Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرض ناشر
دیباچہ طبع اوّل
دیباچہ طبع پنجم
اِسلام اور جاہلیّت کی اُصولی و تاریخی کش مکش
زِندگی کے چار نظریے
۱۔ جاہلیّت خالصہ
۲۔ جاہلیّتِ مشرکانہ
۳۔ جاہلیّت ِراہبانہ
۴۔ اِسلام
انبیا علیہم السلام کا مشن
نبی کے کام کی نوعیت
خلافتِ راشدہ
جاہلیّت کا حملہ
مجددین کی ضرورت
شرحِ حدیث ’’مَنْ یُّجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا‘‘
کارِ تجدید کی نوعیت
مجدد کی تعریف
مجدد اور نبی کا فرق
الامام المہدی
امت کے چند بڑے بڑے مجددین اَور اُن کے کارنامے
عمربن عبدالعزیز ؒ
ائمہ اربعہ
امام غزالی ؒ
ابنِ تیمیہؒ
شیخ احمد سرہندیؒ
شاہ ولی اللّٰہ دہلویؒ کا کارنامہ
تنقیدی کام
تعمیری کام
نتائج
سید احمد بریلویؒ اور شاہ اسمٰعیل شہید
اسبابِ نکامی
ضمیمہ
منصب تجدید اور امام مہدی کے متعلق چند تصریحات
کشف و الہام کی حقیقت اور چند مجدد ین کے دعاوی
تصوف اور تصور شیخ
ایک بے بنیاد تہمت اور اس کا جواب
المہدی کی علامات اور نظامِ دین میں اس کی حیثیت
مسئلہ مہدی

تجدید واحیائے دین

”اسلام کی اصطلاحی زبان کے جو الفاظ کثرت سے زبان پر آتے ہیں ان میں سے ایک لفظ ”مجدد“بھی ہے۔ اس لفظ کا ایک مجمل مفہوم تو قریب قریب ہر شخص سمجھتا ہے، یعنی یہ کہ جو شخص دین کو از سر نو زندہ اور تازہ کرے وہ مجدد ہے لیکن اس کے تفصیلی مفہوم کی طرف بہت کم ذہن منتقل ہوتے ہیں۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ تجدید دین کی حقیقت کیا ہے، کس نوعیت کے کام کو تجدید سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ، اس کام کے کتنے شعبے ہیں، مکمل تجدید کا اطلاق کس کارنامے پر ہو سکتا ہے اور جزوی تجدید کیا ہوتی ہے؟ اسی ناواقفیت کا نتیجہ ہے کہ لوگ ان مختلف بزرگوں کے کارناموں کی پوری طرح تشخیص نہیں کر سکتے جن کو تاریخ اسلام میں مجدد قرار دیا گیا ہے۔ وہ بس اتنا جانتے ہیں کہ عمر ابن عبد العزیز بھی مجدد، امام غزالی بھی مجدد، ابن تیمیہ بھی مجدد، شیخ احمد سرہندی بھی مجدد اور شاہ ولی اللہ بھی مجدد، مگر ان کو یہ معلوم نہیں کہ کون کس حیثیت سے مجدد ہے اور اس کا تجدیدی کارنامہ کس نوعیت اور کس مرتبہ کا ہے۔ اس ذ ہول اور غفلت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جن ناموں کے ساتھ ”حضرت“، ”امام“، ”حجت الاسلام “، ”قطب العارفین“، ”زبدة السالکین“اور اسی قسم کے الفاظ لگ جاتے ہیں ان کی عقیدت مند ی کا اتنا بو جھ دماغوں پر پڑ جاتا ہے کہ پھر کسی میں یہ طاقت نہیں رہتی کہ آزادی کے ساتھ ان کے کارناموں کا جائزہ لے کر ٹھیک ٹھیک مشخص کر سکے کہ کس نے اس تحریک کے لیے کتنا اور کیسا کام کیا ہے اور اس خدمت میں اس کا حصہ کس قدر ہے۔ عموماً تحقیق کی نپی تلی زبان کے بجاے ان بزرگوں کے کارنامے عقیدت کی شاعرانہ زبان میں بیان کیے جاتے ہیں جن سے پڑھنے والے پر یہ اثر پڑتا ہے اور شاید لکھنے والے کے ذہن میں بھی یہی ہوتا ہے کہ جس کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ فرد کامل تھا اور اس نے جو کچھ بھی کیا وہ ہر حیثیت سے کمال کے آخری مرتبے پر پہنچا ہوا تھا۔ حالانکہ اگر اب ہم کو تحریک اسلامی کی تجدید و احیا کے لیے کوئی کوشش کرنی ہے تو اس قسم کی عقیدت مندی اور اس ابہام و اجمال سے کچھ کام نہ چلے گا۔ ہم کو پوری طرح اس تجدید کے کام کو سمجھنا پڑے گا۔ اور اپنی پچھلی تاریخ کی طرف پلٹ کر دیکھنا ہوگا کہ ان بہت سی صدیوں میں ہمارے مختلف لیڈروں نے کتنا کتنا کام کس کس طرح کیا ہے ، ان کے کارناموں سے ہم کس حد تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اور ان سے کیا کچھ چھوٹ گیا ہے جس کی تلافی پر اب ہمیں متوجہ ہو نا چاہیے۔ “ مولانا مودودیؒ نے اس کتاب کے مندرجہ بالا دیباچے ہی میں اس کتاب کی غرض وغایت بتادی ہے۔ سید مودودیؒ مزید لکھتے ہیں: ”یہ مضمون ایک مستقل کتاب چاہتا ہے۔ مگر کتاب لکھنے کی فرصت کہاں۔ یہی غنیمت ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب کا ذکر خیر چھڑ گیا جس کی وجہ سے اس مضمون کی طرف چند اشارے کرنے کا موقع نکل آیا۔ شاید کہ اِنھیں اشاروں سے کسی اللہ کے بندے کو تاریخ تجدید و احیاے دین کی تدوین کا راستہ مل جائے۔ یہ مقالہ جو اس وقت کتابی شکل میں شائع کیا جا رہا ہے، ابتدا جر یدہ”الفرقان“بریلی کے شاہ ولی اللہ نمبر کے لیے لکھا گیا تھا۔ اس لیے اس میں شاہ صاحب کے تجدیدی کارناموں پر نسبت زیادہ مفصل نگاہ ڈالی گئی ہے اور دوسرے مجد دین کے کام کا ذکر ضمنی طور پر کیا گیا ہے۔ اس مقالہ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ اس میں تمام مجد دین کے کارناموں کا احاطہ مقصود نہیں ہے بلکہ صرف ان بڑے بڑے مجددین کا ذکر کیا گیا ہے جو اسلام کی تاریخ پر اپنا ایک مستقل نشان چھوڑ گئے ہیں۔ نیز یہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ تجدید کا کام بہت لوگوں نے کیا اور ہر زمانہ میں بہت لوگ کرتے ہیں مگر ”مجدد“کا لقب پانے کے مستحق کم ہی ہوتے ہیں۔ “

پی ڈی ایف ڈاؤنلوڈ کریں

تصوف اور تصور شیخ

سوال: ’’میں نے پورے اخلاص و دیانت کے ساتھ آپ کی دعوت کا مطالعہ کیا ہے۔ باوجود سلفی المشرب ہونے کے آپ کی تحریک اسلامی کا اپنے آپ کو ادنیٰ خادم اور ہم درد تصور کرتا ہوں اور اپنی بساط بھر اسے پھیلانے کی جدوجہد کرتا ہوں۔ حال میں چند چیزیں تصوف اور تصور شیخ سے متعلق نظر سے گزریں جنھیں پڑھ کر میرے دل و دماغ میں چند شکوک پیدا ہوئے ہیں۔ آپ عجمی بدعات کو مباح قرار دے رہے ہیں، حالانکہ اب تک کا سارا لٹریچر ان کے خلاف زبردست احتجاج رہا ہے جب کہ ہماری دعوت کا محور ہی فریضہ اقامت دین ہے تو اگر ہم نے خدانخواستہ کسی بدعت کو انگیز کیا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ساری بدعات کو تحریک میں گھس آنے کا موقع دے دیا گیا۔ آپ براہ کرم میری ان معروضات پر غور کرکے بتائیے کہ کتاب و سنت کی روشنی میں تصوف اور تصور شیخ کے متعلق آپ کے کیا خیالات ہیں اورفی نفسہٖ یہ مسلک کیا ہے۔ امید ہے کہ ’’ترجمان‘‘ میںپوری وضاحت کرکے ممنون فرمائیں گے۔
