Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مقدّمہ
حصہ اوّل : ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ایک تاریخی جائزہ
تقدیم{ FR 2891 }
باب ۱: آنے والا انقلاب اور مسلمان
باب ۲ : حالات کا جائزہ اور آئندہ کے امکانات
باب ۳ : ہمارا سیاسی نصب ُالعین
باب ۴ : راہِ عمل
حصہ دوم : اِصلاح کا راستہ قرآن و سنّت کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے صحیح راہِ عمل
باب ۵ : مسائلِ حاضرہ میں
باب ۶ اسلام … ایک جامع تہذیب دین و دنیا کی علیحدگی کا جاہلی تصوّر اور ہماری قومی سیاست میں اس کے اثرات
باب ۷ : شُبہات اور جوابات
حصہ سوم : کانگریس، متحدہ قومی تحریک اور مسلمان
تقدیم
باب ۸: مسلمانوں کی غلط نمائندگی اوراس کے نتائج
باب ۹: آزادی اور قومی تشخّص
باب ۱۰ : قوم پرستوں کے نظریات
باب ۱۱ : آزادی کی فوج کے مسلمان سپاہی
باب ۱۲ : حصول آزادی کا طریقہ
باب ۱۳ : جنگ ِ آزادی کا مطمح نظر
باب ۱۴ : قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟
باب ۱۵: بنیادی حقوق
باب ۱۶ : متحدہ قومیّت اور اسلام
باب ۱۷ : کیا ہندستان کی نجات نیشل ازم میں ہے؟
باب ۱۸ : اسلامی قومیّت کا حقیقی مفہوم 
باب ۱۹ : جنگِ آزادی کی نوعیت
باب ۲۰ : کانگریس اور مسلمان
حصہ چہارم : ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کے حل کی راہیں تین تجاویز
باب ۲۱ : مسلمان کیا کریں؟ تین تجاویز

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

باب ۲۰ : کانگریس اور مسلمان

گزشتہ صفحات میں نیشنل ازم اور آزادی ہند کی وطن پرستانہ تحریک کا جو علمی اور واقعاتی تجزیہ کیا گیا ہے اس سے یہ بات آفتاب نصف النہار کی طرح روشن ہو جاتی ہے‘ کہ ہمارے اور اس تحریک کے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ ہماری موت اس کی زندگی ہے‘ اور اس کی موت ہماری زندگی۔ ہمارے اور اس کے درمیان اصول میں، مقاصد میں اور طریق کار میں نہ صرف یہ کہ کسی قسم کا اتحاد نہیں ہے، بلکہ درحقیقت کلی اختلاف ہے۔ ایسا شدید اختلاف، کہ کہیں کسی ایک نقطہ پر بھی ہم اور وہ جمع نہیں ہوتے۔ ہمارا اس کا تباین اس نوعیت کا ہے‘ کہ جیسے مشرق اور مغرب کا تباین ہے‘ کہ جو شخص مغرب کی طرف جانا چاہتا ہو اس کے لیے بجز اس کے کوئی چارہ ہی نہیں کہ مشرق سے منہ موڑلے۔
اب جو شخص اس تحریک کے ساتھ چلتا ہے‘ اور اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتا ہے وہ لامحالہ دو حالتوںمیں سے کسی ایک حالت میں مبتلا ہے۔ یا تو وہ اس تحریک کی حقیقت اور اس کے منطقی اور واقعی نتائج کا پورا شعور رکھتا ہے‘ اور اس شعور کے ساتھ اس نے اپنے لئے یہ راستہ منتخب کیا ہے۔ یا پھر وہ کسی غلطی کا شکار ہے۔
