محمد رسول اللہ a کی بعثت سے پہلے دنیا میں مذہب کا عام تصوّر یہ تھا‘ کہ زندگی کے بہت سے شعبوں میں سے یہ بھی ایک شعبہ ہے، یا دوسرے الفاظ میں یہ انسان کی دنیوی زندگی کے ساتھ ایک ضمیمہ کی حیثیت رکھتاہے تاکہ بعدکی زندگی میں نجات کے لیے ایک سرٹیفکیٹ کے طورپر کام آئے۔ اس کا تعلق کلیۃً صرف اس رشتہ سے ہے‘ جو انسان اور اس کے معبود کے درمیان ہے۔ جس شخص کو نجات کے بلند مرتبے حاصل کرنے ہوں اس کے لیے تو ضروری ہے‘ کہ دنیوی زندگی کے تمام دوسرے شعبوں سے بے تعلق ہو کر صرف اسی ایک شعبہ کا ہو جائے مگر جس کو اتنے بڑے مراتب مطلوب نہ ہوں بلکہ نجات مطلوب ہو، اور اس کے ساتھ یہ خواہش بھی ہو‘ کہ معبود اُن پر نظر عنایت رکھے اور ان کو دنیوی معاملات میں برکات عطا کرتا رہے‘ اس کے لیے بس اتنا کافی ہے‘ کہ اپنی دنیوی زندگی کے ساتھ اس ضمیمہ کو بھی لگائے رکھے۔ دنیا کے سارے کام اپنے ڈھنگ پر چلتے رہیں‘ اوروہ ان کے ساتھ چند مذہبی رسموں کو ادا کرکے معبود کو بھی خوش کیا جاتا رہے۔ انسان کا تعلق خود اپنے نفس سے، اپنے ابنائے نوع، اپنے گردو پیش کی ساری دنیا سے ایک الگ چیز ہے، اور اس کا تعلق اپنے معبود سے ایک دوسری چیز، ان دونوں کے درمیان کوئی ربط نہیں۔
یہ جاہلیت کا تصوّر تھا‘ اور اس کی بنیا دپر کسی انسانی تہذیب و تمدّن کی عمارت قائم نہ ہو سکتی تھی۔ تہذیب و تمدّن کے معنی انسان کی پوری زندگی کے ہیں، اور جو چیز انسان کی زندگی کا محض ایک ضمیمہ ہو، اس پر پوری زندگی کی عمارت ظاہر ہے‘ کہ کسی طرح قائم نہیںہو سکتی۔ یہی وجہ ہے‘ کہ دنیا میں ہر جگہ مذہب اور تہذیب و تمدّن ہمیشہ ایک دوسرے سے الگ رہے۔ ان دونوں نے ایک دوسرے پر تھوڑا یا بہت اثر ضرور ڈالا، مگر یہ اثر اس قسم کا تھا جو مختلف اور متضاد چیزوں کے یکجا ہونے سے مترتب ہوتا ہے۔ اس لیے یہ اثر کہیں بھی مفید نظر نہیں آتا۔ مذہب نے تہذیب و تمدّن پر جب اثر ڈالا تو اس میں رہبانیت، مادّی علائق سے نفرت، لذاتِ دنیوی سے کراہت، عالم اسباب سے بے تعلقی، انسانی تعلقات میں انفرادیت، تنافر اور تعصب کے عناصر داخل کر دئیے۔ یہ اثر کسی معنی میں بھی ترقی پر ور نہ تھا۔ بلکہ دنیوی ترقی کی راہ میں انسان کے لیے ایک سنگ گراں تھا۔ دوسری طرف تہذیب و تمدّن نے جس کی بنیاد سرا سر مادیت اور خواہشات نفس کے اتبّاع پر قائم تھی، مذہب پر جب کبھی اثر ڈالا اس کو گندا کر دیا۔ اس نے مذہب میں نفس پرستی کی ساری نجاستیں داخل کر دیں، اور اس سے ہمیشہ یہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کی کہ ہر اس گندی‘ اور بد سے بد تر چیز کو جسے نفس حاصل کرنا چاہے، مذہبی تقدس کا جامہ پہنا دیا جائے، تاکہ نہ خود اپنا ضمیر ملامت کرے نہ کوئی دوسرا اس کے خلاف کچھ کہہ سکے۔ اسی چیز کا اثر ہے‘ کہ بعض مذاہب کی عبادتوں تک میں ہم کو لذت پرستی اور بے حیائی کے ایسے طریقے ملتے ہیں‘ جن کو مذہبی دائرے کے باہر خود ان مذاہب کے پیرو بھی بد اخلاقی سے تعبیر کرنے پر مجبور ہیں۔
مذہب اور تہذیب کے اس تعامل سے قطع نظر کرکے دیکھا جائے‘ تو یہ حقیقت بالکل نمایاں نظر آتی ہے‘ کہ دنیا میں ہر جگہ تہذیب و تمدّن کی عمارت غیر مذہبی اور غیر اخلاقی دیواروں پر قائم ہوئی ہے۔
سچے مذہبی لوگ اپنی نجات کی فکر میں دنیا سے الگ رہے‘ اور دنیا کے معاملات کو دنیا والوں نے اپنی خواہشات نفس اور اپنے ناقص تجربات کی بنا پر جن کو ہر زمانہ میں کامل سمجھا گیا‘ اور ہر زمانہ ما بعد میں ناقص ہی ثابت ہوئے۔ جس طرح چاہا چلایا اور اس کے ساتھ اگر ضرورت سمجھی تو اپنے معبود کو خوش کرنے کے لیے کچھ مذہبی رسمیں بھی ادا کر لیں۔ مذہب چونکہ ان کے لیے محض زندگی کا ایک ضمیمہ تھا اس لیے اگر وہ ساتھ رہا بھی تو محض ایک ضمیمہ ہی کی حیثیت سے رہا۔ ہر قسم کے سیاسی ظلم و ستم، ہر قسم کی معاشی بے انصافیوں، ہر قسم کی معاشرتی بے اعتدالیوں اور ہر قسم کی تمدّنی کج راہیوں کے ساتھ یہ ضمیمہ منسلک ہو سکتا تھا۔اس نے ٹھگی اور قزاقی کا بھی ساتھ دیا، جہاں سوزی اور غارت گری کا بھی، سُود خواری اور قارونیت کا بھی، فحش کاری اور قحبہ گری کا بھی۔
مذہب کا اسلامی تصوّر
