Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مقدّمہ
حصہ اوّل : ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ایک تاریخی جائزہ
تقدیم{ FR 2891 }
باب ۱: آنے والا انقلاب اور مسلمان
باب ۲ : حالات کا جائزہ اور آئندہ کے امکانات
باب ۳ : ہمارا سیاسی نصب ُالعین
باب ۴ : راہِ عمل
حصہ دوم : اِصلاح کا راستہ قرآن و سنّت کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے صحیح راہِ عمل
باب ۵ : مسائلِ حاضرہ میں
باب ۶ اسلام … ایک جامع تہذیب دین و دنیا کی علیحدگی کا جاہلی تصوّر اور ہماری قومی سیاست میں اس کے اثرات
باب ۷ : شُبہات اور جوابات
حصہ سوم : کانگریس، متحدہ قومی تحریک اور مسلمان
تقدیم
باب ۸: مسلمانوں کی غلط نمائندگی اوراس کے نتائج
باب ۹: آزادی اور قومی تشخّص
باب ۱۰ : قوم پرستوں کے نظریات
باب ۱۱ : آزادی کی فوج کے مسلمان سپاہی
باب ۱۲ : حصول آزادی کا طریقہ
باب ۱۳ : جنگ ِ آزادی کا مطمح نظر
باب ۱۴ : قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟
باب ۱۵: بنیادی حقوق
باب ۱۶ : متحدہ قومیّت اور اسلام
باب ۱۷ : کیا ہندستان کی نجات نیشل ازم میں ہے؟
باب ۱۸ : اسلامی قومیّت کا حقیقی مفہوم 
باب ۱۹ : جنگِ آزادی کی نوعیت
باب ۲۰ : کانگریس اور مسلمان
حصہ چہارم : ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کے حل کی راہیں تین تجاویز
باب ۲۱ : مسلمان کیا کریں؟ تین تجاویز

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

تقدیم

کسی قوم کے لیے اس وقت سے زیادہ پریشانی و سراسیمگی کا اور کوئی وقت نہیںہوتا جب وہ دیکھتی ہے‘ کہ اس کے گرد و پیش سارا ماحول اس کے خلاف بدل گیا ہے، زندگی کے کارخانہ کو چلانے والی تمام طاقتیں ان اصول اور ان مناہج کے خلاف چل رہی ہیں‘ جن پر اعتقاداً و عملاً اس کے وجود قومی کی اساس قائم ہے، اور وہ اس درخت کی طرح ہو کر رہ گئی ہے‘ جس کے لیے زمین، ہوا، پانی، موسم، سب کے سب ناموافق و ناساز گار ہو گئے ہوں۔ بد قسمتی سے آج ہم ہندستان کے مسلمان اسی صورت حال سے دوچار ہیں۔ ڈیڑھ صدی سے زیادہ مدت ہم پر اسی حالت میں گزر گئی ہے،ا ور روز بروز یہ حالت شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔ ہندستان کی کسی دوسری قوم کو یہ پریشانی نہیں آئی۔ اس لیے دوسرے لوگ اس الجھن کو بآسانی نہیں سمجھ سکتے‘ جس میں ہم مبتلا ہیں۔ ان کے لیے ہر بدلی ہوئی صورت کے مطابق بدل جانا اور اپنی ہیئت کو ہر سانچے میں ڈھال لینا سہل ہے۔ ان کے اعتقادات اور اصولِ حیات ان کے وجود سے الگ ایک چیز ہیں‘ جن کے بدل جانے اور سرا سر الٹ جانے کے بعد بھی ان کا وجود جوں کا توں رہتا ہے۔ لیکن ہمارے اعتقادات اور اصول حیات عین ہمارا وجود ہیں، اور ان کے بدل جانے کے معنی یہ ہیں‘ کہ ہم ہم نہ رہے۔ یہی وجہ ہے‘ کہ جب سے ہندوستان کے حالات نے پلٹا کھایا ہے ہم ایک الجھن میں مبتلا ہیں، اور یہ الجھن بڑھتی جا رہی ہے، کیونکہ ہمارے گردو پیش ایک ایسا ڈھانچہ بن گیا ہے‘ اور بنتا جا رہا ہے‘ جس میں ہم کسی طرح ٹھیک نہیں بیٹھتے۔
انگریزی حکومت جب ہندوستان پر مسلط ہوئی تو اس کے ساتھ ہی ہمارے ماحول میں ایک ہمہ گیر تغیّر رونما ہونا شروع ہو گیا۔ ہم صرف مقام عزت و اقتدار ہی سے گرا نہیں دئیے گئے بلکہ ایک غیر مسلم غلبہ و استیلاء کا یہ نتیجہ روز بروز زیادہ شدّت کے ساتھ ہمارے سامنے آنے لگا کہ ہمارے گرد و پیش افکار، نظریات، اصول اخلاق، طرز تمدّن، معیار تہذیب، قوانینِ معاشرت و معیشت، نظامِ حکومت و سیاست،، غرض ایک دنیا کی دنیا بدلتی جا رہی ہے‘ اور اس کی ہر چیز ہمارے اجتماعی مزاج اور ہماری قومی طبیعت کے بالکل خلاف ہوتی جاتی ہے۔
اول اوّل ہم نے کوشش کی کہ پتھر کی ایک چٹان بن کر تغیّر و انقلاب کی اس رو کے مقابلہ میں ڈٹ جائیں۔ اس سے زیادہ اور کچھ کرنے کے ہم اہل بھی نہ تھے۔ صدیوں کے جمود نے ہم میں اتنی صلاحیّت ہی باقی نہ رہنے دی تھی‘ کہ ہم اس انقلاب کی حقیقت کو سمجھ سکتے، اور نہ اتنی طاقت باقی چھوڑی تھی‘ کہ سوچ سمجھ کر ان تدابیر کو عمل میں لاتے جو کسی انقلاب کے مقابلہ میں اختیار کرنی چاہئیں۔ اتنی صلاحیّت اور طاقت ہم میں ہوتی‘ تو یہ انقلاب رونما ہی کیوں ہوتا؟
ایک صدی تک خوب پسنے اور مادّی و اخلاقی حیثیت سے تباہ ہو جانے کے بعد یہ راز ہم پر کھلا کہ تغیّرات ِزمانہ کے سیلاب کا مقابلہ جامد چٹان بن کر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بعد ہمارے دانش مندوں نے ہمیں ایک اور پالیسی کی تلقین کی‘ اور وہ یہ تھی‘ کہ :
زمانہ باتو نسازد تو بازمانہ بساز{ FR 2917 }
ہم نے کہا کہ آؤ اسی کو آزما دیکھیں، شاید اپنے آپ کو کچھ بدل کر ہم اس نئے ڈھانچہ میں ٹھیک بیٹھ سکیں۔ چنانچہ ہم نے پہلے مغربی تعلیم کی طرف توجہ کی‘ اور اپنے آپ کو زمانے کی رو کے ساتھ بہنے کے لیے تیار کیا۔ پھر غیر مسلم حکومت کی بارگاہ میں درخور حاصل کرنے کی کوشش کی تاکہ اپنی کھوئی ہوئی مادّی طاقتوں میں سے کم از کم ایک معتدبہ حصہ بازیافت کر لیں۔ پھر اپنے ملک کے جدید سیاسی تغیّرات سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کی کہ زمانہ کا یہ سیلاب جس طرف جا رہا ہے اسی طرف سب کے ساتھ ہم بھی جائیں۔
