Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ طبع اوّل
تعارف مقصد
تحریک اِسلامی کا تنزل
ضمیمہ
نسلی مسلمانوں کے لیے دوراہیں عمل‘ خواہ انفرادی ہویااجتماعی‘ بہرحال اس کی صحت کے لیے دو چیزیں شرط لازم ہیں:
اقلیت واکثریت
شکایات ناظرین’’ترجمان القرآن‘‘میں سے ایک صاحب لکھتے ہیں:
راہ رَوپِشت بمنزل
اسلام کی دعوت اور مسلمان کا نصب العین
اصلی مسلمانوں کے لیے ایک ہی راہِ عمل
اسلام کی راہِ راست اور اس سے انحراف کی راہیں
۱۔اسلامی نصب العین
۲- اس نصب العین تک پہنچنے کا سیدھا راستہ
۳-مشکلات
۴-انحراف کی راہیں
۵- منحرف راستوں کی غلطی
پاکستانی خیال کے لوگ
۶-مشکلات کا جائزہ
اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟
استدراک
ایک صالح جماعت کی ضرورت
مطالبۂ پاکستان کو یہود کے مطالبہ ’’قومی وطن‘‘ سے تشبیہ دینا غلط ہے
مسلم لیگ سے اختلاف کی نوعیت
وقت کے سیاسی مسائل میں جماعت ِاسلامی کا مسلک
نظام کفر کی قانون ساز مجلس میں مسلمانوں کی شرکت کا مسئلہ
مجالس قانون ساز کی رکنیت شرعی نقطۂ نظر سے
پُر امن اِنقلاب کا راستہ
۱۹۴۶ء کے انتخابات اور جماعت ِاسلامی
جواب
تقسیم سے قبل ہندستان کے مسلمانوں کو آخری مشورہ (یہ وہ تقریر ہے‘ جو ۲۶اپریل ۱۹۴۷ء کو جماعت ِاسلامی کے اجلاس منعقدہ مدراس میں کی گئی تھی)
صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں جماعت ِاسلامی کا مسلک
تقسیم ہند‘ حالات پر تبصرہ
تقسیم کے وقت مسلمانوں کی حالت کا جائزہ
تقسیم کے بعد سامنے آنے والے مسائل
کیا پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہئے؟
پاکستان میں اسلامی قانون کیوں نہیں نافذ ہوسکتا؟
اسلامی نظامِ زندگی کا مآخذ
پاکستان میں اسلامی قانون کس طرح نافذ ہوسکتا ہے؟
مطالبہ نظام اسلامی

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ دوم)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

تقسیم سے قبل ہندستان کے مسلمانوں کو آخری مشورہ (یہ وہ تقریر ہے‘ جو ۲۶اپریل ۱۹۴۷ء کو جماعت ِاسلامی کے اجلاس منعقدہ مدراس میں کی گئی تھی)

رفیقو اور دوستو!اس وقت ہم ہندستان کی تاریخ کے ایک بہت نازک اور فیصلہ کن مرحلے سے گزر رہے ہیں‘ اور یہ مرحلہ جس طرح ہندستان کے باشندوں کی قسمت کے لیے فیصلہ کن ہے‘ اسی طرح ہماری اس تحریک کے لیے بھی فیصلہ کن ہے۔ اس لیے یہ نہایت ضروری ہے‘ کہ اس موقع پر ہم پوری ہوش مندی کے ساتھ اپنے اس مقصد کو‘ جس کے لیے ہم کام کرنا چاہتے ہیں‘ اور ان حالات کو جن میں ہمیں کام کرنا ہے‘ اور اس رخ کو جس کی طرف یہ حالات جا رہے ہیں‘ اور جن میں سے ہمیں اپنا راستہ نکالنا ہوگا‘ اچھی طرح سمجھ لیں‘ اور ہمارا ہر کارکن پوری بصیرت کے ساتھ یہ جان لے کہ موجودہ اور آئندہ حالات میں اسے کس حکمت عملی پر کار بند ہونا ہے۔
ہماری اس تحریک کا مقصد جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں صاف اور واضح الفاظ میں یہ ہے‘ کہ ہم اس صحیح طریق زندگی کو جس کا نام اسلام ہے‘ انفرادی اور اجتماعی طور پر عملاً قائم کریں‘ اپنے قول وعمل سے اس کا ٹھیک ٹھیک مظاہرہ کریں‘ دنیا کو اس بات پر مطمئن کرنے کی کوشش کریں کہ اسی طریق زندگی میں اس کے لیے فلاح اور سعادت ہے‘ اور موجودہ باطل نظاموں کی جگہ وہ نظامِ حق برپا کرنے کی جدوجہد کریں‘ جو سراسراس طریق زندگی پر مبنی ہو۔ اس مقصد کے لیے اگر چہ ہمیں کام تو ساری دنیا اور تمام نوعِ انسانی میں کرنا ہے‘ لیکن فطرۃً ہمارے کام کی جگہ وہی سر زمین ہے‘ جہاں ہم پیدا ہوئے ہیں‘ جہاں کی زبان ہماری زبان ہے ‘جہاں کے رسم ورواج سے ہم واقف ہیں‘ جہاں کے نفسیات سے ہم آشنا ہیں‘ اور جہاں کی معاشرت سے ہمارا پیدائشی رشتہ ہے۔ خود پیغمبروں کے لیے بھی اﷲ تعالیٰ نے ان کے اپنے وطن ہی کو جائے عمل اور مقامِ دعوت قرار دیا تھا حالانکہ ان کا پیغام ساری دنیا کے لیے تھا‘ کسی پیغمبر کے لیے جائز نہ تھا‘ کہ اپنے اس فطری حلقہ کار کو چھوڑ کر کہیں اور چلا جائے‘ جب تک کہ اس کے اہلِ وطن اسے نکال نہ دیں یا وہ خود دعوت وتبلیغ میں انتہائی کوشش صرف کرنے کے بعد ان سے مایوس نہ ہوجائے‘ لہٰذا ہماری اس جماعت کا فطری دائرہ عمل بھی یہی سر زمین ہے‘ جسے خدا نے ہماری سکونت کے لیے منتخب فرمایا … پوری جماعت کا دائرہ عمل پورا ملک‘ ہر علاقے کے ارکان کا دائرہ‘ ان کا اپنا علاقہ اور ہر شہر قصبے یا گائوں کے ارکان کا دائرہ ان کا اپنا وطن …ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے‘ کہ پورے استقلال کے ساتھ اپنی جگہ جم کر دعوت اصلاح اور سعی انقلاب میں منہمک رہے‘ اور اپنے مقام سے ہر گز نہ ہٹے ‘جب تک کہ اس کا وہاں رہنا قطعی غیر ممکن نہ ہوجائے‘ یا پھر وہاں دعوتِ حق کے بار آور ہونے کی کوئی اُمید باقی نہ رہے۔ آنے والے حالات میں آپ بہت کچھ ہجرت ومہاجرت کی آوازیں سنیں گے‘ اور بعید نہیں کہ عام روکو دیکھ کر‘ یا خیالی اندیشوں سے سہم کر‘ آپ میں سے بہتوں کے پائوں اکھڑنے لگیں۔لیکن آپ جس مشن کے حامل ہیں‘ اس کا مطالبہ یہ ہے‘ کہ آپ میں سے جو شخص جہاں ہے وہیں ڈٹ جائے‘ اور اپنی دعوت کو اپنے ہی علاقے کی زندگی پر غالب کرنے کی کوشش کرے۔ آپ کا حال جہاز کے اس بہادر کپتان کا سا ہونا چاہیے جوآخر وقت تک اپنے جہاز کو بچانے کی کوشش کرتا رہتا ہے‘ اور ڈوبتے ہوئے جہاز کو چھوڑنے والوں میں سب سے آخری شخص وہی ہوتا ہے۔ آپ جس مقصد پر ایمان لائے ہیں‘ اس کا تقاضا ہے‘ کہ جس علاقے میں آپ رہتے ہیں وہیں کے نظامِ زندگی کو بدلنے اور راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں۔ اس علا قے پر آپ کا اور آپ پر اس علاقے کا حق ہے‘ اور وہ حق اسی طرح ادا ہوسکتا ہے‘ کہ اس کی اجتماعی زندگی میں جو خرابیاں پائی جاتی ہیں انہیں دور کرنے میں آپ اپنا پورا زور صرف کریں‘ اور جس ہدایت سے آپ سر فراز کیے گئے ہیں‘ اس کا فائدہ سب سے پہلے اسے پہنچائیں۔
ہندستان میں اس وقت جو حالات رونما ہیں وہ بظاہر ہماری دعوت کے لحاظ سے نہایت مایوس کن ہیں‘ اور میں یکھ رہا ہوں کہ آپ سب لوگوں پر ان کا دل شکن اثر پڑ رہا ہے ملک کی مختلف قومیں قومی خود غرضی میں بری طرح مبتلا ہیں‘ اور قوم پرستی کا جنون بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گیا ہے‘ کہ ان سے وہ حرکات سر زد ہورہی ہیں‘ جنہیں اگر جانوروں سے بھی منسوب کیا جائے‘ تو وہ اپنی توہین سمجھیں۔ قومی کش مکش نے جنگ کی اور جنگ نے وحشت ودرندگی کی شکل اختیار کر لی ہے۔ پہلے تو بات یہیں تک تھی کہ ہر قوم ایک دوسرے سے بڑھ کر اپنے دعوے اور جواب دعوے پیش کر رہی تھی‘ اور اس پر تلخ کلامی کا سلسلہ چل رہا تھا مگر اب نوبت یہ آگئی ہے‘ کہ یہ مختلف قومیں ایک دوسرے کا نام ونشان تک مٹا دینے کے درپے ہیں۔ انہوں نے اپنی رہنمائی کا کام ایسے ایسے لیڈروں اور اخبار نویسوں کے سپرد کر دیا ہے‘ جو انہیں ہر روز خود غرضانہ قوم پرستی کی شراب‘ نفرت وعداوت کا زہر ملا کر پلاتے ہیں‘ اور ان کی حد سے بڑھی ہوئی قومی خواہشات کی وکالت میں انصاف اور اخلاق کی ساری حدوں کو پھاندتے چلے جاتے ہیں۔ اخلاقی تصوّرات کے لیے ان کے دلوں میں اب فی الواقع کوئی گنجائش نہیں رہی ہے۔ تمام اخلاقی معیارات قومیّت کے تابع ہوگئے ہیں۔ جو کچھ قومی مفاد اور قومی خواہشات کے مطابق ہے وہی سب سے بڑا اخلاق ہے‘ خواہ وہ جھوٹ ہو‘ خیانت ہو‘ ظلم ہو‘ سنگ دلی اور بے رحمی ہو‘ یا اور کوئی ایسی چیز جو دنیا کے معروف اخلاقیات میں ہمیشہ سے بدی سمجھی جاتی رہی ہے۔ بخلاف اس کے سچائی‘ انصاف‘ دیانت‘ رحم‘ شرافت‘ انسانیت سب گناہ قرار پا چکے ہیں اگر وہ قومی مفاد کے خلاف پڑتے ہوں‘ یا قومی خواہشات کے حصول میں مانع ہوں۔
