Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ طبع اوّل
تعارف مقصد
تحریک اِسلامی کا تنزل
ضمیمہ
نسلی مسلمانوں کے لیے دوراہیں عمل‘ خواہ انفرادی ہویااجتماعی‘ بہرحال اس کی صحت کے لیے دو چیزیں شرط لازم ہیں:
اقلیت واکثریت
شکایات ناظرین’’ترجمان القرآن‘‘میں سے ایک صاحب لکھتے ہیں:
راہ رَوپِشت بمنزل
اسلام کی دعوت اور مسلمان کا نصب العین
اصلی مسلمانوں کے لیے ایک ہی راہِ عمل
اسلام کی راہِ راست اور اس سے انحراف کی راہیں
۱۔اسلامی نصب العین
۲- اس نصب العین تک پہنچنے کا سیدھا راستہ
۳-مشکلات
۴-انحراف کی راہیں
۵- منحرف راستوں کی غلطی
پاکستانی خیال کے لوگ
۶-مشکلات کا جائزہ
اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟
استدراک
ایک صالح جماعت کی ضرورت
مطالبۂ پاکستان کو یہود کے مطالبہ ’’قومی وطن‘‘ سے تشبیہ دینا غلط ہے
مسلم لیگ سے اختلاف کی نوعیت
وقت کے سیاسی مسائل میں جماعت ِاسلامی کا مسلک
نظام کفر کی قانون ساز مجلس میں مسلمانوں کی شرکت کا مسئلہ
مجالس قانون ساز کی رکنیت شرعی نقطۂ نظر سے
پُر امن اِنقلاب کا راستہ
۱۹۴۶ء کے انتخابات اور جماعت ِاسلامی
جواب
تقسیم سے قبل ہندستان کے مسلمانوں کو آخری مشورہ (یہ وہ تقریر ہے‘ جو ۲۶اپریل ۱۹۴۷ء کو جماعت ِاسلامی کے اجلاس منعقدہ مدراس میں کی گئی تھی)
صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں جماعت ِاسلامی کا مسلک
تقسیم ہند‘ حالات پر تبصرہ
تقسیم کے وقت مسلمانوں کی حالت کا جائزہ
تقسیم کے بعد سامنے آنے والے مسائل
کیا پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہئے؟
پاکستان میں اسلامی قانون کیوں نہیں نافذ ہوسکتا؟
اسلامی نظامِ زندگی کا مآخذ
پاکستان میں اسلامی قانون کس طرح نافذ ہوسکتا ہے؟
مطالبہ نظام اسلامی

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ دوم)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

تعارف مقصد

قوانینِ فطرت سب کے سب بلا استثناء دائمی‘ عالم گیر اور بے لاگ ہیں۔جو آج سے لاکھوں برس پہلے جس قانون کی تابع تھی‘ اسی کی تابع آج بھی ہے‘ اور اسی کی تابع قیامت تک رہے گی‘ زمانہ کے تغیّرات کا اس پر کوئی اثر نہیں۔ روشنی اور حرارت کے لیے جو قانون دنیا کے ایک حصّہ میں ہے وہی دوسرے حصّہ میں بھی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا‘ اور نہیں ہوسکتاکہ مشرق میں حرارت کی ماہیت وکیفیت کچھ اور ہو‘ اور مغرب میں کچھ اور‘ شمال میں روشنی ایک رفتار سے چلے اور جنوب میں دوسری رفتارسے۔ اشیاء کے بننے اور بگڑنے‘ بڑھنے اور گھٹنے‘ پیدا ہونے اور فنا ہوجانے کے لیے جو قوانین مقرر ہیں ان کا اطلاق سب پر یکساں ہوتا ہے۔ ان میں کوئی رورعایت‘ کوئی لاگ لپیٹ‘ کوئی جانب داری نہیں پائی جاتی۔ فطرت کا کسی کے ساتھ کوئی ایسا رشتہ نہیں‘ جو دوسرے کے ساتھ نہ ہو۔ وہ کسی کی دوست اور کسی کی دشمن نہیں۔ کسی پر مہربان اور کسی پر نامہربان نہیں۔ جو آگ میں ہاتھ ڈالے گا جل جائے گا۔ جو زہر کھائے گا‘ مر جائے گا۔ جو غذا کھائے گا قوّت اور نشو ونما پائے گا۔ فطرت کے حدودِ فرمانروائی میں یہ ممکن نہیں کہ دیا سلائی کی رگڑ سے ایک کے لیے تو آگ کا شعلہ پیدا ہو‘ اور دوسرے کے لیے پانی کی دھار۔
