Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچۂ طبع اوّل
عرض ناشر
حقیقت عبادت
نماز
فرض شناسی
تعمیر سیرت
ضبط ِ نفس
افراد کی تیاری کا پروگرام
تنظیمِ جماعت
نماز باجماعت
مسجد میں اجتماع
صف بندی
اجتماعی دُعائیں
امامت
روزہ
روزے کے اثرات
اِحساس بندگی
اِطاعت امر
تعمیر سیرت
ضبط نفس
انفرادی تربیت کا اجمالی نقشہ
روزے کا اجتماعی پہلو
تقوٰی کی فضا
جماعتی احساس:
امداد باہمی کی روح

اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر

ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

تعمیر سیرت

نماز کا تیسرا اہم کام یہ ہے کہ وہ انسان کی سیرت کو اس خاص ڈھنگ پر تیار کرتی ہے جو اسلامی زندگی بسر کرنے، یا بالفاظ دیگر زندگی کو خدا کی عبادت بنا دینے کے لیے ضروری ہے۔
دنیا میں ہر جگہ آپ دیکھتے ہیں کہ جیسا کام کسی جماعت کو کرنا ہوتا ہے، جیسے مقاصد اس کے پیش نظر ہوتے ہیں انھی کے لحاظ سے سیرت بنانے کے لیے ایک نظام تربیت وضع کیا جاتا ہے۔ مثلاً: سلطنتوں کی سول سروس کا مقصد وفاداری کے ساتھ ملک کا انتظام کرنا ہوتا ہے، اس لیے سول سروس کی ٹریننگ میں تمام تر زور حکومت مقتدرہ کی وفاداری اور نظم مملکت (administration) کی صلاحیتیں پیدا کرنے ہی پر صرف کیا جاتا ہے۔تقوٰی اور طہارت کا وہاں کوئی سوال نہیں ہوتا۔ پرائیویٹ زندگی خواہ کتنی ہی گندی کیوں نہ ہو، ایک شخص اس کے باوجود سول سروس میں داخل ہوسکتا اور ترقی کرسکتا ہے۔ کیوں کہ حکومت میں راستی اور حق کے اصولوں کی پابندی کرنا اور اخلاق کو سیاست کی بنیاد بنانا سرے سے پیش نظر ہی نہیں ہے۔ اسی طرح فوجوں کی تنظیم کا مقصد جنگ کی قابلیت بہم پہنچانا ہوتا ہے۔ اس لیے سپاہیوں کی تربیت محض اس نقطۂ نظر سے کی جاتی ہے کہ انھیں مار دھاڑ کے لیے تیار ہونا ہے۔ انھیں پریڈ کرائی جاتی ہے تاکہ وہ منظم صورت میں کام کر سکیں۔ انھیں اسلحہ کا استعمال سکھایا جاتا ہے تاکہ کشت و خون کے فن میں ماہر ہو جائیں۔ انھیں اطاعت امر کا خوگر بنایا جاتا ہے تاکہ حکومت جہاں اور جس غرض کے لیے بھی ان کے دست و بازو سے کام لینا چاہے وہاں وہ بے تامل کام کریں۔ اس کے ماسوا کوئی بلند تر اخلاقی مقصد چونکہ پیش نظر نہیں ہوتا اس لیے فوجوں کی سیرت میں تقوٰی پیدا کرنے کا خیال تک کسی کو نہیں آتا۔ سپاہی اگر ڈسپلن کے پابند ہیں تو حکومت کے مقصد کے لیے بس یہی کافی ہے۔ اس کے بعد کچھ پروا نہیں اگر وہ زانی، شرابی، جھوٹے، بددیانت اور ظالم ہوں۔
اسلام اس کے برعکس ایک ایسی جماعت تیار کرنا چاہتا ہے جس کا مقصد اول نیکی کو قائم کرنا اور بدی کو مٹانا ہے، جسے سیاست، عدالت، تجارت، صنعت، صلح و جنگ، بین الاقوامی تعلقات، غرض تمدن کے ہر شعبے میں اخلاق کے مستقل اصولوں کی پابندی کرنی ہے، جسے زمین پر خدا کے قانون کو نافذ کرنا ہے۔ اس لیے وہ اپنے اہل کار، سپاہی اور افسر ایک دوسرے نظام تربیت کے تحت تیار کرتا ہے تاکہ ان کے اندر وہ سیرت پیدا ہو جو اس خاص نوعیت کی خدمت سے مناسبت رکھتی ہے۔ اس سیرت کی بنیاد اسلام کے ایمانیات ہیں۔ خدا کا خوف، اس کی محبت، اس کا عشق، اس کی خوشنودی کو مقصد زندگی قرار دینا، اسے حاکم اصلی سمجھنا، اس کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ خیال کرنا، اور یہ جاننا کہ ایک روز وہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے، یہی وہ اساسی تصورات ہیں جن پر اسلامی سیرت کی بنا قائم ہوتی ہے۔ مسلمان اسلام کے طریقہ پر ایک قدم نہیں چل سکتا جب تک کہ اسے یہ یقین نہ ہو کہ خدا ہر وقت ہر جگہ ہر حال میں اسے دیکھ رہا ہے، اس کی ہر ہر حرکت سے باخبر ہے، اندھیرے میں بھی اسے دیکھتا ہے، تنہائی میں بھی اس کے دل میں جو نیت چھپی ہوئی ہے اسے بھی وہ جانتا ہے، اس کے دماغ میں جو خیالات اور ارادے پیدا ہوتے ہیں ان سے بھی وہ ناواقف نہیں، تمام دنیا سے چھپ جانا ممکن ہے مگر خدا سے چھپنا غیر ممکن، تمام دنیا کی سزائوں سے آدمی بچ سکتا ہے مگر خدا کی سزا سے نہیں بچ سکتا، دنیا میں نیکی ضائع ہوسکتی ہے بلکہ نیکی کا بدلہ بدی کی صورت میں مل سکتا ہے مگر خدا کے ہاں یہ ممکن نہیں، دنیا کی نعمتیں محدود ہیں مگر خدا کی نعمتیں بے حد و حساب ہیں دنیا کا نفع و نقصان فانی و آنی ہے مگر خدا کے ہاں جو نفع یا نقصان ہے وہ پائدار ہے۔ یہی یقین آدمی کو خدا کے احکام کی اطاعت اور اس کے قانون کی پیروی کے لیے تیار کرتا ہے۔ اسی اعتقاد کے زور سے وہ حلال و حرام کی ان حدود کا لحاظ رکھنے پر آمادہ ہوتا ہے جو خدا نے زندگی کے معاملات میں قائم کی ہیں۔ یہی چیز اسے خواہشات کی بندگی سے، ناجائز منفعتوں اور لذتوں کے لالچ سے اور بداخلاقی کے مفید مطلب ذرائع اختیار کرنے سے روکتی ہے۔ اسی عقیدے میں یہ طاقت ہے کہ آدمی کو عدل، صداقت، حق شناسی و حق پرستی اور مکارم اخلاق کی صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے، اور اسے دنیا کی اصلاح کے اس کٹھن کام پر اٹھنے کے لیے آمادہ کرے جس کی دُشواریوں اور ذمہ داریوں کا تصور بھی کوئی غیر مومن انسان برداشت نہیں کرسکتا۔
نماز وہ چیز ہے جو ان تصورات کو بار بار تازہ کرتی اور ذہن میں گہری جڑوں کے ساتھ بٹھاتی رہتی ہے۔ اگر آپ غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو کہ نماز کا ارادہ کرنے کے ساتھ ہی اسلامی سیرت کی تعمیر کا عمل شروع ہو جاتا ہے، اور پھر ایک ایک حرکت، ایک ایک فعل، اور ایک ایک قول جو نماز سے متعلق ہے، کچھ اس طور پر رکھا گیا ہے کہ اس سے خود بخود آدمی کی سیرت اسلام کے سانچے میں ڈھلتی چلی جاتی ہے۔
دیکھیے! نماز کا ارادہ کرتے ہی سب سے پہلے آپ اپنا جائزہ لیتے ہیں کہ ناپاک تو نہیں ہوں؟ کپڑے تو نجس نہیں ہیں؟ وضو ہے یا نہیں؟ غور کیجیے یہ خیال آپ کو کیوں آتا ہے؟ اگر آپ نجس حالت میں نماز کے لیے کھڑے ہوں، یا بے وضو کھڑے ہوجائیں تو کون آپ کو پکڑ سکتا ہے، کسے آپ کے حال کی خبر ہوسکتی ہے؟ پھر آپ ایسا کیوں نہیں کرتے؟ اس کی وجہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ آپ کو خدا کا خوف ہے، اس بات کا یقین ہے کہ اس سے کوئی راز نہیں چھپ سکتا اور اس پر ایمان ہے کہ آخرت میں اس فعل کا جواب دینا پڑے گا۔ یہی چیز آپ سے طہارت اور وضو کے ان تمام قواعد و ضوابط کی پابندی کراتی ہے جو نماز کے لیے مقرر کیے گئے ہیں، ورنہ کوئی دنیوی طاقت ایسی موجود نہیں ہے جو آپ سے ان کی پابندی کرانے والی ہو۔
اس کے بعد آپ نماز شروع کرتے ہیں۔ یہاں آپ کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ قیام وقعود اور رکوع و سجود کی حالتوں میں قرآن کی آیات یا دعائیں یا تسبیحیں جس جس طرح پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح انھیں پڑھیں، آخر یہ پابندی آپ کیوں کرتے ہیں؟ یہ ساری چیزیں تو آہستہ پڑھی جاتی ہیں۔ اگر آپ انھیں نہ پڑھیں یا ان کی جگہ کچھ اور پڑھ دیں، یا ان میں اپنی طرف سے کچھ الٹی سیدھی باتیں ملا دیں تو کسی کو بھی آپ کے اس فعل کی خبر نہیں ہوسکتی۔ پھر بتائیے کس کا خوف کس کے واقف اسرار ہونے کا یقین اور کس کی جزا و سزا پر ایمان آپ کو ٹھیک ٹھیک نماز ادا کرنے پر مجبور کرتا ہے؟
