آنکھیں بند کرکے چلنا ایک شخص کے لیے جتنا مہلک ہو سکتا ہے، اس سے بہت زیادہ مہلک ایک قوم کے لیے ہوتا ہے۔ آپ کھلے میدان میں بھی آنکھوں کے ساتھ چل کر ٹھوکر سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ لیکن سڑک پر جہاں آمدو رفت کا ہجوم ہو‘ اور رہ نوردوں کے درمیان کش مکش ہو رہی ہو، اگر آپ آنکھیں بند کرکے چلیں گے، تو یقینا آپ کو کسی مہلک حادثہ سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ایسی ہی حالت ایک قوم کی بھی سمجھ لیجئے۔ معمولی حالات میں جب کہ فضا میں کوئی غیر معمولی ہنگامہ نہ ہو، اس کے لیے آنکھیں… جسمانی نہیں عقل و بصیرت کی آنکھیں… بند کرکے چلنا محض نقصان اور مضرت کا موجب ہوتا ہے۔ مگر جب کوئی انقلاب درپیش ہو، جب قسمتوں کا فیصلہ ہو رہا ہو، جب زندگی و موت کا مسئلہ سامنے ہو، ایسے وقت میں اگر وہ آنکھیں بند کرکے چلے گی‘ تو اسے تباہی اور ہلاکت سے دوچار ہونا پڑے گا۔
تحریک خلاف کی ناکامی کے بعد سے کامل پندرہ برس تک مسلمان جس انتشارِ فکر وعمل میںمبتلا رہے۔اس کو دیکھ کر دل خون ہوا جاتا تھا۔ مگر ہمیشہ یہی خیال لب کشائی سے روکتا رہا کہ میدان میں مجھ سے زیادہ علم اور تجربہ اور قوّت واثر رکھنے والے موجود ہیں، وہ کبھی نہ کبھی حالات کی اصل خرابی کو محسوس کریں گے، اور اس کو رفع کرنے کے لیے متحد ہو کر وہ تدبیریں اختیار کریں گے، جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان کو اختیار کرنی چاہئیں۔ لیکن دن پر دن گزرتے چلے گئے‘ اور یہ اُمید بر نہ آئی، یہاں تک کہ وہ وقت آگیا جو ہندستانی مسلمان کے لیے قسمت کے فیصلے کا آخری وقت ہے۔ دل کی آنکھوں نے صاف دیکھ لیا کہ اب اگر اس قوم نے کوئی غلط قدم اٹھایا‘ تو سیدھی ہلاکت کے گڑھے کی طرف جائے گی‘ اور اس کے ساتھ چشم دل ہی نے نہیں، چشم سر نے بھی یہ دیکھا‘ کہ جن کی تدبیر و تدبر پر اس قوم کے مستقبل کا انحصار ہے‘ وہ ابھی حالات کو اس فراست کے ساتھ سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں جسے ’’فراست ِمومن‘‘ کہا گیا ہے، اور اسی کوتاہی کی بنا پر ایسے نازک وقت میںمسلمانوں کو ان مختلف راستوں کی طرف چلا رہے ہیں۔ جن میں سے کوئی بھی منزلِ نجات کی طرف نہیں جاتا۔ اس مرحلے پر پہنچ کر ضمیر نے آواز دی کہ یہ وقت خاموش بیٹھنے کا نہیںہے۔ اب دین و ملت کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے‘ کہ مسلمانوں کو، ان کے عوام اور خواص، علما اور زعما، سب کو ان حقیقی خطرات کی طرف توجہ دلائی جائے، جو ’’مسلم قوم‘‘ ہونے کی حیثیت سے ہمیں درپیش ہیں، اور اس کے ساتھ انہیں یہ بھی یاد دلایا جائے‘ کہ تمہارے لیے ہدایت کا اصلی سر چشمہ خدا کی کتاب اور اس کے رسولa کی سیرت پاک میں ہے‘ جسے چھوڑ کر محض اپنی فکر و تدبیر پر اعتماد کر لینا ہلاکت کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔
میرا نقطۂ نظر