جواب: آپ کو میرے کسی ایک فقرے سے جو شبہات لاحق ہو گئے ہیں وہ کبھی پیدا نہ ہوتے اگر اس مسئلے کے متعلق میرے دوسرے واضح بیانات آپ کی نگاہ میں ہوتے۔ بہرحال اب میں واضح الفاظ میں آپ کے سوالات کا مختصر جواب عرض کیے دیتا ہوں۔
(۱) تصوف کسی ایک چیز کا نام نہیں ہے، بلکہ بہت سی مختلف چیزیں اس نام سے موسوم ہو گئی ہیں۔ جس تصوف کی ہم تصدیق کرتے ہیں وہ اور چیز ہے، جس تصوف کی ہم تردید کرتے ہیں وہ ایک دوسری چیز ہے اور جس تصوف کی ہم اصلاح چاہتے ہیں وہ ایک تیسری چیز ہے۔
ایک تصوف وہ ہے جو اِسلام کے ابتدائی دور کے صوفیہ میں پایا جاتا تھا۔ مثلاً فضیل بن عیاض، ابراہیم ادھم، معروف کرخی وغیرہم رحمہم اللّٰہ اس کا کوئی الگ فلسفہ نہ تھا، اس کا کوئی الگ طریقہ نہ تھا، وہی افکار اور وہی اشغال و اعمال تھے جو کتاب و سنت سے ماخوذ تھے اور ان سب کا وہی مقصود تھا جو اِسلام کا مقصود ہے، یعنی اخلاص للہ اور توجہ الی اللّٰہ، وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۝۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ البینہ98:5
اس تصوف کی ہم تصدیق کرتے ہیں اور صرف تصدیق ہی نہیں کرتے بلکہ اسے زندہ اور شائع کرنا چاہتے ہیں۔
دوسرا تصوف وہ ہے جس میں اشراقی اور رواقی اور زردشتی اور ویدانتی فلسفوں کی آمیزش ہو گئی ہے، جس میں عیسائی راہبوں اور ہندو جوگیوں کے طریقے شامل ہو گئے ہیں، جس میں مشرکانہ تخیلات و اعمال تک خلط ملط ہو گئے ہیں۔ جس میں شریعت اور طریقت اور معرفت الگ الگ چیزیں… ایک دوسرے سے کم و بیش بے تعلق، بلکہ بسا اوقات باہم متضاد … بن گئی ہیں اور جس میں انسان کو خلیفۃ اللّٰہ فی الارض کے فرائض کی انجام دہی کے لیے تیار کرنے کے بجائے اس سے بالکل مختلف دوسرے ہی کاموں کے لئے تیار کیا جاتا ہے اسے مٹانا خدا کے دین کو قائم کرنے کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا جاہلیّت جدیدہ کو مٹانا۔
ان دونوں کے علاوہ ایک اور تصوف بھی ہے جس میں کچھ خصوصیات پہلی قسم کے تصوف کی اور کچھ خصوصیات دوسری قسم کے تصوف کی ملی جلی پائی جاتی ہیں۔ اس تصوف کے طریقوں کو متعدد ایسے بزرگوں نے مرتب کیا ہے جو صاحب علم تھے، نیک نیت تھے، مگر اپنے دور کی خصوصیات اور پچھلے ادوار کے اثرات سے بالکل محفوظ بھی نہ تھے۔ انھوں نے اِسلام کے اصلی تصوف کو سمجھنے اور اس کے طریقوں کو جاہلی تصوف کی آلودگیوں سے پاک کرنے کی پوری کوشش کی، لیکن اس کے باوجود ان کے نظریات میں کچھ نہ کچھ اثرات جاہلی فلسفہ تصوف کے اور ان کے اعمال و اشغال میں کچھ نہ کچھ اثرات باہر سے لیے ہوئے اعمال و اشغال کے باقی رہ گئے جن کے بارے میں انھیں یہ اشتباہ پیش آیا کہ یہ چیزیں کتاب و سنت کی تعلیم سے متصادم نہیں ہیں، یا کم از کم تاویل سے انھیں غیر متصادم سمجھا جا سکتا ہے۔ علاوہ بریں اس تصوف کے مقاصد اور نتائج بھی اِسلام کے مقصد اور اس کے مطلوبہ نتائج سے کم و بیش مختلف ہیں۔ نہ اس کا مقصد واضح طور پر انسان کو فرائض خلافت کی ادائیگی کے لیے تیار کرنا اور وہ چیز بنانا ہے جسے قرآن نے لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ البقرہ143:2 کے الفاظ میں بیان کیا ہے اور نہ ان کا نتیجہ ہی یہ ہو سکا ہے کہ اس کے ذریعہ سے ایسے آدمی تیار ہوتے جو دین کے پورے تصور کو سمجھتے اور اس کی اقامت کی فکر انھیں لاحق ہوتی اور وہ اس کام کو انجام دینے کے اہل بھی ہوتے۔ اس تیسری قسم کے تصوف کی نہ ہم کلی تصدیق کرتے ہیں اور نہ کلی تردید۔ بلکہ اس کے پیروئوں اور حامیوں سے ہماری گذارش یہ ہے کہ براہِ کرم بڑی بڑی شخصیتوں کی عقیدت کو اپنی جگہ رکھتے ہوئے آپ اس تصوف پر کتاب و سنت کی روشنی میں تنقیدی نگاہ ڈالیں اور اسے درست کرنے کی کوشش کریں نیز جو شخص اس تصوف کی کسی چیز سے اس بنا پر اختلاف کرے کہ وہ اسے کتاب و سنت کے خلاف پاتا ہے، تو قطع نظر اس سے کہ آپ اس کی رائے سے موافقت کریں یا مخالفت، بہرحال اس کے حق تنقید کا انکار نہ فرمائیں اور اسے خواہ مخواہ نشانہ ملامت نہ بنانے لگیں۔
(۲) تصور شیخ کے بارے میں میرا موقف یہ ہے کہ اس پر دو حیثیتوں سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔ ایک بجائے خود ایک فعل ہونے کی حیثیت، دوسرے ایک ذریعہ تقرب الی اللّٰہ ہونے کی حیثیت۔
پہلی حیثیت میں اس فعل کے صرف جائز یا ناجائز ہونے کا سوال پیدا ہوتا ہے اور اس کے فیصلے کا انحصار اس پر ہے کہ آدمی کس نیت سے یہ فعل کرتا ہے؟ ایک نیت ایسی ہے جس کا لحاظ کرتے ہوئے اسے حرام کہنے کے سوا چارہ نہیں ہے۔ دوسری نیت ایسی ہے جس کا لحاظ کرتے ہوئے یہ مشکل ہے کہ کوئی فقیہ اسے ناجائز کَہ سکے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے میں کسی شخص کو کسی اجنبیہ کے حسن کا نظارہ کرتے ہوئے دیکھوں اور اس حرکت کی غرض دریافت کرنے پر وہ مجھے بتائے کہ میں اپنے ذوقِ جمالِ کو تسکین دے رہا ہوں۔ ظاہر ہے کہ مجھے کہنا پڑے گا کہ تو یقینا ایک ناجائز کام کر رہا ہے۔ دوسرے کو یہی حرکت کرتے دیکھوں اور میرے پوچھنے پر وہ مجھے جواب دے کہ میں اس سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ اس صورت میں مجھے مجبوراً یہ کہنا پڑے گا کہ تیرا یہ فعل ناجائز نہیں ہے اس لیے کہ وہ اپنے فعل کی ایک ایسی وجہ بیان کر رہا ہے جسے شرعاً میں غلط نہیں کَہ سکتا۔
اب رہی اس تصور شیخ کی دوسری حیثیت۔ تومجھے اس امر میں نہ کبھی شک رہا ہے اور نہ آج تک شک ہے کہ اس حیثیت سے یہ فعل قطعی غلط ہے خواہ اس کی نسبت کیسے ہی بڑے لوگوں کی طرف کی گئی ہو۔ میں کہتا ہوں کہ اللّٰہ سے تعلق پیدا کرنے اور بڑھانے کے ذرائع بتانے میں خود اللّٰہ اور اس کے رسولؐ نے ہرگز کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔ پھر کیوں ہم ان کے بتائے ہوئے ذرائع پر قناعت نہ کریں اور ایسے ذرائع ایجاد کرنے لگیں جو بجائے خود بھی مخدوش ہوںاور جن کے اندر ذرا سی بے احتیاطی آدمی کو قطعی اور صریح ضلالتوں کی طرف لے جا سکتی ہو؟
