سائل کا آخری سوال یہ ہے کہ اگر اسلامی حکومت کے دائرے میں تبلیغ کفر کی اجازت نہیں ہے تو عقلی حیثیت سے اس ممانعت کو کیسے جائز قرار دیا جاسکتا ہے؟
اس باب میں کوئی بحث کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ جس تبلیغ کفر کی اسلام ممانعت کرتا ہے اس کی نوعیت واضح طور پر سمجھ لی جائے۔ اسلام اس چیز میں مانع نہیں ہے کہ دارالاسلام کے حدود میں کوئی غیر مسلم اپنی اولاد کو اپنے مذہب کی تعلیم دے یا اپنے مذہب کے عقائد اور اصول لوگوں کے سامنے تحریر یا تقریر کے ذریعے سے بیان کرے، یا اسلام پر اگر وہ کچھ اعتراضات رکھتا ہو تو انھیں تہذیب کے ساتھ تقریر و تحریر میں پیش کرے۔ نیز اسلام اس میں بھی مانع نہیں ہے کہ کسی غیر مسلم کے خیالات سے متاثر ہو کر دارالاسلام کی ذمی رعایا میں سے کوئی شخص اس کا مذہب قبول کرلے۔ ممانعت دراصل جس چیز کی ہے وہ یہ ہے کہ کسی مذہب یا نظام فکر و عمل کی تائید میں کوئی ایسی منظم تحریک اٹھائی جائے جو دارالاسلام کے حدود میں رہنے والوں کو اس مذہب یا نظام کی طرف دعوت دیتی ہو۔ ایسی منظم دعوت، قطع نظر اس سے کہ وہ ذمیوں میں سے اٹھے یا باہر سے آنے والے غیر مسلموں کی طرف سے، بہرحال اسلام اپنے حدود میں اس کے ظہور کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اس کی صاف اور سیدھی وجہ یہ ہے کہ ایک منظم دعوت لا محالہ یا تو سیاسی نوعیت کی ہوگی یا مذہبی و اخلاقی نوعیت کی۔ اگر وہ سیاسی نوعیت کی ہو اور اس کے پیش نظر نظام زندگی کا تغیر ہو تو جس طرح دنیا کی ہر ریاست ایسی دعوت کی مزاحمت کرتی ہے، اسی طرح اسلامی ریاست بھی کرتی ہے۔ اور اگر وہ دوسری نوعیت کی دعوت ہو تو خالص دنیوی ریاستوں کے برعکس اسلام اُسے اس لیے گوارا نہیں کرسکتا کہ کسی اعتقادی و اخلاقی گمراہی کو اپنی نگرانی و حفاظت میں سر اٹھانے کا موقع دینا قطعی طور پر اُس مقصد کی ضد ہے جس کے لیے اسلام ملک کی زمام کار اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔ اس معاملہ میں خالص دنیوی حکومتوں کا طرز عمل اسلامی حکومت کے طرز عمل سے یقینا مختلف ہے، کیونکہ دونوں کے مقاصد حکومت مختلف ہیں۔ دنیوی حکومتیں ہر جھوٹ، ہر اعتقادی فساد اور ہر قسم کی بدعملی و بداخلاقی کو، اور اسی طرح ہر مذہبی گمراہی کو بھی، اپنے حدود میں پھیلنے کی اجازت دیتی ہیں اور خوب ڈھیلی رسی چھوڑے رکھتی ہیں جب تک کہ ان مختلف چیزوں کے پھیلانے والے ان کے وفادار رہیں، ان کو ٹیکس ادا کرتے رہیں اور ایسی کوئی حرکت نہ کریں جس سے ان کے سیاسی اقتدار پر آنچ آتی ہو۔ البتہ جن تحریکوں سے اپنے سیاسی اقتدار پر آنچ آنے کا انھیں ذرا سا بھی خطرہ ہو جاتا ہے اُن کو خلاف قانون قرار دینے اور قوت سے کچل دینے میں وہ ذرا برابر تأمل نہیں کرتیں۔ ان کے اس طرز عمل کی وجہ یہ ہے کہ انھیں بندگان خدا کی اخلاقی اور روحانی فلاح سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ اُن کے لیے تو اپنا سیاسی اقتدار اور اپنی مادّی اغراض ہی سب کچھ ہیں۔ مگر اسلام کو اصل دل چسپی خدا کے بندوں کی روحانی و اخلاقی فلاح ہی سے ہے اور اسی کی خاطر وہ انتظام ملکی اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔ اس لیے وہ سیاسی فساد یا انقلاب برپا کرنے والی تحریکوں کی طرح ان تحریکوں کو بھی برداشت نہیں کرسکتا جو اخلاقی فساد یا اعتقادی گمراہی پھیلانے والی ہوں۔
