Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مقدّمہ
حصہ اوّل : ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ایک تاریخی جائزہ
تقدیم{ FR 2891 }
باب ۱: آنے والا انقلاب اور مسلمان
باب ۲ : حالات کا جائزہ اور آئندہ کے امکانات
باب ۳ : ہمارا سیاسی نصب ُالعین
باب ۴ : راہِ عمل
حصہ دوم : اِصلاح کا راستہ قرآن و سنّت کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے صحیح راہِ عمل
باب ۵ : مسائلِ حاضرہ میں
باب ۶ اسلام … ایک جامع تہذیب دین و دنیا کی علیحدگی کا جاہلی تصوّر اور ہماری قومی سیاست میں اس کے اثرات
باب ۷ : شُبہات اور جوابات
حصہ سوم : کانگریس، متحدہ قومی تحریک اور مسلمان
تقدیم
باب ۸: مسلمانوں کی غلط نمائندگی اوراس کے نتائج
باب ۹: آزادی اور قومی تشخّص
باب ۱۰ : قوم پرستوں کے نظریات
باب ۱۱ : آزادی کی فوج کے مسلمان سپاہی
باب ۱۲ : حصول آزادی کا طریقہ
باب ۱۳ : جنگ ِ آزادی کا مطمح نظر
باب ۱۴ : قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟
باب ۱۵: بنیادی حقوق
باب ۱۶ : متحدہ قومیّت اور اسلام
باب ۱۷ : کیا ہندستان کی نجات نیشل ازم میں ہے؟
باب ۱۸ : اسلامی قومیّت کا حقیقی مفہوم 
باب ۱۹ : جنگِ آزادی کی نوعیت
باب ۲۰ : کانگریس اور مسلمان
حصہ چہارم : ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کے حل کی راہیں تین تجاویز
باب ۲۱ : مسلمان کیا کریں؟ تین تجاویز

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

باب ۴ : راہِ عمل

اب ہم کو اس سوال پر غور کرنا ہے‘ کہ ہندوستان میں اسلامی قومیّت کا وہ نصب العین جس کو ہم نے پچھلے صفات میں بیان کیا تھا‘ کس طریقہ سے حاصل ہو سکتا ہے۔ جہاں تک ہم کو معلوم ہے‘ اس نصب العین سے کسی ’’‘مسلم‘‘ فرد یا گروہ کو اختلاف نہیں۔ اختلاف جو کچھ بھی ہے‘ ا س امر میں ہے‘ کہ ہمارے لیے صحیح راستہ کون سا ہے؟ اب ہمیں ان مختلف راستوںپر ایک تنقیدی نگاہ ڈالنی چاہیے‘ جو ہمارے سامنے ہیں۔ اس کے بعد راہِ راست خود بخود واضح ہو جائے گی۔
ہندستان میں مسلمانوں کی دو حیثیتیں
ہندستان میں ہماری دو حیثیتیںہیں۔ ایک حیثیت ہمارے ’’ہندستانی‘‘ ہونے کی ہے، اور دوسری حیثیت ’’مسلمان‘‘ ہونے کی۔
پہلی حیثیت میں ہم اس ملک کی تمام دوسری قوموں کے شریک ِحال ہیں۔ ملک قلاش اور فاقہ کشی میں مبتلا ہو گا‘ تو ہم بھی مفلس اور فاقہ کش ہو ں گے۔ ملک کو لُوٹا جائے گا تو ہم بھی سب کے ساتھ لُوٹے جائیں گے۔ ملک میں جور و ظلم کی حکومت ہو گی‘ تو ہم بھی اسی طرح پامال ہوں گے‘ جس طرح ہمارے اہلِ وطن ہوں گے۔ ملک پر غلامی کی وجہ سے بہ حیثیت مجموعی جتنی مصیبتیں نازل ہوں گی، جتنی لعنتیں برسیں گی، ان سب میں ہم کو برابر کا حصہ ملے گا۔ اس لحاظ سے ملک کے جتنے سیاسی و معاشی مسائل ہیں‘ وہ سب کے سب ہمارے اور دوسری اقوامِ ہند کے درمیان مشترک ہیں۔ جس طرح ان کی فلاح و بہبود ہندستان کی آزادی کے ساتھ وابستہ ہے، اسی طرح ہماری بھی ہے۔ سب کے ساتھ ہماری بہتری بھی اس پر منحصر ہے‘ کہ یہ ملک ظالموں کے تسلّط سے آزاد ہو۔ اس کے وسائل ثروت اسی کے باشندوں کی ترقی اور بہتری پر صرف ہوں۔ اس کے بسنے والوں کو اپنے افلاس، اپنی جہالت، اپنی اخلاقی پستی اور اپنی تمدّنی پسماندگی کا علاج کرنے میں اپنی قوتوں سے کام لینے کے پورے مواقع حاصل ہوں، اور کوئی جابر قوم ان کو اپنی ناجائز اغراض کے لیے آلۂ کار بنانے پر قادر نہ ہو۔
