Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچۂ طبع اوّل
عرض ناشر
حقیقت عبادت
نماز
فرض شناسی
تعمیر سیرت
ضبط ِ نفس
افراد کی تیاری کا پروگرام
تنظیمِ جماعت
نماز باجماعت
مسجد میں اجتماع
صف بندی
اجتماعی دُعائیں
امامت
روزہ
روزے کے اثرات
اِحساس بندگی
اِطاعت امر
تعمیر سیرت
ضبط نفس
انفرادی تربیت کا اجمالی نقشہ
روزے کا اجتماعی پہلو
تقوٰی کی فضا
جماعتی احساس:
امداد باہمی کی روح

اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر

ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

تعمیر سیرت

یہ تقوٰی ہی دراصل اسلامی سیرت کی جان ہے۔ جس نوعیت کا کیریکٹر اسلام ہر مسلمان فرد میں پیدا کرنا چاہتا ہے اس کا اسلامی تصور اس تقوٰی کے لفظ میں پوشیدہ ہے۔ افسوس ہے کہ آج کل اس لفظ کا مفہوم بہت محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک خاص طرز کی شکل ووضع بنا لینا، چند مشہور ونمایاں گناہوں سے بچنا اور بعض ایسے مکروہات سے پرہیز کرنا جنھوں نے عوام کی نگاہ میں بہت اہمیت اختیار کرلی ہے بس اسی کا نام تقوٰی ہے۔ حالانکہ دراصل یہ ایک نہایت وسیع اصطلاح ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ قرآن مجید انسانی طرزِ خیال و طرز عمل کو اصولی حیثیت سے دو بڑی قسموں پر تقسیم کرتا ہے:
ایک قسم وہ ہے جس میں انسان:
۱۔ دنیوی طاقتوں کے ماسوا کسی بالاتر اقتدار کو اپنے اوپر نگران نہیں سمجھتا اور یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرتا ہے کہ اسے کسی فوق البشر حاکم کے سامنے جواب دہی نہیں کرنی ہے۔
۲۔ دنیوی زندگی ہی کو زندگی، دنیوی فائدے ہی کو فائدہ اور دنیوی نقصان ہی کو نقصان سمجھتا ہے اور اس بنا پر کسی طریقہ کو اختیار کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ صرف دنیوی فائدے اور نقصان ہی کے لحاظ سے کرتا ہے۔
۳۔ مادی فائدوں کے مقابلہ میں اخلاقی و روحانی فضائل کو بے وقعت سمجھتا ہے اور مادی نقصانات کے مقابلہ میں اخلاقی و روحانی نقصانات کو ہلکا خیال کرتا ہے۔
۴۔ کسی مستقل اخلاقی دستور کی پابندی نہیں کرتا بلکہ موقع و محل کے لحاظ سے خود ہی اخلاقی اصول وضع کرتا ہے اور دوسرے موقع پر خود ہی انھیں بدل دیتا ہے۔
دوسری قسم وہ ہے جس میں انسان:
۱۔ اپنے آپ کو ایک ایسے بالاتر حکم ران کا تابع اور اس کے سامنے جواب دہ سمجھتا ہے جو عالم الغیب و الشہادت ہے۔ اور یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرتا ہے کہ اسے ایک روز اپنی دنیوی زندگی کے پورے کارنامے کا حساب دینا ہوگا۔
۲۔ دنیوی زندگی کو اصل حیات انسانی کا صرف ایک ابتدائی مرحلہ سمجھتا ہے اور ان فوائد و نقصانات کو جو اس مرحلہ میں ظاہر ہوتے ہیں عارضی اور دھوکا دینے والے نتائج خیال کرتا ہے اور اپنے طرز عمل کا فیصلہ ان مستقل فائدوں اور نقصانات کی بنیاد پر کرتا ہے جو آخرت کی پائدار زندگی میں ظاہر ہوں گے۔
۳۔ مادی فائدوں کے مقابلہ میں اخلاقی و روحانی فضائل کو زیادہ قیمتی سمجھتا ہے اور مادی نقصانات کی بہ نسبت اخلاقی و روحانی نقصانات کو شدید تر خیال کرتا ہے۔
