تحریک اسلامی کا قیام اسی مقصد حق کے لیے ہے۔ ہم ان مسلمانوں کو چھانٹ چھانٹ کر جمع کر رہے ہیں جو اس پورے حق کو لے کر اٹھنے کا عزم رکھتے ہیں اور اس طرح ہم اسلام کے ان مقاصد کو ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ جو صرف اجتماعی زندگی میں پورے ہوسکتے ہیں‘ ابھی یہ تحریک کمزور اور ضعیف ہے۔ لیکن اگر کچھ ذرے اکٹھے ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے ان ذروں میں کبھی گرمی اور حرارت پیدا کی اور ان میں کچھ صلاحیت پیدا ہوگئی‘ تو کیا عجب ہے کہ اس کمزور گروہ کے ہاتھوں دین کی وہ خدمت انجام پائے جو اللہ کو‘ اس کے رسولؐ کو اور تمام مومنین کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اللہ ہمیں اس کام کے لیے سچا خادم بنا دے۔
ان امور میں کسی کے لیے اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ یوں تو بحث کرنے کے لیے سب کے منہ میں زبان ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ مسلم مسائل ہیں۔ کوئی جماعت نہ تھی جو اس مقاصد خالص کے لیے جدوجہد کر رہی ہو‘ باطل سے باطل مقاصد کے لیے جماعتیں ہوں‘ ان کے لیے بڑی بڑی قربانیاں کرنے والے ہوں‘ لیکن اس آسمان کے نیچے جو سب سے بڑا مقصد ہو‘ اسی کے لیے کچھ نہ ہو‘ کس قدر غم انگیز بات ہے۔ اس مقصد کے لیے کچھ خدا کے بندے اکٹھے ہوگئے‘ سمجھانے اور سمجھنے میں ذرا دیر لگے گی مگر دنیا سمجھے گی ضرور اور اگر نیتوں میں خلوص ہے تو جس وقت شیطان اپنی فوج لے کر نکلے گا تو ہم اس مبارک ذات کے اسوہ کی پیروی کریں گے جس نے ہزاروں غرق آہن جنگجوئوں کے سامنے تین سو تیرہ بے سروسامان لاکھڑے کیے تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہی کے ذریعہ سے حق کا بول بالا کیا تھا۔
پھر اگر ہم نے اس جدوجہد میں بازی پالی تو فھو المراد‘ اور اگر دوسری بات ہوئی تب بھی تمام راستوں میں ایک حق ہی کا راستہ ایسا راستہ ہے جس میں ناکامیابی کا کوئی سوال نہیں۔ اس میں اول قدم بھی منزل ہے۔ اور آخر بھی‘ ناکامی کا اس کوچہ میں گزر ہی نہیں ہے۔ اس کو مان لینے اور اس پر چلنے کا عزم راسخ کرلینے کی ضرورت ہے۔ پھر اگر تیز سواری مل گئی تو فبہا‘ یہ نہ سہی تو چھکڑے ملیں گے‘ انہی سے سفر ہوگا۔ یہ بھی نہیں تو دو پائوں موجود ہیں‘ ان میچلیں گے‘ پائوں بھی نہ رہیں تو آنکھیں تو ہیں‘ ان سے نشان منزل دیکھیں گے۔ آنکھیں بھی اگر بے نور ہو جائیں تو دل کی آنکھ تو ہے‘ جس کی بصارت کو کوئی سلب نہیں کرسکتا بشرطیکہ ایمان موجود ہو۔ ان صلٰو تی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین ’’میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘۔ پس وسائل کار اور اسباب راہ کا سوال ہمارے یہاں بالکل ایک ضمنی شے ہے۔