یہاں پھر وہی سوال ہمارے سامنے آتا ہے جو قتل مرتد کے مسئلہ میں آیا کرتا ہے، یعنی یہ کہ اگر غیر مسلم حکومتیں بھی اسی طرح اپنے حدود میں اسلام کی دعوت کو خلاف قانون قرار دے دیں تو کیا ہو؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اسلام اس قیمت پر حق و صداقت کی اشاعت کی آزادی خریدنا نہیں چاہتا کہ اس کے جواب میں اسے جھوٹ اور باطل کی اشاعت کی آزادی دینی پڑے۔ وہ اپنے پیرووں سے کہتا ہے کہ ’’اگر تم سچے دل سے مجھے حق سمجھتے ہو اور میری پیروی ہی میں اپنی اور انسانیت کی نجات دیکھتے ہو تو میری پیروی کرو، مجھے قائم کرو، اور دنیا کو میری طرف دعوت دو، خواہ اس کام میں تم کو گلزار ابراہیم ؑ سے سابقہ پیش آئے یا آتش نمرود سے گزرنا پڑے۔ یہ تمھارے اپنے ایمان کا تقاضا ہے اور یہ بات تمھاری خدا پرستی پر منحصر ہے کہ اس کی رضا چاہتے ہو تو اس تقاضے کو پورا کرو ورنہ نہ کرو۔ لیکن میرے لیے یہ ناممکن ہے کہ تمھیں اس راہ کی خطرناکیوں سے بچانے اور اس کام کو تمھارے حق میں سہل بنانے کی خاطر باطل پرستوں کو یہ جوابی ’’حق‘‘ عطا کروں کہ وہ خدا کے بندوں کو گمراہ کریں اور ایسے راستوں پر انھیں ہانک لے جائیں جن میں مجھے معلوم ہے کہ ان کے لیے تباہی و بربادی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔‘‘ یہ اسلام کا ناقابل تغیر فیصلہ ہے اور اس میں وہ کسی سے مصالحت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اگر غیر مسلم حکومتیں آج یا آئندہ کسی وقت اسلام کی تبلیغ کو اسی طرح جرم قرار دیں جس طرح وہ پہلے اسے جرم قرار دیتی رہی ہیں تب بھی اس فیصلہ میں کوئی ترمیم نہ کی جائے گی۔ بلکہ سچی بات یہ ہے کہ اسلام کے لیے وہ گھڑی بہت منحوس تھی جب کفار کی نگاہ میں وہ اتنا بے ضرر بن گیا کہ اس کی دعوت و تبلیغ کو وہ بخوشی گوارا کرنے لگے اور قانون کفر کی حفاظت و نگرانی میں اسے پھیلنے کی پوری سہولتیں بہم پہنچنے لگیں۔ اسلام کے ساتھ کفر کی یہ رعایتیں حقیقت میں خوش آئند نہیں ہیں۔ یہ تو اس بات کی علامت ہیں کہ اسلام کے قالب میں اس کی روح موجود نہیں رہی ہے۔ ورنہ آج کے کافر کچھ نمرود و فرعون اور ابوجہل و ابولہب سے بڑھ کر نیک دل نہیں ہیں کہ اس مسلم نما قالب میں اسلام کا اصلی جوہر موجود ہو اور پھر بھی وہ اسے اپنی سرپرستی و حمایت سے سرفراز کریں یا کم از کم اسے پھیلنے کی آزادی ہی عطا کر دیں۔ جب سے ان کی عنایات کی بدولت اسلام کی دعوت محض گلزار ابراہیم ؑ کی گل گشت بن کر رہ گئی اسی وقت سے اسلام کو یہ ذلت نصیب ہوئی کہ وہ ان مذاہب کی صف میں شامل کر دیا گیا جو ہر ظالم نظام تمدن و سیاست کے ماتحت آرام کی جگہ پاسکتے ہیں۔ بڑی مبارک ہوگی وہ ساعت جب یہ رعایتیں واپس لے لی جائیں گے اور دین حق کی طرف دعوت دینے والوں کی راہ میں پھر آتش نمرود حائل ہو جائے گی۔ اسی وقت اسلام کو وہ سچے پیرو اور داعی ملیں گے جو طاغوت کا سر نیچا کرکے حق کو اس پر غالب کرنے کے قابل ہوں گے۔