اسلام نے زائد از ضرورت دولت کے جمع کرنے کو معیوب قرا ر دیا ہے۔ جیسا کہ ابھی میں کہہ چکا ہوں، اس کا مطالبہ یہ ہے کہ جو کچھ مال تمہارے پاس ہے یا تو اسے اپنی ضروریات خریدنے پر صرف کرو، یا کسی جائز کاروبار میں لگائو، یا دوسروں کو دو کہ وہ اس سے اپنی ضروریات خریدیں اور اس طرح پوری دولت برابر گردش میں آتی رہے۔ لیکن اگر تم ایسا نہیں کرتے اور جمع کرنے ہی پر اصرار کرتے ہو تو تمہاری اس جمع کردہ دولت میں اسے ازروئے قانون ½ 2 فیصدی سالانہ رقم نکلوالی جائے گی اور اسے ان لوگوں کی اعانت پر صرف کیا جائے گا جو معاشی جدوجہد میں حصہ لینے کے قابل نہیں ہیں، یا سعی وجہد کرنے کے باوجود اپنا پورا حصہ پانے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اسی چیز کا نام زکوٰۃ ہے اور اس کے انتظام کی صورت جو اسلام نے تجویز کی ہے وہ یہ ہے کہ اسے جماعت کے مشترک خزانہ میں جمع کیا جائے، اور خزانہ ان تمام لوگوں کی ضروریات کا کفیل بن جائے جو مدد کے حاجت مند ہیں، یہ دراصل سوسائٹی کے لیے انشورنس کی بہترین صورت ہے، اور ان تمام خرابیوں کا استیصال کرتی ہے جو اجتماعی امداد و معاونت کا کوئی باقاعدہ انتظام نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ سرمایہ داری نظام میں جو چیز انسان کو دولت جمع کرنے اور اسے نفع آور کاموں میں لگانے پر مجبور کرتی ہے، اور جس کی وجہ سے لائف انشورنس وغیرہ کی ضرورت پیش آتی ہے ، وہ یہ ہے کہ ہر شخص کی زندگی اس نظام میں اپنے ہی ذرائع پرمنحصر ہے۔ بوڑھا ہو جائے اور کچھ بچا کر نہ رکھا ہو تو بھوکا مر جائے۔ بال بچوں کے لیے کچھ چھوڑے بغیر مرے تو وہ دَربدر مارے مارے پھریں اور بھیک کا ٹکڑا تک نہ پاسکیں۔ بیمار ہو جائے اور کچھ بچا بچایا نہ رکھا ہو تو علاج تک نہ کراسکے۔ گھر جل جائے یا کاروبار میں نقصان ہو، یا کوئی اور آفت ناگہانی آجائے تو کسی طرف سے اس کو سہارا ملنے کی امید نہیں۔ اسی طرح سرمایہ داری نظام میں جو چیز محنت پیشہ لوگوں کو سرمایہ داروں کا زر خرید غلام بن جانے اور ان کی شرائط پر کام کرنے کے لیے مجبور کرتی ہے وہ بھی یہی ہے کہ جو کچھ اس کی محنت کا معاوضہ سرمایہ دار دیتا ہے اسے لینا اگر غریب آدمی قبول نہ کرے تو فاقہ کرے اور ننگا پھرے۔ سرمایہ دار کی بخشیش سے منہ موڑ کر اسے دو وقت کی روٹی میسر آنی مشکل ہے۔ پھر یہ لعنتِ کُبریٰ جو آج سرمایہ داری نظام کی بدولت دنیا پر مسلط ہے کہ ایک طرف لاکھوں کروڑوں انسان حاجت مند موجود ہیں اور دوسری طرف زمین کی پیداوار اور کارخانوں کی مصنوعات کے انبار لگے ہوئے ہیں مگر خریدے نہیں جاسکتے، حتیٰ کہ لاکھوں من گیہوں سمندر میں پھینکا جاتا ہے اور بھوکے انسانوں کے پیٹ تک نہیں پہنچتا، اس کا سبب بھی یہی ہے کہ حاجت مند انسانوں تک وسائل معیشت پہنچانے کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ ان سب کے اندر قوتِ خریداری پیدا کر دی جائے اور وہ اپنے حسبِ حاجت اشیاء خریدنے کے قابل ہو جائیں، تو صنعت، تجارت، زراعت، غرض ہر انسانی حرفت پھلتی پھولتی چلی جائے۔ اسلام زکوٰۃ اور بیت المال کے ذریعے سے ان ساری خرابیوں کا استیصال کرتا ہے۔ بیت المال ہر وقت آپ کی پشت پر ایک مددگار کی حیثیت سے موجود ہے۔ آپ کو فکرِ فردا کی ضرورت نہیں۔ جب آپ حاجت مند ہوں بیت المال میں جایئے اور اپنا حق لے آیئے، پھر بنک ڈیپازٹ اور انشورنس پالیسی کی کیا ضرورت؟ آپ اپنے بال بچوں کو چھوڑ کر باطمینانِ تمام دنیا سے رخصت ہوسکتے ہیں۔ آپ کے پیچھے جماعت کا خزانہ ان کا کفیل ہے۔ بیماری، بڑھاپے، آفاتِ ارضی و سماوی، ہر صورت حال میں بیت المال وہ دائمی مددگار ہے جس کی طرف آپ رجوع کرسکتے ہیں۔ سرمایہ دار آپ کو مجبور نہیں کرسکتا کہ آپ اسی کی شرائط پر کام کرنا قبول کریں۔ بیت المال کی موجودگی میں آپ کے لیے فاقے اور برہنگی اور بے سائیگی کا کوئی خطرہ نہیں۔ پھر یہ بیت المال سوسائٹی کے تمام ان لوگوں کو اشیائے ضرورت خریدنے کے قابل بنا دیتا ہے جو دولت پیدا کرنے کے بالکل ناقابل ہوں یا کم پیدا کر رہے ہوں۔ اس طرح مال کی تیاری اور اس کی کھپت کا توازن پیہم قائم رہتا ہے اور اس کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ آپ اپنے دیوالیہ پن کو دنیا بھر کے سر چپیکنے کے لیے دوڑتے پھریں اور آخر کار دوسرے سیاروں تک پہنچنے کی ضرورت پیش آئے۔
زکوٰۃ کے علاوہ دوسری تدبیر جو ایک سمٹی ہوئی دولت کو پھیلانے کے لیے اسلام نے اختیار کی ہے وہ قانونِ وراثت ہے۔ اسلام کے سوا دوسرے قوانین کا رجحان اس طرف ہے کہ جو دولت ایک شخص نے زندگی بھر سمیٹی ہے وہ اس کے مرنے کے بعد بھی سمٹی رہے۔ مگر اس کے برعکس اسلام یہ طریقہ اختیار کرتا ہے کہ جس دولت کو ایک شخص سمیٹ سمیٹ کر قید کرتا رہا ہے، اس کے مرتے ہی وہ پھیلا دی جائے۔ اسلامی قانون میں بیٹے، بیٹیاں، باپ، ماں، بیوی، بھائی، بہن سب ایک شخص کے وارث ہیں اور ایک ضابطے کے مطابق سب پر میراث تقسیم ہونی ضروری ہے۔ قریبی رشتے دار موجود نہ ہوں تو دور پرے کے رشتے دار تلاش کیے جائیں گے اور ان میں یہ دولت پھیلائی جائے گی۔ کوئی رشتے دار سرے سے موجود ہی نہ ہو، تب بھی آدمی کو متبنٰی بنانے کا حق نہیں ہے۔ اس صورت میں اس کی وارث پوری جماعت ہے۔ اس کی سمیٹی ہوئی تمام دولت بیت المال میں داخل کر دی جائے گی۔ اس طرح خواہ کوئی شخص کروڑوں اور اربوں کی دولت جمع کرلے، اس کے مرنے کے بعد دو تین پشتوں کے اندر وہ سب کی سب چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر پھیل جائے گی اور دولت کا ہر سمٹائو بتدریج پھیلائو میں تبدیل ہو کر رہے گا۔