پہلے شخص سے ہمارا کوئی جھگڑا اس کے سوا نہیں ہے‘ کہ ہمیں اس کی منافقت پسند نہیں۔ ہم اس سے صاف کہتے ہیں‘ کہ جب تم اسلامی قومیّت کی نفی کرنے کے لیے بالارادہ تیار ہو‘ اور اس جمہوری نظام میں صرف ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے شریک ہونا چاہتے ہو‘ جس کو واحد وطنی قومیّت کی بنیاد پر تعمیر کیا جا رہا ہے‘ تو تمہیں آخر کس نے مجبور کیا ہے‘ کہ اپنے آپ کو نام چارے کے لیے مسلم سوسائٹی سے بھی وابستہ رکھو؟ یہ نہ صرف منافقانہ حرکت ہے‘ بلکہ اس میں تمہارا اپنا سرا سر نقصان ہے۔ ’’مسلمان‘‘ کا ٹھپہ جب تک تمہارے اوپر لگا رہے گا اس وقت تک اکثریت کی حکومت میں تمہارے ساتھ امتیازی برتاؤ بہرحال ہو گا۔ خواہ تم ایک سو ایک فی صدی نیشنلسٹ بن جاؤ، تمہارا نام ہر جگہ تمہاری راہ میں حائل ہو گا۔ ہر ذمّہ داری کا منصب تمہیں دیتے ہوئے اکثریت جھجکے گی۔ صدارت کی کرسی، وزارت عظمیٰ، پارٹی لیڈر شپ، مالی اعانت، غرض ہر اہم چیز کو دینے میں فطری طور پر بخل سے کام لیا جائے گا۔ اس معاملہ میں اگر تم ایثار کے لیے تیار ہو تب بھی تو تمہیں سمجھ لینا چاہیے‘ کہ ’’ایک علیحدگئی پسند‘‘ قوم سے ظاہری وابستگی برقرار رکھ کر تم اپنے مقصد، واحد قومیّت کی تعمیر کو نقصان پہنچا رہے ہو۔ جب کہ ایک قوم اپنی جداگانہ ہستی قائم رکھنے پر اصرار کر رہی ہے‘ تو تمہارے اوپر یہ فرض عائد ہو جاتا ہے‘ کہ اس سے علیحدگی اختیار کرو بشرطیکہ تم اپنے مقصد کے سچے وفادار ہو۔
اب رہ جاتا ہے وہ شخص جواپنی قومیّت کی نفی نہیں کرنا چاہتا، بلکہ دل سے اس کے بقا اور نشونما کا آرزو مند ہے، اور اس امر کی حقیقی خواہش رکھتا ہے‘ کہ آزاد ہندوستان میں اس کی قومیّت کو آزادی، خود اختیاری اور ترقی کا پورا موقع ملے، مگر اس کے باوجود کسی غلطی یا غلط فہمی کی وجہ سے اس تحریک میں شامل ہو گیا ہے‘ جو اس کے قومی نصب العین سے اصولی، مقصدی،اور فعلی مخالفت رکھتی ہے۔ ایسے شخص کی حالت کا ہمیں تجزیہ کرکے دیکھنا ہو گا کہ وہ کس نوعیت کی غلطی یا غلط فہمی میںمبتلا ہے۔
اس کے مرض کا ایک سبب یہ ہو سکتا ہے‘ کہ وہ اس تحریک کی حقیقت سے واقف نہ ہو، بلکہ چند سطحی باتیں اپنے حسب ِمنشا پا کر اس کے ساتھ لگ گیا ہو۔ گزشتہ صفحات اس بیماری کا علاج کرنے کے لیے کافی ہیں۔ آنکھیں کھول کر انہیں پڑھے گا تو ان شاء اللہ شفا یاب ہو جائے گا۔
دوسرا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے‘ کہ وہ اس تحریک کی حقیقت اور اس کے نتائج کو سمجھتا ہو، مگر علم و واقفیت کی کمی نے اسے اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیا ہو‘ کہ ہندوستان میں آزاد حکومت کا نشوونما ان جمہوری اصولوں کے سوا کسی دوسری صورت سے ممکن ہی نہیں ہے‘ جن کو یہاں رواج دیا جا رہا ہے، لہٰذا وطنی آزادی کی خواہش رکھنے والے کو چار و ناچار انہیں قبول کرنا ہی پڑے گا، ورنہ پھر دوسرا راستہ اور ایک ہی راستہ انگریز کی غلامی کا ہے۔ جو لوگ اس غلطی کے شکار ہوئے ہیں انہیں اس کتاب کا آخری باب کھلے دل سے پڑھنا چاہیے۔ ہمیں اُمید ہے‘ کہ ان کی پوری تشفی ہو جائے گی۔
تیسرا سبب یہ ہو سکتا ہے‘ کہ علمی و نظری حیثیت سے تو ایک شخص کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہے، مگر یاس، بزدلی اور کم ہمتی نے اس کے دل پر قابو پا لیا ہے۔ وہ اس بات سے تو بے خبر نہیںہے‘ کہ ہندستان کے مسئلہ کو حل کرنے کی دوسری صحیح تر صورتیں بھی موجود ہیں، مگر وہ ایک طرف اپنی قوم کی بے چارگی کو دیکھتاہے‘ اور دوسری طرف یہ دیکھ کر ہیبت زدہ ہو جاتا ہے‘ کہ وطنی قومیّت اور جمہوریت کی پشت پر زبردست طاقتیں ہیں‘ جن کا مقابلہ یا تو کیا ہی نہیںجا سکتا، یا اگر کیا جا سکتا ہے‘ تو اپنے آپ کو بربادی و ہلاکت کے خطرے میں ڈالنا پڑے گا اور پھر بھی کامیابی کی اُمید کم ہی ہے۔ ایسے شخص کے لیے ہم خدا سے دعا کریں گے‘ کہ اس کے دل میں ایمان کی طاقت پیدا ہو۔ اور خود اس شخص کو بھی مشورہ دیں گے کہ بندئہ خدا،اگر تجھ میں تائید ِحق کا بل بوتا نہیں ہے‘ تو باطل کی تائید کرکے اپنی قبر میں آگ کیوں بھرتا ہے؟ جا، اور گوشے میںبیٹھ کر اللہ اللہ کر۔ یہ فتنہ کا وقت ہے۔ جو مردِ میدان بن کر نہیں نکل سکتا۔ اس کے لیے سلامتی ایمان کی راہ صرف یہی ہے‘ کہ اپنے گھر کا دروازہ بند کرکے بیٹھ جائے۔
چوتھا سبب یہ بھی ممکن ہے‘ کہ آدمی پر جذبۂ انتقام مستولی ہو گیا ہو۔ اسے انگریز کے ہاتھوں سے اتنی تکلیفیں پہنچی ہوں کہ وہ جوشِ غضب میں اندھا ہو گیا ہو‘ اور کہتا ہو‘ کہ اگر حق کی تلوار نہیں ملتی تو پروا نہیں، میں باطل ہی کی تلوار سے اس دشمن کا سر اڑاؤں گا، چاہے ساتھ ہی ساتھ میری اپنی ملت کی بھی رگ جان کٹ کے رہ جائے۔ ایسے شخص کی بیماری دل کا علاج خداوند عالم کے سوا اور کسی کے پاس نہیں۔ اللہ اس کو توبہ کی توفیق عطا فرمائے، اور نہ ڈر ہے‘ کہ جس راہ پر وہ اس جذبہ کے ساتھ چل رہا ہے اس میں اپنی عمر بھر کی کمائی ضائع کر دے گا او قیامت کے روز اس حال میں خدا کے سامنے حاضر ہو گا کہ ساری عبادتیں اور نیکیاں اس کے نامہ اعمال سے غائب ہوںنگی اور ایک قوم کی قوم کو گمراہی و ارتداد میںمبتلا کرنے کا مظلمہ عظیم اس کی گردن پر ہو گا۔
لِيَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَہُمْ كَامِلَۃً يَّوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۙ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّوْنَہُمْ { FR 3047 }
;النحل 25:16
پانچواں سبب یہ ہے‘ کہ ایک شخص اس فعل کو کار ثواب سمجھ کر کر رہا ہو۔ وہ اس خیال میں مبتلا ہو کہ دنیائے اسلام کو انگریزی امپیریل ازم کے پنجے سے چھڑانے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ آزادی ہند کی اس تحریک کا ساتھ دیا جائے۔ اب اگر اس میں ہندستان کی مسلمان قوم ختم ہو جائے‘ تو پروا نہیں۔ ہندستان سے باہر کے مسلمان تو اس بلا سے نجات پا جائیں گے۔ اس خیالِ خام نے جس شخص پر قابو پا لیا ہے اس سے ہم تین باتیں عرض کریں گے۔
۱- انگریزی امپیریل ازم کو اگر کوئی چیز ختم کر سکتی ہے‘ تو وہ آزادی کامل کی خالص انقلابی تحریک ہی ہے۔ اس کے بغیر نہ یہ بلا دور ہو گی نہ آپ کا مقصد حاصل ہو گا۔ لیکن یہ تحریک جس کا ساتھ آپ دے رہے ہیں نہ آزادی کامل کی تحریک ہے‘ اور نہ خالص انقلابی تحریک۔ اس کی جو حقیقت ہم پچھلے صفحات میںبیان کر چکے ہیں اس کی تردید میں اگر آپ کے پاس کانگریسی لیڈروںکے بعض دعووں کے سوا کوئی ثبوت ہو تو بسم اللہ، اسے سامنے لے آئیے۔ ورنہ صریح واقعات کے خلاف آپ کا اپنی جگہ یہ سمجھ بیٹھنا کہ اس تحریک کی حمایت سے آپ دنیائے اسلام کو آزاد کرا لیں گے محض بے معنی ہے‘ اور بلاوت ذہن کے سوا کسی دوسری چیز پر دلالت نہیں کرتا۔
