یورپ میں اس تحریک کی ابتدا اٹھارھویں صدی عیسوی کے اواخر میں ہوئی۔ اس کا پہلا محرک غالباً انگلستان کا مشہور ماہر معاشیات مالتھوس (Malthus) تھا۔ اس کے عہد میں انگریزی قوم کی روز افزوں خوشحالی کے سبب سے انگلستان کی آبادی تیزی کے ساتھ بڑھنی شروع ہوئی۔ آبادی کی اس توفیر کو دیکھ کر اس نے حساب لگایا کہ زمین پر قابل سکونت جگہ محدود ہے، اور اسی طرح معیشت کے وسائل بھی محدود ہیں، لیکن نسل کی افزائش غیر محدود ہے۔ اگر نسل اپنی فطری رفتار کیساتھ بڑھتی رہے تو زمین اس کے لیے تنگ ہو جائے گی، وسائل معاش کفایت نہ کر سکیں گے اور افزائش نسل کے ساتھ معیار زندگی پست ہوتا چلا جائے گا۔ لہٰذا نسلِ انسانی کی خوش حالی، آسائش اور فلاح وبہبود کے لیے ضروری ہے کہ اس کی افزائش، وسائل معاش کی وسعت کے ساتھ متناسب رہے اور اس سے آگے نہ بڑھنے پائے۔ اس غرض کے لیے اس نے برہم چرج کے قدیم طریقے کو رائج کرنے کا مشورہ دیا۔ یعنی بڑی عمر میں شادی کی جائے اور ازدواجی زندگی میں ضبط نفس سے کیا لیا جائے۔ یہ خیالات پہلی مرتبہ 1798ء میں اس نے اپنے ایک رسالہ ’’آبادی اور معاشرے کی آئندہ ترقی پر اس کے اثرات‘‘ (An Essay on Population as it Effects the Furure Improvement of Society) میں پیش کیے تھے۔
اس کے بعد فرانسس پلاس (Francis Place) نے فرانس میں افزائش نسل کو روکنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مگر اس نے اخلاقی ذرائع کو چھوڑ کر دوائوں اور آلات کے ذریعہ سے منع حمل کی تجویز پیش کی۔ اس رائے کی تائید میں امریکہ کے ایک مشہور ڈاکٹر چارلس نولٹن (Charles Knowlton) نے 1833ء میں آواز بلند کی۔ اس کی کتاب ’’ثمرات فلسفہ‘‘ (The Fruits of Philosophy) غالباً پہلی کتاب ہے جس میں منع حمل کے طبی طریقوں کی تشریح کی گئی تھی اور ان کے فوائد پر زور دیا گیا تھا۔