محمد a جس غرض کے لیے بھیجے گئے وہ اس کے سوا کچھ نہ تھی‘ کہ مذہب کے اس جاہلی تصوّر کو مٹا کر ایک عقلی و فکری تصوّر پیش کریں‘ اور صرف پیش ہی نہ کریں بلکہ اسی کی اساس پر تہذیب و تمدّن کا ایک مکمل نظام قائم کرکے اور کامیابی کے ساتھ چلا کر دکھا دیں۔آپؐ نے بتایا کہ مذہب قطعاً بے معنی ہے اگر وہ انسان کی زندگی کا محض ایک شعبہ یا ضمیمہ ہے۔ ایسی چیز کو دین و مذہب کے نام سے موسوم کرنا ہی غلط ہے۔ حقیقت میں دین وہ ہے‘ جو زندگی کا ایک جزو نہیں‘ بلکہ تمام زندگی ہو۔ زندگی کی روح اور اس کی قوّتِ محرکہ ہو، فہم و شعور اور فکر و نظر ہو، صحیح و غلط میں امتیاز کرنے والی کسوٹی ہو، زندگی کے ہر میدان میں ہر ہر قدم پر راہِ راست اور راہ کج کے درمیان فرق کرکے دکھائے، راہِ کج سے بچائے، راہِ راست پر استقامت اور پیش قدمی کی طاقت بخشے، اور زندگی کے اس لامتناہی سفر میں جو دنیا سے لے کر آخرت تک مسلسل چلا جا رہا ہے، انسان کو ہر مرحلے سے کامیابی و سعادت کے ساتھ گزار دے۔
اسی مذہب کا نام اسلام ہے۔ یہ زندگی کا ضمیمہ بننے کے لیے نہیں آیا ہے، بلکہ اس کے آنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے‘ اگر اس کو بھی پرانے جاہلی تصوّر کے ماتحت ایک ضمیمہ زندگی قرار دیا جائے۔ یہ جس قدر خدا اور انسان کے تعلق سے بحث کرتا ہے‘ اسی قدر انسان اور انسان کے تعلق سے بھی کرتا ہے، اور اسی قدر انسان اور ساری کائنات کے تعلق سے بھی۔ اس کے آنے کا اصل مقصد انسان کو اسی حقیقت سے آگاہ کرنا ہے‘ کہ تعلقات کے یہ شعبے الگ الگ اور ایک دوسرے سے مختلف و بیگانہ نہیں ہیں، بلکہ ایک مجموعہ کے مربوط اور مرتب اجزاء ہیں‘ اور ان کی صحیح ترکیب ہی پر انسان کی فلاح کا مدار ہے۔ انسان اور کائنات کا تعلق درست نہیں ہو سکتا جب تک کہ انسان اور کائنات کا تعلق درست نہ ہو۔ پس یہ دونوں تعلق ایک دوسرے کی تکمیل و تصحیح کرتے ہیں، دونوںمل کر ایک کامیاب زندگی بناتے ہیں، اور مذہب کا اصل کام اسی کامیاب زندگی کے لیے انسان کو ذہنی و عملی حیثیت سے تیار کرنا ہے۔ جو مذہب یہ کام نہیں کرتا وہ مذہب ہی نہیں ہے‘ اور جو اس کام کو انجام دیتا ہے وہی اسلام ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا ہے‘ کہ
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ آل عمران 3:19
اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔
اسلام ایک خاص طریقِ فکر (attitude of mind) اور پوری زندگی کے متعلق ایک خاص نقطۂ نظر (outlook on life) ہے۔ اور پھر وہ ایک خاص طرزِعمل ہے‘ جس کا راستہ اسی طریقِ فکر اور اسی نظریہ زندگی سے متعین ہوتا ہے۔ اس طریقِ فکر اور طرزِعمل سے جو ہیئت حاصل ہوتی ہے وہی مذہب اسلام ہے، وہی تہذیب اسلامی ہے، اور وہی تمدّن اسلامی ہے۔ یہاں مذہب اور تہذیب و تمدّن الگ الگ چیزیں نہیں ہیںبلکہ سب مل کر ایک مجموعہ بناتے ہیں۔ وہی ایک طریقِ فکر اور نظریہ حیات ہے‘ جو زندگی کے ہر مسئلہ کا تصفیہ کرتاہے انسان پر خدا کے کیا حقوق ہیں۔ خود اس کے اپنے نفس کے کیا حقوق ہیں۔ ماں باپ کے، بیوی بچوں کے، عزیزوں اور قرابت داروں کے،پڑوسیوں اور معاملہ داروں کے، ہم مذہبوں اور غیر مذہب والوں کے، دشمنوں اور دوستوں کے، ساری نوع انسانی کے، حتیٰ کہ کائنات کی ہر چیز اور قوّت کے کیا حقوق ہیں؟ وہ ان تمام حقوق کے درمیان کامل توازن اور عدل قائم کرتا ہے‘ اور ایک شخص کا مسلمان ہونا ہی اس امر کی کافی ضمانت ہے‘ کہ وہ ان تمام حقوق کو پورے انصاف کے ساتھ ادا کرے گا، بغیر اس کے کہ ظلم کی راہ سے ایک حق کو دوسرے حق پر قربان کرے۔
پھر یہی طریقِ فکر اور نظریہ حیات انسان کی زندگی کا ایک بلند اخلاقی نصب العین اور ایک پاکیزہ روحانی منتہائے نظر معین کرتاہے، اور زندگی کی تمام سعی و جہد کو، خواہ وہ کسی میدان میں ہو، ایسے راستوں پر ڈالنا چاہتا ہے‘ جو ہر طرف سے اسی ایک مرکز کی طرف راجع ہوں۔
یہ مرکز ایک فیصلہ کن چیز ہے۔اسی کے لحاظ سے ہر شے کی قدر (value) متعین کی جاتی ہے۔ اسی معیار پر ہر شے کو پرکھا جاتا ہے۔ جو شے اس مرکزی مقصد تک پہنچنے میں مدد گار ہوتی ہے اسے اختیار کر لیا جاتاہے، اور جو شے سدّ راہ ہوتی ہے اسے ردّکر دیا جاتا ہے۔ فرد کی زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے معاملات سے لے کر جماعت کی زندگی کے بڑے بڑے معاملات تک یہ معیار یکساں کار فرما ہے۔ وہ اس کا بھی فیصلہ کرتا ہے‘ کہ ایک شخص کو اکل و شرب میں، لباس میں، صنفی تعلقات میں، لین دین میں، بات چیت میں، غرض زندگی کے ہر معاملہ میں کن حدود کو ملحوظ رکھنا چاہیے، تاکہ وہ مرکز مقصود کی طرف جانے والی سیدھی راہ پر قائم رہے، اور ٹیڑھے راستوں پر نہ پڑ جائے۔ اس کا بھی فیصلہ کرتا ہے‘ کہ اجتماعی زندگی میں افراد کے باہمی روابط کن اصولوں پر مرتب کیے جائیں جن سے معاشرت، معیشت، سیاست، غرض ہر شعبہ زندگی کا ارتقاء ایسے راستوں پر ہو‘ جو اصل منزلِ مقصود کی طرف جانے والے ہوں، اور وہ راہیں نہ اختیار کرے جو اس سے دور ہٹانے والی ہوں۔ اس کا بھی فیصلہ کرتا ہے‘ کہ زمین و آسمان کی جن قوتوں پرانسان کو دسترس حاصل ہو‘ اور جو چیزیں اس کے لیے مسخر کی جائیں ان کو وہ کن طریقوں سے استعمال کرے، تاکہ وہ اس کے مقصد کی خادم بن جائیں، اور کن طریقوں سے اجتناب کرے تاکہ وہ اس کی کامیابی میں مانع نہ ہوں۔ اس کا بھی فیصلہ کرتا ہے‘ کہ اسلامی جماعت کے لوگوں کو غیر اسلامی جماعتوں کے ساتھ دوستی میں اور دشمنی میں، جنگ میں اور صلح میں، اشتراک اغراض میں اور اختلاف مقاصد میں، غلبہ کی حالت میں اور مغلوبی کے دور میں، علوم و فنون کے اکتساب میں اور تہذیب و تمدّن کے لین دین میںکن اصولوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے، تاکہ خارجی تعلقات کے ان مختلف پہلوؤں میں وہ اپنے مقصد کی راہ سے ہٹنے نہ پائیں بلکہ جہاں تک ممکن ہو۔ بنی نوع انسان کے ان نادان اور گمراہ افراد سے بھی طوعاً یا کرہاً، شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر اس مقصد کی خدمت لے لیں جو اصل فطرت کے اعتبار سے ان کا بھی ویسا ہی مقصد ہے جیسا کہ پیروانِ اسلام کا ہے۔
غرض وہ ایک ہی نقطۂ نظر ہے‘ جو مسجد سے لے کر بازار اور میدان کارزار تک، طریق عبادت سے لے کر ریڈیو اور ہوائی جہاز کے طریق استعمال تک، غسل و وضو اور طہارت و استنجا ء کے جزوی مسائل سے لے کر اجتماعیات، معاشیات، سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے بڑے سے بڑے مسائل تک، مکتب کی ابتدائی تعلیم سے لے کر آثارِ فطرت کے انتہائی مشاہدات اور قوانین طبعی کی بلند ترین تحقیقات تک، زندگی کی تمام مساعی اور فکر و عمل کے تمام شعبوں کو ایک ایسی وحدت بناتا ہے‘ جس کے اجزاء میں ایک مقصدی ترتیب اور ایک ارادی ربط پایا جاتاہے، اوران سب کو ایک مشین کے پرزوں کی طرح جوڑتا ہے‘ کہ ان کی حرکت اور تعامل سے ایک ہی نتیجہ برآمد ہو۔
مذہب کی دنیا میں یہ ایک انقلابی تصوّر تھا، اور جاہلیت کے خمیر سے بنے ہوئے دماغوں کی گرفت میں یہ تصوّر کبھی پوری طرح نہ آسکا۔ آج دنیا علم و عقل کے اعتبار سے چھٹی صدی عیسوی کے مقابلہ میں کس قدر آگے بڑھ چکی ہے، مگر آج بھی اتنی قدامت پرستی اور تاریک خیالی موجود ہے‘ کہ یورپ کی شہرہ آفاق یونی ورسٹیوں میں اعلیٰ درجہ کی تعلیم پائے ہوئے لوگ بھی اس انقلاب انگیز تصوّر کے ادراک سے اسی طرح عاجز ہیں‘ جس طرح قدیم جاہلیت کے ان پڑھ اور کو دن لوگ تھے۔ ہزاروں برس سے مذہب کا جو غلط تصوّر وارثت میں منتقل ہوتا چلا آرہا ہے اس کی گرفت دماغوں پر ابھی تک مضبوط جمی ہوئی ہے۔ عقلی تنقید اور علمی تحقیق کی بہترین تربیت سے بھی اس کے بند نہیں کھلتے۔ خانقاہوں اور مسجدوں کے تاریک حجروں میں رہنے والے اگر مذہبیت کے معنی گوشہ عزلت میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے کے سمجھیں اور دین داری کو عبادات کے دائرے میں محدود خیال کریں تو جائے تعجب نہیں، کہ وہ تو ہیں ہی ’’تاریک خیال‘‘ جاہل‘ عوام اگر مذہب کو باجے، تعزیے اور گائے کے سوالات میں محدود سمجھیں تو یہ بھی مقام حیرت نہیں کہ وہ تو ہیں ہی جاہل۔ مگر یہ ہمارے پروردگانِ نورِ علم کو کیا ہو اکہ ان کے دماغوں سے بھی قدامت پرستی کی ظلمت دور نہیں ہوئی؟ وہ بھی مذہب اسلام کو انہی معنوں میں ایک مذہب سمجھتے ہیں‘ جن میں ایک غیر مسلم قدیم جاہلی تصوّر کے تحت سمجھتا ہے۔
ہماری سیاست میں جاہلی تصوّرات کے اثرات
فہم و ادراک کے اس تصوّر کی وجہ سے مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقہ کا ایک بڑا حصہ نہ صرف خود غلط روش پر چل رہا ہے، بلکہ دنیا کے سامنے اسلام اور اس کی تہذیب و تمدّن کی نہایت غلط نمائندگی کر رہا ہے۔ مسلم جماعت کے اصلی مسائل جن کے حل پر اس کی حیات و ممات کا مدار ہے سرے سے ان لوگوں کی سمجھ ہی میں نہیں آتے، اور یہ ضمنی غیر متعلق مسائل کو اصل مسائل سمجھ کر عجیب عجیب طریقوں سے ان کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ مـذہب کا پرانا محدود تصوّر ہی ہے‘ جو مختلف شکلوں میں ظہور کر رہا ہے۔
کوئی صاحب فرماتے ہیں‘ کہ میں پہلے ہندستانی ہوں، پھر مسلمان،ا ور یہ کہتے وقت ان کے ذہن میں مذہب کا یہ تصوّر ہوتا ہے‘ کہ اسلام جغرافی تقسیم قبول کر سکتا ہے۔ ترکی اسلام، ایرانی اسلام، مصری اسلام، ہندستانی اسلام اور پھر پنجابی، بنگالی، دکنی اور مدراسی اسلام الگ الگ ہو سکتے ہیں۔ ہر جگہ مسلمان اپنے اپنے مقامی حالات کے لحاظ سے ایک الگ طریقِ فکر اختیار کر سکتا ہے، زندگی کا ایک جُدا گانہ نقطۂ نظر اور نصب العین قبول کر سکتا ہے، ان تمام سیاسی، معاشی اور اجتماعی نظاموں میں جذب ہو سکتا ہے‘ جو مختلف قوموں نے مختلف اصولوں پر قائم کیے ہیں، اور پھر بھی وہ مسلمان رہ سکتا ہے، اس لیے کہ اسلام ایک ’’مذہبی ضمیمہ‘‘ ہے‘ جو دنیوی زندگی کے ہر ڈھنگ اور ہر طریقہ کے ساتھ چسپاں ہو سکتا ہے۔
