Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مقدّمہ
حصہ اوّل : ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ایک تاریخی جائزہ
تقدیم{ FR 2891 }
باب ۱: آنے والا انقلاب اور مسلمان
باب ۲ : حالات کا جائزہ اور آئندہ کے امکانات
باب ۳ : ہمارا سیاسی نصب ُالعین
باب ۴ : راہِ عمل
حصہ دوم : اِصلاح کا راستہ قرآن و سنّت کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے صحیح راہِ عمل
باب ۵ : مسائلِ حاضرہ میں
باب ۶ اسلام … ایک جامع تہذیب دین و دنیا کی علیحدگی کا جاہلی تصوّر اور ہماری قومی سیاست میں اس کے اثرات
باب ۷ : شُبہات اور جوابات
حصہ سوم : کانگریس، متحدہ قومی تحریک اور مسلمان
تقدیم
باب ۸: مسلمانوں کی غلط نمائندگی اوراس کے نتائج
باب ۹: آزادی اور قومی تشخّص
باب ۱۰ : قوم پرستوں کے نظریات
باب ۱۱ : آزادی کی فوج کے مسلمان سپاہی
باب ۱۲ : حصول آزادی کا طریقہ
باب ۱۳ : جنگ ِ آزادی کا مطمح نظر
باب ۱۴ : قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟
باب ۱۵: بنیادی حقوق
باب ۱۶ : متحدہ قومیّت اور اسلام
باب ۱۷ : کیا ہندستان کی نجات نیشل ازم میں ہے؟
باب ۱۸ : اسلامی قومیّت کا حقیقی مفہوم 
باب ۱۹ : جنگِ آزادی کی نوعیت
باب ۲۰ : کانگریس اور مسلمان
حصہ چہارم : ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کے حل کی راہیں تین تجاویز
باب ۲۱ : مسلمان کیا کریں؟ تین تجاویز

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

باب ۷ : شُبہات اور جوابات

میں نے اپنے گزشتہ مضامین میں حتی الامکان ہر پہلو کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن باوجود اس کے ان مضامین کو دیکھ کر مختلف اصحاب نے متعدّد شبہات کا اظہارکیا ہے‘ جن سے مجھے اندازہ ہوا کہ ابھی توضیح مقاصد میں بہت کچھ کمی رہ گئی ہے۔ ذیل میں چند اہم شبہات کو خود معترضین کے اپنے الفاظ میں نقل کرکے رفع کرنے کی کوشش کروں گا۔ اُمید ہے‘ کہ میرے جوابات سے بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی۔
ناقابلِ عمل
آپ نے سیاسی کام کرنے کے اکثر ان طریقوں کو غلط اور مسلمانوں کے لیے مضر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے‘ جن پر مسلمانوں کے مختلف گروہ آج کل عمل پیرا ہیں۔ لیکن نہایت طول طویل مباحث کے بعد اپنے مضمون ’’راہِ عمل‘‘ میں خود جو طریق کار مسلمانوں کے لیے تجویز کیا ہے‘ وہ بالکل ہی ناقابلِ عمل اور غیر ممکن الوقوع معلوم ہوتا ہے۔ بجائے خود مقاصد بہت ارفع و اعلیٰ ہیں‘ اور ہر مسلمان کو ان کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ ان مقاصد کے حصول کے لیے اندازاً کتنی مدت درکار ہو گی؟ اگر یہ مقصد ایسے ہیں‘ کہ ان کے حاصل کرنے میں صدیاں لگ جائیں گی‘ تو کیا آپ سمجھتے ہیں‘ کہ ہندستان کی سیاسی جنگ اس وقت تک ملتوی رہے گی جب تک مسلمان ان مقاصد کے حصول میں کامیاب نہ ہو جائیں؟
جواب
فاضل معترض ایک طرف یہ تسلیم فرماتے ہیں‘ کہ مسلمانوں کی قومی طاقت کو مضبوط کرنے کے لیے جن تدابیر کو میں ضروری اور ناگزیر قرار دیتا ہوں وہ بہت ’’ارفع و اعلیٰ‘‘ ہیںا ور ہر مسلمان کو ان کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔ دوسری طرف وہ خود اپنے اس مسلمہ کو محض اس بنیاد پر ردّکر دیتے ہیں‘ کہ یہ ’تدابیر بالکل ہی ناقابلِ عمل، اور غیر ممکن الوقوع معلوم ہوتی ہیں۔ اور ان کے حصول کے لیے صدیاں بھی کم ہیں‘‘۔ اس سے مجھے شبہ ہوتا ہے‘ کہ غالباً انہوں نے نہ تو ان وجوہ کی اہمیت پر کافی غور فرمایا ہے‘ جن کی بنا پر میں ان تدابیر کو ناگزیر قرار دے رہا ہوں، اور نہ اس سوال پر زیادہ فکر صرف کی ہے‘ کہ ان تدابیر کو روبکار لانے اور جلد از جلد نتیجہ خیز بنانیکی عملی صورتیں کیا ہیں۔ اگر یہ بات نہ ہوتی‘ تو غالبا وہ نہ تو اس طرح سرسری طو رپر میری رائے سے اتفاق فرماتے اور نہ اس طرح سرسری نظر میں اسے ناقابلِ عمل سمجھ کر ردّکر دیتے۔چونکہ بحث کا اصلی اور اہم ترین نکتہ یہی ہے اس لیے میں چاہتا ہوں کہ صرف معترض صاحب ہی نہیں‘ بلکہ تمام وہ لوگ جو ان کے ہم خیال ہیں، اس کے اصولی اور عملی پہلوؤں پر پوری قوّت فکر صرف کریں۔
اس بحث کو اصولی طریق پر طے کرنے کے لیے ضروری ہے‘ کہ آپ میرے خیالات کا تجزیہ کیجئے اور ایک ایک جزو کے متعلق واضح طور پر فیصلہ کیجئے‘ کہ آپ کو اس سے اتفاق ہے‘ یا نہیں۔
(۱) میری نگاہ میں ہندستان کے مسلمانوں کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت اور دوسری ہندستانی ہونے کی حیثیت۔ ان میں سے پہلی حیثیت دوسری حیثیت پر مقدّم ہے، اس معنی میں اگر بالفرض ان دونوں حیثیتوں میں مصالحت ممکن نہ ہو،ا ور ہمارے سامنے یہ سوال پیش ہو جائے‘ کہ ہم کس حیثیت کو دوسری حیثیت پر قربان کرنے کے لیے تیار ہوں گے، تو ہمارے ایمان کا تقاضا یہ ہے‘ کہ ہم اپنی مسلمان ہونے کی حیثیت کو برقرار رکھیں اور ہندوستانی ہونے کی حیثیت کو اس پر قربان کر دیں۔
یہ پہلا اور بنیادی مسئلہ ہے‘ جس کے فیصلے پر دو بالکل مختلف اور متضاد مسلکوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا انحصار ہے۔ جو شخص معنی مذکور الصدر میں دوسری حیثیت کو پہلی حیثیت پر مقدّم رکھتا ہے، اس کا راستہ میرے راستہ سے بالکل الگ ہے۔ اس لیے میں ایک ایسے مسئلہ میں جو صرف مسلمانوں سے تعلق رکھتا ہے اس کے ساتھ کوئی بحث کرنا نہیں چاہتا۔ میری بحث صرف ان لوگوں سے ہے‘ جو اس بنیادی امر میں مجھ سے متفق ہیں۔ (آگے چل کر میں لفظ مسلمان جہاں کہیں استعمال کروں گا، اس سے میری مراد اسی دوسرے گروہ سے ہو گی)
(۲) مسلم ہندستانیوں کی سیاسی پالیسی اصل الاصول میرے نزدیک یہ ہے‘ کہ ان کی مسلم ہونے کی حیثیت اور ہندستانی ہونے کی حیثیت میں کامل تو افق ہو۔ اس ملک کا سیاسی، معاشی اور تمدّنی ارتقاء کوئی ایسی راہ اختیار نہ کرنے پائے جس میں ہماری ان دونوں حیثیتوں کا ساتھ ساتھ نبھنا مشکل ہو جائے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس سے کسی مسلمان کو اختلاف ہو گا۔ تاہم اگر کسی کو اختلاف ہو تو وہ اپنے اختلاف کے وجوہ بیان کرے۔
