تعمیر کے سلسلہ میں ان کا پہلا اہم کام یہ ہے کہ وہ فقہ میں ایک نہایت معتدل مسلک پیش کرتے ہیں جس میں ایک مذہب کی جانبداری اور دوسرے مذاہب پر نکتہ چینی نہیں پائی جاتی۔ ایک محقق کی طرح انھوں نے تمام مذاہب فقہیہ کے اصول اور طریق استنباط کا مطالعہ کیا ہے اور بالکل آزادانہ رائے قائم کی ہے۔ جس مذہب کی کسی مسئلہ میں تائید کی اس بنا پر کی کہ دلیل اس کے حق میں پائی، نہ اس بنا پر کہ وہ اس مذہب کی وکالت کا عہد کر چکے ہیں۔ اور جس سے اختلاف کیا اس بنا پر کیا کہ دلیل اس کے خلاف پائی، نہ اس بنا پر کہ انھیں اس سے عناد ہے۔ اسی وجہ سے کہیں وہ حنفی نظر آتے ہیں۔ کہیں شافعی کہیں مالکی اور کہیں حنبلی۔ انھوں نے ان لوگوں سے بھی اختلاف کیا ہے جو ایک مذہب کی پیروی کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال لیتے ہیں اور قسم کھا لیتے ہیں کہ تمام مسائل میں اسی کا اتباع کریں گے اور اسی طرح وہ ان لوگوں سے بھی سخت اختلاف کرتے ہیں جنھوں نے ائمہ مذاہب میں سے کسی کی مخالفت کا عہد کر لیا ہے۔ ان دونوں کے بین بین وہ ایک ایسے معتدل راستہ پر چلتے ہیں جس میں ہر غیر متعصب طالب حق کو اطمینان حاصل ہو سکتا ہے۔ ان کا رسالہ انصاف اس مسلک کا آئینہ ہے۔ یہی رنگ مصفّٰی اور ان کی دوسری کتابوں میں پایا جاتا ہے۔ تفہیمات میں ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’میرے دل میں ایک خیال ڈالا گیا ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ ابو حنیفہ اور شافعی کے مذہب امت میں سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ سب سے زیادہ پیرو بھی انھی دونوں کے پائے جاتے ہیں اور تصنیفات بھی انھی مذاہب کی زیادہ ہیں۔ فقہا، محدثین، مفسرین، متکلمین اور صوفیہ زیادہ تر مذہب شافعی کے پیرو ہیں۔ اور حکومتیں اور عوام زیادہ تر مذہب حنفی کے متبع ہیں۔ اس وقت جو امر حق ملا اعلیٰ کے علوم سے مطابقت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ ان دونوں کو ایک مذہب کی طرح کر دیا جائے۔ ان دونوں کے مسائل کو حدیث نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے مجموعوں سے مقابلہ کرکے دیکھا جائے۔ جو کچھ ان کے موافق ہو وہ باقی رکھا جائے اور جس کی کوئی اصل نہ ملے اسے ساقط کر دیا جائے۔ پھر جو چیزیں تنقید کے بعد ثابت نکلیں، وہ دونوں مذہبوں میں متفق علیہ ہوں تو وہ اس لائق ہیں کہ انھیں دانتوں سے پکڑ لیا جائے اور اگر ان میں دونوں کے درمیان اختلاف ہو تو مسئلے میں دونوں قول تسلیم کیے جائیں اور دونوں پر عمل کرنے کو صحیح قرار دیا جائے۔ یا تو ان کی حیثیت ایسی ہو گی جیسی قرآن میں اختلاف ِقرات کی حیثیت ہے، یا رخصت اور عزیمت کا فرق ہو گا، یا کسی مخمصہ سے نکلنے کے دو راستوں کی سی نوعیت ہو گی جیسے تعدد کفارات ({ FR 6736 })یا دو برابر کے مباح طریقوں کا سا حال ہو گا۔ ان چار پہلوئوں کے باہر کوئی پہلو ان شاء اللّٰہ تعالیٰ نہ پایا جائے گا۔‘‘({ FR 6737 })
