Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مقدّمہ
حصہ اوّل : ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ایک تاریخی جائزہ
تقدیم{ FR 2891 }
باب ۱: آنے والا انقلاب اور مسلمان
باب ۲ : حالات کا جائزہ اور آئندہ کے امکانات
باب ۳ : ہمارا سیاسی نصب ُالعین
باب ۴ : راہِ عمل
حصہ دوم : اِصلاح کا راستہ قرآن و سنّت کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے صحیح راہِ عمل
باب ۵ : مسائلِ حاضرہ میں
باب ۶ اسلام … ایک جامع تہذیب دین و دنیا کی علیحدگی کا جاہلی تصوّر اور ہماری قومی سیاست میں اس کے اثرات
باب ۷ : شُبہات اور جوابات
حصہ سوم : کانگریس، متحدہ قومی تحریک اور مسلمان
تقدیم
باب ۸: مسلمانوں کی غلط نمائندگی اوراس کے نتائج
باب ۹: آزادی اور قومی تشخّص
باب ۱۰ : قوم پرستوں کے نظریات
باب ۱۱ : آزادی کی فوج کے مسلمان سپاہی
باب ۱۲ : حصول آزادی کا طریقہ
باب ۱۳ : جنگ ِ آزادی کا مطمح نظر
باب ۱۴ : قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟
باب ۱۵: بنیادی حقوق
باب ۱۶ : متحدہ قومیّت اور اسلام
باب ۱۷ : کیا ہندستان کی نجات نیشل ازم میں ہے؟
باب ۱۸ : اسلامی قومیّت کا حقیقی مفہوم 
باب ۱۹ : جنگِ آزادی کی نوعیت
باب ۲۰ : کانگریس اور مسلمان
حصہ چہارم : ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کے حل کی راہیں تین تجاویز
باب ۲۱ : مسلمان کیا کریں؟ تین تجاویز

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

باب ۲۱ : مسلمان کیا کریں؟ تین تجاویز

یہ تمام بحث جو اس تفصیل کے ساتھ پچھلے صفحات میں کی گئی ہے اس کا مقصد یہ نہیں ہے‘ کہ ہم مسلمانوں کو ان کے غیر مسلم ہمسایوں سے لڑانا چاہتے ہیں، یا یہ بات ان کے دل میں بٹھانا چاہتے ہیں‘ کہ اپنے ہم وطنوں کے ساتھ ان کے اشتراکِ عمل کی کوئی صورت نہیں ہے،یا یہ کہ ہم ان کو نفس آزادی ہند کا مخالف بنانے کی فکر میں ہیں‘ محض اس خوف سے کہ ہندو یہاں کثیر التعداد ہیں‘ اور وہ ہم کو کھا جائیں گے۔کچھ لوگ سمجھ بوجھ کی کمی کے سبب سے، اور کچھ دوسرے لوگ ہوشیاری کی زیادتی کے باعث‘ ہمارے دلائل سن کر بے صبری کے ساتھ اسی نوعیت کے شبہات پیش کرنے لگتے ہیں۔لیکن ہمارا مدعا دراصل کچھ اور ہے‘ جس کی طرف اپنے مقدّمہ میں ہم پہلے ہی اشارہ کر چکے ہیں‘ اور اب ذرا زیادہ تفصیلی صورت میں اسے پیش کرتے ہیں۔
اصل مسئلہ
اس وقت ہندستان میں ہمارے سامنے اصلی سوال یہ نہیں ہے‘ کہ ہمیں اپنی ہمسایہ قوم کے ساتھ اشتراکِ عمل کرنا چاہیے یا نہیں۔ ہم آزادی وطن کے لیے جدوجہد کریں یا معطل ہو کر بیٹھے رہیں۔ ہمسایہ قوموں کے ساتھ مل کر چلیں یا لڑ کر گزر کریں۔اس باب میں ظاہر ہے‘ کہ دورائیں نہیںہو سکتیں۔ کم از کم کوئی ذی ہوش آدمی تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ مسلمان یہاں تمام دوسری قوموں سے قطع تعلق کرکے بھی رہ سکتے ہیں، یا یہ کہ انہیں آزادی کی ضرورت نہیں ہے، یا یہ کہ ہمسایوں کے درمیان تعلقات کی تلخی اور آئے دن کی سر پھٹول اور اجنبی حکمرانوں کا اس سے فائدہ اٹھانا کوئی مرغوب چیز ہے۔ اسی طرح ہمارے سامنے اصلی سوال یہ بھی نہیں ہے‘ کہ اس ملک کے نظامِ حکومت کا ارتقا جمہوریت کے راستہ پر ہو یا کسی دوسرے راستہ پر۔ کوئی خرد مند نفس جمہوریت کی مخالفت نہیں کر سکتا‘ اور نہ یہ کہہ سکتا ہے‘ کہ یہاں بادشاہی، یا امرا گردی (ارسٹاکریسی) یا اور کسی طرز کی حکومت ہونی چاہیے۔ درحقیقت جو سوال ہمارے لیے ایک مدت سے پریشان کن بنا ہوا ہے‘ اور روز بروز زیادہ پریشان کن بنتا جا رہا ہے وہ یہ ہے‘ کہ گزشتہ ستر اسی سال سے ہندستان میں انگریزوں کی غلط رہنمائی و فرمانروائی اور ہندوؤں کی خوش نصیبی و خود غرضی کے سبب سے نظامِ حکومت کا نشوو ارتقاء واحد قومیّت کے مفروضے پر جمہوری طرز ادارہ کی صورت میںہو رہا ہے۔ نفس جمہوریت کو اور اس جمہوری طرز ادارہ کو جو واحد قومیّت کے مفروضہ پر مبنی ہو، ایک دوسرے سے خلط ملط نہ کرنا چاہیے۔ دونوں میں زمین و آسمان کا بل ہے‘ اور ایک سے اختلاف کرنے کے معنی یہ نہیں ہیں‘ کہ ہم دوسرے سے اختلاف کر رہے ہیں۔ اب حقیقت نفس الامری تو یہ ہے‘ کہ یہاں واحد قومیّت موجود نہیں ہے‘ اور واحد قومیّت جن بنیادوں پر تعمیر ہو سکتی ہے وہ بھی موجود نہیںہیں۔ لیکن یہ فرض کر لیا گیا ہے‘ کہ ہم ہندو، مسلمان، اچھوت، سکھ، عیسائی وغیرہ، سب ایک جغرافی نام اور ایک سیاسی نظام رکھنے والے ملک میں پیدا ہونے اور رہنے سہنے کی وجہ سے ایک قوم ہیں لہٰذا ہمارے درمیان جمہوریت کا یہ قاعدہ جاری ہو سکتا ہے‘ اور ہونا چاہیے‘ کہ ہم میں سے جو جماعت کثیر التعداد ہواسی کی مرضی کے مطابق حکومت چلے۔ اسی نظریہ کی بنا پر دستور حکومت بنایا گیا ہے‘ اور آئندہ جو دستوری ارتقا ہونے و الا ہے اس کے لیے یہی راستہ متعین کر دیا گیا ہے۔ انگریز اپنے نزدیک اس کو صحیح سمجھتا ہے‘ اور اس کے پاس طاقت ہے‘ جس کے بل پر وہ ہندستان کو اس راستہ پر لیے جا رہا ہے۔ ہندو اپنے لیے اس کو سرا سر مفید پاتاہے‘ اور وہ قوم پرستانہ جوش کے ساتھ اس پر جانے کے لیے آمادہ ہے۔ اس صورتحال نے اس کے لیے ہندو قوم پرستی اور ہندوستانی وطن پرستی، دونوں کو ایک کر دیا ہے۔ وہ کہتا ہے‘ کہ وطن کی سچی محبت کا تقاضا یہی ہے‘ کہ اس کو آزادی اور خود مختاری ایسے ہی جمہوری نظام کی شکل میں حاصل ہو۔ ہندو قوم پرستی کے جتنے حوصلے اس کے سینے میں فطری طور پر پیدا ہوتے ہیں‘وہ بھی سب کے سب اسی ایک چیز میں پورے ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا وہ اس میں نہ تو کوئی قباحت محسوس کرتا ہے، نہ اس امر کی کوئی وجہ ہے‘ کہ وہ کوئی قباحت محسوس کرے، اور نہ اس کے لیے یا اس کے سرپرست کے لیے ان لوگوں کے احساسات کو سمجھنا آسان ہے‘ جو اس میںقباحت پاتے ہیں۔ اپنے سرپرست کے ساتھ اس کی کشاکش جو کچھ بھی ہے صرف اس امر میں ہے‘ کہ یہ اس راستہ پر جلدی بڑھنا چاہتا ہے‘ اور دور تک پہنچ جانا چاہتا ہے، اور وہ اس کی خواہش کو پورا کر دینے میں تامل کررہا ہے۔مگر ہمارا معاملہ بالکل برعکس ہے، ہمارے لیے اس نظام میں قباحت ہے‘ اور اس کی مزید ترقی میں مضرت ہے‘ اور اس کی تکمیل میں ہلاکت ہے۔ ہندو کے بر خلاف ہمارا حال یہ ہے‘ کہ اس نظام میں ہمارے قومی حوصلے پورے نہیں ہوتے بلکہ ان کاگلا گھٹ جاتا ہے، ان کی جڑ کٹ جاتی ہے، اس لیے کہ ہم شمار میں کم ہیں‘ اور یہ نظام جو کچھ دیتا ہے ان کو دیتا ہے‘ جو شمار میں زیادہ ہوں۔ جو کچھ یہ دیتا ہے اگر ہم اسے لینا چاہیں تو لازم آتا ہے‘ کہ اپنی قومی خودی کو خود مٹا دیں، اور اگر ہم اپنی خودی کو باقی رکھنا چاہیں تو لازم آتا ہے‘ کہ اپنی قومی خودی کو مٹا دیں، اور اگر ہم اپنی خودی کو باقی رکھنا چاہیں تو یہ ہمیں کچھ نہیں دیتا، جس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے‘ کہ دستوری ارتقا کے ساتھ ساتھ تمام طاقت دوسروں کے ہاتھ میں چلی جائے‘ اور وہ بزور ہماری خودی کو مٹائیں۔ اس صورت حال نے ہم کو ایسی جگہ لاکر کھڑا کر دیا ہے‘ جہاں ہمیں صرف یہ اختیار دیا جاتا ہے‘ کہ خود کشی اور سزائے موت میں سے کسی چیز کو منتخب کر لیں۔ ہمارے سامنے زندگی اور آزادی پیش ہی نہیں کی جاتی بلکہ صرف یہ چیز پیش کی جاتی ہے‘ کہ یا تو اپنے وجود کی خود نفی کر دو، یا پھر اپنے آپ کو سپرد کر دو تاکہ نفی کرنے کی یہ خدمت دوسرے انجام دیں۔پس جو سوال ہم کو حل کرنا ہے وہ یہ ہے‘ کہ یہ چکر جس میں لاکر ہم پھنسا دئیے گئے ہیں، اس سے نکلنے کی بھی کوئی صورت ہے‘ یا نہیں؟
مسلمان ایک قوم
دوسری قلیل التعداد قوموں کی پوزیشن کیا ہے؟ اس کا فیصلہ ہم نہیں کر سکتے۔ یہ ان کا اپنا کام ہے‘ کہ اس کو سمجھیں اور رائے قائم کریں کہ واحد قومیّت پر جمہوری نظام کی تعمیر کے منطقی اور واقعی نتائج انہیں قبول ہیں یا نہیں۔ ہم صرف اپنی پوزیشن کو پوری طرح سمجھ سکتے ہیں‘ اور اسی کے متعلق ٹھیک طور پر کہہ سکتے ہیں۔ ہم ایک مستقل قوم ہیں‘ جس کی اجتماعی زندگی ایک مخصوص اخلاقی و تمدّنی قانون پر مبنی ہے۔ا کثریت کی قوم میں اور ہم میں اساسی اور اصولی اختلافات ہیں۔ اس کے ا خلاقی و تمدّنی اصول ہمارے اصولوں سے مختلف ہیں۔ جب تک یہ اختلاف باقی ہے، یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ ہم اور وہ من کل الوجوہ ایک ہو جائیں۔ جن امور کو مشترک کہا جاتا ہے ان میں بھی تفصیلات پر پہنچ کر ہمارے اور ان کے درمیان نقطۂ نظر کا، مقاصد اور ضروریات کا، اصولوں اور طریقوں کا اختلاف پیدا ہو جاتا ہے، مثلاً تعلیم کو لیجئے۔ جہالت کو دور کرنا اور تعلیم کو عام کرنا اور کار آمد تعلیم دینا ہم بھی چاہتے ہیں‘ اور وہ بھی۔ اس حد تک ہمارے اور ان کے درمیان اشتراک ہے‘ اور ہم بڑی خوشی کے ساتھ اس کار خیر میں ان کے ساتھ مل کر جدوجہد کر سکتے ہیں۔ مگر تعلیم کا مسئلہ تخلیق مقصد حیات، تعمیر ذہنیت، تشکیل اخلاق، تصویر عادات اور فی الجملہ اس نیشنل ٹائپ کی پرورش کے ساتھ لازمی طور پر جڑا ہوا ہے‘ جسے ایک قوم اپنے اسلاف سے پاتی ہے‘ اور اپنی آئندہ نسلوں میں ترقی کے ساتھ برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ تعلیم کی اس تفصیلی صورت میں ہمارے اور ان کے درمیان اتفاق نہیں ہے۔ہم یہ ضرور چاہیں گے کہ ہماری اور ان کی آئندہ نسلوں میں حسنِ سلوک ہو، شریفانہ ہمسائیگی کے تعلقات ہوں اوریہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ہندوستان کی بھلائی کے لیے کام کریں۔مگر یہ سب کچھ ہم اپنے نیشنل ٹائپ کا تسلسل قائم رکھنے کے ساتھ چاہیں گے، نہ یہ کہ ہمارا نیشنل ٹائپ ان کے ٹائپ میں گم ہو جائے، یا دونوں گڈ مد ہو کر کسی برہمو سماجی یا کبیر پنتھی وضع کے ٹائپ میں تبدیل ہو جائیں۔لہٰذا تعلیم عمومی کے مسئلہ میںہمارے اور ان کے درمیان کلی اشتراکِ عمل ممکن نہیں، نہ یہ ممکن ہے‘ کہ ہم میں سے کوئی ایک اپنی آئندہ نسل کو اطمینان کے ساتھ دوسرے کے حوالہ کر دے اور اسے اختیار دے دے کہ ان کچی لکڑیوں کو جس صورت کا چاہے بنائے۔ ایسا ہی حال زندگی کے دوسرے اہم مسائل کا بھی ہے۔ خوش حالی ہم بھی چاہتے ہیں، مگر ہمارے اور ان کے معاشی اصول، مناہج، مسائل بالکل یکساں نہیں ہیں۔ اصلاح معاشرت کے ہم بھی خواہاں ہیں، مگر اصلاح کے مفہوم و معیار اور معاشرت کے اصول و قوانین میں ہم اور وہ بالکل متفق نہیںہیں۔ تمدّنی ترقی ہمیں بھی مطلوب ہے۔ مگر تمدّن کے قالب میں جو روح کام کرتی ہے، اور جو روح اس کی ترقی کا راستہ متعین کرتی ہے،و ہ ہمارے اور ان کے درمیان بالکل ایک نہیں ہے۔ پنڈت جواہر لال اور ان کی طرح کے سطح بین لوگوں کے لیے یہ کہہ دینا آسان ہے‘ کہ اس سائنٹفک تمدّن کے دور میں ریل، ہوائی جہاز، ریڈیو اور کثیر پیدا واری (mass production) نے قوموں کے حدود امتیاز کو توڑ دیا ہے‘ اور اب قومی تمدّن کا زمانہ ختم ہو گیا۔ مگر ہم جانتے ہیں‘ کہ اس وقت جو تمدّن پھیل رہا ہے اس کی یہ خاص صورت مغربی تہذیب نے بنائی ہے اور اس تہذیب کو دنیا پر چھا جانے کا موقع اس لیے مل گیا ہے‘ کہ یہ سائنس کے طاقت ور وسائل سے کام لے رہی ہے۔ یہی وسائل ہماری تہذیب کے ہاتھ آجائیں تو وہ اس سے زیادہ صالح اور زیادہ درخشاں تمدّن پیدا کرے گی‘ اور وہ بھی اسی طرح قوموں کی حدود امتیاز کو توڑ کر ان کے گھروں تک گھستا چلا جائے گا۔ لہٰذا پنڈت جی جیسے حضرات کی زبان سے بس یہ خبر سن کر کہ اب قومی تمدّنوں کا زمانہ لدگیا ہے، ہم ہتھیار نہ ڈال دیں گے‘ اور نہ اس بات کے لیے راضی ہوں گے کہ جو تمدّن پھیل رہا ہے اسی میں اپنے آپ کو گم کر دیں۔ خلاصہ یہ کہ ہماری اور ان کی راہیں متوازی (parallel) توچل سکتی ہیں‘ اور کہیں کہیں مل بھی سکتی ہیں، لیکن ازاول تا آخر ایک ہو جائیں، یہ کسی طرح ممکن نہیں۔
جب صورت حال یہ ہے‘ تو ہمیں اور ان کو ملا کر ایک ایسا نظامِ حکومت کیونکر بنایا جا سکتا ہے‘ جس میں جمہوریت کا قاعدہ نافذ ہو؟ ہم اس بات پر کیسے راضی ہو سکتے ہیں‘ کہ زندگی کے کسی معاملہ کا جو فیصلہ چار ہندو کر دیں اسے ایک مسلمان بھی مان لے اور صرف اس لیے مان لے کہ یہ ایک ہے اور وہ چار ہیں۔ خصوصاً اس زمانہ میں جب کہ حکومت کا دائرہ غیر محدود ہے‘ اور پرانے نظریہ ریاست نے جتنے حرم بنائے تھے ان سب کو توڑ کر وہ شخصی زندگی تک گھس گیا ہے، ہم اس اصول کو کس طرح مان سکتے ہیں؟ اس کو مان لینے کے بعد تو لامحالہ دو ہی صورتیں پیش آسکتی ہیں۔
۱- اگر ہم حکومت میں عملاً حصہ دار بننا چاہیں تو اپنے امتیازی وجود کو مٹا دیں۔
۲- اور اگر اپنے امتیازی وجود کو قائم رکھنا چاہیں تو حکومت سے عملاً بے دخل ہو جائیں۔
یہ ممکن ہے‘ کہ اکثریت فیاضی سے کام لے کر ہمیں ان دونوںمشکلوں سے بچا لے۔ لیکن یہ تو اس کے رحم و کرم کی بات ہے‘ اور کوئی قوم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کسی دوسری قوم کے رحم و کرم پر نہ زندہ رہی ہے نہ رہ سکتی ہے۔ یہاں سوال فیاضی کا نہیں ہے‘ بلکہ اس امر کا ہے‘ کہ اس قسم کے جمہوری نظام کی فطرت کیا ہے۔ ایسا جمہوری نظام جب ایک چھوٹی اور ایک بڑی قوم کو ملا کر بنایا جائے گا تو عملاً وہ چھوٹی قوم کو بڑی قوم کا محکوم بنا دے گا۔ اس میں بڑی قوم کو خود اختیاری ملے گی‘ اور چھوٹی قوم کو بے اختیاری۔اس میںعمومی حاکمیّت کا جمہوری نظریہ قطعی باطل ہو جائے گا۔بڑی قوم کو بہرحال حاکمیّت حاصل ہو گی چاہے وہ اپنی جُدا گانہ قومیّت پر اصرار کرے یا نہ کرے۔مگر چھوٹی قوم حاکمیّت میں حصہ دار نہیں ہو سکتی‘ جب تک وہ اپنی قومیّت سے دست بردار نہ ہو جائے۔ بڑی قوم اپنے تمام اصولوں پر قائم رہ سکتی ہے‘ اور ان کو نہ صرف اپنے اوپر بلکہ دوسروں پر بھی نافذ کر سکتی ہے۔ مگر چھوٹی قوم کے لیے رفتہ رفتہ اپنے تمام اصولوں کو قربان کر دینا لازم آجاتا ہے۔ وہ دوسروںپر نافذ کرنا تو درکنار خود اپنے اوپر بھی ان کو نافذ نہیں کر سکتی۔ اس کو اپنے اصولِ تہذیب پر رہ کر ترقی کرنے، بلکہ زندہ رہنے کا بھی موقع نہیں مل سکتا۔ اس کے اپنے ہاتھ میں کوئی ایسی طاقت ہی نہیں آتی جس سے وہ اپنی خودی کو آپ برقرار رکھ سکے۔اس کی خودی دوسروں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے‘ کہ چاہیں اسے برقرار رہنے دیںیا اپنی خودی میں جذب کر لیں۔ کیا اس کا نام آزادی ہے؟ کیا اسے جمہوریت کہتے ہیں؟ کیا یہ عمومی حاکمیّت ہے؟ کیا اس کے لیے ہم لڑیں اور جانفشانی دکھائیں؟ ہمیں آزادی کے لیے لڑنے سے انکار نہیں، مگر ہم یہ پوچھتے ہیں‘ کہ اس نوعیت کے نظام میں ہمارے لیے آزادی ہے‘ کہاں؟ ہم جمہوریت کے مخالف نہیں۔ مگر ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں‘ کہ جس عمومی حاکمیّت کو جمہوریت کہتے ہیں، اس کے اندر ہمارا حصہ کہاں ہے؟ ہم اپنی ہمسایہ قوم کے ساتھ اشتراکِ عمل کرنے سے انکار نہیں کرتے۔ مگر سوال یہ ہے‘ کہ اشتراکِ عمل کی صورت کیا ہے؟ اس کی بنیاد کیا ہے؟ مشترک زندگی کے لیے تو اشتراکِ عمل کرنے سے ہمیں انکار نہیں۔ مگر یہاں ہم سے کہا جا تا ہے‘ کہ اپنی قبر کھودنے کے کام میں گورکنوں کے ساتھ اشتراکِ عمل کرو۔ ہمارا جھگڑا اس پر ہے‘ کہ اشتراکِ عمل کی یہ کون سی بنیاد ہے؟ ہم نے تو یہ کبھی نہیں کہا کہ ہم اپنی ہمسایہ قوم سے ملنا نہیں چاہتے،لڑ کر گزر کرنا چاہتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے‘ کہ ملنے کی صورت کیا ہے؟ ہم اس کے ساتھ اس صورت میں ملکر چلنے کے لیے راضی ہیںکہ ہم بھی زندہ رہیں‘ اور وہ بھی۔ مگر وہاں قومی استعلاء و استکبار (national imperialism) کا بھوت سوار ہے‘ اور مردم خوری کا چسکا لگ گیا ہے۔ کیا ہمیں اس بھوت سے ملنے کے لیے کہا جا رہا ہے؟ کیا اس سے بھی صلح اور دوستی ہو سکتی ہے؟