(۳) مذکورہ بالا پالیسی کو مؤثر اور کامیاب بنانا صرف ہمارے عمل اور ہماری قوّت پر منحصر ہے۔ ہمارے غیر مسلم ہم وطن اور غیر مسلم حکمران اگر ہر قسم کے تعصب سے خالی ہوں‘ اور انتہا درجہ کی نیک نیتی کے ساتھ کام کریں، تب بھی وہ اس توازن و توافق کو قائم نہیںکر سکتے‘ جس کے قیام پر ہماری مذکورہ بالا دونوں حیثیتوں کے ساتھ ساتھ نبھنے کا انحصار ہے‘ اس لیے کہ وہ زندگی کا اسلامی نقطۂ نظر کہاں سے لائیں گے؟ اصولِ اسلام کا فہم انہیں کیسے نصیب ہو گا؟ تہذیب اسلامی کی اسپرٹ کو وہ کیونکر سمجھ سکیں گے؟ پس ہر قسم کے گروہی تعصبات سے قطع نظر کر لینے کے بعد بھی یہ ایک حقیقت ہے‘ کہ اسلامیت اور ہندستانیت کے جس توازن و توافق پر مسلم ہندستانی قوم کی زندگی کا مدا رہے‘ وہ اس قسم کی اپنی طاقت اور مؤثر طاقت کے بغیر نہ قائم ہو سکتا ہے، نہ قائم رہ سکتا ہے۔ کیا آپ اس کو تسلیم کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو وجوہ ارشاد ہوں۔ اگر تسلیم ہے‘ تو فرمائیے کہ آیا یہ حقیقت آپ کی نگاہ میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے، یا اسے آپ ایسی چیز سمجھتے ہیں‘ کہ حاصل ہو تو بہت خوب اورحاصل نہ ہو تو کچھ پرواہ نہیں، اس کے بغیر ہی آگے بڑھے چلو؟
(۴) جس طاقت سے اس پالیسی کو مؤثر اور کامیاب بنایا جا سکتا ہے، میرے نزدیک وہ مسلمانوں میں موجود نہیں ہے‘ بلکہ اس کے برعکس چند ایسی کمزوریاں جڑ پکڑ گئی ہیںجن کی وجہ سے وہ ہندستان کے سیاسی ارتقاء کی رفتار پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ تمام دوسرے کاموں سے پہلے ہمیں ان کمزوریوں کو دور کرنا چاہیے‘ اور اپنے اندر کم سے کم اتنی طاقت پیدا کر لینی چاہیے‘ کہ ہم اس ملک کے آئندہ نظامِ حکومت کی تشکیل میں مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنا اثر استعمال کر سکیں۔ اس کے بغیر جنگِ آزادی میں شریک ہونا یا نہ ہونا دونوں ہمارے لیے یکساں مہلک ہیں۔ آپ فرمائیں کہ اس بیان کے کس حصہ سے آپ کو اختلاف ہے؟ کیا آپ کا یہ خیال ہے‘ کہ مسلمانوں میں وہ کمزوریاں موجود نہیں ہیں‘ جنہیں میں نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے؟ یا آپ یہ سمجھتے ہیں‘ کہ ان کمزوریوں سے وہ نتائج بد پیدا نہیں ہو سکتے جن کا خطرہ میں نے ظاہر کیا ہے؟ یا آپ کی رائے یہ ہے‘ کہ ہمیں حب وطن یا حب نفس کی خاطر ان خطرات کو گوارا کر لینا چاہیے؟ ان میں سے کون سی شق آپ اختیار فرماتے ہیں؟
(۵) وہ طاقت جس کی ضرورت میں ثابت کر رہا ہوں میرے نزدیک اس تدابیر کے سوا کسی اور طریقہ سے حاصل نہیں ہو سکتی جنہیں اختصار کے ساتھ میں نے بیان کیا ہے۔ اگر آپ کو سرے سے اس کی ضرورت ہی تسلیم نہیں، تب تو میرے نزدیک تدابیر کی بحث لاحاصل ہے۔ البتہ اگر آپ کو اس کی ضرورت کا اتنا ہی شدید احساس ہے جتنا کہ مجھ کو ہے، تو آپ ایک مرتبہ پھر ان کا جائزہ لیجئے اور فرمائیے کہ ان کے سوا اور کون سی تدبیریں ہو سکتی ہیں‘ جو ہماری کمزوریوں کو دور کرکے ہم کو مسلم ہونے کی حیثیت سے ایک طاقت ور جماعت بنانے والی ہوں۔ اس نقطۂ نظر سے جب آپ غور فرمائیں گے‘ تو آپ کو محسوس ہو جائے گا کہ یہ محض چند خوش آئند تجویزیں نہیں ہیں‘ جن کی قدر افزائی کے لیے صرف اتنی سفارش کافی ہو‘ کہ ’’ہر مسلمان کو ان کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے‘‘، بلکہ درحقیقت مسلمانوں کی قومی زندگی کا تحفظ انہی تدابیر پر منحصر ہے‘ اور اب اگر ہم خود کشی نہیں کرنا چاہتے تو ہمیں بہرحال انہی کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
یہ تو تھی اصولی بحث۔ اب میں عملی پہلو کی طرف توجہ کرتا ہوں۔ فاضل معترض نے غالباً یہ سمجھا ہے‘ کہ میں بالکل ایک آئیڈیل حالت کی طرف مسلمانوں کو لے جانا چاہتا ہوں‘ اور میرے نزدیک علم و عمل، اتحاد و اتفاق اور نظم اجتماعی کے آخری و انتہائی مرتبہ کا حصول سیاسی جنگ میں حصہ لینے سے پہلے ناگزیر ہے، اسی بنا پر انہوں نے یہ اندازہ لگایا کہ یہ کام تو شاید صدیوں میں بھی پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکے گا۔ اگرچہ ایسی ایک آئیڈیل حالت بھی اس سے پہلے ایک صدی کے چوتھائی حصہ میں ہندوستان کے موجودہ حالات سے بدرجہا زیادہ خراب، عرب جاہلیت کے حالات میں پیدا کی جا چکی ہے۔ لہٰذا اس کو ناممکن الوقوع کہنا درست نہیں۔ لیکن اگر اس کو ناممکن الوقوع تسلیم بھی کر لیا جائے‘ تو میں کہتا ہوں کہ جو کم سے کم طاقت اس وقت ہمیں درکار ہے اس کے لیے صدر اوّل کے سے مسلمانوں کی سی انتہائی دین داری اور اجتماعی تنظیم تک پہنچ جانا ضروری نہیں ہے صرف اس قدر کافی ہو سکتا ہے‘ کہ مسلمانوں میں اسلام کے اصولوں پر ایک ایسی رائے عام تیار کر دی جائے‘ جو غیر مسلم تہذیب کے اثرات کو اپنی جماعت میں پھیلنے سے روک سکتی ہو۔ جس کے سامنے ایک قومی نصب العین واضح طور پر موجود ہو‘ جو اپنے نصب العین کے لیے اجتماعی جدوجہد کر سکتی ہو۔ جس میں اتنا شعور ہو‘ کہ گمراہ کرنے والے رہبروں کو پہچانے اور ان کا اتبّاع کرنے سے انکار کر دے اور جس میں اتنی طاقت ہو‘ کہ منافقت اور غداری اس کے دائرے میں پھل پھول نہ سکے۔ یہ کام نہ غیر ممکن ہے، نہ صدیوں کی مدت چاہتا ہے۔ اگر مسلمان یہ سمجھ لیں کہ اس کے بغیر ہندستان میں ان کا بحیثیت ایک مسلم قوم کے زندہ رہنا مشکل ہے، اور اگر ان کے نوجوانوں میں سے ایک جماعت سچے جذبے کے ساتھ اس کام کے لیے جانفشانی اور پیہم عمل پر آمادہ ہو جائے‘ تو ایک قلیل مدت ہی میں ایک ایسی رائے عام تیار کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے‘ جب کہ ہم سہولت پسندی چھوڑ دیں۔ صحیح طریق کار کی دشواریاں دیکھ کر ہمت ہار دینا اور دوسروں کے ہموار کیے ہوئے راستوں کو آسان دیکھ کر ان کی طرف دوڑ جانا، ایک ایسی ذہنیت کا نتیجہ ہے‘ جس کے ساتھ دنیا کی کوئی قوم بھی اپنی زندگی کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔ اگر خدانخواستہ یہی ذہنیت ہماری قوم پر غالب ہو گئی ہے‘ ہم اس درجہ تنزل کو پہنچ چکے ہیں‘ کہ اپنے قومی نصب العین کے لیے کوئی اجتماعی جدوجہد کرنا ہمیں غیر ممکن نظر آتا ہے، تب تو ہمیں خود اپنی قبر پر فاتحہ پڑھ لینی چاہیے۔
جنگِ آزادی اور مسلمان
آزادی کی جنگ کا شروع کرنا یا نہ کرنا ہم مسلمانوں پر منحصر نہیں ہے‘ کہ ہم جب چاہیں تب ہی جنگ شروع ہو، اور جب تک ہم نہ چاہیں وہ رکی رہے۔ سیاسی جنگ یا آزادی کی جنگ تو عرصہ ہوا کہ شروع ہو چکی اور برادرانِ وطن بہت سے معرکے سر بھی کر چکے اور نئے معرکے سر کرنے کی دھن میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسی حالت میں ہم مسلمان یہ کیسے کہہ سکتے ہیں، اور کس منہ سے کہہ سکتے ہیں‘ کہ ’’بھائیو! ذرا ٹھہر جاؤ ہمیں بھی تیار ہو لینے دو پھر جنگ شروع کرنا‘‘۔ ہماری ایسی آواز کو کون سن سکتا ہے، اور اس پر ایک لمحہ کے لیے بھی کان دھر سکتا ہے؟
جواب