دوسری حیثیت میں ہمارے مسائل کچھ اور ہیں‘ جن کا تعلق صرف ہم ہی سے ہے۔ کوئی دوسری قوم ان میں ہماری شریک نہیں ہے۔ اجنبی استیلاء نے ہمارے قومی اخلاق کو، ہماری قومی تہذیب کو، ہمارے اصولِ حیات کو، ہمارے نظامِ جماعت کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ ڈیڑھ سو برس کے اندر غلامی ان تمام بنیادوں کو گھن کی طرح کھا گئی ہے‘ جن پر ہماری قومیّت قائم ہے۔ تجربے نے ہم کو بتادیا ہے‘ اور روز روشن کی طرح اب ہم اس حقیقت کو دیکھ رہے ہیں‘ کہ اگر یہ صورتحال زیادہ مدت تک جاری رہے‘ تو ہندستان کی اسلامی قومیّت رفتہ رفتہ گھل گھل کر طبعی موت مر جائے گی‘ اور یہ برائے نام ڈھانچہ جو باقی رہ گیا ہے یہ بھی نہ رہے گا، اس حکومت کے اثرات ہم کو اندر ہی اندر غیر مسلم بنائے جا رہے ہیں۔ ہمارے دل و دماغ کی تہوں میں وہ جڑیں سُوکھتی جا رہی ہیں‘جن سے اسلامیت کا درخت پیدا ہوتا ہے۔ ہم کو وہ حشیش پلایا جا رہا ہے‘ جو ہماری ماہیت کو بدل کر خود ہمارے ہی ہاتھوں سے ہماری مسجد کو منہدم کرا دے۔ جس رفتار کے ساتھ ہم میں یہ تغیّرات ہو رہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے ایک مبصر اندازہ لگا سکتا ہے‘ کہ اس عمل کی تکمیل اب بہت قریب آلگی ہے۔ زیادہ سے زیادہ تیسری چوتھی پشت تک پہنچتے پہنچتے ہمارا سوادِاعظم خود بخود غیر مسلم بن جائے گا‘ اور شاید گنتی کے چند نفوس اس عظیم الشان قوم کے مقبرے پر آنسو بہانے کے لیے رہ جائیں گے۔ پس ہماری قومیّت کا بقاوتحفظ اس پر منحصر ہے‘ کہ ہم اس حکومت کے تسلّط سے آزاد ہوں‘ اور اس نظامِ اجتماعی کو از سرِنو قائم کریں جس کے مٹ جانے ہی کی بدولت ہم پر مصائب نازل ہو رہے ہیں۔
آزادی وطن کے دو راستے
ہماری یہ دونوںحیثیتیں باہم متلازم ہیں۔ ان کو نہ عقلاً منفک کیا جا سکتا ہے نہ عملاً۔
یہ بالکل صحیح ہے‘ کہ آزادی ان دونوں حیثیتوں سے ہماری مقصود ہے۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں‘ کہ ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے جتنے مسائل ہمارے اور تمام دوسرے باشندگانِ ہند کے درمیان مشترک ہیں‘ ان کو حل کرنے کے لیے مشترک طور پر ہی جدوجہد کرنی چاہیے‘ اور یہ بھی سرا سر درست ہے‘ کہ مسلم ہونے کی حیثیت سے جو آزادی ہم چاہتے ہیں وہ بھی بہر طور ہمیں اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے‘ جب کہ ہمیں ہندستانی ہونے کی حیثیت سے آزادی حاصل ہو جائے‘ لیکن یہ تماثل اور توافق جو بادی النظر میں دکھائی دیتا ہے‘ اس میں ایک بڑا دھوکا چھپا ہوا ہے‘ اور درحقیقت اسی مقام پر بہت سوں نے دھوکہ کھایا ہے۔
غائر نگاہ سے آپ دیکھیں گے‘ تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ کوئی سیدھی سڑک نہیں ہے‘ جس پر آپ آنکھیں بند کرکے بے تکان چلے جائیں۔ ٹھیک اسی مقام پر جہاں آپ آکر ٹھہرے ہیں‘ ایک دوراہا موجود ہے۔ دو سڑکیں بالکل مختلف سمتوںمیں جا رہی ہیں‘ اور آپ کو قدم اٹھانے سے پہلے عقل و تمیز سے کام لے کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے‘ کہ جانا کدھر ہے؟
(ا) وطن پرستی
