اسلام کے سیاسی نظریے ہی میں نہیں، اُس کے پورے نظام حیات میں انسان کے خلیفۃ اللہ ہونے کو ایک مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ پچھلے ابواب میں اسلام کے سیاسی فلسفے پر جو گفتگو کی گئی ہے اس میں بھی اس تصور کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ لغت اور قرآن کے استعمالات کی روشنی میں اس لفظ کے معنی کی پوری پوری تحقیق کی جائے۔ یہ ضرورت اس لیے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ایک گروہ اس بات کی کوشش کر رہا ہے کہ لوگوں کو باور کرائے کہ خلافت کے معنی نیابت نہیں، بلکہ جانشینی ہے اور قرآن میں اس لفظ سے مراد: انسان کو اختیارات کی تفویض اور دنیا کے انصرام کے لیے حقِ نیابت نہیں، بلکہ زمین پر انسان کی آمد سے پہلے جو مخلوق یہاں بستی تھی اس کی جانشینی ہے۔ یہ استدلال منکرینِ حدیث کی طرف سے خاص طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اس گروہ کے ایک سرخیل نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ آدم علیہ السلام کو جو خلافت، اللہ تعالیٰ نے عطا کی تھی وہ اس معنی میں نہ تھی کہ اللہ نے ان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنایا تھا‘ بلکہ اس معنی میں تھی کہ ان کو اپنے سے پہلے ساکنانِ زمین کا جانشین بنایا گیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ خلافت کے معنی صرف جانشینی کے ہیں‘ اس لیے خلافتِ الٰہیہ کا تصور بے معنی ہے۔ اس نادر استدلال کو متجددین‘ منکرین حدیث اور لادینیت کے علم بردار بار بار پیش کرتے رہے ہیں اور چونکہ اب بھی کبھی کبھی یہ آوازیں سنائی دیتی ہیں اس لیے اس مسئلے کا صاف ہو جانا بہت ضروری ہے۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے ترجمان القرآن میں اس طرزِ استدلال پر گرفت کی تھی۔ ایک دوسرے اہلِ قلم نے مولانا کے جواب پر تعاقب کیا‘ جس کے جواب میں مولانا مودودیؒ نے یہ مضمون لکھا جو ماہنامہ ترجمان القرآن کے ذی القعدہ ۱۳۵۲ھ، مطابق فروری ۱۹۳۵ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ (مرتب)