Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

وہابی اور وہابیت
وہابی اور نجد کا فرقہ
حضرت حوا کی پیدائش
مالی عبادات اور بدنی عبادات کے ایصالِ ثواب کا معاملہ
ایصالِ ثواب کا اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہونا
دوسروں کے لیے ایصالِ ثواب
اصحاب ِقبور سے دُعا کی درخواست
دُعا میں بزرگوں کی حرمت وجاہ سے توسل
مسئلہ حیات النبیﷺ
سجود لِغیر اﷲ
علمِ غیب
حاضر وناظرہونے کا معاملہ
خواب میں زیارتِ نبویؐ
سحر کی حقیقت اور معوّذتین کی شان نزول
گھر،گھوڑے اور عورت میں نحوست
شفاعت کا انکار
شفاعت کا صحیح تصور
اذان میں رسالت کی شہادت
کیا نماز میں درود پڑھنا شرک ہے؟
رسول اللّٰہﷺ کا تشہد
سنت نماز اور شرک
نماز کے آخر میں سلام کے مخاطب
رسول اللّٰہ ﷺ کی رکعاتِ نماز کی تعداد
اجنبی ماحول میں تبلیغِ اسلام
غیر مسلموں کے برتنوں میں کھانا
دعوت میں شراب پیش کرنا
روزے رکھنے کی طاقت کے باوجود فدیہ دینا
کُتوں کے منہ لگے ہوئے کپڑوں کو دھونا
جرابوں پر مسح
مہر معجل کا حکم
غیر محرم قریبی اعزّہ سے پردے کی صورت
غیر محرم رشتہ دار اور غیر محرم اجانب سے پردہ
غیر مَحرم اَعِزّہ کے سامنےآمنے کا مطلب
اللّٰہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کے مقابلے میں ماں کی اطاعت
عورت کا مردوں کو خطاب
خواتین کی تعلیم اور ملازمت
جہاد کے موقع پر خواتین کی خدمات
شادی پر استطاعت سے بڑھ کر خرچ کرنا
ہم پلا لوگوں میں شادی کرنا
لڑکی والوں کی طرف سے رشتہ میں پہل کرنا
شادی بیاہ ،پیدائش اور موت کی تقریبات
رسُومات کی اصلاح میں ترجیحات
مہر کے تقرر میں حیلے نکالنا
آلات کے ذریعے سے توالد وتناسل
آلاتِ موسیقی اور ان کی تجارت
شادی بیاہ کے موقع پر باجے وغیرہ بجانا
موسیقی استعمال کرنے والوں کے ساتھ تعلق داری
موسیقی والی شادی میں شرکت
دُف کی ترقی یافتہ شکلوں کا حکم
دُف کے استعمال کا مفہوم
گڑیوں(کھلونوں) کاحکم
اشتہاری تصویریں
کنیز کی تعریف اور شرعی حیثیت
تعددِ ازواج اور لونڈیاں
تعدّدِ ازواج پرپابندی
توأم متحد الجسم لڑکیوں کا نکاح
طلاق قبل از نکاح
عدت خلع
ضبطِ ولادت کے جدید طریقوں کا حکم
ضبطِ ولادت اور بڑھتی ہوئی آبادی
جرم کی دنیوی سزا ملنے کی صورت میں آخرت کی سزا کا معاملہ
اپنی قوم میں شادی
نکاح و طلاق کےملکی قوانین اور شریعت
منکوحہ کتابیہ کے لیے آزادیِ عمل کے حدود
نکاح بلا مہر
اﷲ تعالیٰ کے حقوق ا ور والدین کے حقوق
پردہ اور اپنی پسند کی شادی
لفظ نکاح کا اصل مفہوم
عورت کی عصمت وعفت کا مستقبل
بیوی اور والدین کے حقوق
قرآن میں زنا کی سزا
بالغ عورت کا اختیار ِنکاح
شادی بیاہ میں کفاء ت کا لحاظ
نکاحِ شِغار

خواتین اور دینی مسائل

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

بالغ عورت کا اختیار ِنکاح

سوال: علمائے احناف اور علمائے اہل حدیث کے درمیان نکاح بالغہ بلا ولی کے مسئلے میں عام طور پر اختلاف پایا جاتا ہے۔احناف اس کے قائل ہیں کہ بالغہ عورت اپنا نکاح اولیا کے اذن کے بغیر یا ان کی خواہش کے علی الرغم جہاں چاہے کرسکتی ہے اور اس نکاح پر اولیا کو اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔اس کے برعکس اہل حدیث حضرات ایسے نکاح کو باطل اور کالعدم قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نکاح بلاولی کی صورت میں بلاتأمل دوسرا نکاح کیا جاسکتا ہے۔فریقین کے دلائل، جہاں تک میرے سامنے ہیں، مختصراً پیش کرتا ہوں اور استدعا کرتا ہوں کہ آپ اس بارے میں اپنی تحقیق واضح فرمائیں۔

