Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مقدّمہ
حصہ اوّل : ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ایک تاریخی جائزہ
تقدیم{ FR 2891 }
باب ۱: آنے والا انقلاب اور مسلمان
باب ۲ : حالات کا جائزہ اور آئندہ کے امکانات
باب ۳ : ہمارا سیاسی نصب ُالعین
باب ۴ : راہِ عمل
حصہ دوم : اِصلاح کا راستہ قرآن و سنّت کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے صحیح راہِ عمل
باب ۵ : مسائلِ حاضرہ میں
باب ۶ اسلام … ایک جامع تہذیب دین و دنیا کی علیحدگی کا جاہلی تصوّر اور ہماری قومی سیاست میں اس کے اثرات
باب ۷ : شُبہات اور جوابات
حصہ سوم : کانگریس، متحدہ قومی تحریک اور مسلمان
تقدیم
باب ۸: مسلمانوں کی غلط نمائندگی اوراس کے نتائج
باب ۹: آزادی اور قومی تشخّص
باب ۱۰ : قوم پرستوں کے نظریات
باب ۱۱ : آزادی کی فوج کے مسلمان سپاہی
باب ۱۲ : حصول آزادی کا طریقہ
باب ۱۳ : جنگ ِ آزادی کا مطمح نظر
باب ۱۴ : قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟
باب ۱۵: بنیادی حقوق
باب ۱۶ : متحدہ قومیّت اور اسلام
باب ۱۷ : کیا ہندستان کی نجات نیشل ازم میں ہے؟
باب ۱۸ : اسلامی قومیّت کا حقیقی مفہوم 
باب ۱۹ : جنگِ آزادی کی نوعیت
باب ۲۰ : کانگریس اور مسلمان
حصہ چہارم : ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کے حل کی راہیں تین تجاویز
باب ۲۱ : مسلمان کیا کریں؟ تین تجاویز

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

باب ۳ : ہمارا سیاسی نصب ُالعین

کسی راستہ پر چلنے سے پہلے منزلِ مقصود کا تعین ضروری ہے۔ ظاہر ہے‘ کہ حرکت اور سفر کو بذات خود تو مقصود نہیں بنایا جا سکتا۔ کم از کم ذی عقل و ہوش انسان کے لیے تو یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ محض چلنے کی خاطر چلیں‘ اور منتہائے نظر کوئی نہ ہو۔ لہٰذا مسلمانوں کے تمام سوچنے والے لوگوں کو سب سے پہلے یہ طے کرنا چاہیے‘ کہ ان کا منتہائے نظریا نصب العین کیا ہے۔ اس کے بعد طریق کار اور راہِ عمل کا انتخاب زیادہ آزاد ہو جائے گا۔ کیونکہ جب وہ مقام متعین ہو‘ جس تک ہمیں جانا ہے‘ تو وہ راستہ بڑی آسانی سے دریافت ہو سکتا ہے‘ جو اس مقام تک پہنچنے کا سب سے زیادہ سیدھا اور سب سے زیادہ اقرب راستہ ہو۔
عام طو رپر آزاد خیال مسلمان اپنی ’’قوم پرستی‘‘ کی نمائش کرنے کے لیے کہتے ہیں‘ کہ نصب العین ہندستان کی کامل آزادی ہے۔ لیکن یہ بات عموماً بغیر سوچے سمجھے کہہ دی جاتی ہے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہماری منزلِ مقصود محض آزادی ہی نہیں ہے‘ بلکہ ایسی آزادی ہے‘ جس کی وجہ سے ہندستان میں اسلام نہ صرف قائم رہے‘ بلکہ عزت اور طاقت والا بن جائے۔ آزادیٔ ہند ہمارے نزدیک مقصود بالذات نہیں ہے‘ بلکہ اصل مقصد کے لیے ایک ضروری اور ناگزیر وسیلہ ہونے کی حیثیت سے مقصود ہے۔ ہم صرف اس آزادی کے لیے لڑنا چاہتے ہیں، بلکہ صحیح تو یہ ہے‘ کہ اپنے مذہب کی رو سے لڑنا فرض جانتے ہیں‘ جس کا نتیجہ یہ ہو‘ کہ یہ ملک کلیۃً نہیں تو ایک بڑی حد تک دارالاسلام بن جائے۔ لیکن اگر آزادیٔ ہند کا نتیجہ یہ ہو‘ کہ یہ جیسا دارالکفر ہے ویسا ہی رہے‘ یا اس سے بدتر ہو جائے‘ تو ہم بلا کسی مداہنت کے صاف صاف کہتے ہیں‘ کہ ایسی آزادی وطن پر ہزار مرتبہ لعنت ہے۔ اور اس کی راہ میں بولنا، لکھنا، روپیہ صرف کرنا، لاٹھیاں کھانا اور جیل جانا سب کچھ حرام، قطعی حرام ہے۔
یہ ایسی صاف بات ہے‘ جس میں دو رائیں ہونے کی گنجائش ہی نہیں۔ خصوصاً جو شخص قرآن اور سنّت پر نظر رکھتا ہے‘ اور منافق نہیں ہے‘ وہ تو اس کے برحق ہونے میں چون و چرا نہیں کر سکتا۔
ہندستان میں آزادیٔ مسلم کا کم سے کم مرتبہ
منزلِ مقصود کا انتہائی مقام یعنی ہندوستان کو کلیۃً دارالاسلام بنانا تو اتنا بلند مقام ہے کہ آج کل کا کم ہمت مسلمان اس کا قصد کرنے کی جرأت اپنے اندر نہیں پاتا۔ خیر جانے دیجئے اس کو… اس سے فرو تر درجہ میں جس مقصد کے لیے ہمیں لڑنا ہے‘ وہ کم سے کم یہ ہے‘ کہ ہندوستان نہ تو بیرونی کفار کے تسلّط میں رہے‘ اور نہ اندرونی کفارکے تسلّط میں چلا جائے، بلکہ آزاد ہو کر شبہ دارالاسلام بن جائے۔
اب آگے بڑھنے سے پہلے اس بات کو سمجھ لیجئے کہ شبہ دارالاسلام سے کیا مراد ہے۔اگر کوئی شخص اس کے معنی یہ سمجھتا ہے‘ کہ مسلمانوں کے سے نام رکھنے والوں کو اسمبلیوںاور کونسلوں کی نشستیں اور سرکاری عہدے مل جائیں‘ اور ہندستان کے معاشی ثمرات میں ان کو بھی متناسب حصہ ملے، اور آزاد ہندستان کی تمام عمرانی ترقیات سے (خواہ وہ ترقیات کسی صورت میں ہوں) انہیںبلا امتیاز مستفید ہونے کاموقع ملتا رہے، تو ہم کہیں گے کہ وہ غلطی پر ہے، ہم جس کو شبہ دارالاسلام سمجھتے ہیں، اور جو چیز درحقیقت اس نام سے موسوم ہو سکتی ہے، وہ یہ کہ ہندستان کی حکومت میں ہم محض ’’ہندستانی‘‘ ہونے کی حیثیت سے نہیں‘ بلکہ ’’مسلمان‘‘ ہونے کی حیثیت سے حصہ دار ہوں، اور ہمارا حصہ اس قدر طاقت ور ہو کہ
(۱) ہم اپنی قوم کی تنظیم اصولِ اسلامی کے مطابق کر سکیں۔ یعنی ہم کو حکومت کے ذریعہ سے اتنی قوّت حاصل ہو‘ کہ ہم مسلمانوں کے لیے اسلامی تعلیم و تربیت کا انتظام کر سکیں، ان کے اندر غیر اسلامی طریقوں کے رواج کو روک سکیں، ان پر اسلامی احکام جاری کر سکیں، اور اپنی قوم میں جو اصلاحات ہم خود اپنے طریق پر نافذ کرنے کی ضرورت سمجھیں‘ ان کو خود اپنی طاقت سے نافذ کر سکیں۔ مثلاً زکوٰۃ کی تحصیل، اوقاف کی تنظیم، قضائے شرعی کا قیام، قوانینِ معاشرت کی اصلاح وغیرہ۔
