قرآن اور اُسوئہ رسولa کی رہنمائی
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۰ۭ الاعراف7:3
پیروی کرو اس ہدایت کی جو تمہاری طرف خدا کے پاس سے نازل کی گئی ہے۔ خدا کو چھوڑ کر دوسرے سر پرستوں کی پیروی نہ کرنے لگو۔
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۰ۭ
آل عمران 31:3
اے نبی کہہ دو اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ خدا تم کو دوست بنا لے گا اور تمہیں بخش دے گا۔
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللہَ كَثِيْرًاo الاحزاب 21:33
تمہارے لیے یقینا اللہ کے رسول میں عمل کا اچھا نمونہ موجود ہے۔ جو کوئی اللہ کی رحمت کا اُمیدوار ہو‘ اور آخرت کے آنے کی توقع رکھتا ہو، اور اللہ کو بہت یاد رکھنے والا ہو اس کے لیے (تو پیروی کا صحیح نمونہ وہی ہے)
جو لوگ قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں، یاجنہوںنے کبھی قرآن پڑھا ہے‘ ان کی نظر سے اس کتاب پاک میں یہ آیات ضرور گزری ہوں گی۔ بہت سوں کو ان کے معانی سے بھی واقفیت ہو گی۔ خصوصاً آخری آیت سے تو کوئی وعظ اور کوئی اصلاحی خطبہ خالی نہیں ہوتا، مگر آج ضرورت محسوس ہو رہی ہے‘ کہ ایک بار پھر یہ آیات نظروں کے سامنے لائی جائیں۔ کیونکہ ایسا گمان ہوتا ہے‘ کہ شاید ساری مسلمان قوم ان آیات کو بھول گئی ہے۔
مجملاً ہر مسلمان اس بات کو جانتا اور مانتا ہے‘ کہ بحیثیت مسلمان ہونے کے ہم کو قرآن اور اسوئہ رسولa ہی کا اتبّاع کرنا چاہیے‘ اور ہمارے لیے ہدایت انہی دو چیزوں میں ہے‘ لیکن سوال یہ ہے‘ کہ یہ ہدایت جس کے اتبّاع کا حکم اس قطعیت کے ساتھ تم کو دیا گیا ہے، آیا اس کا دائرہ صرف طہارت اور استنجا اور عبادات اور باصطلاحِ زمانہ حال ’’مذہبی‘‘ معاملات ہی تک محدود ہے‘ یا تمہاری زندگی کے چھوٹے اور بڑے، دینی اور دنیوی، قومی اور ملکی تمام معاملات پر حاوی ہے؟ نیز یہ ہدایت صرف اس زمانہ اور اس ملک کے لیے تھی جس میں قرآن نازل ہوا تھا‘ اور محمدa مبعوث ہوئے تھے، یادرحقیقت یہ زمانی و مقامی قیود سے مبرا ہے‘ اور اس میں ہر زمانے اور ہر ملک کے مسلمانوں کے لیے ویسی ہی سچی اور صحیح رہنمائی موجود ہے‘ جیسی ساڑھے تیرہ سو برس پہلے کے عربوں کے لیے تھی؟ اگر پہلی بات ہے تب تو نعوذ باللہ قرآن کا یہ مطالبہ ہی غلط ہے‘ کہ سب رہنماؤں کو چھوڑ کر صرف اسی کی پیروی کی جائے، اور تمام دنیا کے طریقوں کو ترک کرکے صرف اس ایک شخص کے اسوئہ کا اتبّاع کیا جائے‘ جو ہمارے پاس قرآن لایا تھا۔ اس صورت میں تو اتبّاع کرنے کے بجائے تم کو اپنے ایمان ہی پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔ لیکن اگر دوسری بات ہے‘ تو یہ کیا ماجرا ہے‘ کہ تم وضو اور غسل کے مسائل میں، نکاح اور طلاق کے معاملات میں، ترکے اور وراثت کے مقدّمات میں تو اس سر چشمہ ہدایت کی طرف رجوع کرتے ہو۔ لیکن جن مسائل کے حل پر تمہاری قوم کی زندگی و موت کا مدار ہے‘ ان میں نہیں دیکھتے کہ قرآن تمہیں کون سا راستہ دکھاتا ہے‘ اور محمد aکی زندگی کس طرف تمہاری رہنمائی کرتی ہے۔
انتشارِ خیال و تشتّت عمل
