Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مقدّمہ
حصہ اوّل : ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ایک تاریخی جائزہ
تقدیم{ FR 2891 }
باب ۱: آنے والا انقلاب اور مسلمان
باب ۲ : حالات کا جائزہ اور آئندہ کے امکانات
باب ۳ : ہمارا سیاسی نصب ُالعین
باب ۴ : راہِ عمل
حصہ دوم : اِصلاح کا راستہ قرآن و سنّت کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے صحیح راہِ عمل
باب ۵ : مسائلِ حاضرہ میں
باب ۶ اسلام … ایک جامع تہذیب دین و دنیا کی علیحدگی کا جاہلی تصوّر اور ہماری قومی سیاست میں اس کے اثرات
باب ۷ : شُبہات اور جوابات
حصہ سوم : کانگریس، متحدہ قومی تحریک اور مسلمان
تقدیم
باب ۸: مسلمانوں کی غلط نمائندگی اوراس کے نتائج
باب ۹: آزادی اور قومی تشخّص
باب ۱۰ : قوم پرستوں کے نظریات
باب ۱۱ : آزادی کی فوج کے مسلمان سپاہی
باب ۱۲ : حصول آزادی کا طریقہ
باب ۱۳ : جنگ ِ آزادی کا مطمح نظر
باب ۱۴ : قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟
باب ۱۵: بنیادی حقوق
باب ۱۶ : متحدہ قومیّت اور اسلام
باب ۱۷ : کیا ہندستان کی نجات نیشل ازم میں ہے؟
باب ۱۸ : اسلامی قومیّت کا حقیقی مفہوم 
باب ۱۹ : جنگِ آزادی کی نوعیت
باب ۲۰ : کانگریس اور مسلمان
حصہ چہارم : ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کے حل کی راہیں تین تجاویز
باب ۲۱ : مسلمان کیا کریں؟ تین تجاویز

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

باب ۱: آنے والا انقلاب اور مسلمان

ہندستان { FR 2892 }میں تیزی کے ساتھ ایک نیا انقلاب آرہا ہے‘ جو بلحاظ اپنے اثرات اور اپنے نتائج کے ۱۸۵۷ء کے انقلاب سے بھی زیادہ شدید ہو گا۔ پھر اس سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر ایک دوسرے انقلاب کا سامان تمام دنیا میں ہو رہا ہے، اور بہت ممکن ہے‘ کہ یہ وسیع تر انقلاب اس برِصغیر پر اثر انداز ہو کر ‘یہاں کے متوقع انقلاب کا رخ اچانک پھیر دے ا ور اس کو ہماری توقعات سے بہت زیادہ پُر خطر بنا کر رہے۔
جو لوگ خس و خاشاک کی طرح ہر رَو پر بہنے کے لیے تیار ہیں، اور جن کو خدا نے اتنی سمجھ بوجھ ہی نہیں دی ہے‘ کہ اپنے لیے زندگی کاکوئی راستہ متعین کر سکیں، ان کا ذکر تو قطعاً فضول ہے۔ انہیں غفلت میں پڑا رہنے دیجئے، زمانہ کا سیلاب جس رخ پر بہے گا وہ آپ سے آپ اسی رخ پر بہہ جائیں گے۔ اسی طرح ان لوگوں سے بھی قطع نظر کیجئے‘ جو آنے و الی انقلابی قوتوں پر سمجھ بوجھ کر ایمان لائے ہیں‘ اور بالا رادہ اسی رخ پر جانا چاہتے ہیں‘ جس پر زمانہ کا طوفانی دریا جا رہا ہے۔ اب صرف وہ لوگ رہ جاتے ہیں۔ جو مسلمان ہیں، مسلمان رہنا چاہتے ہیں، مسلمان مرنا چاہتے ہیں‘ اور یہ تمنا رکھتے ہیں‘ کہ ہندستان میں اسلامی تہذیب زندہ رہے‘ اور ہماری آئندہ نسلیںمحمد عربی a کی بتائی ہوئی راہِ راست پر قائم رہیں۔ ان لوگوں کے لیے یہ وقت روا روی سے گزار دینے کا نہیں‘ بلکہ گہری سوچ اور غایت درجہ کے غور و فکر کا ہے۔ وہ اگر اس نازک وقت میں غفلت اور بے پروائی سے کام لیں گے‘ تو ایک جرمِ عظیم کا ارتکاب کریں گے‘ اور اس جرم کی سزا صرف آخرت میں ہی نہ ملے گی بلکہ اسی دنیا کی زندگی میں ان پر چھا جائے گی۔ زمانہ کا بے درد ہاتھ ا ن کی آنکھوں کے سامنے تہذیب ِاسلامی کے ایک ایک نشان کو مٹائے گا ‘اور وہ بے بسی کے ساتھ اس کو دیکھا کریں گے۔ زمانہ ان کے قومی وجود کو ملیا میٹ کرے گا۔ ایک ایک کرکے ان امتیازی حدود کو ڈھائے گا‘ جن سے اسلام غیر اسلام سے ممیز ہوتا ہے۔ ہر اس خصوصیت کو فنا کر دے گا‘ جس پر مسلمان دنیا میں فخر کرتا رہا ہے۔ وہ یہ سب کچھ دیکھیں گے‘ اور کچھ نہ کر سکیں گے۔ ان کی آنکھیں خود اپنے گھروں میں اپنی نو خیز نسلوںکو خدا پرستی سے دور، اسلامی تہذیب سے بیگانہ اور اسلامی اخلاق سے عاری دیکھیں گی، ا ور آنسو تک نہ بہا سکیں گی۔ ان کی اپنی اولاد اس فوج کی سپاہی بن کر اٹھے گی‘ جسے اسلام اور اس کی تہذیب کے خلاف صف آراء کیا جائے گا۔ وہ اپنے جگر گوشوں کے ہاتھ سے تیر کھائیں گے‘ اور جواب میں کوئی تیر نہ چلا سکیں گے۔
یہ انجام یقینی ہے اگر کام کے وقت کو غفلت میں کھو دیا گیا۔ انقلاب کا عمل شروع ہو چکا ہے، اس کے آثا رنمایاں ہو چکے ہیں، اور اب فکر و عمل کے لیے بہت ہی تھوڑا وقت باقی ہے۔
ہندستان میں اسلام کی گزشتہ تاریخ پر ایک نظر
اسلامی ہند کی تاریخ پر جو لوگ نظر رکھتے ہیں‘ ان سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے‘ کہ اس ملک میں اسلامی تہذیب کی بنیاد ابتداء ہی سے کمزور ہے۔ صدرِ اوّل میں اور اس سے متصل بعد کی قرنوں میں اسلامی سیلاب کی جو لہریں ہندوستان تک پہنچیں‘ وہ زیادہ تر خس و خاشاک اور کثافتیں لے کر آئیں۔ اس لیے کہ اس زمانہ میں ہندستان دارالاسلام کی آخری سرحدوںپر تھا‘ اور وہ سب لوگ جو اسلام کے مرکزی اقتدار یا اصولی عقیدہ و مسلک کے خلاف بغاوت کرتے تھے، عموماً بھاگ بھاگ کر اسی طرف آجاتے تھے۔ چنانچہ سندھ اور کاٹھیا وار اور گجرات وغیرہ ساحلی علاقوں میں جو گمراہیاں آج تک پائی جاتی ہیں‘ وہ اسی زمانہ کی یادگار ہیں۔ اس کے بعد چھٹی صدی ہجری میں جب اصل دھارے نے ہندستان کی طرف رخ کیا تو وہ خود عجمی کثافتوں سے بہت کچھ آلودہ ہو چکا تھا۔ امرا میں روحِ جہاد اور علماء میں روحِ اجتہاد سرد ہو چکی تھی۔ ہمارے حکمران زیادہ تر وہ لوگ تھے‘ جن کو خراج اور توسیعِ مملکت کی فکر تھی۔