نماز کے اوقات آپ پر مختلف حالتوں میں آتے ہیں۔ کبھی آپ جنگل میں ہوتے ہیں، کبھی رات کے اندھیرے میں، کبھی گھر کی تنہائی میں کبھی اپنی دل چسپ تفریحوں میں مشغول ہوتے ہیں اور کبھی اپنے کاروبار میں منہمک، کبھی سردی کی شدت لحاف سے سرنکالنے کی اجازت تک نہیں دیتی اور کبھی چلچلاتی دھوپ گھر سے قدم نکالتے ہی بھون ڈالنے پر آمادہ ہوتی ہے۔ غرض اسی طرح بے شمار مختلف حالتیں آپ پر رات دن میں آتی رہتی ہیں۔ ان سب حالتوں میں کون سی طاقت آپ کو نماز کی طرف کھینچ کر لے جاتی ہے؟ اگر وہ خدا پر ایمان، اس کے سمیع و علیم ہونے کا یقین، اس کی ناراضی کا خوف اور اس کی رضا کی طلب نہیں تو اور کیا ہے؟ ضروری نہیں کہ یہ سب تصورات آپ کے شعور جلی ہی میں تازہ رہیں۔ سیرت دراصل ان تصورات سے بنتی ہے جو شعورِ خفی میں پیوستہ ہوتے ہیں۔ شعُور کی گہرائی میں جو تصور اتر جاتا ہے وہی حقیقت میں مستحکم ہوتا ہے اور اسی سے مستقل خصائل اور اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔
اب ذرا ان چیزوں پر نظر ڈالیے جو نماز میں پڑھی جاتی ہیں۔ ان میں اول سے لے کر آخر تک ایک ایک لفظ ایسا ہے جو اسلام کے بنیادی تصورات اور اس کی اسپرٹ سے لبریز ہے۔ ان مضامین کو بار بار پڑھنے سے وہ تمام ایمانیات بار بار تازہ اور بار بار ذہن نشین ہوتے رہتے ہیں جن پر اسلامی سیرت کی عمارت کھڑی کی گئی ہے:
سب سے پہلے اذان کو لیجیے۔ روزانہ پانچ وقت آپ کو کن الفاظ میں نماز کی اطلاع دی جاتی ہے؟
اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔
اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔
اَشْھَدُ اَنْ لاَّ ٓ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں۔ کوئی اس لائق نہیں کہ اس کی بندگی کی جائے۔
اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔
حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃِ۔
آئو نماز کے لیے۔
حَیَّ عَلَی الْفَلاَ حِ۔
آئو اس کام کے لیے جس میں فلاح اور بہبودگی ہے۔
اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔
اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔
لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ۔
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
دیکھو! یہ کیسی زبردست پکار ہے۔ ہر روز پانچ مرتبہ یہ آواز کس طرح تمھیں یاد دلاتی ہے کہ زمین میں جتنے خدائی کے دعوے دار پھر رہے ہیں، یہ سب جھوٹے ہیں۔ زمین و آسمان میں صرف ایک ہی ہستی ہے جس کے لیے بڑائی ہے۔ اور وہی عبادت کے لائق ہے، آئو اس کی عبادت کرو، اسی کی عبادت میں تمھارے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔ کون ہے جو اس آواز کو سن کر ہل نہ جائے گا! کیوں کر ممکن ہے کہ جس کے دل میں ایمان ہو، وہ اتنی بڑی بات کی گواہی اور ایسی زبردست پکار کو سن کر اپنی جگہ بیٹھا رہ جائے اور اپنے مالک کے آگے سر جھکانے کے لیے دوڑ نہ پڑے۔
