پچھلے صفحات میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اب تک انسان نے اس مسئلے کو سمجھنے کی جتنی کوششیں کی ہیں وہ سب ناکام ہوئی ہیں۔ ان تمام ناکامیوں کی وجہ صرف ایک ہے۔ یعنی ان ذرائع کا فقدان جس سے انسان اس وسیع کائنات کے نظامِ حکومت اور اس عظیم الشان سلطنت الٰہی کے دستور اساسی کو معلوم کر سکے۔ ہمارے سامنے ایک زبردست کارخانہ چل رہا ہے۔ ہم خود اس کارخانے کے کل پرزوں میں سے ایک حقیر پرزہ ہیں اور اس کے دوسرے پرزوں کے ساتھ ہم بھی حرکت کر رہے ہیں۔ بس اتنا ہی ہم کو معلوم ہے۔ رہیں وہ قوتیں جو اس کارخانے کو چلا رہی ہیں، اور وہ قوتیں جن کے ماتحت اس کے کام چل رہے ہیں تو ان تک رسائی حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے نہ ہمارے حواس وہاں تک پہنچ سکتے ہیں، اور نہ ہماری عقل اس کے اسرار کو پا سکتی ہے۔ احساس و ادراک سے ماورا حقیقتوں کو چھوڑیے ہم نے تو ابھی تک کائنات کے ان مظاہر کا بھی پوری طرح احاطہ نہیں کیا ہے جو سرحدِ ادراک و حساس سے خارج نہیں ہیں۔ جو کچھ اپنے حواس سے محسوس کر سکے ہیں اور جو کچھ قیاس و استقراء کے ذریعے سے کسی حد تک ہمارے علم میں آ سکا ہے وہ مظاہر کائنات کے لامتناہی سمندر میں ایک قطرے سے زیادہ نہیں ہے۔ گویا ہمارے علم اور وسائل علم کو ہمارے جہل اور اسباب جہل کے ساتھ وہی نسبت ہے جو متناہی کو لامتناہی کے ساتھ ہے۔ ایسی حالت میں یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم اس کارخانے کے باطنی نظام اور اس میں اپنی صحیح پوزیشن کو سمجھ سکیں، ہمارا خود اپنے ذرائع علم سے اس کو سمجھنا تو درکنار اگر خدا تعالیٰ کی جانب سے ہمارے سامنے اس کو بیان کیا بھی جاتا تب بھی ہم اپنی محدود عقل سے اس کے معانی کو نہ سمجھ سکتے۔
اب ہمیں اصل سوال کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ سوال یہ تھا کہ قرآن میں مسئلہ جبر و قدر کی طرف جو اشارات کیے گئے ہیں ان میں بظاہر تناقض نظر آتا ہے۔ کہیں بندے کو خود اپنے افعال کا فاعل قرار دیا گیا ہے اور اسی پر نیک و بد کی تمیز قائم کر کے جزا و سزا کی وعدہ وعید کی گئی ہے۔ کہیں بندے سے قدرتِ فعل کو سلب کر کے تمام افعال کی نسبت خدا کی طرف کر دی گئی ہے۔ کہیں ایک ہی فعل خدا اور بندے کی طرف منسوب کیا گیا ہے، کہیں بندے کو ہدایت قبول کرنے اور ضلالت سے نکلنے کی دعوت اس طرح دی گئی ہے کہ گویا اس میں ترک و اختیار کی طاقت ہے۔ کہیں کہا گیا ہے کہ ہدایت و ضلالت خدا کی طرف سے ہے، خدا ہی گمراہ کرتا ہے اور خدا ہی سیدھے راستے پر ڈالتا ہے۔ کہیں بندے کے لیے مشیت ثابت کی گئی ہے اور کہیں کہہ دیا گیا ہے کہ بندے کی مشیت خدا کی ہے۔ کہیں شرور و معاصی کو بندے کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہیں ان کا باعث شیطان کو قرار دیا گیا ہے اور کہیں خدا کے اذن بغیر کوئی کچھ نہیں کر سکتا اور کہیں نافرمان انسانوں کو الزام دیا گیا ہے کہ انھیں خدا نے جو کچھ حکم دیا تھا انہوں نے اس کے خلاف کیا۔ اگر یہ باتیں باہم متناقض ہیں جیسا کہ بظاہر نظر آتا ہے، تو ایسی کتاب کو ہم کتابِ الٰہی کیسے کہہ سکتے ہیں جس میں اتنی متناقض باتیں ہوں؟ اور اگر ان میں تناقض تسلیم نہیں کیا جاتا تو بتایا جائے کہ ان کے درمیان توفیق و تطبیق کی کیا سبیل ہے؟