یہ تغیّرات جو ہم نے اپنی پوزیشن میں کیے، ان سب میں ہمارے پیشِ نظریہ مسلک رہا کہ اپنی خودی کا تحفظ بھی کرو اور زمانے کے ساتھ بھی چلو۔ لیکن ستر برس کے تجربے پر ایک غائر نگاہ ڈال کر دیکھئے، کیا اس زمانہ سازی کے دور میں ہم اپنی خودی کو محفوظ رکھ سکے ہیں؟ واقعات کی ناقابلِ تردید شہادت ہے‘ کہ ایسا نہیںہوا، اور عقل اس کو محال کہتی ہے‘ کہ کبھی ایسا ہو سکتا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ چوکھونٹے سانچے میں آپ ٹھیک بھی بیٹھیں اور اپنی ہیئت کی گولائی کو تبدیل بھی نہ کریں۔ دریا کے رخ پر بہیں بھی اور اپنی جگہ پر قائم بھی رہیں۔ یہ دو باتیں بالکل متضاد ہیں‘ اور ان کو جمع کرنا صریح عقل کے خلاف ہے۔
مغربی تعلیم کے تجربے سے کیا ثابت ہوا؟ یہ کہ جو ماحول ہم پر مسلط ہے اس میں سے ایک عنصر یعنی ’’تعلیم‘‘ کو ہم دوسرے عناصر سے الگ کرکے نہیں لے سکتے۔ دوسرے عناصر جن کے ساتھ اس عنصر کا غیر منفک رابطہ ہے، خود بخود اس کے ساتھ آتے ہیں۔ زندگی کا ایک اور نقطۂ نظر، اخلاق کے کچھ دوسرے اصول، اشیاء کی قدرو قیمت متعین کرنے کا ایک مختلف معیار، متمدّن زندگی کے کچھ نرالے ڈھنگ، جو سب کے سب اسلام سے بالکل بیگانہ ہیں، اس ایک چیز کو قبول کرتے ہی خواندہ و ناخواندہ آنے شروع ہو جاتے ہیں، اور ان سب کے جمع ہو جانے سے مسلمان خود بخودا مسلمان بنتا چلا جاتاہے۔
سرکار فرنگ کے دربار میں پہنچ کر ہمیںکیا سبق ملا؟ یہ کہ دین، ایمان، اخلاق، تہذیب تمدّن سب کچھ ایک روٹی کے عوض دے دو اور روٹی بھی پیٹ بھر نہ ملے۔ اپنی خودی کو قربان کیے بغیر وہاں سے تم کچھ نہیں پا سکتے۔ اور اس قربانی کے بعد بھی تمہاری حیثیت ایک خادم سے بڑھ کر نہیں ہوتی جو ایک متاع حقیر کی طرح آقا کے مفاد پر بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔
سیاسیات میں زمانہ سازی کا پھل کیا ملا؟ یہ کہ تمام سیاسی تغیّرات جو اب تک ہوئے اور آئندہ ہونے و الے ہیں، ہمارے نظریاتِ عمرانی کے بالکل خلاف اور خداوند انِ فرنگ کے نظریاتِ عمرانی کے عین مطابق ہیں۔ ان کا نظریہ قومیّت، ان کے اصولِ جمہوریت، ان کے تصوّرات حکومت و سلطنت، انہی چیزوں پر تمام جدید تغیّرات کی بنا رکھی گئی ہے‘ اور ہمارے لیے ایسے تغیّرات سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے کے معنی اپنے وجود کو ایک دوسرے وجود میں بالکل تحلیل کر دینے کے ہیں۔
