یہ سوال کہ ہندستان کے مسلمان کیوں بے چین اور غیر مطمئن ہیں، اور کیوں اپنے ملک کی اس سیاسی جدوجہد میں، جس کو ’’جنگِ آزادی‘‘ کہا جاتاہے، اپنے شایان شان حصہ نہیں لیتے، ایک ایسا معمہ بن گیا ہے‘ جسے سمجھنا صرف غیر مسلموں ہی کے لیے نہیں، بلکہ خود بہت سے مسلمانوں کے لیے بھی دشوار ہو گیا ہے۔ مسلمانوں کی حالت اس وقت اس شیر خوار بچے کی سی ہے‘ جو اپنی تکلیف پر روتا اور تڑپتا ہے، مگر ٹھیک ٹھیک یہ نہیںبتا سکتا کہ اس کوتکلیف کیا ہے‘ جس پر وہ رو اور تڑپ رہا ہے۔ حتیٰ کہ بسا اوقات غیر تو غیر، خود اس کی اپنی ماں کو یہ شبہ ہونے لگتا ہے‘ کہ اسے فی الواقع کوئی شکایت نہیں، محض ضد چڑھ گئی ہے۔ اس وقت ضرورت تھی‘ کہ مسلمان قوم کے ذہن کو ٹھیک ٹھیک پڑھ کر اس کی بے چینی اور بے اطمینانی کے حقیقی اسباب دریافت کیے جاتے، اس اصل مسئلے کو واضح اور منقح صورت میںپیش کیا جاتا جو ہندوستانی مسلم قوم کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے‘ اور یہ بتایا جاتاہے‘ کہ ہندوستان کا مسلمان فی الواقع چاہتا کیا ہے۔ نیز مسلمان کے نقطۂ نظر سے ہندوستان کے موجود حالات اور مستقبل کے رجحانات کا تجزیہ کرکے صاف صاف بیان کر دیا جاتاہے‘ کہ کس طرح یہاں ایسا ماحول پیدا ہو رہا ہے‘ اور ہوتا جا رہا ہے‘ جس کو مسلمان اپنی قومی زندگی کے لیے مہلک سمجھتا ہے۔ صرف یہی ایک صورت تھی جس سے مسلمانوں کی اپنی پراگندہ خیالی، اور غیر مسلموں کی حیرانی، بدگمانی اور بدتدبیری کا خاتمہ ہو سکتا تھا۔ بعض غیر مسلموںنے اس ضرورت کو محسوس کیا اور اس معمے کو سمجھنے اور مسلمانوںکے ذہن کو پڑھنے کی کوشش بھی کی مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے تھے‘ اور نہ ہو سکے۔ یہ کام دراصل ایسے لوگوں کے کرنے کا ہے‘ جن کے احساسات جمہور مسلمین کے احساسات سے متحد الاصل ہیں‘اور اس کے ساتھ جن میں یہ قوّت بھی ہے‘ کہ اپنے اندر جو کچھ محسوس کر یں اس کی واضح تصویر خارج میں کھینچ کر رکھ دیں۔
مسلمانوں کے صاحبِ علم و صاحب ِفکر لوگوں نے اس باب میں جس غفلت سے کام لیا ہے اس کا نتیجہ ہم یہ دیکھ رہے ہیںکہ یہ مسئلہ بالکل نا اہل اور نا قابلِ اعتماد لوگوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن گیا ہے‘ اور انہوں نے اس کو نہایت غلط طریقوں سے پیش کرکے دوسروں ہی کو نہیں، خود اپنی قوم کو بھی پریشان خیالیوں اور غلط فہمیوں میں مبتلا کر دیا ہے۔
ان میں سے ایک بڑی جماعت تو اسلام کا صحیح علم ہی نہیں رکھتی،اور نہ اس حقیقت کو سمجھ سکتی ہے‘ کہ مغربی علوم کے فروغ، غیر مسلم حکومت کے اقتدار، ا ور اب جدید نیشنل ازم کے بڑھتے ہوئے سیلاب سے مسلم قوم کے لیے فی الواقع کون سا بنیادی سوال پیدا ہو گیا ہے۔ یہی لوگ بغیر سمجھے بوجھے، محض چند سطحی اور حقیر سے جزئیات کو مسلمانوں کے قومی مسائل بنا کر پیش کرتے ہیں، اور ان پر مناسب حد سے زیادہ زور دے کر اپنی پوزیشن کو اور زیادہ مضحکہ خیز بنا دیتے ہیں۔ اس سے ہوشیار لوگوں کو یہ خیال پھیلانے کا اچھا موقع مل جاتا ہے‘ کہ مسلمانوں کا قومی مسئلہ چند بہت ہی چھوٹی چھوٹی باتوں سے مرکب ہے‘ جن کو محض جہالت، تنگ نظری اور نادانی کی وجہ سے اتنی اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔
ایک دوسری جماعت جس نے اس مسئلہ کی حمایت میں اپنے آپ کو بہت نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے، انگریزی سلطنت کے وفا دار غلاموں پر مشتمل ہے، اور ان کا فائدہ اسی میں ہے‘ کہ اصل مسئلہ کو فروعات میں گم کر دیا جائے‘ تاکہ مسلمان فضول چیزوں پر لڑکر اپنی قوّت ضائع کرتے رہیں‘ اور ان کی جان و مال کے خرچ پر سرکار برطانیہ کا کام بنتا رہے۔ان حضرات کی مداخلت سے اس مسئلہ کی عزت و وقعت اور بھی زیادہ کم ہو گئی ہے‘ اور مخالف گروہ کے چالاک لوگوں کو یہ مشہور کرنے کا بہت اچھا بہانہ ہاتھ آگیا ہے‘ کہ درحقیقت مسلمانوںکے قومی مسئلہ کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، یہ تو محض امپیریلسٹ پالیسی کاایک شاخسانہ ہے، اور صرف ٹوڈیوں، رجعت پسندوں اور سرکار پرستوں ہی کی اغراض نے اسے پیدا کیا ہے۔
