پھر مولانا اس متَّحدہ قومیت کے جواز میں ایک اور دلیل پیش فرماتے ہیں اور وہ یہ ہے:
’’ہم روزانہ مفاد ہائے مشترکہ کے لیے ہیئاتِ اجتماعیہ بناتے ہیں اور ان میں نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ ان کی ممبری اور شرکت کے لیے انتہائی جدوجہد کرتے ہیں… ٹائون ایریا، نوٹیفائیڈ ایریا، میونسپل بورڈ، ڈسٹرکٹ بورڈ، کونسلات، اسمبلیاں، ایجوکیشنل ایسوسی ایشن اور اس قسم کی سینکڑوں ایسوسی ایشنیں اور انجمنیں ہیں جو کہ انھی اصولوں اور قواعد سے عبارت ہیں جو کہ خاص مقصد کے ماتحت ہیئت اجتماعیہ کے لیے بنائے گئے ہیں، تعجب ہے کہ ان میں حصہ لینا اور مکمل یا غیرمکمل جدوجہد کرنا ممنوع قرار نہیں دیا جاتا مگر اسی قسم کی کوئی انجمن اگر آزادیِ ملک اور برطانوی اقتدار کے خلاف قائم ہو تو وہ حرام، خلافِ دیانت، خلافِ تعلیماتِ اسلامیہ اور خلافِ عقل و دانش وغیرہ ہوجاتی ہے‘‘۔(صفحہ۴۱)
یہ بناء فاسد علی الفاسد ہے۔ ایک گناہ کو جائز فرض کر کے اس کی حجت پر مولانا اسی قسم کے دوسرے گناہ کو جائز ثابت کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ دونوں میں ایک ہی علّت ِ حرمت پائی جاتی ہے اور مقیس و مقیس علیہ دونوں ناجائز ہیں تاوقتیکہ یہ علّت ان سے دُور نہ ہو۔ علمائے کرام مجھے معاف فرمائیں۔ میں صاف کہتا ہوں کہ ان کے نزدیک کونسلوں اور اسمبلیوں کی شرکت کو ایک دن حرام اور دوسرے دن حلال کر دینا ایک کھیل بن گیا ہے، اس لیے کہ ان کی تحلیل و تحریم حقیقت نفس الامری کے ادراک پر تو مبنی ہے نہیں، محض گاندھی جی کی جنبش لب کے ساتھ ان کا فتویٰ گردش کیا کرتاہے۔ لیکن میں اسلام کے غیرتغیر پذیر اصولوں کی بنا پر یہ کہتا ہوں کہ ہر اس اجتماعی ہیئت کو تسلیم کرنا مسلمانوں کے لیے ہمیشہ گناہ رہے گا جس کا دستور انسانوں کو اس امر کا اختیار دیتا ہو کہ وہ ان مسائل کے متعلق قانون بنائیں یا ان مسائل کا تصفیہ کریں، جن پر خدا اور اس کا رسولؐ پہلے اپنا ناطق فیصلہ دے چکا ہے۔ اور یہ گناہ اس صورت میں اور زیادہ شدید ہوجاتا ہے جب کہ ایسے اختیارات رکھنے والی اجتماعی ہیئت میں اکثریت غیرمسلموں کی ہو، اور فیصلہ کا مدار کثرتِ رائے پر ہو۔ ان اجتماعی ہیئتوں کے حدودِ اختیار ردعمل کو خدا کی شریعت کے حدود سے الگ کر دینا مسلمانوں کا اوّلین فرض ہے اور اصلی جنگ ِ آزادی ان کے لیے یہی ہے۔ اگر یہ حدود الگ ہوجائیں تو البتہ کسی ایسی جماعت سے دوستی یا معاہدہ اور تعاون کرنا مسلمانوں کے لیے جائز ہوگا جو مسلمانوں اور غیرمسلموں کی مشترک اَغراض کے لیے بنائی جائے۔ عام اس سے کہ وہ کسی مشترک دشمن کے مقابلہ میں مدافعت کے لیے ہو، یا کسی معاشی یا صنعتی کاروبار کے لیے۔ لیکن جب تک حدود ایک دوسرے سے گڈمڈ ہیں، اِشتِراک و تعاون تو درکنار، ایسے دستور کے تحت زندگی بسر کرنا بھی مسلمانوں کے لیے گناہ ہے اور یہ اجتماعی گناہ ہے جس میں من و تو کی تمیز نہیں۔ ساری قوم اس وقت تک گناہ گار رہے گی جب تک کہ وہ اس دستور کو پارہ پارہ نہ کردے اور اس میں ان لوگوں کا گناہ شدید تر ہوگا جو اس دستور پر راضی ہوں گے اور اسے چلانے میں حصہ لیں گے اور اس شخص کا گناہ شدید ترین ہوگا جو خدا کی شریعت اور اس کے رسولؐ کی سنت کو اس کے لیے دلیل جواز بنائے گا۔ کَائِنًا مَنْ کَانَ ۔
میرے نزدیک یہ نہ تفقہ ہے اور نہ تقویٰ کہ جس چیز میں ایک علّت حُرمت کی اور دوسری علّت جواز کی بیک وقت پائی جاتی ہو، اس میں سے محض علّت ِ جواز کو الگ نکال کر حکم لگا دیا جائے اور علّت حُرمت کی طرف سے آنکھیں بند کرلی جائیں۔ آپ آزادیٔ ملک اور برطانوی اقتدار کے خلاف جدوجہد کا نام تو جھٹ لے دیتے ہیں کہ اسے کون نہ جائز بلکہ فرض کہے گا۔لیکن یہ نام لیتے وقت آپ کو یہ یاد نہیں آتا کہ جو انجمن اس زُعم کے مطابق آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے ، وہی انجمن اس دستور کو قبول کرتی ہے، اسے چلاتی ہے، اور اسی کو درجۂ کمال تک پہنچانے کے لیے لڑ رہی ہے جو انسانی مجالس قانون ساز کو خدا کے قانون میں ترمیم کرنے کا اختیار دیتا ہے، جس کی رُو سے خدا کا قانون اگر نافذ ہو بھی سکتا ہے تو صرف اس وقت جب کہ اسے لیجسلیچر کی منظور ی حاصل ہوجائے، جس کے تحت غیرمسلم اکثریت کو مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا نقشہ بنانے اور بگاڑنے کے پورے اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور وہ ان کے اَخلاق، اُن کی معاشرت، اور ان کی آیندہ نسلوں کی تعلیم و تربیت پر ہرقسم کے اثرات ڈال سکتی ہے۔ ایسے دستور کے ساتھ جو آزادیٔ ملک حاصل ہوتی ہو اس کے پیچھے دوڑ سکتے ہیں، کیونکہ آپ کو صرف برطانوی اقتدار کا زوال مطلوب ہے، عام اس سے کہ وہ کسی صورت میں ہو۔ اسی لیے آپ ایسی انجمن کے معاملہ میں صرف علّت جواز ہی ڈھونڈتے ہیں اور علّت حُرمت جو سامنے منہ کھولے کھڑی ہے، آپ کو کسی طرح نظر نہیں آتی ۔ لیکن ہم مجبور ہیں کہ ان دونوں کے ساتھ ساتھ دیکھیں اور علّت حرمت کو دفع کیے بغیر علّت جواز کو قبول نہ کریں، اس لیے کہ ہم کو برطانوی اقتدار کا زوال اور اسلام کا بقاء دونوں ساتھ ساتھ مطلوب ہیں۔ اس کا نام اگر کوئی برطانیہ پرستی رکھتا ہے تو رکھے، ہمیں اس کے طعن کی ذرہ برابر پرواہ نہیں۔