Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

تحریکِ اِسلامی کی اَخلاقی بُنیادیں (یہ تقریر۲۱؍ اپریل ۱۹۴۵ء کو دارالاسلام، نزد پٹھان کوٹ (مشرقی پنجاب) میں جماعتِ اِسلامی کے کل ہند اجتماع کے آخری اجلاس میں کی گئی تھی)
زمامِ کار کی اہمیت
امامتِ صالحہ کا قیام دین کا حقیقی مقصود ہے
امامت کے باب میں خدا کی سُنّت
انسانی عروج وزوال کا مدار اَخلاق پر ہے
بنیادی انسانی اَخلاقیات
اِسلامی اَخلاقیات
سُنّتُ اللہ دربابِ امامت کا خلاصہ
بنیادی اَخلاقیات اور اِسلامی اَخلاقیات کی طاقت کا فرق
اِسلامی اَخلاقیات کے چار مراتب
۱۔ ایمان
۲۔ اسلام
۳۔ تقوٰی
۴۔ احسان
غلَط فہمیاں

تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

بنیادی انسانی اَخلاقیات

بنیادی انسانی اَخلاقیات سے مراد وہ اوصاف ہیں جن پر انسان کے اَخلاقی وجود کی اساس(۴) قائم ہے۔ ان میں وہ تمام صفات شامل ہیں جو دُنیا میں انسان کی کامیابی کے لیے بہرحال شرطِ لازم ہیں، خواہ وہ صحیح مقصد کے لیے کام کر رہا ہو یا غلَط مقصد کے لیے۔ ان اَخلاقیات میں سوال کا کوئی دخل نہیں ہے کہ آدمی خدا اور وحی اور آخرت کو مانتا ہے یا نہیں، طہارتِ نفس(۵) اور نیت خیر اور عمل صالح(۶) سے آراستہ ہے یا نہیں، اچھے مقصد کے لیے کام کر رہا ہے یا بُرے مقصد کے لیے۔ قطع نظر(۷) اس سے کہ کسی میں ایمان ہو یا نہ ہو، اور اس کی زندگی پاک ہو یا ناپاک، اس کی سعی کا مقصد اچھا ہو یا برا، جو شخص اور جو گروہ بھی اپنے اندر وہ اوصاف رکھتا ہو گا، جو دُنیا میں کامیابی کے لیے ناگزیر ہیں وہ یقینا کامیاب ہو گا، اور اُن لوگوں سے بازی لے جائے گا جو ان اوصاف کے لحاظ سے اس کے مقابلے میں ناقص ہوں گے۔
مومن ہو یا کافر، نیک ہو یا بد، مصلح ہو یا مفسد، غرض جو بھی ہو وہ اگر کارگر انسان ہو سکتا ہے تو صرف اسی صورت میں جب کہ اس کے اندر ارادے کی طاقت اور فیصلے کی قوت ہو، عزم اور حوصلہ، صبر وثبات اور استقلال(مستقل مزاجی (۲) خوبیاں) ہو، تحمل اور برداشت ہو، ہمت اور شجاعت ہو، مستعدی اور جفاکشی ہو، اپنے مقصد کا عشق اور اس کے لیے ہر چیز قربان کر دینے کا بل بوتا ہو، حزم واحتیاط اور معاملہ فہمی وتدبرہو، حالات کو سمجھنے اور ان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے اور مناسب تدبیر کرنے کی قابلیت ہو، اپنے جذبات وخواہشات اور ہیجانات پر قابو ہو، اور دوسرے انسانوں کو موہنے اور ان کے دل میں جگہ پیدا کرنے اور ان سے کام لینے کی صلاحیت ہو۔
پھر ناگزیر ہے کہ اس کے اندر وہ شریفانہ خصائل(۲) بھی کچھ نہ کچھ موجود ہوں، جو فی الحقیقت جوہرِ آدمیت ہیں اور جن کی بدولت آدمی کا وقار واعتباردُنیا میں قائم ہوتا ہے۔ مثلاً خودداری، فیاضی، رحم، ہمدردی، انصاف، وسعتِ قلب ونظر، سچائی، امانت، راست بازی، پاسِ عہد، معقولیت، اعتدال، شائستگی، طہارت ونظافت، اور ذہن ونفس کا انضباط۔