ہندستان میں ہر طرف ایک بے چینی نظر آتی ہے۔ ساری مسلمان قوم پر ایک پریشانی چھائی ہوئی ہے۔ مستقبل کا سوال ایک درشنی ہنڈی{ FR 2903 } کی طرح مسلمانوں کے سامنے آن کھڑا ہوا ہے، اور تقاضا کر رہا ہے‘ کہ یا تو میرا معاملہ صاف کر ویا دیوالہ نکالو، لیکن اس قوم کا حال کیا ہے؟ جس کا جدھر مُنہ اُٹھ رہا ہے چلا جا رہا ہے‘ اور جس کے ذہن میں جو بات آرہی ہے‘ کہہ رہا ہے‘ اور لکھ رہا ہے۔ کوئی مارکس اور لینن کے اسوے کو دانتوں سے پکڑے ہوئے ہے، کوئی ہٹلر اور مسولینی کی سنّت پر عمل کر رہا ہے، کوئی گاندھی اور جواہر لال کے پیچھے چلا جا رہا ہے، کوئی فرائض کی پرانی فہرست میں ایک نئے فرض (جنگِ آزادی) کا اضافہ کر رہا ہے، کسی پر نشستوںاور ملازمتوں کے فیصدی تناسب کا بھوت سوار ہے، کوئی حرکت اور عمل کا پجاری بنا ہو اہے‘ اور ہانکے پکارے کہہ رہا ہے‘ کہ اگر پشاور کی گاڑی نہیں چلتی تو راس کماری ہی کی طرف جانے والی گاڑی پر سوارہو جاؤ، اس لیے کہ منزلِ مقصود کوئی نہیں، حرکت ہی فی نفسہٖ موجود ہے۔ غرض ہر شخص جو کچھ بول سکتا ہے‘ ایک نئی تجویز قوم کو سنا دیتا ہے‘ اور ہر شخص جو کچھ لکھ سکتا ہے ایک ماہرانہ و مبصرانہ مقالہ لکھ کر شائع کر دیتا ہے۔ مگر اس تمام شور و شغب اور اس پورے ہنگامے میں کسی کو بھی یہ یاد نہیں آتا‘ کہ ہمارے پاس قرآن نامی بھی کوئی کتاب ہے‘ جس نے زندگی کے ہر مسئلہ میں ہماری رہنمائی کا ذمہ لے رکھا ہے‘ اور ہم سے کبھی یہ بھی کہا گیا تھا‘ کہ زندگی کے ہر معاملہ میں تمہارے لیے ایک عملی نمونہ موجود ہے۔
ہدایت صرف کتاب اللہ اور سنّت ِرسول اللہa میں ہے
مسلمانوں کو مختلف راستوں کی طرف بلایا جا رہا ہے۔ ہر راستہ کی طرف بلانے والوں میں بڑے بڑے مقدّس علماء ہیں۔ بڑے بڑے نامور لیڈر ہیں۔ بڑے بڑے زبان آور خطیب اور ماہرِ فن انشا پرداز ہیں۔ ہر وادی کے سرے پر ایسے لوگ کھڑے ہیں‘ جن کی آزمودہ کاری مسلّم، قومی خدمت ناقابلِ انکار، اور سیاسی مہارت و بصیرت معروف و مشہور۔
ہر رہنما بڑی قابلیت کے ساتھ اپنے اپنے راستے کے نشیب و فراز دکھا رہا ہے‘ اور دوسرے راستوں کے خدشات بیان کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ قابلِ قدر ہے۔ مگر مسلمان کی فطرت کہتی ہے۔ ایتونی شیئا من کتاب اللّٰہ وسنۃ رسولہٖ حق اقول۔ میرے سامنے شخصیتوں کو نہ لاؤ، کوئی شخص خواہ کتنا ہی بڑا آدمی ہو، عالم و فاضل ہو، مفسرِ قرآن ہو، معلمِ حدیث ہو، ماہر سیاست ہو، عمل اور قربانی کا نمونہ ہو، اس کی حرمت میرے سر اور آنکھوں پر، مگر جو ہدایت وہ دے رہا ہے، اگر وہ اس کے اپنے ذہن کی پیدوار ہے‘ تو میرے لیے لائق اِتبّاع نہیں، ہاں اگر وہ کتاب اللہ اور سنّت رسول اللہ میں کوئی دلیل اپنے پاس رکھتاہے ‘تو شخصی عظمت کی آمیزش سے الگ کرکے اس کو اور صرف اس کو سامنے لاؤ۔ اس لیے کہ وہی لائقِ اتبّاع ہے، اسی میںسچی ہدایت ہے، اور اسی کی پیروی میں فلاح و نجات ہے۔ اس کے بتائے ہوئے راستہ میں خواہ کتنی ہی دشواریاں ہوں، کتنے ہی خدشات اور کتنے ہی نقصانات ہوں، آخری اور دیرپا اور یقینی کامیابی اسی کے ذریعہ سے حاصل ہو سکتی ہے۔
آئیے آج اسی نقطۂ نظر سے قرآن اور سیرتِ محمد a پر غور کریں کہ ہمارے اس وقت کے قومی مسائل میں اس کے اندر کیا ہدایت ہے۔ کچھ پروا نہیں اگر کوئی اس بات کو دقیانوسیت اور رجعت پسندی کہہ کر ناک بُھوں چڑھائے۔ حالات جدید سہی، جغرافی ماحول مختلف سہی، مگر جس ہدایت کی طرف ہم رجوع کر رہے ہیں، ہمارا ایمان ہے‘ کہ وہ ہر زمانہ میں جدید ہے، ہر دور میں وقتی ہے‘ اور ہر جغرافی ماحول میں مقامی ہے۔
بعثت محمدیa کے وقت عرب کی حالت اور حضورa کا طرزِعمل
ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے‘ کہ رسول اللہ a کی بعثت کے وقت‘ آپؐ کے وطن کی سیاسی حالت کیا تھی‘ اور اس حالت میں آپؐ نے کیا طرزِعمل اختیار کیا۔ تاریخ سے ثابت ہے‘ کہ اس وقت عرب ہر طرف ظالم سلطنتوں سے گھرا ہوا تھا‘ اور خود ملک کے اندر ہمسایہ قوموں کا امپیریل ازم نفوذ کر چکا تھا۔ آپؐ کی پیدائش سے چند ہی روز قبل حبشی فوجیں یلغار کرتی ہوئی خاص اس شہر تک پہنچ گئی تھیں‘ جس میں آپؐ پیدا ہوئے۔ عرب کا سب سے زیادہ زرخیز صوبہ یمن پہلے حبشیوں کے اور پھر ایرانیوں کے تسلّط میں جا چکا تھا۔ عرب کے جنوبی اور مشرقی سواحل ایرانیوں کے زیرِ اثر تھے۔ عراقِ عرب کا علاقہ نجد کے حدود تک ایرانیوں کے اثر میںتھا۔ شمال میں عقبہ اور معان تک بلکہ تبوک تک سلطنت روم کے اثرات پہنچے ہوئے تھے۔ دونوں ہمسایہ سلطنتیںعرب کے قبائل کو اپنی اغراض کے لیے ایک دوسرے سے لڑاتی تھیں‘ اور اندرونِ عرب میں اپنے اثرات پھیلا رہی تھیں۔ متعدّد مرتبہ قسطنطنیہ کا قیصر‘ مکہ کی چھوٹی سی ریاست کے معاملات میں مداخلت کر چکا تھا۔ عربی قوم کو ہر ملک گیر طاقت اپنے قبضہ میں لانا چاہتی تھی، کیونکہ اس قوم کا ملک بنجر تھا، مگر قوم بنجر نہ تھی۔ جہانگیری کے لیے بہترین سپاہی اس سے فراہم ہو سکتے تھے۔
ان حالات میں جب نبی ﷺ مبعوث ہوئے تو آپؐ نے کیا کیا؟ اگرچہ آپؐ کو اپنے وطن اور اپنی قوم سے فطری محبت تھی۔ اور آپؐ سے بڑھ کر حریّت پسند کوئی نہ تھا، مگر آپؐ نے ایک قوم پرست (nationalist) یا وطن پرست (patriot) کی حیثیت اختیار نہ کی۔ بلکہ ایک حق پرست اور خدا پرست کی حیثیت اختیار کی۔ آپؐ کی نگاہ میں مقدّم کام یہ نہ تھا‘ کہ اپنے اہلِ وطن کی قوّت کو مجتمع کرکے‘ اجنبی استیلاء کی جڑیں خاک وطن سے اکھاڑ پھینکیں، بلکہ دوسرے ہر کام سے مقدّم یہ کام تھا‘ کہ حق پرستوں کا ایک جتھا بنائیں اور اس کے اندر ایسی طاقت پیدا کر دیں‘ کہ وہ عرب ہی میں نہیں، بلکہ خود روم و ایران میں بھی ظلم و عدوان کے استیلاء کا خاتمہ کر دے۔ آنحضرتؐ کے اہلِ وطن آپؐ کے بہترین اوصاف سے واقف تھے۔ انہوں نے عرب کی بادشاہی کا تاج آپؐ کے سامنے پیش کیا تھا، اس شرط پر کہ آپؐ اپنے اس جتھے کی توسیع و تنظیم سے باز آجائیں۔ اگر آپؐ وطن پرست ہوتے‘ تو خدمت ِوطن کا موقع اس سے بہتر اور کون سا ہو سکتا تھا؟ مگر آپؐ نے اس تاج کو ٹھکرایا، اور اسی کام میں لگے رہے‘ جس کے باور آور ہونے کی کم از کم اس وقت کوئی شخص اُمید نہ کر سکتا تھا۔ اس وقت آپ کی جمعیت دس بارہ آدمیوں سے زیادہ نہ تھی۔ تمام ملک میںکوئی قبیلہ اور کوئی گروہ آپؐ کا ساتھی نہ تھا۔ بلکہ سب مخالف اور سخت مخالف تھے۔ ظاہر اسباب کے لحاظ سے کوئی اندازہ نہیں کیا جا سکتا تھا‘ کہ وہ اسکیم کب کامیاب ہو گی‘ جس کو آپؐ لے کر اُٹھے تھے۔ اس بات کا ہر وقت امکان تھا‘ کہ واقعہ فیل کی طرح کا کوئی دوسرا واقعہ پھر پیش آجائے‘ اور حجاز بھی یمن اور ارض غسّان کی طرح‘ اجنبی حکومت کا غلام بن جائے۔ مگر آپؐ نے ہر حال میں یہی ضروری سمجھا کہ پہلے حق پرستوں کی جمعیت کو بڑھائیں اور مضبوط کر لیں، پھر جیسی صورتحال ہو‘ اُس کے مطابق ملکیوں اور غیر ملکیوںکے ساتھ کوئی معاملہ کریں۔
اس کی کیا وجہ تھی؟ کیا آپؐ کمیونسٹ‘‘ تھے؟ کیا آپؐ نعوذ باللہ اپنے وطن کے غدار تھے؟ کیا خاکم بدہن آپؐ غیر ملکی امپیریل ازم کے ایجنٹ تھے؟ ہرگز نہیں۔ تاریخ کے ناقابلِ انکار حقائق گواہ ہیں‘ کہ کبھی کسی فرزند وطن نے اپنے وطن کو اتنی سر بلندی عطا نہیں کی جتنی محمد عربیa کی دولت عرب کو نصیب ہوئی۔ اور تاریخ ہی اس بات پر بھی گواہ ہے‘ کہ کسی داعی دین نے غیر مذہب والوں کے ساتھ اتنے تحمل، اتنی فیاضی، اتنی رواداری اور اتنی فراخی حوصلگی کا برتاؤ نہیںکیا۔ پھر یہ بھی دنیا کو معلوم ہے‘ کہ اللہ کے رسولa نے کبھی روٹیوں کی تقسیم اور منافع کے بٹوارے کا سوال نہیں اٹھایا۔ آپؐ نے نہ کبھی مکی زندگی میں اس بنیاد پر مصالحت کی کہ ریاست، قریش کے دارالندوہ اور جنگی و سیاسی عہدوںپر مسلمانوں کی اتنی نمائندگی ہو،ا ور نہ مدنی زندگی میں اس مسئلہ کو مدار صلح قرار دیا کہ یہود کے معاشی وسائل میں مسلمانوں کا اتنا حصہ ہو۔