ان تجربات کے بعد اب ضرورت ہے‘ کہ ہم اپنی دوسری پالیسی پر بھی نظر ثانی کریں۔ پہلی پالیسی قریب قریب سو برس کے تجربہ سے غلط ثابت ہوئی اور اسے بدلنا پڑا۔ دوسری پالیسی کو ستر برس کے تجربے نے غلط اور غلط ہی نہیں مہلک ثابت کر دیا۔ اس کو بھی بدلنا اور بہت جلدی بدل ڈالنا چاہیے۔ اب ہمارے لیے صرف تیسری پالیسی باقی رہ گئی ہے‘ اور وہ یہ ہے‘ کہ :
زمانہ باتو نسازدو تو باز مانہ ستیز{ FR 2918 }
جو ڈھانچہ تمہارے گردو پیش چھا گیا ہے اس سے تم الگ بھی نہیں رہ سکتے، اور اس میں اپنی خودی قربان کیے بغیر ٹھیک بھی نہیں بیٹھ سکتے، لہٰذا آؤ اب مردوں کی طرح لڑ کر اس ڈھانچے کو توڑ ڈالو اور اسے مجبور کرو کہ تمہاری ہیئت کے مطابق بنے۔ جس سیلاب میں تم گِھر گئے ہو اس کے ساتھ بہنے میں تمہارا وجود نمک کی طرح تحلیل ہوا جاتا ہے، اور اس کے مقابلہ میں جامد چٹان بن کر تم اپنی جگہ جم بھی نہیں سکتے، لہٰذا آؤ، اب بہادروں کی طرح اُٹھ کر اس سیلاب کا رخ پھیر دو اور اسے اس رخ پر بہنے کے لیے مجبور کرو جو تمہاری فطرت مسلمہ کے مقتضاء سے مطابقت رکھتا ہو۔ ہو سکتا ہے‘ کہ تمہیں اس میں کامیابی نہ ہو۔ بہت ممکن ہے‘ کہ تم خود ہی اس لڑائی میں ہلاک ہو جاؤ۔ مگر بکری کی زندگی کے سو برس سے شیر کی زندگی کا ایک دن بہرحال زیادہ قیمتی ہے۔
یہی انقلابی ذہنیت ہے‘ جسے میں اب مسلمانوں میں، خصوصاً ان کے نوجوانوں میں پیدا کرنا چاہتا ہوں۔انقلابی ذہنیت یکایک پیدا نہیںہوتی۔ زمانہ کی سخت ٹھوکریں کھا کھا کر آہستہ آہستہ دماغ درستی پر آتا ہے‘ اور ان ٹھوکروں کے ساتھ آہستہ آہستہ انقلابی ذہنیت اس کے اندر اترتی ہے۔ا س دوران میں آدمی کو بڑے سخت مرحلوں سے گزرنا پڑتاہے۔ باہر والوں سے پہلے گھر والوں سے لڑائی اور لڑائی بھی چومکھی لڑائی لڑنی پڑتی ہے۔ قدیم پالیسی جن دماغوں میں گہری جمی ہوئی ہوتی ہے وہ انقلاب کی دعوت سن کر اوّل تو اس کا مفہوم و مدعا ہی نہیں سمجھ سکتے۔ پھر کچھ کچھ سمجھتے بھی ہیں‘ تو اسے اپنے عادی تصوّرات کے خلاف پا کر مشتعل ہو جاتے ہیں۔ کوئی سمجھتا ہے‘ کہ یہ کوئی نیا دوکان دار آیا ہے‘ جو ہماری پرانی جمی ہوئی دوکانوں کے مقابلے میں اپنی دوکان جمانے کے لیے یہ باتیں کر رہا ہے۔ کوئی خیال کرتا ہے‘ کہ یہ کوئی گہری سازش ہے‘ جسے دشمنوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ تیار کیا ہے۔ کوئی تیوری بدل کر کہتا ہے‘ کہ جن لوگوں نے اپنے بال قومی خدمت میں سفید کیے ہیں ان کے مقابلہ میں نو خیز طفل مکتب ہو کر تمہیں زبان کھولتے شرم نہیں آتی۔ کوئی آواز کستاہے‘ کہ مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۝۰ۙ يُرِيْدُ اَنْ يَّتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ۝۰ۭ { FR 2919 } اور کوئی نہنگ سال خوردہ سیلاب کے ساتھ بہتے ہوئے ایک پرستانہ نگاہ اس رو کے خلاف تیرنے والی مچھلی پر ڈالتا ہے‘ اور بس یہ کہہ کر آگے بہہ نکلتا ہے‘ کہ اس نے کوئی نئی بات نہیں کہی، ہم بھی پہلے کہہ چکے ہیں۔