انسان جس فطرت پر پیدا کیا گیا ہے وہ بھی اسی فطرت کا ایک رخ ہے‘ جو ساری کائنات پر حاوی ہے لہٰذا انسانی فطرت کے قوانین بھی فطرت کائنات کی طرح دائمی‘ عالم گیر اور بے لاگ ہیں۔ زمانہ کے تغیّرات سے مظاہر میں خواہ کتنا ہی تغیّر ہوجائے‘ حقائق میں کوئی تغیّر واقع نہیں ہوتا۔ علم اور وہم میں جو فرق آج سے دس ہزار برس پہلے تھا وہی آج بھی ہے‘ اور قیامت تک رہے گا۔ ظلم اور عدل کی جو حقیقت دو ہزار برس قبل مسیح تھی وہی دو ہزار برس بعد مسیح بھی ہے۔ جو چیز حق ہے وہ چین میں بھی ویسی ہی حق ہے جیسی امریکہ میں ہے‘ اور جو چیز باطل ہے وہ کالے کے لیے بھی اسی طرح باطل ہے جس طرح گورے کے لیے ہے۔ انسان کی سعادت وشقاوت اور فلاح و خُسران کے لیے فطرت کا قانون قطعًا بے لاگ ہے اس میں کسی شخص‘ کسی قوم‘ کسی نسل کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ نہیں‘ جو دوسرے کے ساتھ نہ ہو۔ اسبابِ سعادت اور اسباب شقاوت سب کے لیے یکساں ہیں۔ جو شقاوت کے اسباب فراہم کرے گا وہ محض اس بنا پر سعادت سے ہم کنار نہیں ہوسکتاکہ اس کا تعلق کسی خاص ملک یا نسل یا قوم سے ہے‘ اور اسی طرح جو سعادت کے اسباب فراہم کرے گا وہ بھی محض اس بنا پر اپنے کسب کے ثمرات سے محروم نہ رکھا جائے گا‘ کہ وہ فلاں نسل سے تعلق رکھتا ہے‘ یا فلاح نام سے موسوم ہے۔
فطرتِ انسانی کے اس دائمی‘ عالم گیر اور بے لاگ قانون ہی کا دوسرا نام ’’اسلام‘‘ ہے۔ اس کو انسان پر منکشف کرنے والا وہی فاطر کائنات ہے‘ جس نے انسان کی اور سارے جہان کی فطرت بنائی ہے۔ یہ کسی قوم پرست کا تخیل نہیں ہے‘ جو ساری دنیا کو اپنی قوم کے مفاد ومصالح کی نظر سے دیکھتا ہو۔ یہ کسی طبقاتی لیڈر کی فکر بھی نہیں ہے‘ جو سارے معاملات پر ایک طبقہ کے نقطۂ نظر سے نگاہ ڈالتا ہو۔ فی الجملہ یہ کسی انسان کے اجتہاد کا نتیجہ نہیں ہے‘ کہ کسی خاص عہد کا‘ کسی خاص ماحول کا اور کسی خاص شخص یا گروہ کی دل چسپیوں کا مُقیَّد ہو۔ یہ تو درحقیقت رب العالمین کی ہدایت سے ماخوذ ہے‘ اور رب العالمین وہ ہے‘ جس کی نگاہ میں سب انسان یکساں ہیں۔وہ انسان کو انسان کی حیثیت سے دیکھتا ہے نہ کہ ہندی اور جرمن اور اٹالین کی حیثیت سے‘ یا مزدور اور کسان اور سرمایہ دار کی حیثیت سے۔ اس کو اشخاص اور اقوام سے دلچسپی نہیں‘ بلکہ محض انسان سے ہے‘ اس لیے وہ دیانت‘ اخلاق اور مدنیّتِ فاضلہ کے جتنے اصول بتاتا ہے وہ سب کے سب ہر قسم کی محدودیتوں سے پاک ہیں۔ ان میں بحیثیت مجموعی تمام انسانوں کی فلاح وبہبود اور زندگی کے ہر مرحلے میں ان کی کامیابی مدّنظر رکھی گئی ہے۔ وہ فطرت کے تمام دوسرے قوانین کی طرح عالم گیر ہیں۔ ان کا کسی شخص یا قوم کے ساتھ کوئی مخصوص رشتہ نہیں ہے‘ جو کسی دوسرے شخص یا قوم کے ساتھ نہ ہوسکتا ہو۔ جو کوئی بھی ان اصولوں کو قبول کر کے ان کے مطابق عمل کرے گا فلاح پائے گا‘ خواہ رومی ہویا حبشی‘ آریہ نسل سے تعلق رکھتا ہویا سامی نسل سے‘ امریکہ میں رہتا ہویا ایشیا میں۔اور جو ان اصولوں سے انحراف کرے گا‘ نقصان اُٹھائے گا‘ خواہ وہ کسی پیغمبر کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔
اسلام کے انہی عالم گیر اصولوں پر انسانی حیات کی تعمیر نو کرنا ہر اس شخص کا فرض ہے‘ جو اسلام کی صداقت پر ایمان لائے۔ اور چونکہ ہم اس پر ایمان لائے ہیں اس لیے یہی ہماری تمام کوششوں کا مقصد ِاصلی ہے۔
مگر جب ہم کہتے ہیں‘ کہ ہمارا مقصد سب سے پہلے اپنے وطن کو اور بالآخر تمام دنیا کو ’’دارالاسلام‘‘ بنانا ہے‘ تو اس سے ایک ناواقف آدمی اس غلط فہمی میں پڑ جاتا ہے‘ کہ جس طرح ہر جو شیلا قوم پرست زمین میں اپنی قوم کا غلبہ اور تمکّن چاہتا ہے‘ اسی طرح یہ لوگ بھی اپنی قوم کو غالب اور حکمران دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کو ’’قوم‘‘ میں پیدا ہوئے ہیں اس لیے ’’مسلمانوں کی حکومت‘‘ ان کا نصب العین بن گیا ہے۔ یہی ہندوئوں میں پیدا ہوئے ہوتے‘ تو مونجے اور ساور کر بنتے۔{ FR 2480 } جرمنی میں پیدا ہوئے ہوتے‘ تو ہٹلر اور گوئرنگ کے روپ میں نمودار ہوتے۔ کسی اطالوی کی آغوشِ محبت میں جنم لیتے تو مسولینی کی صورت اختیار کرتے۔
یہ غلط فہمی صرف اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے‘ کہ ’’دارالاسلام‘‘ کو’’دارالمسلمین‘‘ کا ہم معنی سمجھا جانے لگا ہے‘ حالانکہ دونوں میں حقیقتہً بڑا فرق ہے۔ جو لوگ کلمہ گو ہونے کی وجہ سے ’’دائرہ اسلام‘‘ میں داخل ہیں‘ اور معاشرت کے اعتبار سے مسلمانوں میں شمار کیے جاتے ہیں‘ وہ اگر غیراسلامی طریقوں پر حکومت کریں‘ تو ان کی حکومت مسلمانوں کی حکومت تو ضرور کہلائے گی کہ اتفاق سے اس کے حکمران کلمہ گو ہیں‘ مگر ایسی حکومت اسلامی حکومت ہر گز نہ ہوگی‘ اور نہ اس پر صحیح معنوں میں ’’دارالاسلام‘‘ کا اطلاق ہوسکے گا۔ حاشا وکلا‘ ہمارا نصب العین ایسی’’مسلمان حکومت‘‘ کا قیام ہر گز نہیں ہے۔ اگر اس حیثیت سے ہم اپنی قوم کی بڑائی چاہیں‘ اور اگر ہمارا مقصد یہ ہوکہ محض فوجی طاقت سے مسند حکومت پر قبضہ کر کے زمین کی دولت اور فرماں روائی کے تکبر کو اپنی قوم کے لیے مخصوص کر لیں تو خود اسلام ہی سب سے پہلے آگے بڑھ کر ہم کو ظالم اور مفسد ٹھیرائے گا‘ کیونکہ وہ صاف کہتا ہے‘ کہ:
تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِيْنَ لَا يُرِيْدُوْنَ عُلُوًّا فِي الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا۝۰ۭ القصص 83:28
آخرت میں عزت کا مقام ہم نے صرف انہی لوگوں کے لیے رکھا ہے‘ جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کا ارادہ رکھتے ہیں۔
دراصل جو چیز ہمارے پیشِ نظر ہے وہ مسلمانوں کی حکومت نہیں‘ بلکہ ’’اسلام کی حکومت‘‘ ہے۔ اُسی اسلام کی حکومت جو مجموعہ ہے دیانت‘اخلاق اور مدنیّت‘فاضلہ کے عالم گیر اصولوں کا۔ یہ اسلام ہماری یا کسی کے باپ دادا کی میراث نہیں ہے۔اس کا کسی سے کوئی خاص رشتہ نہیں۔ جو ان اصولوں پر ایمان لائے اور ان پر عمل کرے‘ وہی اسلام کا علم بردار ہے۔ وہ اگر نسل کے اعتبار سے چما ر یا بھنگی بھی ہو‘ تو محمدرسول اﷲ a کی مسند ِخلافت پر بیٹھ سکتا ہے‘ وہ اگر نکٹا حبشی غلام بھی ہو‘ تو عرب وعجم کے شرفاء اور سادات کا امام بن سکتا ہے۔ ساڑھے تیرہ سو برس سے جن کے خاندان میں اسلام چلا آرہا ہے‘ وہ اگر آج ان اصولوں سے منحرف ہوجائیں‘ تو اسلام میں ان کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ اور کل تک جو شخص ہندو یا عیسائی یا پارسی تھا‘ شرک اور بت پرستی‘ شراب نوشی اور سود اور قمار بازی میں مبتلا تھا‘ وہی اگر آج اسلام کی فطری صداقتوں کو مان کر عملاً ان کا پابند ہوجائے‘ تو اس کے لیے اسلام میں عزت اور بزرگی کے اونچے سے اونچے مراتب تک پہنچنے کا راستہ کھلا ہوا ہے۔
اس مختصر توضیح سے یہ ظاہر ہوجاتا ہے‘ کہ ہمارا مقصد ایک قوم پر دوسری قوم کی بر تری نہیں ہے‘ بلکہ نظامِ تمدّن کو ان اصولوں پر مرتّب کرنا ہے‘ جو ہمارے ضمیر وایمان کے مطابق صحیح ہیں۔ اس پر اگر کوئی ناک بھوں چڑھائے‘ تو ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں‘ کہ اس کے پاس آخر وجوہِ اعتراض کیا ہیں۔
ظاہر ہے‘ کہ جب کوئی شخص یا گروہ کسی مسلک کا تنقیدی یا تحقیقی مطالعہ کر کے اس امر کا اطمینان حاصل کر لیتا ہے‘ کہ اس میں انسانیت کی فلاح اور انسانی معاملات وتعلقات کی بہتری کمال درجہ پر موجود ہے‘ تو اس کے اندر فطری طور پر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے‘ کہ جس اجتماعی زندگی سے خود اس کا تعلق ہے جس سوسائٹی کے ساتھ اس کی زندگی وموت وابستہ ہے جس حصّہ انسانیت کے ساتھ وہ تمدّنی‘ سیاسی اور معاشی تعلقات میں جکڑا ہوا ہے‘ سب سے پہلے اسی کے نظامِ حیات کو اس مسلک کے مطابق بنانے کی کوشش کرے۔ اسے اپنے اس پسندیدہ مسلک کے صحیح ومفید ہونے کا جتنا زیادہ یقین ہوگا‘ اور اس کے دل میں حُبِّ انسانیت یا حُبِّ وطن کا جذبہ جتنا زیادہ قوی ہوگا‘ اتنا ہی زیادہ اپنے ابنائے نوع یا ابنائے وطن کو اس مسلک ِحق کے فوائد سے بہرہ مند کرنے کے لیے بے چین ہوگا‘ جس میں وہ ان کی فلاح وبہبود اور کامرانی وخوش حالی مُضمر دیکھتا ہے‘ اور اتنی ہی زیادہ شدت کے ساتھ وہ ان مسلکوں کی حکمرانی کا مخالف ہوگا جن کو وہ پورے یقین کے ساتھ غلط اور نقصان دہ سمجھتا ہے۔ یہ عین انسانی فطرت کا مقتضا ہے‘ اور اس میں کوئی بات خلافِ حب ِوطن (unpatriotic)نہیں ہے‘ بلکہ خلافِ حبِّ وطن تو یہ بات ہے‘ کہ آدمی جس مسلک کو ایمانداری کے ساتھ موجبِ فلاح سمجھتا ہواس کو خاموشی کے ساتھ اپنے دل میں یا اپنے گھر میں لیے بیٹھا رہے‘ اور جن طریقوں کو وہ ایمانداری کے ساتھ نقصان رساں سمجھتا ہوا نہیں اپنے ابنائے وطن کی زندگی پر مسلّط نہ ہونے دے۔
جن لوگوں نے مغرب کے جمہوری نظام کا مطالعہ کیا اور اسے اپنے نزدیک بر حق پایا وہ آج کوشش کر رہے ہیں‘ کہ ہندستان کے نظامِ تمدّن کو مغربی ڈیمو کریسی کے نمونہ پر ڈھالیں۔ جن لوگوں نے سوشلزم کا مطالعہ کیا اور اسے برحق پایا وہ آج کوشش کر رہے ہیں‘ کہ ہندوستان کی اجتماعی تعمیر نو (social reconstruction)مارکسی اشتراکیت کے طریقہ پر ہو۔ یہ آخر کیوں ہے؟ کیا اس کے لیے کوئی حجّت اس کے سوا پیش کی جا سکتی ہے‘ کہ ان کے ایمان واعتقاد کا مقتضا یہی ہے؟ کیا ان کے اس اقدام کو کوئی شخص خلافِ حبِّ وطن یا خلافِ حبِّ انسانیت کہہ سکتا ہے؟ کیا ان کے حق میں یہ راست بازی ہوگی کہ وہ جس مسلک کو اپنے ابنائے جنس کے لیے سعادت وفلاح کا ذریعہ سمجھتے ہیں اس کو رائج کرنے کی جدوجہد نہ کریں‘ اور کسی ایسے نظامِ زندگی کی حکمرانی کو گوارا کر لیں جو ان کے نزدیک باشندگانِ ملک کو پستی اور بدحالی کی طرف لے جانے والا ہو؟ بالفرض ملک کی آزادی اور اقوام عالم کے درمیان اہلِ وطن کی عزت بڑھنے کا امکان کسی شخصی استبدادی حکومت کے قیام یا سرمایہ دارانہ نظام کے بقا میں ہو‘ تو کیا کسی سچے جمہوریت پسند یا کسی راست باز اشتراکی سے آزادی اور وطن کی عزت کے نام پر یہ اپیل کی جا سکتی ہے‘ کہ وہ اپنے اپنے مسلکوں کو چھوڑ کر اس طریقہ کو قبول کر لیں؟ اور کیا ان دونوں کو اس قسم کی اپیل سن کر واقعی ہتھیار ڈال دینا چاہئے؟
بالکل یہی پوزیشن ہماری بھی ہے۔ ہم کو جو چیز ’’دارالاسلام‘‘ کی صدا بلند کرنے پرمجبور کرتی ہے وہ بعینہٖ دہی ہے‘ جو دوسرے لوگوں کو ’’جمہوریت‘‘ اور ’’اشتراکیت‘‘ کے نعرے بلند کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ ہم نے برسوں اسلام کا تنقیدی اور تحقیقی مطالعہ کیا۔ ہم نے اس کی اعتقادی اساس‘ اس کے نظریۂ حیات‘ اس کے اصولِ اخلاق‘ اس کے نظامِ تمدّن‘ اس کے قوانین معاشرت ومعیشت‘ اس کے آئین سیاست وطرز حکومت‘ غرض اس کی ایک ایک چیز کو جانچا اور پرکھا۔ ہم نے دنیا کے دوسرے اجتماعی نظریات اور تمدّنی مسلکوں کو کھنگال کر دیکھا اور اسلام سے ان کا تقابل کیا۔ اس تمام مطالعے اور تحقیق وتنقید نے ہمیں اس امر پر پوری طرح مطمئن کر دیا کہ انسان کے لیے حقیقی فلاح وسعادت اگر کسی مسلک میں ہے‘ تو وہ صرف اسلام ہے۔ اس کے مقابلہ میں ہر مسلک ناقص ہے۔ کسی دوسرے مسلک کی اخلاقی بنیاد صالح اور مستحکم نہیں۔ کسی دوسرے مسلک میں انسان کی شخصیت کے ارتقا(development of personality)کا پورا موقع نہیں۔ کسی دوسرے مسلک میں اجتماعی عدل (social justice)اور بین الانسانی تعلقات کا صحیح توازن(balance) نہیں۔ کسی دوسرے مسلک میں فطرت انسانی کے تمام پہلوئوں کی متناسب رعایت نہیں۔ اسلام کے سوا کوئی مسلک دنیا میں ایسا موجود نہیں‘ جو انسان کو حقیقی آزادی سے ہم کنار کرتا ہو‘ اسے عزت کے بلند ترین مدارج کی طرف لے جاتا ہو‘ اور ایک ایسا اجتماعی ماحول پیدا کرتا ہو‘ جس میں ہر شخص اپنی قوّت واستعداد (capacity) کے مطابق اخلاقی‘ روحانی اور مادی ترقی کے انتہائی مدارج تک پہنچ سکے اور ساتھ ہی اپنے دوسرے ابنائے جنس کے لیے بھی ایسی ہی ترقی میں مددگار ہو۔
یہ اطمینان اور یقین حاصل ہوجانے کے بعد ہمارے لیے راست بازی کا تقاضا کیا ہے؟ کیا بالکل وہی نہیں‘ جو ہمارے جمہوریت پسند یا اشتراکیت پسند ابنائے جنس کے لیے ہے؟ جس مسلک اجتماعی کو ہم پوری دیانت کے ساتھ انسانیت کے لیے رحمت سمجھتے ہیں کیا ہم پر یہ فرض عائد نہیں ہوجاتاکہ اپنے ملک اور اپنے ابنائے نوع کی اجتماعی زندگی کو اسی مسلک کے مطابق منظم کرنے کی جدوجہد کریں؟ جو چیز جمہوریت پسندوں اور اشتراکیت پسندوں کے لیے حق ہے وہ ہمارے لیے کیوں غیر حق ہے؟