انصاف میں انھوں نے اپنی رائے اس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ دی ہے۔ چنانچہ باب سوم میں واعلم ان التخریج علیٰ کلام الفقہا سے لے کر آخر باب تک جو کچھ لکھا ہے وہ اس لائق ہے کہ اہل حدیث اور اہل تخریج دونوں اسے غور کی نگاہ سے دیکھیں۔ اس بحث میں انھوں نے جس طریقہ کو ترجیح دی ہے وہ یہ ہے کہ طریق اہل حدیث اور طریق اہل تخریج دونوں کو جمع کیا جائے۔ اسی طرح حجت کے مبحث ہفتم میں فصل ومما یناسب ھٰذا المقام التبیہ علیٰ مسائل ضلت فی بوادیھا الافھام کے تحت جو بحث کی ہے وہ بھی دیکھنے کے لائق ہے۔
یہ مسلک معتدل اختیار کرنے سے فائدہ یہ ہے کہ تعصب اور تنگ نظری اور تقلید جامد اور لاطائل بحثوں میں تضیع اوقات کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور وسعت نظر کے ساتھ تحقیق و اجتہاد کا راستہ کھلتا ہے۔ چنانچہ اس کے ساتھ ہی شاہ صاحب اجتہاد کی ضرورت پر زور دیتے ہیں اور قریب قریب ان کی تمام کتابوں میں ایسی عبارتیں موجود ہیں جن میں کسی نہ کسی طرح تحقیق و اجتہاد پر اکسایا گیا ہے، مثال کے طور پر مصفّٰی کے مقدمہ سے چند فقرے انھی کے الفاظ میں نقل کرتا ہوں:
’’اجتہاد درہر عصر فرض بالکفایہ است۔ و مراد از اجتہاد و اینجا معرفت احکام شرعیہ از ادلہ تفصیلیہ و تفریع و ترتیب مجتہدانہ، اگرچہ بادشاہ صاحب مذہبے باشد۔ وآنکہ گفتیم اجتہاد درہر عصر فرض است بجہت آنست کہ مسائل کثیرۃ الوقوع غیر محصور اند و معرفت احکامِ الٰہی درآنہا واجب، وآنچہ مسطور و مدون شدہ است غیر کافی و در آنہا اختلاف بسیار کہ بدوں رجوع بادلہ حل اختلاف آں نتواں کرو،و طرق آں تامجتہدین غالباً منقطع، پس بغیر عرض برقواعد اجتہاد راست نیاید۔‘‘ (مصفّٰی جلد اول ص۱۱)
یہی نہیں کہ شاہ صاحب نے اجتہاد پر محض زور ہی دیا ہو، بلکہ انھوں نے پوری تفصیل کے ساتھ اجتہاد کے اصول و قواعد اور اس کی شرائط کو بیان بھی کیا ہے۔ ازالہ، حجت، عقدالجید، انصاف، بدورِ بازغہ، مصفیّٰ وغیرہ میں اس مسئلہ پر کہیں اشارات اور کہیں مفصل تقریریں موجود ہیں۔ نیز اپنی کتابوں میں جہاں بھی انھوں نے کسی مسئلہ پر گفتگو کی ہے ایک محقق اور مجتہد کی حیثیت سے کی ہے، گویا کہ ان کی کتابوں کے مطالعہ سے آدمی کو نہ صرف اجتہاد کے اصول معلوم ہو سکتے ہیں، بلکہ ساتھ ساتھ اس کی تربیت بھی ملتی جاتی ہے۔
مذکورئہ بالا دو کام تو ایسے ہیں جو شاہ صاحب سے پہلے بھی لوگوں نے کیے ہیں۔ مگر جو کام ان سے پہلے کسی نے نہ کیا تھا وہ یہ ہے کہ انھوں نے اِسلام کے پورے فکری، اخلاقی، شرعی اور تمدنی نظام کو ایک مرتب صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ وہ کارنامہ ہے جس میں وہ اپنے تمام پیش رووں سے بازی لے گئے ہیں۔ اگرچہ ابتدائی تین چار صدیوں میں بکثرت ائمہ گزرے ہیں جن کے کام کو دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذہن میں اِسلام کے نظامِ حیات کا مکمل تصور رکھتے تھے اور اسی طرح بعد کی صدیوں میں بھی ایسے محققین ملتے ہیں جن کے متعلق یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اس تصور سے خالی تھے۔ لیکن ان میں سے کسی نے بھی جامعیت اور منطقی ترتیب کے ساتھ اسلامی نظام کو بحیثیت ایک نظام کے مرتب کرنے کی طرف توجہ نہیں کی۔ یہ شرف شاہ ولی اللّٰہ ہی کے لیے مقدر ہو چکا تھا کہ اس راہ میں پیش قدمی کریں۔ ان کی کتابوں میں سے حجۃ اللّٰہ اور البدور البازغہ دونوں کا موضوع یہی ہے۔ پہلی کتاب زیادہ مفصل ہے اور دوسری زیادہ فلسفیانہ۔