اب غور کیجئے‘ کہ جب وہاں نہ کمیونزم تھا، نہ وطن دشمنی تھی، نہ اعدائے وطن سے ساز باز تھا، تو پھر کون سی چیز تھی جس کی بناء پر آپؐ نے عرب کی سیاسی نجات اور تمدّنی و معاشی فلاح پر اپنی بہترین قوتوں اور قابلیتوں کو صرف کرنے سے انکار کیا‘ اور ہر کام سے پہلے خدا کا نام لینے والوں کو ایک طاقتور جمعیت بنانا اور زمین میں اس کا دبدبہ قائم کرنا ضروری سمجھا؟ اس کا جواب ایک اور صرف ایک ہی ہو سکتا ہے‘ اور وہ یہ ہے‘ کہ رسول اللہ a کا نصب العین وطن پرست کے نصب العین سے بالکل مختلف تھا۔ اس نصب العین کی راہ میں باہر کے قیصر و کسریٰ اور گھر کے ابو جہل اور ابو لہب دونوں یکساںسدراہ تھے۔ اس نصب العین کو حاصل کرنے کے لیے ناگزیر تھا‘ کہ واقعات کی رفتار اور ملک کے مستقبل اور آئندہ کے امکانی خدشات، سب کی طرف سے بے پرواہ ہو کر ایک ایسی جماعت کو منظم کیا جائے‘ جو باطل کے غلبہ کو کسی صورت میں قائم نہ رہنے دے اور اپنی طاقت سے زمین میں ایسی حالت قائم کر دے جس میں خدا پرستانہ تہذیب امن کے ساتھ پھل پھول سکے۔ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّہٗ لِلہِ۰ۚ { FR 2904 }
وہی نصب العین رسول اللہ a مسلمان قوم کو دے گئے ہیں۔ مسلمان قوم ایک قوم ہی اس بنیاد پر بنی ہے‘ کہ یہ نصب العین اس کے تمام افراد کا مشترک اور واحد نصب العین ہے۔اس نصب العین کو سلب کر لیجئے، پھر مسلمان قوم کسی قوم کا نام نہیں۔ یہاں عرب اور عجم کی کوئی خصوصیت نہیں۔ زمان و مکان کا کوئی سوال نہیں۔ مسلمان اگر مسلمان ہے‘ تو ہر حال میں یہی اس کا نصب العین ہے۔
مسلمانوں کو کس طرح جمع کیا جا سکتا ہے؟
اب ایک دوسری نظر اسی کتاب ہدایت اور اسی سیرت پاک پر ڈالیے۔
یہ جتھا جو رسول اللہ a نے قائم کیا تھا، اس کی بنیاد کسی مادر وطن کی فرزندی، کسی نسل انسانی کے انتساب، کسی سیاسی و معاشی مفاد کے اشتراک پر نہ تھی، بلکہ ایک مخصوص عقیدے اور ایک مخصوص طرزِعمل پر تھی۔ اس کو جوڑنے والی طاقت خدا کی محبت اور بندگی تھی نہ کہ اغراض کی محبت اور مادّی مقاصد کی بندگی۔ اس کی طرف لوگوں کو بلانے والا نعرہ اذان کا نعرہ تھا، نہ کہ وطنیت کا نعرہ۔ اس کے اجزاء کو سمیٹ کر ایک بنیاد مرصوص بنانے والی چیز ایک ان دیکھے خدا کی عبادت تھی، نہ کہ کوئی محسوس مرئی علامت۔ اس کو حرکت میں لانے والی چیز رضائے الٰہی کی طلب تھی نہ کہ منافع عاری کی طلب۔ اس میں عمل کی گرمی پھونکنے والی قوّت اعلائے کلمۃ اللہ کی خواہش تھی نہ کہ نسل ووطن کو سر بلند کرنے کی تمنا۔
اس قوم کی نفسیات دنیا سے نرالی ہیں۔ جو چیزیں دنیا کو جمع کرنے و الی ہیں‘ وہ اس قوم کو منتشر کر دینے والی ہیں۔ جو صدائیں اپنے اندر دوسروں کے لیے غیر معمولی کشش رکھتی ہیں‘ وہ اس قوم کے دل میں الٹی نفرت پیدا کر دیتی ہیں۔ جن مرئی علامتوں پر دوسرے گرویدہ ہوتے ہیں‘ مسلمان ان کے لیے کوئی جذبہ عقیدت اپنے اندر نہیں پاتے۔ جن چیزوں میں دوسروں کو گرما دینے کی طاقت ہے‘ وہ ان کے دلوں میں الٹی سردی پیدا کر دینے کا اثر رکھتی ہیں۔ جو چیزیں دوسروں کو عمل پر ابھارنے والی ہیں وہی ان کو میدان عمل سے دور بھگانے والی ہیں۔
سارے قرآن کو اُٹھا کر دیکھ جاؤ، پوری سیرت نبویa پر نظر ڈال لو۔ خلافت راشدہ کے دور سے اس زمانہ تک کی اسلامی تاریخ پڑھ لو۔ تم کو معلوم ہو جائے گا کہ اسلام کی فطرت کیا ہے‘ اور مسلمان قوم کا مزاج کس قسم کا ہے۔
