مسلمان تاجروں کی طرح ذمّی تاجروں کے اموالِ تجارت پر بھی ٹیکس لیا جائے گا جبکہ ان کا راس المال ۲۰۰ درہم تک پہنچ جائے یا وہ ۲۰ مثقال سونے کے مالک ہو جائیں ۔ ۱؎ اس میں شک نہیں ہے کہ فقہاء نے ذمّی تاجر پر تجارتی محصول ۵ فیصدی لگایا تھا اور مسلمان تاجر پر اڑھائی فیصدی‘ لیکن یہ فعل کسی نص پر مبنی نہ تھا بلکہ اجتہاد پر مبنی تھا اور دراصل وقتی مصالح اس کے مقتضی تھے۔ اس زمانہ میں مسلمان زیادہ تر ملک کی حفاظت میں مشغول تھے اورتمام تجارت ذمّیوں کے ہاتھ میں آ گئی تھی۔ اسی لیے مسلمان تاجروں کی ہمت افزائی اور ان کی تجارت کے تحفظ کے لیے ان پر ٹیکس کم کر دیا گیا۔