یہ بات میں نے کبھی نہیں کہی کہ ہندستان کی سیاسی جنگ اس وقت تک کے لیے ملتوی ہو جائے گی یا ہو جانی چاہیے جب تک مسلمان ان مقاصد کے حصول میں کامیاب نہ ہو لیں۔ پچھلے واقعات اور موجودہ حالات پر نظر کرتے ہوئے اس بات کا تو خیال بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ہندوستان کے سیاسی ارتقاء کی رفتار ہمارے شریک نہ ہونے سے رک جائے گی۔ میں نے جو کچھ کہا ہے وہ صرف اس قدر ہے‘ کہ منتشر اور مختلف الخیال افراد کی شکل میں مسلمانوںکا شریک جنگ ہونا فائدہ سے زیادہ نقصان کے امکانات رکھتا ہے‘ اور یہ نقصان اس نقصان سے بہت زیادہ ہے‘ جو کچھ مدت تک اس جنگ سے علیحدہ رہنے کی صورت میں پہنچے گا، لہٰذا مسلمانوں کو اپنی تمام تر توجہ اس طرف صرف کرنی چاہیے‘ کہ کم سے کم مدت میں اپنے اندر وہ طاقت پیدا کر لیں جو شریک جنگ ہونے کے لیے ضروری ہے۔ اس دوران میں اگر دوسرے ان سے معترض نہ ہوں تو انہیں بھی دوسروں سے معترض نہ ہونا چاہیے۔
ہر شخص جسے خدا نے تھوڑی سی عقل بھی دی ہے، خود سمجھ سکتا ہے‘ کہ جہاں ایک طرف اکثریت ہو‘ اور متحد و منظم ہو،ا ور دوسری طرف اقلیت ہو‘ اور متفرق اور پراگندہ ہو، تو ان دونوں کے ساتھ کا انجام کیا ہو گا؟ ہمارا حال اس وقت یہ ہے‘ کہ ہمارے درمیان کوئی چیز بھی متفق علیہ نہیں ہے۔ ایک گروہ کا نصب العین کچھ ہے‘ اور دوسرے کا کچھ اور … ایک گروہ جن امور کو قومی مفاد سے متعلق سمجھتا ہے،دوسرا گروہ کہتا ہے‘ کہ ان کو قومی مفاد سے کوئی تعلق نہیں‘ اور تیسرا گروہ ’’قومی مفاد‘‘ کا نام ہی سن کر ’’فرقہ پرستی‘‘، ’’ٹوڈیت‘‘ اور ’’رجعت پسندی‘‘ کے آوازے کسنے شروع کر دیتا ہے۔ ایک جماعت کسی مسئلے پر اسلامی حقوق کی حفاظت کے لیے جدوجہد کرتی ہے‘ اور دوسری جماعت غیر مسلموں کی فوج میں شامل ہو کر سب سے اگلی صفوں میں اس کا مقابلہ کرتی نظر آتی ہے۔ حد یہ ہے‘ کہ ایک جماعت کو نسلوں کے اجلاس یا کانگریس کے اجتماع سے نماز کے لیے اٹھتی ہے، اور اس سے دس گنی جماعت بیٹھی رہتی ہے،ا ور بیٹھنے ہی پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ اس کے بعض افراد غیر مسلموں سے تقرب حاصل کرنے کے لیے‘ علانیہ نماز پڑھنے والوں کی مذہبی دیوانگی پر طنز کرتے ہیں۔ غور کیجئے‘ کہ اس سے بڑھ کر اور کون سی چیز ہماری قوم کی اجتماعی طاقت کو نقصان پہنچانے والی، ہماری ہوا اکھاڑ دینے والی، اور ہندوستان کی سیاسی میزان میں ہم کو سبک کر دینے والی ہو سکتی ہے؟ اس بیماری کو ساتھ لیے ہوئے آپ جدھر جائیں گے آپ کا کوئی وزن نہ ہو گا‘ اور آپ کسی ایسی چیز کی حفاظت نہ کر سکیں گے، جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے آپ کو عزیز ہو۔
مگر اس کا یہ مفہوم لینا درست نہیں کہ ہم جو سیاسی جنگ میں کانگریس کے ساتھ شرکت کرنے سے انکار کر رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے‘ کہ ہم تعطل چاہتے ہیں۔ درحقیقت معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اپنی قوم کی منتشر طاقتوں کو جمع کرنا خود ایک جنگ ہے۔ یہ جنگ اگر ہم شروع کر دیں تو اس کے دوران میں ایک طرف ہمارے زنگ خوردہ ہتھیاروں پر صیقل بھی ہو گا‘ اور دوسری طرف ہماری منتشر طاقت جتنی جتنی مجتمع ہوتی جائے گی، ملک کی سیاسی میزان میں ہمارا وزن بھی اتنا ہی بڑھتا چلا جائے گا۔ بخلاف اس کے اگر ہم نے یہ دیکھ کر فلاں جماعت نے اتنے معرکے سر کر لیے ہیں، اور فلاں گروہ اتنا طاقت ور ہو چکا ہے، مرعوبانہ ذہنیت کے ساتھ کوئی طریق کار اختیار کیا، تو یہ مسلمانوں کی زندگی کا ثبوت نہ ہو گا بلکہ ان کی شکست خوردہ ذہنیت کا ہو گا۔
سیاسی جنگ اور جدید طبقہ
آپ نے اس مضمون ’’آنے والا انقلاب اور مسلمان‘‘ میں جدید تعلیم و تہذیب سے متاثر ہونے و الے مسلمانوں پر بہت سخت تنقید کی ہے‘ اور غالباً آپ کا مقصد یہ ہے‘ کہ یہ لوگ مسلمانوں کی طرف سے سیاسی جنگ میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہیں۔ میرے نزدیک یہ وقت ایسا نہیں ہے‘ کہ ہم اپنے میں سے کسی گروہ کو اس سیاسی جنگ سے خارج کرنے کی کوشش کریں، نہ اس کا موقع ہے‘ کہ پرانے تعلیم یافتہ لوگ نئے تعلیم یافتہ طبقہ کو اس سیاسی جنگ سے یہ کہہ کر خارج کر دیں‘ کہ تم اس کے اہل نہیں ہو، اور نہ اس کا موقع ہے‘ کہ جدید تعلیم یافتہ لوگ پرانے تعلیم یافتہ بزرگوں کو اس مدافعانہ جنگ سے خارج کرنے کی کوشش کریں۔ بلکہ ضرورت صرف اس امر کی ہے‘ کہ اس وقت سب مسلمان متفق، متحد، یک دل اور یک زبان ہو کر اس مدافعانہ جنگ میں حصہ لیں‘ اوركَاَنَّہُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌo { FR 2912 } کا مصداق بن کر دنیا پر ثابت کر دیں‘ کہ مسلمان ابھی زندہ ہیں‘ اور زندہ رہیں گے‘ اور دنیا کی کوئی طاقت، کوئی قوت، کوئی تدبیر اس نور الٰہی کو بجھا نہیں سکتی جس کے مسلمان حامل ہیں۔
جواب
یہ ارشاد بالکل بجا ہے‘ کہ اس وقت مسلمانوں کو بنیانِ مرصوص بننے کی ضرورت ہے‘ لیکن معترض کو میرے کن الفاظ سے یہ غلط فہمی ہوئی کہ میں مسلمانوں کو بنیانِ مرصوص دیکھنا نہیں چاہتا بلکہ ان کے درمیان پارٹیوں کا اختلاف پیدا کرنا چاہتا ہوں؟ حقیقت یہ ہے‘ کہ کسی قوم کو ایک ٹھوس جماعت صرف اسی طرح بنایا جا سکتا ہے‘ کہ اس کے افراد یک نصب العین پر متفق ہوں‘ اور جسم واحد بن کر اس کے لیے ایک طریق کار اختیار کریں۔ اس غرض کے لیے ہم کو نصب العین اور طریق کار دونوں کی توضیح کرنی پڑے گی‘ اور جس طرح ہمارا یہ فرض ہو گا کہ قوم کے ان تمام افراد کو اپنے ساتھ ملا لیں جو اس نصب العین اور اس طریق کار سے متفق ہوں،ا سی طرح ہمارے لیے یہ بھی ناگزیر ہو گا کہ ان افرادکے ساتھ غلظت و شدّت برتیں جو اپنی خود سری یا منافقت کی بنا پر جماعت کا ساتھ دینے سے انکار کریں، عام اس سے کہ وہ نئے تعلیم یافتہ ہوں یا پرانے تعلیم یافتہ … یہ بالکل بد یہی بات ہے‘ کہ مختلف مقاصد کے تحت مختلف متضاد راستوں کی طرف جانے و الے افراد کو کسی طرح ایک بنیان مرصوص نہیں بنایا جا سکتا۔
ہندو اور مسلمان
آپ نے بلا ضرورت جو ضمنی بخشیں چھیڑی ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہے‘ کہ آپ کے نزدیک گزشتہ ستر سال میں مغربی تعلیم سے مسلمانوں کو نقصان ہی نقصان پہنچا ہے‘ اور مختصر یہ کہ وہ مسلمان نہیں رہے۔ یہ تسلیم ہے‘ کہ ہم میں کچھ نہ کچھ خرابیاں بھی پیدا ہوئیں، مگر یہ تسلیم نہیں ہے‘ کہ ہماری موجودہ حالت اب سے ڈیڑھ صدی پہلے کی حالت سے زبوں تر ہے‘ اور ہماری اخلاقی خرابیاں اور کمزوریاں پہلے سے زیادہ ہو گئی ہیں۔ اگر کسی قوم کا سیاسی زوال اور محکومیت اس میں اخلاقی خرابیاں پیدا کرنے کو مستلزم ہے‘ تو ہندوؤں کو تو محکومیت کی حالت میں رہتے ہوئے ایک ہزار برس ہو گئے مگر ہم دیکھ رہے ہیں‘ کہ ان کی موجودہ اخلاقی، تعلیمی اور اقتصادی حالت بمقابلہ ہزار برس پہلے کے بہت بہتر ہے۔
جواب