ان دونوںگروہوں کی بدولت جو نقصان ہمارے مقدّمہ کو پہنچا ہے، اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے‘ کہ غیر تو غیر خود مسلمان بھی اب اس دھوکہ میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں‘ کہ درحقیقت ہمارا کوئی قومی مسئلہ نہیں ہے‘ اور اگر ہے بھی تو وہ ایسا اہم نہیں کہ آزادی وطن سے بڑھ کر ہم کو اس کی فکر ہو۔ چنانچہ مسلمانوں کے اپنے آدمیوں کی زبانوں پر اب وہی باتیں آنے لگی ہیں‘ جو کل تک غیر اخباروں اور لیڈروں کی زبان و قلم پر تھیں۔ یعنی مسلم مفاد کا نام لینا رجعت پسندی‘ اور ٹوڈیت اور فرقہ پرستی ہے۔ یہ جادو عوام سے گزر کر علماء پر بھی چڑھ رہا ہے‘ اور وہ لوگ اس سے متاثر ہو رہے ہیں‘ جن کا اصلی فرض یہ تھا‘ کہ جانشینانِ رسول ہونے کی حیثیت سے اس مسئلہ کو سمجھتے اور سمجھاتے اور جانشینانِ رسول ہونے کی حیثیت ہی سے اس کو حل کرنے کی کوشش کرتے۔ اب اگر ہماری قوم کے وہ چند اربابِ فکر جو حقیقت کو سمجھتے ہیںاور سمجھانے کی بھی اہلیت رکھتے ہیں‘ اور جن کا ذہن ابھی تک بیرونی اثرات سے آزاد ہے، مُہرِ خاموشی نہ توڑیں گے‘ اور صاف صاف حقیقت کو بیان نہ کریں گے‘ تو یقینا زمانے کی دو تین گردشیں بھی نہ گزرنے پائیں گی کہ مسلمانوں کی پوری قوم فریب میں مبتلا ہو جائے گی۔ اس میں شک نہیں کہ اب مسلمانوں کے مفاد کا نام لینا اپنے آپ کو بڑے خطرے میں ڈالنا ہے۔ کیونکہ اب غیروں ہی سے نہیں، خود اپنے بھائیوں سے بھی ایسے شخص کو گالیاں سننی پڑتی ہیں۔ اور انسان کے لیے غیروں کی گالیوں سے بدرجہا زیادہ دل شکن ان لوگوں کی گالیاں ہوتی ہیںجن کی بھلائی کے لیے وہ کام کرتا ہے۔ لیکن خواہ نتائج کیسے ہی تلخ ہوں، جن لوگوں کو اپنی قوم کا مفاد عزیز ہے، انہیںہر برے سے برے نتیجہ کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہونا چاہیے‘ اور کم از کم تذکیر کا فرض بجا لانے سے ہرگز منہ نہ موڑنا چاہیے۔
اس کو مسلمانوں کی بد نصیبی کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے‘ کہ وہ لوگ جو سب سے بڑھ کر ان کے قومی مزاج کو سمجھنے والے اور ان کے جذبات و داعیات کا صحیح حال جاننے والے اور ان کے قلب و روح کی سچی نمائندگی کرنے والے ہو سکتے تھے، اور جن سے یہ توقع کی جا سکتی تھی‘ کہ اس قوم کی حقیقی مشکلات کو سمجھ کر کوئی کارگر تدبیر اور علاج تجویز کریں گے، آج وہ بھی زمانہ کے غالب اثرات کی رو میں بہتے جا رہے ہیں، اور نادانستہ ان کی زبانوں سے وہ باتیں نکل رہیں ہیںجو کل تک زیادہ کھلے الزامات کی صورت میں غیروں کی زبان سے نکلا کرتی تھیں۔ مثال کے طور پر میں اس تقریر کا اقتباس نقل کرتا ہوںجو ابھی حال میں مولانا سیّد سلیمان ندوی نے مدراس میں ارشاد فرمائی ہے۔{ FR 2920 }مولانا کے علم و فضل، ان کی صداقت، ان کے تفکر و تدبر کا جیسا معترف میں ہمیشہ تھا ایسا ہی آج بھی ہوں، اور ان کی تقریر کا اقتباس نقل کرنے سے میرا مدعا ان کی ذات گرامی پر کوئی حرف لانا نہیں ہے۔ بلکہ دراصل میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وقت کے غالب خیالات نے ہماری قوم کے اتنے بڑے صاحب ِفکر و بالغ النظر عالم پر بھی کیا اثر کیا ہے۔ مولانا فرماتے ہیں :
اس وقت تین ہی صورتیں ہیں۔ یا تو مسلمان اپنے گھروں کے دروازے بند کرکے بیٹھ رہیں‘ اور جب آزادی کی جنگ ختم ہو جائے‘ تو اپنے دروازے کھول کر باہر نکلیں اور گلیوں میں آزادی کی بھیک مانگتے پھریں۔ یا یہ کہ اپنا کیمپ الگ لگائیں اور یہ دیکھتے رہیں کہ آزادی کی فوج اپنی قوّت بازو سے کب میدان جیتتی ہے‘ اور مال غنیمت پر قبضہ کرتی ہے۔ ا س وقت وہ آگے بڑھیں اور فاتح فوج سے مال غنیمت میں جھگڑا کریں۔ یا یہ کہ وہ آزادی کی فوج میں شامل ہو کر آزادی کے لیے ان کے دوش بدوش کھڑے ہو کر جنگ کریں‘ اور اپنے لیے اپنی عظیم الشان قومیّت کی پوزیشن کے مطابق اپنی کوششوں سے اپنی جگہ حاصل کریں۔ (انصاری، مورخہ ۳ رمضان ۱۳۵۶ھ)
غور کیجئے ! یہ ارشاد گرامی کن مفروضات کا نتیجہ ہے۔ ’’مسلمان جو کئی سال تک آزادی کی جنگ سے الگ رہے‘ اور اب بھی ٹھٹکے کھڑے ہیں، اس کی وجہ کچھ اور نہیں، محض بزدلی ہے، اور یہ قوم بزدل ہونے کے ساتھ کمینہ بھی ہے۔ جب آزادی کی فوج کے سورما سپاہی، جو ظاہر ہے اکثر و بیشتر غیر مسلم ہی ہیں، شیروں کی طرح شکار مار لیں گے، تو یہ جنگل کے ذلیل جانوروں کی طرح آکر حصہ لڑانے کی کوشش کرے گی‘‘۔ یہ ہے مسلمانوں کی وہ تصویر جو ان الفاظ سے ذہن سامع میںبنتی ہے، اور اس کے ساتھ غیر مسلموں کی عظمت و بزرگی کا کیسا مرعوب کن نقشہ ذہن کے سامنے آتا ہے‘ کہ گویا وہ شیرانِ بیشہ حریّت ہیں‘ جو تمام ہندوستان کے لیے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ پھر یہ ’’جنگِ آزادی‘‘ کس قدر پاک، کیسی بے عیب اور کتنی بے لوث چیز فرض کی گئی ہے‘ کہ اس میں کسی لوث کا شبہ کرنا تو گویا ممکن ہی نہیں۔ ایسی پاک جنگ، ایسے مقدّس جہاد میں حصہ لینے سے مسلمانوں کا احتراز کرنا کسی معقول وجہ پر تو مبنی ہو ہی نہیں سکتا۔ اب بس یہ ایک ہی وجہ رہ جاتی ہے‘ کہ مسلمان بزدل، دوں ہمت اور کمینہ ہیں۔