جو قوم اس سوال پر صدیوں سے جھگڑ رہی ہے‘ کہ نبیa پر سلام بھیجتے وقت بھی کھڑا ہونا چاہیے یا نہیں، کیا تم توقع رکھتے ہو‘ کہ وہ ’’بندے ماترم‘‘ کا گیت سننے کے لیے تعظیماً کھڑی ہو گی؟ جس قوم کے دل میں مرئیات سے عقیدت کے بجائے سخت نفرت بٹھائی گئی ہے، کیا تمہیں اُمید ہے‘ کہ وہ کسی جھنڈے کو سر جھکا کر سلامی دے گی؟ جو قوم تیرہ سو برس تک خدا کے نام پر بلائی جاتی رہی ہے، کیا تم سمجھتے ہو‘ کہ اب وہ بھارت ماتا کے نام پر پروانہ وار دوڑی چلی آئے گی؟ جس قوم کے دل میں عمل کی گرمی پیدا کرنے والا داعیہ اب تک محض اعلائے کلمۃ اللہ کا داعیہ رہا ہے، کیا تمہارا گمان ہے‘ کہ اب معدے اور بدن کے مطالبات اس میں حرارت پیدا کریں گے؟ یا کونسلوں کی نشستوں اور ملازمتوں کے تناسب کا سوال اس کے قلب و روح کو گرما دے گا؟ جس قوم کو عقیدے اور عمل کی وحدت پر جمع کیا گیا تھا، کیا تمہارا خیال ہے‘ کہ وہ سیاسی اور معاشی پارٹیوں میں تقسیم ہو کر کوئی طاقتور عملی قوم بن جائے گی؟ تخیل کی بنیادوں پرنظریات کی عمارتیں اٹھانے والے جو چاہیں کہیں، مگر جس کسی نے قرآن اور سنّت سے اسلام کے مزاج کو سمجھا ہے، وہ بادنیٰ تامل یہ رائے قائم کر سکتا ہے‘ کہ مسلمان قوم کی فطرت جب تک بالکل مسخ نہ ہو جائے، وہ نہ تو ان محرکات سے حرکت میں آسکتی ہے‘ اور نہ ان جامعات کے ذریعہ سے جمع ہو سکتی ہے۔ غیر مسلم بلا شبہ ان ذرائع سے جمع ہو جائیں گے‘ اور ان میں حرکت بھی ان محرکات سے پیدا ہو جائے گی، کیونکہ ان کو جمع کرنے اور حرکت میں لانے والی کوئی اور چیز نہیں ہے۔ ان کا مذہب ان کو منتشر کرتا ہے‘ اور صرف وطن کی خاک ہی ان کو جمع کرتی ہے۔ان کے معتقدات ان کے دلوں کو سرد کرنے و الے ہیں، ان میں حرارت صرف معدے ہی کی گرمی سے پیدا ہو سکتی ہے۔ مگر مسلمان جس کو خدا کے نام پر جمع کیا گیا تھا‘ اور جس میں ایمان کی گرمی پھونکی گئی تھی، آج تم اس کو ذلیل مادّی چیزوں کے نام پر جمع نہیں کر سکتے، اور نہ ادنیٰ درجہ کی خواہشات سے اس میں حرارت پیدا کر سکتے ہو۔ اس طریقہ میں اگر تم کو کامیابی نصیب ہو سکتی ہے‘ تو صرف اس وقت جب کہ تم مسلمان کو فطرت اسلام سے ہٹا دو اور اسے بلندیوں سے گرا کر پستیوں میں لے آؤ۔
اس کے معنی یہ نہ سمجھو کہ مسلمان وطن کا دشمن ہے۔ ہرگز نہیں۔ نبی a نے اپنے وطن کی اصلاح و ترقی کے لیے کیا کچھ نہیں کیا؟ خلفائے راشدین نے وطن اور ابنائے وطن کی کیا کچھ خدمت نہ کی؟ بعد کے مسلمان جس جس ملک میں گئے، انہوں نے اس کو جنت بنا کر نہیں چھوڑا؟ غیر مسلم قوموں کے ساتھ فیاضانہ معاملہ کرنے میںکیا کبھی کوئی کوتاہی کی گئی؟ پس اوپر ہم نے جو کچھ کہا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے‘ کہ مسلمان اپنے ملک یا اپنی قوم کے معاشی اور تمدّنی مسائل سے بالکل بے پروا ہے‘ بلکہ ہم یہ بات ذہن نشین کرنا چاہتے ہیں‘ کہ مسلمان کی اصلی قوّت محرکہ یہ چیزیں نہیں ہیں، اس کی جمعیت ان بنیادوں پر قائم نہیں ہوئی ہے، اس میں زندگی کی حرارت پیدا کرنے و الی آگ یہ نہیں ہے۔ وہ طاقتور اور منظم ہونے کے بعد ان سب مسائل کو حل کرنے میں حصہ لے سکتا ہے‘ اور دوسروں سے بڑھ کر حصہ لے سکتا ہے‘ مگر اس کو طاقتور اور منظم بنانے کے ذرائع یہ نہیںہیں بلکہ کچھ اور ہیں۔
مسلم قوم کس طرح بنائی گئی تھی
اب ایک قدم اور آگے بڑھیے۔ یہ دیکھئے کہ رسول اللہ a نے یہ نئی قوم کن طریقوں سے بنائی تھی‘ اور اس میں کن ذرائع سے وحدت اور قوّت عمل پیدا کی تھی۔