جواب: اس سوال کے ساتھ سائل نے پوری تفصیل کے ساتھ فریقین کے دلائل جمع کردیے ہیں، لہٰذا پہلے ہم ان دلائل کو یہاں نقل کردیتے ہیں:
(1) حنفیہ کا استدلال حسب ذیل آیات اور احادیث سے ہے:
﴿وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّعَشْرًا۝۰ۚ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا فَعَلْنَ فِيْٓ اَنْفُسِہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۭ﴾ ( البقرہ 2:(234
(تم میں سے جو لوگ مرجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دن روکے رکھیں،پھر جب ان کی عدت پوری ہوجائے تو جو کچھ وہ اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے کریں،اُس کی تم پر کوئی ذمہ داری نہیں)
﴿فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَہٗ۝۰ۭ﴾ )البقرہ 2:(230
(پھر اگر (تیسری بار شوہر نے بیوی کو) طلاق دے دی،تو وہ عورت اُس کے لیے حلال نہ ہوگی،الا یہ کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے)
﴿……فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۭ﴾
(البقرہ 2:232)
(…پھر تم ان عورتوں کو اس سے مت روکو کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کرلیں جب کہ وہ بھلے طریقے سے باہم رضا مند ہوجائیں)
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْفَضْلِ، سَمِعَ نَافِعَ بْنَ جُبَيْرٍ، يُخْبِرُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الثَّيِّبُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، وَالْبِكْرُ تُسْتَأْمَرُ، وَإِذْنُهَا سُكُوتُهَا…{ صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب استیذان الثیب فی النکاح بالنطق و البکر، حدیث 2546 } ( نافع ابن جبیر نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ شوہر دیدہ عورت اپنے ولی سے زیادہ خود اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کی حق دار ہے،اور کنواری کا مشورہ لیا جانا چاہیے اور اس کی اجازت اُس کی خاموشی ہے، اور ایک روایت میں ہے کہ بیوہ عورت اپنے ولی سے زیادہ اپنے نکاح کے معاملے میں حق دار ہے)
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: جَاءَتْ امْرَأَةٌ إلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إنَّ أَبِي أَنْكَحَنِي رَجُلًا، وَأَنَا كَارِهَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِيهَا: “لَا نِكَاحَ لَك، اِذْهَبِي، فَانْكِحِي مَنْ شِئْتِ { الزیلعی، جمال الدین، ابو محمد، عبداللہ بن یوسف، نصب الرایۃ لأحادیث الھدایۃ، بیروت، مؤسسۃ الریان، 1997م، کتاب النکاح، باب فی الأولیائ و الأکفائ، ج3، ص182 }(ابی سلمہ ابن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ میرے باپ نے میرا نکاح ایک مرد سے کردیا ہے اور میں اُسے ناپسند کرتی ہوں۔آپ نے باپ سے فرمایا کہ نکاح کا اختیار تمھیں نہیں ہے، اور لڑکی سے فرمایا کہ جائو جس سے تمھارا جی چاہے نکاح کرلو)