(۲) ہم اس ملک کے نظم و نسق اور اس کی تمدّنی و معاشی تعمیر جدید میں اپنا اثر اس طرح استعمال کر سکیں کہ وہ ہمارے اصول تمدّن و تہذیب کے خلاف نہ ہو۔ یہ ظاہر ہے‘ کہ وسیع پیمانہ پر تمام ملک کی اجتماعی زندگی اور معاشی تنظیم اور تدبیر مملکت کی مشین جو شکل بھی اختیار کرے گی‘ اس کا اثر دوسری قوموں کی طرح ہماری قوم پر بھی پڑے گا۔ اگر یہ تعمیر جدید اس نقشہ پر ہو‘ جو اپنے اصول و فروع میں کلیۃً ہماری تہذیب کی ضد ہے‘ تو ہماری زندگی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیںرہ سکتی۔ ایسی صورت میں ہمارے لیے ناگزیر ہو جائے گا‘ کہ یا تو ہم تمدّن و معیشت کے اعتبار سے غیر مسلم بن جائیں‘ یا پھر ہماری حیثیت اس ملک میں تمدّنی و معاشی اچھوتوں کی سی ہو کر رہ جائے۔ا س نتیجہ کو صرف اسی طرح روکا جا سکتا ہے‘ کہ ہند جدید کی تشکیل پر ہم اپنا اثر کافی قوّت کے ساتھ ڈال سکیں۔
(۳) ہندستان کی سیاسی پالیسی میں ہمارا اتنا اثر ہو‘ کہ اس کی طاقت کسی حال میں بیرون ہند کی مسلمان قوموں کے خلاف استعمال نہ کی جا سکے۔
کانگریس کے ’’بنیادی حقوق‘‘ ہمارے منتہائے نظرنہیںہو سکتے
یہ مقصد جس کی ہم نے توضیح کی ہے وہ کم سے کم چیز ہے‘ جس کے لیے ہم کو لڑنا چاہیے۔ مدافعت کا پہلو صرف کمزور اختیار کرتے ہیں‘ اور ان کا آخری انجام شکست ہے۔ اگر آپ اپنا مقصد صرف ان حقوق کے حصول کو بناتے ہیں‘جن کا اطمینان کانگریس نے اپنے ’’بنیادی حقوق‘‘ والے ریزولیوشن میں دلایا ہے‘ تو آپ دھوکے میں ہیں۔آپ کی تہذیب، زبان، پرسنل لا اور مذہبی حقوق کا تحفظ بھی (جسے آپ کافی سمجھے بیٹھے ہیں) دراصل اس کے بغیر ممکن نہیں‘ کہ آپ فارورڈ پالیسی اختیار کر کے حکومت کی تشکیل میں طاقت ور حصہ دار بننے کی کوشش کریں۔ اس میں اگر آپ نے غفلت کی‘ اور حکومت کا اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں چلا گیا‘ جو مسلمان نہیںہیں‘ تو یقین رکھیے کہ کوئی دستور آپ کو من حیث المسلم ہلاک ہونے سے نہ بچا سکے گا۔ انگریزی حکومت نے بھی آپ کے بہت سے حقوق تسلیم کر رکھے ہیں۔ مگر غور کیجئے وہ کیا چیز ہے‘ جس نے آپ کو خود اپنے حقوق سے دست بردار کرا دیا؟ انگریز نے آپ سے یہ کبھی نہیں کہا کہ اپنی زبان میں لکھنا، پڑھنا، بولنا سب چھوڑ دو، زکوٰۃ نہ دو، شراب پیو، اور اپنے مذہب کے سارے احکام کو نہ صرف بالائے طاق رکھ دو،بلکہ ان کا مذاق تک اڑاؤ۔ پھر کس چیز نے آپ کی قوم کے لاکھوںکروڑوں افراد کو ایک صدی کے اندر اپنے دین و ایمان سے عملاً منحرف کر ڈالا؟ انگریز نے آپ سے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا تھا‘ کہ اپنی معاشرت بدل دو، اپنا لباس بدل دو، اپنے مکانوں کے نقشے بدل دو، اپنے آادب و اخلاق بدل دو، اپنی صورتیں بگاڑ لو، اپنے بچوں کو انگریز بناؤ، اپنی عورتوں کو میم صاحب بناؤ، اپنے تمدّن اور اپنی تہذیب کے سارے اصول چھوڑ کر پوری زندگی ہمارے نقشے پر ڈھال لو۔ پھر وہ کون سی چیز ہے‘ جس نے آپ سے یہ سب کچھ کرا ڈالا؟ ذرا دماغ پر زور ڈال کر سوچئے، کیا اس کا سبب غیر مسلم اقتدار کے سوا اور بھی کچھ ہے؟ ڈھائی تین لاکھ انگریز چھ ہزار میل دور سے آتے ہیں۔ آپ سے الگ تھلگ رہتے ہیں۔ قصداً آپ کے اندرونی معاملات اور آپ کے تمدّنی و معاشرتی مسائل میں دخل دینے سے پرہیز کرتے ہیں۔ پھر بھی ان کے اقتدار کایہ اثر ہوتاہے‘ کہ بیرونی جبر سے نہیں،بلکہ اندرونی انقلاب سے آپ کی کایا پلٹ جاتی ہے‘ اور آپ خود بخود اپنے ان بنیادی‘ اور فطری حقوق تک سے دست بردار ہو جاتے ہیں‘جن کو کوئی حکومت اپنی رعایا سے نہیں چھینتی اور نہیں چھین سکتی۔ اب ذرا اندزہ لگائیے کہ اگر آزاد ہندستان کی حکومت غیر اسلامی نقشہ پر بن گئی‘ اور اس کا اقتدار ان ہندستانیوںکے ہاتھ میں چلا گیا‘ جو مسلمان نہیں ہیں، تو اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ وہ انگریزوں کی طرح قلیل التعداد بھی نہیں، آپ سے الگ تھلگ رہنے والے بھی نہیں، اور پھر غیر ملکی بھی نہیںہیں کہ سیاسی پالیسی ان کو تمدّنی و معاشرتی مسائل میں دخل دینے سے روکے۔ ان کے اقتدار میں آپ کے اندرونی تغیّر و انقلاب کا کیا حال ہو گا‘ اور دستور مملکت کی کون کون سی دفعات آپ کو اپنے حقوق کی پامالی سے روکیں گی؟
مسلمانوں کے لیے صرف ایک راستہ ہے
پس جیساکہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں، مسلمانوں کے لیے ایسی آزادی وطن کی خاطر لڑنا تو قطعی حرام ہے‘ جس کا نتیجہ انگلستانی غیر مسلموں سے ہندوستانی غیر مسلموں کی طرف اقتدارِ حکومت کا انتقال ہو۔ پھر ان کے لیے یہ بھی حرام ہے‘ کہ وہ اس انتقال کے عمل کو بیٹھے ہوئے خاموشی سے دیکھتے رہیں۔ اور ان کے لیے یہ بھی حرام ہے‘ کہ اس انتقال کو روکنے کی خاطر انگلستانی غیر مسلموں کا اقتدار قائم رکھنے میں معاون بن جائیں۔ ا سلام ہم کو ان تینوں راستوںپر جانے سے روکتا ہے۔ اب اگر ہم مسلمان رہنا چاہتے ہیں۔ اور ہندستان میں اسلام کا وہ حشر دیکھنے کے لیے تیار نہیں‘ جو اسپین اور سسلی میں ہو چکا ہے‘ تو ہمارے لیے صرف ایک ہی راستہ باقی ہے، اور وہ یہ ہے‘ کہ ہم آزادی ہند کی تحریک کا رخ حکومت ِکفر کی طرف سے حکومت ِحق کی طرف پھیرنے کی کوشش کریں۔ اور اس غرض کے لیے ایک ایسی سرفروشانہ جنگ پر کم بستہ ہو جائیں‘ جن کا انجام یا کامیابی ہو یا موت
یا تن رسد بجاناں یا جاں زتن برآید{ FR 2900 }
ہم آزادی ہند کے مخالف نہیں‘ بلکہ ہر آزادی خواہ سے بڑھ کر اس کے خواہش مند ہیں۔ اور اس کے لیے جنگ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ لیکن وطن پرست کے نصب العین سے ہمارا نصب العین مختلف ہے۔ وہ صرف ایسی آزادی چاہتا ہے‘ جس کا نتیجہ ’’ہندستانی‘‘ کی نجات ہو‘ اور ہم وہ آزادی چاہتے ہیں‘ جس کا نتیجہ ’’ہندستانی‘‘ کے ساتھ ’’مسلم‘‘ کی نجات بھی ہو۔
خ خ خ

شیئر کریں