آزادی وطن کا ایک راستہ وہ ہے‘ جس کو ہم صرف ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے اختیار کر سکتے ہیں۔ اس راہ کے بنانے والے اور اس پر ہندستانیوں کو چلانے والے وہ لوگ ہیںجن کے پیشِ نظر ’’وطنی قومیّت‘‘ کا مغربی تصوّر ہے، اور اس تصوّر کی تہ میں انسانیت کا ہندو تصوّر گہرا جما ہوا ہے۔ ان کا منتہائے مقصود یہ ہے‘ کہ ہندوستان میں مختلف قومی امتیازات جو مذہب اور تہذیب کی تفریق پر قائم ہیں‘ مٹ جائیں‘ اور سارا ملک ایک قوم بن جائے۔ پھر اس ’’قوم‘‘ کی زندگی کا جو نقشہ ان کے سامنے ہے‘ وہ اشتراکیت اور ہندویت سے مرکب ہے، اور اس میں مسلمانوں کے اصولِ حیات کی رعایت تو درکنار، اس کے لیے کوئی ہمدردانہ نقطۂ نظربھی ان کے پاس نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ رعایت جس کی گنجائش وہ اس ’’ہندی قومیّت‘‘ میں نکال سکتے ہیں وہ یہ ہے‘ کہ جن معاملات کا تعلق انسان اور خدا کے مابین ہے ان میں ہر گروہ کو اعتقاد اور عمل کی آزادی حاصل رہے۔ مگر جو معاملات انسان اور انسان کے درمیان ہیں ان کو وہ خالص وطنیت کی بنیاد پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ منظم مذہب (organized religion) یعنی ایسا مذہب ان کے نزدیک اصولا قابلِ اعتراض ہے‘ جو اپنے متبعین کو ایک مستقل قوم بناتا ہو‘ اور اس کو تعلیم، معیشت، معاشرت، تمدّن، اخلاق اور تہذیب میں دوسرے مذاہب کے متبعین سے الگ ایک ڈھنگ اختیار کرنے اور ایک ضابطہ کی پابندی کرنے پر مجبور کرتا ہو۔ وہ ہندستان کے موجودہ حالات کی رعایت ملحوظ رکھ کر کچھ مدت تک اس قسم کے ’’منظم‘‘مذہب کو ایک محدود اور دھندلی شکل میں باقی رکھنا گوارا کر لیں گے‘ چنانچہ اسی گوارا کر لینے کے انداز میں انہوں نے ہندوستان کے مختلف فرقوں کو ان کی زبان اور ’’پرسنل لا‘‘ کے تحفظ کا یقین دلایا ہے۔ مگر وہ کسی ایسے نظام کو برداشت نہیں کر سکتے‘ جو اس ’’منظم مذہب‘‘ کو مزید طاقت اور مستقل زندگی عطا کرنے والا ہو۔ بلکہ اس کے برعکس وہ ہندستانِ جدید کی تعمیر اس طرز پر کرنا چاہتے ہیں‘ جس میں یہ ’’منظم مذہب‘‘ رفتہ ر فتہ مضمحل ہو کر طبعی موت مر جائے‘ اور ہندستان کی ساری آبادی ایک ایسی قوم بن جائے‘جس میں سیاسی پارٹیوںاور معاشی گروہوں کی تفریق تو چاہے کتنی ہی ہو، مگر تعلیم و تہذیب، تمدّن و معاشرت، اخلاق و آداب اور تمام دوسری حیثیات سے سب ایک رنگ میں رنگے ہوئے ہوں۔ا ور وہ رنگ فطرۃً وہی ہونا چاہیے‘ جو اس تحریک کے محرکوں کا رنگ ہے۔
یہ راستہ جس کی خصوصیات کو آج ایک اندھا بھی دیکھ سکتا ہے، ہم صرف اسی وقت اختیار کر سکتے ہیں‘ جب کہ ہم اپنی دوسری حیثیت کو قربان کرنے پر راضی ہو جائیں۔ اس راستہ پر چل کر ہم کو وہ آزادی حاسل نہیں ہو سکتی‘ جو ہمیں مسلمان ہونے کی حیثیت سے درکار ہے۔ بلکہ اس راستے میں سرے سے ہماری یہ حیثیت ہی گم ہو جاتی ہے۔ اس کو اختیار کرنے کے معنی یہ ہیں‘ کہ انگریزی حکومت کے ماتحت جس انقلاب کا عمل ڈیڑھ سو برس سے ہماری قوم میں ہو رہا ہے‘ وہ ہندستانی حکومت کے ماتحت اور زیادہ شدّت و سرعت کے ساتھ پایۂ تکمیل کو پہنچے اور اس کی تکمیل میں ہم خود مددگار بنیں۔اور وہ اتنا مکمل انقلاب ہو‘ کہ پھر اس کے ردّعمل کا کوئی امکان نہ رہے‘ انگریزی حکومت کے اثر سے مغربی تہذیب میں‘ خواہ ہم کتنے ہی جذب ہو جائیں، بہرحال انگریزی قومیّت میںجذب نہیں ہو سکتے۔ بہرحال ہمارا ایک الگ اجتماعی وجود باقی رہتا ہے‘ جس کا پھر اپنی سابقہ صورت پر واپس ہونا ممکن ہے۔ لیکن یہاں تو صورتحال ہی دوسری ہے۔ ایک طرف ہمارے ہر ’’امتیازی نشان‘‘ حتیٰ کہ ہمارے احساسِ قومیّت تک کو فرقہ پرستی (communalism) قرار دے کر اس کے خلاف نفرت انگیز پراپیگنڈا کیا جاتا ہے‘ جس کے معنی یہ ہیں‘ کہ مستقل جماعت (community) کی حیثیت سے ہمارا وجود ناقابلِ برداشت ہے۔ دوسری طرف ہماری قوم کے ان لوگوں کو قوم پرست (nationalist) کہا جاتا ہے‘ جو ہاتھ جوڑ کر نمستے کرتے ہیں، ’’بند ماترم‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں، مندروں میں پہنچ کر عبادت تک میں حصہ لے گزرتے ہیں، اپنی صورتوںاور لباسوںمیں پورا ہندویت کا رنگ اختیار کرتے ہیں، اور مسلمان قوم کے مفاد کا نام تک لیتے ہوئے انہیں ڈر لگتا ہے‘ کہ مبادا ان پر فرقہ پرستی (communalism) کا الزام نہ آجائے‘ جو ان کے نزدیک کفر کے الزام سے زیادہ بدتر ہے۔ تیسری طرف ہم سے صاف کہا جاتا ہے‘ کہ ایک جماعت بن کر نہ آؤ، بلکہ افراد بن کر آؤ‘ اور سیاسی پارٹیوں میں، مزدور اور سرمایہ دار کی تفریق میں، زمیندار اور انسان کی تقسیم میں، زروالے اور بے زر کے تنازع میں منقسم ہو جاؤ، بالفاظِ دیگر اس رشتے کو خود ہی کاٹ دو‘ جو مسلم اور مسلم میں ہوتا ہے‘ اور اس رشتہ میں بندھ جاؤ جو ایک پارٹی کے مسلم اور غیر مسلم ممبروں میں ہوتا ہے۔ا س کا نتیجہ جو کچھ ہے اسے سمجھنے کے لیے کچھ زیادہ عقل و فکر کی ضرورت نہیں۔اس کا کُھلا ہوا نتیجہ یہ ہے‘ کہ تحریک ِآزادیِ وطن کے دوران ہی میں ہمارا اجتماعی وجود فنا بھی ہو جائے، اور ہم جدا جدا قطروں کی شکل اختیار کرکے جدید نیشنلزم کی خاک میں جذب بھی ہو جائیں۔ پھر بحیثیت مسلمان قوم کے ہم نشاۃ ثانیہ کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔
جو لوگ صرف ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے آزادی چاہتے ہیں‘ اور جن کی نگاہ میں آزادی کے منافع اس قدر قیمتی ہیں‘ کہ اپنی اسلامی حیثیت کو وہ بخوشی ان پر قربان کر سکتے ہیں، وہ اس راستہ پر ضرور جائیں۔ مگر ہم یہ تسلیم کرنے سے قطعی انکار کرتے ہیں‘ کہ کوئی سچا مسلمان ایسی تحریک ِآزادیِ وطن میں جان بوجھ کر حصہ لینا گوارا کرے گا۔
(۲) مسلمانوں کی آزادی
آزادی ِوطن کے لیے دوسرا راستہ صرف وہی ہو سکتا ہے‘ جس میں کسی باشندہ ہند کے ہندوستانی ہونے کی حیثیت اور اس کے مسلم یا ہندو یا عیسائی یا سکھ ہونے کی حیثیت میں کوئی تناقض نہ ہو، جس میں ہر گروہ کو دونوں حیثیتوں سے آزادی حاصل ہو، جس کی نوعیت یہ ہو‘ کہ مشترک وطنی مسائل کی حد تک تو امتیاز مذہب و ملت کا شائبہ تک نہ آنے پائے مگر جُدا گانہ قومی مسائل میں کوئی قوم دوسری قوم سے تعرض نہ کر سکے، اور ہر قوم کو آزاد ہندستان کی حکومت میں اتنی طاقت حاصل ہو‘ کہ وہ اپنے ان مسائل کو خود حل کرنے کے قابل ہو۔
جیسا کہ ہم بار بار کہہ چکے ہیں، ہندستان کی آزادی کے لیے جنگ کرنا ہمارے لیے قطعاً ناگزیر ہے‘ لیکن ہم جس قوم کی آزادی کے لیے لڑ سکتے ہیں، اور لڑنا فرض جانتے ہیں وہ یہی ہے۔ رہی وہ آزادی جو ’’وطن پرستوں‘‘ کے پیشِ نظر ہے، تو اس کی حمایت میں لڑنا کیا معنی، ہم تو اسے انگریزوں کی غلامی سے بھی زیادہ ملعون سمجھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اس کے علمبردار مسلمانوںکے لیے وہی کچھ ہیں‘ جو کلائیو اور ولزلی تھے‘ اور ان کے پیرو مسلمانوںکی حیثیت بھی میر جعفر اور میر صادق سے مختلف نہیں۔ گو صورتیں اور حالات مختلف ہیں، مگر دشمنی اور غداری کی نوعیت میں کوئی فرق نہیں۔{ FR 2901 }
کانگریس کی طرف بلانے والوںکی غلطی