ان حالات میں کسی ایسی دعوت کے لیے کام کرنا سخت مشکل ہے‘ جو قومیّتوں کو نظر انداز کر کے انسانیت کو خطاب کرتی ہو‘ جو قومی خواہشات کو چھوڑ کر خالص اصولِ حق کی طرف بلاتی ہو‘ اور قومی خود غرضیوں کو توڑ کر عالم گیر انصاف قائم کرنا چاہتی ہو۔ جنون قومیّت کے اس دور میں ایسی دعوت کی آواز سننے کے لیے نہ ہندو تیار ہیں نہ مسلمان‘ مسلمان کہتے ہیں‘ کہ تم ہماری قوم کے افراد ہوتمہارا فرض تھا‘ کہ قوم کے جھنڈے تلے کھڑے ہوکر قومی لڑائی لڑتے یہ تم نے الگ جتھا بنا کر دین واخلاق اوراصولِ حق کی رٹ کیا لگانی شروع کر دی؟تمہاری اس صدائے بے ہنگام سے قوم کی طاقت منتشر ہوتی ہے‘ اور قومی مفاد کو نقصان پہنچتا ہے۔ لہٰذا ہم تمہیں قوم کا دشمن سمجھتے ہیں‘ خواہ تمہاری دعوت اسی اسلام کی طرف ہو‘ جس کا نام لے کر ہم یہ قومی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ دوسری طرف ہندوئوں کے پاس جائیے تو وہ خیال کرتے ہیں‘ کہ ان لوگوں کی بات دل کو تو ضرور لگتی ہے‘ مگر اس چھاچھ کو ذرا پھونک کر پینا چاہیے‘ کیونکہ یہ ہیں‘ تو اسی قوم کے افراد جس سے ہماری لڑائی ہے‘ کیا خبر کی یہ اصولی دعوت بھی مسلمان قومیّت ہی کو فروغ دینے کے لیے ایک دوسری تدبیر ہو۔
لیکن یہ حالات خواہ کتنے ہی حوصلہ شکن اور صبر آزما ہوں‘ بہرحال مستقل نہیں ہیں‘ بلکہ عنقریب بدل جانے والے ہیں۔ اس وقت آپ کے لیے صحیح طرزِعمل یہ ہے‘ کہ صبر اور حسنِ اخلاق سے اپنا کام کیے جائیں۔ اُلجھنے والوں کے ساتھ نہ اُلجھیں‘ نادان لوگوں کی مخالفتوں پر برافروختہ نہ ہوں‘ جن لوگوں میں دوست اور دشمن تک کی تمیز باقی نہیں رہی ہے‘ اور جو لوگ جوشِ جنوں میں اب خود اپنے بھلے اور برے تک کا ہوش نہیں رکھتے‘ وہ اگر جہالت اور جاہلیت پر اتر آئیں‘ تو آپ شریف آدمیوں کی طرح ان کے مقابلے سے ہٹ جائیں‘ اور ان کی زیادتیوں کو خاموشی سے سہہ لیں۔ اس کے ساتھ آپ کو چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ معقول طریقہ سے اپنی دعوت مسلم اور غیر مسلم سوسائٹی کے ان سب لوگوں تک پہنچائیں‘ جو معقول بات کو سننے اور اس پر کھلے دل سے غور کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اس طریقہ پر اگر آپ نے عمل کیا‘ تو ایک طرف آپ کی اخلاقی برتری کا سکّہ بیٹھ جائے گا ‘اور دوسری طرف وہ ذہنی فضا ایک حد تک تیار ہوجائے گی‘ جو آنے والے حالات میں موثر کام کے لیے ضروری ہے۔
جس تغیّر کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں‘ وہ یہ ہے‘ کہ عن قریب ملک تقسیم ہوجائے گا۔ ہندوئوں کو ان کی اکثریت کے علاقے اور مسلمانوں کو ان کی اکثریت کے علاقے‘ الگ الگ مل جائیں گے۔ دونوں اپنے اپنے علاقوں میں پوری طرح خود مختار ہوں گے‘ اور اپنی مرضی کے مطابق اپنے اسٹیٹ کا نظام چلائیں گے۔ یہ بڑا تغیّر اس نقشے کو بالکل بدل دے گا‘ جس پر اس وقت تک حالات چلتے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہندوئوں اور مسلمانوں اور دوسری قوموں کے مسائل اور ان کی نوعیتیں بالکل بدل جائیں گی۔ ان کو بالکل ایک دوسری ہی صورت حال سے سابقہ پیش آئے گا۔ جس ڈھنگ پر اس وقت تک انہوں نے اپنے قومی روّیہ اور اپنی تحریکات اور جماعتی نظاموں کو قائم رکھا ہے‘ وہ بڑی حد تک بے معنی اور ناکارہ ہوجائے گا۔ بدلے ہوئے حالات میں ان سب کو سوچنا پڑے گا کہ جو کچھ اب تک وہ کرتے رہے ہیں‘ اس نے انہیں کہاں لاکھڑا کیا ہے‘ اور اب اس نئے دور زندگی میں ان کے لیے راہِ عمل کیا ہے۔ آج کے بنے اور جمے ہوئے عقیدے اس وقت مہمل ہوجائیں گے۔ آج کے خیالات اور تصوّرات کے لیے اس وقت کوئی جگہ نہ ہوگی۔ آج کے نعرے اُس وقت کھوٹے سکے ہوں گے‘ جنہیں کوئی مفت کو بھی نہ پوچھے گا‘ جن بنیادوں پر آج کی قومی تحریکیں اور جماعتیں قائم ہیں‘ وہ خود بخود ڈہ جائیں گی۔ اس لیے صرف یہی نہیںکہ آج کی لیڈریاں اپنی طبعی موت مر جائیں گی‘ بلکہ بعید نہیں کہ جو لوگ آج انہیں اپنا نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں کل وہی ان کو اپنے مصائب وآلام کا اصلی سبب سمجھنے لگیں۔
آنے والے اس دور میں ہندو ہندستان اورمسلم ہندستان کے حالات بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے‘ اور چونکہ ہمیں دونوں علاقوں میں کام کرنا ہوگا‘ اس لیے ہمیں بھی اپنی تحریک کو دو مختلف طریقوں پر چلانا پڑے گا۔ بلکہ بعید نہیں کہ نظامِ جماعت کو بھی دو حصوں میں بانٹ دینا پڑے‘ تاکہ ہر حصّہ اپنے اپنے علاقے کے حالات کے مطابق مناسب پالیسی پر خود چل سکے اور اس کے لیے ضروری انتظامات خود کر سکے۔ جہاں تک مسلم علاقے کا تعلق ہے‘ اس پر تومیں یہاں کوئی بحث نہ کروں گا‘ کیونکہ اس کے لیے موزوں مقام شمالی مغربی حلقہ کا اجتماع ہے‘ جو عنقریب ہونے والا ہے۔ آپ کے سامنے مجھے صرف ہندو ہندوستان کے مستقبل پر گفتگو کرنی ہے‘ کہ یہاں مسلمانوں اور ہندوئوں کو آئندہ کن حالات سے سابقہ پیش آنے والا ہے‘ اور ان حالات میں آپ کو کس طرح کام کرنا ہوگا۔
سب سے پہلے مسلمانوں کے معاملہ کو لیجیے۔ ہندو اکثریت کے علاقے میں مسلمان عنقریب یہ محسوس کر لیں گے کہ جس مسلم قوم پرستی پر انہوں نے اپنے اجتماعی روّیہ کی بنیاد رکھی تھی‘ وہ انہیں بیابان مرگ میں لاکر چھوڑ گئی ہے‘ اور ان کی قومی جنگ جسے وہ بڑے جوش وخروش سے بغیر سوچے سمجھے لڑ رہے تھے‘ ایک ایسے نتیجہ پر ختم ہوئی ہے‘ جو ان کے لیے تباہی کے سوا اپنے اندر کچھ نہیں رکھتا۔ جن جمہوری اصولوں پر ایک مدّت سے ہندستان کا سیاسی ارتقا ہورہا تھا‘ اور جنہیں خود مسلمانوں نے بھی قومی حیثیت سے تسلیم کر کے اپنے مطالبات کی فہرست مرتّب کی تھی‘ انہیں دیکھ کر بیک نظر معلوم کیا جا سکتا تھا‘ کہ ان اصولوں پر بنے ہوئے نظامِ حکومت میں جو کچھ ملتا ہے‘ اکثریت کو ملتا ہے‘ اقلیت کو اگر ملتا بھی ہے‘ تو خیرات کے طور پر‘ دست نگر ہونے کی حیثیت سے‘ نہ کہ حق کے طور پر حریف اور مد مقابل اورشریک کی حیثیت سے یہ ایک ظاہر وبا ہر حقیقت تھی‘ مگر مسلمانوں نے اس کی طرف سے جانتے بوجھتے آنکھیں بند کر لیں‘ اور اس دوہری حماقت کا ارتکاب کیا کہ ایک طرف تو نظامِ حکومت کے لیے مغرب کے انہی جمہوری اصولوں پر راضی ہوگئے‘ اور دوسری طرف خود اپنی طرف سے تقسیم ملک کا یہ اصول پیش کیا کہ جہاں ہم اکثریت میں ہیں وہاں ہم حاکم اور تم محکوم ہو‘ اور جہاں تم اکثریت میں ہووہاں تم حاکم اور ہم محکوم ہوں۔کئی سال کی تلخ اور خون ریز کش مکش کے بعد اب یہ مرکب حماقت ’’کامیابی‘‘ کے مرحلے میں پہنچ گئی ہے‘ اور جس چیز کے لیے اقلیت کے صوبوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان خود لڑ رہے تھے وہ حاصل ہوا چاہتی ہے‘ یعنی اکثریت کی آزاد وخود مختار حکومت جس میں وہ بحیثیت ایک قوم کے محکوم ہوں گے‘ اور محکوم بھی اس اکثریت کے جس سے وہ ابھی کل تک قومی جنگ لڑتے رہے تھے۔