پھر پرانے خیالات کی ایک دنیا ہوتی ہے‘ جسے انقلاب کے داعی کو توڑنا پھوڑنا ہوتا ہے‘ اور نئے خیالات کی ایک دنیا ہوتی ہے‘ جو اسے بنانی پڑتی ہے۔ لوگ پرانے خیالات سے ہٹ نہیں سکتے‘ جب تک کہ نہایت مضبوط دلائل کے ساتھ تنقید کرکے ان کی بنیادیںنہ ہلا دی جائیں۔ اور نئے خیالات قبول نہیں کر سکتے‘ جب تک کہ تعمیری افکار کو حکمت عملی کے ساتھ پیش کرکے انہیں قابلِ قبول نہ بنا دیا جائے‘ اور معقول دلائل کے ساتھ انہیں مطمئن نہ کر دیا جائے‘ کہ اس مضبوط ڈھانچے کو جس کی گرفت میں طوعاً یا کراہاً آگئے ہو، یوں توڑاجا سکتاہے‘ اور اس کی جگہ یہ ڈھانچہ بنانے کی ضرورت ہے‘ جس میں تم ٹھیک بیٹھ سکتے ہو، اور یہ دوسرا ڈھانچہ اس طرح بننا ممکن ہے۔ اس کام میں تخریبی تنقید اور جدید تعمیر دونوں ساتھ ساتھ کرنی پڑتی ہیں۔ جب تک یہ دونوں کام تکمیل کے قریب نہیں پہنچ جاتے، غلط فہمیوں، بد گمانیوں اور پریشان خیالیوں کا ایک گہرا غبار ہر طرف چھایا رہتا ہے‘ جس کی وجہ سے پرانے خیالات کے معتقدین اورجدید و قدیم کے درمیان بھٹکنے والے مذبذبین کے انبوہِ کثیر کو انقلابی نصب العین کا نقطہ صاف نظر نہیں آسکتا کہ وہ اس پر جمع ہو سکیں، اور جب تک یہ نقطہ واضح ہو کر اس قابل نہیں بن جاتا کہ قوم کی عملی قوتیں اس پر مجتمع ہوں اس وقت تک عملی جدوجہد کی راہ میںکوئی قدم آگے نہیں بڑھ سکتا۔ پس یوں سمجھئے کہ ابتدائً سب سے بڑا عمل یہی ہے‘ کہ قدیم خیالات کا طِلسّم پیہم ضربوں سے توڑا جائے‘ اور جدید خیالات کے لیے راہ صاف کی جائے۔
تخریبی تنقید کے مرحلے میں ایک بڑی مشکل یہ پیش آتی ہے‘ کہ قدیم پالیسی کی غلطیاں اور مضرتیں ثابت کرنے کے لیے اس پالیسی پر چلنے اور چلانے والوں کو تنقید کا ہدف بنائے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔ اور یہ ایسا کام ہے‘ کہ جسے دل پر پتھر رکھ کر انجام دینا پڑتا ہے۔ا س میں آدمی کو بہت سی دوستیوں، بہت سی محبتوں، بہت سے پرانے تعلقات کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اور بہت سے ان بزرگوںکی ناراضی مول لینا ہوتی ہے‘ جن کا وہ تمام عمر احترام کرتا رہا ہے۔ اور جن کی بزرگی کے احترام سے اس کا دل کبھی خالی نہیں ہوتا۔ اس میں آدمی کو اس امر کا بھی اندیشہ ہوتا ہے‘ کہ کہیں تنقید کی شدّت سے وہ جواب میں ضد نہ پیدا کر دے، اور کہیں جوابی حملے خود اس کے ذہنی توازن کو نہ بگاڑ دیں۔ غرض اس خارزار سے اس کو بہت ہی سنبھل کر گزرنا پڑتا ہے‘ اور ہر وقت اپنے اعصاب کی بندش چست رکھنی ہوتی ہے۔