ایک دوسرے بزرگ جن کے علم، تقویٰ اور دیانت کا ا حترام میرے دل میں ان کے کسی شاگرد اور مرید سے کم نہیںہے،ا پنے ایک مضمون میں تحریر فرماتے ہیں :
جس طرح آزادی کے لیے جدوجہد کرنا ہندوستان کی دوسری قوموں پر واجب ہے، اسی طرح مسلمانوںپر بھی واجب ہے، بلکہ ان کے لیے اسباب وجوب بہ نسبت دیگر اقوامِ ہند کے چند در چند زائد ہیں۔ پس مسلمانوںکا دوسری اقوام سے پیچھے رہنا انتہائی شرمناک اور ذلیل امر ہے۔
(مولانا حسین احمدؒ کا مکتوب’’آفتاب‘‘ لکھنؤ، مورخہ ۱۵، اپریل ۱۹۳۸ء)
یہاں بھی وہی نظریہ کام کر رہا ہے۔ حقائق سے آنکھیں بند کرکے یہ تسلیم کر لیا گیا کہ ہندوستان کی موجودہ سیاسی جدوجہد فی الواقع خالص آزادی وطن کی جدوجہد ہے‘ اور اس مفروضہ پر یہ حکم لگا دیا گیا کہ اس جدوجہد میں شریک ہونا مسلمانوں پر واجب ہے، اور اس سے ان کا علیحدہ رہنا کسی معقول وجہ پر مبنی نہیںبلکہ ’’انتہائی شرم ناک اور ذلیل امر ہے‘‘۔
میرے ایک نہایت محترم بھائی جو علم و فضل کے ساتھ خلوص نیت کی نعمت سے بھی مالا مال ہیں‘ اور عصر حاضر کے مشہور مفسر قرآن مولانا حمید الدین فراہمیؒ کی جانشینی کا شرف رکھتے ہیں، اپنے ایک تازہ مضمون میں تحریر فرماتے ہیں:
یہ ساری تنظیم صرف اکثریت کے خطروں اور اندیشوں پر مبنی ہے۔ یہ اندیشے واقعی ہیں یا غیر واقعی؟ ہم تھوڑی دیر کے لیے تسلیم کر لیتے ہیںکہ واقعی ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ امر بھی ظاہر کر دینا چاہتے ہیں‘ کہ یہ تنظیم کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ انگریزوں کے ہاتھوں بالکل انہی نعروں اور انہی ہنگاموں کے ساتھ ۵۷ء کے بعد شروع ہو گئی تھی‘ اور ۱۸۸۵ء کے بعد سے تو ہندوستان میں کوئی انگریز حکمراں ایسا نہیں آیا۔ جس نے اکثریت کی چیرہ دستیوں سے بچاؤ کے لیے مسلمانوں کی تنظیم اپنی حکومت کی مسلمہ پالیسی نہ قرار دی ہو‘ اور یہ تنظیم اس تھوڑے سے وقفے کے سوا جو تحریکِ خلافت نے پیدا کر دیا تھا، پورے استحکام کے ساتھ باقی رہی ہے۔ اور ہم سے زیادہ ہمارے مہربان حکام نے ا س کی رضاعت و تربیت کی ذمّہ داریاں محسوس کی ہیں‘ اور جب تک موجودہ سیاسی ضروریات باقی ہیں‘ اور حالات کوئی نئی کروٹ نہیں بدلتے، کوئی وجہ نہیںکہ وہ اپنے اس عظیم الشان انسانی و سیاسی فرض سے جو بحیثیت ہمارے فرمانروا ہونے کے ان پر عائد ہوتا ہے بے پروا ہو جائیں گے۔ پس جو چیز بنی بنائی موجود اور پورے استحکام و قوّت کے ساتھ موجود ہے اس پر مزید چونے گارے کے اسراف کی کیا ضرورت ہے؟ اگر اکثریت آپ کے حصن حصین میں سرنگ لگانے کی فکر میں ہے‘ تو نصیب اعدا آپ کیوںاس درجہ مضطرب و سراسیمہ ہوں؟ جو بیدار مغز حکومت ایک لاکھ روپیہ سرحد پر روزانہ خرچ کرکے محض فرضی خطروں کا سد باب کرتی ہے کیا وہ اتنی بیہوش اور بے خرد ہو گئی ہے‘ کہ وہ اپنے حفظ و بقا کی ریڑھ کی ہڈی کو یونہی اعدا کے حملوں کا ہدف بننے کے لیے چھوڑ دے گی؟
(مولانا امین احسن اصلاحی، الاصلاح، سرائے میر، مورخہ جولائی ۱۹۳۸ء)
آگے چل کر مولانا فرماتے ہیں :
اگر آپ سچ مچ مسلمانوں کو منظم کرنا چاہتے ہیں‘ تو ان کو کسی اکثریت و اقلیت کے خطروں سے ڈرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف اللہ سے ڈرائیے۔
پھر ایک طویل بحث کے بعد آیات قرآنی سے استدلال کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ:
تمہارے سامنے بھی ہمت آزمائی اور عمل کا ایک میدان (یعنی یہی ’’آزادی کی جنگ‘‘) ہے، جس میں اگر داخل ہو جاؤ تو فتح مندی تمہارے ہی لیے ہے۔ لیکن اکثریت کے خوف اور اس کے سامان اور روپیہ کی کثرت نے تم کو سراسیمہ کر دیا ہے۔ اس لیے عزم و ہمت سے محروم ہو کر تم پست ہمتی کی خاک ِمذلت پر لوٹ رہے ہو۔(حوالہ مذکور)
دیکھے !یہاں خود ہماری قوم کا ایک اہلِ قلم ہمارے مقدّمہ کی کس قدر غلط ترجمانی کر رہا ہے۔ جس عینک سے پنڈت جواہر لال نہرو مسلمانوں کے معاملہ کو دیکھتے ہیں، ٹھیک وہی عینک خود ہمارے ایک بھائی نے اپنی آنکھوں پر لگا لی ہے،ا ور لطف یہ ہے‘ کہ یہاں اس عینک پر روسی کارخانے کے بجائے قرآنی رصد گاہ کا لیبل لگا ہوا ہے تاکہ مسلمان بے چارا بچاؤ کی کوئی راہ نہ پا سکے، دنیا سے تو گیا ہی تھا، دین کی عدالت سے بھی گمراہی کا فتویٰ سنے!