ایک دوسرے صاحب فرماتے ہیں‘ کہ مسلمانوں کو دین اور دنیا کے معاملات میں واضح امتیاز کرنا چاہیے۔ دین کا تعلق ان معاملات میں سے ہے‘ جو انسان اور خدا کے درمیان ہیں، یعنی اعتقادات اور عبادات۔ ان کی حد تک مسلمان اپنی راہ پر چل سکتے ہیں، اور کوئی ان کو اس راہ سے نہ ہٹانا چاہتا ہے، نہ ہٹا سکتا ہے۔ رہے دنیوی معاملات تو ان میں دین کو دخل دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جس طرح دنیا کے دوسرے لوگ ان کو انجام دیتے ہیں اسی طرح مسلمانوں کو بھی انجام دینا چاہیے۔
ایک تیسرے صاحب کا ارشاد ہے‘ کہ اپنے مذہبی، تمدّنی اور لسانی حقوق کے لیے مسلمانوں کو بلا شبہ ایک الگ نظام کی ضرورت ہے‘ مگر سیاسی اور معاشی اغراض کے لیے ان کو الگ جماعت بندی کی ضرورت نہیں۔ ان معاملات میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق بالکل غیر حقیقی اور مصنوعی ہے۔ یہاں مسلمانوںکے مختلف طبقوں کو اپنے اپنے مفاد اور اپنی اپنی اغراض کے لحاظ سے ان مختلف جماعتوں میں شامل ہونا چاہیے‘ جو غیر مذہبی اصولوں پر سیاسی و معاشی مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔
ایک اور صاحب جو مسلم قوم کے تن مردہ میں جان ڈالنے کے لیے اُٹھے ہیں ان کا خیال یہ ہے‘ کہ اصل چیز ایمان باللہ اور اعتقاد یوم آخر اور اتبّاع کتاب و سنّت نہیں ہے، بلکہ عناصر کی تسخیر اور قوانین طبعی کی دریافت اور نظم و ضبط کی طاقت سے ان عناصر مسخرہ و قوانین معلومہ کو استعمال کرنا ہے، تاکہ نتیجہ میں علو اور تمکّن فی الارض حاصل ہو۔ یہ صاحب مادّی ترقی کو مقصود بالذات قرار دیتے ہیں۔ اس لیے جو وسائل اس ترقی میں مدد گارہوں، وہی ان کے نزدیک اصلی اہمیت رکھتے ہیں۔ باقی رہا وہ ذہن جو علم و عقل کی تہ میں کام کرتا ہے، اور جو اپنے طریقِ فکر اور زاویۂ نظر کے لحاظ سے وسائل ترقی کے استعمال کا مقصد اور تہذیب و تمدّن کے ارتقاء کا راستہ اور تمکّن فی الارض کا مدعا متعین کرتاہے، سو وہ اس کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ وہ ذہن چاہے جاپانی ذہن ہو، یا جرمن، یا اطالوی یا فاروقی یا خالدی، ان کو اس سے کوئی بحث نہیں، ان کے نزدیک یہ سب یکساں ’’اسلامی‘‘ ذہن ہیں کیونکہ اب سب کے عمل کا نتیجہ ان کو ایک ہی نظر آتا ہے، یعنی علو اور تمکّن فی الارض ان کی نگاہ میں جس کو ’’زمین کی وراثت‘‘ حاصل ہے، وہی ’’صالح‘‘ ہے، اگرچہ وہ ابراہیم علیہ السلام کے مقابلہ میں نمرود ہی کیوں نہ ہو۔ جو غالب اور بالا دست ہے، وہی ’’مومن‘‘ ہے اگرچہ وہ ’’مسیح‘‘ کے مقابلہ میں بت پرست رومی فرمانروا ہی کیوں نہ ہو۔
ایک بڑا گروہ جو مسلمانوں کے قومی حقوق کی حفاظت صرف اس چیز کا نام ہے‘ کہ ان کے مذہب اور ’’پرسنل لاء‘‘ کی حفاظت کا اطمینان دلایا جائے، ان کی زبان کو اپنے رسم الخط سمیت ایک سرکاری زبان تسلیم کر لیا جائے، اور جن لوگوں کی شخصیت پر اسلام کا لیبل لگا ہوا ہو، صرف انہی کو مسلمانوں کی نمائندگی کا حق حاصل ہو۔ انتخابی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں متناسب نمائندگی ان کے نزدیک سب سے بڑی اہمیت رکھتی ہے، اور اگر یہ فیصلہ کر دیا جائے‘ کہ خالص اسلامی مسائل میں کوئی تصفیہ اس وقت تک نہ ہو گا جب تک خود مسلمان نمائندوں کی غالب اکثریت اس کو قبول نہ کرے تو ان کے نزدیک گویا اسلامی حقوق کا پور اپورا تحفظ ہو گیا۔
دیکھا آپ نے ! شکلیں کس قدر مختلف ہیں، مگر حقیقت ان سب میں ایک ہے۔ یہ سب مختلف مظاہر ہیں اسی جاہلی تصوّر مذہب کے جو اسلامی تصوّر مذہب کے خلاف ہر زمانہ میں نت نئی شکلوں کے ساتھ بغاوت کرتا رہا ہے۔
اگر یہ لوگ اچھی طرح سمجھ لیں کہ مسلم کسے کہتے ہیں‘ اور حقیقی معنی میں اسلامی جماعت کا اطلاق کس گروہ پر ہوتاہے، تو ان کی تمام غلط فہمیاں دور ہو سکتی ہیں۔ قانونی حیثیت سے ہر وہ شخص ’’مسلم‘‘ ہے‘ جو کلمہ طیبہ کا زبانی اقرار کرے اور ضروریات دین کا منکر نہ ہو۔ لیکن اس معنی میں جو شخص ’’مسلم‘‘ ہے اس کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہے۔ ہم اس کو کافر نہیں کہہ سکتے، نہ وہ حقوق دینے سے انکار کرسکتے ہیں‘ جو مجرد اقرار اسلام سے اس کو مسلم سوسائٹی میں حاصل ہوتے ہیں۔ یہ اصل اسلام نہیں ہے‘ بلکہ اسلام کی سرحد میں داخل ہونے کا پروانہ ہے۔ اصل اسلام یہ ہے‘ کہ تمام ذہن اسلام کے سانچے میں ڈھل جائے، تمہارا طریقِ فکر وہی ہو‘ جو قرآن کا طریقِ فکر ہے۔ زندگی اور اس کے تمام معاملات پر تمہاری نظر وہی ہو، جو قرآن کی نظر ہے، تم اشیاء کی قدریں (values) اسی معیار کے مطابق معین کرو جو قرآن نے اختیار کیا ہے، تمہارا انفرادی و اجتماعی نصب العین وہی ہو‘ جو قرآن نے پیش کیا ہے۔ تم اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں مختلف طریقوں کو چھوڑ کر ایک طریقہ اسی معیار انتخاب کی بنا پر انتخاب کرو جو قرآن اور طریق محمدی کی ہدایت سے تم کو ملا ہے۔