اسلام کے متعلق ہماری یہ رائے کچھ اس وجہ سے نہیں ہے‘ کہ ہم مسلمان گھر میں پیدا ہوئے ہیں‘ اور اسلام کے حق میں ایک طرح کا پیدائشی میلان رکھتے ہیں‘ اپنے دوسرے رفقاء کے متعلق تو میں نہیں کہہ سکتاکہ ان کا کیا حال ہے‘ مگر اپنی ذات کی حد تک میں کہہ سکتا ہوں کہ اسلام کو جس صورت میں میں نے اپنے گردو پیش کی مسلم سوسائٹی میں پایا‘ میرے لیے اس میں کوئی کشش نہ تھی۔ تنقید وتحقیق کی صلاحیت پیدا ہونے کے بعد پہلا کام جو میں نے کیا وہ یہی تھا‘ کہ اس بے روح مذہبیت کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکا جو مجھے میراث میں ملی تھی۔ اگر اسلام صرف اسی مذہب کا نام ہوتا جو اس وقت مسلمانوں میں پایا جاتا ہے‘ تو شاید میں بھی آج ملحدوں اور لامذہبوں میں جا ملا ہوتا‘ کیونکہ میرے اندر نازی فلسفہ کی طرف کوئی میلان نہیں ہے‘ کہ محض حیاتِ قومی کی خاطر اجداد پرستی کے چکر میں پڑا رہوں۔ لیکن جس چیز نے مجھے الحاد کی راہ پر جانے یا کسی دوسرے اجتماعی مسلک کو قبول کرنے سے روکا اور از سرِنو مسلمان بنایا وہ قرآن اور سیرت محمدیa کا مطالعہ تھا۔ اس نے مجھے انسانیت کی اصل قدرو قیمت سے آگاہ کیا۔ اس نے آزادی کے اس تصوّر سے مجھے روشناس کیا‘ جس کی بلندی تک دنیا کے کسی بڑے سے بڑے لبرل اور انقلابی کا تصوّر بھی نہیں پہنچ سکتا۔ اس نے انفرادی حسنِ سیرت اور اجتماعی عدل کا ایک ایسا نقشہ میرے سامنے پیش کیا‘ جس سے بہتر کوئی نقشہ میں نے نہیں دیکھا۔ اس کے تجویز کردہ لائحہ زندگی (scheme of life)میں مجھے ویسا ہی کمال درجہ کا توازن (balance)نظر آیا جیسا کہ ایک سالمہ (atom)کی بندش سے لے کر اجرامِ فلکی کے قانونِ جذب وکشش تک ساری کائنات کے نظم میں پایا جاتا ہے۔ اور اسی چیز نے مجھے قائل کر دیا کہ یہ نظامِ اسلامی بھی اسی حکیم کا بنایا ہوا ہے‘ جس نے اس جہانِ ارض وسما کو عدل اور حق کے ساتھ بنایا ہے۔
پس درحقیقت میں ایک نو مسلم ہوں۔ خوب جانچ کر اور پرکھ کر کس مسلک پر ایمان لایا ہوں‘ جس کے متعلق میرے دل ودماغ نے گواہی دی ہے‘ کہ انسان کے لیے فلاح وصلاح کا کوئی راستہ اس کے سوا نہیں ہے۔ میں صرف غیر مسلموں ہی کو نہیں‘ بلکہ خود مسلمانوں کو بھی اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں ‘اور اس دعوت سے میرا مقصد اس نام نہاد مسلم سوسائٹی کو باقی رکھنا اور بڑھانا نہیں ہے‘ جو خود ہی اسلام کی راہ سے بہت دور ہٹ گئی ہے‘ بلکہ یہ دعوت اس بات کی طرف ہے‘ کہ آئو اس ظلم وطغیان کو ختم کر دیں جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے‘ انسان پر سے انسان کی خدائی کو مٹا دیں اور قرآن کے نقشہ پر ایک نئی دنیا بنائیں‘ جس میں انسان کے لیے بحیثیت انسان کے شرف وعزت ہو‘ حریت اور مساوات ہو‘ عدل اور احسان ہو۔