اس کے بعد تم نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہو۔ منہ قبلہ کے سامنے ہے۔ پاک صاف ہو کر بادشاہِ عالم کے دربار میں حاضر ہو۔ سب سے پہلے تم کانوں تک ہاتھ اُٹھاتے ہو، گویا دنیا و مافیہا سے دست بردار ہو رہے ہو،({ FR 661 }) پھر اللہ اکبر کہ کر ہاتھ باندھ لیتے ہو،({ FR 662 }) گویا اب بالکل اپنے بادشاہ کے سامنے مؤدب دست بستہ کھڑے ہو۔ اب تمھاری زبان سے یہ الفاظ نکلتے ہیں:
اِنِّىْ وَجَّہْتُ وَجْہِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَo الانعام 79:6
میں نے یک سُو ہو کر اپنا رُخ اس ذات کی طرف پھیر دیا جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا ہے۔ اور میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو خدائی میں کسی کو اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔
اس دو ٹوک بات کا اقرار کرکے تم کیا عرض و معروض کرتے ہو؟
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلَآ اِلٰہَ غَیْرُکَ ط
پاک({ FR 663 }) ہے تو اے خدا۔ تعریف و ستائش ہے تیرے لیے۔ برکت والا ہے۔ تیرا نام سب سے بلند و بالا ہے تیری بزرگی۔ اور کوئی معبود نہیں تیرے سوا۔
اَعْوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِo
خدا کی پناہ مانگتا ہوں میں شیطان مردود کی دراندازی و شرارت سے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِo
شروع کرتا ہوں میں اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo
تعریف خدا کے لیے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ o
نہایت رحمت والا اور بڑا مہربان ہے۔
مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِo
روز جزا کا حاکم ہے۔
اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُo
مالک! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَo
ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔
صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ۥۙ
اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے فضل و انعام فرمایا ہے۔
غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ وَلَاالضَّاۗلِّيْنَo
جن سے تو ناراض نہیں ہے اور جو راہ راست سے بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔
اٰمِیْن۔
خدایا ایسا ہی ہو، مالک ہماری اس دعا کو قبول کر۔
اس کے بعد تم قرآن کی کچھ آیتیں پڑھتے ہو جن میں سے ہر ایک میں اسلام کے اساسی اصول، اس کی اخلاقی تعلیمات، اس کی عملی ہدایات بیان کی گئی ہیں۔ اور اس راہِ راست کے نشانات دکھائے گئے ہیں جس کی طرف راہ نُمائی کی درخواست ابھی اس سے پہلے تم نے کی ہے۔ مثلاً:
وَالْعَصْرِo اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍo
زمانہ کی قسم (یعنی زمانہ اس بات پر گواہ ہے) کہ آدمی نقصان میں ہے۔
اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ
سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اورجنھوں نے نیک عمل کیے۔
وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ۝۰ۥۙ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ o العصر103:3-1
اور جو ایک دوسرے کو حق پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتے رہے۔
ان مختصر جملوں میں انسان کو بتایا گیا ہے کہ تو بربادی و نامرادی سے بچ نہیں سکتا، جب تک کہ خدا پرستی و نیک عملی اختیار نہ کرے، اور صرف انفرادی نیکی ہی کافی نہیں ہے، بلکہ تیری فلاح کے لیے ناگزیر ہے کہ تیری سوسائٹی ایسی ہو جس میں حق پرستی کی روح کار فرما ہو۔ تیری اپنی تاریخ اس حقیقت پر گواہی دے رہی ہے۔ یا مثلاً:
اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِo فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَo وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِo فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَo الَّذِيْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَo الَّذِيْنَ ہُمْ يُرَاۗءُوْنَo وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَo الماعون 1-7:107
تو نے دیکھا اس شخص کو جو روز جزا کو نہیں مانتا (وہ کیسا آدمی ہوتا ہے)ایسا ہی آدمی یتیم کو دھتکارتا ہے۔اور مسکین کو آپ کھانا کھلانا تو درکنار دوسروں سے بھی یہ کہنا پسند نہیں کرتا کہ غریب کو کھانا کھلائو۔’’پھر افسوس ہے ان نمازیوں پر جو (آخرت کو نہ ماننے ہی کی وجہ سے) نماز سے غفلت کرتے ہیں اور پڑھتے بھی ہیں تو محض لوگوں کو دکھانے کے لیے اور ان کے دل ایسے چھوٹے ہوتے ہیں کہ ذرا ذرا سی چیزیں حاجت مندوں کو دیتے ہوئے بھی ان کا دل دکھتا ہے۔
ان چھوٹے چھوٹے پر اثر فقروں میں یہ بات ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ آخرت کا اعتقاد آدمی کی اخلاقی زندگی میں کیا اثر رکھتا ہے، اور اس عقیدے پر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے آدمی کا اجتماعی برتائو اور انفرادی رویہ کس طرح خلوص اور ہم دردی سے خالی ہو جاتا ہے۔
یا مثلاً:
وَيْلٌ لِّكُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِۨo الَّذِيْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہٗo يَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗٓ اَخْلَدَہٗo كَلَّا لَيُنْۢبَذَنَّ فِي الْحُطَمَۃِo وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الْحُطَمَۃُo نَارُ اللہِ الْمُوْقَدَۃُo الَّتِيْ تَطَّلِعُ عَلَي الْاَفْــِٕدَۃِo اِنَّہَا عَلَيْہِمْ مُّؤْصَدَۃٌo فِيْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍo الہمزہ 1-9:104
افسوس ہے ہر اس شخص کے حال پر جو دوسروں کی عیب چینی کرتا ہے اور آوازے کستا پھرتا ہے۔ روپیہ جمع کرتا اور گن گن کر رکھتا ہے۔سمجھتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ اس کا ساتھ دے گا۔ہرگز نہیں! ایک دن آنے والا ہے جب وہ یقینا حطمہ میں ڈالا جائے گا۔اور تجھے کیا خبر حطمہ کیا چیز ہے۔اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ، جس کی لپٹیں دلوں پر چھا جائیں گی۔وہ اونچے اونچے ستون جیسے شعلوں کی صورت میں انھیں گھیر لے گی۔
یہ محض دو تین نمونے ہیں جن سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہر نماز میں قرآن کا کوئی نہ کوئی حصہ پڑھنا کس لیے لازم کیا گیا ہے۔ اس سے غرض یہی ہے کہ روزانہ کئی کئی وقت خدا کے احکام، اس کی ہدایات اور اس کی تعلیمات بار بار آدمی کو یاد دلائی جاتی رہیں۔ یہ دنیا ’’یہ دارُالعمل‘‘ جس میں کام کرنے کے لیے انسان بھیجا گیا ہے، اسی طرح درست رہ سکتی ہے کہ اس کے اندر کام کرنے کے دوران میں آدمی کو تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد الگ بلایا جاتا رہے تاکہ یہاں جس قانون اورجس ہدایت نامے (instrument of instructions)کے مطابق اسے کام کرنا ہے اس کی دفعات اس کی یاد میں تازہ ہوتی رہیں۔