ان کتابوں میں انھوں نے مابعدالطبیعی مسائل سے ابتدا کی ہے اور تاریخ میں پہلی مرتبہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص فلسفہ اِسلام کو مدون کرنے کی بنا ڈال رہا ہے۔ اس سے پہلے مسلمان فلسفہ میں جو کچھ لکھتے اور کہتے رہے اسے محض نادانی سے لوگوں نے ’’فلسفہ اسلام‘‘ کے نام سے موسوم کر رکھا ہے، حالانکہ وہ فلسفہ اِسلام نہیں، فلسفہ مسلمین ہے جس کا شجرئہ نسب یونان و روم اور ایران و ہندوستان سے ملتا ہے۔ فی الحقیقت جو چیز اس نام سے موسوم کرنے کے لائق ہے اس کی داغ بیل سب سے پہلے اسی دہلوی شیخ نے ڈالی ہے۔ اگرچہ اصطلاحات وہی قدیم فلسفہ و کلام یا فلسفیانہ تصوف کی زبان سے لی ہیں اور غیر شعوری طور پر بہت سے تخیلات بھی وہیں سے لے لیے ہیں، جیسا کہ اوّل اوّل ہر نئی راہ نکالنے کے لیے طبعاً ناگزیر ہے، مگر پھر بھی تحقیق کا ایک نیا دروازہ کھولنے کی یہ ایک بڑی زبردست کوشش ہے۔ خصوصاً ایسے شدید انحطاط کے دور میں اتنی طاقت ور عقلیت کے آدمی کا ظاہر ہونا بالکل حیرت انگیز ہے۔
اس فلسفہ میں شاہ صاحب کائنات اور کائنات میں انسان کا ایک ایسا تصور قائم کرنے کی سعی کرتے ہیں جو اِسلام کے نظامِ اخلاق و تمدن کے ساتھ ہم آہنگ و متحدالمزاج ہو سکتا ہو یا دوسرے الفاظ میں جسے اگر شجرئہ اِسلام کی جڑ قرار دیا جائے تو جڑ میں اور اس درخت میں جو اس سے پھوٹا، عقلاً کوئی فطری مباینت محسوس نہ کی جا سکتی ہو۔({ FR 6738 }) میں حیران رہ جاتا ہوں جب بعض لوگوں کی یہ رائے سنتا ہوں کہ شاہ صاحب نے ’’ویدانتی فلسفے اور اسلامی فلسفے کا جوڑ لگا کر نئی ہندی قومیت کے لیے فکری اساس فراہم کرنے کی کوشش کی تھی۔‘‘ مجھے ان کی کتابوں میں اس کوشش کا کہیں سراغ نہ ملا۔ اور اگر مل جاتا تو باللّٰہ العظیم کہ میں شاہ صاحب کو مجددین کی فہرست سے خارج کرکے متجد دین کی صف میں لے جا کر بٹھاتا۔
نظام اخلاق پر وہ ایک اجتماعی فلسفے (social philosophy) کی عمارت اٹھاتے ہیں جس کے لیے انھوں نے ارتفاقات کا عنوان تجویز کیا ہے اور اس سلسلہ میں تدبیر منزل، آدابِ معاشرت، سیاست مدن، عدالت، ضربِ محاصل (taxation) انتظام ملکی اور تنظیم عسکری وغیرہ کی تفصیلات بیان کی ہیں اور ساتھ ہی ان اسباب پر بھی روشنی ڈالی ہے جن سے تمدن میں فساد پیدا ہوتا ہے۔
پھر وہ نظامِ شریعت، عبادات، احکام اور قوانین کو پیش کرتے ہیں اور ہر ایک چیز کی حکمتیں سمجھاتے چلے جاتے ہیں۔ اس خاص مضمون پر جو کام انھوں نے کیا ہے وہ اسی نوعیت کا ہے جو ان سے پہلے امام غزالیؒ نے کیا تھا اور قدرتی بات ہے کہ وہ اس راہ میں امام موصوف سے آگے بڑھ گئے ہیں۔
آخر میں انھوں نے تاریخ ملل و شرائع پر بھی نظر ڈالی ہے اور کم از کم میرے علم کی حد تک وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اِسلام و جاہلیّت کی تاریخی کش مکش کا ایک دھندلا سا تصور پیش کیا ہے۔