جس حکومت کی مہربانیوں کا اس قدر لطیف پیرایہ میں اوپر ذکر فرمایا گیا ہے، اس کی سب سے بڑی مہربانی ہمارے حال زار پر یہ ہے‘ کہ اس ٹے ڈیمو کریسی کے انگریزی اصول ہندوستان میں رائج کیے ہیں، جن کی رو سے دو مسلمانوں کے مقابلہ میں ۶غیرمسلموں کی رائے بہرحال صحیح ہے، اور حکومت ہمیشہ اسی رائے کے مطابق چلے گی‘ جو ڈیمو کریسی کے اس قاعدے کی بنا پر صحیح قرار پائے۔ مہربان سرکار کی لائی ہوئی اس نعمت کو آگے بڑھ کر وہ غیر مسلم قبول کر لیتے یں جو ’’ہمت آزمائی اور عمل‘‘ کے میدان میں دادِمردانگی دے رہے ہیں کیونکہ اس میں سرا سر انہی کی ’’فتح مندی‘‘ ہے۔ مسلمان اس پر ناک بھوں چڑھاتا ہے‘ تو وہی غیر مسلم اپنی ’’فتح مندانہ‘‘ پوزیشن رکھنے کے لیے مسلمان پر یہ الزام عائد کرتے ہیںکہ یہ سب کچھ انگریز کے اشارے سے ہو رہا ہے۔خود غرضانہ نقطۂ نظر سے غیر مسلموں کا یہ کہنا بالکل حق بجانب، کیونکہ ان کو اپنے مفاد کی حفاظت کے لیے ہر ممکن تدبیر کرنی ہی چاہیے۔مگر یہ مسلمانوں کی بد قسمتی نہیں تو اور کیا ہے‘ کہ خود ان کے اپنے بہت سے ممتاز افراد بھی اس معاملہ میں غیر مسلموں کے ہم نوا بن جاتے ہیں۔ سرکار برطانیہ کی لائی ہوئی ڈیمو کریسی کی لعنت تو ان کو نعمت نظر آتی ہے۔ مگر اس لعنت سے بچنے کے لیے مسلمان اگر کوئی کوشش کرتے ہیں‘ تو ارشاد ہوتاہے‘ کہ اکثریت و اقلیت کا سوال چھیڑنے کے معنی انگریزی اقتدار کی حفاظت کے ہیں۔
پھر لطف یہ ہے‘ کہ ایک طرف تو ڈیمو کریسی کا یہ قاعدہ تسلیم کیا جاتا ہے‘ کہ دو مسلمان چاہے وہ موسیٰ و ہارون ہی کیوں نہ ہوں، باطل پر ہیں اگر ان کے مقابلہ میں فرعون یا سامری کی اُمت کے چھ آدمی مخالفانہ رائے دیں اور دوسری طرف یہ بھی ارشاد ہوتاہے‘ کہ ’’مسلمانوں کی اکثریت و اقلیت کے خطروں سے ڈرانے کی ضرورت نہیں، صرف اللہ سے ڈرانا چاہیے‘‘۔ اور یہ ہدایت بھی فرمائی جاتی ہے‘ کہ اگر ڈیمو کریسی کے اس قاعدے کو قبول کرکے تم ’’ہمت آزمائی اور عمل‘‘ کے میدان میں کود پڑو گے‘ تو ’’فتح مند‘‘ ہو گے، ورنہ یوں ہی ’’پست ہمتی کی خاکِ مذّلت‘‘ پر لوٹتے رہو گے۔ اس کے معنی یہ ہیں‘ کہ انگریز اور ہندو مل کر جو زہر تم کو کھلا رہے ہیں، ہمت کرکے اسے کھا جاؤ۔ان شاء اللہ تم کو شہادت کا درجہ نصیب ہو گا جو عین ’’فتح مندی‘‘ ہے، ورنہ اس زہر کو کھانے سے اگر تم نے انکار کیا اور لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَۃُ الْخَبِيْثِ۰ۚ{ FR 2921 } کے قرآنی اصول پر پست ہمتوں کی طرح اصرار کرتے رہے ‘تو ’’اُولُوالْاَلْبَاب‘‘ تم کو جواہر لال نہرو کے ساتھ مل کر طنز و تعریض کی لطیف زبان میں ’’سرکار برطانیہ کے ٹوڈی‘‘ کا طعنہ دیں گے۔
سب سے آخر میں مولانا ابوالکلام آزاد کی ایک تحریر ملاحظہ ہو جن کا انقلاب حال میرے نزدیک مسلمانوں کے لیے اس صدی کی سب سے بڑی ٹریجڈی ہے۔ پچھلے سال جب کانگریس کے ایوان سے مسلم ماس کانٹیکٹ (muslim mass contact) کا علم اٹھایا گیا‘ تو اس کے ساتھ ہی مولانا کا ایک سپہ سالارانہ خطبہ بھی اخبارات میں شائع ہوا۔ اس میں یہ ارشاد فرمانے کے بعد کہ ’’مسلمانوں کو اگر کانگریس میں شریک ہونا چاہیے تو صرف اس لیے کہ اداء فرض کا غیر مشروط تقاضا یہی ہے، مولانا اپنی تمام تقریر اس انداز میں فرماتے ہیں‘ کہ یا تو مسلمان اس تحریک میں آنکھیں بند کرکے شریک ہو جائیںجس کی اساس وطنی قومیّت اور ڈیمو کریسی کے انگریزی نمونہ پر رکھی گئی ہے، یا نہیں تو وہ بزدل ہیں، کم ہمت ہیں، اور ذلت کی موت مر جانے والے ہیں، پوری تحریر نقل کرنے کی یہاں گنجائش نہیں، مگر چند فقرے نقل کیے بغیر چارہ بھی نہیں:
ایک زمانہ تھا جب مسلمانوںنے کانگریس کی شرکت سے اس لیے انکار کر دیا تھا‘ کہ وہ سرے سے سیاسی اصلاح و تغیّر کے مخالف تھے۔ انہیںیہ بات سمجھائی گئی تھی‘ کہ ہندستان میں ہندوؤں کی اکثریت ہے اس لیے یہاں جو تبدیلی بھی جمہوری ونیابتی اداروں کے طریقہ پر کی جائے گی‘ ہندوؤں کے لیے مفید ہو گی‘ مسلمانوںکے لیے مضر ہو گی۔چنانچہ ۱۸۸۷ء میں لارڈ ڈفرن اور سر آکلینڈ کالون نے سر سیّد احمد خاںمرحوم کو یہی راہ دکھائی تھی‘ اور اسی بنا پر انہوں نے کانگریس کی مخالفت کا اعلان کیا تھا … اب ملک اصلاحات کے لیے نہیں‘ بلکہ کامل تبدیلی کے لیے لڑ رہا ہے۔ ظاہر ہے‘ کہ ان تغیّرّات کے بعد اب کانگریس کی عدم شرکت کے لیے ۱۸۸۷ء والی بات سود مند نہیں ہو سکتی۔ ناگزیر ہے‘ کہ کوئی دوسری ہی بات اختیار کی جائے۔ چنانچہ اب بعض حضرات نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے‘ کہ جب کبھی کانگریس کی تحریک میں شرکت کا سوال چھڑتا ہے‘ یا خود کانگریس کا کوئی رکن مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہے‘ تو فورا یہ حضرات فرقہ وارانہ حقوق اور تحفظّات کا سوال چھیڑ دیتے ہیں۔ انہیں خطرہ ہے‘ کہ اگر برطانی اقتدار ملک میں باقی نہیں رہے گا یا بالکل کمزور پڑ جائے گا تو ہندو اکثریت ان کے حقوق پامال کر دے گی…۔
خطروں اور تباہ حالیوں کی اس اندیشہ ناکی کا کن لوگوںکو یقین دلایا جا رہا ہے؟ ان لوگوں کو جو بلحاظ تعداد کے ہندستان کی سب سے بڑی دوسری اکثریت اور بلحاظ معنوی قوی کے سب سے پہلی طاقت ور جماعت ہیں ! اور پھر ان تمام خطروں کا انسداد کیونکر ہو سکتا ہے؟ صرف اس طرح کہ انڈین نیشنل کانگریس ایک رزولیوشن پاس کر دے، جوں ہی اس نے رزولیوشن پاس کر دیا، خطروں اور تباہ حالیوں کا تمام بادل، جو آٹھ کروڑ انسانوں کے سروںپر چھایا ہوا ہے، معاً چھٹ جائے گا‘‘۔ ’’انہیں اگر کانگریس میں شریک ہونا چاہیے تو صرف اس لیے کہ انہیں اپنے اوپر بھروسہ ہے۔اس لیے نہیں کہ دوسروں نے انہیں بھروسہ دلایا ہے، یا دوسرے انہیں بھروسہ دلا سکتے ہیں۔ اگر فی الحقیقت ان کی بے بسی اور بے چارگی اس حد تک پہنچ چکی ہے‘ کہ وہ سمجھتے ہیں‘ کہ خطروں اور تباہ حالیوں میں گھر گئے ہیں‘ اور تحفظ کی راہ اس کے سوا کچھ نہ رہی کہ یا تو انگریزی اقتدار کے سہارے جئیں یا کانگریس کے اطمینان دلانے پر، اور خود ان کے اندر خود اعتمادی و ہمت کی ایک چنگاری بھی نہیں رہی جو ان کی ٹھنڈی رگوں کو گرم کر سکے، تو میں کہوں گا ایسی زندہ نعشوں کے لیے یہی بہتر ہے‘ کہ جہاںپڑی ہیں پڑی رہیں…
مسلمانوں کی یہ تصویر وہ شخص کھینچ رہا ہے‘ جو ایک زمانہ میں اسلامی ہند کی نشاۃ ثانیہ کا سب سے بڑا لیڈر تھا۔ ان کی مظلومی کا اس سے زیادہ دردناک منظر اور کیا ہو سکتا ہے‘ کہ جو کبھی ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کا ایڈیٹر تھا وہ آج ان کی اس قدر غلط ترجمانی کرے۔ مولانا کے مفروضات جن پر اس پورے خطبہ کی بنا رکھی گئی ہے مختصر الفاظ میں حسب ذیل ہیں :
۱- سیاسی اصلاح و تغیّر کے معنی محض اس تبدیلی کے ہیں‘ جو انگریزوں کے رائج کیے ہوئے جمہوری دنیا بتی اداروں کے طریقہ پر کی جائے۔ ایسی تبدیلی کی مخالفت جس مسلمان نے کی اس نے گویا نفس سیاسی اصلاح و تغیّر کی مخالفت کی۔ یہ بات اس ہندو کے کہنے کی تھی‘ جو انگریزی اصول جمہوریت و نیابت کو اپنے لیے مفید پا کر قوم پرستانہ جوش کے ساتھ قبول کرتا ہے۔ مگر وقت کی جادوگری کا تماشہ دیکھئے کہ اس نظریہ کو مولانا ابوالکلام بیان فرما رہے ہیں‘ اور محسوس تک نہیں کرتے کہ فی نفسہٖ یہ نظریہ کس قدر پوچ اور بے اصل ہے۔
۲- مسلمانوں کا یہ خیال غلط تھا‘ کہ ہندستان میں جو تبدیلی انگلستان کے جمہوری دنیابتی ادارت کے نمونہ پر کی جائے گی وہ بربنائے اکثریت ہندوؤں کے لیے مفید اور بربنائے اقلیت مسلمانوں کے لیے مضر ہو گی۔ سیاسیات کا طفلِ مکتب بھی بتا سکتا ہے‘ کہ مولانا کا یہ مفروضہ محض بے اصل ہے‘ اور بلا کسی غور و فکر کے انہوں نے اس بات کو قبول کر لیا ہے‘ جو ہندوؤں کے سیاسی لیڈر جان بوجھ کر ہمیں بیوقوف بنانے کے لیے کہا کرتے ہیں۔ انگریزوں نے اپنے ملک کے جن جمہوری دنیابتی اداروں کو یہاں ہمارے سر منڈھا ہے ان کی بنا ہی اکثریت کی حکومت (majority rule) پر ہے‘ اور ان کوجوں کا توں ایک ایسے ملک میںجہاں دو مختلف قومیں رہتی ہوں، رائج کرنے کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ اکثریت حکمران اور اقلیت محکوم ہو کر رہے۔ لہٰذا سر سیّد احمد خاں مرحوم کے دور میں جو رائے قائم کی گئی تھی وہ ہرگز غلط نہ تھی۔ البتہ اگر کسی چیز کو غلط کہا جا سکتا ہے‘ تو وہ ان کی وہ پالیسی ہے‘ جو اس مصیبت سے بچنے کے لیے انہوں نے اختیار کی اور اس کو بھی اس زمانے کے حالات سامنے رکھ کر غلط قرار دیتے ہوئے ایک صاحب ِفکر آدمی کو تامّل کرنا چاہیے۔
۳- مسلمانوں نے کانگریس سے علیحدگی کا فیصلہ اس بنا پر کیا تھا‘ کہ لارڈڈ فرن اور سر آکلینڈ کالون نے سر سیّد احمد خاں مرحوم کو یہ راہ دکھائی تھی۔ مولانا کو شائد خبر نہیں کہ کانگریس کا قیام اور وہ اصول و مقاصد جن پر آج تک کانگریس چل رہی ہے، سب کچھ اسی لارڈڈفرن کی رہنمائی کا نتیجہ ہے، اور اس میں لارڈر پن اور لارڈڈلہوزی اور اس عہد کے متعدّد دوسرے انگریز مدبرّین کے دماغوںنے بھی کام کیا ہے۔ کم از کم اپنے ورکنگ کمیٹی کے رفیق ڈاکٹر پتّا بھی ستیا رامیّا ہی کی ’’تاریخ کانگریس‘‘ مولانا نے پڑھ لی ہوتی‘ تو شائد اپنی قوم کے دامن پر دھبہ لگانے کے لیے ہندوؤں کے کارخانہ روشنائی سے یہ سیاہی مستعار لیتے ہوئے، ان کو کچھ نہ کچھ تامل ضرور ہوتا۔
۴- اب ملک اصلاحات کے لیے نہیں‘ بلکہ کامل تبدیلی کے لیے لڑ رہا ہے۔ یہ تحریر اس وقت لکھی گئی ہے‘ جب اصلاحات جدید کو قبول کرکے الیکشن لڑے جا چکے تھے، امپیریلسٹ گورنمنٹ کے تحت صوبوں کی حکومت کا انتظام کرنے کے لیے کانگریس اپنی خدمات پیش کر چکی تھی، اور اس اقدام میں خود جناب مولانا بھی شریک تھے۔ پھر جب اپنے عمل سے آپ نے ثابت کر دیا کہ آپ کامل تبدیلی کے لیے نہیں‘ بلکہ اصلاحات کے لیے اور ان اصلاحات کے لیے لڑ رہے ہیں‘ جو انگریز اپنے مفاد کے لیے دے رہا ہے‘ اور ہندو اپنے مفاد کے لیے لے رہا ہے، تو ’’کامل تبدیلی‘‘ کے لفظ بے معنی کو محض اس لیے دہرانا کہ اس کے بغیر مسلمانوں کا مُنہ کالا نہیں کیا جا سکتا، مہاسبھائی ہندوؤں کو تو ضرور زیب دیتا ہے‘ مگر مولانا کو زیب نہیں دیتا۔
۵- مسلمانوں کی موجودہ پوزیشن یہ ہے‘ کہ وہ یا تو انگریزی اقتدار کے سہارے جینا چاہتے ہیں‘ اور اس فکر میں ہیںکہ انگریز کی سنگینیں ان کی حفاظت کے لیے ہندوستان میں موجود رہیں، یا پھر یہ چاہتے ہیںکہ کانگریس ان کو تحفط کا زبانی اطمینان دلا دے۔ یہ بات ایک ہندو امپیریلسٹ کے کہنے کی تھی‘ اور کہہ رہے ہیں اسے مولانا ابوالکلام۔ حقیقت میں تو پوزیشن اس وقت یہ ہے‘ کہ دس سال کے بعد کانگریس اور ہندو مہاسبھا پھر اسی نقطہ پر جمع ہو گئی ہیں‘ جس پر یہ نہرو رپورٹ میں جمع ہوئی تھیں۔ ’’انقلاب‘‘ کا ڈرامہ ختم ہو چکا ہے‘ اور اس کی جگہ وہی دستوری ارتقاء کا نصب العین بر سر کار آگیا ہے‘ جو ابتداء سے ان کے پیشِ نظر تھا۔ ’’دستوری ارتقاء‘‘ کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں ہیں‘ کہ انگریز اپنی سنگین سے مسلمان کو اس وقت تک دبائے رکھے جب تک ہندو اس کی جگہ لینے کے لیے کافی طاقت ور اور کافی قابو یافتہ نہ ہو جائے۔ اب مسلمان جس فکر میں ہے وہ یہ نہیں ہے‘ کہ انگریز کی طرف جائے یا ہندو کی طرف، بلکہ پریشان ہو کر یہ دیکھ رہا ہے‘ کہ گھر کا ساتھی باہر کے غاصب کا اسسٹنٹ بن گیا ہے، باہر کا غاصب اس کو سنگین سے دبائے ہوئے ہے، اور گھر کا ساتھی اپنی رسیاں کھول کھول کر اس کے ہاتھ پاؤں باندھتا چلا جاتا ہے۔ یہ وقت ایسا تھا‘ کہ مولانا ابوالکلام جیسے لوگ اُٹھ کر مسلمانوں کو ان دونوں بلاؤں کے مشترک عمل سے بچانے کی تدبیر کرتے، مگر مولانا ان کو الٹا اس بات پر مطعون فرما رہے ہیں‘ کہ تم اس دام فریب میں پھنسنے سے دور کیوں بھاگے جا رہے ہو! ہمت کرکے اپنی گردن اور اپنے ہاتھ پاؤں اس کے پھندوں میں دے کیوں نہیں دیتے!
