انھوں نے اپنی تعلیم ہم پر مسلط کی، اور اس طرح مسلط کی کہ رزق کی کنجیاں ہی لے کر اپنی تعلیم گاہوں کے دروازوں پر لٹکا دیں، جس کے معنی یہ تھے کہ اب یہاں رزق وہی پائے گا جو یہ تعلیم حاصل کرے گا۔ اس دبائو میں آ کر ہماری ہر نسل کے بعد دوسری نسل پہلے سے بڑھ چڑھ کر ان تعلیم گاہوں کی طرف گئی اور وہاں وہ سارے ہی نظریات اور عملیات سیکھے، جن کی روح اور شکل بالکل ہماری تہذیب کی ضد تھی۔ اگرچہ کھلا کافر تو وہ ہم میں سے ایک فی لاکھ کو بھی نہ بنا سکے مگر فکر ونظر اور ذوق ووجدان اور سیرت وکردار میں ٹھیٹھ مسلمان انھوں نے شاید ۲ فیصدی کو بھی نہ رہنے دیا۔ یہ سب سے بڑا نقصان تھا جو انھوں نے ہم کو پہنچایا کیوں کہ اس نے ہمارے دلوں اور دماغوں میں ہماری تہذیب کی جڑوں ہی کو خشک کر دیا اور ایک دوسری مخالف تہذیب کی جڑیں ان میں پیوست کر دیں۔