۲- پھر اگر بالفرض اس وطنی قومیّت کی تحریک سے آپ کو فی الواقع دنیائے اسلام کی آزادی حاصل بھی ہو سکتی ہو تو ہم کہیں گے کہ اس پاک مقصد کے لیے یہ ناپاک ذریعہ اختیار کرنا ہرگز جائز نہیں۔ خوب سمجھ لیجئے کہ اس تحریک کی کامیابی اور ہندوستان کی مسلمان قوم کا ارتداد دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اس کا مآل یہ ہے‘ کہ آٹھ کروڑ مسلمانوں کی عظیم الشان قوم رفتہ رفتہ مرتد ہو جائے‘ اور اس کی آئندہ نسل سے مادہ پرست دہرئیے پیدا ہوں، جن کے عقائد، اخلاق اور عمل میں اسلامیت کا شائبہ تک نہ پایا جائے۔ کیا اس نتیجہ کو سامنے رکھ کر کوئی شخص جو علم دین سے ذرّہ برابر بھی بہرہ رکھتا ہو، یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہے‘ کہ دنیائے اسلام کی آزادی کے لیے یہ قربانی دینا بھی جائز ہے؟ اگر محض جان اور مال کی قربانی کا سوال ہوتا تو پروا نہ تھی، ہم کھلے دل کے ساتھ کہتے کہ اس سر زمین کا ایک ایک مسلمان اس مقصد کے لیے کٹ مرے، حتیٰ کہ ایک بچہ بھی زندہ نہ رہے۔ لیکن یہاں سوال دین و اخلاق کی قربانی کا ہے۔ یہاں یہ قربانی دینی پڑتی ہے‘ کہ ہماری نسلیں باقی رہیں مگر مسلمان نہ رہیں۔ تو یہ قربانی دنیا کی کسی بڑی سے بڑی اور مقدّس سے مقدّس چیز حتیٰ کہ بیت اللہ اور گنبد خضرا کے لیے بھی نہیں دی جا سکتی۔
۳- وطن پرستی کی یہ تحریک اگر کامیاب ہو جائے‘ تو دنیائے اسلام کے لیے انگریزی امپیریلزم کے بجائے ہندوستانی امپیریل ازم کا خطرہ پیداکر دے گا۔ نیشنل ازم تاریخ کے دوران میں اکثر امپیریل ازم کی شکل اختیار کرتا رہا ہے‘ اور آج بھی اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا لینے سے کچھ حاصل نہیں۔ آپ کو اچھی طرح جان لینا چاہیے‘ کہ نیشنل ازم کا نشہ جب کامیابی سے ہمکنار ہو گا‘ تو امپیریل ازم کا جنون بن جائے گا‘ اور اس وقت دنیائے اسلام کے قلب میں ایک دوسرا جاپان پیدا ہو گا۔ آپ کی نسل نے تو محض پیٹ کی خاطر ارض عرب میں داد مردانگی دی ہے({ FR 3043 })، لیکن آپ کی آئندہ نسل جو واردھا اسکیم اور ودیا مندر اسکیم سے تیار ہو گی، وہ اعتقاد کی قوّت کے ساتھ یہ خدمت انجام دے گی۔ اس کا ضمیر اس فعل پر ملامت نہ کرے گا بلکہ الٹا فخر کرے گاکہ اس نے ہندستان کا نام اونچا کیا اور اپنی ’’قوم‘‘ کے آگے دور و نزدیک کی قوموں کے سر جھکا دئیے۔ پس درحقیقت ہندستان کے مسلمان پر نیشنل ازم کے شیطان کو مسلط کرنا دنیائے اسلام کی بھی کوئی خدمت نہیں ہے۔
غلط فہمی کا ازالہ
اب ایک غلط فہمی اور رہ جاتی ہے‘ جسے دور کر دینا ضروری ہے۔ بعض حضرات فرماتے ہیں‘ کہ اس ملک میں کانگریس ایک طاقت بن چکی ہے‘ اور ایسی طاقت بن گئی ہے‘ جس نے سیاسی قوّت و اقتدار کے تمام سر چشموں پر قابو پا لیا ہے۔ اس سے الگ رہنا یہ معنی رکھتا ہے‘ کہ ہم ان سر چشموں سے خود دست بردار ہو گئے‘ اور دوسرے لوگوں کو آپ سے آپ ان کا قبضہ دے دیا۔زیادہ صحیح تدبیر یہ ہے‘ کہ اس جماعت کے اندر گھس جاؤ اور وہاں طاقت پیدا کرو۔ اس کا کم سے کم فائدہ یہ ہے‘ کہ ہندو راج کے حامیوں کا زور ٹوٹ جائے گا‘ اور مسلمان سیاسی طاقت میں حصہ دار بن جائیں گے‘ اور اس میں زیادہ سے زیادہ فائدہ کے بھی امکانات ہیں۔ مثلا یہ کہ مسلمان سوشلسٹ گروہ کے ساتھ مل کر مہاسبھائی عنصر کو شکست دے دیں، اور یہ کہ مسلمان اپنی بالاتر تہذیب سے ہندوؤںکو متاثر کریں‘ اور آگ کی طرح ان کی تہذیب ہندوؤں میں پھیلتی چلی جائے۔