مسلمانوں کی حالت کو ہندوؤں پر قیاس کرنا میرے نزدیک قیاس مع الفارق ہے۔ ہندو قوم میں وحدت ملی کا کوئی تصوّر نہ تھا۔ اس کا سوشل سسٹم ان کو متفرق کرنے و الا تھا نہ کہ مجتمع۔ ان کے اندر ایسی رسمیں رائج تھیں جو گھن کی طرح ان کی قوم کو کھائے جا رہی تھیں۔ وہ دنیا کی دوسری قوموں سے بالکل الگ تھلک ہندستان میں پڑے ہوئے تھے‘ اور اسی کو دنیا سمجھتے تھے۔ اس حالت میں جب وہ مسلمانوں کے اور پھر انگریزوں کے زیر حکومت آئے تو اگرچہ غلامی کے ناگزیر نتائج سے محفوظ نہ رہ سکے، لیکن بحیثیت مجموعی ان کو نقصان سے بہت زیادہ فوائد حاصل ہوئے۔ ان میں وحدت قومی کا ایک تصوّر پیدا ہو گیا، ان کو اپنے سوشل سسٹم کی بہت سی خرابیوں کا احساس ہوا جس کی بدولت متعدّد اصلاحی تحریکیں وجود میں آئیں، اور باہر سے علم و تہذیب کی جو روشنی ان تک پہنچی اس نے ان کے خیالات کی دنیا کو بہت کچھ بدل دیا۔ علاوہ بریں اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے‘ کہ ’’ہندویت‘‘ کی اساس کسی عقیدے اور کسی اجتماعی عمل اور کسی نظام تہذیب پر قائم نہیںہے بلکہ نسل اور مرزبوم کی وحدت پر مبنی ہے، اس لیے بیرونی اثرات سے ان کے قدیم عقائد اور طرز معاشرت سے افکار و اعمال میں خواہ کتنا ہی تغیّر ہو جائے ان کی ’’ہندویت‘‘ بہرحال برقرار رہتی ہے۔ اس پر مزید یہ کہ ان کے اپنے مذہب و تمدّن میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے‘ جو ایک ترقی پذیر قومیّت کو وجود میں لاسکے۔ لہٰذا مغرب کے عمرانی و سیاسی تصوّرات، ان کے لیے بجائے مضر ہونے کے درحقیقت مفید ہیں۔ کیونکہ یہی چیز ان کے اندر زندگی اور حرکت پیدا کر سکتی ہے، اور اسی سے ان میں قومیّت کا نشوونما ہو سکتا ہے۔
مسلمانوں کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ یہ قوم اپنی ایک وحدت اور نہایت طاقت ور وحدت رکھتی تھی، اس کا سوشل سسٹم غایت درجہ صحیح و سالم تھا، جاہلانہ رسوم سے یہ بالکل پاک تھی، اس میں ایک اعلیٰ درجہ کی حضارت موجود تھی، اور یہ سب کچھ اسے صرف ایک چیز کی بدولت حاصل ہوا تھا جس کا نام ’’اسلام‘‘ ہے۔ ہندستان میں دوسری قوموں کے ساتھ جب یہ قوم خلط ملط ہوئی، تو اس کی بلندی تو دوسروں کو پستی سے اٹھانے کی موجب ہوئی، مگر دوسروں کی پستی نے خود اس کو بلندی سے گرانا شروع کر دیا۔ اس نے دوسروں سے نسلی و وطنی عصبیت لی، نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی وحدت پارہ پارہ ہونے لگی۔ا س نے دوسروں سے جاہلیت کی رسوم لیں، نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی قومی طاقت کو گھن لگ گیا۔ اس نے اپنے سوشل سسٹم میں دوسروں کے طریقے داخل کر لیے، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ توازن اور اعتدال بگڑتا چلا گیا جو اس سسٹم کا طرئہ امتیاز تھا۔ اس نے دوسروں کے عقائد و افکار کو بغیر سوچے سمجھے قبول کرنا شروع کیا، نتیجہ یہ ہوا کہ یہ اپنے مذہب سے دور ہٹتی چلی گئی، حالانکہ مذہب ہی اس کی قومیّت اور اس کے اخلاق، تہذیب اور تمدّن کا قوام تھا۔ یہی چیز آخر کار اس قوم کے سیاسی زوال کی باعث ہوئی اور اس نے حکومت کے مقام سے گراکر اسے غلامی کی لعنت میں مبتلا کر دیا۔ غلامی کے دور میں جو مزید خرابیاں اس قوم میں پیدا ہوئیں، ان کو میں تفصیل کے ساتھ بیان کر چکا ہوں، اگر آپ انصاف کی نظر سے دیکھیں گے‘ تو آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا، کہ مغربی استیلا سے مسلمانوں پر جو اثرات مرتب ہوئے وہ ان اثرات کے بالکل برعکس ہیں‘ جو ہندوؤں پر مرتب ہوئے ہیں۔ ہندوؤں کو اس نے پستی سے اٹھایا اور مسلمانوں کو اور زیادہ پستی میں گرا دیا۔ اس نے ہمارے اخلاق، عقائد، تہذیب و تمدّن اور نظامِ معیشت و معاشرت کو جو نقصان پہنچایا ہے وہ ان جزوی فوائد کے مقابلہ میں بدرجہا زیادہ ہے‘ جو مغربی تعلیم و تہذیب سے ہمیں حاصل ہوئے ہیں۔
مسلمانوں پر مغربی تہذیب اور مغربی تعلیم کے اثرات کا ذکر میرے مضامین میں محض ایک ضمنی بحث کی حیثیت سے نہیں آیا ہے‘ بلکہ میں قومی امراض کی تشخیص اور ان کی شدّت کا صحیح اندازہ کرنے کے لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ منجملہ دوسرے ا سباب زوال کے ان اثرات کا بھی پوری طرح جائزہ لیا جائے۔
مسلمانوں کی اصل ضرورت
نئی تعلیم اور پرانی تعلیم کی بحث دراصل دور ازکار ہے۔ نئے تعلیم یافتہ ہوں یا پرانے، وہ سب مل کر مسلمانوں کی کل آبادی کے مقابلہ میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ ہمارے سیاسی مستقبل کا دارو مدار زیادہ تر کاشت کاروں اور مزدوروں کے اس بے زبان طبقے پر ہے‘ جس نے نہ تو پرانی تعلیم حاصل کی ہے‘ اور نہ نئی۔ یہ لوگ مسلمانوں کی آبادی کا ۱۰/۹حصہ بلکہ ا س سے بھی زیادہ ہیں۔ اس لیے ہم سب کا خواہ پرانے تعلیم یافتہ ہوں یا نئے، یہ فرض ہے‘ کہ اس طبقہ کی اصلاح کریں، اس میں اپنے حقوق سمجھنے کا مادہ پیدا کریں، اور ان میں اس قسم کی استعداد پیدا کریں کہ وہ اپنے حق رائے دہندگی کو مسلمانوں کے مفاد کے لیے استعمال کر سکیں۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے‘ تو سمجھ لیجئے کہ ہم نے سیاسی جنگ جیت لی۔
جواب
درحقیقت یہی کام تو ہمارے پیشِ نظر ہے۔ ہم کو سب سے بڑا خطرہ یہ ہے‘ کہ ہمارے عوام جن کو اسلام کی تعلیمات سے کسی قسم کی واقفیت نہیں ہے، جو افلاس اور فاقہ کشی میں مبتلا ہیں، جن کو اسلامی تہذیب و تمدّن کی گرفت میں رکھنے کے لیے کوئی نظام موجود نہیں ہے، جن میں جاہلیت کی رسوم پھیلی ہوئی ہیں، اور جو اسلامی تہذیب و تمدّن کے اثر سے دور رہنے کی بدولت ہندوستان کی آبادی کے سوادِاعظم سے ہم رنگ ہو گئے ہیں، کہیں اشتراکیت اور نزاع طبقات کی اس تبلیغ کا شکار نہ ہو جائیں جو اس وقت ’’قوم پرست‘‘ جماعت کی طرف سے کی جا رہی ہے۔ ہمیںاندیشہ ہے‘ کہ ان مسلمانوں کے پست طبقات کو یہ تحریک اسلام کا علم اور شعور رکھنے والے طبقات سے جدا کر دے گی، معاشی کشمکش برپا کرکے ان کے درمیان عداوت ڈال دے گی، اور جب یہ طبقے اپنی قوم کے اہلِ دماغ گروہ کی رہنمائی سے محروم ہو جائیں گے، تو ان کی جہالت اور ان کے افلاس سے فائدہ اُٹھا کر انہیں اقتصادی مساوات کا سبز باغ دکھایا جائے گا، اور اس بہانے سے ان کو غیر مسلم عوام میں جذب کر لیا جائے گا۔ یہ اندیشہ اس وجہ سے اور زیادہ بڑھ گیا ہے‘ کہ اب تک ’’قوم پرست‘‘ تحریک کے مبلغین اور مسلم عوام کے درمیان جو دیوار حائل تھی، جس کی وجہ سے مسلم عوام ان کی تبلیغ کو سننے تک کے روا دار نہ تھے، اسے ہمارے علمائے کرام اپنی ناعاقبت اندیشی سے منہدم کر رہے ہیں۔ ان کے اس فعل کا نتیجہ یہ ہونا ہے‘ کہ مسلم عوام آہستہ آہستہ ان لوگوں کی باتیں کان دھر کے سننے لگیں گے، اور چونکہ یہ لوگ علانیہ تبدیلِ مذہب کی تلقین نہیں کرتے، بلکہ ان اشتراکی خیالات کی تبلیغ کرتے ہیںجو مفلس طبقوں کے دل و دماغ پر بڑی آسانی کے ساتھ چھا جاتے ہیں، اس لیے ہمارے عوام رفتہ رفتہ ان کے جال میں پھنستے چلے جائیں گے‘ اور آخر کار یہ چیز اُمت مسلمہ کو پارہ پارہ کر دینے، اور جمہور مسلمین کو غیر مسلم سوادِ اعظم میں مدغم کر دینے کی موجب ہو گی، علمائے کرام آج جس چیز کو سمجھانے سے بھی نہیں سمجھ رہے ہیں، کل وہ چیز حقیقت بن کر ان کے سامنے آئے گی‘ اور ایسی حالت میں آئے گی کہ اس کا علاج ان کی قدرت سے باہر ہو گا۔ اس وقت ان حضرات کی آنکھیں کھلیں گی‘ اور انہیں معلوم ہو گا کہ جو تیر انہوں نے اندھیرے میں چلایا تھا وہ انگریزی سامراج کے بجائے محمد رسول اللہﷺ کی اُمت کے سینے میں پیوست ہوا ہے۔