یہ باتیںہیںجن پر ہمارے ان بھائیوں کو ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے‘ جو ہمارے خیالات کو سنتے ہی آپے سے باہر ہو جاتے ہیں‘ اور چیخنا شروع کر دیتے ہیں‘ کہ تم آزادی کے مخالف ہو، اور متحدہ جدوجہد کا دروازہ بند کرتے ہو، اور انگریزی امپیریلزم کو تقویت پہنچاتے ہو۔ ہم ان سے عرض کرتے ہیں‘ کہ بات کی پچ کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ معاملہ کسی شخصی جائیداد یا کسی پارتی کے گرنے یا اٹھنے کا نہیں، بلکہ اس قوم کی زندگی کا ہے‘ جس کی فلاح و بہبود کے لیے ہم اور آپ سب خدا کے سامنے جوابدہ ہیں۔ضد اور ہٹ دھرمی شاید دنیا میں بات بنا دے مگر آخرت میں تو نہ بنا سکے گی۔ لہٰذا لاطائل بلند آہنگی اور بے اصل سخن پروری کو چھوڑئیے اور ایمان و احتسابِ نفس کے ساتھ سوچئے کہ جو کچھ ان صفحات میں عرض کیا جا رہا ہے وہ حق ہے‘ یا نہیں۔
اگر یہ تسلیم کر لیا جائے‘ کہ فی الواقع یہ سوال ہندوستان میں اُمت مسلمہ کی زندگی و موت کا ہے‘ اور اس کو حل کرنے کا یہی وقت ہے، اور اس کو آزادیٔ ہند کا مسئلہ حل ہونے تک اُٹھا کررکھنا موجودہ سیاسی حالات میں صحیح نہیں ہے، تو بات آسان ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد صرف یہ سوال رہ جاتا ہے‘ کہ اس چکر سے مسلمانوں کو نکالنے کی معقول صورت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دینا ہمارا فرض ہے‘ اور ہم اس فرض کو کما حقہ ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔
سب سے پہلے ہمیں یہ طے کرنا چاہیے‘ کہ ہم چاہتے کیا ہیں۔ پھر یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہو گی کہ اس مقصد تک پہنچنے کا صحیح راستہ کون سا ہے۔
۱- ہمارے پچھلے بیان سے یہ بات واضح ہو چکی ہے‘ کہ واحد قومیّت کا مفروضہ اور اس پر جمہوریت کی تعمیر ہی دراصل خرابی کی جڑ اور بس کی گانٹھ ہے۔ا ب تک ہماری سیاسی پالیسی یہ رہی ہے‘ کہ وطنی قومیّت کے اصول کو ہم نے جوں کا توں رہنے دیا، ان جمہوری ادارات کو بھی قبول کر لیا جو اس غلط قاعدے پر بنائے جاتے رہے، اور اپنا تمام زور صرف اس بات پر صرف کیا کہ اس بد اصل دستور کے اندر کسی طرح اپنے تحفظ کا سامان کریں۔ یہ بنیادی غلطی تھی‘ اور اب اس کے تلخ نتائج واضح طور پر ہمارے سامنے آگئے ہیں۔ اب ضرورت ہے‘ کہ ہم سرے سے اپنی اس پوری سیاست پر نظر ثانی کریں۔ ہمیں جان لینا چاہیے‘ کہ جس دستورِحکومت کی بنیاد ان اصولوں پر ہو اس میں کسی قلیل التعداد قوم کا تحفظ کسی طرح نہیں ہو سکتا۔ جُدا گانہ انتخاب، پاسنگ (weightage)، نشستوں کا تعین، عہدوں اور مناصب میں حصہ کی تخصیص، یہ سب قطعی بے کار ہیں جب کہ قلیل و کثیر کو ایک مجموعہ فرض کرکے کثیر رائے کو قوّت ِنافذہ عطا کر دی جائے۔ خرابی کی اس جڑ کو پا لینے کے بعد ہمیں شاخوں کو چھوڑ کر اپنا پورا زور اسی کے استیصال پر صرف کرنا چاہیے۔ ہماری قومی سیاست کا اولین نصب العین اب یہ ہونا چاہیے‘ کہ اس واحد قومیّت کے مفروضہ کی دھجیاں بکھیر دیں اور اپنی مستقل قومیّت تسلیم کرائے بغیر ایک قدم آگے نہ چلنے دیں۔
۲- واحد قومیّت کا مفروضہ ٹوٹنے کے ساتھ ہی جمہوریت کا وہ غلط نظریہ بھی آپ سے آپ پاش پاش ہو جاتا ہے‘ جس پر ہندستان کے موجودہ دستور کی بنیاد رکھی گئی ہے‘ اور جس کو انہی خطوط پر آگے بڑھانے کے لیے کانگریس اور ہندو سبھا کوشش کر رہی ہیں۔ اگر ہندستان ایک قوم کا نہیں‘ بلکہ کم از کم دو یا اس سے زائد قوموں کا ملک ہے‘ تو یہاں خالص جمہوریت کے وہ اصول ہرگز نہیں چل سکتے‘ جو صرف ایک قوم کے لیے موزوں ہیں۔ دو الگ قوموں کی ایک ڈیمو کریسی اصولاً غلط ہے، عین اصول جمہوریت کی نفی ہے، عملاً دنیا کے کسی ملک میں کامیاب نہیںہو سکی ہے، اور یہ قطعی طور پر ثابت ہو چکا ہے‘ کہ ایسی جمہوریت دراصل ایک قوم پر دوسری قوم کی قیصریت مسلط کرنے کا مجرّب نسخہ ہے۔ ہم اس کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیںکہ اس نسخہ کو یہاں آزمایا جائے۔
۳- دو یا زائد قوموں کے ملک میں عمومی حاکمیّت کی یہ تفسیر بھی قطعاً غلط ہے‘ کہ ہر باشندہ ملک کو محض باشندہ ملک ہونے کی حیثیت سے حاکمیّت حاصل ہو۔محض ہندستانی ہونے کی حیثیت سے دولت مشترکہ میں حصہ دار ہونا اور حاکمیّت سے متمتع ہونا ہمارے لیے بالکل بے معنی اور بے کار ہو گا۔ ہماری ہندستانیت ہماری مسلمانیت سے نہ تو منفک ہو سکتی ہے‘ اور نہ ان دونوں کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔مسلمان کسی حال اور کسی حیثیت میں بھی غیر مسلم نہیں ہے۔ وہ اپنے بچے کا باپ، اپنی بیوی کا شوہر، اپنے باپ کا بیٹا اور اپنے بھائی کا بھائی بھی مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہے، اور اسلام ہی کا قانون اسے بتاتا ہے‘ کہ ان سب کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت کیا ہونی چاہیے۔ وہ اپنے اہلِ محلہ کا ہمسایہ، اپنے شہر والوںکا رفیق، اپنے وطن والوں کا معاون اور اپنے بنی نوع کا بھائی بھی مسلمان ہونے کی حیثیت ہی سے ہے، اور اسلام ہی اسے ہمسائیگی، رفاقت، تعاون اور برادری کے اصول وحدود بتاتا ہے۔ انسانی تہذیب وتمدّن، معیشت و معاشرت اورنظم اجتماعی کے جملہ معاملات میں وہ جیسا اور جس قدر حصہ لے گا، مسلمان ہی کی حیثیت سے لے گا، اس لیے کہ اس کے عین مسلمان ہونے ہی کا اقتضاء یہ ہے‘ کہ ان سب معاملات میں وہ اسلام کا نقطۂ نظر اختیار کرے اور اسلام کے اصول پرچلے۔ اس سے یہ کہنا کہ تو ہندستان کی اجتماعی زندگی میں اپنی مسلمان ہونے کی حیثیت کوالگ کرکے ہی حصہ لے سکتا ہے، دراصل اس سے یہ کہنا کہ تو ہندستان میں مسلمان بن کر نہیں رہ سکتا۔ دوسری قوموں کے متعلق تو ہمیں کچھ کہنے کا منصب نہیں۔ مگر مسلمانوں کے متعلق ہم بلاخوف تردید کہہ سکتے ہیں‘ کہ ان کے لیے یہ پوزیشن کسی طرح قابلِ قبول نہیں ہے۔علاوہ ازیں اگر عمومی حاکمیّت کی تفسیر یہ کی جائے‘ کہ ملک کی حکومت میں ہمارا حصہ صرف ہندستانی ہونے کی حیثیت سے ہے‘ تو اس کے دوسرے معنی یہ ہیںکہ ہماری زندگی دو الگ الگ خانوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ ایک خانہ ہندستانیت کا ہے‘ جس میںہم حکومت کے حصہ دار ہیں، اور دوسرا خانہ مسلمان ہونے کی حیثیت کا ہے‘ جس میں ہم حکومت کی طاقت اور اس کے اختیارات سے محروم ہیں، بالفرض یہ تقسیم صحیح بھی ہو تو سوال یہ ہے‘ کہ اپنی زندگی کے اس دوسرے خانے کو درست کرنے اور درست رکھنے کے لیے جن وسائل و ذرائع، جن اختیارات و اقتدارات کی ہمیں ضرورت ہے وہ ہم کہاں سے لائیں گے؟ وطنی حکومت میں سے تو یہ چیزیں ہم کو نہیں مل سکتیں کیونکہ اس میںہمارا حصہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے نہیں ہے۔ کہیںباہر سے بھی ہم اسے نہیں لاسکتے، اور خود اپنے اندر سے بھی اسے پیدا نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ان دونوں صورتوں میں وطنی حکومت سے تصادم ہوتا ہے۔ پس لامحالہ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے‘ کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم کو آزادی وطن کے بعد بھی آزادی میسر نہ ہو، اورہماری تہذیب کا نظام جس طرح انگریز کی غلامی میں زندگی کے اسباب اور ترقی کے وسائل نہ پانے کے سبب سے مضمحل ہو رہا ہے اسی طرح آزادی ہند کے دور میں بھی مضمحل ہوتا چلا جائے۔ کوئی شخص جو دستوری مسائل کا ذرّہ برابر بھی فہم رکھتا ہو اس نتیجہ کا انکار نہیں کر سکتا۔ اور کوئی شخص جس کے دل میں اسلام کی ذرّہ برابر بھی وقعت اور مسلمان رہنے کی کچھ بھی خواہش موجود ہو، اس نتیجہ کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیںہو سکتا۔ لہٰذا ہمارے لیے اس امر پر اصرار کرنا قطعاً ناگزیر ہے‘ کہ آئندہ ہندستان کے جمہوری نظام میں ہمارا حصہ ’’مسلم ہندستانی‘‘ ہونے کی حیثیت سے ہونا چاہیے نہ کہ محض ہندستانی ہونے کی حیثیت سے۔
یہ تین اہم ترین نکات ہیں‘ جنہیں آئندہ کے لیے مسلمانوں کی قومی پالیسی اور ان کے سیاسی نصب العین کا سنگ بنیاد قرار دینا چاہیے۔ ان میں ایک سرِمو بھی کسی ترمیم کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے کہ ان نکات سے ہٹنا دراصل موت کے گڑھے میںجانا ہے۔ اب یہ ظاہر بات ہے‘ کہ برٹش گورنمنٹ کا بنایا ہوا دستور حکومت اور کانگریس اور مہاسبھا دونوں کا نصب العین ہمارے ان نکات سے اصولاً متصادم ہوتا ہے‘ اور ہمارے لیے لازم ہو جاتا ہے‘ کہ اس کو بالکلیہ ردّکریں۔ لیکن محض ردّکر دینا کافی نہیں ہے۔ یہ محض سلبی چیز ہے‘ جس پر کسی عمارت کی تاسیس نہیں ہوتی۔ ہمیں ایجابی طور پر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتانا چاہیے‘ کہ ہمارے نکات کی بنیاد پر کون سا دستور حکومت بنایا جا سکتا ہے‘ جو ممکن العمل بھی ہو، ملک کی دوسری قوموں کے لیے قابلِ قبول بھی ہو‘ اور جس میں ہمارے قومی حوصلے بھی ٹھیک ٹھیک پورے ہو سکتے ہوں۔
اس سلسلہ میں ہمارے سامنے مستقبل ہند کی تعمیر کے لیے تین خاکے آتے ہیں‘ جنہیں ہم الگ الگ پیش کریں گے۔
پہلا خاکہ
دو یا زائد قوموں کے ملک میں ایک جمہوری ریاست بنانے کی صحیح اور منصفانہ صورت یہ ہے :
اولاً وہ بین الاقوامی وفاق (international federation) کے اصول پر مبنی ہو،یا دوسرے الفاظ میں وہ ایک قوم کی ریاست نہیں‘ بلکہ متوافق قوموںکی ایک ریاست (A state of federated nations) ہو۔
ثانیاً اس وفاق میں شریک ہونے والی ہر قوم کو تہذیبی خود اختیاری (cultrual autonomy) حاصل ہو۔ یعنی ہر قوم اپنے مخصوس دائرہ زندگی میں اپنے گھر کی تنظیم و اصلاح کے لیے حکومت کے اختیارات استعمال کر سکے۔
ثالثاً مشترک وطنی معاملات کے لیے اس کا نظام عمل مساویانہ حصہ داری(equal partnership) پر تعمیر کیا جائے۔
ہندوستان کے حالات کو سیاسی نقطۂ نظر سے سمجھنے اور حل کرنے کی جن لوگوں نے کوشش کی ہے انہوںنے یہ تو تسلیم کر لی ہے‘ کہ اس ملک کے لیے وحدانی (unitary) طرز کی حکومت موزوں نہیںہے، بلکہ یہاں ایک اسٹیٹ اگر بن سکتا ہے‘ تو وہ صرف وفاقی اصول پر بن سکتا ہے۔ مگر افسوس یہ ہے‘ کہ وہ حالات کے صرف ایک پہلو کو دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچے ہیں، دوسرا پہلوان کی نگاہوں سے اوجھل رہ گیا ہے، انہوں نے صرف اس حد تک واقعات کو دیکھا اور سمجھا کہ یہاں دیسی ریاستیں اور برٹش انڈیا کے صوبے ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اور خود صوبوں کی زبان، روایات، معاشرت اور عمرانی مسائل میں کافی تفاوت ہے۔ اس لیے وہ صرف اس نتیجہ تک پہنچ سکے ہیں‘ کہ ان سب کو ایک مرکزی اقتدار کا بالکلیہ تابع بنا دینا درست نہیں ہے‘ بلکہ ان کی اندرونی خود مختاری کو برقرار رکھ کر ان کے درمیانی وفاقی تعلق قائم کرنا چاہیے۔ لیکن واقعات کے اس پہلو پر اس کی نگاہ نہیں پہنچی کہ یہاں ریاستوں اور صوبوں کی طرح قوموں کے درمیان بھی اصول، تہذیب، طرز زندگی، روایات قومی اور ضروریات اجتماعی میں کافی تفاوت ہے۔ا س حقیقت کو نظر انداز کر دینے کی وجہ سے انہوں نے مختلف قوموں کو ایک وحدانی طرز کی حکومت میں باندھ کر رکھ دیا۔ درانحالیکہ جو وجوہ ریاستوں کے معاملہ میں وفاقی اصول اختیار کرنے کے مقتضی ہوئے ہیں، ان سے زیادہ قومی وجوہ قوموں کے معاملہ میں وفاقی اصول اختیار کرنے کے مقتضی ہیں۔