ان ہدایتوں کے پڑھنے کے بعد تم اللہ اکبرکہتے ہوئے رکوع میں جاتے ہو۔ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے بادشاہ کے آگے جھکتے ({ FR 664 }) ہو اور بار بار کہتے ہو۔
سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ۔
پاک ہے میرا رب جو بڑا بزرگ ہے۔
پھر سیدھے کھڑے ہو جاتے ہو اور کہتے ہو۔
سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ‘۔
اللہ نے سن لی اس شخص کی بات جس نے اس کی تعریف بیان کی۔
پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدہ میں گر({ FR 665 }) جاتے ہو اور بار بار کہتے ہو۔
سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی۔
پاک ہے میرا مالک جو سب سے بالا و برتر ہے۔
پھر اللہ اکبر کہ کر سراٹھاتے ہو، ادب سے بیٹھ جاتے ہو اور یہ الفاظ زبان سے ادا کرتے ہو:
اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّیِّبَاتُ۔
ہماری سلامیاں، ہماری نمازیں اور ہمارے تمام اچھے کام اللہ کے لیے ہیں۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ‘۔
سلام ہو آپ پر اے نبیؐ، اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں آپ پر نازل ہوں۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصّٰلِحِیْنَ۔
سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے سب نیک بندوں پر۔
اَشْھَدُاَنْ لاَّ ٓاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ‘ وَرَسُوْلُہ‘۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
یہ شہادت دیتے وقت سیدھے ہاتھ کی انگلی اٹھائی جاتی ہے، کیوں کہ یہ نماز میں مسلمان کے عقیدے کا اعلان (declaration)ہے اور اسے زبان سے ادا کرتے وقت خاص طور پر توجہ اور زور دینے کی ضرورت ہے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
خدایا رحمت فرما محمدؐ اور آلِ محمدؐ پر جس طرح تو نے رحمت فرمائی ابراہیم ؑ اور آلِ ابراہیم ؑ پر، تو قابل تعریف اور صاحب عظمت ہے۔
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
خدایا برکت عطا فرما محمدؐ اور آلِ محمدؐ کو جس طرح تو نے برکت دی ابراہیم ؑ اور آلِ ابراہیم ؑ کو تو قابل تعریف اور صاحب عظمت ہے۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ جَھَنَّمَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْمَاثِمِ وَالْمَغْرِمِ۔
خدایا تیری پناہ مانگتا ہوں دوزخ کے عذاب سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں دجال کے فتنہ سے، اور تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنہ سے، اور تیری پناہ مانگتا ہوں، برے اعمال سے، اور دوسروں کے حقوق کی ذمہ داری ہے۔
یہ ہیں وہ عبارتیں جو رات دن کی پانچوں نمازوں میں بہ تکرار دہرائی جاتی ہیں۔ مگر رات کو سونے سے پہلے سب سے آخری نماز کی سب سے آخری رکعت میں ایک اور دعا پڑھی جاتی ہے جس کا نام دعائے قنوت ہے۔ یہ ایک عظیم الشان اقرار نامہ ہے جو سکون کے لمحوں میں بندہ اپنے خدا کے سامنے پیش کرتا ہے:
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ وَنُثْنِیْ عَلَیْکَ الْخَیْرَ وَنَشْکُرُکَ وَلَانَکْفُرُکَ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ ط۔ اَللّٰھُمَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّیْ وَنَسْجُدُ وَاِلَیْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ وَنَخْشٰی عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفَّارِ مُلْحِقٌ۔