ان خطرات کا سد باب اگر کسی صورت سے ہو سکتا ہے‘ تو وہ صرف یہی ہے‘ کہ مسلمانوں میں ایک فعال جماعت ایسی اُٹھ کھڑی ہو‘ جو جمہور قوم میں جا کر ایک طرف تو ان کے اندر اسلام کی جوہری تعلیم پھیلائے، رسومِ جاہلیت کو مٹائے، ان کو اسلامی تہذیب و تمدّن کے اصولوں سے باخبر کرے، اور دوسری طرف ان کی روٹی کے مسئلہ کو اسلامی اصولوں کے مطابق حل کرے۔ ہم اشتراکی تحریک کی جو مخالفت کرتے ہیں اس کے معنی یہ نہیں ہیں‘ کہ ہم ظالمانہ سرمایہ داری اور ناجائز اغراض رکھنے والے طبقوں کے حامی ہیں۔ بلکہ دراصل اسلام کے متبع ہونے کی حیثیت سے ظالمانہ سرمایہ داری کو مٹانے اور مفلس طبقوں کی مصیبتوںکو حل کرنے کے لیے ہم خود اپنے اصول رکھتے ہیں‘ اور وہ اشتراکیت کے اصولوں سے بالکل مختلف ہیں۔ ہم اپنی قوم کے معاشی مسائل کو خود اپنے ہی اصولوں کے مطابق حل کرنا چاہتے ہیں‘ اور یہ گوارا نہیں کر سکتے کہ اشتراکیت کے علمبردار ہمارے جمہور پر قابض ہو کر اپنے طریقوں سے اُمت مسلمہ کو پارہ پارہ کر دیں۔ ہمارے سامنے اس وقت صرف معاشی اور سیاسی سوال ہی نہیں ہے‘ بلکہ اس سے بڑھ کر اپنی تہذیب کی حفاظت کا بھی سوال ہے، اس لیے ہم کو اپنے جمہور کی تنظیم کرنے میں اسلامی اصول اختیار کرنے چاہئیں۔ ہمارے لیے گاندھی اور جواہر لال کا اسوئہ قابلِ اتبّاع نہیں، بلکہ محمد رسول اللہ ﷺ کا اسوئہ ہے‘ جس کی پیروی ہم کو کرنی چاہیے۔ خدا پرستوں کی تنظیم کے جو اصول ساڑھے تیرہ سو برس پہلے استعمال کیے گئے تھے، وہ صرف اسی زمانہ کے لیے نہ تھے بلکہ تمام زمانوں اور علاقوں کے لیے تھے۔ ان کو عمل میں لانے کے طریقے اور وسائل زمانی و مکانی حالات کے لحاظ سے بدل سکتے ہیں۔ مگر وہ اصول بجائے خود اٹل ہیں۔ اور آپ جس ملک اور جس زمانہ میں بھی خدا پرست قوم کی تنظیم کرنا چاہیں گے آپ کو انہی اصولوں کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ باطل کا اقتدار جب پوری طرح چھایا ہوا ہوتا ہے اس وقت لوگوں کو شبہ ہونے لگتا ہے‘ کہ ان اصولوں پر عملدرآمد غیر ممکن الوقوع ہے‘ یا اگر ممکن بھی ہے‘ تو اس کے لیے صدیاں درکار ہیں۔ لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ غیر ممکن چیز ہر وقت ممکن ہو سکتی ہے، اور دیکھتے دیکھتے ہوا کا رخ بدل سکتی ہے، البتہ اس کے لیے ایک کڑی شرط یہ ہے‘ کہ اس مشین کو صرف وہی اخلاقی طاقت حرکت میں لاسکتی ہے‘ جو سیرتِ محمدیﷺ کے سر چشمہ سے ماخوذ ہو۔ جن لوگوں میں باطل سے مرعوب ہوجانے اور ہر بڑھتی ہوئی طاقت کے آگے سر جھکا دینے کی کمزوری موجود ہو، اور جو لوگ اتنی استقامت نہ رکھتے ہوں کہ سخت سے سخت طوفان میں بھی راہِ راست پر جمے رہ سکیں، ان کے ہاتھوں سے یہ مشین کبھی حرکت نہیں کر سکتی۔ مسلمانوں کے لیے تنظیم کے کسی نئے پروگرام کی ضرورت نہیں، پروگرام تو بنا بنایا موجود ہے۔ کمی صرف ایک ایسے رہنما اور چند ایسے کارکنوں کی ہے‘ جو اپنے مقصد میں اپنے نفس اور ہوائے نفس کو فنا کر سکتے ہوں، جن کے دل نام و نمود کی بھوک، ذاتی وجاہت کی پیاس، مال و زر کی حرص، اور نفاق و حسد کی آگ سے پاک ہوں، جن میں حق کو سر بلند کرنے کا ایسا ارادہ موجود ہو‘ جو کسی حالت میں ٹل نہ سکتا ہو‘ اور جن میں اتنی صلاحیّت ہو‘ کہ محمد رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے طریقہ پر نظم کے ساتھ کام کر سکیں۔
سلطنت در سلطنت
آپ اسلامی حقوق کی حفاظت کے لیے آئینی ضمانتوںکو بے فائدہ قرار دیتے ہیں۔ اس بنا پر کہ جب تک کہ ان ضمانتوں کی پشت پر کوئی (sanction) نہ ہو اکثریت ان کی پابندی کے لیے مجبور نہیں ہو سکتی۔ اس کے مقابلہ میں آپ چاہتے ہیں‘ کہ مسلمان سلطنت کے اندر ایک سلطنت بنانے کی کوشش کریں۔ مگر بعینہ وہی اعتراض آپ کی اس تجویز پر بھی تو ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کے پاس وہ کون سی طاقت ہو گی‘ جو اس ’’سلطنت در سلطنت‘‘ کے احکام کو اکثریت کی مرضی کے خلاف نافذ کر سکے گی؟ فرض کیجئے‘ کہ اکثریت یہ قانون نافذ کرتی ہے‘ کہ ہندوستان میں گائے کی قربانی یک قلم موقوف ہو جائے۔ مسلمانوں کی یہ ’’سلطنت در سلطنت‘‘ اس کو کیسے روک سکے گی؟ فرض کیجئے‘ کہ کوئی مسلمان مرتد ہو جائے۔ آپ اس کو رجم کی سزا کیسے دے سکیں گے؟ فرض کیجئے‘ کہ آپ حدِّ زنا جاری کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکر ممکن ہے‘ کہ آپ مرتکبینِ زنا کے ساتھ غیر مسلم زانیوں یا زانیات پر بھی حد جاری کر سکیں؟
جواب
’’سلطنت در سلطنت‘‘ ایک مبہم اصطلاح ہے، جس کا اطلاق ایک حکومت کے حدود اقتدار میںکسی دوسرے نظام کی قوّت و اثر کے مختلف مدارج پر ہوتا ہے۔ اس قوّت و اثر کے دائرے کا وسیع یا محدود ہونا دراصل منحصر ہے اس نظام کی مضبوطی اور اس کے حامیوںکی معنوی طاقت کے کم یا زیادہ ہونے پر۔ واقعات کی دنیا میںاقلیت و اکثریت کوئی اہم چیز نہیں ہے۔ اصل چیز نظم اور اجتماعی ارادہ کی طاقت ہے۔ اسی طاقت سے قلیل التعداد انگریز اپنے سے ہزار گنی اکثریت پر حکمران ہے۔ ایک جمہوری نظامِ حکومت میں بھی ’’اقتدار اکثریت (majority rule) کے قائدہ کو ایک منظم ا ور قومی الارادہ اقلیت بے اثر یا کم اثر بنا سکتی ہے۔ پس یہ سوال کہ وہ ’’سلطنت در سلطنت‘‘ جو میں تجویز کر رہا ہوں کن حدود تک وسیع ہو گی، اس حالت میں طے نہیں ہو سکتا جبکہ ہم سرے سے کوئی نظم اور کوئی اجتماعی ارادہ ہی نہیں رکھتے۔ پہلے ہم کو یہ طاقت فراہم کر نی چاہیے پھر ہم جتنی طاقت فراہم کر لیں گے،ا سی کی نسبت سے ’’سلطنت در سلطنت‘‘ کے حدود وسیع یا محدود ہوںگے۔
شبہ ِدارالاسلام
آپ کہتے ہیں‘ کہ اگر ہم دارالاسلام قائم نہیں کر سکتے تو کم از کم شبہ دارالاسلام ہی قائم کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ جو نظامِ حکومت اس وقت قائم ہے‘ یا جو آئندہ آئینی ضمانتوں کے تحت قائم ہو گا وہ بھی تو شبہ دارالاسلام ہو گا۔ کیونکہ ظاہر ہے‘ کہ موجودہ نظامِ حکومت دارالاسلام نہیںہے۔ اور دارالحرب بھی نہیں ہے، لہٰذا ان دونوں کے بین بین جو صورت بھی ہو گی، اس پر شبہ دارالاسلام ہی کا طلاق ہونا چاہیے۔