اب سوال یہ ہے‘ کہ یہ آزادی جس کو ہم اپنا مقصود بتا رہے ہیں‘ کس طرح حاصل ہو سکتی ہے؟ مسلمانوں میں آج کل دو گروہ نمایاں ہیں‘ جو مختلف تجویزیں پیش کر رہے ہیں۔
ایک گروہ کہتا ہے‘ کہ آزادی وطن کے لیے جو جماعت جدوجہد کر رہی ہے اس کے سامنے اپنے مطالبات پیش کرو‘ اور جب وہ انہیں منظور کر لے تو اس کے ساتھ شریک ہو جاؤ۔
دوسرا گروہ کہتا ہے‘ کہ بلا کسی شرط کے اس آزادی کی تحریک میں حصہ لو۔
ہمارے نزدیک یہ دونوں گروہ غلطی پر ہیں۔ پہلے گروہ کی غلطی یہ ہے‘ کہ وہ کمزوروں کی طرح بھیک مانگنا چاہتا ہے۔ بالفرض اگر اس نے مطالبہ کیا اور انہوں نے مان بھی لیا تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ جس قوم میں خود زندہ رہنے اور اپنی زندگی اپنے بل بُوتے پر قائم رکھنے کی صلاحیّت نہیں، اس کو دوسرے کب تک زندہ رکھ سکیں گے؟ رہا دوسرا گروہ تو وہ آزادی کے جوش میں اپنی قوم کی ان بنیادی کمزوریوں کوبھول جاتا ہے‘ جنہیں گزشتہ صفحات میں ہم تفصیل کے ساتھ بیان کر چکے ہیں۔ اگر ثابت کر دیا جائے‘ کہ وہ کمزوریاں واقعی نہیں ہیں، اور مسلمان درحقیقت اس قدر طاقتور ہیں‘ کہ جدید نیشنلزم سے ان کی قومیّت اور قومی تہذیب کو کسی قسم کا خطرہ نہیں، تو ہم اپنی رائے واپس لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اگر یہ ثابت نہیں کیا سکتا‘ اور ہم یقین کے ساتھ کہتے ہیں‘ کہ نہیں کیا جا سکتا، تو پھر صاف سن لیجئے کہ اس مرحلہ پر مسلمانوں کو کانگریس کی طرف دعوت دینا دراصل ان کو خودکشی کا مشورہ دینا ہے۔ محض جذبات سے اپیل کر کے آپ حقائق کو نہیں بدل سکتے۔ جس مریض کی آدھی جان نکل چکی ہے اس کے سامنے سپہ سالار بن کر آنے سے پہلے آپ کو حکیم بن کر آنا چاہیے۔ پہلے اس کی نبض دیکھئے اور اس کے مرض کا علاج کیجئے، پھر اس کی کمر سے تلوار بھی باندھ لیجئے گا۔ یہ کہاں کی ہوش مندی ہے‘ کہ مریض تو بستر پر پڑا ایڑیاں رگڑ رہا ہے‘ اور آپ اس کے سرہانے کھڑے خطبہ دے رہے ہیں‘ کہ اُٹھ بہادر اپنی طاقت کے بل پر کھڑا ہو، باندھ کمر سے تلوار اور چل میدان کارزار میں!
یہ دونوںراستے جنہوں نے اختیار کیے ہیں، ان میں متعدّد حضرات ایسے ہیں‘ جن کے لیے ہمارے دل میں غایت درجہ کا احترام موجود ہے۔ ان کے خلوصِ ایمان میں ہم کو ذرّہ برابر شک نہیں۔ مگر ان کی جلالتِ شان کا پورا پورا ادب ملحوظ رکھتے ہوئے ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں‘ کہ وہ اس وقت مسلمانوں کی غلط رہنمائی کر رہے ہیں‘ اور اس غلط رہنمائی کا سبب یہ ہے‘ کہ انہوں نے مسلمانوں کی موجودہ پوزیشن اور مستقبل کے امکانات پر کافی غور و خوض نہیں کیا ہے۔
چند غور طلب حقائق
ہمارے رہنماؤں کو قدم اٹھانے سے پہلے حسب ذیل حقائق کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔
(۱) مسلمانوں کی حیاتِ قومی کو برقرار رکھنے کے لیے وہ چیز بالکل ناگزیر ہے‘ جس کو آج کل سیاسی اصطلاح میں سلطنت کے اندر ایک سلطنت کہا جاتا ہے۔ ان کی سوسائٹی جن بنیادوں پر قائم ہے وہ استوار ہی نہیں رہ سکتیں جب تک کہ خود ان کی اپنی جماعت میں کوئی قوتِ ضابطہ اور ہیئت حاکمہ موجود نہ ہو۔ ایسی ایک مرکزی طاقت کے بغیر کسی غیر مسلم نظامِ حکومت میں رہنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے‘ کہ ان کا اجتماعی نظام رفتہ رفتہ مضمحل ہو کر فنا ہو جائے‘ اور وہ بحیثیت ایک مسلم قوم کے زندہ ہی نہ رہ سکیں۔