جو اسٹیٹ اب مسلم اقلیت کے علاقوں میں بن رہا ہے‘ وہ ہندوئوں کا قومی اسٹیٹ ہوگا۔ قومیّت وجمہوریت کے‘ جن نظریات کو مسلمان اور ہندویکساں تسلیم کر کے اپنی قومی تحریکوں کی اساس بنا چکے ہیں‘ ان کی بنیاد پر کوئی قومی اسٹیٹ اپنے اندر کسی دوسری ایسی قوم کے وجود کو گوارا نہیں کرتا‘ جو حکمران قومیّت سے الگ اپنی مستقل قومیّت کی مدعی ہو‘ اور پھر اس قومیّت کے دعوے کے ساتھ اپنے مخصوص قومی مطالبات بھی رکھتی ہو۔ یہ چیز صرف اسی وقت تک چل سکتی تھی‘ جب تک ملک میں عملاً اقتدار ایک بیرونی قوم کاتھا اور ہندو اور مسلمان دونوں اس کے محکوم تھے۔ صرف اسی وقت یہ ممکن تھا‘ کہ اقلیت بھی اکثریت کی طرح اپنی الگ قومیّت کا دعویٰ کرے‘ اور کم وبیش اپنے کچھ مستقل حقوق منوا لے۔ مگر جب جمہوری اصول پر اہلِ ملک کی آزاد حکومت بن جائے گی‘ تو ہندو ہندستان اکثریت کا قومی اسٹیٹ بن کر رہے گا ‘اور اس میں کسی اقلیت کی جداگانہ قومیّت اور مخصوص قومی مطالبات کے لیے گنجائش نہ ہوگی۔قومی اسٹیٹ ایسی کسی قومیّت کو تسلیم کر کے اس کے مطالبے کبھی پورے نہیں کیا کرتا‘ بلکہ وہ پہلے تو یہ کوشش کرتا ہے‘ کہ اسے تحلیل کر کے اپنے اندر ہضم کر لے‘ پھر اگر وہ اتنی سخت جان نکلتی ہے‘ کہ ہضم نہ ہوسکے‘ تو اسے دبا دینا چاہتا ہے‘ تاکہ جدا گانہ قومی وجود اور اس کی بنا پر مستقل قومی مطالبوں کی آواز بلند ہونے ہی نہ پائے‘ اور بالآخر اگر وہ دبائو کے نیچے بھی چیخے ہی چلی جائے‘ تو پھر قومی اسٹیٹ اسے باقاعدہ فنا کرنے کی کوشش شروع کر دیتا ہے۔ یہی کچھ ہندوئوں کے قومی اسٹیٹ میں مسلم اقلیت کو پیش آنے والا ہے‘ اس کے سامنے بھی عملاً یہی تین راستے پیش کیے جائیں گے۔
یا تو اپنی جدا گانہ قومیّت کے دعوے اور اس کی بنا پر مستقل حقوق کے مطالبے سے دستبردار ہوکر اسٹیٹ کی قومیّت میں جذب ہوجائے۔
یا اگر وہ اس کے لیے تیار نہ ہو‘ تو اسے ہر قسم کے حقوق سے محروم کر کے شُودروں اور اچھوتوں کی سی حالت میں رکھا جائے۔
یا اس پر استیصال کا پیہم عمل جاری کر دیا جائے‘ یہاں تک کہ قومی اسٹیٹ کے حدودمیں اس کا نام ونشان باقی نہ رہے۔
یہ لازمی نتیجہ ہے مغربی طرز کے ایک جمہوری نظام میں قومیّت کی اساس پر اپنی سیاسی پالیسی کی عمارت اُٹھانے کا‘ بصیرت کی آنکھیں اس نتیجہ کو اسی وقت دیکھ سکتی تھیں‘ جب یہ پالیسی اختیار کی جا رہی تھی‘ اور یہ نتیجہ ابھی بہت دور تھا۔ مگر اس وقت دیکھنے سے انکار کیا گیا‘ اور دکھانے کی کوشش کرنے والوں کو دشمن سمجھا گیا۔ اب یہ نتیجہ بالکل سامنے آگیا ہے‘ اور افسوس کہ اسے دیکھنا ہی نہیں بھگتنا بھی پڑے گا۔
مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کے لیے‘ جو گروہ اس وقت پیش پیش ہیں ان میں سے ایک ’’نیشنلسٹ‘‘مسلمانوں کا گروہ ہے‘ جو آنے والے دور میں وہی پارٹ ادا کرے گا‘ جو انگریزی دور میں خان بہادر طبقہ ادا کر چکا ہے۔ یہ گروہ مسلمانوں کو دعوت دیگا کہ پہلی صورت کو برضا ورغبت قبول کر لیں یعنی اپنی قومی انفرادیت کے دعوے اور مخصوص حقوق کے مطالبے سے دست بردار ہوکر سیدھی طرح اسٹیٹ کی قومیّت میں مد غم ہوجائیں۔ اس گروہ کی بات اب تک تو نہیں چلی ہے‘ مگر مجھے اندیشہ ہے‘ کہ آگے بہت کچھ چلنے لگے گی‘ کیونکہ آئندہ یہی لوگ سرکار رس ہوں گے‘ انہی کی مدد سے نوکریاں اور ٹھیکے اور تعلیم گاہوں کے گرانٹ وغیرہ ملا کر یں گے‘ اور یہی حکمران قوم اور محکوم قوم کے درمیان واسطہ ووسیلہ بنیں گے۔ ان کی کوششیں مسلمانوں کی ایک معتدبہ تعداد کو اس حد تک گرا دینے میں کامیاب ہوجائیں گی‘ کہ وہ خود مہاشے اور ان کی بیویاں اور بیٹیاں شریمتیاں بنیں اور لباس‘ زبان‘ معاشرت‘ خیالات‘ ہر چیز میں حکمران قوم سے اس درجہ ہمرنگ ہوجائیں’’تاکس نگوید بعدازاں من دیگرم تو دیگری‘‘جس قوم کی ایک بڑی تعداد اس سے پہلے مسٹر اور مس بن چکی ہے‘ آخر اس کے لیے اب یہ نیا تغیّر ناممکن کیوں ہونے لگا؟ خصوصاً جب کہ آئندہ روٹی اور خوش حالی اور ترقی کا انحصار اسی پر ہوگا۔ لیکن مجھے اُمید نہیں کہ مسلمان من حیث القوم اس طرح سپر ڈال دینے پر راضی ہوجائیں گے۔ قومی حیثیت سے ان کی کوشش یہی ہوگی کہ اس جذب وانجذاب کی مزاحمت کریں۔
مزاحمت کے لیے وہ ابتداً اسی گروہ کی طرف رجوع کر یں گے‘ جو اس وقت سیاسی میدان میں ان کی رہنمائی کر رہا ہے۔ مگر تجربہ بہت جلدی مسلمانوں کو بتا دے گا کہ اب اس گروہ کی سیاست پر چل کر‘ وہ سیدھے تباہی کے گڑھے کی طرف جائیں گے۔ اکثریت کے قومی جمہوری اسٹیٹ میں رہ کر اگر اقلیت قومی جنگ لڑے گی‘ تو ہر طرف سے پیسی اور کچلی جائے گی زندگی کے ہر شعبے سے نکالی جائے گی‘ ہر قسم کے حقوق سے محروم کی جائے گی اچھوتوں سے بھی بدتر حالت میں گرا دی جائے گی‘ اور پھر بھی اگر اس کی آواز اُٹھتی رہی تو اسے اس طرح مٹایا جائے گا‘ کہ اس پر نہ زمین روئے گی نہ آسمان۔
کہا جاتا ہے‘ کہ اقلیت کے مسلمانوں کو اس انجام سے بچانے کے تین ذریعے ہیں:۔
ایک یہ کہ پاکستان کی ریاست ہندستان کی ریاست سے سودا کرے گی‘ یعنی وہ کہے گی کہ پاکستان کی ہندو اقلیت سے ہم وہی سلوک کریں گے‘ جو تم ہندستان کی مسلمان اقلیت سے کرو گے‘ اور اس طرح مسلمانوں کو وہی آئینی تحفظات مل جائیں گے‘ جوہندو پاکستان میں ہندوئوں کے لیے چاہیں گے۔ لیکن آغاز کا ر میں یہ تجویز خواہ کیسی ہی خوش آئند نظر آئے‘ مجھے یقین ہے‘ اورتجربہ بتا دے گا کہ آگے چل کر یہ قطعاً ناکام ہوگی۔{ FR 2553 }ہم صاف دیکھ رہے ہیں‘ کہ ہندستان اور پاکستان دونوں مغربی طرز سیاست کی راہ پر چلے جا رہے ہیں۔اس طرز سیاست کے جو نتائج مغرب میں نکل چکے ہیں‘ وہی یہاں نکل کر رہیں گے۔ اقلیت کی جدا گانہ قومیّت اور قومی حقوق اور مطالبوں کو نہ مسلمانوں کا قومی اسٹیٹ زیادہ مدّت تک برداشت کر سکے گا‘ اور نہ ہندوئوں کا قومی اسٹیٹ۔ خصوصاً جب یہ دونوں اقلیتیں‘ اپنی اپنی ہم قوم بیرونی ریاست کی طرف استمداد کا ہاتھ پھیلائیں گی‘ اور اپنے ملک کی حکومت کے بجائے بیرونی حکومت سے وفاداری‘ دلچسپی اور محبت کی پینگیں بڑھائیں گی‘ تو ان کا وجود ہندوستان اور پاکستان دونوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہوجائے گا۔ ابتدا میں خواہ کیسے ہی اطمینان بخش آئینی تحفظا ت دونوں نے ایک دوسرے کی اقلیتوں کو دئیے ہوں رفتہ رفتہ عملاً ان کو ختم کر دیا جائے گا‘ روز مرہ کے برتائو میں اقلیتوں کا استیصال کرنے والی پالیسی چل پڑے گی‘ دونوں حکومتیں اپنی اپنی قومی اقلیتوں کی خاطر ایک دوسرے پر دبائو ڈالنے کی کوشش کریں گی‘ اور بالآخر یا تو جنگ تک نوبت پہنچے گی۔ جس کے نتیجہ کے متعلق پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی۔ یا دونوں کو اس پرراضی ہونا پڑے گا کہ ایک حکومت ہندوئوں کے ساتھ اور دوسری حکومت مسلمانوں کے ساتھ جو برتائو چاہے کرے۔
