اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دینے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ خدا کو خدا اور اپنے آپ کو خدا کا بندہ تو مان لیا جائے مگر اس کے بعد اخلاقی و عملی اور اجتماعی زندگی ویسی کی ویسی ہی رہے جیسی خدا کو نہ ماننے اور اس کی زندگی کا اعتراف نہ کرنے کی صورت میں ہوتی ہے۔ اسی طرح خدا کی بندگی کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ خدا کو فوق الفطری طریقے پر خالق اور رازق اور معبود تسلیم کر لیا جائے مگر عملی زندگی کی فرمانروائی و حکمرانی سے اس کو بے دخل کر دیا جائے۔ اسی طرح خدا کی بندگی کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ زندگی کو مذہبی اور دنیوی دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا جائے اور صرف مذہبی زندگی میں جس کا تعلق عقائد اور عبادات اور حرام و حلال کی چند محدود و قیود سے سمجھا جاتا ہے‘ خدا کی بندگی کی جائے۔ باقی رہے دنیوی معاملات جو تمدن‘ معاشرت‘ سیاست‘ معیشت‘ علوم و فنون اور ادب وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں تو ان میں انسان خدا کی بندگی سے بالکل آزاد رہے اور جس نظام کو چاہے‘ خود وضع کرے یا دوسروں کے وضع کیے ہوئے کو اختیار کرے۔ بندگی رب کے ان سب مفہومات کو ہم سراسر غلط سمجھتے ہیں۔ ان کو مٹانا چاہتے ہیں اور ہماری لڑائی جتنی شدت کے ساتھ نظام کفر کے ساتھ ہے‘ اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ شدت کے ساتھ بندگی کے ان مفہومات کے خلاف ہے۔ کیوں کہ ان کی بدولت دین کا تصور ہی سرے سے مسخ ہوگیا ہے۔ ہمارے نزدیک قرآن اور اس سے پہلے کی تمام آسمانی کتابیں‘ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ سے پہلے کے تمام پیغمبر‘ جو دنیا کے مختلف گوشوں میں آئے‘ ان کی بالاتفاق دعوت جس بندگی رب کی طرف تھی‘ وہ یہ تھی کہ انسان خدا کو پورے معنی میں الہٰ اور رب‘ معبود اور حاکم‘ آقا اور مالک‘ رہنما اور قانون ساز‘ محاسب اور مجازی (جزا دینے والا) تسلیم کرے‘ اور اپنی پوری زندگی کو خواہ وہ شخصی (Private) ہو یا اجتماعی‘ اخلاقی ہو یا مذہبی‘ تمدنی و سیاسی اور معاشی ہو یا علمی اور نظری‘ اسی ایک خدا کی بندگی میں سپرد کر دے۔ یہی مطالبہ ہے جو قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے کہ ادخلوا فی السلم کافۃ تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جائو‘ یعنی اپنی زندگی کے کسی پہلو اور کسی شعبے کو بندگی رب سے محفوظ (Reserve) کرکے نہ رکھو۔ اپنے تمام وجود کے ساتھ‘ اپنی پوری ہستی کے ساتھ خدا کی غلامی و اطاعت میں آجائو۔ زندگی کے کسی معاملہ میں بھی تمہارا یہ طرز عمل نہ ہو کہ اپنے آپ کو خدا کی بندگی سے آزاد سمجھو اور اس کی رہنمائی اور ہدایت سے مستغنیٰ ہو کر اور اس کے مقابلے میں خود مختار بن کر یا کسی خود مختار بنے ہوئے بندے کے پیرو یا مطیع ہو کر وہ راہ چلنے لگو‘ جس کی ہدایت خود خدا نے نہ دی ہو۔ بندگی کا یہی وہ مفہوم ہے جس کی ہم تبلیغ کرتے ہیں اور جسے قبول کرنے کی سب لوگوں کو … مسلمانوں اور غیر مسلموں سب کو… دعوت دیتے ہیں۔