یہ اوصاف اگر کسی قوم یا گروہ کے بیش تر افراد میں موجود ہوں توگویا یوں سمجھیے کہ اس کے پاس وہ سرمایۂ انسانیت موجود ہے، جس سے ایک طاقتور اجتماعیت وجود میں آ سکتی ہے لیکن یہ سرمایہ مجتمع ہو کر بالفعل ایک مضبوط ومستحکم اور کارگر اجتماعی طاقت نہیں بن سکتا جب تک کچھ دوسرے اَخلاقی اوصاف بھی اس کی مدد پر نہ آئیں۔ مثلاً تمام یا بیشترا فراد کسی اجتماعی نصب العین پر متفق ہوں اور اس نصب العین کواپنی انفرادی اغراض، بلکہ اپنی جان، مال اور اولاد سے بھی عزیز تر رکھیں۔ ان کے اندر آپس کی مَحبّت اور ہمدردی ہو، انھیں مل کر کام کرنا آتا ہو۔ وہ اپنی خودی ونفسانیت کو کم از کم اس حد تک قربان کر سکیں جو منظم سعی کے لیے ناگزیر ہے۔ وہ صحیح و غلَط راہ نما میں تمیز کر سکتے ہوں اور موزوں آدمیوں ہی کو اپنا راہ نما بنائیں۔ ان کے راہ نمائوں میں اخلاص اور حُسنِ تدبیر اور راہ نمائی کی دوسری ضروری صفات موجود ہوں، اور خود قوم یا جماعت بھی اپنے راہ نمائوں کی اطاعت کرنا جانتی ہو، ان پر اعتماد رکھتی ہو اور اپنے تمام ذہنی، جسمانی اور مادّی ذرائع اُن کے تصرّف میں دے دینے پر تیار ہو۔ نیز پوری قوم کے اندر ایسی زندہ اور حسّاس رائے عام پائی جاتی ہو جو کسی ایسی چیز کو اپنے اندر پنپنے نہ دے جو اجتماعی فلاح کے لیے نقصان دہ ہو۔
یہ ہیں وہ اَخلاقیات جنھیں میں ’’بنیادی اَخلاقیات‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرتا ہوں کیوں کہ فی الواقع یہی اَخلاقی اوصاف انسان کی اَخلاقی طاقت کا اصل منبع ہیں اور انسان کسی مقصد کے لیے بھی دُنیا میں کامیاب سعی نہیں کر سکتا، جب تک ان اوصاف کا زور اس کے اندر موجود نہ ہو۔ ان اَخلاقیات کی مثال ایسی ہے جیسے فولاد کہ وہ اپنی ذات میں مضبوطی واستحکام رکھتا ہے اور اگر کوئی کارگر ہتھیار بن سکتا ہے تو اسی سے بن سکتا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ غلَط مقصد کے لیے استعمال ہو یا صحیح مقصد کے لیے۔ آپ کے پیش نظر صحیح مقصد ہو تب بھی آپ کے لیے مفید ہتھیار وہی ہو سکتا ہے جو فولاد سے بنا ہو نہ کہ سڑی گلی پھُس پھُسی لکڑی جو ایک ذرا سے بوجھ اور معمولی سی چوٹ کی بھی تاب نہ لا سکتی ہو۔ یہی وہ بات ہے جسے نبی ﷺ نے اس حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ خیارکم فی الجاھلیۃ خیارکم فی الاسلام۔’’تم میں جو لوگ جاہلیت میں اچھے تھے وہی اِسلام میں بھی اچھے ہیں۔‘‘ یعنی زمانۂ جاہلیت میں جو لوگ اپنے اندر جوہرِ قابل رکھتے تھے، وہی زمانۂ اِسلام میں مردانِ کار ثابت ہوئے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کی قابلیتیں پہلے غلَط راہوں میں صرف ہو رہی تھیں اور اِسلام نے آ کر انھیں صحیح راہ پر لگا دیا۔ مگر بہرحال ناکارہ انسان نہ جاہلیت کے کسی کام کے تھے نہ اِسلام کے۔ نبی ﷺ کو عرب میں جو زبردست کامیابی حاصل ہوئی اور جس کے اثرات تھوڑی ہی مدت گزرنے کے بعد دریائے سندھ سے لے کر اٹلانٹک کے ساحل تک دُنیا کے ایک بڑے حصے نے محسوس کر لیے، اس کی وجہ یہی تو تھی کہ آپ کو عرب میں بہترین انسانی مواد مل گیا تھا، جس کے اندر کیریکٹر کی زبردست طاقت موجود تھی۔ اگر خدانخواستہ آپ کو بودے، کم ہمت، ضعیف الارادہ اور ناقابلِ اعتماد لوگوں کی بھیڑ مل جاتی تو کیا پھر بھی وہ نتائج نکل سکتے تھے؟

شیئر کریں