انقلابی ذہنیت پیدا کرنے کے لیے تدریج کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ لوگوں کی قوّت تحمل سے زیادہ خوراک دینا بھی مہلک ہے‘ اور جتنی خوراک کی طلب ان میں پیدا ہو چکی ہو اس سے کم دنیا بھی برے نتائج پیدا کرتا ہے۔ یہاں قدم قدم پر آدمی کی قوّت فیصلہ کا سخت امتحان ہوتا ہے،ا ور صرف خدا ہی کی مدد اس کو حالات کا صحیح اندازہ کرنے اور ٹھیک وقت پر ٹھیک قدم اٹھانے کی طاقت بخش سکتی ہے۔
میں اپنی کمزوریوں سے خوب واقف ہوں، اور انہی کمزوریوں کا احساس ہے‘ جو مجھے ہر وقت مجبور کرتا ہے‘ کہ میں خداوند عالم سے علمِ صحیح اور عقلِ سلیم کے لیے دعا کروں۔ محض فرض کی پکارنے مجھے مجبور کر کے اس کام پر آمادہ کیا ہے‘ جس کے دشوار گزار مرحلوں کو دیکھ کر ایک طرف اور اپنی کمزوریوں کو دیکھ کر دوسری طرف، میری روح لرز اٹھتی ہے۔ بہرحال محض خدا کے بھروسے پر میں نے اس میدان میں قدم رکھ دیا ہے‘ اور ان تمام حکمتوں کو پیشِ نظر رکھ کر جن کی طرف اوپر اشارہ کر چکا ہوں، اپنے انقلابی مشن کی تبلیغ شروع کر دی ہے۔
پچھلے دو حصوں میں جو مضامین پیش کیے گئے ان کو مرتب کرتے وقت میں نے خاص طور پر اس بات کو ملحوظ رکھا تھا‘ کہ ابھی محض لوگوں کو چونکانے اور ان کے دماغوں کو انقلابی تصوّرات کے لیے تیار کرنے کی ضرورت ہے، اس سے زیادہ کے وہ متحمل نہیں ہو سکتے، اس لیے میں نے مسلمانوں کی پچھلی تاریخ، ان کے موجودہ حالات اور ان کے گردوپیش کام کرنے والی قوتوں کے رجحانات پر ایک سرسری تبصرہ کرتے ہوئے یہ بتانے پر اکتفا کیا تھا‘ کہ تمہارے اندر کیا کمزوریاں ہیں، اور باہر سے کس قسم کے خطرات تم کو گھیرے ہوئے ہیں‘ اور تمہاری تہذیب کی فطرت سے تمہارے ماحول کی طاقتیں کس طرح متصادم ہو رہی ہیں۔ اس تبصرے کے ساتھ میں نے جدید انقلابی نصب العین کی طرف محض چند اشارات کیے تھے‘ اور انہیں قصداً زیادہ واضح نہیں کیا تھا تاکہ اچانک ایک نرالی آواز سن کر طبائع آمادئہ بغاوت نہ ہو جائیں۔