دوسرا ذریعہ تحفظ یہ بتایا جاتا ہے‘ کہ اقوام متحدہ کے نظام(united nations organisation)سے اس معاملہ میں مدد لی جائے گی۔ لیکن جو لوگ اس نظام کے مزاج کو کچھ بھی جانتے ہیں‘ وہ بآسانی اندازہ کر سکتے ہیں‘ کہ اس ذریعہ تحفظ کے بل پر کوئی دبی ہوئی قوم کتنے دن جی سکتی ہے‘ اوّل تو اقوام متحدہ کے نظام سے مرافعہ کسی ایسے ہی معاملے میں کیا جا سکتا ہے‘ جس میں کوئی بہت بڑی اور نمایاں ظالمانہ کارروائی کی گئی ہو۔ روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے معاملات خواہ مجموعی طور پر مل کر کتنا ہی بڑا ظلم بن جائیں‘ بہرحال اس نظام میں قابلِ مرافعہ قرار نہیں پا سکتے۔ نہ ان بظاہر معصوم پالیسیوں کو وہاں زیر بحث لایا جا سکتا ہے‘ جو مغربی معیار کے لحاظ سے بالکل برحق ہوتی ہیں‘ مگر ہمارے نقطۂ نظر سے مسلمانوں کی حیاتِ دینی وملی کو بالکل ختم کر دینے والی ہیں۔ پھر اس نظام نے اب تک تو یہ ثابت نہیں کیا ہے‘ کہ وہ بالکل بے لاگ انصاف کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس کے ارکان صرف یہی نہیں دیکھتے کہ معاملہ بجائے خود کیسا ہے‘ اور اس میں انصاف کا تقاضا کیا ہے‘ بلکہ یہ بھی دیکھتے ہیں‘ کہ شکایت جس حکومت کے خلاف کی گئی ہے اس سے ہماری اپنی حکومتوں کے تعلقات کیسے ہیں‘ اور آیا اسے مطعون کرنا ہماری حکومتوں کی مصلحت کے مطابق ہے‘ یا خلاف۔ اس لحاظ سے کون کہہ سکتا ہے‘ کہ آئندہ زمانہ میں نظام اقوام متحدہ کے اندر ہندستان اور پاکستان کی اِضافی (relative) پوزیشن کیا ہوگی‘ اور کس کی بات وہاں زیادہ وزن دار ہوگی۔
تیسرا ذریعہ ہجرت اور تبادلہ آبادی کا بیان کیا جاتا ہے‘ ہجرت کا مطلب یہ ہے‘ کہ مسلمان خود ہندستان چھوڑ چھوڑ کر پاکستان میں جا بسنے شروع ہوں۔ اور تبادلہ آبادی کا مطلب یہ ہے‘ کہ دونوں حکومتیں باہمی قرار داد سے ایک نظم کے ساتھ اپنی اپنی ہم قوم آبادی کو اپنے علاقے میں منتقل کر لیں۔ ان میں سے پہلی صورت قابلِ عمل ہے‘ مگر وہ ہندستان کے مسلمانوں کامسئلہ حل نہ کر سکے گی۔ کیونکہ اس صورت میں وقتاً فوقتاً صرف کھاتے پیتے لوگ یا بہت برداشتہ خاطر افراد وخاندان یا کچھ من چلے قسمت آزما لوگ ہی عمل کر سکیں گے‘ مسلمانوں کی عام آبادی جہاں اب بس رہی ہے وہیں بستی رہے گی‘ اور اس کا کسی بڑے پیمانے پر خود مہاجرت کرنا ممکن نہ ہوگا۔ اِلاّ یہ کہ کسی وقت خدا نخواستہ وہ حالات پیش آجائیں‘ جو بہار وغیرہ میں پیش آئے ہیں۔ رہی دوسری صورت‘ تو مجھے اُمید نہیں کہ آئندہ پچاس سال تک ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں ساڑھے چار کروڑ مسلمانوں اور ڈھائی تین کروڑ غیرمسلموں کو ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر منتقل کر نے کا انتظام کر سکیں گی‘ خواہ وہ دل سے ایسا کرنا چاہیں تا ہم اگر کوئی اس اُمید پر جینا چاہتا ہو‘ تو ضرور جِیے۔
یہ ہے ان ذرائع کی حقیقت‘ جن کی بنا پر اُمید کی جا رہی ہے‘ قوم پرستانہ سیاست جس طرح انگریزی اقتدار کے دور میں چلتی رہی ہے اسی طرح ہندستان کی قومی حکومت بن جانے کے بعد بھی چل سکے گی۔ آج مسلمان اپنی جہالت اور کم نگاہی کی وجہ سے ان حقائق کو نہیں سمجھ رہے ہیں۔مگر وہ وقت قریب ہے‘ جب یہ حقائق خود اپنے آپ کو ان کی سمجھ میں اتار دیں گے‘ اور اس وقت لامحالہ ان کو تین راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔
ایک یہ کہ ’’نیشنلسٹ‘‘ مسلمانوں کی پالیسی قبول کر کے ہندو قومیّت میں جذب ہونے پر تیار ہوجائیں۔
دوسرے یہ کہ ’’مسلم قوم پرستی‘‘ کی موجودہ روش پر بدستور چلتے رہیں‘ یہاں تک کہ مٹ جائیں۔
تیسرے یہ کہ قوم پرستی اور اس کے طور طریقوں اور اس کے دعووں اور مطالبوں سے تو بہ کر کے‘ اسلام کی رہنمائی قبول کر لیں‘ جس کا تقاضا یہ ہے‘ کہ مسلمان اپنی قومی اغراض کے لیے سعی وجہد کرنے کے بجائے اپنی تمام کوششوں کو صرف اسلام کی اصولی دعوت پر مرکوز کر دیں‘ اورمن حیث القوم اپنے اخلاق‘ اعمال اور اجتماعی زندگی میں اس کی شہادت دیں‘ جس سے دنیا یقین کر سکے کہ فی الواقع یہ وہ قوم ہے‘ جو اپنی ذات کے لیے نہیں‘ بلکہ محض دنیا کی اصلاح کے لیے جینے والی ہے‘ اور درحقیقت جن اصولوں کو یہ پیش کر رہی ہے وہ انسانی زندگی کو انفرادی اور اجتماعی طور پر نہایت اعلیٰ وارفع اور اصلح بنا دینے والے ہیں۔
یہی آخری راہ مسلمانوں کے لیے پہلے بھی راہ نجات تھی‘ اور اب بھی اسی میں ان کے لیے نجات ہے۔ میں کئی سال سے ان کو اس کی طرف بلا رہا ہوں۔ اگر یہ قوم پرستانہ سیاست کی راہ اختیار کرنے کے بجائے اس راہ کو اختیار کرتے اور جس طرح پچھلے دس سال میں انہوں نے اپنی پوری قومی طاقت کو اس راہ پر لگایا ہے اسی طرح کہیں اس راہ پر لگایا ہوتا‘ تو آج ہندستان کی سیاست کا نقشہ بالکل بدلا ہوا ہوتا‘ اور دو چھوٹے چھوٹے پاکستانوں کی جگہ سارے ہندستان کے پاکستان بن جانے کے امکانات ان کی آنکھوں کے سامنے ہوتے لیکن اس وقت میری دعوت انہیں دشمن کی دعوت یا ایک دیوانے دوست کی دعوت محسوس ہوئی اب واقعات انہیں گھیر کر ’’نا چار مسلمان شو‘‘ کے مقام پر خود کھینچ لائے ہیں۔ اب ان کے لیے زندگی کی راہ صرف ایک ہی رہ گئی ہے‘ اور وہ اسلام کی اصلی اور حقیقی اور مخلصانہ اسلام کی راہ ہے۔ دوسری راہیں زندگی کی نہیں‘ بلکہ خود کشی یا سزائے موت یا طبعی وفات کی راہیں ہیں۔
یہ وقت جس کے آنے کی میں خبر دے رہا ہوں‘ اب بالکل قریب آگیا ہے‘ جو نہی کہ ہندوستان کی سیاست کا موجودہ دور ختم ہوکر نیا دور شروع ہوا‘ اقلیت کے علاقوں میں مسلمانوں کو اپنی واقعی یاس انگیز پوزیشن کا عام احساس شروع ہوجائے گا۔ یہ ایک بڑی تحریک کے انہدام کا وقت ہوگا‘ جو تحریک خلاف کے انہدام سے کئی گنا زیادہ خطر ناک ہوگا۔ تحریک خلافت کی ناکامی نے مسلمانوں پر جو جمودو انتشار طاری کیا تھا‘ وہ اگر چہ نہایت نقصان دہ تھا مگر مہلک نہ تھا۔ اب اگر وہ کیفیت کہیں‘ پھر طاری ہوئی‘ تو قطعاً مہلک ثابت ہوگی۔ اپنے اس وقت تک کے رہنمائوں سے مایوس ہوکر‘ کوئی صحیح رہنمائی اور کوئی شعاع اُمید اگر مسلمانوں نے نہ پائی تو ان پر گھبراہٹ اور طوائف الملوکی مسلّط ہوجائے گی۔ کوئی نیشنلسٹ مسلمانوں کی طرف دوڑ یگا‘ کوئی کمیونسٹ گروہ کی طرف لپکے گا‘ کوئی ہجرت کی تیاری کرے گا‘ کوئی مایوسی کی حالت میں ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھ جائے گا‘ اور کوئی دل برداشتگی کے عالم میں یا محض احمقانہ جھنجھلاہٹ کی بنا پر ہاری ہوئی قومی جنگ کو پھر تازہ کر کے نہ صرف اپنے اوپر بلکہ اپنے ہزاروں لاکھوںبے گناہ بھائیوں پر بھی‘ تباہی کا طوفان اُٹھا لائے گا۔ اس نازک وقت کے لیے ابھی سے ایک ایسا منظم گروہ تیار رہنا چاہئے‘ جو ہوش میں آنے والے مسلمانوں کے سامنے بروقت صحیح راہِ عمل پیش کر سکے‘ ان کی مائل بانتشار قوّتوں کو غلط کاریوں اور خام کاریوں سے بچا کر‘ ایک روشن نصب العین کے گرد سمیٹ سکے‘ اور ان کو یاس کے بعد حقیقی کا میابیوں کی بشارت دے سکے۔ میری دعا ہے‘ کہ آپ ہی کا یہ گروہ اس خدمت کے انجام دینے کی توفیق پائے‘ اور اس وقت کے آنے سے پہلے اس حد تک طاقت ور اور منظم اور مستعد ہوجائے کہ یہ خدمت انجام دے سکے۔
اب میں چاہتا ہوں کہ آپ ذرا ہندو ہندو ستان کی اکثریت کے مستقبل کا بھی جائزہ لیں۔ میں آپ لوگوں سے اکثر کہتا رہا ہوں کہ اسلامی انقلاب برپا کرنے کا جتنا امکان مسلم اکثریت کے علاقوں میں ہے‘ قریب قریب اتنا ہی امکان غیر مسلم اکثریت کے علاقوں میں بھی ہے۔ میری اس بات کو بہت سے لوگ ایک غرقِ تخیل آدمی کا خواب سمجھتے ہیں‘ اور بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں‘ کہ غالباً یہ تصوف کا کوئی نکتہ ہے‘ جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس لیے کہ ان کو صریح طور پر یہ نظر آرہا ہے‘ کہ غیر مسلم اکثریت مسلمانوں کے مقابل میں ایک مضبوط متحد اور منظم بلاک بنی ہوئی ہے۔ اس کے اندر کہیں کوئی خلل یا شگاف نہیں ہے ‘جہاں سے اس کے ٹوٹنے کا امکان ہو۔اس پر قوم پرستی کا نشہ پوری طرح مسلّط ہے۔ ہندو انڈیا کا پورا نظامِ حکومت نہایت مستحکم طریقہ سے‘ اس کے ہاتھوں میں آچکا ہے‘ اور جو تھوڑ سی کسر باقی ہے وہ عن قریب پوری ہوتی جاتی ہے۔ اس حالت کو دیکھتے ہوئے ان کی سمجھ میں نہیں آتاکہ آخر یہاں اسلامی انقلاب کا راستہ کدھر سے نکل آئے گا۔ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ مضبوط بلاک جو آپ کے سامنے نظر آرہا ہے‘ اور بظاہرٹھوس بھی محسوس ہوتا ہے‘ اس کی ساخت کو ذرا سمجھنے کی کوشش کیجیے‘ کہ یہ کن اجزا سے مرکب ہے اور ان کی پیوستگی کی نوعیت کیا ہے۔
