درحقیقت یہ کچھ عجیب سی بات ہے کہ دنیا میں ایک انسان ہی ایسا ہے جس کے بارے میں خود انسانوں ہی کے درمیان بار بار یہ سوال پیدا ہوتا رہا ہے کہ اس کے بنیادی حقوق کیا ہیں۔ انسان کے سوا دوسری مخلوقات جو اس کائنات میں بس رہی ہیں، ان کے حقوق خود فطرت نے دئیے ہیں اور آپ سے آپ انھیں مل رہے ہیں، بغیر اس کے کہ وہ اس کے لیے سوچ بچار کریں۔ لیکن صرف انسان وہ مخلوق ہے جس کے بارے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے حقوق کیا ہیں اور اس کی ضرورت پیش آتی ہے کہ اس کے حقوق متعین کیے جائیں۔
اتنی ہی عجیب بات یہ بھی ہے کہ اس کائنات کی کوئی جنس ایسی نہیں ہے جو اپنی جنس کے افراد سے وہ معاملہ کر رہی ہو جو انسان اپنے ہم جنس افراد سے کر رہا ہے۔ بلکہ ہم تو دیکھتے ہیں کہ حیوانات کی کوئی نوع ایسی نہیں جو کسی دوسری نوع کے حیوانات پر بھی محض لطف ولذت کے لیے یا ان پر حکمران بننے کے لیے حملہ آور ہوتی ہو۔
قانونِ فطرت نے ایک حیوان کو دوسرے حیوان کے لیے اگر غذا بنایا ہے تو وہ صرف غذا کی حد تک ہی اس پر دست درازی کرتا ہے۔ کوئی درندہ ایسا نہیں ہے جو غذائی ضرورت کے بغیر یا اس ضرورت کے پورا ہو جانے کے بعد بلا وجہ جانوروں کو مارتا چلا جاتا ہو۔ خود اپنے ہم جنسوں کے ساتھ نوعِ حیوانی کا وہ سلوک نہیں ہے جو انسان کا اپنے افراد کے ساتھ ہے۔ یہ غالباً اس فضل وشرف کا نتیجہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ذہانت اور قوتِ ایجاد کا کرشمہ ہے کہ انسان نے دنیا میں یہ غیر معمولی روش اختیار کر رکھی ہے۔
شیروں نے آج تک کوئی فوج تیار نہیں کی۔ کسی کُتّے نے آج تک دوسرے کتّوں کو غلام نہیں بنایا۔ کسی مینڈک نے دوسرے مینڈکوں کی زبان بندی نہ کی۔ یہ انسان ہی ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات سے بے نیاز ہو کر جب اس کی دی ہوئی قوتوں سے کام لینا شروع کیا تو اپنی ہی جنس پر ظلم ڈھانے شروع کردئیے۔ جب سے انسان زمین پر موجود ہے اس وقت سے آج تک تمام حیوانات نے اتنے انسانوں کی جان نہیں لی ہے جتنی انسانوں نے صرف دوسری جنگ عظیم میں انسان کی جان لی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کو فی الواقع دوسرے انسانوں کے بنیادی حقوق کی کوئی تمیز نہیں ہے۔ صرف اللہ ہی ہے جس نے انسان کی راہ نمائی اس باب میں کی ہے اور اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسانی حقوق کی واقفیت بہم پہنچائی ہے۔ درحقیقت انسانی حقوق متعین کرنے والا انسان کا خالق ہی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس خالق نے انسان کے حقوق نہایت تفصیل سے بتائے ہیں۔