ا ور ہمارے مذہبی پیشواؤں میں اکثریت ان حضرات کی تھی جن کی زندگی کا مقصد حکومت کے مناصب حاصل کرنا اور ہر قیمت پر اپنے مذہبی اقتدار کی حفاظت کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے‘ کہ نہ یہاں صحیح معنوں میں کبھی اسلامی حکومت قائم ہوئی۔ نہ حکومت نے پوری طرح وہ فرائض انجام دئیے‘ جو شرعاً اس پر عائد ہوتے تھے، نہ اسلامی علوم کی تعلیم کا کوئی صحیح نظام قائم ہوا، نہ اشاعت ِاسلام کی کوئی خاص کوشش کی گئی، نہ اسلامی تہذیب کی ترویج اور اس کے حدود کی نگہداشت جیسی ہونی چاہیے ویسی ہو سکی۔ علما اور صوفیہ کے ایک مختصر گروہ نے بلا شبہ نہایت زرّیں خدمات انجام دیں‘ اور انہی کی برکت ہے‘ کہ آج ہندستان کے مسلمانوں میں کچھ علم دین ا ور کچھ اتبّاعِ شریعت پایا جاتا ہے۔ لیکن ایک قلیل گروہ ایسی حالت میں کیا کر سکتا تھا‘ جب کہ قوم کے عوام جاہل، اور ان کے سردار اپنے فرائض سے غافل ہوں۔
اسلام کی عام کشش سے متاثر ہو کر ہندستان کے کروڑوں آدمی مسلمان ہوئے، مگر اسلامی اصول پر ان کی تعلیم و تربیت کاکوئی انتظام نہ کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس ملک کی اسلامی آبادی کا سوادِاعظم ان تمام مشرکانہ اور جاہلانہ رسوم و عقائد میں گرفتار رہا‘ جواسلام قبول کرنے سے پہلے ان میں رائج تھے۔
جو مسلمان باہر سے آئے تھے ان کی حالت بھی ہندستانی نو مسلموں سے کچھ زیادہ بہتر نہ تھی۔ا ن پر عجمیت پہلے ہی غالب ہو چکی تھی۔ نفس پرستی اور عیش پسندی کا گہرا رنگ ان پر چڑھ چکا تھا۔ اسلامی تعلیم و تربیت سے وہ خود پوری طرح بہرہ ور نہ تھے۔ زیادہ تر دنیا ان کو مطلوب تھی۔ خالص دینی جذبہ ان میں سے بہت کم، بہت ہی کم لوگوں میں تھا۔ وہ یہاں آکر بہت جلدی عام باشندوں میں گھل مل گئے، کچھ ان کو متاثر کیا اور کچھ خود ان سے متاثر ہوئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں مسلمانوںکا تمدّن اسلامیت، عجمیت اور ہندیت کی ایک معجون مرکب بن کر رہ گیا۔
عام طو رپر جو طرزِ تعلیم یہاں رائج ہوا‘ وہ اسی ڈھنگ کا تھا‘ جسے انگریزوں نے بعد میں اختیار کیا۔ اس کا بنیادی مقصد حکومت کی خدمات کے لیے لوگوںکو تیار کرنا تھا۔ قرآن اور حدیث کے علوم جن پر اسلامی تہذیب کی بنیاد قائم ہے، یہاں کے نظامِ تعلیمی میں بہت ہی کم بار پا سکے۔
طرز حکومت بھی قریب قریب اسی ڈھنگ کا رہا‘ جس کی تقلید بعد میں انگریزوں نے کی، بلکہ اپنی قومی تہذیب کی حفاظت اور ترویج اور اس کے حدود کی نگاہ داشت کا جتنا خیال انگریزوں نے رکھا ہے، اتنا بھی مسلمان حکمرانوں نے نہ رکھا۔ خصوصیت کے ساتھ مغل فرما رواؤں نے اس باب میں جس سہل انگاری سے کام لیا ہے‘ اس کی مثال تو شاید کسی حکمران قوم میں نہ مل سکے گی۔
ظاہر ہے‘ کہ جس قوم کی تعلیم اور سیاست دونوں اپنی تہذیب کی حفاظت سے دست کش ہو جائیں‘ اس کو زوال سے کوئی قوّت نہیں بچا سکتی۔