جس وقت آنحضرتa اپنی دعوت لے کر اٹھے تھے تو ساری دنیا میں تنہا آپؐ ہی ایک مسلم تھے۔ کوئی آپؐ کا ساتھی‘ اور ہم خیال نہ تھا۔ دنیوی طاقتوں میں سے کوئی طاقت آپؐ کو حاصل نہ تھی۔ گردو پیش جو لوگ آباد تھے۔ ان میں خود سری اور انفرادیت انتہا درجہ کو پہنچی ہوئی تھی۔ ان میں سے کوئی کسی کی بات سننے اور اطاعت کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ وہ نسل اور قبیلہ کی عصبیت کے سوا کسی اور عصبیت کا تصوّر ہی نہ کر سکتے تھے۔ ان کے ذہن ان خیالات اور مقاصد سے دور کا لگاؤ بھی نہ رکھتے تھے‘ جن کی تبلیغ کے لیے رسول اللہ a اُٹھے تھے، اس ماحول اور ان حالات میں کون سی طاقت تھی جس سے ایک تنہا انسان، بے یارو مدد گار اور بے وسیلہ انسان نے ان لوگوں کو اپنی طرف کھینچا؟ کیا آنحضرتؐ نے عربوںکو یہ لالچ دیا تھا‘ کہ میں تم کو زمین کی حکومت دلواؤں گا؟ رزق کے خزانے دلواؤں گا؟ دشمنوں پر فتح اور غلبہ بخشوں گا؟ بیرونی غاصبوں کو نکال باہر کروں گا۔ اور عرب کو ایک طاقت ور سلطنت بنا دوں گا؟ تمہاری تجارت اور صنعت و حرفت کو ترقی دوں گا؟ تمہارے وسائلِ معیشت بڑھاؤں گا اور تمہیں ایک ترقی یافتہ اور غالب قوم بنا کر چھوڑوں گا؟ ظاہر ہے‘ کہ ایسا کوئی لالچ آپؐ نے نہیں دلایا تھا۔ پھر کیا آپؐ نے امیروں کے مقابلہ میں غریبوں کی، اور سرمایہ داروں اور زمین داروں کے مقابلہ میں مزدوروں اور کاشت کاروں کی حمایت کا بیڑا اٹھایا تھا؟ سیرت نبویa گواہ ہے‘ کہ یہ چیز بھی نہ تھی۔ پھر کیا آپؐ نے کوئی سیاسی یا تعلیمی یا تمدّنی یا معاشی یا فوجی تحریک اٹھائی تھی‘ اور اس کی طرف لوگوں کو کھینچنے کے لیے نفسیاتی حربوں سے کام لیا تھا؟ واقعات شاہد ہیں‘ کہ ان میں سے بھی کوئی چیز نہ تھی۔ پھر غور کیجئے‘ کہ آخر وہ کس چیز کی کشش تھی جس نے عربی اور عجمی، امیر اور غریب، آقا اور غلام سب کو آپؐ کی طرف کھینچا؟ دنیا جانتی ہے‘ کہ وہ صرف دو چیزیں تھیں۔ ایک قرآن کی تعلیم۔ دوسرے محمدaکی سیرت۔ لوگوں کے سامنے یہ پیغام پیش کیا گیا تھا اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِكَ بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ۰ۭ{ FR 2905 }
ان کو اس بات پر جمع کیا گیا تھا‘ کہ اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۰ۭ { FR 2906 }
ان کو یہ تعلیم بھی دی گئی تھی‘ کہ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo { FR 2907 }
ان کے سامنے یہ نصب العین رکھا گیا تھا‘ کہ اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ { FR 2908 }
پھر جس شخص نے ان کو یہ د عوت دی تھی اس کا حال یہ تھا‘ کہ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ۔ وہ جو کچھ کہتا تھا سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر خود اس پر عمل کرکے دکھاتا تھا۔ وہ فضیلت اخلاق اور عمل صالح کا مجسمہ تھا‘ اور اس کی زندگی میں راست بازی اور راست روی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
یہی دو چیزیں تھیں جنہوں نے ہر طرف سے لوگوں کو کھینچا اور وہ قوم بنا دی جس کا نام مسلمان ہے۔ نوع انسانی کے مختلف طبقوں اور گروہوں میں سے جن جن لوگوں کے لیے ان دو چیزوں میں کشش تھی، وہ اس مرکز کی طرف کھنچتے چلے گئے‘ اور انہی سے مسلمان قوم وجود میں آئی۔ دوسرے الفاظ میں اس حقیقت کو یوں سمجھئے کہ اسلامی جمعیت نام ہی اس جمعیت کا ہے‘ جو قرآن اور سیرت نبوی کی کشش سے وجود میں آئی ہے۔ جہاں زندگی کے دو اصول اور مقاصد ہوں گے‘ جو قرآن نے پیش کیے ہیں‘ اور جہاں طرزِعمل وہ ہو گا جو محمدa کا تھا‘ وہاں ’’مسلمان‘‘ جمع ہو جائیں گے، اور جہاں یہ دونوں چیزیں نہ ہوں گی‘ وہاں ان لوگوں کے لیے قطعاً کوئی کشش نہ ہو گی‘ جو ’’مسلمان‘‘ ہیں۔
مسلمانوں کی قومی تحریکات کے ناکام ہونے کی وجہ
اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے‘ کہ ہماری قومی تحریکات میں بنیادی نقص کون سا ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمان کسی تحریک کی طرف بھی فوج در فوج نہیں کھنچتے اور داعی کی آوازبہرے کانوں سے سنتے ہیں؟ ان کی فطرت وہ آواز سننا چاہتی ہے‘ اور وہ طرزِعمل دیکھنا چاہتی ہے‘ جس کی کشش نے ان کو ساری دنیا سے الگ ایک قوم بنایا تھا۔ مگر افسوس کہ نہ وہ آواز کسی طرف سے آتی ہے‘ اور نہ وہ طرزِعمل کہیں نظر آتا ہے۔ بلانے والے ان کو ایسے مقاصد کی طرف بلاتے ہیں‘ جو ان کی زندگی کے اصل مقاصد نہیں ہیں۔ کوئی کہتا ہے‘ کہ علّو اور تمکّن فی الارض کی طرف آؤ۔ حالانکہ یہ مسلمان کا نصب العین نہیں ہے‘ بلکہ اپنے نصب العین (اعلائے کلمۃ اللہ) کے لیے اس کی بے غرضانہ جدوجہد کا طبعی نتیجہ ہے۔ کوئی ان کو وطن پرستی کی طرف بلاتا ہے،حالانکہ اسی چیز کو چھوڑ کر تو وہ محمدa کے گرد جمع ہوئے تھے۔ کوئی ان کو نہایت ادنیٰ درجہ کے مادّی فوائد کی طرف بلاتا ہے، حالانکہ مسلمانوں کی نگاہ میں ان کی حیثیت متاع غرور سے زیادہ نہیں۔ پھر جو لوگ مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے اٹھتے ہیں‘ ان کی زندگی میں محمدa کی زندگی کی ادنیٰ جھلک تک نظر نہیں آتی۔ کہیں مکمل فرنگیت ہے۔ کہیں نہرو اور گاندھی کا اتبّاع ہے۔ کہیں جبوں اور عماموں میں سیاہ دل اور گندے اخلاق لپٹے ہوئے ہیں۔ زبان سے وعظ اور عمل میں بدکاریاں، ظاہر میں خدمت دین اور باطن میں خیانتیں، غداریاں اور نفسانی اغراض کی بندگیاں۔ جمہور مسلمین بڑی بڑی اُمیدیں لے کر ہر نئی تحریک کی طرف دوڑتے ہیں۔ مگر مقاصد کی پستیاں اور عمل کی خرابیاں دیکھ کر ان کے دل ٹوٹ جاتے ہیں۔
خیر یہ ایک دوسری داستان ہے۔ اب رسول اللہ a کے طریقِ تنظیم پر غور کیجئے‘ کہ مسلمان قوم کی تنظیم اگر ہو سکتی ہے‘ تو اسی طریق پر ہو سکتی ہے۔
اسلامی تنظیم کے اصول
آنحضرت a نے اسلامی جمعیت اس ڈھنگ پر بنائی تھی‘ کہ پہلے تو آپؐ نے انسانی گروہ میں سے صرف ان لوگوں کو چھانٹ لیا جن کی فطرت میں ایک خالص صداقت اور ایک پاک زندگی کی طرف کھنچنے کی صلاحیّت تھی۔ پھر تعلیم و تربیت کے بہترین ذرائع سے کام لے کر ان میں سے ایک ایک فرد کی اصلاح فرمائی، اس کے دل میں زندگی کا ایک بلند مقصد بٹھا دیا، اور اس کے کیرکٹر میں اتنی مضبوطی پیدا کی کہ وہ اس مقصد کے لیے جم کر جدوجہد کرے ا ور کسی فائدہ کا لالچ یا کسی نقصان کا خوف اسے اس مقصد کی راہ سے نہ ہٹا سکے۔ا س کے بعد ان افراد کو ملا کر ایک جماعت بنا دی تاکہ افراد میں جو کچھ کمزوریاں باقی رہ جائیں، جماعت کی طاقت ان کو دور کر دے۔ اجتماعی ماحول ایسا بن جائے ‘جس میں نیکیاں پرورش پائیں اور برائیاں اُبھر نہ سکیں۔ افراد اپنے مقصدِ حیات کی تکمیل میں ایک دوسرے کے مد گار ہوں،ا ور اجتماعی طاقت سے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس تعمیر کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی ماہر فن انجینئر اینٹوں کے ڈھیر میں سے چھانٹ کر بہترین اینٹیں لے۔ پھر ان کو اس طرح پکائے کہ ایک ایک اینٹ بجائے خود پختہ ہو جائے۔ پھر ان سب کو نہایت عمدہ سیمنٹ سے جوڑ کر ایک مستحکم عمارت بنا دے۔
اس تنظیم کے بڑے بڑے اصول یہ تھے:
(۱) جماعت کے تمام افراد کم از کم دین کے جوہر سے واقف ہوں‘ تاکہ وہ کفرو اسلام میں تمیز کرکے اسلام کے طریقہ پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہ سکیں۔
(۲) اجتماعی عبادات کے ذریعے سے افراد میں اخوت، مساوات اور تعاون کی اسپرٹ پیدا کی جائے۔
(۳) جماعت کے تمدّن و معاشرت میں ایسے امتیازی خصائص اور حدود مقرر کیے جائیں جس سے وہ دوسری اقوام میں خلط ملط نہ ہو سکیں‘ اور باطنی و ظاہر ی دونوں حیثیتوں سے ایک الگ قوم بنے رہیں۔ اسی لیے تشبہ بالا جانب کی سختی کے ساتھ ممانعت کی گئی۔