اگر تمہارے ذہن کو یہ چیز اپیل نہیں کرتی اور تمہاری نفسیات قرآن کے نفسیات کے سانچے میں ڈھلنا قبول نہیں کرتے، تو کوئی تم کو دائرہ اسلام میں آنے یا رہنے پر مجبور نہیں کرتا۔ عقل اور راست بازی کا اقتضاء یہ ہے‘ کہ تم کو اس دائرے کے باہر اپنے لیے مناسب جگہ تلاش کرنی چاہیے۔ لیکن اگر تمہارا ذہن اس چیز کو قبول کرتا ہے‘ اور تم اپنے نفسیات کو قرآنی نفسیات کے ساتھ متحد کر لیتے ہو، تو پھر زندگی کے کسی معاملہ میں بھی تمہارا راستہ اس راستہ سے الگ نہیں ہو سکتا جسے قرآن سبیل المومنین کہتا ہے۔
اسلامی ذہن یا قرآنی ذہن، کہ حقیقت میں یہ ایک ہی چیز ہیں، جس نظریہ زندگی کے تحت چند اعتقادات پر ایمان لاتا ہے، چند عبادات تجویز کرتا ہے، چند شعائر (جو عام اصطلاح میں ’’مذہبی شعائر‘‘ کہے جاتے ہیں) اختیار کرتا ہے، ٹھیک اسی نظریہ کے تحت وہ کھانے کی چیزوں میں، پہننے کے سامان میں، لباس کی وضعوں میں، معاشرت کے طریقوں میں، تجارتی لین دین میں، معاشی بندوبست میں، سیاست کے اصولوں میں، تمدّن و تہذیب کے مختلف مظاہر میں، مادّی وسائل اور قوانین طبعی کے علم کو استعمال کرنے کے مختلف طریقوں میں بعض کو ردّکرتا ہے‘ اور بعض کو اختیار کرتاہے۔ یہاں چونکہ نقطۂ نظر ایک ہے، طریقِ فکر ایک ہے، نصب العین ایک ہے، ترک و اختیار کا معیار ایک ہے، اس لیے زندگی بسر کرنے کے طریقے، سعی و جدوجہد کے راستے، معاملات دنیا کی انجام دہی کے اصول الگ نہیں ہو سکتے۔ جزئیات میں عمل کی شکلیں الگ ہو سکتی ہیں، احکام کی تعبیروں اور فروعات پر اصول کے انطباق میں تھوڑا بہت اختلاف ہو سکتا ہے، ایک ہی ذہن کی کارفرمائی مختلف مظاہر اختیار کر سکتی ہے۔ لیکن یہ اختلاف عوارض کا اختلاف ہے، جوہری اختلاف ہرگز نہیں ہے۔ جس بنیاد پر اسلام میں زندگی کی پوری اسکیم مرتب کی گئی ہے‘ اور اس کے تمام شعبوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے وہ کسی قسم کا اختلاف قبول نہیں کرتی۔ آپ خواہ ہندوستانی ہوں یا ترکی، یا مصری، اگر آپ مسلمان ہیں‘ تو یہی اسکیم اپنی اسی اسپرٹ کے ساتھ آپ کو اختیار کرنی پڑے گی‘ اور اس سکیم کو ردّکر دینا پڑے گا جو اپنی اسپرٹ اور اپنے اصولوں کے لحاظ سے اس کے خلاف ہو۔
یہاں آپ ’’مذہبی‘‘ اور ’’دنیوی‘‘ شعبوں کو ایک دوسرے سے الگ کر ہی نہیں سکتے۔ اسلام کی نگاہ میں دنیا اور آخرت دونوں ایک ہی مسلسل زندگی کے دو مرحلے ہیں۔ پہلا مرحلہ سعی و عمل کا ہے، اور دوسرا مرحلہ نتائج کا، آپ زندگی کے پہلے مرحلے میں دنیا کو جس طرح برتیں گے، دوسرے مرحلے میں ویسے ہی نتائج ظاہر ہوں گے، اسلام کا مقصد آپ کے ذہن اور آپ کے عمل کو اس طرح تیار کرنا ہے‘ کہ زندگی کے اس ابتدائی مرحلے میں آپ دنیا کو صحیح طریقہ سے برتیں تاکہ دوسرے مرحلہ میں صحیح نتائج حاصل ہوں۔ پس یہاں پوری دنیوی زندگی ’‘’مذہبی‘‘ زندگی ہے، اور اس میں اعتقادات و عبادات سے لے کر تمدّن و معاشرت اور سیاست و معیشت کے اصول و فروع تک ہر چیز ایک معنوی اور مقصدی ربط کے ساتھ مربوط ہے۔ اگر آپ اپنے سیاسی و معاشی معاملات کو اسلام کی تجویز کردہ اسکیم کے بجائے کسی اور اسکیم کے مطابق منظم کرنا چاہتے ہیں، تو یہ جزوی ارتداد ہے، جو آخر کار کلی ارتداد پر منتہی ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں‘ کہ آپ اسلامی تعلیمات کا تجزیہ کرکے بعض کو ردّاور بعض کو قبول کرتے ہیں۔ آپ معتقدات دین اور عبادات دینی کو قبول کرتے ہیں، مگر اس نظام زندگی کو ترک کر دیتے ہیں‘ جس کی عمارت انہی عبادات کی بنیاد پر اٹھائی گئی ہے۔ اول تو یہ تجزیہ ہی اسلام کی رُو سے غلط ہے‘ اور کوئی مسلمان جو حقیقت میں اسلام پر ایمان رکھتا ہو اس کا ارادہ نہیں کر سکتا، کیونکہ یہ اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ۰ۚ{ FR 2910 }کا مصداق ہے، پھر اگر آپ نے یہ تجزیہ کرکے د ائرہ اسلام میں رہنے کا عزم کیا بھی تو آپ اس دائرے میں زیادہ مدت تک نہ رہ سکیں گے‘ کیونکہ نظام زندگی سے بے تعلق ہونے کے بعد معتقداتِ دین اور عباداتِ دینی سب بے معنی ہو جاتے ہیں۔ ان کا مقصد ہی فوت ہو جاتاہے۔ غیر اسلامی اصولِ حیات پر ایمان لانے کے بعد اس قرآن پر ایمان قائم ہی نہیں رہ سکتا جو قدم قدم پر ان اصولِ حیات کی تکذیب کرتا ہے۔