اب اس حصہ میں، میں ایک قدم اور بڑھا رہا ہوں۔ اب میں نے زیادہ وضاحت کے ساتھ ہندستان کے موجودہ سیاسی نظام اور اس کی بنیادوں کا تجزیہ کیا ہے‘ اور ایک ایک مقام پر انگلی رکھ کر بتایا ہے‘ کہ یہاں مسلمانوں کے لیے ہلاکت ہے،ا ور یہاں ان کے لیے نقصان ہے، اور یہ چیزیں ان کے مزاج قومی کے منافی ہیں۔ یہ ان لوگوں کا جواب ہے جنہوں نے یہ غلط فہمی پھیلا رکھی ہے‘ کہ مسلمانوں کو محض خیالی خطرات سے ڈرایا جا رہا ہے۔ اس کے بعد میں نے مسلمانوں کے ان رہنماؤں کی پالیسی پر تنقید کی ہے‘ جو اب تک ’’زمانہ باتو نسازد تو بازمانہ بساز‘‘ کے مسلک پر چلے جا رہے ہیں۔ جس قدر دلائل و شواہد میں فراہم کر سکتا تھا ان سب سے کام لے کر میں نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے‘ کہ یہ پورا نظامِ حکومت و سیاست جو ہم پر مسلط ہے اپنے اصول و فروع سمیت ان اصولوں سے متصادم ہو رہا ہے‘ جن پر ہماری قومی زندگی کی بنا قائم ہے، اور اس نظام کو انہی بنیادوں پر قائم رکھ کر اپنے آپ کو جوں کا توں یا کسی قدر تحفظ کے ساتھ اس میں فٹ کرنے کی کوشش کرنا سراسر ایک غیر دانش مندانہ طریق کار ہے،ا ور مسلمان اس طریق کار سے ہرگز، کسی فلاح کی، اور فلاح کیا معنی، اپنی بقا کی بھی اُمید نہیں کر سکتے۔ اس بحث سے میرا واضح مقصد یہ ہے‘ کہ خیالات، مقاصد اور پالیسیوں میں جو اشتباہ و التباس اور الجھاؤ اس وقت پایا جا رہا ہے اسے ختم کر دیا جائے، جو مختلف اور متضاد راستے اس وقت خلط ملط اور گڈ مڈ ہو گئے ہیں ان کو الگ الگ کرکے دین قیم کی راہ اور طاغوت کی راہ کو بالکل ایک دوسرے سے ممیز کر دیا جائے‘ اور لوگوں کو مجبور کر دیا جائے‘ کہ دونوں میں سے کسی ایک ہی راستہ کو اپنے لیے منتخب کریں۔ جو وطن پرست ہیں‘ اور ایک ہندستانی قومیّت میں جذب ہونا چاہتے ہیں وہ علی وجہ البصیرت اور علی رؤس الاشہاد اس راستے پر جائیں‘ اور یہ سمجھ کر جائیں کہ یہ راستہ اسلام کے راستہ کے خلاف جا رہا ہے‘ اور جو مسلمان ہیں‘ اور مسلمان رہنا چاہتے ہیں وہ قوم پرستی اور نیشنلزم کا نام لینا چھوڑ دیں اور اس تحریک سے الگ ہو جائیں جو اسلامی قومیّت کو وطنی قومیّت میں تحلیل کرنا چاہتی ہے۔ مختصر الفاظ میں یوں سمجھئے کہ میں ان لوگوں کے موقف کو ناممکن الوقوف بنا دینا چاہتا ہوں‘ جو بیک وقت دو کشتیوں میں پاؤں رکھنا چاہتے ہیں‘ اور نہیں سمجھتے کہ یہ مخالف سمتوں میں جانے والی کشتیاں ہیں۔ سب سے آخر میں میں نے زیادہ وضاحت کے ساتھ یہ بتایا ہے‘ کہ ہمارے لیے اب صحیح قومی پالیسی کیا ہے ا ور اس کو کس طرح عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ اس میں ان لوگوں کو پورا جواب مل جائے گا جو اس غلط خیال میں خرص و تخمین کے تِیر تُکے چلا رہے ہیں‘ کہ میرے پاس صرف سلب ہی سلب ہے، اثبات و ایجاب نہیں ہے۔
خ خ خ

شیئر کریں