یہ بڑی دل خوش کن باتیں ہیں۔ مگر ہمیں تنقید کرکے دیکھنا چاہیے‘ کہ اس میں حقیقت کتنی ہے‘ اور جنت حمقا کی ہوائیں کس قدر شامل ہو گئی ہیں۔
بلاشبہ کانگریس کا نظام جمہوری ہے‘ اور اس کے آئین میں اتنی گنجائش موجود ہے‘
کہ جو گروہ چاہے اس میں شریک ہو کر اقتدار کے مرکز پر قبضہ کرنے کی جدوجہد کر سکتا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح انگلستان کے آئین میں اس امر کی گنجائش موجود ہے‘ کہ لبرل، کنزرویٹو، سوشلسٹ، کمیونسٹ، جوچاہے پارلیمنٹ میں جانے اور وزارت پر قبضہ کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ نظری حیثیت سے یہ بھی ممکن ہے‘ کہ دو یا تین چھوٹی جماعتیں مل کر ہر دوسری جماعت سے زیادہ طاقت ور ہو جائیں‘ اور مرکزی اقتدار حاصل کر لیں۔لیکن یہاں سوال آئین اور اس کی نظری گنجائشوںکا نہیں‘ بلکہ امور واقعیہ کا ہے۔ جو جماعت خالص جمہوری اصولوں پر بنی ہو اس میں کسی ایسی پارٹی کے بر سر اقتدار ہونے کا ہرگز کوئی امکان نہیں جس کی حیثیت دراصل قومی اقلیت (national minority) کی ہوا اور کثیر التعداد قوم کی تمام پارٹیوںمیں جس کے خلاف قومی امتیاز اور قومی امپیریل ازم کا جذبہ بطور ایک قدر مشترک کے پایا جاتاہو۔ ایسی اقلیت نہ تو کبھی اکثریت بن سکتی ہے‘ اور نہ یہ اُمید کر سکتی ہے‘ کہ کثیر التعداد قوم کی کوئی پارٹی اس کو بر سر اقتدار آنے میںمدد دے گی۔
ہمارے سامنے آئر لینڈ کی مثال موجود ہے۔ ۱۸۰۱ء میں انگلینڈ اور آئر لینڈ کی یونین (وحدت) عمل میں آئی اور دونوں قوموں کو ایک قوم قرار دے کر ایک جمہوری نظام میں شریک کر دیا گیا۔ دونوں کی ایک ہی پارلیمنٹ تھی۔ ایک ہی طریق انتخاب سے دونوں اپنے اپنے نمائندے منتخب کرکے اس جمہوری ادارہ میں بھیجتے تھے۔ا ور جہاں تک نظریہ کا تعلق ہے، آئین میں کوئی ایسی رکاوٹ موجود نہ تھی‘ کہ آئرش کے نمائندے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرکے گورنمنٹ پر قابض نہ ہو سکیں یا کسی دوسری پارٹی کے ساتھ مل کر وزارت نہ بنا سکیں۔ لیکن فی الواقع ہوا کیا؟ او کانل (O’Connel) جیسے آتش بیان خطیب اور ہوشیار قانون دان کی تدبیریں اور پارنل (parnal) جیسے قابل پارلیمنٹری لیڈر کی چالیں بھی کچھ نہ کر سکیں۔ ایک سو بیس سال کی پوری تاریخ شاہد ہے‘ کہ ایک دن کے لیے بھی آئرش نمائندوں کو برطانوی پارلیمنٹ میں اقتدار نصیب نہ ہوا۔ اور اقتدار تو درکنار وہ غریب کسی آئینی تدبیر سے ان مصائب کو بھی دور نہ کر سکے جو انگریزی حکومت کے ہاتھوں ان پر نازل ہوئے تھے۔ حتیٰ کہ آخر کار ان کو باہر سے لڑنا پڑا، اور آج کی آئرستانی حکومت کسی آئینی جدوجہد، کسی اندرونی تعاون کا نہیں‘ بلکہ بیرونی جنگ کا نتیجہ ہے۔ یہی سبق ہم کو چیکوسلواکیا کے جمہوری نظام سے ملتا ہے‘ جہاں جرمن اور سلاوک اقلیتیں چیک اکثریت کے مقابلہ میں پارلیمنٹری طریقوں سے کچھ نہ کر سکیں۔ یہی سبق ہمیں یوگو سلیویا سے ملتا ہے‘ جہاں کروٹس اور سلافینی آج تک کبھی کسی آئینی چال سے حکومت کے نظام پر قابض نہ ہو سکے۔ یہی سبق ہمیں امریکہ سے ملتا ہے‘ جہاں ہر پارٹی حکومت پر قبضہ کر سکتی ہے‘ مگر حبشی قوم کے لیے اس کا قطعاً کوئی امکان نہیں۔ لہٰذا جو لوگ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں‘ کہ دراصل ہندستان میں ہماری حیثیت محض ایک سیاسی پارٹی کی نہیں‘ بلکہ ایک قومی اقلیت کی ہے، وہ کانگریس پر قبضہ کرنے کے خواب جس قدر چاہیں دیکھتے رہیں، اگر عقل سے نہیں سمجھتے تو تجربہ ہمیں بتا دے گا کہ یہ خواب کبھی شرمندئہ تعبیر نہ ہو سکیں گے۔