بد قسمتی سے اس وقت ہندستان میں حالات نے کچھ ایسی صورت اختیار کر لی ہے‘ جس کی وجہ سے اسلام کی تبلیغ کا نام سنتے ہی ایک شخص کا ذہن فوراً ووٹ بڑھانے کی کوشش اور سیاسی غلبہ (domination)کی خواہش اور اسی قبیل کی بہت سی دوسری چیزوں کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ ایک طرف جمہوری طرز حکومت کے قیام نے سیاسی طاقت اور اس کے تمام ضمنی فوائد کو ووٹوں کی کثرت پر منحصر کر دیا ہے دوسری طرف مسلمانوں کی پوزیشن یہاں کچھ ایسی ہے‘ کہ ان کی جانب سے اپنے مسلک کو پھیلانے کی کوئی کوشش اس شبہ سے بچ نہیں سکتی کہ یہ حوصلہ مند (ambitious)قوم اس راستہ سے سیاسی اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ان شبہات کو قوّت پہنچانے میں خود مسلمانوں کا اپنا بھی کافی حصّہ ہے۔ ان کے بہت سے غلط نمائندوں نے تبلیغ تبلیغ کا شور کچھ اس طرح بلند کیا کہ گویا یہ محض ایک سیاسی حربہ ہے‘ جسے اس جمہوری دور میں صرف اس غرض کے لیے استعمال کرنا چاہئے کہ اپنی قلّت تعداد کے پیچیدہ مسئلے کو حل کیا جائے۔ اس چیز نے اسلام کے راستے میں ایک شدید قسم کا سیاسی تعصّب حائل کر دیا ہے۔ سوشل ازم‘ کمیونزم‘ فاشزم یا اور کسی ازم کی تبلیغ کی جائے‘ تو لوگ اس کو محض اس کے ذاتی اوصاف (merits)کے لحاظ سے دیکھتے ہیں‘ اور اگر ان کے دماغ کو وہ اپیل کرتا ہے‘ تو اسے قبول کر لیتے ہیں۔ مگر ’’اسلام ازم‘‘ کا نام آتے ہی لوگوں کا ذہن اس طرف منتقل ہوجاتا ہے‘ کہ یہ ہمارے ملک کی ایک ایسی قوم کا مسلک ہے‘ جو پہلے یہاں حکومت کر چکی ہے‘ اور اس جمہوری دور میں قلیل التّعداد ہونے کی وجہ سے اپنے ووٹ بڑھانا چاہتی ہے۔تاکہ نمائندہ مجالس کی نشستوں اور دفتری ملازمت کی کرسیوں پر قبضہ کرے۔ یہ خیال آتے ہی دل ودماغ پر قومی تعصّب کے قفل چڑھ جاتے ہیں‘ اور ذاتی اوصاف کے لحاظ سے جانچنے پرکھنے کا سوال ہی خارج از بحث ہوجاتا ہے۔
ہمیں ان حالات کا بڑے صبر کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑے گا۔ نیکی اور صداقت کی راہ میں ہمیشہ مشکلات حائل ہوتی رہی ہیں۔ شیطانی راہیں آسان ہوتی ہیں‘ اور حق کی راہ بہرحال موانع سے لبریز رہتی ہے۔ محض صبر‘ لگاتا ر سعی اور خالصتہً لوجہ اﷲ کام کرنے سے ہم مسلمانوں کے دل بھی بدل سکتے ہیں‘ اور غیر مسلموں کے دل بھی۔ جب ہماری سعی وجہد میں خدا کی خوش نودی اور بنی نوعِ انسان کی خیر خواہی کے سوا کسی دنیوی غرض کا شائبہ تک نہ ہوگا‘ تو لوگوں کے دل خود بخود اس حقیقت کا ادراک کرنے کے لیے تیار ہوجائیں گے کہ اسلام کسی نسل اور قوم کی میراث نہیں ہے‘ بلکہ ایک انسانی مسلک ہے‘ جس کا تعلق تمام انسانوں سے ویسا ہی عام ہے‘ جیسا ہوا اور پانی کا تعلق سب سے ہے۔ اس میں ہر انسان دوسرے انسان کے ساتھ برابر کا شریک ہوسکتا ہے۔ یہ جس طرح مسلمانوں کی چیز ہے اسی طرح تمہاری بھی ہوسکتی ہے۔ بلکہ اگر نیکی اور تقویٰ اور قانون الٰہی کی اطاعت میں تم نسلی مسلمانوں سے بڑھ جائو تو امامت تم کو ملے گی‘ تقدّم اور شرف تم کو حاصل ہوگا‘ خلافت کے امین تم ہوگے‘ اور نسلی مسلمان پیچھے رہ جائیں گے۔ یہاں برہمنیت اور نسل پرستی نہیں ہے‘ کہ عزت وشرف اور قوّت واقتدار پر کسی خاص گروہ کا دوامی اجارہ ہو۔ یہاں ایک قوم پر دوسری قوم کے غلبہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تبلیغِ اسلام کی نوعیت اچھوت ادھار{ FR 2481 }کی سی نہیں ہے‘ کہ ایک قوم محض دوسری قوم کے ووٹ بڑھانے کے لیے اس کی جُزو بنائی جائے‘ مگر زندگی کی متاع میں اسے برابر کا حصّہ نہ دیا جائے۔{ FR 2482 } اسلام میں تو برابر ہی نہیں‘ بلکہ اوصاف ذاتی کے لحاظ سے ایک شخص زیادہ کا حصّہ دار بھی ہوسکتا ہے۔