(۲) اٹھارویں صدی کے سیاسی انقلاب نے ہم کو اس چیز سے محروم کر دیا‘ اور اس کی بدولت جو اضمحلال ہماری سوسائٹی میں رونما ہوا‘ اسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ڈیڑھ سو برس تک مسلسل اور پیہم انحطاط کی طرف لے جانے کے بعد یہ انقلاب ہم کو ایک ایسے مقام پر چھوڑ رہا ہے‘ جہاں ہماری جمعیت پراگندہ، ہمارے اخلاق تباہ، ہماری سوشل لائف ہر قسم کی بیماریوں سے زار و نزار اور ہمارے دین و اعتقاد تک کی بنیادیں متزلزل ہو چکی ہیں‘ اور ہم موت کے کنارے پر کھڑے ہوئے ہیں۔
(۳) اب ایک دوسرے انقلاب کی ابتداء ہو رہی ہے‘ جس میں دو قسم کے امکانات ہیں۔ اگر ہم نے اسی غفلت سے کام لیا‘ جس سے گزشتہ انقلاب کے موقع پر کام لیا تھا، تو یہ دوسرا انقلاب بھی اُسی سمت میں جائے گا‘ جس میں پہلا انقلاب گیا تھا‘ اور یہ اس نتیجہ کی تکمیل کر دے گا‘ جس کی طرف ہمیں اس کا پیش رو لے جا رہا تھا۔ اور اگر ہم غیر مسلم نظامِ حکومت کے اندر ایک مسلم نظامِ حکومت (خواہ وہ محدود پیمانہ ہی پر ہو) قائم کرنے میںکامیاب ہو گئے، تو انقلاب اپنا رخ بدل دے گا اور ہمیں اپنے نظمِ اجتماعی کو پھر سے مضبوط کر لینے کا ایک موقع ہاتھ آجائے گا۔
(۴) سلطنت کے اندر ایک سلطنت قائم کرنا کسی سمجھوتے اور کسی میثاق کے ذریعے سے ممکن نہیں۔ کوئی غیر مسلم سیاسی جماعت، خواہ وہ کیسی ہی فیاض اور وسیع المشرب ہو، اس کے لیے بخوشی آمادہ نہیں ہو سکتی، نہ اس کو بحث و مباحثہ کی طاقت سے کسی دستوری قانون میں داخل کرایا جا سکتا ہے۔ا ور بالفرض ہو بھی جائے‘ تو ایسی غیر معمولی چیز جس کی پشت پر کوئی طاقت ور رائے عام اور منظم قوّت موجود نہ ہو‘ عملی سیاست میں نقش بر آب سے زیادہ پائیدار نہیں ہوتی۔ درحقیقت یہ چیز اگر کسی ذریعہ سے پائیدار بنیادوں پر قائم ہو سکتی ہے‘ تو وہ صرف یہ ہے‘ کہ ہم خود اپنے نظام کی قوّت اور اپنے ناقابلِ تسخیر متحدہ ارادے سے اس کو بالفعل قائم کر دیں اور یہ ایک ایسا حاصل شدہ واقعہ بن کر ہندستان کے آئندہ نظامِ حکومت کا جزو بن جائے ‘جس کو کوئی طاقت واقعہ سے غیر واقعہ نہ بنا سکے۔
(۵) یہ کام اس طرح انجام نہیں پا سکتا کہ ہم سرِ دست انقلاب کو اسی رفتار پر جانے دیں‘ اور اس کی تکمیل ہونے کے بعد جب ہندستان میں مکمل طور پر ایک غیر مسلم نظامِ حکومت قائم ہو جائے، اس وقت سلطنت کے اندر ایک سلطنت بنانے کی کوشش کریں۔ اس چیز کو صرف وہی شخص قابلِ عمل خیال کر سکتا ہے‘ جس کو عملی سیاست کی ہوا تک چُھو کر نہ گزری ہو۔ ایک ہوش مند آدمی تو بادنیٰ تامل یہ سمجھ لے گا کہ انقلاب کا رخ صرف دوران انقلاب ہی میں بدلا جا سکتا ہے‘ اور سلطنت کے اندر سلطنت صرف اسی صورت میں بن سکتی ہے۔ جب کہ سلطنت کی تعمیر کے دوران میں اس کی بِنا ڈال دی جائے۔
(۶) جس قسم کی تنظیم اس مقصد کے لیے درکار ہے‘ وہ کانگریس کے فریم میں داخل ہو کر نہیں کی جا سکتی۔ کانگریس ایک منظم جماعت ہے‘ اور ہر منظم جماعت میں یہ خصوصیت ہوتی ہے‘ کہ وہ افراد کو اپنے دائرے میں لے کر اپنی فطرت اور اپنے مخصوص نفسیات کے مطابق ڈھال لیتی ہے۔ مسلمانوں میں اگر مضبوط اسلامی کیرکٹر اور طاقت ور اجتماعی نظم موجود ہو تو البتہ وہ کانگریس کے فریم میں داخل ہو کر اس کے نفسیات اور اصول و مقاصد میں تغیّر پیدا کر سکتے ہیں۔ لیکن اس وقت وہ جن کمزوریوں میں مبتلا ہیں (جن کی تشریح پہلے کی جا چکی ہے) ان کولیے ہوئے منتشر افراد کی صورت میں ان کا ادھر جانا تو صرف ایک ہی نتیجہ پیدا کر سکتا ہے‘ اور وہ یہ ہے‘ کہ ہمارے جمہور پر کانگریسی نفسیات کا غلبہ ہو جائے، وہ اکابر کانگریس کی رہنمائی تسلیم کرکے ان کے اشارات پر چلنے لگیں‘ اور اسلامی مقاصد کے لیے مسلمانوں میں ایک رائے عام تیار کرنے کے جو امکانات ابھی باقی ہیں وہ بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں۔ ہر شخص جس کو خدا نے دیدئہ بینا عطا کیا ہے اس بات کو بآسانی سمجھ سکتا ہے‘ کہ نیشنلسٹ قسم کے مسلمان اگر کانگریس کے اندر کوئی بڑی قوّت پیدا کر لیں‘ اور حکومت کے اقتدار میں انہیں کوئی بڑا حصہ مل جائے تب بھی وہ مسلمانوں کے لیے کچھ مفید نہ ہوں گے، بلکہ غیر مسلموں سے کچھ زیادہ ہی نقصان رساں ثابت ہوں گے۔ اس لیے کہ وہ ہر معاملہ میں پالیسی اور طریق کار تو وہی اختیار کریں گے‘ جو ایک غیر مسلم کرے گا، مگر ایسا کرنے کے لیے ان کو ان سے زیادہ آزادی اور جرأت حاصل ہو گی‘ جو ایک غیر مسلم کو حاصل ہو سکتی ہے اس لیے کہ بد قسمتی سے ان کے نام مسلمانوں کے سے ہوں گے۔
اسلامی جماعت کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری تدابیر
مذکورہ بالا حقائق کو پیشِ نظر رکھ کر جب آپ غور کریں گے‘ تو معلوم ہو گا کہ ہمارے لیے اب صرف ایک ہی راستہ باقی ہے، اور وہ یہ ہے‘ کہ ہم ہندستان کی آزادی کے لیے جنگ میں شریک ہونے سے پہلے اپنی کمزوریوں کو دور کریں‘ اور اپنے اندر وہ طاقت پیدا کریں جس سے ہندستان کی آزادی کے ساتھ مسلمان کی آزادی کا حصول بھی ممکن ہو۔اس غرض کے لیے ہم کو اپنی قوتیں جن کاموں پر صرف کرنی چاہئیں وہ حسب ذیل ہیں:
(۱) مسلمانوں میں وسیع پیمانہ پر اصولِ اسلام اور قوانین شریعت کا علم پھیلایا جائے‘ اور ان کے اندر کم از کم اتنی واقفیت پیدا کر دی جائے‘ کہ وہ اسلام کے حدود کو پہچان لیں‘ اور یہ سمجھ سکیں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم کن خیالات اور کن عملی طریقوںکو قبول کر سکتے ہیں‘ اور کن کو قبول نہیں کر سکتے۔ یہ نشرو تبلیغ صرف شہروں ہی میں نہیں ہونی چاہیے بلکہ دیہات کے مسلمانوں کو شہری مسلمانوں سے زیادہ اس کی ضرورت ہے۔
(۲) علم کی اشاعت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو عملاً احکامِ اسلامی کا متبع بنانے کی کوشش کی جائے‘ اور خصوصیت کے ساتھ ان ارکان کو پھر سے استوار کیا جائے، جن پر ہمارے نظامِ جماعت کی بنیاد قائم ہے۔
(۳) مسلمانوں کی رائے عام کی اس طرح تربیت کیا جائے‘ کہ وہ غیر اسلامی طریقوں کے رواج کو روکنے پر مستعد ہو جائیں، اور ان کا اجتماعی ضمیر (social consciences) احکام اسلامی کے خلاف افراد کی بغاوت کو برداشت کرنا چھوڑ دے۔ اس سلسلہ میں سب سے زیادہ جس چیز کے استیصال پر توجہ صرف کرنے کی ضرورت ہے‘ وہ تشبہ بالا جانب ہے، کیونکہ یہی وہ چیز ہے‘ جو ہم کو غیروںمیں جذب ہونے کے لیے تیار کرتی ہے۔
(۴) ہمیں اپنی اجتماعی قوّت اتنی مضبوط کرنی چاہیے‘ کہ اپنی جماعت کے ان غداروں اور منافقوں کا استیصال کر سکیں‘ جو اپنے دل کے چھپے ہوئے کفر و نفاق کی وجہ سے یا ذاتی اغراض کی خاطر اسلامی مفاد کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
(۵) ہمیں اس امر کی کوشش کرنی چاہیے‘ کہ جمہور مسلمین کی قیادت کا منصب نہ انگریز کے غلاموں کو حاصل ہو سکے، نہ ہندو کے غلاموں کو، بلکہ ایک ایسی جماعت کے قبضہ میں آجائے‘ جو ہندستان کی کامل آزادی کے لیے دوسری ہمسایہ قوموں کے ساتھ اشتراکِ عمل پر تو دل سے آمادہ ہو، مگر اسلامی مفاد کو کسی حال میں قربان کرنے پر آمادہ نہ ہو۔