بخلاف اس کے اگر آپ اس اسکیم کے مطابق اپنی سیاسی و معاشی زندگی کے معاملات کو منظم کرنا چاہتے ہیں‘ جو اسلام نے تجویز کی ہے‘ تو آپ کو الگ پارٹیوں میں منقسم ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایک ہی پارٹی، حزب اللہ، ان سب کاموں کے لیے کافی ہے، کیونکہ یہاں سرمایہ دار اور مزدور، زمین دار اور کاشت کار، راعی اور رعیت کے مفاد میں تنازع نہیں ہے، بلکہ ان کے درمیان موافقت اور اشتراکِ عمل پیدا کرنے و الے اصول موجود ہیں۔ کیوں نہ آپ ان اصولوں کے مطابق اپنی قوم کے مختلف طبقات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کریں؟ جن کے پاس یہ اصول موجود نہیں ہیں وہ اگر مجبوراً تنازع طبقات (class war) کی آگ میں کودتے ہیں‘ تو آپ کیوں ان کے پیچھے جائیں؟
اسی طرح اگر آپ مادّی ترقی چاہتے ہیں، علو اور تمکّن فی الارض چاہتے ہیں، تو اسلام خود اس باب میں آپ کی مدد کرتاہے۔ مگر وہ چاہتا ہے‘ کہ آپ فرعونی و نمرودی علو اور ابراہیمی و موسوی علو میں امتیاز کریں۔ ایک تمکّن وہ ہے‘ جو جاپان اور انگلستان کو حاصل ہے۔ دوسرا وہ تھا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے حاصل کیا تھا۔ تمکّن دونوں ہیں، اور دونوں تسخیر عناصر، استعمال اسباب اور قوانین طبعی کے علم اور ان سے استفادہ کرنے ہی کے نتائج ہیں۔ مگر زمین و آسمان کا فرق ہے دونوں گروہوں کے مقاصد اور نقطۂ نظر میں۔ آپ نتائج کے ظاہری اور نہایت سطحی تماثل کو دیکھتے ہیں۔ مگر ان کے درمیان جو روحی و اخلاقی بُعد، بعد المشرقین ہے اس کو نہیں دیکھتے۔ دنیا پرستوں کی ترقی اور ان کا تمکّن اس تسخیر عناصر اور استعمال اسباب کا نتیجہ ہے‘ جس کی تہہ میں زندگی کا حیوانی نصب العین کام کر رہا ہے۔ بخلاف اس کے قرآن جس علو اور تمکّن فی الارض کا وعدہ کرتاہے، وہ بھی اگرچہ تسخیر عناصر اور استعمال اسباب سے ہی حاصل ہو سکتا ہے، مگر اس کی تہہ میں زندگی کا بلند ترین اخلاقی و روحانی نصب العین ہونا چاہیے جس کا تحقق ہو نہیں سکتا جب تک کہ ایمان باللہ اور اعتقاد یوم آخر پوری طرح مستحکم نہ ہو‘ اور جب تک مضبوط زندگی کی ساری جدوجہد اس آہنی فریم کے اندر کسی ہوئی نہ ہو‘ جس کی گرفت کو مضبوط کرنے کے لیے صوم و صلوٰۃ اور حج و زکوٰۃ کو آپ پر فرض کیا گیا ہے وہی ’’ارکان اسلام‘‘ جن کو آپ ’’مولوی کے غلط مذہب‘‘ کی ایجاد قرار دیتے ہیں۔
مسلمانوں کے حقوق کو سمجھنے اور ان کے تحفظ کے صحیح طریقے معلوم کرنے میں جو غلطی کی جا رہی ہے اس کی تہہ میں بھی وہی جہل کار فرما ہے‘ جس کے مظاہر آپ اوپر دیکھ چکے ہیں۔ اجتماعی زندگی کی پوری اسکیم اگر غیر اسلامی بنیادوں پر مرتب ہو جائے‘ تو جس چیز کو آپ ’’مذہب‘‘ کہتے ہیں‘ اور جسے ’’پرسنل لا‘‘ قرار دیتے ہیں اس کا اپنی اصل پر باقی رہ جانا اور آپ کی زبان کا اپنے رسم الخط کے ساتھ محفوط رہنا کچھ بھی مفید نہ ہو گا۔ اس لیے کہ اس غیر اسلامی مجموعہ میں یہ بے جوڑ اسلامی اجزا کسی طرح کھپ نہ سکیں گے‘ اور رفتہ رفتہ اپنی جگہ چھوڑتے چلے جائیں گے۔ پھر ان اجزا کی حفاظت جن نمائندوں کے ہاتھ میں آپ دینا چاہتے ہیں وہ اگر محض اصطلاحی و قانونی مسلمان ہوں تو وہ ان کی حفاظت بس اتنی ہی کر سکیں گے جتنی کہ غیر مسلم کر سکتے ہیں۔ ایسے مسلمان اگر اسلامی اصولوں کے خلاف ۴/۳ نہیں ۴/۴ کی اکثریت سے بھی کوئی فیصلہ کریں تو وہ اسلامی جماعت کے لیے اتنا ہی نقصان دہ ہو گا جتنا غیر مسلموں کا کوئی فیصلہ ہو سکتاہے۔
جاہلیت کا یہی تصوّر ہے‘ جس کے تحت کانگریس نے اپنا بنیادی حقوق (fundamental rights) والا ریزولیوشن مرتب کیا ہے اور اسی تصوّر جاہلیت کے تحت اپنی بجنور والی تقریر میں پنڈت جواہر لال نہرو نے فرمایا ہے‘ کہ ’’کانگریس کسی مذہبی عقیدے اور مذہبی روایات میں قطعاً دخل نہیں دیتی۔ کانگریس کو مذہب میں مداخلت کی کوئی ضرورت نہیں‘ اور نہ وہ ایسا کرے گی۔ کانگریس ہندستان کے مذاہب کی آزادی، مذہبی لوگوں کی تہذیب کی آزادی، تمدّن کی آزادی اور زبان کی آزادی کی حامی ہے۔{ FR 2911 } ’’پھر جاہلیت کا یہی تصوّر ہے‘ جس کے تحت مسلمانوںکا ایک گروہ اس قسم کے اعلانات کو کافی سمجھتا ہے اور مسلمانوں کو مشورہ دیتا ہے کہ ایسے اعلانات پر وہ مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں۔ کانگریسی رہنما تو خیر غیر مسلم ہیں‘ اور مذہب کے صرف اسی تصوّر سے واقف ہیں‘ جو انہیں وراثت میں ملا ہے،مگر مسلمانوں کے سیاسی رہنما (جن کے ساتھ بد قسمتی سے مذہبی رہنما بھی شریک ہوتے جاتے ہیں) اس سلسلہ میں جس نا واقفیت کا ثبوت دے رہے ہیں وہ حد درجہ افسوس ناک ہے۔ یہ حضرات اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں‘ کہ اگر مذہب، یعنی معتقدات دین اور مذہبی اعمال میں مداخلت نہ ہو، اگر مسلمانوں کے ’’پرسنل لا‘‘ یعنی قوانین نکاح و طلاق و وراثت کو، جیسے کہ وہ برٹش گورنمنٹ کے ماتحت ہیں، بدستور محفوظ رہنے دیا جائے، اگر مسلمانوں کی قدیم رسوم و عادات کو جیسی کہ وہ اس وقت پائی جاتی ہیں۔ ایک اجل مسمیٰ تک پرانے تبرکات relics کی حیثیت سے زندہ رہنے دیا جائے، تو بس مسلمانوںکا قومی مسئلہ حل ہو گیا،ا ور اس کے بعد مسلمانوںکو اپنے قومی مستقبل کی طرف سے مطمئن ہو جانا چاہیے۔ اگرچہ آزادی ا ور تحفظ کے یہ اعلانات بھی سراسر منافقانہ ہیں، جیسا کہ میں آگے کے ابواب میں خود کانگریس کی تحریروں سے اور کانگریس کے شعبہ اسلامیات کے شائع کردہ مضامین سے ثابت کروں گا، تاہم اگر ان کو خلوص و نیک نیتی پر بھی محمول کیا جائے، تب بھی یہ سمجھنا انتہا درجہ کی کم فہمی پر دلالت کرتاہے‘ کہ ان اعلانات سے ہمارا قومی مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ درحقیقت ایسی چیزوں پر اطمینان قلب ظاہر کرکے ہمارے سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے یہ راز فاش کیا ہے‘ کہ وہ ابھی یہ سمجھے ہی نہیں کہ مسلمانوںکا اصل قومی مسئلہ ہے کیا۔
مسلمانوں کا اصل قومی مسئلہ
اگرچہ میں گزشتہ صفحات میں اس مسئلہ کی کافی تشریح کر چکا ہوں، لیکن یہاں ایک مرتبہ پھر کوشش کروں گا کہ اس کو نہایت واضح صورت میںپیش کروں تاکہ یہ زمانہ کا جادو، جو جہلا اور علما سب کے دماغوں پر مسلط ہوتا جا رہا ہے، کسی طرح اترے اور مسلمانوں کے ارباب حل و عقد اپنی توجہات کو اس مسئلہ کے حل کی طرف منعطف کریں۔
اوپر میں بتا چکا ہوں کہ اسلام اس قسم کا کوئی مذہب نہیں ہے‘ جو دنیا کی زندگی سے الگ چند معتقدات اور چند مذہبی مراسم انسان کو دیتا ہوتا کہ وہ آخرت کی زندگی میں نجات کے لیے سرٹیفکیٹ کے طورپر کام آئیں۔ بلکہ وہ درحقیقت ایک جامع تہذیب و تمدّن ہے‘ جو دنیا کو مزرعۃ الآخرۃ (آخرت کی کھیتی) سمجھ کر، اور انسان کو زمین میں خلیفہ الٰہی قرار دے کر‘ زندگی کے جملہ معاملات کی تنظیم کرتا ہے، تاکہ انسان اس دنیا میں صحیح برتاؤ کرے اور اس کے نتیجہ میں آخرت کی کامیابی سے ہمکنار ہو۔ اس غرض کے لیے اسلام نے مسلمانوںکو ایک مکمل ضابطہ زندگی دیا ہے‘ جو دوسرے ضوابط زندگی، مثلاً کمیونزم، فاش ازم، کیپٹل ازم اور مٹیریل ازم وغیرہ سے بالکل مختلف صورت پر ان کے نظامِ اجتماعی کی تشکیل کرتاہے‘ اور ان کو علوم و آداب میں، اخلاق و معاملات میں، عادات و اطوار میں، تمدّن و معاشرت میں، معیشت و سیاست میں، غرض زندگی کے ہر شعبے میںبعض طریقوں کو ترک اور بعض کو اختیار کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ اس ضابطہ کی اساس ایک خاص طریقہ فکر اور ایک خاص مقصد حیات پر رکھی گئی ہے‘ جو دوسری قوموں اور تہذیبوں کے طریقِ فکر و مقصد حیات سے بالکل مختلف ہے، جس کی رو سے اشیاء کی قدریں (values) دوسروں کی پسند کی ہوئی قدروں سے بالکل مختلف طور پر معین ہوتی ہیں‘ اور جس کے لحاظ سے زندگی میں مسلمان اپنا راستہ دوسروں کے انتخاب کیے ہوئے راستوں سے الگ انتخاب کرتاہے۔
ہر تہذیب کی طرح اس تہذیب کے بقا اور فروغ کا انحصار بھی دو چیزوں پر ہے۔
ایک یہ کہ مسلمانوں کا نظامِ تعلیم ایسا ہو‘ جو ان کے دل و دماغ میں اسلام کے طریقِ فکر اور مقصد حیات کو صحیح طور پر پیوست کر دے، اور ان کو اس قابل بنائے کہ وہ مسلمان کی حیثیت سے دیکھیں، مسلمان کی حیثیت سے سوچیں، اور اسلام کے بتائے ہوئے معیار کے مطابق زندگی کے ہر دوراہے پر ایک راستے کا انتخاب کریں۔
دوسرے یہ کہ یہ نظام تہذیب اپنی صحیح صورت میں عملاً قائم ہو، اجتماعی زندگی میں اس کے اصول عملاً نافذ ہوں،ا ور ایک ایسا اسلامی ماحول بن جائے ‘جس میں مسلمان خود بخود اسلامی اصولوں پر زندگی بسر کریں، اگرچہ ان کے بعض افراد کو علمی حیثیت سے ان اصولوں کا پورا شعور نہ ہو۔ا س غرض کے لیے مسلمانوں کے پاس سیاسی طاقت کا ہونا ضروری ہے کیونکہ کوئی سوسائٹی سیاسی طاقت کے بغیر اپنی مخصوص ہیئت کی حفاظت نہیں کر سکتی۔