رُوِيَ مِنْ طَرِيقِ مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا زَوَّجَتْ حَفْصَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مِنْ الْمُنْذِرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ غَائِبٌ بِالشَّامِ، فَلَمَّا قَدِمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ قَالَ: وَمِثْلِي يُفْتَاتُ عَلَيْهِ؟! فَكَلَّمَتْ عَائِشَةُ الْمُنْذِرَ بْنَ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ: إنَّ ذَلِكَ بِيَدِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: مَا كُنْت لِأَرُدَّ أَمْرًا قَضَيْتِه، فَاسْتَقَرَّتْ حَفْصَةُ عِنْدَ الْمُنْذِرِ، وَلَمْ يَكُنْ ذَلِكَ طَلَاقً{الزیلعی، جمال الدین، ابو محمد، عبداللہ بن یوسف، نصب الرایۃ لأحادیث الھدایۃ، بیروت، مؤسسۃ الریان، 1997م، کتاب النکاح، باب فی الأولیائ و الأکفائ، ج3، ص182 }
( مالک نے عبدالرحمن سے،انھوں نے اپنے باپ سے، اور انھوں نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے حفصہ بنت عبدالرحمن کا منذر ابن زبیر سے نکاح کردیا۔اُس وقت عبدالرحمن شام میں تھے۔جب وہ واپس آئے تو کہنے لگے کہ کیا میری راے کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟تب حضرت عائشہؓ نے منذر ابن زبیر سے بات کی۔انھوں نے کہا کہ فیصلہ عبدالرحمن کے ہاتھ میں ہے۔اس پر عبدالرحمن نے حضرت عائشہؓ سے کہا کہ جس معاملے کو آپ نے طے کردیا ہے،میں اُس کی تردید نہیں کرنا چاہتا۔چنانچہ حفصہ منذر کے پاس ہی رہیں اور یہ طلاق نہ تھی)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:’’ لَيْسَ لِلْوَلِيِّ مَعَ الثَّيِّبِ أَمْرٌ‘‘{سنن ابی داود، کتاب النکاح، باب فی الثیب، حدیث 2100}
ابو دائود اور نسائی نے (ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: شوہر دیدہ عورت پر ولی کو کچھ اختیار حاصل نہیں ہے)
عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: جَاءَتْ فَتَاةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي زَوَّجَنِي ابْنَ أَخِيهِ لِيَرْفَعَ مِنْ خَسِيسَتِهِ ، قَالَ: فَجَعَلَ الْأَمْرَ إِلَيْهَا. فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ أَجَزْتُ مَا صَنَعَ أَبِي، وَلَكِنْ أَرَدْتُ أَنْ تَعْلَمَ النِّسَاءُ أَنْ لَيْسَ إِلَى الْآ بَاءِ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ { سنن الدارقطنی، کتاب النکاح، حدیث 35552،صحیح، البانی، مشکاۃ المصابیح، حدیث 3131 }نسائی اور احمد نے (حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ ایک لڑکی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی: اے اﷲ کے رسول!میرے باپ نے اپنے بھتیجے کے ساتھ میرا بیاہ صرف اس لیے کردیا ہے کہ میرے ذریعے سے اُسے ذلت سے نکالے۔آپؐ نے نکاح (کی تنسیخ و استقرار) کا حق لڑکی کو دے دیا۔لڑکی نے کہا:میرے والد نے جو کچھ کیا ہے،میں اُسے جائز قرار دیتی ہوں،میری خواہش صرف یہ تھی کہ عورتیں جان لیں کہ باپوں کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے)
(۲) اہل حدیث حضرات اپنی تائید میں مندرجہ ذیل احادیث پیش کرتے ہیں:
عَنِ عَائِشَۃَ رَضِی اللّٰہ عَنْہَا اَخَبَرَتْہُ اَنَّ النَّبیَّ صلّیِ اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّم قال: ’’اَیَّما اِمْرأۃٍ نَکَحَتِ بِغَیْرِ إِذْنِ وَلِیّہِاَ فَنِکَاحُھَا باَطِلٌ… فَاِنِ اشْتَجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِّیٌ مَنْ لاَ وَلیَّ لَھَا‘‘{ مسند أحمد، مسند الصدیقۃ عائشۃ بنت الصدیق،حدیث 25326
}(حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جو عورت بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے،اُس کا نکاح باطل ہے…پس اگر جھگڑا ہو تو جس عورت کا ولی نہ ہو تو سلطان اُس کا ولی ہے)
عن ابی موسیٰ اَنَّ النَبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نِکاَحَ إِلَّا بِوَلِیِّ { ایضاً، مسند الکوفیین، حدیث ابی موسیٰ الأشعری، حدیث 19746 }
( ابو موسیٰ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:ولی کے بغیر کوئی نکاح جائز نہیں ہے)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا { السنن الکبریٰ، باب لا نکاح الابولی، حدیث 13632 } (حضرت ابو ہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ ایک عورت دوسری عورت کی(ولی بن کر) نکاح نہ کرے،اور نہ کوئی عورت خود اپنا نکاح کرے)
قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَيُّمَا امْرَأَةٍ لَمْ يُنْكِحْهَا الْوَلِيُّ، أَوِ الْوُلَاةُ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ { ایضاً، حدیث 13637
}
(حضرت عمرؓ نے فرمایا: جس عورت کا نکاح ولی یا حکام نہ کریں،اُس کا نکاح باطل ہے)
عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ قَالَ: جَمَعْتُ الطَّرِيقَ رَكْبًا، فَجَعَلَتِ امْرَأَةٌ ثَيِّبٌ أَمْرَهَا بِيَدِ رَجُلٍ غَيْرِ وَلِيٍّ فَأَنْكَحَهَا، فَبَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَجَلَدَ النَّاكِحَ وَالْمُنْكِحَ، وَرَدَّ نِكَاحَهَا{ السنن الکبریٰ، باب لا نکاح الابولی، . حدیث 13639،ضعیف، البانی، ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار اسبیل، المکت الاسلامی، بیروت، حدیث1842
}(عکرمہ ابن خالد سے روایت ہے کہ ایک شوہر دید ہ عورت نے اپنا معاملہ ایک ایسے شخص کے سپرد کردیا جو اُس کا ولی نہ تھا، اور اُس شخص نے عورت کا نکا ح کردیا۔ حضرت عمرؓ کو ِ اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے نکاح کرنے اور کرانے والوں کو کوڑوں کی سزا دی اور نکاح منسوخ کردیا)
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذَنْ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، لَا نِكَاحَ إِلَّا بِإِذْنِ وَلِيٍّ { ایضاً، حدیث 13641 }
(حضرت علیؓ نے فرمایا: جس عورت نے بھی اپنے ولی کے اذن کے بغیر نکاح کیا،اُس کا نکاح باطل ہے۔بلا اجازت ولی کوئی نکاح نہیں)
عَنِ الشَّعْبِيِّ، أَنَّ عُمَرَ، وَعَلِيًّا رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا وَشُرَيْحًا، وَمَسْرُوقًا رَحِمَهُمَا اللهُ، قَالُوا: ” لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ {ایضاً، حدیث 13642 }
(اما م شعبی سے روایت ہے کہ حضرت علیؓ،حضرت عمرؓ، شریح اور مسروق نے فرمایا کہ ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہے)