بھول نہ جانا چاہیے‘ کہ کانگریس کا اور ہمارا اختلاف محض ذرائع اور طریقوں (means & methods) کے اختلاف کی حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ اصول و مقاصد اور پالیسی کا بنیادی اختلاف ہے۔ اس کے اصول قومیّت و جمہوریت کو ہم بالکل بدل ڈالنا چاہتے ہیں۔ ان کے مقصد، یعنی ایک قومی جمہوری لادینی اسٹیٹ کے قیام کوبھی ہم قبول نہیں کر سکتے۔اس کی پالیسی، یعنی بتدریج سیاسی اختیارات حاصل کرنے اور ان کی مدد سے ہندوؤں کی بالا دستی عملاً قائم کر دینے کو بھی ہم گوارا نہیں کر سکتے۔ یہ تینوں بنیادی چیزیں جب تک بدل نہ جائیں، کانگریس کے ساتھ ہمارا تعاون اسلامی اغراض کے لیے ذرّہ برابر مفید نہیں۔ اب یہ دیکھناچاہیے کہ آیا کانگریس کے اندر جا کر ہم انہیں بدل سکتے ہیں؟
داخلی مقاومت یا تعاون سے کسی جمہوری تنظیم کے اصول، مقاصد اور پالیسی میں تغیّر پیدا کرنے کی تین ہی صورتیں ممکن ہیں :
یا تو تغیّر چاہنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو‘ کہ وہ اس جماعت پر چھا جائیں۔ اس صورت میں کلّی تغیّر بھی ہو سکتا ہے۔
یا اس جماعت کے اندران کا نظام اتنا زبردست ہو‘ کہ وہ اپنی منظم مقاومت سے اس جماعت کو پریشان کر دیں۔ اس صورت میں کلی تغیّر تو نہیں، البتہ کسی حد تک تغیّر ضرور ممکن ہے۔
یا پھر تغیّر چاہنے والے اپنے اخلاقی اثر اور اپنے دلائل کی قوّت سے اس جماعت کی رائے کو متاثر کر دیں، اور اس طرح وہ جماعت خود ہی حق اور عدل کی طرف مائل ہو جائے۔ اس طریقہ کی کامیابی تمام تر اس جماعت کی انصاف پسندی و حق آگاہی پر منحصر ہے۔
ان میں سے پہلی صورت تو یہاںناقابلِ عمل ہے۔ کسی حسابی معجزے کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے‘ کہ کانگریس میں مسلمانوںکے ووٹ ہندوؤں کے ووٹوں سے زیادہ ہو جائیں۔ لہٰذا جو لوگ مسلمانوں سے کہتے ہیں‘ کہ کثرت سے کانگریس میں داخل ہو‘ اور اس پر قابض ہو جاؤ ان کی بات اتنی ہی قابلِ التفات ہے جتنی اس شیرخوار بچے کی بات قابلِ التفات ہو سکتی ہے‘ جو بیچارا ایک اور چار کی نسبت سے بھی واقف نہیں۔
رہی دوسری صورت تو داخل میں منظم جدوجہد اور مقاومت صرف اس طرح ممکن ہے‘ کہ کانگریس میںجتنے مسلمان شریک ہیں،ا ور آئندہ شریک ہوں، وہ سب کے سب، یا ان کی ایک بہت بڑی اکثریت ایک پارٹی، بلکہ ایک ٹیم بن کر رہیں، ان کی قیادت ایک ایسے دیندار گروہ کے ہاتھ میں ہو‘ جو اسلامی مفاد کا صحیح احساس و شعور رکھتا ہو، اور وہ اس گروہ کی ایسی کامل اطاعت کریں کہ ان کا کانگریس میں رہنا یا نکل آنا اس کے حکم پر موقوف ہو۔ مگر کیا بحالت موجودہ کانگریس میں ایک مسلم پارٹی کی تنظیم اس طرز پر ہو سکتی ہے؟ واقعات سے اس کا جواب نفی میں ملتا ہے۔ وہاں جو مسلمان شریک ہیں، ظاہر میں ان سب پر لفظ مسلمان کا اطلاق ہوتا ہے، اور آزادی ہند کے مسئلے میںوہ ہم آہنگ بھی ہیں، لیکن اسلامی نقطۂ نظر سے ان کے خیالات اس قدر متضاد ہیں‘ کہ ان کو ایک پارٹی میں منسلک کرنے کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں سے ایک گروہ تو قطعی طور پر اسلام سے منحرف ہو چکا ہے‘ اور حتماً یہ رائے رکھتا ہے‘ کہ ہندستان کے آئندہ نظامِ اجتماعی میں مذہب کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ دوسرا گروہ نہ منحرف ہے‘ اور نہ معتقد۔ اس گروہ میں اتنی مختلف اقسام پائی جاتی ہیںجتنی سانپوں کی اقسام ہیں۔ ان میں سے بعض اسلام کے متعلق خود اپنے کچھ تصوّرات رکھتے ہیں‘ جن کے لیے کتاب و سنّت کی سند غیر ضروری ہے۔بعض کو ’’مسلمان‘‘ کے سیاسی و معاشی مفاد سے تو ضرور دلچسپی ہے‘ مگر اسلام سے کوئی دل چسپی نہیں۔بعض ایسے ہیںجو مسلمان کے مفاد کو کسی حد تک اہمیت ضرور دیتے ہیں، مگر اتنی نہیںکہ ’’ملک‘‘کے مفاد کا جو تصوّر ان کے دماغ میں ہے اس پر مسلمانوں کے مفاد کو قربان کرنے میں انہیں کوئی تامل ہو۔ تیسرا گروہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہے‘ جو دین دار، اہلِ علم اور نیک نیت ہیں۔ کانگریس میں جب کبھی ہندوستان کے مشترک مفاد کا کوئی مسئلہ اٹھے گا یہ تینوںگروہ ایک آوازبلند کریں گے۔ مگر جب اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کا سوال آئے گا تو یہ اس قدر بھانت بھانت کی بولیاں بولیں گے کہ اسلام اور مسلمان، دونوں غیر مسلموں کے لیے مضحکہ بن کر رہ جائیں گے،اور یہ متعین کرنابھی مشکل ہو جائے گا کہ حقیقت میں اسلام کیا چیز ہے‘ اور مسلمانوں کا مفاد کس چڑیا کا نام ہے۔
ماس کانٹیکٹ کے ذریعہ سے یہ تینوں گروہ مسلمانوں کو کانگریس میں بھرتی کر رہے ہیں‘ اور اب علمائے کرام کے صدقے میں کانگریس کے ہندو کارکن بھی بھرتی کا کام کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ اس طرح جو مسلمان کانگریس میںجا رہے ہیں وہ تینوں گروہوںاور ان کی بے شمار شاخوں میں تقسیم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کانگریس کے ہندو ارکان کی ہمدردیاں تمام تر پہلے گروہ سے وابستہ ہیں۔ خواہ وہ گاندھی جی ہوں یا جواہر لال یا کوئی سخت مہاسبھائی، بہرحال فطرتاً ان سب کا میلان ان نام نہاد مسلمانوں کی طرف ہے‘ جو اسلام سے ا عتقاداً اور عملاً منحرف ہو چکے ہیں‘ اور اس وقت ہندستان میں اسلام اور مسلم قومیّت کی جڑیں کاٹنے کے لیے بدترین منافقوںکا پارٹ ادا کر رہے ہیں۔ کانگریس کے ذمّہ دار عہدے اور کانگریسی حکومت کے تحت عزت اور منفعت اور اثر و اقتدار کے مناصب تمام تر انہی منافقین کے لیے وقف ہیں‘ اور رہیں گے۔ان کے بعد کانگریسی لیڈروں کے نزدیک اگر کوئی گروہ قابلِ ترجیح ہے‘ تو وہ دوسرا گروہ ہے، اور اس گروہ میں سے خصوصیت کے ساتھ وہ طبقہ جو منافقین کے مقام سے ا قرب ہے، باقی رہا تیسرا گروہ، اور اس سے قریب تر تعلق رکھنے والے طبقے تو ان کو محض آلۂ کار کی حیثیت سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جب تک یہ وفادار خدام کی حیثیت سے صرف رنگروٹ بھرتی کرتے رہیں گے، ان سے مداہنت برتی جائے گی۔ جہاں انہوں نے کچھ زور پکڑا اور اسلامی مفاد کا نام لیا، ان پر منافقین کی اس فوج کو ہشکار { FR 3044 } دیا جائے گا جو اسی دن کے لیے پرورش کی جا رہی ہے۔ ایسے موقع پر ہندو لیڈروں کوخود سامنے آنے کی تکلیف بھی نہ اٹھانی پڑے گی۔ ہماری اپنی قوم کے منافقین ہی ہمارے دین داروںکو بھنبوڑ کھائیں گے۔ کیا ایسی حالت میںکانگریس کے اندر رہ کر اسلامی مفاد کے لیے کوئی منظم جدوجہد کی جا سکتی ہے؟