وفاق کی روح کیا ہے؟ مختصراً اس کو یوں سمجھ لیجئے کہ جو جماعتیں کچھ ایسے مشترک اغراض و مفاد رکھتی ہوں کہ ایک دوسرے سے علیحدہ زندگی بسر کرنا ان کے لیے ممکن نہ ہو، اور اس کے ساتھ ان کے کچھ مخصوس حالات بھی ہوں‘ جن کی بنا پر وہ بالکل ایک دوسرے میں مدغم ہو جانا بھی گوارا نہ کر سکتی ہوں، وہ آپس میں مل کر ایک طرح کی مصالحت (compromise) کر لیتی ہیں‘ کہ اپنے مخصوص معاملات میں ان کی خود مختاری بھی برقرار رہے‘ اور مشترک معاملات میں اشتراکِ عمل بھی ہو سکے۔ اس قسم کے وفاق میں مرکز اور وفاقی اجزاء کے درمیان حاکمیّت منقسم ہو جاتی ہے۔ مرکز اور ہر ایک وفاقی جزو اپنے اپنے دائرہ عمل میں مختار ہوتاہے، نہ ایک کو دوسرے کے دائرے میں گھس آنے کا اختیار ہوتاہے‘ اور نہ آئینی حیثیت سے کسی ایک کو یہ اقتدار حاصل ہوتا ہے‘ کہ دوسرے کو مٹا دے۔ اس طرح کی مصالحت یہ موقع بہم پہنچا دیتی ہے‘ کہ مختلف النوع جماعتیں مشترک ضروریات کے لیے مل کر ایک اسٹیٹ بنا سکیں۔
وفاق کی اس روح کو سمجھ لینے کے بعد کسی سیاسی فہم و بصیرت رکھنے والے شخص کے لیے ایک حقیقت کا ادراک کر لینا مشکل نہیں ہے‘ کہ اس نوعیت کا وفاق جس طرح ریاستوں (یعنی الگ الگ جغرافی خطے رکھنے والی جماعتوں) کے درمیان ہو سکتا ہے۔ اسی طرح قوموں (یعنی ایک ہی جغرافی خطہ میں رہنے والی مختلف المذہب یا مختلف التمدّن جماعتوں) کے درمیان بھی ہو سکتا ہے۔ البتہ اصول وفاق کا انطباق (application) دونوں صورتوں میں مختلف طرز ہو گا۔ متوافق ریاستوں اور مرکز کے درمیان اختیارات کی تقسیم جس طرح پر کی جاتی ہے، متوافق قوموں کے درمیان وہ اس سے مختلف طریقہ پر ہو گی۔ پہلی چیز کو ہندستان میں صوبائی خود اختیاری سے تعبیر کیا گیا ہے۔ دوسری چیز کو ہم تہذیبی خود اختیار (cultural autonomy) سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کے بنیادی اصول حسب ذیل ہونے چاہئیں:
۱- وفاقی اسٹیٹ بنانے والی ہر قوم صاحب حاکمیّت قوم (soverign nation)ہو۔، یعنی وہ اپنے دائرہ عمل میںخود حکومت کے اختیارات استعمال کرے۔
۲- تعلیم، مذہبی معاملات (مثلا عبادت گاہوں اور اوقاف کا نظم و نسق اور مذہبی احکام کو اپنے افراد قوم پر نافذ کرنا اور ان احکام کے خلاف ان کی سرکشی کو روکنا) اور مخصوص تمدّنی و معاشرتی مسائل (مثلاً نکاح، طلاق، وراثت اور قومی طرز معاشرت (national social system) میں ہر قوم کو پوری حکومت خوداختیار حاصل ہو‘ اور مرکز کو اس میں دخل دینے کا حق نہ ہو۔
۳- ان اغراض کے لیے ہر قوم کی الگ الگ ضلع وار اور صوبہ دار کونسلیں ہوں‘ اور ان پر ایک سپریم کونسل ہو، مذکورہ بالا معاملات انہی کونسلوں میں پیش ہوں‘ اور وہیں سے ان کے لیے قوانین منظور کیے جائیں۔ ان قوانین کا مرتبہ عام ملکی قوانین سے کسی طرح کم نہ ہو۔ان کو نافذ کرنے کے لیے ایک مستقل ہیئت انتظامیہ (executive) ہو‘ اور وہ قومی کونسل کے سامنے جواب دہ ہو۔ مصارف نظم و نسق کے لیے ٹیکس عائد کرنے اور وصول کرنے کے پورے اختیارات اس قومی نظام کو حاصل ہوں‘ اور ملکی خزانہ میں سے ایک مخصوس حصہ ہر قوم کے لیے مقرر کر دیا جائے، جس طرح وفاقی ریاستوں اور وفاقی مرکز کے درمیان مالیات کی تقسیم ہوا کرتی ہے۔
۴- متوافق قوموںکے درمیان، یا کسی وفاقی جزو اور مرکز کے درمیان جو آئینی اختلافات پیدا ہوں ان کا تصفیہ وفاقی عدالت (federal court) کرے۔
۵- اپنے مخصوص قوانین کے مطابق فصلِ خصومات کرنے کے لیے ہر قوم کا مستقل عدالتی نظام بھی ہو‘ جسے عام ملکی عدالتوں کی طرح پورے عدالتی اختیارات حاصل ہوں۔
اس مرحلہ پر تہذیبی خود اختیاری کے صرف اصول بیان کیے جا سکتے ہیں، اگر ان پر اتفاق ہو جائے‘ تو ان کا تفصیلی نقشہ ایک بین الاقوامی رائونڈ ٹیبل کانفرنس یا آئین ساز مجلس (constituent assembly) میںبنایا جا سکتا ہے۔{ FR 3045 }
اس کے بعد مرکزی حکومت کا سوال سامنے آتا ہے، مرکزی حکومت سے یہاں ہماری مراد ریاستوںکے وفاق کا مرکز نہیں ہے، بلکہ قوموں کے وفاق کا مرکز ہے،یعنی وہ نظامِ حکومت جسے متوافق قومیں اپنی مشترک اغراض کے لیے بنائیں۔ا س معنی میں صوبوں اور ریاستوںکی حکومت بھی اسی طرح مرکزی ہے‘ جس طرح وفاقی مرکز (federal centre)۔ یہ مشترک نظامِ حکومت لامحالہ ’’مساویانہ حصہ داری‘‘ کے اصول پر مبنی ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ صاحب ِحاکمیّت قوموں کا وفاق ہے نہ کہ ایک قوم کا وحدانی نظامِ حکومت۔ یہاں پوری احتیاط کے ساتھ اس امر کا انتظام کرنا پڑے گا کہ اصول جمہوریت کے لحاظ سے ایک وفاقی جزو کو جو حاکمیّت حاصل ہے دوسرا وفاقی جزو اسے سلب نہ کر لے۔ تہذیب خود اختیاری کی طرح اس کا بھی ایک ڈھانچہ بنا کہ ہم یہاں پیش کرتے ہیں‘ جس کی تفصیلی صورت بعد میں ایک آئین ساز مجلس بنا سکتی ہے۔