ان دلائل پر ایک نگاہ ڈالنے سے ہی یہ محسوس ہوجاتا ہے کہ دونوں طرف کافی وزن ہے اور یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ فریقین میں سے کسی کا مسلک بالکل غلط ہے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شارع نے فی الواقع دو متضاد حکم دیے ہیں؟ یا ایک حکم دوسرے حکم کو منسوخ کرتاہے؟ یا دونوں حکموں کو ملا کر شارع کا منشا ٹھیک طور پر متحقق ہوسکتا ہے؟پہلی شق تو صریحاًباطل ہے، کیوںکہ شریعت کا پورا نظام شارع کی حکمت کاملہ پر دلالت کررہا ہے اور حکیم سے متضاد احکام کا صدور ممکن نہیں ہے۔دوسری شق بھی باطل ہے، کیوں کہ نسخ کا کوئی ثبوت یا قرینہ موجود نہیں ہے۔اب صرف تیسری ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اور ہمیں اسی کی تحقیق کرنی چاہیے۔ میں دونوں طرف کے دلائل جمع کرکے شارع کا جو منشا سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے:
1۔ نکاح کے معاملے میں اصل فریقین مرد اور عورت ہیں نہ کہ مرد اور اولیاے عورت۔ اسی بِنا پر ایجاب وقبول ناکح اور منکوحہ کے درمیان ہوتا ہے۔
2۔ بالغہ عورت(باکرہ ہو یا ثیبہ) کا نکاح اُس کی رضا مندی کے بغیر یا اُس کی مرضی کے خلاف منعقد نہیں ہوسکتا،خواہ وہ نکاح کرنے والا باپ ہی کیوں نہ ہو۔ جس نکاح میں عورت کی طرف سے رضا نہ ہو،اس میں سرے سے ایجاب ہی موجود نہیں ہوتا کہ ایسا نکاح منعقد ہوسکے۔
3۔ مگر شارع اس کو بھی جائز نہیں رکھتا کہ عورتیں اپنے نکاح کے معاملے میں بالکل ہی خود مختار ہوجائیں اور جس قسم کے مرد کو چاہیں،اپنے اولیا کی مرضی کے خلاف اپنے خاندان میں داماد کی حیثیت سے گھسا لائیں۔ اس لیے جہاں تک عورت کا تعلق ہے،شارع نے اس کے نکاح کے لیے اُس کی اپنی مرضی کے ساتھ اُس کے ولی کی مرضی کو بھی ضروری قرار دیا ہے۔نہ عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے ولی کی اجازت کے بغیر جہاں چاہے اپنا نکاح خود کرلے،اور نہ ولی کے لیے جائز ہے کہ عورت کی اجازت کے بغیر اُس کا نکاح جہاں چاہے کردے۔
4۔ اگر کوئی ولی کسی عورت کا نکاح بطور خود کردے تو وہ عورت کی مرضی پر معلق ہوگا، وہ منظور کرے تو نکاح قائم رہے گا،نامنظور کرے تو معاملہ عدالت میں جانا چاہیے۔ عدالت تحقیق کرے گی کہ یہ نکاح عورت کو منظور ہے یا نہیں۔ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ عورت کو نکاح نامنظور ہے تو عدالت اُسے باطل قرار دے گی۔
5۔ اگر کوئی عورت اپنے ولی کے بغیر اپنا نکاح خود کرلے تو اُس کا نکاح ولی کی اجازت پر معلق ہوگا۔ولی منظور کرلے تو نکاح برقرار رہے گا،نا منظور کرے تو یہ معاملہ بھی عدالت میں جانا چاہیے۔عدالت تحقیق کرے گی کہ ولی کے اعتراض و انکار کی بنیاد کیا ہے۔اگر وہ فی الواقع معقول وجوہ کی بِنا پر اُس مرد کے ساتھ اپنے گھر کی لڑکی کا جوڑ پسند نہیں کرتا تو یہ نکاح فسخ کیا جائے گا، اور اگر یہ ثابت ہوجائے کہ اس عورت کا نکاح کرنے میں اُس کا ولی دانستہ تساہل کرتا رہا، یا کسی ناجائز غرض سے اس کو ٹالتا رہا اور عورت نے تنگ آکر اپنا نکاح خود کرلیا، تو پھر ایسے ولی کو سئی الاختیار ٹھیرا دیا جائے گااور نکاح کو عدالت کی طرف سے سند جواز دے دی جائے گی۔ ھذا ما عندی واللّٰہ اعلم بالصواب۔

(ترجمان القرآن، ستمبر1952ء)

شیئر کریں