خدایا ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں۔ تجھ سے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں۔ تجھ پر ایمان لاتے ہیں، تیرے ہی اوپر بھروسا کرتے ہیں۔ اور تیری بہترین تعریف کرتے ہیں۔ ہم تیرا شکر ادا کریں گے، ناشکری نہیں کریں گے۔ جو تیری نافرمانی کرے گا ، ہم اُسے چھوڑ دیں گے اور اس سے تعلق توڑ دیں گے۔ خدایا ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں، تیرے ہی لیے نماز پڑھتے اورسجدہ کرتے ہیں۔ ہماری ساری کوششوں اور ساری دوڑ دھوپ کا مقصود تو ہے۔ ہم تیری رحمت کے امیدوار ہیں۔ اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں کہ یقینا تیرا عذاب کفران نعمت کرنے والوں کو آلے گا۔
یہ عبارتیں کسی شرح و بیان کی محتاج نہیں ہیں۔ ہر شخص ان کے اندر خود دیکھ سکتا ہے کہ اسلام اپنی سول سروس، اپنی فوج اور اپنی سوسائٹی کے ہر فرد کو کن جذبات، کن ارادوں اور کن نیتوں کے ساتھ تربیت کرتا ہے، کیا چیزیں ان کے دل میں بٹھاتا ہے۔ اور کس قسم کی خصلتیں ا ن کے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے۔ محض پریڈ سے تیار کی ہوئی فوج اسلام کے کسی کام کی نہیں۔ محض انتظامی قابلیت رکھنے والی سروس کی بھی اسے حاجت نہیں۔ اسے تو ان سپاہیوں اور ان کارکنوں کی حاجت ہے جن کے اندر باضابطگی کے ساتھ تقوٰی بھی ہو، جو سر کاٹنے اور سر کٹوانے کے ساتھ دل بدلنے اور اخلاق کو ڈھالنے کی طاقت بھی رکھتے ہوں، جو صرف زمین کا انتظام کرنے والے ہی نہ ہوں بلکہ اہل زمین کی اصلاح کرنے والے بھی ہوں۔ اس نقطۂ نظر سے آپ دیکھیے تو آپ کا دل گواہی دے گا کہ اسلامی مقاصد کے لیے نماز کے سوا یا نماز سے بہتر کوئی دوسرا نظام تربیت ممکن نہیں ہے۔ جو شخص اس نظام کے تحت ٹھیک ٹھیک تربیت پائے، اسی سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ امانتوں، ذمہ داریوں اور حقوق اللہ و حقوق العباد کا جو بار دنیوی زندگی میں اس پر ڈالا جائے گا اسے وہ خدا ترسی کے ساتھ سنبھالے گا اور قعر دریا میں رہ کر بھی کبھی دامن تر نہ ہونے دے گا۔
اسی بنا پر قرآن میں دعوٰی کیا گیا ہے کہ:
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ۝۰ۭ العنکبوت 45:29
یقینا نماز بے حیائی اور بدی سے روکتی ہے۔
اسی بنا پر قدیم ترین زمانہ سے نماز اسلامی تحریک کا لازمی جز رہی ہے جس قدر انبیا خدا کی طرف سے آئے ہیں ان سب کی شریعت میں نماز اولین رکن اسلام تھی۔ کیوں کہ اسلام کی تحریک میں جب کبھی زوال آیا، نماز کا نظام تربیت ٹوٹ جانے کی وجہ ہی سے آیا۔
فَخَــلَفَ مِنْۢ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّـبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّاo مریم 59:19
پھر ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ آئے جنھوں نے نماز کو ضائع کر دیا اور خواہشات نفس کے پیچھے پڑ گئے، سو عنقریب وہ کج راہی میں مبتلا ہوں گے۔
اس کی وجہ ظاہر ہے۔ اسلام کے طریقے پر چلنے کے لیے اسلامی سیرت ضروری ہے، اور اسلامی سیرت نماز کے نظام تربیت ہی سے بنتی ہے۔ جب یہ نظام ٹوٹے گا تو سیرتیں بگڑ جائیں گی اور اس کا لازمی نتیجہ زوال و انحطاط (degeneration)ہے۔

شیئر کریں