اس کے بعد تیسری صورت باقی رہ جاتی ہے۔ جہاں تک اخلاقی اثر اور دلیل و حجت کا تعلق ہے اس کے لیے کثرت تعداد کی کوئی حاجت نہیں۔ اگر کوئی جماعت واقعی حق پسند اور انصاف شعار ہے‘ تو اس کو ایک تنہا شخص بھی حق کا اعتراف کرنے اور انصاف سے کام لینے پر آمادہ کر سکتاہے۔ اب ہم پوچھتے ہیں‘ کہ گزشتہ چند مہینوں میں کانگریسی حکومتوںنے مسلمانوں کے ساتھ جو صریح اور ناقابلِ انکار بے انصافیاںکی ہیں، ان میں سے کس کی تلافی ہماری دین دار کانگریسی بھائیوں نے اپنے اخلاقی اثر اور زور استدلال سے کرا لی؟ کیا واردھا اسکیم اور ودیا مندر اسکیم میں ایک شوشے کا بھی تغیّر کرا لیا؟ کیا گائے کی قربانی کو دفعہ ۱۴۴ کی زد سے بچا لیا؟ کیا اس صریح بے انصافی کا کوئی تدارک کرا لیا جو بہار اور سی پی کے ڈسٹرکٹ بورڈوں اور میونسپلٹیوں کے مسلمانوںکے ساتھ روا رکھی گئی؟ جگہ جگہ مدرسوں اور پبلک جلسوں میں مسلمانوں کو بندے ماترم کے لیے قیامِ تعظیمی پر جو مجبور کیا جا رہا ہے۔ کیا اس کا کوئی تدارک کرا لیا؟ اور اگر یہ نہیںتو یہی ارشاد ہو‘ کہ صرف نبی کریم a پر صلوٰۃ و سلام بھیجنے ہی کے لیے قیامِ تعظیمی ممنوع ہے، اور صرف اسی پر رسالے تصنیف کرنے اور فتوے شائع کرنے کی بھی ضرورت ہے؟ باقی رہا بندے ماترم تو وہ اس سے بالا تر ہے‘ کہ اس کے لیے قیامِ تعظیمی کرنے یا نہ کرنے کا سوال معرض بحث میں لایا جا سکے؟ سی پی کانگریس ورکنگ کمیٹی نے ہندو وزرا اور ایک مسلمان وزیر کے ساتھ جو مختلف قسم کے طرزِعمل اختیار کئے، کیا اس پر کوئی نتیجہ خیز بازپرس کر لی؟ حکومت کی طاقت سے اُردو کو دبانے اور ہندی کو ابھارنے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں، کیا ان کو رکوا دیا؟ کانگریسی حکومت میں نہایت متعصب اور بدنام مہاسبھائیوںکو جو ذمّہ دار عہدے دیے گئے ہیں، کیا ان پر کوئی مؤثر احتجاج کر لیا؟ اگر کوئی کانگریسی مسلمان سخن پروری کے ساتھ نہیں‘ بلکہ دیانت اور صداقت کے ساتھ ان امور کے متعلق اپنا کوئی کارنامہ پیش کر سکتا ہے‘ تو سامنے آئے اور ضرور آئے۔ا ور اگر اس کے پاس ہمارے ان سوالات کا کوئی جواب اس کے سوا نہیںہے‘ کہ ’’ہماری پشت پر دین دار مسلمانوں کی اتنی طاقت ہی نہیں جس سے ہم ان بے انصافیوں کا تدارک کر سکیں‘‘ تو ہمارا مدعا خود اس کے اپنے اعتراف سے ثابت ہو گیا۔ ہم بھی اس سے یہی اعتراف کرانا چاہتے ہیں‘ کہ وہ ایک ایسی جماعت سے تعاون کر رہا ہے‘ جو حق کو حق اور انصاف کو انصاف کی حیثیت سے قبول کرنے والی نہیں، بلکہ صرف زور اور طاقت کے آگے سر جھکانے والی ہے، لہٰذا اس کے ساتھ تعاون کرکے محض اخلاقی طاقت سے وہ کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکتا۔

شیئر کریں