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے‘ کہ پروپیگنڈا کی طاقت کیسی زبردست طاقت ہے، اور جب کوئی قوم نامساعد حالات میں گھر جاتی ہے‘ تو اس پر باہر ہی سے نہیں اندر سے بھی کیسے مصائب نازل ہوتے ہیں۔ جو تصویر اپنی اغراض کے لیے غیروں نے کھینچی تھی، وہ اب خود ہماری اپنی قوم کے دماغوں میں بیٹھتی چلی جا رہی ہے‘ اور اس کو وہ لوگ ہماری اصلی تصویر کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں‘ جن سے ہم توقع رکھتے تھے‘ کہ وہ ہمارے سب سے بہتر نمائندے ہوں گے۔ کون کہہ سکتا ہے‘ کہ مولانا ابوالکلام یا مولانا حسین احمد یا مولانا سیّد سلیمان نے یہ باتیں جان بوجھ کر فرمائی ہیں؟ ہرگز نہیں۔ فضا جن خیالات سے بھر دی گئی ہے وہ غیر محسوس طور سے دماغوں میں نفوذ کر رہے ہیں‘ اور غیر ارادی طور سے زبانوں پر آرہے ہیں۔ یہ ایک جادو ہے‘ جو سروں پر چڑھ کے بول رہا ہے‘ اور کیا بتائیے کہ کیسے کیسے عالی مقام سروں پر چڑھ کر کیا کچھ بول رہا ہے۔ فرقہ پرستی کا لفظ جو مغربی تصوّر قومیّت کو پیشِ نظر رکھ کر وضع کیا گیا تھا، آج مسلمانوں کے علما اور بڑے بڑے لیڈر اس لفظ کو خود مسلمانوں پر استعمال کر رہے ہیں۔’’نیشنل ازم‘‘ یا ’’قوم پرستی کا لفظ آج بے تکلف افتخار کے انداز میں بولا جا رہا ہے۔ گویا یہ تسلیم کر لیا گیا کہ ہندستان ایک ’’قوم‘‘ ہے‘ اور مسلمان، ہندو، عیسائی وغیرہ اس قوم کے فرقے ہیں۔ ’’رجعت پسندی‘‘ اور ’’ٹوڈیت‘‘ کے الزامات اب خود مسلمانوں کی طرف سے مسلمانوں پر عائد کیے جانے لگے ہیں۔ اور یہ فرض کر لیا گیا ہے‘ کہ آزادی کے اس جہاد مقدّس میں کود پڑنے سے احتراز بلکہ اس میں ادنیٰ تامل بھی اگر کسی چیز کا نتیجہ ہو سکتا ہے‘ تو وہ بس رجعت پسندی و ٹوڈیت ہے، یا پھر بزدلی۔
اس طوفان کے شور و ہنگامہ سے دماغ اس قدر متاثر ہو چکے ہیں‘ کہ اب ان کو صبر و سکون کے ساتھ یہ سوچنے کی مہلت ہی نہیں ملتی آخر وہ کیا چیز ہے‘ جو مسلمان جیسی بہادر، عالی حوصلہ، حریّت پسند اور جنگ آزما قوم کو برابر دس سال سے اس جنگ میں اپنے شایان شان حصہ لینے سے روک رہی ہے؟ اور وہ کیا چیز ہے‘ جس کی وجہ سے اپنوں اور غیروں کے اتنے طعنے اور ایسے سخت الزامات آئے دن سنتے رہنے کے باوجود اس قوم کے خون میں جوش نہیں آتا؟ اگر اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے‘ کہ شائد یہ مسلمان کا قصور ہو، تو اس کی ایک دوسری ممکن وجہ یہ بھی تو ہو سکتی ہے‘ کہ شائد اس ’’جنگِ آزادی‘‘ میں کوئی کھوٹ ہو۔ شائد ’’یہ شیران بیشہ حریّت’‘‘ اس جنس کے شیر نہ ہوں جن سے ’’اسد اللہ‘‘ میل کر سکتاہے‘ اور کرتا رہا ہے۔ شائد اس ’’آزادی کی فوج‘‘ میں وہ خصوصیات ہوں جنہیں دیکھ کر مسلمان کا ضمیر یہ فیصلہ کر رہا ہو‘ کہ ان کے ساتھ چل کر میں اپنی منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکوں گا۔ کم از کم امکان تو دونوں پہلوؤںکا ہے پھر آخر یہ پروپیگنڈا کی طاقت اور نا مساعد حالات کی قہرمانی نہیں تو کیا ہے۔ جس کی بدولت رفتہ رفتہ دماغوں پر پہلی شق کا امکان حزم و یقین بن کر مسلط ہوتا جا رہا ہے‘ اور دوسری شق کے متعلق اب طوفان میں بہنے والی کشتی کے مسافروں اور کھوّیوں{ FR 2922 } میں سے کسی کو بھی یاد نہیں آتا کہ اس کا بھی کوئی امکان ہے۔
میں آئندہ ابواب میں ناقابلِ تردید واقعات و شواہد سے ثابت کروں گا کہ فی الواقع صورتحال یہی دوسری ہے، اور مسلمانوں کو اسی صورتحال نے اپنے اہلِ وطن کے ساتھ سیاسی جدوجہد میں حصہ لینے سے روک رکھا ہے۔ اس بحث سے میرا مقصد ایک طرف تو عام مسلمانوں کے تصوّرات کو واضح کرنا ہے، کیونکہ وہ حالات کو دیکھ دیکھ کر پریشان تو ہو رہے ہیں، مگر ابھی تک ان خطرات اور مشکلات کو پوری طرح سمجھے نہیں ہیں‘ جن میں وہ اس وقت گھر گئے ہیں، اور اسی وجہ سے انہیں اپنی نجات کا صحیح راستہ پانے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ دوسری طرف میں انصاف پسند غیر مسلموں کو بھی یہ بتانا چاہتا ہوںکہ مسلمانوں کے اصلی احساسات کیا ہیں، ان کا ذہن کس طرح کام کر رہا ہے‘ اور ہندوستان کی موجودہ سیاسی تحریکات کس طرح مسلمان کے مزاج، اس کے مفاد اور ان اصولوں کے خلاف چل رہی ہیں‘ جن پر وہ ایمان رکھتا ہے۔ ان باتوں کو اگر وہ سمجھ لیں تو انہیں معلوم ہو جائے‘ کہ مسلمان کا مقدّمہ ایسا مہمل نہیں ہے جیسا کہ اس کے غلط نمائندے پیش کر رہے ہیں، بلکہ درحقیقت وہ بالکل صحیح بنیاد پر لڑ رہا ہے‘ اور لڑنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ تیسری طرف اس بحث میں میرے پیشِ نظر یہ مقصد ہے‘ کہ ان حضرات علما کو ان کی غلطی پر متنبہ کروں جو مذہب کے نام سے مسلمانوں کی پشت بمنزل چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں ان کو اصل حقائق سے روشناس کرانا چاہتا ہوں۔ جس جنگِ آزادی کو وہ اتنا مقدّس سمجھ رہے ہیں میں بتانا چاہتا ہوں کہ وہ درحقیقت کس نوعیت کی جنگ ہے۔ جس آزادی کی فوج کو وہ سمجھ رہے ہیں‘ کہ راہ حق پر گامزن ہے۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ وہ دراصل کس راہ پر جاری ہے‘ اور مسلمان قوم بحیثیت مسلمان ہونے کے چند قدم سے زیادہ اس راہ پر اس کے ساتھ نہیں چل سکتی۔ جس طریق کار کو وہ بالکل صحیح طریق کار سمجھ کر اختیار کر رہے ہیں میں بتانا چاہتا ہوں کہ وہ خدا اور رسولa کے بتائے ہوئے طریق کار کے بالکل خلاف ہے۔ یہ سب کچھ عرض کرنے کے بعد میں ان سے درخواست کروں گا کہ اس کو ٹھنڈے دل سے پڑھیں۔ انصاف کی نظر سے دیکھیں‘ اور اس نور علم و بصیرت سے جو خدا نے ان کو دیا ہے کام لے کر اپنے حال پر غور کریں کہ کیا وہ مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کر رہے ہیں؟ اگر ان کا ضمیر گواہی دے کہ یہ راہ نمائی غلط ہے‘ تو انہیں بلا لحاظ اس کے کہ غلط راستہ پر کتنی دور جا چکے ہیں، الٹے قدم واپس ہونا چاہیے۔ اور راہِ راست معلوم کرنے کے لیے کتاب اللہ ا ور سنّت رسول ا للہa اور عقل سلیم کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ا ور اگر انہیں اس پر اصرار ہو‘ کہ وہی راستہ صحیح ہے‘ جس پر وہ چل رہے ہیں‘ اور مسلمانوں کو چلانا چاہتے ہیں‘ تو میں ان سے مطالبہ کروں گا کہ پہلے وہ دلائل سے اپنا حق بجانب ہونا ثابت کریں۔ محض شخصیتوں کے درمیان تقابل کرنا، یا سیاسی پارٹیوں کی گزشتہ و موجودہ روش کے درمیان موازنہ کرنا، یا نرے جذبات سے سپہ سالارانہ انداز میں اپیل کرنا کوئی ا ستدلال نہیںہے‘ اور نہ اس سے احقاقِ حق اور ابطالِ باطل ہوا کرتا ہے۔ براہ کرم حقائق اور واقعات کی دنیا میں آئیے۔ جو حقائق میں پیش کر رہا ہوں۔ یا تو یہ ثابت کر دیجئے کہ وہ حقائق نہیں ہیں، یا پھر ان حقائق کو تسلیم کرکے دلیل و حجت سے‘ حجت خواہ عقلی ہو یا نقلی، مگر بہرحال ہو حجت، ثابت کیجئے‘ کہ ان کے باوجود وہی راہ صحیح ہے‘ جو آپ نے اختیار کی ہے۔
یہ کوئی چیلنج نہیں ہے، بلکہ دراصل اس احساس ذمّہ داری سے ایک اپیل ہے‘ جو ہر مسلمان کے دل میں ہوتا ہے، جس کی بنا پر وہ اپنے آپ کو ہر عمل کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ سمجھتا ہے۔ پھر اس کا مقصد کسی گروہ کو ملزم بنانا اور قابلِ ملامت ٹھہرانے کی کوشش کرنا بھی نہیں ہے۔ جیسا کہ ایک پارٹی کے لوگ دوسری پارٹی والوں کے مقابلے میں کیا کرتے ہیں۔ جو شخص یہ الفاظ لکھ رہا ہے وہ کسی پارٹی میں شامل نہیں‘ اور اس نے آج تک خدا کی پارٹی کے سوا کسی پارٹی کی طرف بھی مسلمانوں کو دعوت نہیںدی ہے۔ لہٰذا اس اپیل میں خواہ مخواہ پارٹی فیلنگ (party feeling) کی بو سونگھنے کی بھی کوشش نہ کی جائے۔ا س کے ساتھ ایک اور بات بھی صاف کہہ دینا چاہتا ہوں۔ میرا یہ خطاب ائمہ سیاست کے مقتدیوں سے نہیں‘ بلکہ خود اماموں سے ہے۔ ان جاہل مقتدیوں سے میں کسی بحث میں نہیں الجھنا چاہتا جو محض جواب دینے کی خاطر جواب دیا کرتے ہیں،بات کو پوری طرح سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور بس اوّل نظر میں یہ دیکھ کر کہ کہنے والا کچھ ان کی خواہشات کے خلاف کہہ رہا ہے، جوابی بحث اور بحث بھی نہیں‘ بلکہ بازاریوں کی طرح حملے شروع کر دیتے ہیں۔
خ خ خ