(۶) مسلمانوں میں اس قدر اتحاد خیال اور اتحادِ عمل پیدا کر دیا جائے‘ کہ وہ تنِ واحد کی طرح ہو جائیں‘ اور ایک مرکزی طاقت کے اشاروں پر حرکت کرنے لگیں۔
اس وقت مسلمانوں کی جو حالت ہے‘ اس کو دیکھتے ہوئے شاید بعض لوگ یہ خیال کریں گے‘ کہ ایسا ہونا محال ہے۔ خود میرے متعدّد دوستوںنے کہا کہ تم خیالی پلاؤ پکا رہے ہو، یہ قوم اس قدر گر چکی ہے‘ کہ اب کوئی اعجازی قوّت ہی اس کو سنبھالے گی، مگر میں سمجھتا ہوں کہ ابھی اس قوم کو سنبھالنے کا موقع، آخری موقع باقی ہے۔ ہمارے خواص خواہ کتنے ہی بگڑ چکے ہوں، مگر ہمارے عوام میں ابھی ایمان کی دبی ہوئی ایک چنگاری موجود ہے‘ اور وہی ہمارے لیے آخری شُعاعِ اُمید ہے۔ قبل اس کے کہ وہ بُجھے، ہم اس سے بہت کچھ کام لے سکتے ہیں‘ بشرطیکہ چند مردِمومن ایسے اُٹھ کھڑے ہوں‘ جو خلوص نیت کے ساتھ خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے ہوں۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ
کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ ہم کانگریس سے تصادم چاہتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ ہندستانی ہونے کی حیثیت سے تو ہمارا مقصد وہی ہے‘ جو کانگریس کا ہے (یعنی ملک کی آزادی) اور ہم یہ سمجھتے ہیں‘ کہ اس مشترک مقصد (آزادی) کے لیے ہم کو بالآخر کانگریس کے ساتھ تعاون{ FR 2902 } کرنا ہے۔ لیکن سر دست ہم اس سے صرف اس لیے علیحدہ رہنا چاہتے ہیں‘ کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے‘ اپنے مفاد کا تحفظ کرنے کے لیے‘ ہم کو جس اخلاقی قوّت اور اجتماعی نظم کی ضرورت ہے‘ وہ ہم میں نہیں ہے۔ سب سے پہلے ہم اپنی کمزوریوںکو دور کرنا چاہتے ہیں‘ اور اس غرض کے لیے ہم کو ایسی فضا درکار ہے‘ جو مزاحمت اور تصادم سے پاک ہو۔ پس اگر کانگریس ہم سے تعرض کیے بغیر اپنا کام جاری رکھے تو ہمیں اس سے لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں‘ بلکہ اس کے برعکس ہماری ہمدردیاں مشترک ہندستانی مقاصد کی حد تک اس کے ساتھ رہیں گی۔ البتہ اگر وہ ہماری غیر منظم جماعت کو اپنے نظم میں جذب کرنے کی کوشش کرے گی،ا ور براہِ راست ہمارے عوام میں ’’وطن پرستی‘‘ اور ’’اشتراکیت‘‘ کی تبلیغ شروع کردے گی‘ اور اس غرض کے لیے ہماری قوم کے ان منافقوں سے کام لے گی‘ جن کی حیثیت ہماری نگاہ میں دوسری قسم کے منافقوں (یعنی انگریزی اقتدار کے ایجنٹوں) سے کچھ بھی مختلف نہیں‘ تو اس صورت میںہم کو مجبورا اس سے لڑنا پڑے گا، اور اس لڑائی کا تمام تر الزام خود اسی پر عاید ہو گا۔
پنڈت جواہر لال نہرو اپنی موجودہ پالیسی کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے یہ دلیل پیش کرتے ہیںکہ اپنے مسلک کی تبلیغ کرنا اور مخالف خیالات رکھنے والوں کو تبدیلِ خیال (conversion) پر آمادہ کرنے کی کوشش کرنا ہر جماعت کا حق ہے۔ ہم کہتے ہیں‘ کہ اگر آپ کو یہ حق حاصل ہے‘ تو ہم کو بھی جوابی تبلیغ کا حق پہنچتا ہے۔ وطن پرستی اور اشتراکیت کی تبلیغ ہماری نگاہ میں شدّھی کی تبلیغ سے کچھ بھی مختلف نہیں۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہے‘ اور دونوں کی مزاحمت ہمارے لیے ناگزیر ہے۔ اگر آپ اس تصادم کے لیے تیار ہیں‘ اور اس کو ہندستان کے مستقبل کے لیے مفید سمجھتے ہیں‘ تو یہ آپ کی سخت نادانی ہے۔
خ خ خ

شیئر کریں