جواب
’’شبہ دارالاسلام‘‘ سے میری مراد ایک ایسا نظام سیاست ہے‘ جو خالص ’’دارالکفر‘‘بہ نسبت خالص ’’دارالاسلام‘‘ سے زیادہ اقرب ہو۔ ہندستان کی موجودہ حالت یہ نہیںہے، اس میں مسلمانوںکو بحیثیت ایک قوم کے کسی طرح کی بھی خود اختیار حاصل نہیں۔ جو برائے نام مذہبی اور تمدّنی آزادی ان کو دی گئی ہے وہ غیر مسلم حکمرانوں کی عطا کردہ چیز ہے‘ جس کے حدود کو کم یا زیادہ کرنا ان کے اپنے اختیار تمیزی پر موقوف ہے۔ ہمارے جن مذہبی احکام کو وہ اپنے اصول کے مطابق درست نہیں سمجھتے ان کے نفاذ کو روک دیتے ہیں‘ اور جو مذہبی احکام ان کی مصلحتوں کے خلاف ہیں ان کو بھی نافذ نہیں ہونے دیتے۔ اس کے بعد صرف وہ احکام رہ جاتے ہیں‘ جو ان کی نگاہ میں بے ضرر ہیں۔ ان کے نفاذ کی وہ ہمیں اجازت دے دیتے ہیں۔ لیکن اس آزادی کے دائرے میں بھی ہم ان کے اقتدار کے بلا واسطہ اثر سے محفوظ نہیں ہیں۔ انہوں نے تعلیم کا جو نظام قائم کیا ہے وہ ہمارے مذہب اور تہذیب کے اصولوں کا مخالف ہے‘ اور اس کے اثر سے ہماری نوجوان نسلوںکا ایک بڑا حصہ ان مذہبی احکام سے بھی روگردانی کرنے لگتا ہے‘ جن کی بجا آوری میں ہم آزاد چھوڑے گئے ہیں۔ انہوں نے جو نظامِ معیشت قائم کیا ہے اس کی گرفت میں ہم اس قدر بے بس ہو چکے ہیں‘ کہ ہمارے لیے اسلامی اصولِ معیشت کی پابندی قریب قریب محال ہو گئی ہے اگرچہ ظاہر میں کوئی قانون ایسا نہیں ہے‘ جو ہم کو اپنے اصولوں کی پابندی سے روکتا ہو۔ اسی طرح ان کا نظامِ عدل و قانون اور ان کا آئین حکومت ایسا ہے‘ جو ہمارے اخلاق، معاشرت، تمدّن، ہر چیز پر بلا واسطہ اثر ڈالتا ہے، اور اس کے مقابلہ میں ہم اس درجہ بے اختیار ہیں‘ کہ اپنی حفاظت کے لیے کوئی کارگر تدبیر عمل میں نہیں لاسکتے۔ ان سب پر مزید یہ کہ غیر مسلم طاقت کا اقتدار مطلق فی نفسہٖ ایک زبردست اثر رکھتا ہے۔جو طاقت کم از کم ظاہر کے اعتبار سے رزق کے خزانوں کی مالک اور عزت و ذلت بخشنے کی مختار نظر آتی ہو،محکوم قوم اس سے تقرب حاصل کرنے کے لیے اپنی وہ بہت سی چیزیں بھی اس کے قدموں میں لاکر ڈال دیتی ہے‘ جنہیں وہ اس سے بجبر نہیںمانگتی۔ ایسی حالت جس ملک کی ہو وہ اگر خالص دارالکفر نہیں تو اس سے اقرب ضرور ہے۔ا س لیے اسے شبہ دارالکفر کہنا چاہیے نہ کہ شبہ دارالاسلام۔
میں جس چیز کی طرف مسلمانوں کے سیاسی فکر رکھنے والے لوگوں کو توجہ دلا رہا ہوں وہ یہی ہے‘ کہ انہیں اس حالت کو بدلنے کے لیے اپنی قوتوں کو مجتمع کرنا چاہیے۔ اگر اس کو بدلنا ہے‘ تو اس کی تیاری کا یہی وقت ہے۔ انقلابی دور میں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف انتقال کا عمل جاری ہوتا ہے۔اس وقت ہم نسبتاً زیادہ آسانی کے ساتھ آنے والی حالت کی شکل معین کرنے میں اپنا اختیار استعمال کر سکتے ہیں۔ جب وہ ایک خاص صورت میں ڈھل جائے گی‘ اور پوری طرح مستحکم ہو جائے گی اس وقت ہمارے لیے اختیار استعمال کرنے کا شاید کوئی موقع باقی نہ رہے گا۔ گزشتہ صدی کے ابتدائی دور میںہم نے غفلت کی‘ اور اس شبہ دارالکفر کو نہ صرف قائم ہونے دیا، بلکہ اپنے ہاتھوں سے اس کے قائم ہونے میں مدد دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم بالکل بے بس ہو کر اس کی گرفت میں جکڑے گئے،ا ور آج ہر شخص دیکھ رہا ہے‘ کہ ہمارے لیے اس کی بندشوں میں سے کسی چھوٹی سے چھوٹی بندش کو توڑنا بھی کس قدر مشکل ہے۔ اسی سے سبق حاصل کرنا چاہیے‘ کہ اگر ہم نے ہندوستان کے سیاسی انقلاب کو موجود رفتار پر جانے دیا‘ اور کوئی ایسی منظم طاقت فراہم نہ کی جس سے ہم اس کی سمت متعین کر نے میں خود اپنا اختیار بھی استعمال کر سکیں، تو نتیجہ یہ ہو گا کہ اس شبہ دارالکفر کی جگہ ایک دوسرا شبہ دارالکفر لے لے گا، اور اس کے مستحکم ہو جانے کے بعد ہم اس کی گرفت میں بھی اتنے ہی بے بس ہوں گے جتنے اس وقت ہیں۔ یہ ایک ایسی کھلی ہوئی بات ہے‘ جس کو سمجھنے کے لیے کسی گہرے تفکر کی ضرورت نہیں۔ محض عقلِ عام (common sense) رکھنے والا ایک عامی بھی اس کو سمجھ سکتا ہے، مگر یہ نا مساعد حالات کی طاقت کا کرشمہ ہے‘ کہ ایسی واضح بات کو سمجھانے کے لیے بھی دلائل کی ضرورت پیش آرہی ہے‘ اور دلائل کے زور سے بھی اس کو دلوں میں اتارنا مشکل ہو رہا ہے۔ جو لوگ پہلے ہندستان اور پھر سب کچھ ہیں وہ اگر اسے ماننے سے انکار کریں تو جائے تعجب نہیں، اس لیے کہ ان کی نگاہ میں مسلمانوں کی قومی زندگی کا سوال کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا۔ ان کا ضمیر تو پہلے ہی فیصلہ کر چکا ہے‘ کہ شِبہ دارالکفر ہو یا خالص دارالکفر، ہمیں صرف آزاد ہندستان چاہیے جس میں ہمارے رزق کے خزانے خود ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہوں۔ لیکن جو لوگ پہلے مسلمان اور پھر سب کچھ ہیں‘ان پر مجھے سخت حیرت ہے‘ کہ وہ اس کو سمجھنے سے کیوں انکار کرتے ہیں۔
مصالحت کے امکانات
آئینی ضمانتوں پر تو بہرحال برطانوی حکومت اور ہندستان کی اکثریت کو راضی کیا جا سکتا ہے‘ اور یہ ایک قابلِ عمل چیز نظر آتی ہے، لیکن ’’سلطنت در سلطنت‘‘ کا تخیل تو ہے ہی ایسا جس پر نہ برطانوی حکومت راضی ہو سکتی ہے‘ اور نہ ہندستان کی اکثریت۔ یہ نام درمیان میں آجانے کے بعد تو مصالحت کا دروازہ ہی بند ہو جاتا ہے۔
جواب
اس سے پہلے میںجو کچھ بیان کر چکا ہوں اس کو غور سے پڑھنے کے بعد مجھے اُمید ہے‘ کہ معترض صاحب اپنی اس رائے پر نظر ثانی کریں گے۔ آئینی ضمانتیں اور ان پر اکثریت کی رضا مندی ایسی چیز نہیں ہے‘ جس کے بل پر کوئی قوم زندہ رہ سکتی ہو۔ اگر ان ضمانتوں کی پشت پر ہماری اپنی طاقت نہ ہو تو ان کا قائم رہنا یا نہ رہنا بہرحال اکثریت کی رضا مندی پر موقوف ہو گا، اور اس کے معنی یہ ہیں‘ کہ ہندستان کے آئندہ نظام سیاست میں اکثریت کے اقتدار کی وہی حیثیت ہو‘ جو اس وقت انگریزی اقتدار کی ہے، اس کے دست ِقدرت میں ہم ویسے ہی بے بس ہوں جیسے اب ہیں۔
اکثریت کے منظو ر کرنے یا نہ کرنے پر جس ’’سلطنت در سلطنت‘‘ کا مدار ہو وہ اس نام سے موسوم کیے جانے کے قابل ہی نہیں ہو سکتی۔یہ تو وہ چیز ہے‘ جس کو ایک جماعت کا طاقتور اجتماعی ارادہ قائم کرتا اور قائم رکھتا ہے، خواہ کوئی اس پر راضی ہو یا نہ ہو۔
ہندستان کی سیاسی ترقی
یہ سلطنت در سلطنت کاتخیل ہندستان کی سیاسی ترقی کے لیے بھی تو مفید نہیں ہے۔ اگر اسی طرح ہندستان کی ہر قوم سلطنت کے اندر ایک سلطنت بنانے کے لیے اُٹھ کھڑی ہو تو فی الواقع ہندستان میں کوئی سلطنت قائم ہی نہیںہو سکتی، بلکہ اس کی جگہ فرقہ وارانہ انارکی لے لے گی۔
جواب