اس معاملہ میں یہ بحث پیدا کرنا اصولاً غلط ہے کہ جب دوسرے تمام معاملات میں ہم مقاصدِ شریعت کو حاصل کرنے کے لیے وہ ذرائع اختیار کرنے کے مجاز ہیں جو مباحات کے قبیل سے ہوں، تو آخر تزکیہ ِ نفس اور تقرب الی اللّٰہ کے معاملہ میں ہم کیوں انھیں اختیار کرنے کے مجاز نہ ہوں؟ یہ استدلال اصولاً اس لیے غلط ہے کہ دین کے دو شعبے ایک دوسرے سے الگ نوعیت رکھتے ہیں۔ ایک شعبہ تعلق باللّٰہ کا ہے اور دوسرا شعبہ تعلق بالنّاس اور تعلق بالدُّنیا کا۔ پہلے شعبے کا اصول یہ ہے کہ اس میں ہمیں انھی عبادات اور انھی طریقوں پر انحصار کرنا چاہیے جو اللّٰہ اور اس کے رسول نے بتا دیے ہیں، ان میں کوئی کمی کرنے، یا ان پر کسی نئی چیز کا اضافہ کرنے کا ہمیں حق نہیں ہے۔ کیوں کہ اللّٰہ کی معرفت اور اس کے ساتھ تعلق جوڑنے کے ذرائع کی معرفت کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ کتاب اللّٰہ و سنت رسول اللّٰہ کے سوا نہیں ہے۔ اس معاملہ میں جو کمی یا بیشی بھی کی جائے گی وہ بدعت ہو گی اور ہر بدعت ضلالت ہے۔ یہاں یہ اصول نہیں چل سکتا کہ جو کچھ ممنوع نہیں ہے وہ مباح ہے۔ بلکہ اس کے برعکس یہاں اصول یہ ہے کہ جو کچھ منصوص نہیں ہے وہ بدعت ہے۔ یہاں اگر قیاس سے بھی کوئی مسئلہ نکالا جائے گا تو لازماً اس کا کوئی مبنیٰ کتاب و سنت میں موجود ہونا چاہیے۔ بخلاف اس کے تعلق بالنّاس اور تعلق بالدُّنیا کے شعبے میں مباحات کا باب کھلا ہوا ہے۔ جو حکم دے دیا گیا ہے اس حکم کی اطاعت کیجیے، جو کچھ منع کیا گیا ہے اس سے رک جائیے اور جس معاملہ میں حکم نہیں دیا گیا ہے اس میں اگر کسی ملتے جلتے معاملے پر کوئی حکم ملتا ہو تو اس پر قیاس کر لیجیے، یا قیاس کا بھی موقع نہ ہو تو اِسلام کے اصولِ عامہ کے تحت مباحات میں سے جس چیز اور جس طریقے کو نظامِ اور اسلامی کے مزاج سے مطابق پائیے اسے قبول کر لیجیے۔ اس شعبے میں یہ آزادی ہمیں اس لیے دی گئی ہے کہ دُنیا اور انسان اور دنیوی معاملات کے متعلق مصلحت کو جاننے کے عقلی اور علمی ذرائع کم از کم اس حد تک ہمیں ضرور حاصل ہیں کہ کتاب اللّٰہ و سنت رسول اللّٰہ کی راہ نُمائی سے مستفید ہونے کے بعد ہم خیر کو شر سے اور صحیح کو غلط سے ممیز کر سکتے ہیں۔ پس یہ آزادی صرف اسی شعبے تک محدود رہنی چاہیے۔ اسے پہلے شعبے تک وسیع کرکے اور جو کچھ ممنوع نہیں ہے، اسے مباح سمجھ کر، تعلق باللّٰہ کے معاملے میں نئے نئے طریقے نکالنا یا دوسروں سے اخذ کرکے اختیار کر لینا بنیادی طور پر غلط ہے۔ اسی غلطی میں مبتلا ہو کر نصاریٰ نے رہبانیت ایجاد کرلی تھی جس کی قرآن میں مذمت کی گئی۔
(ترجمان القرآن۔ جمادی الاول ۱۳۷۱؁ھ فروری ۱۹۵۲؁ء )

شیئر کریں