انحطاط کا آغاز اور اس کے ابتدائی آثار
گیارہویں صدی ہجری میں انحطاط اپنی آخری حدوں پر پہنچ چکا تھا۔ مگر عالم گیر کی طاقت ور شخصیت اس کو روکے ہوئے تھے۔ بارہویں صدی کے ابتداء میں جب قصر اسلامی کا یہ آخری محافظ دنیا سے رخصت ہوا‘ تو وہ تمام کمزوریاں یکایک نمودار ہو گئیں ‘جو اندر ہی اندر صدیوں سے پرورش پا رہی تھیں۔ تعلیم و تربیت کی خرابی اور قومی اخلاق کے اضمحلال اور نظامِ اجتماعی کے اختلال کا پہلا نتیجہ سیاسی زوال کی صورت میں ظاہر ہوا۔ مسلمانوں کی سیاسی جمعیت کا شیرازہ دفعۃً درہم برہم ہو گیا۔ قومی اور اجتماعی مفاد کا تصوّر ان کے دماغوں سے نکل گیا۔ انفرادیت اور خود غرضی پوری طرح ان پر مسلط ہو گئی۔ ان میں ہزار در ہزار خائن اور غدّار پیدا ہوئے‘ جن کا ایمان کسی نہ کسی قیمت پر خریدا جا سکتا تھا‘ اور جو اپنے ذاتی فائدے کے لیے بڑے سے بڑے قومی مفاد کو بے تکلف بیچ سکتے تھے۔ ان میں لاکھوں بندگان شکم پیدا ہوئے جن سے ہر دشمن اسلام تھوڑی سی رشوت یا حقیر سی تنخواہ دے کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بد سے بدتر خدمت لے سکتا تھا۔ ان کے سوادِاعظم سے قومی غیرت اور خودداری اس طرح مٹ گئی‘ کہ دلوں میں اس کا نام و نشان باقی تک نہ رہا۔ وہ دشمنوں کی غلامی پر فخر کرنے لگے۔ غیروں کے بخشے ہوئے خطابات اور مناصب میں ان کو عزت محسوس ہونے لگی۔ دین اور ملت کے نام پر جب کبھی ان سے اپیل کی گئی وہ پتھروں سے ٹکرا کر واپس آئی۔ اور جب کبھی کوئی غیرت مند شخص اقتدار قومی کے گرتے ہوئے قصر کو سنبھالنے کے لیے اٹھا، اس کا سر خود اس کی اپنی قوم کے بہادروں نے کاٹ کر دشمنوں کے سامنے پیش کر دیا۔
اس طرح ڈیڑھ صدی کے اندر اسلام کا اقتدار ہندوستان کی سر زمین میں بیخ و بُن سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا۔ اور سیاسی اقتدار کے مٹتے ہی یہ قوم افلاس، غلامی، جہالت اور بد اخلاقی میں مبتلا ہو گئی۔
انگریزی حکومت کے دور میں مسلمانان ہند کی حالت
۱۸۵۷ء کا ہنگامہ دراصل ایک سیاسی انقلاب کی تکمیل اور ایک دوسرے انقلاب کی تمہید تھا۔ جن کمزوریوں نے مسلمانوں سے سیاسی اقتدار چھینا تھا، وہ سب علیٰ حالہٖ قائم تھیں۔ اور ان پر مزید کمزوریوں کا اضافہ ہو رہا تھا۔ ان کے اندر اسلامی تہذیب کی بنیاد پہلے سے کمزور تھی۔ اس کمزوری نے جب حکومت کے منصب سے ان کو ہٹا دیا اور اخلاص و غلامی کی دوہری مصیبت میں وہ گرفتار ہوئے، تو دوسری اور کمزوریاں روبکار آگئیں۔