میں نصب العین والے مضمون میںان کم سے کم حقوق اور اختیارات کی توضیح کر چکا ہوں‘ جو ہندستان میں مسلمانوں کی قومی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ ’’سلطنت در سلطنت‘‘ سے میری مراد مسلمانوں کا ایک ایسا اجتماعی نظام ہے‘ جو انہی حقوق اور اختیارات کو استعمال کرے اور جس میں اتنی طاقت ہو‘ کہ اگر کوئی ان حقوق اور اختیارات میں کمی کرنا چاہے بھی تو نہ کر سکے۔ آپ اس مضمون کو غور سے دیکھئے۔ اس میں جن حقوق اور اختیارات کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں کون سی چیز ایسی ہے‘ جو مشترک ہندستانی مفاد کے لیے ہم کو دوسری ہمسایہ اقوام کے ساتھ پورا پورا تعاون کرنے سے روکتی ہو؟
اگر ہندستان کی دوسری قومیں بھی اپنے مخصوص قومی مفاد کے لیے اس قسم کی خود اختیاری (autonomy) حاصل کر لیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں‘ اور ان سب کو ایسی خود اختیاری حاصل ہونے کے بعد بھی ہندوستان کا مشترک نظامِ حکومت بخوبی چل سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے‘ کہ جن حضرات نے صرف نظری سیاسیات (theoretical politics) کا مطالعہ کیا ہے وہ ’’سلطنت در سلطنت‘‘ کا نام سن کر کان کھڑے کرتے ہیں‘ اور سمجھتے ہیں‘ کہ یہ ایک ناقابلِ عمل چیز ہے، لیکن عملی سیاسیات میں وسیع یا محدود پیمانے پر ’‘’سلطنت در سلطنت‘‘ کا وجود قریب قریب ہر ترقی یافتہ ملک میں پایا جاتاہے‘ اور سیاسی انصاف کے لیے اس کا وجود ناگزیر ہے۔ جہاں سلطنت کا غلبہ اتنا بڑھ گیا ہے‘ کہ ملک کے تمام دوسرے طبقے ’’سلطنت در سلطنت‘‘ سے محروم ہو گئے ہیں۔ وہاں ظلم ا ور بے انصافی کا دور دورہ ہے۔ علاوہ بریں واقعات اس کا ثبوت دیتے ہیں‘ کہ ’’سلطنت در سلطنت‘‘ ناقابلِ عمل چیز نہیں ہے۔ ہندوستان کے آئندہ نظامِ حکومت کی ترقی میں یہ اگر حارج ہو سکتی ہے‘ تو صرف اس صورت میں جب کہ اس ملک کی مختلف قوموں کے اندرونی نظامات ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ طرزِعمل اختیار کریں، اور اپنی مرضی کو زبردستی دوسروں پر مسلط کرنا چاہیں۔ لیکن ہمیں اس نوعیت کی سلطنت در سلطنت مطلوب نہیں ہے‘ جو انار کی اورخانہ جنگی برپا کرنے والی ہو۔ خالص دارالاسلام سے کم جس چیز کو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے‘ کہ اولا ہمیں خود اپنے اصولوں کے مطابق اپنے گھر کی تنظیم و اصلاح کرنے کا اختیار و اقتدار حاصل ہو۔ ثانیاً ہندستان کی سیاسی زندگی میں ہم کو اتنا اثر حاصل ہو‘ کہ اس ملک کا سیاسی و تمدّنی ارتقاء ہمارے اصولِ تہذیب اور مصالح قومی کے خلاف راستہ اختیار نہ کرنے پائے۔ اور ثالثاً اگر یہ ارتقاء ایسا کوئی راستہ اختیار کر رہا ہو تو ہم اتنے بے بس نہ ہوں کہ اپنی اجتماعی طاقت سے اس کو روک نہ سکیں۔ یہی تین عناصر مل کر اس مفہوم کی تکمیل کرتے ہیں جسے میں ’’سلطنت در سلطنت‘‘ سے تعبیر کر رہا ہوں، اور یہ ایسی چیز ہے‘ کہ اگر مسلمانوں کے علاوہ ہندستان کی دوسری قوموں کو بھی یہ حاصل ہو، تو اس سے کوئی بد نظمی واقع نہیں ہو سکتی۔ اسلامی نقطۂ نظر کو چھوڑ کر اگر آپ محض عقل کی رو سے انصاف کا تقاضا معلوم کرنا چاہیں تو وہ صرف یہ ہے‘ کہ جب ہندستان تمام قوموں کا مشترک وطن ہے‘ اور اس کی خوش حالی و ترقی سب کے عمل اور سب کی محنتوں اور قابلیتوں کا نتیجہ ہے‘ تو یہاں کسی قوم کو بھی اتنا با اقتدار نہ ہونا چاہیے‘ کہ وہ اپنی مرضی کو دوسروں پر مسلط کر دے اور نہ کسی قوم کو اتنا بے بس ہونا چاہیے‘ کہ وہ اپنی ان چیزوں کی حفاظت بھی نہ کر سکے جنہیں وہ جان و مال سے زیادہ عزیز رکھتی ہو۔
خوف و ہراس
آپ کے انداز تحریر سے خوف و ہراس کی بُو آتی ہے۔ آپ ہندوؤں سے ڈرتے ہیں‘ کہ وہ مسلمانوںکو کھا جائیں گے۔ کیا یہ خوف محض اس وجہ سے ہے‘ کہ وہ کثیر التعداد ہیں‘ اور مسلمان ان کے مقابلہ میں قلیل التعداد ہیں؟ کیا قرآن آپ کو یہی سکھاتا ہے‘ کہ قوّت اور غلبہ کا مدار کثرت اور قلت پر ہے؟ کیا اس سے بڑھ کر بھی اور کوئی بزدلی ہو سکتی ہے‘ کہ مسلمان ان مشرکین سے ڈر جائیںجو ۳۳ کروڑ خداؤںکو پوجتے ہیں؟ مسلمان ایک موحّد قوم ہے، اس کے پاس قرآن جیسی کتاب ہے۔ اس کے اندر ایمان کی حرارت ہے کیونکر ممکن ہے‘ کہ کفار و مشرکین اس پر غالب ہو جائیں؟ مسلمانوں کو اپنی قوّت پر اعتماد ہونا چاہیے، اور اسی اعتماد پر آزادی کی جنگ میں شریک ہونا چاہیے۔ اگر ان میں عزم اور ہمت ہو تو کسی قوّت سے بھی انہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ ان پر دوسروں کا رنگ کیا چڑھے گا۔ ان کے پاس تو صبغۃ اللہ ہے‘ جو تمام رنگوں پر غالب آنے والا ہے۔
جواب
یہ اعتراض چند در چند غلط فہمیوںکا نتیجہ ہے، اور زیادہ تر ان لوگوں کی طرف سے پیش کیا گیا ہے‘ جنہیں سوچنے سے پہلے بول دینے کی عادت ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے‘ کہ ہمیں خوف ہندوؤں کی طاقت سے نہیں‘ بلکہ مسلمانوں کی کمزوریوں، اور ان کمزوریوں سے ہے‘ جنہیں قرآن نے قوموں کے اسبابِ زوال وفنا میں شمار کیا ہے۔ قرآن کسی جگہ بھی یہ نہیں کہتا کہ مسلمان صرف اس بنا پر دنیا میں غالب ہوں گے کہ ان کے نام عبد اللہ اور عبد الرحمان ہیں‘ اور کفار صرف اس بنا پر ان سے مغلوب ہو جائیں گے کہ وہ شیام سندر یا رابرٹسن جیسے ناموں سے موسوم ہیں‘ اگر ایسا ہوتا تو قرآن اس تیرہ سو برس کی تاریخ میں نعوذ باللہ ہزاروںمرتبہ جھوٹا ثابت ہو چکا ہوتا‘ اگر ایسا ہوتا تو خصوصیت کے ساتھ گزشتہ دو سو برس کی تاریخ کا ایک ایک لمحہ اس کے ’’جھوٹ‘‘ کا زندہ ثبوت ہوتا (معاذ اللہ)۔ یہ قرآن رکھنے والے موّحد مسلمان جن کا آپ ذکر فرما رہے ہیں، چین سے لے کر مراکش تک پھیلے ہوئے ہیں۔ کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ مگر کیا یہ چین کے بت پرستوں سے، روس کے ملحدوں سے، انگلستان، فرانس، ہالینڈ اوراٹلی کے تثلیث پرستوں سے مغلوب نہیں ہیں؟ یہی قرآن رکھنے والے موّحد مسلمان صقلیہ اور اندلس میں بھی تھے۔ مگر کیا یہ وہاں سے حرف غلط کی طرح مٹا نہیں دئیے گئے؟ یہی قرآن رکھنے والے موّحد فتنہ تا تار کے زمانہ میں بھی تھے۔ مگر کس چیز نے ان کی تہذیب اور ان کی عظیم الشان سیاسی طاقت کو مشرکینِ تاتار کے ہاتھوں تباہ ہونے سے بچا لیا؟ یہ دنیا حقائق کی دنیا ہے، خوابوں کی دنیا نہیں ہے۔ آپ کلمہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہِ پڑھ کرسمجھتے ہیں‘ کہ کوئی منتر آپ کو سکھا دیا گیا ہے‘ جسے پڑھتے ہی طلسّم کے پُتلے غیب سے پیدا ہوں گے‘ اور کفار کو تہ تیغ کر دیں گے۔ آپ قرآن اپنے گھر میں رکھ کر سمجھتے ہیںکہ کوئی تعویذ آپ کے پاس آیا ہوا ہے‘ جس کا بس گھر میں موجود ہونا ہی اسے تمام آفاتِ ارضی و سماوی سے محفوظ کر دے گا اور خدا اپنے قانون فطرت کو آپ کے لیے بدل ڈالے گا۔ وہ تمام اخلاقی عیوب اور وہ تمام قومی امراض اپنے اندر پالتے رہئے جو کفارو مشرکین اور منافقین کے خصائص میں سے ہیں۔ اور پھر یہ پندار بھی اپنے دماغ میںرکھیے کہ ہم وہی مومن ہیںجن سے اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ کا وعدہ کیا گیا تھا۔اور جب کوئی یاد دلائے کہ ان کمزوریوں کے ساتھ آپ کسی انقلاب کے طوفان میں زندہ نہیں رہ سکتے تو اس کو بزدلی کا طعنہ دیجئے۔ یہ اگر بہادری اور عقلمندی ہے‘ تو ایسی بہادری اور عقل مندی آپ ہی کو مبارک رہے۔ میں تو اسے خام خیالی اور طفل تسلّی سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک یہ زندگی کے نہیں تباہی کے لچھن ہیں۔ میں اس سپہ سالار کو احمق سمجھتا ہوں‘ جو اپنی فوج کے کمزور پہلوؤں سے آنکھیں بند کر لیتا ہے، جو شیلے الفاظ سے اس میں طاقت کا جھوٹا پندار پیدا کرتا ہے، اور اس خطابت کی شراب پلاتا ہے، تاکہ وہ مدہوش ہو کر تباہی کی خندقوں میں کود پڑے۔