۱- اسٹیٹ کے تشریعی، انتظامی، عدلی اور دفاعی، چاروں شعبوں میں ہر قوم کا حصہ اس کی آبادی کے تناسب سے مقرر کر دیا جائے‘ جو تناسب کے تغیّرات کے ساتھ ساتھ متغیّر ہو سکتا ہو۔{ FR 3046 } پاسنگ (weightage) کا طریقہ بالکل اڑا دیا جائے۔
سیاسی جماعتیں (recognized political parties) اپنے اپنے اُمیدواروں کی فہرستیں پیش کریں‘ اور ان کو کامیاب کرنے کے لیے جدوجہد کریں۔ اس صورت میں (اور یاد رکھیے کہ صرف اسی صورت میں) جُدا گانہ انتخاب کے طریقہ کو موقوف کر دینا چاہیے۔اس لیے کہ پھر بند قلعوں میں رہنا ہر قوم کے لیے مضر ہو گا۔جُدا گانہ طریق انتخاب کی ضرورت صرف اسی وقت تک ہے‘ جب تک یہاں انگلستان کی بوسیدہ ڈیمو کریسی کے نمونہ پر چھوٹے چھوٹے یک نشستی حلقہائے انتخاب بنائے جاتے رہیں۔ یورپ کی جدید جمہورتیوں میںمتناسب نمائندگی (proportional representation) کے جوتجربات کئے گئے ہیں اگر ان سے استفادہ کرکے ایک صحیح جمہوری طریق انتخاب کر لیا جائے‘ تو پھر جُدا گانہ انتخاب کو اڑا دینا ہو گا تاکہ اولًا آبادی کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی نمائندگی سے محروم نہ رہ سکے، ثانیاً مقابلہ اشخاص سے اشخاص کا نہ ہو بلکہ پارٹیوں کے اصول اور پروگرام ایک دوسرے کے مقابلہ میں آئیں، اور ثالثاً ہر پارٹی اپنے اصول اور پروگرام کو لے کر سب قوموں کے پاس جا سکے۔ بہت ممکن ہے‘ کہ ابتداً ہم اپنے نظم کی کمزوری کے باعث کسی زیادہ منظم جماعت کے مقابلہ میں شکست کھا جائیں، لیکن تہذیبی خود اختیاری کے بعد یہ شکست ہمارے لیے کچھ زیادہ مضر نہ ہو گی، اور مزید برآں کھلے مقابلہ ہی میں زور آزمائی کرنے سے ہم سیاسی تنظیم کا سبق سیکھ سکیں گے۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیںکہ مقابلہ آزادانہ اور مساویانہ ہو۔ اس کے بعد اگر ہم اپنے نظم کی کمزوری یا اپنے اصول اور پروگرام کی کمزوری کے باعث شکست کھائیں گے‘ تو اس شکست کے مستحق ہوں گے۔
۳- جمہوریت کو مؤثر بنانے کے لیے استصواب عام (referendum) کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ نیز رائے دہندوں کو یہ حق بھی دیا جائے‘ کہ جن نمائندوں پر ان کو اعتماد نہ رہا ہو ان کو واپس بلالیں۔ یہ بھی انگلستان کی دقیانوسی جمہوریت کا سرا سر غیر جمہوری طریقہ ہے‘ کہ نمائندوں کو منتخب کرنے کے بعد رائے دہندے ایک معین مدت تک اپنے ہاتھ کٹوا بیٹھتے ہیں۔ روسوؔ کے بقول انگریز صرف اس وقت آزاد ہوتے ہیں جب وہ پارلیمنٹ کے ارکان کا انتخاب کرتے ہیں۔ اور جب وہ انہیں منتخب کر لیتے ہیںتو پھر اپنے ہی منتخب کردہ نمائندوںکے غلام بن جاتے ہیں۔
۴- استصواب عام کے ساتھ یہ اصول مقرر کر دیا جائے کہ جس چیز کی مخالفت ایک قوم کے ووٹر بالا تفاق یا عظیم اکثریت کے ساتھ کریں‘ وہ مجلسِ قانون ساز میں پاس نہ ہو سکے۔ کیونکہ یہ مخالفت اس بات کی دلیل ہو گی کہ جمہوری نظام کے حصہ داروں میں سے ایک حصہ دار اس کو اپنے لیے مضر پاتا ہے‘ اور دوسرا حصہ دار صرف اس لیے اس کا مؤید ہے‘ کہ وہ اس کے لیے مفید ہے۔ اس قسم کے کسی قانون یا ریزولیوشن کا پاس ہونا عین اصولِ جمہوریت کی نفی ہو گا۔
۵- استصواب عام کے لیے یہ اصول بھی مقرر کرنا پڑے گا کہ اگر کسی قوم کے ووٹروں کی کم از کم اس قدرفی صدی تعداد استصواب کا مطالبہ کرے تو اس کا انعقاد ضروری ہے۔
۶- دستور کی ترمیم پر بھی سخت پابندیاں عائد کرنی ہوں گی‘ جن کے لیے امریکہ، سوئٹزر لینڈ، آسٹریلیا اور دوسرے جمہوری ممالک کے دساتیر سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
دُوسرا خاکہ
اگر بین الاقوامی وفاق کی یہ صورت قبول نہ کی جائے‘ تو دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے‘ کہ مختلف قوموں کے الگ الگ حدود ارضی مقرر کر دئیے جائیں جہاں وہ اپنے جمہوری اسٹیٹ بنا سکیں۔ پچیس سال یا اس سے کم و بیش مدت تبادلہ آبادی کے لیے مقرر کر دی جائے۔ ہر اسٹیٹ کو زیادہ سے زیادہ اندرونی خود مختاری دی جائے، اور وفاقی مرکز کے اختیارات کم از کم رکھے جائیں۔ اس صورت میں ہم غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ مل کر ایک وفاقی اسٹیٹ بنانے پر نہ صرف راضی ہو جائیں گے، بلکہ اس کو ترجیح دیں گے۔
میرے دوست ڈاکٹر عبد اللطیف صاحب نے حال میں ہندستان کے تہذیبی مستقبل (cultural future of india) پر جو مقالہ حیدر آباد سے شائع کیا ہے وہ ہندستان کی مستقل قوموں کے درمیان ارضی حدود کی تقسیم کا بہترین نقشہ پیش کرتاہے۔ یہ ایک منصفانہ تقسیم ہے‘ جس کی رو سے مشرقی بنگال، حیدر آباد، بھوپال، جوناگڑھ، جادرہ، ٹونک، اجمیر، دہلی و اودھ، شمالی ومغربی پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کے حلقے مسلمانوں کے لیے مخصوص ہو جاتے ہیں۔ اس طرح یہ ممکن ہے‘ کہ پچیس سال کی مدت میں ہندستان کے دوسرے خطوں سے ہجرت کرکے مسلمان ان حلقوںکے اندر سمٹ جائیں‘ اور ہندو قریب کے علاقوں میں چلے جائیں۔ بقیہ ہندوستان میں اگر اچھوت اپنی الگ قومیّت بنانا چاہیں تو ان کے لیے بلحاظ ان کی آبادی کے مستقل رقبے مخصوص کیے جا سکتے ہیں‘ بشرطیکہ گاندھی جی خود کشی کی دھمکی دے کر ان کی آزادی رائے کو پھر نہ سلب فرما لیں۔ اسی طرح سکھوں کو بھی ان کی آبادی کے لحاظ سے ایک رقبہ دیا جا سکتا ہے۔
تیسرا خاکہ
