شرمی سے مدد پاکر افزوںدر افزوں ہوتی چلی جائے گی۔ ایک ایک سپاہی کا الگ الگ جنگ کرنا اور مہالک جنگ برداشت کرنا کس قدر مشکل ہے؟ مگر جہاں فوج کی فوج ایک ساتھ مارچ کر رہی ہو وہاں جذبات شہامت و حماست کا ایک طوفان اُمنڈ آتا ہے جس میں ہر سپاہی مستانہ وار بہتا چلا جاتا ہے۔ نیکی ہو یا بدی، دونوں کی ترقی میں اجتماعی نفسیات کو غیرمعمولی دخل حاصل ہے۔ جماعت مل کر بدی کر رہی ہو تو فحش، بے حیائی اور بدکاری کے جذبات ابل پڑتے ہیں اور جماعت مل کر نیکی کر رہی ہو تو پاکیزہ خیالات اور نیک جذبات کا سیلاب آجاتا ہے جس میں بد بھی نیک بن جاتے ہیں، خواہ تھوڑی دیر کے لیے سہی۔
اجتماعی روزے کا مہینا قرار دے کر رمضان سے شارع نے یہی کام لیا ہے۔ جس طرح آپ دیکھتے ہیں کہ ہر غلہ اپنا موسم آنے پر خوب پھلتا پھولتا ہے اور ہر طرف کھیتوں پر چھایا ہوا نظر آتا ہے، اسی طرح رمضان کا مہینا گویا خیر و صلاح اور تقوٰی و طہارت کا موسم ہے۔ جس میں برائیاں دبتی ہیں، نیکیاں پھلتی ہیں، پوری پوری آبادیوں پر خوف خدا اور حب خیر کی روح چھا جاتی ہے، اور ہر طرف پرہیزگاری کی کھیتی سرسبز نظر آنے لگتی ہے۔ اس زمانہ میں گناہ کرتے ہوئے آدمی کو شرم آتی ہے، ہر شخص خود گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے کسی دوسرے بھائی کو گناہ کرتے دیکھ کر اسے شرم دلاتا ہے، ہر ایک کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ کچھ بھلائی کاکام کرے، کسی غریب کو کھانا کھلائے، کسی ننگے کو کپڑا پہنائے، کسی مصیبت زدہ کی مدد کرے، کہیں کوئی نیک کام کر رہا ہو تو اس میں حصہ لے، کہیں کوئی بدی ہو رہی ہو تو اسے روکے۔ اس وقت لوگوں کے دل نرم ہو جاتے ہیں، ظلم سے ہاتھ رک جاتے ہیں، برائی سے نفرت اور بھلائی سے رغبت پیدا ہو جاتی ہے، توبہ اور خشیت و انابت کی طرف طبیعتیں مائل ہوتی ہیں، نیک بہت نیک ہو جاتے ہیں اور بد کی بدی اگر نیکی میں تبدیل نہیں ہوتی تب بھی اس جلاب سے اس کا اچھا خاصا تنقیہ ضرور ہو جاتا ہے۔ غرض اس زبردست حکیمانہ تدبیر سے شارع نے ایسا انتظام کر دیا ہے کہ ہر سال ایک مہینا کے لیے پوری اسلامی آبادی کی صفائی ہوتی رہے، اسے اوور ہال کیا جاتا رہے، اس کی کایا پلٹی جائے۔ اور اس میں مجموعی حیثیت سے رُوح اسلامی کو ازسر نو زندہ کر دیا جائے۔ اسی بنا پر نبیﷺ نے فرمایا:
اذا دخل رمضان فتحت ابواب الجنہ و غلقت ابواب جہنم و سلسلت الشیاطین۔
جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطین باندھ دئیے جاتے ہیں۔
اور ایک دوسری حدیث میں ہے:
اذا کان اول لیلۃ من شہر رمضان صفدت الشیاطین و مردۃ الجن وغلقت ابواب النار فلم یفتح منہا باب و فتحت ابواب الجنۃ فلم یغلق منہا باب وینادی منا دیا باغی الخیرا قبل ویا باغی الشرا قصر۔
جب رمضان کی پہلی تاریخ آتی ہے تو شیاطین اور سرکش جن باندھ دئیے جاتے ہیں۔ دوزخ کی طرف جانے کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی دروازہ کھلا نہیں رہتا۔ اور جنت کی طرف جانے کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں رہتا۔ اس وقت پکارنے والا پکارتا ہے’’اے بھلائی کے طالب آگے بڑھ اور اے برائی کے خواہش مند ٹھہر جا۔
سکتہ کے مریض کا آخری امتحان اس طرح کیا جاتا ہے کہ اس کی ناک کے پاس آئینہ رکھتے ہیں۔ اگر آئینہ پر کچھ دھندلاہٹ سی پیدا ہوتو سمجھتے ہیں کہ ابھی جان باقی ہے، ورنہ اس کی زندگی کی آخری امید بھی منقطع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی کسی بستی کا تمھیں امتحان لینا ہو تو اسے رمضان کے مہینا میں دیکھو۔ اگر اس مہینا میں اس کے اندر کچھ تقوٰی، کچھ خوف خدا، کچھ نیکی کے جذبہ کا ابھار نظر آئے تو سمجھو ابھی زندہ ہے۔ اور اگر اس مہینا میں بھی نیکی کا بازار سرد ہو، فسق و فجور کے آثار نمایاں ہوں، اور حس مردہ نظر آئے تو اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ پڑھ لو۔ اس کے بعد زندگی کا کوئی سانس ’’مسلمان‘‘ کے لیے مقدر نہیں ہے۔({ FR 672 })