ہندستان کے ان کروڑوں غیر مسلموں کو جس چیز نے متحد اور منظم کیا ہے‘ وہ کوئی مستقل نظریۂ حیات‘ کوئی مضبوط فلسفہ زندگی اور کوئی شعوری نصب العین نہیں ہے‘ کہ اس کا متزلزل ہونا اور بدل جانا مشکل ہو‘ بلکہ وہ محض ایک قوم پرستی کا جذبہ ہے‘ جو ایک طرف اجنبی اقتدار کے خلاف اور دوسری طرف مسلم قوم پرستی کے مقابلہ میں بھڑکا یا گیا تھا۔ قوم پرستی کا فطری خاصہ یہ ہوتا ہے‘ کہ وہ صرف کسی مخالف ومزاحم اور مبار ز طاقت ہی کے مقابلہ میں پیدا ہوا کرتی ہے‘ اس کی شدت مزاحمت ہی سے بھڑکتی ہے‘ اور جب تک وہ طاقت مقابلہ میں موجود ہواسی وقت تک باقی رہتی ہے۔ جونہی کہ مزاحمت ختم ہوئی اور قوم پرستی کا مقصد حاصل ہوا‘ یہ جذبہ آپ سے آپ دب جاتا ہے‘ اندرونی زندگی کے دوسرے اہم تر مسائل لوگوں کی توجہات کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں‘ اور وہ عناصر جو محض قوم پرستی کے جذبہ سے باہم پیوستہ ہوئے تھے بکھرنے لگتے ہیں۔ ہندو قوم پرستی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ یہ جن دو پائوں پر کھڑ ی ہوئی تھی‘ ان میں سے ایک …یعنی انگریزی اقتدار سے نجات پانے کا جذبہ…عنقریب گرا چاہتا ہے‘ اس کے بعد صرف دوسرا پائوں باقی رہ جاتا ہے۔ یعنی مسلم قوم پرستی کے مقابلہ کا جذبہ سو پاکستان کے بن جانے کے بعد اس کا قائم رہنا بھی مشکل ہے‘ بشرطیکہ ہندو علاقے کی مسلمان اقلیت اپنے مسئلے کو حل کرنے کی کوئی ایسی راہ نکال لے جس سے نہ تو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی ونزاع کے اسباب پیدا ہوں ‘اور نہ ہندستان کے اندر مسلم قوم پرستی کے دعوئوں اور مطالبوں کو دبانے کے لیے ہندو قوم پرستی کے مشتعل ہونے کا کوئی موقع باقی رہے۔ یہ حکمت اگر خدا نے مسلمانوں کو عطا کر دی تو آپ دیکھیں گے کہ نیشنلسٹ لیڈر اور قومی ومذہبی عصبیتوں کے مبلغین مصنوعی خطرے اور جعلی ہوّلے پیش کرکر کے موجودہ قوم پرستی کو زندہ اور مشتعل رکھنے کی خواہ کتنی ہی کوشش کریں‘ وہ بہرحال مر کے رہے گی‘ اور وہ مختلف ومتضاد عناصر جن کی ترکیب سے یہ قوم پرست بلاک بنا ہے‘ بکھر کر رہیں گے۔ اس لیے کہ اس بلاک کے اندر خود اس کے اپنے عناصر ترکیبی کے درمیان جو تمدّنی‘ معاشرتی بے انصافیاں جو معاشی جفا کاریاں‘ جو اغراض ومقاصد کی کشاکشیں‘ اور جو طبقاتی منافرتیں موجود ہیں‘ وہ بیرونی خطرات کے ہٹتے ہی‘ اپنے آپ کو بزور محسوس کرائیں گی‘ اور ملک کے آئندہ نظام‘ اختیارات کی تقسیم‘ حقوق کے تعین اور سماجی نظام کی تشکیل کے مسائل لامحالہ ان کو آپس میں پھاڑ دیں گے۔ اس تفرقہ کے لیے ایسے طاقت ور اور فطری اسباب موجود ہیں‘ کہ اسے رونما ہونے سے کوئی چیز روک نہیں سکتی۔
ہندستان کا موجودہ سماجی نظام کچھ اس طرز پر بنا ہے‘ کہ وہ بے شمار طبقات پر مشتمل ہے‘ جن میں سے بعض بعض پر چڑھے ہوئے‘ اور بعض ان سے دبے ہوئے ہیں۔ ان طبقوں کے درمیان پیدائشی برتری وپستی‘ اور اٹل امتیازات کا تصوّر گہری جڑوں کے ساتھ جما ہوا ہے‘ اور اس کو تنا سخ کے فلسفے سے اور زیادہ مضبوط کر دیا گیا ہے۔ پست طبقوں کے حق میں یہ یقین پیدا کیا گیا ہے‘ کہ وہ پستی ہی کے لیے پیدا ہوئے ہیں‘ اور یہ ان کے پچھلے کرموں کا لازمی نتیجہ ہے‘ جسے انہیں بہرحال بھگتا ہی پڑے گا‘ جسے بدلنے کی ہر کوشش بے سود ہے۔ اور اونچے طبقوں کے حق میں یہ اذعان پیدا کیا گیا ہے‘ کہ وہ پیدا ہی برتری کے لیے ہوئے ہیں۔ برتری ان کا حق اور ان کے پچھلے کرموں کا نتیجہ ہے‘ اور اس کو بدلنے کی کوشش قانون قدرت کے خلاف ہے۔ اس سماجی نظام میں ہر اوپر کا طبقہ نیچے والے طبقہ کے سر پر پائوں رکھے کھڑا ہے‘ اور اسے روند رہا ہے۔ معاشرت کے ہر پہلو میں اونچ اور نیچ کا امتیاز ہے۔ قدم قدم پر بے شمار بے انصافیاں ہیں۔ تمدّن کے ہر گوشہ میں امتیاز کا برتائو ہے خواہ کھانے پینے کا معاملہ ہویا رہن سہن کا‘ یا شادی بیاہ کا‘ اور اس امتیاز میں صرف تفریق ہی کا نہیں‘ بلکہ تحقیر اورتذلیل کا عنصر بھی شامل ہے۔ حدیہ ہے‘ کہ اونچے طبقے اس بات کو بھی گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ کہ نیچے طبقوں کے مرد اور عورتیں ان کے سے لباس اور زیور پہن لیں‘ حال ہی کی بات ہے‘ کہ راجپوتا نہ کے گوجروں اور جاٹوں نے اس بات پر ہنگامہ برپا کر دیا تھا‘ کہ چما ر وغیرہ نیچے طبقوں نے …جو جنگ کی وجہ سے خوش حال ہوگئے ہیں‘ اور کچھ باہر کی ہوا بھی کھا آئے ہیں۔ اپنی عورتوں کو ان کی عورتوں کے سے لباس اور زیور پہنانے شروع کر دئیے ہیں‘ باوجود یکہ یہ جاٹ اور گوجر خود بھی اپنے ساتھ راجپوتوں کے ایسے ہی سلوک کی تلخی محسوس کرتے ہیں‘ مگر پھر بھی انہوں نے اس بات کو اپنی توہین قرار دیا‘ کہ چمار اُٹھ کر معاشرت میں ان کے ہم سر بنیں۔ چنانچہ مجموعی طور پر ان کی برادری نے زور لگانا شروع کیا کہ ان غریبوں کو زبردستی اسی پستی میں پھینک دیں جس سے وہ اُٹھنا چاہتے ہیں۔
معاشی نظام بڑی حد تک اسی سماجی نظام کی ترتیب پر قائم ہے‘ اور اس کے قدیم ظالمانہ پہلوئوں پر جدید سرمایہ داری کی خصوصیات کا اور اضافہ ہوگیا ہے۔ جو طبقے قدیم اجتماعی نظریات اور مابعد الطبیعی فلسفوں (metaphysical philosophies)کی مدد سے اوپر کی سیڑھیوں پر متمکن ہوچکے ہیں‘ انہوں نے صرف اتنے ہی پر اکتفا نہیں کیا ہے‘ کہ ملک کی تمدّنی زندگی میں برتری کو اپنے لیے مخصوص کر لیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہی ملک کی دولت اور اس کے وسائل وذرائع پر بھی قابض ہوگئے ہیں‘ اور نیچے کی سیڑھیوں پر رہنے والی عام آبادی کے لیے انہوں نے زندگی بسر کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں چھوڑی ہے‘ کہ وہ ذلت کے ساتھ ان کی خدمت اور مزدوری کریں۔ اس معاشی نظام میں محروم اور محنت پیشہ طبقوں کے ساتھ جو بے انصافیاں اور زیادتیاں پائی جاتی ہیں ان کا شمار کرنا مشکل ہے۔ پھر اونچے طبقوں نے خود اپنے دائرے میں بھی ظلم و ناانصافی کی بہت سی شکلیں اختیار کر رکھی ہیں‘ جن کی بنا پر کم لوگ خوش حال اور زیادہ لوگ بدحال ہیں۔ ان کی سود خواری ان کا مشترک خاندانی جائیداد کا طریقہ (joint family system)ان کا توریثِ اولادِ اکبر کا قانون(rule of primogeniture) اور اسی طرح کے اور بہت سے طریقے ایسے ہیں‘ جو دولت اور اس کے ذرائع کو سمیٹ کر چند لوگوں کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں‘ اور بہت سوں کو محروم اور دست نگر بنا دیتے ہیں۔ انہی طریقوں سے جن ہاتھوں میں دولت سمٹی ہے وہ اب جدید سرمایہ داری کے ڈھنگ اختیار کر کے ملک کی صنعت‘ تجارت اور مالیات پر مسلّط ہوئے ہیں‘ اور ہوتے جا رہے ہیں۔