اگر یہ صورت بھی منظور نہ ہو تو پھر بطور آخر ہم یہ مطالبہ کریں گے‘ کہ ہماری قومی ریاستیں الگ بنائی جائیں‘ اور ان کا علیحدہ وفاق ہو، اسی طرح ہندو ریاستوں کا بھی ایک جُدا گانہ وفاق ہو، اور پھر ان دو یا زائد وفاقی مملکتوں کے درمیان ایک طرح کا تحالف (confederacy) ہو جائے ‘جس میں مخصوص اغراض، مثلاً دفاع اور مواصلات (communications) اور تجارتی تعلقات کے لیے مقرر شرائط پر تعاون ہو سکے۔
یہ تین خاکے جو ہم نے تجویز کئے ہیں، ان میں سے جس کو بھی قبول کر لیا جائے اس پر ہم مفاہمت کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی چوتھی یا پانچویں صورت پیش کی جائے‘ تو اس پر بھی غور کر سکتے ہیں۔ مگر ہمارے ہندو ہمسایوں اور ان کے انگریز سر پرستوں کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے‘ کہ موجودہ کانسٹیٹیوشن اور ہر وہ نظامِ حکومت جو واحد قومیّت کی بنا پر جمہوری ادارات قائم کرتا ہو، کسی حال میں ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ اس بنیادی غلطی سے پاک کرکے جو دستور بھی پیش کیا جائے اس کو اور صرف اسی کو زیر غور لایا جا سکتا ہے۔
آخری سوال
اپنے قومی نصب العین کی اس تشریح کے بعد ہمارے لیے آخری سوال یہ رہ جاتا ہے‘ کہ اس کو حاصل کرنے کا ذریعہ کیا ہے؟ یہاں اس سوال کی تفصیلات پر بحث کرنے کا موقع نہیں۔ مختصراً ایک بات میں صاف صاف کہہ دینا چاہتا ہوں‘ اور وہ یہ ہے‘ کہ حالات جس حد تک پہنچ گئے ہیں ان میں ہمارے لیے انقلابی ذرائع اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے قومی رہنماؤں اور سیاسی اداروں نے گزشتہ دس پندرہ سال کی مدت میں انتہا درجہ کی بے بصیرتی اور نا عاقبت اندیشی سے کام لیا ہے‘ اور اس کے برعکس ہماری ہمسایہ قوم کو اعلیٰ درجہ کے دانش مند اور مدبر رہنما میسر آگئے ہیں۔ اس نامساوی مقابلہ کا نتیجہ یہ نکلا ہے‘ کہ آج ہم اس ملک کے سیاسی ترازو میں بہت بے وزن ہیں‘ اور ان کا پلڑا بہت جُھک چکا ہے۔ اب وہ اپنی کامیابی کی منزل سے بہت قریب ہو چکے ہیں‘ اور متعدّد اسباب سے، جن کی طرف میں پہلے اشارہ کر چکا ہوں، انگریز بھی دانستہ یا نادانستہ وہی طریق دستور سازی اختیار کرنے پر اصرار کر رہا ہے‘ جو سرا سر انہی کے لیے مفید ہے۔ ایسی حالت میں یہ توقع کرنا انتہا درجہ کی خام خیالی ہو گی کہ محض زور استد لال یا افہام و تفہیم یا آئینی چالوں سے ہم ہندوؤں اور انگریزوں کو ان کے وہ اصول اور مقاصد یکسر بدل ڈالنے پر آمادہ کر سکیں گے‘ جو نہ صرف ان کے عقیدے میں درست ہیں‘ بلکہ ان کی اغراض کے لیے مفید بھی ہیں۔اب آئینی تدبیروں کے لیے کامیابی کا کوئی موقع باقی نہیں رہا ہے۔ اب کوئی پارنل اور کوئی اوکانل ہماری لڑائی نہیں جیت سکتا۔ اب صرف جان و مال کی قربانیوں ہی سے واقعات کی رفتار بدلی جا سکتی ہے۔ جب تک ہم ثابت نہ کر دیں گے کہ یہ کانسٹی ٹیوشن ہمارے زندہ سروں پر نہیں‘ بلکہ قبروں پر ہی نافذ کیا جا سکتا ہے، اور جب تک ہم اپنے عمل سے یہ نہ بتا دیں گے کہ مسلمان اپنی قومی زندگی کے لیے مرنے کی طاقت رکھتا ہے، اس وقت تک ا س کانسٹی ٹیوشن کا ایک شوشہ بھی اپنی جگہ سے نہ ٹلے گا، اور نہ قومی جمہوری لادینی اسٹیٹ ہم پر مسلط ہونے سے باز رہے گا‘ جس کے لانے پر انگریز، ہندو اور ہمارے منافقین اور بہت سے صُمٌ بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَایَعْقِلُوْنَ مل جل کر کوشش کر رہے ہیں۔ مسلمان انتہا درجہ کے نادان ہوں گے‘ اگر وہ اب بھی حالات کی نزاکت کو ٹھیک ٹھیک نہ سمجھیں گے۔ وہ ابھی تک اس دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں‘ کہ ان کو یہ نمائشی جلسے اور جلوس اور کھوکھلے مظاہرے قومی ہلاکت سے بچا لیں گے۔اوہ ان لوگوں کی لیڈری پر اعتماد کر رہے ہیں‘ جن کے سامنے اپنی وزارت اور وجاہت کے سوا کوئی چیز نہیں، جو اپنی قوم کے لیے اپنا بال تک بیکا ہونا گوارا نہیں کر سکتے، جو مسلمانوں کے مفاد کا نام صرف اس لیے بلند آہنگیوں کے ساتھ لیتے ہیںکہ ایوانِ وزارت پر ان کا قبضہ رہے، جن کی بزدلی پر دشمنوںتک کو پورا پورا اعتماد ہے، جنہیں چیلنج کیا جاتا ہے‘ کہ اگر تم ہمارے ساتھ جیل میں جانے اور لاٹھیاں کھانے کو تیار ہو تو ہم تمہاری بات ماننے کے لیے تیار ہیں‘ اور وہ اس چیلنج کو قبول کرنے کے بجائے کنی کاٹ جاتے ہیں، جن کا حال یہ ہے‘ کہ یورپ میں سرکار برطانیہ کو جنگ کا خطرہ پیش آتا ہے‘ تو یہ سب سے پہلے آگے بڑھ کر اپنی وفادارانہ خدمات پیش کرتے ہیں۔ ایسے لیڈروں سے اگر مسلمان یہ توقع باندھے بیٹھے ہیں‘ کہ یہ ان کی کشتی کو بھنور سے نکال لیں گے‘ تو میں پیشین گوئی کرتا ہوں کہ ان کی کشتی ڈوب کر رہے گی۔ یہ تقریروں کا نہیں‘ بلکہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ اگر مسلمان جینا چاہتے ہیں‘ تو ان کو اور خصوصاً ان کے نوجوانوں کو اپنا گرم خون زندگی کے لیے بھینٹ چڑھانے پر تیار ہونا چاہیے۔
پوچھا جاتا ہے‘ کہ انقلابی ذرائع سے تمہاری کیا مراد ہے۔ میں حیران ہوں کہ اس کا کیا جواب دوں۔ جب تک کہ قوم کی ایک بڑی تعداد ایک نصب العین پر متحد نہ ہو جائے‘ اور ہر قیمت پر اسے حاصل کرنے کا عزم صمیم اس میں پیدانہ ہو جائے، انقلابی ذرائع کی ایک فہرست پیش کر دینا کسی یا وہ گوئی کا کام ہو سکتا ہے، اور میں یا وہ گوئی سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔

خ خ خ

شیئر کریں