بے شک کثرت و قلت پر غلبہ و قوّت کا مدار نہیںہے یقینا كَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِيْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً كَثِيْرَۃًۢ بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ { FR 2913 }
ایک حقیقت ہے۔ مگر کچھ سوچا بھی ہے‘ کہ وہ کون سی اقلیت ہے‘ جو اکثریت پر غالب آتی ہے؟ وہ اقلیت جس میںنظم ہو، جس میں اطاعت ِامر ہو، جس میں وحدت ہو، جس میں ایک نصب العین پر کامل اتفاق ہو، جس میں اپنے نصب العین کی خاطر اجتماعی جدوجہد کرنے اور جان و مال کی قربانیاں دینے کا جذبہ ہو، جس کے افراد میں سیرت کی مضبوطی اور اخلاق کی بلندی ہو، جس کے افراد اپنی تہذیب کے اصولوںپر سختی کے ساتھ عامل ہوں، اور جس میں منافقین کا وجود عنقاء ہو۔ ایسی اقلیت اگر آپ ہیں‘ تو ۲۲ کروڑ ہندو کیا چیز ہیں، تمام دنیا کے کفار مل کر بھی آپ کو مٹا نہیں سکتے۔ لیکن فی الواقع کیا آپ ایسی ہی اقلیت ہیں؟ ایسی اقلیت آپ تھے تو یہ تین لاکھ انگریز ۶ہزار میل کے فاصلے سے آکر آپ کے کروڑوں افراد کو غلام بنانے میں کیسے کامیاب ہو گئے۔ بچوںکی طرح خواب نہ دیکھئے۔ ہوش میں آکر اس دماغ سے بھی کچھ کام لیجئے۔ جو خدا نے آپ کو سوچنے اور سمجھنے ہی کے لیے دیا ہے۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیںکہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ پڑھ کر آپ نے خدا پر کوئی احسان کیا ہے‘ جس کے معاوضہ میںوہ آپ کے لیے تمام قوانین طبعی کو الٹ دے گا؟ آپ دیکھ رہے ہیںکہ اکثریت متحد ہو رہی ہے،ا س میں نظم پیدا ہو رہا ہے، وہ ایک مرکز کی اطاعت پر مجتمع ہو رہی ہے، وہ ایک نصب العین کی خدمت کے لیے قربانیوں پر آمادہ ہے، اس نے اپنے منافقین کا بڑی حد تک استیصال کر دیا ہے، وہ اپنے افراد میں سیرت کی مضبوطی پیدا کر رہی ہے۔اس کے مقابلہ میں آپ خود اپنا حال بھی دیکھ سکتے ہیں۔ آپ میں کوئی نظم نہیں، کوئی مرکزیت نہیں، کوئی متفق علیہ نصب العین نہیں، کوئی صاحب ِامر شخص یا جماعت نہیںجس کی آپ اطاعت کریں۔ آپ کی مختلف پارٹیاں ایک دوسرے کے مقابلہ میں صف آراء ہو رہی ہیں، کبھی جھانسی میں، کبھی بجنور میں، کبھی مراد آباد میں، خانہ جنگی کے لیے آپ کے اکھاڑے برپا ہوتے ہیں۔ خم ٹھونک ٹھونک کر بھائی کو بھائی چیلنج دیتا ہے،ا ور جب ایک بھائی دوسرے بھائی کو مار لیتا ہے،تو اغیار کے سامنے اپنی برادر کشی پہ سینہ تان تان کر فخر کا اظہار کرتاہے۔ آپ کے افراد کیرکٹر کی ایسی کمزوری کا اظہار کر رہے ہیں‘ جو ساری قوم کی ہوا اکھاڑے دیتی ہے۔ آج اس گروہ میں ہیں‘ تو کل دوسرے گروہ میں۔ آج یہ طاقت غالب ہے‘ تو اس کے ساتھ ہیں، کل دوسری طاقت اُبھرتی نظر آتی تو دفعتہً انہوں نے بھی اپنی وفاداریوں کا رخ بدل دیا۔ افراد تو درکنارآپ کی جمعیتوں تک کا یہ حال ہے‘ کہ ان میں کسی قسم کی استقامت رائے نہیں پائی جاتی۔ غیر مسلم خواہ کوئی طرزِعمل اختیار کریں، دو چار اسلامی جمعیتیں ان کی مخالف ہوں گی‘ تو دو چار ان کا ساتھ دینے کے لیے بھی کھڑی ہو جائیں گی، اور یہ حقیقت دنیا پر آشکارا کر دیں گی کہ مسلمانوں میں بہت آسانی سے تفرقہ ڈالا جا سکتا ہے، کیا یہی وہ قومی سیرت ہے‘ جس کو لے کر آپ کے لیے كَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِيْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً كَثِيْرَۃًۢ البقرہ249:2 کا معجزہ صادر ہو گا؟
قرآن اور سیرت رسول اللہ a کو دیکھئے۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ خدا کے قانون میں جانب داری کہیں نہیں ہے۔ جو اس قانون کے خلاف چلے گا، خواہ وہ مومن ہی کیوں نہ ہو، پیس ڈالا جائے گا، اور جو اس کی شرائط پوری کرے گا، خواہ وہ کافر و مشرک ہی کیوں نہ ہو، غالب اور فتح یاب ہو گا۔ صحابہ کرام کی جماعت سے بڑھ کر ایمان کی حرارت اور سیرت اسلامی کا استحکام رکھنے والی جماعت تو کوئی نہیں ہو سکتی۔ مگر ایسی کامل الایمان جماعت بھی مشرکین سے متعدّد مرتبہ شکست کھا گئی، اور وہ بھی کس حالت میں؟ جب کہ خود سرکار رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے درمیان موجود تھے‘ اور بنفس نفیس ان کی قیادت فرما رہے تھے۔ جنگ احد میں صرف اتنا ہی قصور تو ہوا تھا‘ کہ مومنین کے دلوں میں مال کی محبت آگئی اور انہوں نے اپنے سردار کے حکم کی خلاف ورزی کر ڈالی۔ نتیجہ کیا ہوا؟ پتھر کو پوجنے والے خدائے و احد کی عبادت کرنے والوں پر چیرہ دست ہو گئے‘ اور خود رسول اللہ a ان کے ہاتھوں زخمی ہوئے۔ حَتّٰٓي اِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْاَمْرِ وَعَصَيْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَآ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ۝۰ۭ ……وَلَا تَلْوٗنَ عَلٰٓي اَحَدٍ وَّالرَّسُوْلُ يَدْعُوْكُمْ فِيْٓ اُخْرٰىكُمْ فَاَثَابَكُمْ غَمًّۢا بِغَمٍّ { FR 2914 } جنگ حنین میں صرف اتنی ہی کوتاہی تو ہو گئی تھی‘ کہ مسلمانوںکو اپنی کثرت پر ناز ہو گیا تھا۔ قانون فطرت نے اس کی سزا یہ دی کہ مشرکین کے مقابلہ میں ان کے پاؤں اکھاڑ دئیے۔ وَّيَوْمَ حُنَيْنٍ۝۰ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُّدْبِرِيْنَo { FR 2915 } جو خدا ایسے بے لاگ قانون کے ساتھ اس کائنات پر حکومت کر رہا ہے اگر اس سے آپ یہ توقع رکھتے ہیںکہ اہلِ ایمان کی صفات سے عاری ہونے کے بعد بھی وہ آپ کی حمایت کرے گا اور ان مشرکین کے مقابلہ میں آپ کو ثابت قدمی بخشے گا جو اس کے قانون طبیعی کی شرائط آپ سے زیادہ بہتر طریقہ پر پوری کر رہے ہیں، تو میں آپ کی خدمت میں صرف اتنا ہی عرض کروں گاکہ آپ عقل سلیم اور علم قرآن دونوں سے محروم ہیں۔
خ خ خ

شیئر کریں