اب جو سیاسی نظام بنایا جا رہا ہے اس کی تصنیف میں کاغذ پر تو بلا شبہ جمہوریت‘ اجتماعی انصاف (social justice)مساوات اور مواقع کی یکسانی (equality of opportunities)کے بڑے بڑے نفیس تصوّرات بہت ستھری اور دلکش زبان میں رقم کیے جا رہے ہیں‘ لیکن ظاہر ہے‘ کہ ان الفاظ کی اصل قیمت ان کے تلفظ میں نہیں ان پر واقعی عمل درآمد میں ہے‘ عملاً جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے‘ کہ اسی سیاسی نظام کی تشکیل‘ تعمیر اور تنقید کے سارے کام پر وہی طبقے حاوی ہیں‘ جو سماجی اور معاشی نظام کی اوپر والی سیڑھیوں پر تشریف فرما ہیں… نہیں‘ بلکہ پیدا ہوئے ہیں… اور تجربہ نے ہمیں بتا دیا ہے‘ کہ ان طبقوں کو خدا نے سب کچھ دیا ہے‘ مگر بڑا دل‘ وسیع ظرف اور فراخ حوصلہ نہیں دیا۔ ان کی تنگ دلی اب تک بھی ہندستان کو بہت کچھ نقصان پہنچا چکی ہے‘ اور آئندہ بھی اسے دیکھتے ہوئے مشکل سے یہ توقع کی جا سکتی ہے‘ کہ یہ لوگ اپنی سیاسی طاقت کو واقعی انصاف قائم کرنے میں استعمال کریں گے۔
یہ حالات اپنے اندر اتنی تلخیاں رکھتے ہیں‘ جنہیں ملک کی عام آبادی شدت کے ساتھ محسوس کر رہی ہے۔ اب تک قوم پرستی کے نشے نے اس احساس کو بڑی حدتک دبائے رکھا تھا‘ اور لوگ اس اُمید پر جی رہے تھے‘ کہ ملک کا انتظام جب ہمارے ہاتھ میں آجائے گا‘تو یہ بے انصافیاں ختم ہوجائیں گی۔ اب انتظام کے اختیارات جب فی الواقع اہلِ ملک کی طرف منتقل ہوجائیں گے‘ تو یہ سوال زیادہ دیر تک نہ ٹل سکے گا‘ کہ ان اختیارات کو آئندہ کس طرح استعمال کیا جائے‘ جس سے ملک میں حقیقی انصاف قائم ہو۔ ہندوستان کے مستقبل کی باگیں اس وقت جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں وہ ہندو کلچر کی سابق روایات کے ساتھ مغربی یورپ اور امریکہ کے طریق زندگی اور کچھ سوشل ازم کا جوڑ لگاتے نظر آتے ہیں۔ یہ میرا اندازہ اگر صحیح ہے‘ تو اس طرح سے وہ ایک نمائشی جمہوریت‘ ایک ظاہری مساوات اور ایک نظر فریب عدل قائم کرنے میں تو ضرور کامیاب ہوجائیں گے‘ مگر اس کی تہہ میں بدستور وہی بے انصافیاں‘ وہی ناہمواریاں اور وہی تفریقیں بر قرار رہیں گی ‘جو اس وقت پائی جاتی ہیں‘ کیونکہ تفریق وامتیاز‘ ہندو کلچر کی رگ رگ میں پیوست ہے‘ جس کے ہوتے کسی حقیقی جمہوریت کا قیام غیر ممکن ہے‘ اور اس کے ساتھ مغربی نظریات کا جوڑ لگنے سے اس کے سوا کچھ حاصل ہونے کی اُمید نہیں کی جا سکتی‘ کہ اونچے طبقوں کی برتری وسرمایہ داری کو الیکشنوں اور ووٹوں کے ذریعہ سے سند جو از مل جائے۔ اسی لیے یہ امر قریب قریب یقینی نظر آتا ہے‘ کہ یہ لوگ بہت جلدی ہندستان کی عام آبادی کو مایوس کر دیں گے۔ ان کے ہاتھوں انصاف قائم نہ ہوسکے گا‘ اور کچھ زیادہ دیر نہ گزرنے پائے گی‘ کہ ہندستانی عوام‘ کسان‘ مزدور‘ اور خود اونچے طبقہ کے محروم لوگ‘ کسی دوسرے منصفانہ نظام کی طلب میں بے چین ہونے لگیں گے۔
اشتراکی گروہ اسی صورت حال سے فائدہ اُٹھانے کی تیاریاں کر رہا ہے‘ جونہی کہ موجودہ قوم پرستی اپنے مدعا کو پہنچنے کے بعد مضمحل ہوئی وہ اسی طبقاتی خلل اور اسی تصادمِ اغراض کے شگافوں میں سے اپنا راستہ نکالنے کی کوشش کرے گا‘ اور عام باشندوں کو انصاف کی اُمیدیں دلا کر سیاسی اقتدار حاصل کرنا چاہے گا۔ مگر اس گروہ کے پاس ان بے انصافیوں کو ختم کرنے کے لیے کوئی ایسا پروگرام نہیں ہے‘ جو خود ظلم سے بے انصافی سے‘ کشت وخون اور فساد سے اور بالآخر جباری وقہاری سے پاک ہو۔ وہ ہندستان کو موجودہ فرقہ وارانہ منافرت اور نزاع کی جگہ طبقہ وارانہ منافرت اور نزاع کا تحفہ دے گا۔ اب تک جہاں ہندو اور مسلمان کے جھگڑے کی بنا پر لوگ ایک دوسرے کے سر پھاڑتے اور گھر جلاتے رہے ہیں وہاں اب روٹی کے جھگڑے کی بنا پر وہی لوگ کشت وخون کرنے لگیں گے۔ ایک طبقہ دوسرے طبقے کے خلاف اسی طرح نفرت اور غصے سے بھڑک اُٹھے گا‘ جس طرح آج ایک فرقہ دوسرے فرقے کے خلاف بھڑکا ہوا ہے۔ فرقہ پرستی اور قوم پرستی کی جگہ طبقاتی مفاد کی پرستاری لے لے گی‘ اور انصاف کے حقیقی جذبہ سے دل جس طرح آج قومی جنگ کے زمانے میں خالی ہیں اسی طرح اس وقت طبقاتی جنگ کے زمانہ میں بھی خالی ہوں گے۔ بر سر اقتدار طبقے محروم طبقوں کو محروم رکھنے کے لیے لڑیں گے‘ اور محروم طبقے ان کی جگہ لے کر اُلٹا انہیں محروم کر دینے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائیں گے۔ اس طرح ہندستان ایک مدّت تک امن کی صورت کو تر ستارہے گا‘ اور آخر کار اگر خدانخواستہ اشتراکی انقلاب کامیاب ہوگیا‘ تو مزید ایک طویل مدّت تک یہاں روس کی طرح اونچے طبقوں کو ان کی زمینوں‘ جائیدادوں اور کارخانوں سے بے دخل کرنے کے لیے سخت کشت و خون اور ظلم وجور کا بازار گرم رہے گا۔ پھر اشتراکی نظام قائم ہوجانے کے بعد ویسی ہی ڈکٹیٹر شپ یہاں بھی قائم ہوگی‘ جیسی روس میں ہے۔ اسی طرح ملک کی پوری آبادی کو ایک جابرانہ اور ہمہ گیر (totalitarian)اقتدار کے شکنجے میں کس دیا جائے گا‘ اسی طرح لوگ زبان اور قلم اور خیال کی آزادی سے محروم ہوجائیں گے‘ اسی طرح تمام لوگوں کا رزق چند لوگوں کے ہاتھوں میں آجائے گا ‘اور اسی طرح بندگانِ خدا کو اتنی آزادی بھی حاصل نہ رہے گی کہ اس نظام کی سختیوں سے دل برداشتہ ہوں‘ تو کچھ چیخ پکار کر لیں یا اس حالت کو بدلنے کے لیے کوئی سیاسی تنظیم اور اجتماعی کوشش کر سکیں۔ اور ان سب سے بڑھ کر اس اشتراکی انقلاب سے جو نقصان ہندوستان کو پہنچے گا‘ وہ یہ ہے‘ کہ پچھلی صدیوں کے انحطاط کے باوجود جو تھوڑی بہت روحانی اور اخلاقی قدریں ہندستان کی تہذیب میں باقی ہیں‘ وہ بھی ختم ہوجائیں گی‘ اور یہ ملک سر اسر ایک مادّہ پرست ملک بن کر رہ جائے گا۔
اس انجام سے اگر کوئی چیز ہندستان کو بچا سکتی ہے‘ تو وہ یہ ہے‘ کہ کوئی گروہ ایک ایسے نظامِ فکرو عمل کو لے کر اُٹھے‘ جس میں اعلیٰ درجہ کی اور حقیقی روحانی واخلاقی قدریں بھی ہوں‘ سچائی اور بے لاگ اجتماعی انصاف بھی ہو‘ اصلی جمہوریت… محض سیاسی ہی نہیں‘ بلکہ تمدّنی ومعاشرتی جمہوریت (social democracy)بھی ہو‘ اور تمام باشندگانِ ملک کے لیے بلا امتیاز طبقہ ونسل انفرادی واجتماعی حیثیت سے ترقی کے یکساں مواقع بھی ہوں۔ جو ایک یا چند طبقوں کے مفاد کو نہیں‘ بلکہ سب انسانوں کے مفاد کو یکساں ہمدردی اور انصاف کی نظر سے دیکھے‘ کسی کا حمایتی اور کسی کا دشمن نہ ہو‘ طبقوں اور گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکسانے اور لڑانے کے بجائے‘ ایک مبنی بر انصاف نظامِ زندگی پر انہیں متحد کرے‘ محروم طبقوں کو وہی کچھ دلائے جو ان کا فطری حق ہے‘ اور اونچے طبقوں سے صرف وہی کچھ لے‘ جو ان کے پاس ان کے فطری حقوق سے زائد ہے۔ ایسے ایک نظام کو اگر ملک کے لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے‘ اور اس کو پیش کرنے والے وہ لوگ ہوں‘ جن کی سیرت اور اخلاق پر اعتماد کیا جا سکے‘ جو خود کسی قسم کی قومی یا طبقاتی یا ذاتی خود غرضی میں مبتلا نہ ہوں‘ جن کی اپنی زندگیاں اس بات پر گواہ ہوں‘ کہ درحقیقت انہی سے انصاف کی اُمید وابستہ کی جا سکتی ہے‘ اور جن میں دیانت اور انتظامِ دنیا کی صلاحیت دونوں جمع ہوں‘ تو کوئی وجہ نہیں ہے‘ کہ ہندستان کے باشندے اس نظام کے مقابلہ میں اشتراکی انقلاب کے راستے کو ترجیح دیں۔ اشتراکی انقلاب تو ایک آپریشن ہے‘ جو مرض کے ساتھ تندرستی کے بھی ایک بڑے حصے کا استیصال کر دیتا ہے‘ اور انسان اسے صرف ایسی مجبوری کی حالت ہی میں گوارا کیا کرتا ہے‘ جب دوا سے مرض کی اصلاح ہونے کی کوئی اُمید باقی نہ رہے۔ دنیا میں جہاں بھی کسی ملک کے لوگوں نے اس آپریشن کے طریقے کو اختیار کیا ہے اسی وجہ سے کیا ہے‘ کہ ان کے سامنے ظالمانہ سرمایہ داری اور اشتراکیت کے درمیان کوئی ایسا تیسرا راستہ تھا ہی نہیں‘ جس میں وہ ان دونوں کی خرابیوں سے بچ کر انصاف پا لینے کی اُمید کر سکتے۔ اگر اس قسم کا تیسرا راستہ پیش کر دیا جائے۔جیساکہ پیش کرنے کا حق ہے‘ تو نہ ہندستان کے لوگ ایسے پاگل ہیں‘ اور نہ دنیا کے دوسرے ملکوں کی آبادی ہی کو اس قدر دیوانہ فرض کرنے کی کوئی وجہ ہے‘ کہ وہ ایک کارگردوا کو آزمانے کے بجائے خواہ مخواہ آپریشن ہی پر اصرار کریں۔