۴۔ ایک ایسے مستقل اخلاقی دستور کی پابندی کرتا ہے جس میں اپنی اغراض و مصالح کے لحاظ سے اسے ترمیم و تنسیخ کرنے کی آزادی حاصل نہیں ہے۔
ان میں سے پہلی قسم کے طرز خیال و طرز عمل کا جامع نام قرآن نے فجور({ FR 669 }) رکھا ہے۔ اور دوسرے طرز خیال و عمل کو وہ تقوٰی({ FR 670 }) کے نام سے یاد کرتا ہے۔یہ دراصل زندگی کے دو مختلف راستے ہیں جو بالکل ایک دوسرے کی ضد واقع ہوئے ہیں اور اپنے نقطۂ آغاز سے لے کر نقطۂ انجام تک کہیں ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ فجور کے راستے کو اختیار کرکے آدمی کی پوری زندگی اپنے تمام اجزا اور تمام شعبوں کے ساتھ ایک خاص ڈھنگ پر لگ جاتی ہے جس میںتقوٰی کی ظاہری اشکال توکہیں نظر آسکتی ہیں۔ مگر تقوٰی کی اسپرٹ کا شائبہ تک نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ فجور کے تمام فکری اجزا ایک دوسرے کے ساتھ منطقی ربط رکھتے ہیں اور تقوٰی کے فکری اجزا میں سے کسی جز کو بھی ان کے مربوط نظام میں راہ نہیں مل سکتی۔ برعکس اس کے تقوٰی کا راستہ اختیار کرکے انسان کی پوری زندگی کا ڈھنگ کچھ اور ہوتا ہے، وہ ایک دوسرے ہی طرز پر سوچتا ہے، دنیا کے ہر معاملہ اور ہر مسئلہ کو ایک دوسری ہی نگاہ سے دیکھتا ہے، اور ہر موقع و محل پر ایک دوسرا ہی طرز اختیار کرتا ہے۔ ان دونوں راستوں کا فرق صرف انفرادی زندگی ہی سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اجتماعی زندگی سے بھی اس کا اتنا ہی تعلق ہے۔ جو جماعت فاجر افراد پر مشتمل ہوگی یا جس میں فاجرین کی اکثریت ہوگی اور اہل فجور کے ہاتھ میں جس کی قیادت ہوگی اس کا پورا تمدن فاجرانہ ہوگا۔ اس کی معاشرت میں اس کے اخلاقیات میں، اس کی معاشیات میں، اس کے نظام تعلیم و تربیت میں اس کی سیاست میں، اس کے بین الاقوامی رویہ میں، غرض اس کی ہر چیز میں فجور کی روح کار فرما ہوگی۔ یہ بہت ممکن ہے کہ اس کے اکثر یا بعض افراد ذاتی خود غرضیوں اور منفعت پرستیوں سے بالاتر نظر آئیں، مگر زیادہ سے زیادہ جس بلندی پر وہ چڑھ سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کو اس قوم کے مفاد میں گم کر دیں۔ جس کی ترقی سے ان کی اپنی ترقی اور جس کے تنزل سے ان کا اپنا تنزل وابستہ ہے۔ لہٰذا اگر کسی شخصی سیرت میں فجور کا رنگ کم بھی ہو تو اس سے کوئی فرق واقع نہ ہوگا۔ قومی رویہ بہرحال افادیت، ابن الوقتی، مصلحت پرستی اور مادہ پرستی ہی کے اصول پر چلے گا۔ اسی طرح تقوٰی بھی محض انفرادی چیز نہیں ہے۔ جب کوئی جماعت متقین پر مشتمل ہوتی ہے یا اس میں اہل تقوٰی کی کثرت ہوتی ہے، اور متقی ہی اس کے راہ نُما ہوتے ہیں تو اس کے پورے اجتماعی رویہ میں ہر حیثیت سے خدا ترسی کا رنگ ہوتا ہے۔ وہ وقتی اور ہنگامی مصلحتوں کے لحاظ سے اپنا طرز عمل مقرر نہیں کرتی بلکہ ایک مستقل دستور کی پیروی کرتی ہے اور ایک اٹل نصب العین کے لیے اپنی تمام مساعی وقف کر دیتی ہے، قطع نظر اس سے کہ دنیوی لحاظ سے قوم کو کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے یا کیا نقصان پہنچتا ہے۔ وہ مادی فائدوں کے پیچھے نہیں دوڑتی بلکہ پائدار اخلاقی و روحانی منافع کو اپنا مطمح نظر بناتی ہے۔ وہ مواقع کے لحاظ سے اصول توڑتی اور بناتی نہیں ہے بلکہ ہر حال میں اصول حق کا اتباع کرتی ہے۔ کیوں کہ اسے اس کی پروا نہیں ہوتی کہ اس کے مد مقابل قوموں کی طاقت کم ہے یا زیادہ بلکہ اوپر جو خدا موجود ہے وہ اس سے ڈرتی ہے اور اس کے سامنے کھڑے ہو کر جواب دہی کرنے کا جو وقت بہرحال آنا ہے اس کی فکر اسے کھائے جاتی ہے۔
اسلام کے نزدیک دنیا میں فساد کی جڑ اور انسانیت کی تباہی و بربادی کا اصلی سبب ’’فجور‘‘ ہے۔ وہ اس فجور کے سانپ ہلاک کر دینا چاہتا ہے یا کم از کم اس کے زہریلے دانت توڑ دینا چاہتا ہے تاکہ اگر یہ سانپ جیتا رہے تب بھی انسانیت کو ڈسنے کی طاقت اس میں باقی نہ رہے۔ اس کام کے لیے وہ نوع انسانی میں سے ان لوگوں کو چن چن کر نکالنا اور اپنی پارٹی میں بھرتی کرنا چاہتا ہے جو متقیانہ رجحان طبع رکھتے ہوں۔ فجور کی جانب ذہنی رُجحان bent of mind رکھنے والے لوگ اس کے کسی کام کے نہیں، خواہ وہ اتفاق سے مسلمانوں کے گھر میں پیدا کیے گئے ہوں اور مسلم قوم کے درد میں کتنے ہی تڑپتے ہوں۔ اسے دراصل ضرورت ان لوگوں کی ہے جن میں خود اپنی ذمہ داری کا احساس ہو جو آپ اپنا حساب لینے والے ہوں، جو خود اپنے دل کی نیتوں اور ارادوں پر نظر رکھیں، جنھیں قانون کی پابندی کے لیے کسی خارجی دبائو کی حاجت نہ ہو بلکہ خود ان کے اپنے باطن میں ایک محاسب اور آمر بیٹھا ہو جو انھیں اندر سے قانون کا پابند بناتا ہو اور ایسی قانون شکنی پر بھی ٹوکتا ہو جس کا علم کسی پولیس کسی عدالت اور رائے عامہ کو نہیں ہوسکتا۔ وہ ایسے افراد چاہتا ہے جنھیں یقین ہو کہ ایک آنکھ ہر حال میں انھیں دیکھ رہی ہے، جو دنیوی منافع کے بندے ہنگامی مصالح کے غلام اور شخصی یا قومی اغراض کے پرستار نہ ہوں۔ جن کی نظر آخرت کے اصلی و حقیقی نتائج پر جمی ہوئی ہو، جنھیں دنیا کے بڑے سے بڑے فائدے کا لالچ یا سخت سے سخت نقصان کا خوف بھی خداوند عالم کے دئیے ہوئے نصب العین اور اس کے بتائے ہوئے اصول اخلاق سے نہ ہٹا سکتا ہو جن کی تمام سعی و کوشش صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو، جنھیں اس امر کا پختہ یقین ہو کہ پایان کاربندگی حق ہی کا نتیجہ بہتر اور بندگیٔ باطل ہی کا انجام بُرا ہوگا، چاہے اس دنیا میںمعاملہ برعکس ہو۔ پھر اسے جن آدمیوں کی تلاش ہے وہ ایسے آدمی ہیں جن کے اندر اتنا صبر موجود ہو کہ ایک صحیح اور بلند نصب العین کے لیے برسوں بلکہ ساری عمر لگاتار سعیِ لا حاصل کرسکتے ہوں، جن میں اتنی ثابت قدمی ہو کہ غلط راستوں کی آسانیاں، فائدے اور لطف و لذت کوئی چیز بھی انھیں اپنی طرف نہ کھینچ سکتی ہو، جن میں اتنا تحمل ہو کہ حق کے راستے پر چلنے میں خواہ کس قدر ناکامیوں، مشکلات، خطرات، مصائب اور شدائد کا سامنا ہو، ان کا قدم نہ ڈگمگائے، جن میں اتنی یک سوئی ہو کہ ہر قسم کی عارضی اور ہنگامی مصلحتوں سے نگاہ پھیر کر اپنے نصب العین کی طرف بڑھے چلے جائیں، جن میں اتنا تو کل موجود ہو کہ حق پرستی و حق کوشی کے زیر طلب اور دور رس نتائج کے لیے خداوند عالم پر بھروسا کرسکیں۔ خواہ دنیا کی زندگی میں اس کام کے نتائج سرے سے برآمد ہوتے نظر ہی نہ آئیں۔ ایسے ہی لوگوں کی سیرت پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ اور جو کام اسلام اپنی پارٹی سے لینا چاہتا ہے اس کے لیے ایسے ہی قابل اعتماد کارکنوں کی ضرورت ہے۔
