پچھلے صفحات میں جو تاریخی بیان پیش کیا گیا ہے اس پر مجموعی نگاہ ڈالنے سے ایک عام ناظر کے سامنے کئی باتیں بالکل وضاحت کے ساتھ روشن ہوجائیں گی۔ سب سے پہلے تو وہ ان مسائل اور ان پیچیدگیوں کو صاف پہچان جائے گا جو مغرب کی تاریخ اور ہماری موجودہ اجتماعی زندگی میں مشترک ہیں۔ وہ دیکھے گا کہ یہاں نظام جاگیرداری بھی اپنی بہت سی خصوصیات کے ساتھ موجود ہے۔ کچھ بیماریاں ہم نے اپنے دور انحطاط سے میراث میں پائی ہیں اور کچھ مغرب کے صنعتی انقلاب اور نظام سرمایہ داری کے جلو میں ہم تک پہنچی ہیں۔ البتہ فرق یہ ہے کہ یہاں کوئی پاپائیت اور کوئی کلیسائی نظام موجود نہیں ہے۔ نہ کوئی ایسا مذہبی طبقہ (Priest Class) موجود ہے جس کا صاحبِ فضل طبقوں سے گٹھ جوڑ ہو اور وہ خدا اور مذہب کا نام لے کر بے جا امتیازات اور زبردستی جمائے ہوئے حقوق کی حمایت کرے۔
پھر اس تاریخی مطالعے سے ناظر کو یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ ہمارے ہاں کے بوجھ بجھکڑ اپنی سوسائٹی کے مسائل اور پیچیدگیوں کو حل کرنے کے لیے آئے دن جو طرفہ تجویزیں پیش کرتے رہتے ہیں ان کا شجرۂ نسب کیا ہے؟ یہ جو ہم سنا کرتے ہیں کہ کوئی صاحب ’’اجتماعی منصوبہ بندی‘‘ کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں اور کوئی دوسرے صاحب ملک کے معاشی نظام میں ’’انقلابی تبدیلیاں‘‘ چاہتے ہیں اور کوئی تیسرے بزرگ فرماتے ہیں کہ زمین کو انفرادی ملکیت سے نکال کر ’’قوما‘‘ دیا جائے(۱) اور کسی طرف سے آواز آتی ہے کہ ساری کلیدی صنعتیں بھی ’’قومائی جائیں‘‘۔ اور کوئی عطائیوں کی مجلس بڑے غوروخوض کے بعد یہ نسخۂ کیمیا لے کر آتی ہے کہ زمین کی شخصی ملکیت کو ختم کردیا جائے ۔ یہ سب وہ نوادر حکمت ہیں جو مغرب کے اناڑیوں کی بیاض سے اڑائے گئے ہیں اور اب یہاں وہ سب تجربات ہوا چاہتے ہیں جو روس میں، جرمنی و اٹلی میں اور امریکہ وانگلستان میں ہو چکے ہیں۔ مگر اس معاملے میں بھی ہماری اور ان کی مماثلت ایک فرق کے ساتھ ہے۔ وہاں کے اناڑی کم از کم مجتہد تو ہیں۔ لیکن یہاں جو حضرات مطب کھول بیٹھے ہیں وہ اناڑی پن کے ساتھ مقلد بھی ہیں۔ مغرب کے اناڑی نقصان ہوتے دیکھیں گے تو نسخے میں کچھ ردوبدل کر لیں گے۔ مگر یہاں مغرب سے ہی کسی ردوبدل کی اطلاع آجائے تو بات دوسری ہے ورنہ ڈاکٹر مریض کی آخری ہچکی تک ان شاء اللہ ایک ہی نسخہ پلاتا رہے گا۔
ایک اور بات جو مغربی ممالک کی تاریخ تمدن و تہذیب اور داستان افکار و اعمال میں آدمی کو نمایاں طور پر نظر آتی ہے وہ پیہم کش مکش، نزاع اور جدال ہے۔ ایک گروہ زندگی کے میدان پر قابض ہو کر اخلاق کو، مذہب کو، قانون کو، رسم و رواج کو، اور تمدن کے سارے نظام کو ایک رخ پر کھینچ لے جاتا ہے یہاں تک کہ دوسرے گروہوں کے ساتھ بے انصافی کی انتہا ہو جاتی ہے۔ پھر ان مظلوم گروہوں میں سے کوئی ایک اٹھ کر اس ظالم گروہ سے گتھ جاتا ہے اور اس کے غلط کے ساتھ اس کے صحیح پر بھی خط تنسیخ پھیر دیتا ہے اور فکرو عمل کے پورے نظام کو پہلی انتہا سے کھینچ کر دوسری انتہا کی طرف لے جاتا ہے یہاں تک کہ پھر بے انصافی حدکو پہنچ جاتی ہے۔ اس کے بعد شکوہ و شکایت سے گزر کر نوبت ایک تیسری بغاوت تک پہنچتی ہے اور ضد اور ہٹ دھرمی کا طوفان پھر جھوٹ کے ساتھ سچ کو بھی بہا لے جاتا ہے اور اگلوں سے بھی بڑھ کر ایک اور انتہا پسندانہ نظام قائم ہو جاتا ہے۔ اس طوفان کی تباہ کاریاں دیکھ کر اس کے مقابلے میں ایک جوابی طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور وہ بھی اپنے حریف سے کچھ کم انتہا پسند نہیں ہوتا۔ اس کھینچ تان کی وجہ سے مغرب کی تاریخ آدمی کو کچھ اس طرح سفر کرتی نظر آتی ہے جیسے ایک شرابی لڑکھڑاتا ہوا بخط منحنی چل رہا ہو، نہ کہ ایک ہوشمند انسان سویًا علیٰ صراط مستقیم چلا جارہا ہو۔ ہیگل اور مارکس بیچارے اس منظر کو دیکھ کر یہ سمجھ بیٹھے کہ انسانی تمدن کے ارتقاء کی فطری چال یہی ہے۔ لیکن در حقیقت یہ سب کچھ نتائج ہیں صرف ایک چیز کے اور وہ یہ ہے کہ اہل مغرب مدتہائے دراز سے بغیر ھدی والا کتاب منیر زندگی بسر کررہے ہیں۔ سینٹ پال کے توسط سے جو عیسائیت ان کو پہنچی تھی اس کا رشتہ شریعت سے پہلے ہی توڑا جاچکا تھا۔ اس کے پاس مسیح علیہ السلام کے چند اخلاقی مواعظ کے سوا کوئی ایسی خدائی ہدایت سرے سے موجود ہی نہ تھی جس پر تمدن و سیاست اور معیشت کا ایک وسیع نظام تعمیر کیا جاسکتا۔ بائبل کا پرانا عہد نامہ خود بھی 2 فی صدی خدائی ہدایت کے ساتھ 98 فی صدی انسانی کلام کی آمیزش اپنے اندر لیے ہوئے تھا۔ اس لیے اگر بعد میں انہوں نے نیم عقیدت اور نیم بے عقیدگی کے ساتھ اس کی طرف رجوع کیا بھی تو اس سے کچھ بہت زیادہ رہنمائی نہ مل سکی۔ اسلام عین اس زمانے میں یورپ کے سامنے آچکا تھا جبکہ مغربی رومن امپائر کا نظام درہم برہم ہوئے تھوڑی ہی مدت گزری تھی اور دور متوسط کی تاریکی کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا۔ لیکن جس یورپ نے دین مسیحی کو اس شرط پر قبول کیا تھا کہ شریعت اس کے ساتھ نہ ہو، وہ بھلا اس اسلام کی طرف حصول ہدایت کے لیے کیسے توجہ کرتا جو شریعت کے بغیر نرا دین و ایمان پیش کرنے کے لیے کسی طرح تیار ہی نہ تھا۔ کچھ تو اس وجہ سے اور کچھ پادریوں کے پھیلائے ہوئے تعصبات کی وجہ سے یورپ نے اسلام سے بھی کوئی روشنی حاصل نہ کی۔ اب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا تھا کہ اہل مغرب خود ہی اپنی عقل سے اپنے لیے نظام زندگی بناتے۔ چنانچہ یہی انہوں نے کیا۔ مگر یہ ظاہر ہے کہ انسان خالص عقلی فیصلے نہیں کرسکتا۔ اس کی عقل کے ساتھ خواہش کا گمراہ کن شیطان بھی لگا ہوا ہے۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ سارے انسان ایک ساتھ مل کرکوئی نظام زندگی وضع نہیں کیا کرتے۔ کچھ بیدار مغز لوگ ہی ایک نظام تجویز کرتے ہیں جن کی وجہ سے ان کا نظام انہی لوگوں کو اپیل کرتا ہے جو ان کے ساتھ ان کے تعصبات میں شریک ہوں۔ یہی اسباب ہیں جن کی بنا پر یورپ میں وقتاً فوقتاً جتنے نظام زندگی بنتے رہے وہ سب غیر متوازن تھے، اوراس عدم توازن کا لازمی نتیجہ یہی ہونا تھا کہ وہاں ایک پیہم کش مکش اور کھینچ تان جاری رہتی۔
سوال یہ ہے کہ کیا فی الواقع ہم بھی اس دنیا میں بغیر ھدًی ولاکتاب منیر ہی ہیں؟ کیا ہمارے لیے بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ قدیم ہندوانہ جاہلیت، اور دور متوسط کے مغل نظام اور دور حاضر کے فرنگی تمدن نے مل جل کر جن مسائل سے ہم کو دو چار کردیا ہے ان کے حل کی وہی صورتیں اختیار کریں جو اشتراکیت، نازیت، فاشیت اور سرمایہ داری نے مغرب میں اختیار کی ہیں؟ کیا ہمارے پاس بھی کوئی ایسی روشنی موجود نہیں ہے جس کی مدد سے ایک متوازن نظام بنایا جاسکتا ہو؟ جو شخص اسلام کو جانتا ہو وہ ان سوالات کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا۔