سوال یہ ہے‘ کہ آیا مسلمان یہ تیسرا راستہ پیش کر سکتے ہیں‘ یا نہیں؟اگر پیش کر سکتے ہیں‘ اور اس تیسرے راستے کا نام اسلام ہی ہے‘ تو میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ مستقبل کے ہندستان میں اشتراکیت کے بالمقابل اسلام کے لیے کامیابی کے کم از کم ۶۰فی صدی امکانات ہیں یہ مسلمانوں کی انتہائی بدقسمتی اور سخت نالائقی ہوگی‘ کہ ان کے پاس اسلام جیسا ایک کامل اور صحیح نظام موجود ہو‘ اور پھر وہ اُسے لے کر اُٹھنے کے بجائے‘ پورا میدان اشتراکیت کے لیے خالی چھوڑ دیں۔
اب میں آپ کو مختصر طور پر بتائوں گا کہ ہندستان میں اسلامی انقلاب کا راستہ ہموار کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہے۔
(1)سب سے مقدم کام یہ ہے‘ کہ اس قومی کش مکش کا خاتمہ کیا جائے‘ جو ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان اب تک برپا رہی ہے‘ میرے نزدیک یہ بات پہلے بھی غلط تھی کہ مسلمان اسلام کے لیے کام کرنے کے بجائے اپنی قومی اغراض اور مطالبوں کے لیے لڑتے رہے۔ مگر اب تو اس لڑائی کو جاری رکھنا محض غلطی نہیں‘ بلکہ مہلک غلطی اور احمقانہ خودکشی ہے۔ اب یہ نہایت ضروری ہے‘ کہ مسلمان اپنے طرزِعمل کو بالکل بدل دیں۔ یہ اسمبلیوں میں نمائندگی کے تناسب کا سوال یہ انتخابات کی دوڑ دھوپ‘ یہ ملازمتوں کے لیے کش مکش‘ اور یہ دوسرے قومی حقوق اور مطالبوں کے لیے چیخ پکار‘ آئندہ دور میں لاحاصل ہوگی‘ اور نقصان دہ بھی۔ لاحاصل اس لیے کہ اب جن لوگوں کے ہاتھ میں ہندستان کی حکومت آرہی ہے‘ وہ مخلوط انتخابات اور ملازمتوں میں صرف قابلیت کے لحاظ کا اصول مقرر کر کے‘ مسلمانوں کی جدا گانہ سیاسی ہستی کو ختم کر دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں‘ اور ان کے فیصلے کو نافذ ہونے سے کسی طرح نہیں روکا جا سکتا۔ نقصان دہ اس لیے کہ ان ’’حقوق‘‘ کے استقرار کی جتنی کوشش بھی مسلمان کریں گے وہ ہندوئوں کے قومی تعصّب کو اور زیادہ مشتعل کرے گی‘ اور اگر وہ اپنی شکایات کو رفع کرانے کے لیے پاکستان کی مدد حاصل کرنا چاہیں گے‘ تو یہ بین الاقوامی پیچیدگی اور کش مکش کا سبب بن جائے گا‘ جس سے ہندو قوم پرستی کو زندگی کی مزید طاقت مل جائے گی۔ لہٰذا اب ہمیں وسیع پیمانے پر مسلمانوں میں ایسی رائے عام تیار کرنی چاہئے‘ کہ وہ بحیثیت ایک قوم کے حکومت اور اس کے نظام سے بے رغبتی اختیار کر لیں‘ اور ہندو قوم پرستی کو اپنے طرزِعمل سے یہ اطمینان دلا دیں کہ میدان میں کوئی دوسری سیاسی قومیّت اس کے ساتھ کش مکش کرنے کے لیے موجود نہیں ہے۔ یہی ایک طریق ہے اس غیر معمولی تعصّب کو ختم کر دینے کا‘ جو اس وقت غیر مسلم اکثریت کے اندر اسلام کے خلاف پیدا ہوگیا ہے‘ اور اسی طریقہ سے غیر مسلموں کے اس اندیشے کو بھی دورکیا جا سکتا ہے‘ کہ اگر اسلام کو مزید اشاعت کا موقع دیا گیا‘ تو کہیں‘ پھر کسی علاقے کے مسلمان ایک اور پاکستان مانگنے کے لیے کھڑے نہ ہوجائیں۔
(2)دوسرا اہم کام ہمارے لیے یہ ہے‘ کہ ہم مسلمانوں میں وسیع پیمانے پر اسلام کا علم پھیلائیں‘ ان میں اسلام کی دعوت وتبلیغ کا عام جذبہ پیدا کردیں۔ اور ان کی اخلاقی وتمدّنی اور معاشرتی زندگی کی اس حد تک اصلاح کر لیں‘ کہ ان کے ہمسایہ غیر مسلموں کو خود اپنی سوسائٹی کی بہ نسبت ان کی سوسائٹی صریحاً بہتر محسوس ہونے لگے‘ اور ان میں سے جو لوگ بھی اس سوسائٹی میں شامل ہونے کے لیے آمادہ ہوں خواہ وہ کسی طبقے کے ہوں‘ ان کو بالکل مساویانہ حیثیت سے اپنے اندر لیا جا سکے۔یہ کام برسوں کی انتھک اور لگاتار محنت چاہتا ہے‘ مگر جب تک ہم مسلم سوسائٹی کے ایک بڑے حصّہ کو علمی وعملی اور تمدّنی ومعاشرتی حیثیت سے اسلام کا صحیح نمائندہ نہ بنا لیں ہمارا یہ اُمید کرنا محض ایک بوالفضولی ہے‘ کہ ہندستان کی عام غیر مسلم آبادی کی رائے کو اسلام کے حق میں ہموار کیا جا سکے گا۔ غیر مسلموں کے سامنے آپ کاغذ پر یا تقریر میں اسلام کو کیسے ہی دلپذیر انداز سے پیش کریں بہرحال وہ ان کو اپیل نہیں کر سکتا کیونکہ اسلام کے نمائندوں کا جو تجربہ انہیں رات دن کی زندگی میں ہورہا ہے‘ وہ آپ کے بیان کی تصدیق نہیں کرتا۔ پھر اگر ان میں کوئی ایسا حق پسند نکل بھی آئے کہ مسلمانوں کے بجائے اسلام کو دیکھ کر اسے قبول کرلے تو موجودہ مسلم سوسائٹی میں اس کا کھپنا مشکل ہوتا ہے‘ اس لیے کہ یہاں ابھی تک قدیم ہندوانہ جاہلیت کے موروثی تعصّبات‘ اونچ نیچ کے امتیازات‘ ذات برادری کے تفرقے اسلام میں آجانے کے باوجود جوں کے توں مخصوص ہیں‘ اور اس بنا پر ایک نو مسلم کو پھر انہی معاشرتی خرابیوں سے سابقہ پیش آتا ہے‘ جنہیں چھوڑ کر وہ ہندو سوسائٹی سے نکلاتھا۔ لہٰذا مسلمانوں کی…اگر سب کی نہیں‘ تو کم از کم ان کے ایک معتدبہ حصّہ کی… اخلاقی‘ تمدّنی اور معاشرتی زندگی کی اصلاح کے بغیر دعوتِ اسلامی کا قدم آگے نہیں بڑھ سکتا اور یہ ممکن نہیں ہے‘ کہ ہم محض نو مسلموںکی ایک الگ سوسائٹی بنا سکیں۔ اس اصلاح میں اگر ہم کسی حد تک بھی کامیاب ہوجائیں‘ اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں اسلام سے عام واقفیت بھی پیدا کریں‘ اور ان کے اندر یہ جذبہ بھی ابھار دیں کہ رات دن کی زندگی میں ان کو ہر جگہ غیر مسلموں سے جو سابقہ پیش آتا ہے اس میں وہ حسب ِموقع ان کے سامنے اسلام کو پیش کرتے رہیں‘ تو دعوت کی رفتار اتنی تیز ہوسکتی ہے‘ کہ ہندستان میں کوئی دوسری تحریک ِاسلام کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہاں مسلمانوں کی تعدا د چار پانچ کروڑ کے قریب ہے۔ اس تعداد کا بیسواں حصّہ بھی اگر اسلام کو جانتا ہو‘ اور اس کی تبلیغ شروع کر دے۔ تو اسلام کے مبلغوں کی تعداد ۲۰‘ ۲۵ لاکھ کے لگ بھگ ہوگی۔ کیا کوئی دوسری تحریک ایسی موجود ہے‘ جس کے پاس اتنے مبلغ ہوں؟پھر مسلمان ہندستان کی آبادی میں کھچڑی کی طرح‘ غیر مسلموں کے ساتھ ملے جلے ہیں‘ اور زندگی کے ہر شعبے میں‘ ہر جگہ‘ ہر وقت‘ انہیں دوسروں تک اپنے خیالات پہنچانے اور اپنے برتائو کا اثر ڈالنے کا موقع ملتا ہے‘ کیا کسی دوسری تحریک کو یہ مواقع حاصل ہیں؟پھر دوسری کسی تحریک کی اپنی کوئی مستقل سوسائٹی اور اپنا کوئی تمدّنی نظام نہیں ہے‘ ان کے دامن میں پناہ لے کر ہندستان کے بسنے والے اور دبے ہوئے طبقے‘ کچھ اپنے پیٹ کے مطالبے تو پورے کر سکتے ہیں‘ مگر اپنی معاشرتی زندگی کی مشکلات اور خرابیاں رفع نہیں کر سکتے۔ بخلاف اس کے مسلمان اپنی ایک مستقل سوسائٹی رکھتے ہیں‘ جو اگر ہمارے نصب العین کے مطابق کچھ بھی اصلاح یا فتہ ہوجائے‘ تو تمام ان لوگوں کے لیے پوری پناہ گاہ بن سکتی ہے‘ جنہیں معاشرتی زندگی میں پست بنا کر رکھ دیا گیا ہے‘ یا جن کو جاہلی نظامِ تمدّن ومعاشرت کی دوسری خرابیوں نے پریشان کر دیا ہے۔