تقوٰی کی اس صفت کا ہیولیٰ (ابتدائی جوہر) جن لوگوں میں موجود ہو ان کے اندر اس صفت کو نشوونما دینے اور اسے مستحکم کرنے کے لیے روزے سے زیادہ طاقت وَر اور کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ روزے کے ضابطے پر ایک نگاہ ڈالیے، آپ پر خود منکشف ہونے لگے گا کہ یہ چیز کس مکمل طریقے سے ان صفات کو بالیدگی اور پائداری بخشتی ہے۔ ایک شخص سے کہا جاتا ہے کہ روزہ خدا نے تم پر فرض کیا ہے۔ صبح سے شام تک کچھ نہ کھائو پیو۔ کوئی چیز حلق سے اُتارو گے تو تمھارا روزہ ٹوٹ جائے گا۔ لوگوں کے سامنے کھانے پینے سے اگر تم نے پرہیز کیا اور درپردہ کھاتے پیتے رہے تو خواہ لوگوں کے نزدیک تمھارا شمار روزہ داروں میں ہو مگر خدا کے نزدیک نہ ہوگا۔ تمھارا روزہ صحیح اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ خدا کے لیے رکھو، ورنہ دوسری کسی غرض مثلاً: صحت کی درستی یا نیک نامی کے لیے رکھو گے تو خدا کی نگاہ میں اس کی کوئی قیمت نہیں۔ خدا کے لیے اپنا روزہ پورا کرو گے تو اس دنیا میں کوئی انعام نہ ملے گا اور توڑو گے یا نہ رکھو گے تو یہاں کوئی سزا نہ دی جائے گی۔ مرنے کے بعد جب خدا کے سامنے پیش ہوگے اسی وقت انعام بھی ملے گا اور اسی وقت سزا بھی دی جائے گی۔ یہ چند ہدایات دے کر آدمی کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کوئی سپاہی، کوئی ہرکارہ، کوئی سی۔ آئی۔ ڈی کا آدمی اس پر مقرر نہیں کیا جاتا کہ ہر وقت اس کی نگرانی کرے۔ زیادہ سے زیادہ رائے عامہ اپنے دبائو سے اسے اس حد تک مجبور کرسکتی ہے کہ دوسروں کے سامنے کچھ نہ کھائے پیے، مگر چوری چھپے کھانے پینے سے اسے روکنے والا کوئی نہیں اور اس بات کا حساب لینا تو کسی رائے عامہ یا کسی حکومت کے بس ہی میں نہیں کہ وہ رضائے الٰہی کی نیت سے روزہ رکھ رہا ہے یا کسی اور نیت سے۔ ایسی حالت میں جو شخص روزے کی تمام شرائط پوری کرتا ہے، غور کیجیے کہ اس کے نفس میں کس قسم کی کیفیات اُبھرتی ہیں:
۱۔ اسے خداوند عالم کی ہستی کا، اس کے عالم الغیب ہونے کا، اس کے قادر مطلق ہونے کا، اور اس کے سامنے اپنے محکوم اور جواب دہ ہونے کا کامل یقین ہے۔ اور اس پوری مدت میں جب کہ وہ روزے سے رہا ہے۔ اس کے یقین میں ذرا تزلزل نہیں آیا۔
۲۔ اسے آخرت پر، اس کے حساب کتاب پر اور اس کی جزا اور سزا پر پورا یقین ہے۔ اور یہ یقین بھی کم از کم ان بارہ چودہ گھنٹوں میں برابر غیر متزلزل رہا ہے، جب کہ وہ اپنے روزے کی شرائط پر قائم رہا۔
۳۔ اس کے اندر خود اپنے فرض کا احساس ہے۔ وہ آپ اپنی ذمہ داری کو سمجھتا ہے، وہ اپنی نیت کا خود محتسب ہے، اپنے دل کے حال پر خود نگرانی کرتا ہے۔ خارج میں قانون شکنی یا گناہ کا صدور ہونے سے پہلے جب نفس کی اندرونی تہوں میں اس کی خواہش پیدا ہوتی ہے اسی وقت وہ اپنی قوت ارادی سے اس کا استیصال کر دیتا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ پابندیٔ قانون کے لیے خارج میں کسی دبائو کا وہ محتاج نہیں ہے۔