یہاں پیدائش کی وجہ سے آدمی اور آدمی میں کوئی امتیاز نہیں۔ کسی شخص کی راہ میں اس کے پیشے یا اس کی قومیّت کی وجہ سے کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ تم اپنے کیرکٹر اور اپنے کردار کے زور سے جہاں تک اڑنے کی طاقت رکھتے ہواُڑ سکتے ہو۔ فرش سے عرش تک تمہاری ترقی کی راہ میں کوئی روک نہیں۔
بعض لوگوں کے ذہن میں یہ خیال بھی کھٹکتا ہے‘ کہ اسلام تیرہ چودہ صدی پہلے کا ایک مذہب ہے‘ اس کو آج ایک فکری واخلاقی اور تمدّنی وسیاسی تحریک کی حیثیت سے زندہ کرنے کا کون سا موقع ہے؟
جو لوگ دور سے کسی چیز کو محض سر سری نظر ہی سے دیکھ کر رائے قائم کر لیتے ہیں ان کی رائے عموماً غلط ہوا کرتی ہے۔ ایسی ہی غلطی یہ لوگ بھی کر رہے ہیں انہوں نے قرآن کا غائر نظر سے مطالعہ نہیں کیا۔ محمدa کی زندگی پر تحقیقی نظر نہیں ڈالی۔ اس لیے محض قیاسی مفروضات کی بناء پر یہ فیصلہ کر لیتے ہیں‘ کہ اسلام اب سے تیرہ سو برس پہلے کی ایک مذہبی تحریک تھی جو اس زمانہ کے مخصوص تمدّنی حالات میں تو بلاشبہ مفید ثابت ہوئی‘ مگر اب حالات بہت بدل چکے ہیں اس زمانہ کے حالات میں وہ پرانا مسلک کچھ فائدہ مند ثابت نہ ہوگا۔ اس غلط فہمی کے پیدا ہونے اور جڑ پکڑنے میں خود مسلمانوں کے اپنے طرزِعمل کا بھی بہت کچھ دخل ہے‘ انہوں نے خود بھی اسلام کے ساتھ انصاف نہیں کیا اور اسے ایک تحریک (movement)کے بجائے محض زمانۂ سلف کی ایک مقدس میراث بنا کر رکھ دیا۔ حالانکہ ایک سلیم الفطرت آدمی اگر اپنے ذہن سے تاریخی اور سیاسی تعصّبات اور پیشگی مفروضات کو نکال کر اسلام کا سائنٹی فک مطالعہ کرے تو اس پر یہ حقیقت بآسانی منکشف ہوسکتی ہے‘ کہ اسلام کسی خاص زمانہ کی مذہبی تحریک نہیں ہے‘ جس کی بنیاد وقتی اور مکانی حالات پر ہو‘ بلکہ یہ ایسے اصولوں کا مجموعہ ہے‘ جو انسانی فطرت کے حقائق پر مبنی ہیں‘ اور عام قوانینِ فطری کے ساتھ کامل موافقت(harmony) رکھتے ہیں۔ انسان کے حالات اور خیالات خواہ کتنے ہی بدل جائیں‘ مگر اس کی فطرت ہر حال میں جوں کی توں رہتی ہے۔زمانہ خواہ کتنے ہی پلٹے کھائے‘ بہرحال کائناتِ فطرت کے حقائق اور قوانین میں کوئی تغیّر واقع نہیں ہوتا۔ لہٰذا جو فطری اصول طوفان نوح علیہ السلام کے وقت انسانی زندگی کے لیے مفید تھے وہی اس بیسویں صدی عیسوی میں بھی مفید ہیں‘ اور وہی ۵۰۰۰ عیسوی میں بھی منزلِ سعادت کی طرف انسان کی رہنمائی کے لیے کافی ہوں گے۔ تغیّرّ جو کچھ بھی ہوگا ان فطری اصولوں میں نہیں‘ بلکہ بدلنے والے حالات پر ان کے انطباق(application)میں ہوگا۔ اسلام کی اصطلاح میں اِس کا نام اجتہاد ہے‘ یعنی اصول کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر قانون کی اسپرٹ کے مطابق نئے حالات پر منطبق کرنا۔ اور یہ اجتہاد ہی وہ چیز ہے‘ جو نظامِ اسلامی کو ایک محرک ومتحرک (dynamic)نظام بناتا ہے‘ اور اس کے قوانین کو حالات وضروریات کے مطابق مرتّب (adjust) کرتا رہتا ہے۔
(ترجمان القرآن۔ جولائی ۱۹۳۹ء)

شیئر کریں