انگریزی اقتدار کی غلامی میں ہم کو اصلی نقصان جو پہنچا ہے وہ یہی ہے‘ کہ اپنی تہذیب کو ایک زندہ تہذیب کی حیثیت سے باقی رکھنے کے لیے یہ دونوں ذرائع ہم سے چھن گئے۔ ایک طرف ہماری قوم پر ایک ایسا نظامِ تعلیم مسلط کر دیا گیا ہے‘ جو وسیع پیمانہ پر ہمارے افراد کے طریقِ فکر کو بدل رہا ہے، نظریہ زندگی اور مقصد حیات کو بدل رہا ہے، اور اس معیار کو بدل رہا ہے‘ جس سے وہ اشیاء کی قدریں متعین کرتے ہیں۔ دوسری طرف ایک غیر قوم کی سیاسی طاقت نے ہم پر ایک ایسا ماحول مسلط کر دیا ہے‘ جو ہمارے عوام ا ور خواص کی زندگی کو روز بروز اسلامی مناہج سے ہٹاتا چلا جاتاہے۔ اس نے ہمارے قوانین حیات کو بڑی حد تک معطل کر دیا ہے، اور ہم اس کی بدولت اس طاقت سے محروم ہو گئے ہیںجس سے ہم اپنی سوسائٹی کو اس مخصوص اسلامی ہیئت پر قائم و برقرار رکھ سکیں۔
پس ہمارا اصل قومی مسئلہ یہ ہے‘ کہ ہندستان میں جو انقلاب درپیش ہے، اس میں ہم اس نقصان کی تلافی کر سکیں‘ جو انگریزی اقتدار سے ہماری قومیّت اور ہماری تہذیب کو پہنچا ہے۔ ہمیں اتنی طاقت حاصل ہو‘ کہ ہم اپنے نظامِ تعلیم کو خود اپنی ضروریات کے مطابق بنا سکیں‘ اور ہمیں حکومت میں اتنا اقتدار حاصل ہو‘ کہ ہم اپنے تمدّنی معاشرتی اور معاشی مسائل کو خود اپنے اصولوں کے مطابق حل کر سکیں، اور اپنے اجتماعی نظام کو پھر سے اسلامی بنیادوں پر مرتب کر لیں، یہی وہ چیز ہے‘ جس کی تشریح میں نے اپنے ’’نصب العین‘‘ والے مضمون میں کی ہے۔ ہم ایک ایسی آزادی وطن کو صحیح معنوں میں پورے و طن کی آزادی نہیں کہہ سکتے‘ جس میں وطن کی ۴/۱ مسلمان آبادی کو یہ آزادی حاصل نہ ہو۔ نہ ہم کسی ایسی حکومت کو وطنی حکومت سمجھ سکتے ہیں‘ جس میں وطن کے آٹھ کروڑ مسلمانوں کو یہ اقتدار حاصل نہ ہو۔ نہ ہمیں کسی ایسی جنگِ آزادی سے کوئی دلچسپی ہو سکتی ہے‘ جس کے ذریعہ سے ہم اپنے مشترک وطنی نصب العین (یعنی حریّت و استقلال وطن) کے ساتھ ساتھ اپنے اس قومی نصب العین کو بھی حاصل نہ کر سکتے ہوں۔
یہ ’’قوم پرستی‘‘ کی تحریک جس کے تحت اس وقت آزادی وطن کے نام پر جنگ کی جا رہی ہے، درحقیقت ہم کو اپنے اس قومی مقصد کی تحصیل میں مدد نہیں دیتی، بلکہ اس کے برعکس ان نقصانات کو حد کمال پر پہنچانا چاہتی ہے‘ جو ہم کو انگریزی اقتدار سے پہنچے ہیں۔ ڈیڑھ سو برس تک ایک غیر قوم کی غلامی میں رہنے کی وجہ سے ہماری قوم میں جہالت، افلاس، اخلاقی انحطاط، اجتماعی بد نظمی، تمدّنی بے راہ روی، اور تہذیب اسلامی سے انحراف کی جتنی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں، انہیں دور کرنے میں ہماری مدد کرنا تو درکنار، وہ تو ان سے الٹا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے، اور ہماری ان اندرونی خرابیوں ہی کو اپنے لیے کامیابی کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ ایک طرف ایک تحریک کے علمبردار اپنا پورا زور اس بات پر صرف کر رہے ہیں‘ کہ جمہور مسلمین کے دلوں سے اسلامی قومیّت کا تخیل ہی مٹ جائے‘ اور وہ اپنی قومیّت کے رشتہ سے کٹ کر معاشی طبقوں میں منقسم ہو جائیں، اور آپس میں روٹیوں پر لڑنا شروع کر دیں۔ دوسری طرف ان لوگوں کے پاس تہذیب و تمدّن اور تنظیم حیات کے متعلق خود اپنے نظریات موجود ہیں‘ جو اسلام کے اصولوں سے بالکل مختلف ہیں، اور وہ مسلمانوں کی اجتماعی مزاحمت سے بے خوف ہو کر یہ چاہتے ہیں‘ کہ تمام ہندوستان کی اجتماعی زندگی کو انہی نظریات کے تحت مرتب کریں جس کی لپیٹ میں مسلمان بھی آجائیں۔ اس طرح یہ تحریک ہمارے قومی مقاصد کے بالکل خلاف واقع ہوئی ہے‘ اور اس کے ساتھ شریک ہونے کے معنی یہ ہیں‘ کہ ہم اپنی قومیّت اور اپنی تہذیب کو نیست و نابود کرنے میں خود حصہ لیں۔ وہ اپنے پروپیگنڈا کی طاقت سے یہ خیال پھیلا رہے ہیں‘ کہ جو لوگ ان کی اس تحریک سے اختلاف کرتے ہیں وہ انگریزی اقتدار کے حامی ہیں، ٹوڈی اور سامراج پرست ہیں۔ لیکن یہ ایک زبردست دجل و فریب ہے‘ جس کو دن کی روشنی میں فروغ دیا جا رہا ہے۔ دراصل سب سے بڑا ٹوڈی اور سامراج پرست تو وہ ہے‘ جو وطن کی نجات کے لیے ایسے طریقے اختیار کرتا ہے‘ جن سے وطن کی ۴/۱ آبادی کسی طرح اتفاق نہیں کر سکتی۔ اپنی اسی حماقت سے وہ خود انگریزی اقتدار کے قیام و بقاء میں مدد دیتا ہے، اور پھر اس حماقت کا الزام ان لوگوں پر رکھتا ہے‘ جو نجات وطن کے لیے سر فروشی کرنے پر تیار ہیں، مگر اپنی قومیّت اور اپنی قومی تہذیب کو فنا کرنے پر فطرۃً تیار نہیں ہو سکتے۔
میں آگے کے ابواب میں اس امر پر تفصیل سے بحث کروں گا کہ یہ تحریک وطن پرستی کن طریقوں پر چلائی جا رہی ہے، اور مسلمانوں کے لیے مسلمان رہتے ہوئے اس کے ساتھ اشتراکِ عمل کرنا کس درجہ مہلک ہے۔
خ خ خ