۴۔ مادیت اور اخلاق و روحانیت کے درمیان انتخاب کا جب اسے موقع دیا گیا تو اس نے اخلاق و روحانیت کو انتخاب کیا۔ دنیا اور آخرت کے درمیان ترجیح کا سوال جب اس کے سامنے آیا تو اس نے آخرت کو ترجیح دی۔ اس کے اندر اتنی طاقت تھی کہ اخلاقی فائدے کی خاطر مادی نقصان و تکلیف کو اس نے گوارا کیا، اور آخرت کے نفع کی خاطر دنیوی مضرت کو قبول کرلیا۔
۵۔ وہ اپنے آپ کو اس معاملہ میں آزاد نہیں سمجھتا کہ اپنی سہولت دیکھ کر اچھے موسم، مناسب وقت اور فرصت کے زمانہ میں روزہ رکھے، بلکہ جو وقت قانون میں مقرر کر دیا گیا ہے اسی وقت روزہ رکھنے پر وہ اپنے آپ کو مجبور سمجھتا ہے خواہ موسم کیسا ہی سخت ہو، حالات کیسے ہی ناساز گار ہوں اور اس کی ذاتی مصلحتوں کے لحاظ سے اس وقت روزہ رکھنا کتنا ہی نقصان دہ ہو۔
۶۔ اس میں صبر، استقامت، تحمل، یک سوئی، توکل اور دنیوی ترغیبات و تحریصات کے مقابلہ کی طاقت کم از کم اس حد تک موجود ہے کہ رضائے الٰہی کے بلند نصب العین کی خاطر وہ ایک ایسا کام کرتا ہے جس کا نتیجہ مرنے کے بعد دوسری زندگی پر ملتوی کیا گیا ہے۔ اس کام کے دوران میں وہ رضا کارانہ اپنی خواہشات نفس کو روکتا ہے۔ سخت گرمی کی حالت میں پیاس سے حلق چٹخا جارہا ہے، برفاب سامنے موجود ہے، آسانی سے پی سکتا ہے۔ مگر نہیں پیتا۔ بھوک کے مارے جان پر بن رہی ہے، کھانا حاضر ہے، چاہے تو کھا سکتا ہے، مگر نہیں کھاتا۔ جوان میاں بیوی ہیں، خواہش نفس زور کرتی ہے، چاہیں تو اس طرح قضائے شہوت کرسکتے ہیں کہ کسی کو پتا نہ چلے، مگر نہیں کرتے۔ ممکن الحصول فائدوں سے یہ صرف نظر، اور ممکن الاحتراز نقصانات کی یہ پزیرائی اور خود اپنے منتخب کیے ہوئے طریق حق پر ثابت قدمی کسی ایسے نفع کی امید پر نہیں ہے جو اس دنیا کی زندگی میں حاصل ہونے والا ہو بلکہ ایسے مقصد کے لیے ہے جس کے متعلق پہلے ہی نوٹس دے دیا گیا ہے کہ قیامت سے پہلے اس کے حاصل ہونے کی اُمید ہی نہ رکھو۔
یہ کیفیات ہیں جو پہلے روزے کا ارادہ کرتے ہی انسان کے نفس میں ابھرنا شروع ہوتی ہیں جب وہ عملاً روزہ رکھتا ہے تو یہ بالفعل ایک طاقت بن جاتی ہیں۔ جب تیس دن تک مسلسل وہ اسی فعل کی تکرار کرتا ہے تو یہ طاقت راسخ ہوتی چلی جاتی ہے اور بالغ ہونے کے بعد سے مرتے دم تک تمام عمر ایسے ہی تیس تیس روزے ہر سال رکھنے سے وہ آدمی کی جبلت میں پیوست ہو کر رہ جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے نہیں ہے کہ یہ صفات صرف روزے ہی رکھنے میں اور صرف رمضان ہی کے مہینے میں کام آئیں، بلکہ اس لیے ہے کہ انھی اجزا سے انسان کی سیرت کا خمیر بنے۔ وہ فجور سے یک سر خالی ہو اور اس کی ساری زندگی تقوٰی کے راستے پڑ جائے۔ کیا کوئی کہ سکتا ہے کہ اس مقصد کے لیے روزے سے بہتر کوئی طریق تربیت ممکن ہے؟ کیا اس کی بجائے اسلامی طرز کی سیرت بنانے کے لیے کوئی دوسرا کورس تجویز کیا جاسکتا ہے؟

شیئر کریں