(۴) تمام اجتماعی ماحول پر امر بالمعروف و نہی عن المنکر چھایا رہے تاکہ جماعت کے دائرہ میں کوئی انحراف اور کوئی بغاوت راہ نہ پا سکے۔ سر کشی کا پہلا اثر ظاہر ہوتے ہی اس کا استیصال کر دیا جائے ا ور منافقین کے ساتھ غلظت اور شدّت کا ایسا برتاؤ ہو‘ کہ یا تو وہ جماعت سے نکل جائیں یا اگر رہیں تو کوئی فتنہ نہ اٹھا سکیں۔
(۵) پوری مسلمان قوم ایک انجمن ہو،اور ہر مسلمان مرد اور عورت کو مجرد اسلامی حق کی بنا پر اس کی رکنیت کا مساویانہ مرتبہ حاصل ہو۔ ایسے تمام انتسابات اور امتیازات کو مٹا دیا جائے‘ جو مسلم اور مسلم میں تفریق کرتے ہوں۔ ہر فرد مسلم کو قومی معاملات میں حصہ لینے اور رائے دینے کا پورا حق حاصل ہو، حتیٰ کہ ایک غلام بھی کسی کو امان دیدے تو وہ پوری قوم کی طرف سے امان ہو۔
(۶) جماعت کے تمام افراد ایک نصب العین پر متحد ہوں‘ اور اس کے لیے جدوجہد اور قربانی کرنے کا جذبہ ان میں موجود ہو۔ ایک گروہ صرف اسی نصب العین کی خدمت کے لیے وقف رہے۔ اور بقیہ افراد جماعت اپنی معاش کے لیے جدوجہد کرنے کے ساتھ ساتھ پہلے گروہ کی ہر ممکن طریقہ سے مدد کرتے رہیں‘ اور مجموعی طور سے پوری جماعت اور اس کے ہر ہر فرد کے دل میں یہ خیال بیٹھا ہوا ہو‘ کہ اس کی زندگی کا اصل مقصود روزی کمانا نہیں‘ بلکہ اسی ایک نصب العین کی خدمت کرنا ہے۔
تنظیم کے یہی اصول تھے‘ جن سے وہ زبردست جماعت پیدا ہوئی‘ جو دیکھتے ہی دیکھتے آدھی دنیا پر چھا گئی۔ اس طریقِ تنظیم کی رفتار ابتداء میں بہت سُست تھی، حتیٰ کہ پندرہ برس تک وہ چند سو سے زیادہ افراد کو اپنے دائرے میں نہ لاسکی۔ مگر اس میں یہ قاعدہ مد نظر رکھا گیا تھا‘ کہ توسیع (expansion) کے ساتھ استحکام (consolidation) بھی ہوتا رہے، اس لیے یہ نظامِ جماعت جتنا پھیلتا گیا اتنا ہی مضبوط ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ جب ایک معتد بہ جماعت اس طریق پر منظم ہو گئی‘ تو وہ اتنی طاقت کے ساتھ اٹھی کہ دنیا کی کوئی چیز اس کے سیل رواں کو نہ روک سکی۔ قرآن مجید میں اس کی چھوٹی سی ابتداء پھر تدریجی ترقی، پھر غیر معمولی شان و شوکت کے ساتھ اس کے ظہور کو کیسے بلیغ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــــَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰي سُوْقِہٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِہِمُ الْكُفَّارَ۰ۭ { FR 2909 }
مسلمان قوم کے مزاج کے ساتھ یہی طریق تنظیم مناسبت رکھتا ہے۔ یہ قوم تو پہلے ہی سے ایک جمعیت ہے۔اس جمعیت کے اندر کوئی الگ جمعیت الگ نام سے بنانا اور مسلمان اور مسلمان کے درمیان کسی دوری یا کسی ظاہری علامت یا کسی خاص نام یا کسی خاص مسلک سے فرق و امتیاز پیدا کرنا اور مسلمانوں کو مختلف پارٹیوں میں تقسیم کرکے ان کے اندر گروہ بندیوں اور فرقوں کی مصیبتیں پیدا کرنا یہ دراصل مسلمانوں کو مضبوط کرنا نہیں ہے،بلکہ ان کو اورکمزور کرنا ہے۔ یہ تنظیم نہیں تفرقہ پردازی اور گروہ بندی ہے۔ لوگوں نے آنکھیں بند کرکے جمعیت سازی کے یہ طریقے اہلِ مغرب سے لے لیے ہیں۔ وہ مسلمان قوم کے مزاج کو موافق نہیں آتیں۔ اس قوم کو اگر کوئی چیز راس آسکتی ہے‘ تو ایک ایسی جمہوری تحریک ہے‘ جو پوری قوم کو ایک انجمن سمجھ کر شروع کی جائے‘ اور جس میں توسیع و استحکام کے اسی تناسب کو ملحوظ رکھا جائے ‘جس کو رسول اللہ ﷺ نے ملحوظ رکھا تھا۔ آپ اگر کچے اور کمزور مسالے سے ریت کی سطح پر ایک عمارت کھڑی کر دیں گے‘ اور اس سے قلعے کا کام لینا چاہیں گے‘ تو لامحالہ وہ سیلِ حوادث کی ایک ٹکر بھی نہ جھیل سکے گی۔
خ خ خ