(3)تیسرا ضروری کام یہ ہے‘ کہ ہم اس ملک کے مسلمانوں کی ذہنی طاقت کا زیادہ سے زیادہ حصّہ‘ اپنی اس دعوت کے لیے فراہم کر دیں‘ اور اس سے باقاعدگی کے ساتھ کام لیں۔ ہندستانی مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ اپنے ان مقاصد میں ناکام ہوچکا ہے‘ جن پر اس نے اب تک نظر جما رکھی تھی۔ اس ناکامی کا شعور حاصل ہوتے ہی اس پر یاس طاری ہونی شروع ہوجائے گی اس موقع پر اگر ان کے سامنے ایک روشن نصب العین اُمیدوں اور بشارتوں کے ساتھ آئے‘ تو وہ ان کے ایک بڑے حصے کی توجہات اپنی طرف کھینچ لے گا۔ اس طرح جیسے جیسے ہماری دعوت کو یہ طاقت حاصل ہوتی جائے ہم چاہتے ہیں‘ کہ اسے ان نتیجہ خیز کاموں پر لگایا جاتا رہے‘ جو اسلامی انقلاب کو قریب تر لاسکیں۔ مثلاً ہم مسلمانوں کی اخبار نویسی کے موجودہ رُجحانات کو بالکل بدل دینا چاہتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے‘ کہ بہتر قسم کے اہلِ قلم اب انگریزی‘ اردو اور دوسری زبانوں میں اخبارات جاری کریں‘ اور ان میں حقوق کی چیخ پکار‘ ملازمتوں کے فی صدی تناسب پر شورو غل اور محکموں میں ہندو گردی پر واویلا کرنے کے بجائے رائج الوقت نظام پر اصولی تنقید کریں اس کی خامیوں کا ایک ایک پہلو نمایاں کر کے پبلک کو دکھائیں اور اس سے بہتر ایک نظامِ زندگی پیش کرکے رائے عام کو اس کے حق میں ہموار کریں۔ اسی طرح ہم چاہتے ہیں‘ کہ ہمارے نوجوان ادیب ارباب نشاط کا پیشہ چھوڑ کر اپنی ادبی قابلیتوں کو ایک اعلیٰ درجہ کا تعمیری ادب پیدا کرنے میں صرف کریں‘ جو انسانیت کے شعور کو بیدار کرے‘ اور ذہنوں میں ایک صالح نظام کے لیے تڑپ پیدا کر دے۔ پھر جن لوگوں کو خدا نے زیادہ بلند درجہ کی دماغی صلاحیتیں دی ہیں‘ ان کو ہم دنیا کی ذہنی امامت کا راستہ دکھانا چاہتے ہیں‘ اور وہ یہ ہے‘ کہ یہ حضرات قرآن کی مشعل ہاتھ میں لے کر‘ علم کے ہر گوشے اور مسائل حیات کے ہر پہلو کا جائزہ لیں‘ اور تحقیق وکاوش کے ساتھ اسلامی نظامِ زندگی کی پوری تصویر دنیا کے سامنے پیش کر دیں‘ جس سے دیکھ کر لوگ بآسانی یہ معلوم کر سکیں کہ اگر دنیا کاانتظام اس نظام کے مطابق ہو‘ تو اس کی تفصیلی صورت کیا ہوگی۔ ان سب کے علاوہ اسی اہلِ دماغ طبقہ میں سے وہ لوگ بھی نکل سکتے ہیں‘ جو لیڈرشپ کی صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ اسلامی دعوت کو ایک عمومی تحریک بنانے کے لیے ضروری ہے‘ کہ ان لوگوں کو اس کی رہنمائی کا منصب سنبھالنے کے لیے تیار کیا جائے۔
(4)چوتھا ضروری کام یہ ہے‘ کہ ہمارے سب کارکن اور وہ تمام لوگ جو آئندہ ہماری تحریک سے متاثر ہوں ہندستان کی ان مقامی زبانوں کو سیکھیں اور ان میں تحریر وتقریر کی قابلیت بہم پہنچائیں‘ جو آئندہ تعلیم اور لٹریچر کی زبانیں بننے والی ہیں۔ نیز اس امر کی انتہائی کوشش کریں کہ ان زبانوں میں جلدی سے جلدی اسلام کاضروری لٹریچر منتقل کر دیا جائے۔ جنوبی ہند میں تامل‘ لنگی‘ کنٹری‘ ملایا لم اور مرہٹی‘ مغربی ہند میں گجراتی‘ مشرقی ہند میں بنگلہ اور باقی ہندستان میں ہندی اب تعلیم کی زبانیں ہوں گی۔ یہی اپنے اپنے علاقوں میں دفتری اور سرکاری زبانیں بھی ہوں گی‘ اور انہی میں ملک کا لٹریچر شائع ہوگا۔ اگر مسلمان اپنی قومی عصبیت کی بنا پر صرف اردو تک اپنی تحریر وتقریر کو محدود رکھیں گے تو ملک کی عام آبادی سے بے گانہ ہوکر رہ جائیں گے‘ اور ان کے پاس اپنے کروڑوں ہمسایوں کو اپنا ہم خیال بنانے کا کوئی ذریعہ نہ رہے گا۔ بلا شبہ ہم یہ ضرور چاہتے ہیں‘ کہ اردو زبان نہ صرف باقی رہے‘ بلکہ فروغ پائے کیونکہ ہمارا اب تک کا سارا سرمایہ علم وتہذیب اسی زبان میںہے۔ لیکن ہم اسلام کے مستقبل کو اردو زبان کے دامن سے باندھ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگر اردو زبان ملک کی عام زبان نہیں بن سکتی اور آثار یہی بتا رہے ہیں‘ کہ اس کو یہ حیثیت حاصل نہ ہوگی‘ تو پھر جن جن زبانوں کو ملک میں رواج حاصل ہوگا ہم ان سب میں اسلام کا لٹریچر مہیا کریں گے‘ اور ان سب کواسلام کی دعوت وتبلیغ کے لیے استعمال کریں گے۔ ایسا کرنا محض غیر مسلموں ہی کی خاطر نہیں‘ بلکہ خود مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کو بھی مسلمان رکھنے کی خاطر ضروری ہے‘ کیونکہ آگے چل کر مسلمان بچے درسگاہوں میں تعلیمی زبان اور درس گاہوں سے باہر سرکاری اور ملکی زبان سے اس قدر متاثر ہوں گے کہ اردو سے ان کا تعلق برائے نام رہ جائے گا ‘اور اگر ان زبانوں میں کافی اسلامی لٹریچر نہ ملا تو وہ بالکل اکثریت کے رنگ میں رنگتے چلے جائیں گے۔
یہ چار کام ایسے ہیں‘ جن پر ہندستان میں اسلام کا اور خود آپ کا مستقبل منحصر ہے‘ اس لیے آپ کو اپنے تمام ذرائع اور اپنی پوری قوّت کار اور اپنی ساری فکر ان پر مرکوز کر دینی چاہئے کیونکہ اس ابتدائی پروگرام کو بڑی حد تک عمل میں لائے بغیر آگے کا کوئی پروگرام آپ نہیں بنا سکتے۔ اب وہ وقت ہے‘ کہ ایک لمحہ بھی اگر آپ تساہل میں ضائع کریں گے تو جرم کریں گے جس طوفان کی میں دس سال سے خبر دیتا رہا ہوں وہ امنڈ آیا ہے۔ اب اگر آپ نے اس کے تدارک کی فکر نہ کی‘ تو یہ سب مسلمانوں کے ساتھ آپ کو بھی لے ڈوبے گا۔ جو حالات اب اس ملک میں پیش آنے والے ہیں وہ آپ کے صبر کا آپ کے عزم کا آپ کے استقلال کا آپ کی حکمت ودانائی کا اور آپ کی عملی طاقت کا سخت امتحان لیں گے۔ آپ کے ایک طرف دجال کی جنت ہوگی‘ جس میں داخل ہونے اور مدارج عالیہ پر چڑھنے کے لیے شرطِ لازم یہ ہوگی کہ تیز سے تیز قوّت شامہ رکھنے والے کو بھی آدمی کے اندر اسلامیت اور غیرت کی ذرا سی بُوتک محسوس نہ ہوسکے اور آپ دیکھیں گے کہ آپ کے گردو پیش بہت سے مسلمان اپنی دنیوی نجات کی خاطر اس شرط کو پورا کرنے پر آمادہ ہوجائیں گے۔ آپ کے دوسری جانب ہتھوڑے اور درانتی کا جھنڈا بلند ہوگا ‘اور اس کے سایہ میں ایک دوسری جنت شداد کا خیالی نقشہ پیش کیا جائے گا‘ جس کے عاشقوں کو قسم دی جائے گی کہ خدا پرستی اور دیانت واخلاق سے اپنے دلوں کو خالی کر لیں۔ آپ کی آنکھیں یہ بھی دیکھیں گی کہ دنیا کے بھوکے مسلمانوں غیر مسلموں کا ایک جم غفیر اس کی طرف دوڑ رہا ہوگا۔ ان دو جھوٹی جنتوں کے درمیان آپ اپنے آپ کو ایسے مقام پر کھڑا پائیں گے جہاں اسلام پر جمنے والوں اور اس کے لیے کام کرنے والوں کو ترقی وخوش حالی تو درکنار زندہ رہنے کا سامان بھی مشکل ہی سے میسر آئے گا۔ ان کو ہر قدم پر ہمت شکن حالات سے سابقہ پیش آئے گا۔ ان کی غیرت اسلامی اور عزت نفس کو ہر وقت چرکے لگیں گے۔ شعائر اسلامی کو وہ نہ صرف مٹتے دیکھیں گے‘ بلکہ ان کی علانیہ اہانت ہوگی‘ اور بعید نہیں کہ مسلمانوں کے اپنے ہاتھوں ہو۔ ان حالات میں صرف وہی لوگ اسلامی انقلاب کے لیے کام کر سکیں گے‘ جو غیر معمولی صبر وثبات انتہائی سر گرمی اور غایت درجہ کی حکمت ودانش مندی سے بہرہ ور ہوں۔ یہ تین خصوصیات اگرآپ اپنے اندر پیدا کر لیں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان شاء اﷲ اس طوفان کا رخ پھیر دینے میں بہت زیادہ دیر نہ لگے گی۔ (ترجمان القرآن-جون ۱۹۴۷ء)

خ خ خ

شیئر کریں