اب تعویذ کو لیجئے۔ ہم اپنی نمازوں میں کم از کم گیارہ مرتبہ روزانہ اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم کی اللہ سے دعا کے ذریعے شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ لیکن کیا اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم کے الفاظ میں بار بار کی جانے والی اس دعا کے تقاضے کے مطابق ہم اپنی زندگی کو شیطان کی پیروی اور خدا کی نافرمانی سے پاک کرنے کی کوئی عملی کوشش بھی کر رہے ہیں یا ہمارا حال اس کسان کا سا ہے جو نہ کھیت میں ہل جوتتا ہے اور نہ بیج ڈالتا ہے بلکہ صرف یہ دعا مانگتا چلا جاتا ہے کہ یااللہ میرے کھیت میں بہت سی گندم پیدا کر دے۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ انسان ہر اس کام میں جو وہ اپنے رب کے احکام و حدود سے قطع نظر کرکے اور کسی اور طریقے پر انجام دیتا ہے‘ شیطان ہی کا آلہ کار اور ایجنٹ بنتا ہے‘ کیونکہ وہ خدا کی فرمانبرداری کے بجائے اس کی نافرمانی کے طریقے کو دنیا میں رائج کرنے اور معاشرے میں اسے پھیلانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ جب تک کسی شخص کے نیک یا بداعمال کے اثرات دنیا میں موجود و مترتب ہوتے رہتے ہیں‘ اس وقت تک برابر اس کے اعمال نامہ میں یہ نیکی یا بدی لکھی جاتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ دنیا میں جو قتل بھی ہوتا ہے‘ اس کا گناہ آدم علیہ السلام کے اس بیٹے کے اعمال نامے میں بھی درج ہوتا ہے۔ جس نے دنیا کا سب سے پہلا قتل کیا تھا۔