Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

انسان کا معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل
جُز پرستی کا فتنہ
اصل معاشی مسئلہ
معاشی انتظام کی خرابی کا اصل سبب
نفس پرستی اور تعیش
سرمایہ پرستی
نظامِ محاربہ
چند سری نظام
اِشتراکیت کا تجویز کردہ حل
نیا طبقہ
نظامِ جبر
شخصیت کا قتل
فاشزم کا حل
اسلام کا حل
بنیادی اصول
حصولِ دولت
حقوقِ ملکیت
اصولِ صَرف
سرمایہ پرستی کا استیصال
تقسیم ِ دولت اور کفالتِ عامہ
سوچنے کی بات

انسان کا معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

بنیادی اصول

اسلام نے تمام مسائل حیات میں اس قاعدے کو ملحوظ رکھا ہے کہ زندگی کے جو اصول فطری ہیں ان کو جوں کا توں برقرار رکھا جائے ، اور فطرت کے راستے سے جہاں انحراف ہوا ہے وہیں سے اس کو موڑ کر فطرت کے راستے پر ڈال دیا جائے۔ دوسرا اہم قاعدہ جس پر اسلام کی تمام اجتماعی اصلاحات مبنی ہیں وہ یہ ہے کہ صرف خارجی طور پر نظامِ تمدن میں چند ضابطے جاری کرنے ہی پر اکتفا نہ کیا جائے، بلکہ سب سے زیادہ زور اخلاق اور ذہنیت کی اصلاح پر صرف کیا جائے، تا کہ نفسِ انسانی میں خرابی کی جڑ کٹ جائے۔ تیسرا اساسی قاعدہ جس کا نشان آپ کو تمام اسلامی نظامِ شریعت میں ملے گا، یہ ہے کہ حکومت کے جبر اور قانون کے زور سے صرف وہیں کام لیا جائے جہاں ایسا کرنا ناگزیر ہو۔
ان تین قاعدوں کو ملحوظ رکھ کر اسلام زندگی کے معاشی شعبے میں ان تمام غیر فطری طریقوں کو زیادہ سے زیادہ اخلاقی اصلاح اور کم سے کم حکومتی مداخلت کے ذریعے سے مٹاتا ہے جو شیطانی اثر سے انسان نے اختیار کیے ہیں۔ یہ امر کہ انسان اپنی معاش کے لیے جدوجہد کرنے میں آزاد ہو، یہ بات کہ آدمی اپنی محنت سے جو کچھ حاصل کرے اس پر اسے حقوقِ مالکانہ حاصل ہوں، اور یہ کہ انسانوں کے درمیان ان کی قابلیتوں اور ان کے حالات کے لحاظ سے فرق و تفاوت ہو، ان سب چیزوں کو اسلام اس حد تک تسلیم کرتا ہے جس حد تک یہ منشاے فطرت کے مطابق ہیں۔ پھر وہ ان پر ایسی پابندیاں عائد کرتا ہے جو انھیں حدِ فطرت سے متجاوز اور ظلم ونا انصافی کا موجب نہ بننے دیں۔

شیئر کریں