میں نے ان مضامین میں اسلامی ہند کی گزشتہ تاریخ اور موجودہ حالت پر محض ایک مؤرخ یا ایک سیاسی آدمی کی حیثیت سے نہیں، بلکہ ایک مسلمان کی حیثیت سے نظر ڈالی ہے۔ اس لیے بہت ممکن ہے‘ کہ ایک خالص تاریخی، یا سیاسی، یا معاشی نظر رکھنے والے آدمی کو میرے بیان سے اختلاف ہو۔ لیکن میںیہ گمان نہیں کرتا کہ جو شخص میری طرح ایک مسلمان کی نظر سے حالات کو دیکھے گا، اسے میرے بیان سے اختلاف ہو گا۔ اسی طرح میںنے ہندوستان کے موجودہ حالات اور ان کی کار فرما قوتوں کا جو تجزّیہ کیا ہے، اس میں بھی میرے پیشِ نظر اسلامی معیار تحقیق ہے، اور ان حالات میں مسلمانوں کے اصل قومی مسائل کو سمجھنے اور ان کا حل تلاش کرنے کی جو کوشش میں نے کی ہے، وہ بھی ایک مسلمان کی حیثیت سے کی ہے۔ درحقیقت اس تمام بحث میں میرے مخاطب صرف وہی لوگ ہیںجو اوّل بھی مسلمان ہیں‘ اور آخر بھی مسلمان ہیں‘ اور مسلمان کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ باقی رہے وہ لوگ جو صرف ’’ہندستانی‘‘ ہیں، یا پہلے ’’ہندستانی‘‘ اور پھر سب کچھ ہیں، تو ان سے مجھے سرو کار ہی نہیں۔ وہ ایک جہاز کے مسافر ہیں، اور میں دوسرے جہاز کا مسافر ہوں، ان کی منزلِ مقصود دوسری ہے‘ اور میری منزلِ مقصود دوسری، ان کو صرف ’’ہندستانی‘‘ ہونے کی حیثیت سے سیاسی آزادی اور معاشی استقلال درکار ہے، عام اس سے کہ مسلمان رہیں یا نہ رہیں۔ اور مجھے وہ آزادی درکار ہے‘ جس کے ذریعہ سے میں اپنی زوال پذیر اسلامی طاقت کو سنبھال لوں، اپنی زندگی کے مسائل کو مسلمان ہونے کی حیثیت سے حل کروں، اور ہندستان میں ’’مسلم قوم‘‘ کو پھر سے ایک خود مختار قوم دیکھوں۔ ان کے لیے ہندوستان کا سیاسی و معاشی استقلال بجائے خود ایک مقصد ہے‘ اور میرے لیے وہ حصولِ مقصد کا ایک ذریعہ ہے، جو اگر حصولِ مقصد میں مدد گار نہ ہو تو مجھے بجائے خود اس ذریعہ سے کوئی دلچسپی نہیں۔ پس میرے اور ان کے درمیان مقصدی اختلاف ہے۔ اس لیے اُن سے بحث کرنا تو میرے نزدیک محض تضیع وقت ہے۔ البتہ جو لوگ اس مقصد میں مجھ سے متفق ہیں‘ ان کو میں دعوت دیتا ہوں کہ وہ ان مضامین کو غور سے ملاحظہ فرمائیں، جو کچھ حق پائیں اسے قبول کریں، اور جس چیز میں غلطی پائیں‘ اس کا غلط ہونا دلیل و حجت سے ثابت کر دیں، تاکہ میں بھی اپنے خیالات کی اصلاح کروں۔
میں جانتا ہوں کہ جولوگ مقصد میں مجھ سے اتفاق رکھتے ہیں ان میں سے بھی بہت سے حضرات میرے ان خیالات سے متفق نہیںہیں۔ جن کا اظہار میں نے اپنے مضامین میںکیا ہے۔ مگر اس قسم کے جن حضرات نے اخبارات میں اور پرائیویٹ خطوط میں میرے مضامین پر تنقیدیں کی ہیں، ان کی تنقیدوں کو دیکھ کر میں کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا۔ آخر انہیں اختلاف کس چیز سے ہے؟ عموما ان کی تحریروںکو دیکھ کر تو میں نے یہ اندازہ کیا ہے‘ کہ وہ محض سرسری نظر میں یہ دیکھ کر کہ ایک شخص ان کے طریق کار سے اختلاف کر رہا ہے، پوری طرح اس کے خیالات کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے، اور تنقید لکھنی شروع کر دیتے ہیں۔ اکثر حضرات نے میرے اوپر وہ اعتراض کیے ہیں‘ جن کا جواب میں خود ہی اپنے مضامین میں دے چکا ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر انہوں نے ان مضامین کو پڑھا بھی ہے‘ تو دل کے دروازوں کو بند کرکے پڑھا ہے۔میں عرض کروں گا کہ یہ طریقہ اہلِ حق کے لیے مناسب نہیں ہے۔ ہم کوئی مجلس مناظرہ تو قائم نہیں کر رہے ہیں‘ جس کا مقصد محض دماغی زور آزمائی ہوتا ہے،ا ور جس میںہر فریق پہلے ہی سے یہ فیصلہ کرکے شریک ہوتا ہے‘ کہ دوسرے کی بات نہ مانے گا، اور اپنی بات پر اڑا رہے گا۔ ہمارا مقصد تواس ملت کی حفاظت اور سربلندی ہے، جو ہم میں سے ہر ایک کو یکساں عزیز ہے۔ اس مقصد کو پیشِ نظر رکھ کر جو شخص کچھ کہہ رہا ہے، اس کی بات کو کھلے دل کے ساتھ سُنیئے، پوری طرح سُنیئے، ٹھنڈے دل سے اس پر غور کیجئے، اور یہ فرض نہ کر لیجئے کہ جو طریقہ آپ نے اختیار کیا ہے، وہ وحی کے ذریعہ سے نازل ہوا ہے، اس لیے اس کے خلاف جو کچھ بھی کہا جائے وہ بہرحال باطل ہی ہونا چاہیے۔ وہ غریب آپ سے لڑنے کے لیے نہیں اُٹھا ہے، بلکہ غور و فکر کی دعوت دینے کے لیے اُٹھا ہے۔ وہ چاہتا ہے‘ کہ آپ قدم اٹھانے سے پہلے اپنی منزلِ مقصود معین کر لیں‘ اور اس منزل کی طرف جانے کے لیے‘ وہ راستہ معلوم کریں جو یقینا صحیح ہو،جس کی صحت اتنی ہی یقینی ہو جتنی ہدایت ِربانی کی صحت یقینی ہے۔ پس آپ جُویائے حق بن کر اس کے معروضات کا مطالعہ کریں‘ اور دوران مطالعہ میں صواب کو خطا سے ممیز کرتے چلے جائیں۔ جو کچھ صواب نظر آئے اسے قبول کر لیں۔ اور جس چیز میں خطا پائیں‘ اس کے متعلق واضح طور پر بتا دیں‘ کہ اسے کس بناء پر آپ خطا سمجھتے ہیں۔ آیا وہ کتابُ اللہ کے خلاف ہے؟ سنتِ رسول اللہa کے خلاف ہے؟ عقل کے خلاف ہے؟ یا کسی اور چیز کے خلاف ہے‘ جو تمیز حق و باطل کی معیار ہو؟ اس توضیح سے راقم کو بھی اپنے خیالات پر نظر ثانی کرنے کا موقع ملے گا اور نیک نیتی کے ساتھ مباحثہ کرکے ہم سب ایک صحیح نتیجہ پر پہنچ سکیں گے۔ یا اگر اختلاف باقی بھی رہا تو کم از کم غلط فہمیاں باقی نہ رہیں گی۔
میں نے اس سلسلہ میں مضامین میں جو کچھ لکھا ہے‘ اس سے میرا مقصد مسلمانوں کے کسی گروہ کی حمایت کرنا اور کسی دوسرے گروہ کو جمہور مسلمین کے سامنے خطا کار ٹھہرانا نہیں ہے، اس لیے تمام ناظرین سے میری استدعا ہے‘ کہ وہ ان مضامین کو پڑھتے وقت اپنے ذہن کو گروہی تعصبات اور بد گمانی سے محفوظ رکھیں۔ میں گروہ بندی سے ہمیشہ دامن کش رہا ہوں‘ اور مجھے فطرتاً اس چیز سے نفرت ہے۔ میرا مقصد صرف یہ ہے‘ کہ مسلمانوں کے تمام گروہ اپنے احزابی تعصبات سے دل کو پاک کرکے‘ خالص اسلامی نقطۂ نظر سے اپنی قوم کو اور ہندوستان کے موجود حالات کو دیکھیں‘ اور اسلامی ذہنیت کے ساتھ اپنے لیے راہِ نجات تلاش کریں۔ میں یقین رکھتا ہوںکہ جب ایک نظر اور ایک ہی ذہنیت کے ساتھ مشاہدہ اور تفکر کیا جائے گا، اور نفسانیت کا شیطانی عنصر بیچ میں نہ رہے گا، تو یہ نزاعات جو عین خانہ بربادی کے موقع پر گھر والوں کے درمیان برپا ہیں‘ خود بخود ختم ہو جائیں گی۔
خ خ خ