دین اور اخلاق اور تہذیب اورتمدّن، یہ سب چیزیں بلند تر انسانیت سے تعلق رکھتی ہیں‘ اور ان کی قدر و عزت وہی لوگ کر سکتے ہیں‘ جو حیوانیت سے بالا تر ہوں۔ پیٹ اور روٹی اور کپڑا اور آسائشِ بدن اور لذات نفس وہ چیزیں ہیں‘ جو انسان کی حیوانی ضروریات سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور جب انسان مقامِ حیوانی سے قریب تر ہوتا ہے‘ تو اس کی نگاہ میں یہی چیزیں زیادہ اہم ہوتی ہیں۔ حتی کہ وہ ان کی خاطر بلند تر انسانیت کی ہر متاع گراں مایہ کو نہ صرف قربان کر دیتا ہے۔ بلکہ حیوانی زندگی کی آخری حدوں پر پہنچ کر اس میں یہ احساس بھی باقی نہیں رہتا کہ میرے لیے کوئی چیز ان چیزوں سے اعلیٰ و ارفع بھی ہو سکتی ہے۔ ہندستان کا مسلمان جب اپنا سیاسی اقتدار کھو رہا تھا، اس زمانہ میں اس کی انسانیت بالکل فنا نہیں ہوئی تھی، اس لیے وہ پیٹ اور بدن پر انسانیت کی گراں قدر متاعوں کو قربان تو کر رہا تھا، مگر اس کو یہ احساس ضرور تھا‘ کہ یہ متاعیں گراں قدر ہیں، اور کسی نہ کسی طرح ان کی بھی حفاظت کرنی چاہیے۔ لیکن جب وہ سیاسی اقتدار کھو چکا تو افلاس نے پیٹ اور بدن کے سوال کو ہزار گنا زیادہ اہم بنا دیا، اور غلامی نے غیرت اور خودداری کے تمام احساسات کو مٹانا شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی انسانیت روز بروز پست ہوتی چلی گئی، اور حیوانیت کا اثر بڑھتا اور چڑھتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ ابھی ایک صدی بھی پوری نہیں گزری ہے‘ اور حال یہ ہو گیا ہے‘ کہ مسلمانوں کی ہر نسل پہلی نسل سے زیادہ نفس پرست، بندہ شکم اور آسائشِ بدن کی غلام بن کر اُٹھ رہی ہے۔ ستر برس پہلے وہ مغربی تعلیم کی طرف یہ کہہ کر گئے تھے‘ کہ ہم صرف اپنی حیوانی ضروریات پوری کرنے کے لیے ادھر جا رہے ہیں، اپنے دین و اخلاق اور اپنی قومی تہذیب و تمدّن کو ہم کھونا نہیں چاہتے۔ اور واقعہ بھی یہ تھا‘ کہ اس وقت تک یہ چیزیں ان کی نگاہ میں کافی اہمیت رکھتی تھیں۔ لیکن جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا، وہ بنیادی کمزوریاں جنہوں نے ان کو حکومت کے منصب سے ہٹایا تھا‘ ان میں پہلے سے موجود تھیں، اور وہ نئی کمزوریاں جو غلامی و افلاس کی حالت میں فطرۃً پیدا ہوتی ہیں، ان کے اندر تیزی سے پیدا ہو رہی تھیں۔ ان دونوں قسم کی کمزوریوں کی بدولت ایک طرف دین و اخلاق کی اہمیت اور قومی تہذیب و تمدّن کی قدرو عزت روز بروز ان میں کم ہوتی چلی گئی۔ دوسری طرف خود غرضی و نفسانیت کے روز افزوں غلبہ نے ان کو ہر اس شخص کی غلامی پر آماہ کر دیا‘ جو ان کو کچھ مال اور جاہ اور اپنے ہم جنسوں میںکچھ سر بلندی عطا کر سکتا ہو‘ خواہ ان چیزوںکے بدلہ میں وہ انسانیت کے جس گوہرِ بے بہا کو چاہے خریدلے۔ تیسری طرف انفرادیت اور خود پرستی‘ جو ڈھائی سو برس سے ان کی قومیّت کو گھن کی طرح لگی ہوئی ہے، انتہائی حد کو پہنچ گئی۔ یہاںتک کہ اجتماعی عمل کی کوئی صلاحیّت ان میں باقی نہیں رہی،ا ور وہ تمام صفات ان سے نکل گئیں‘ جن کی بدولت ایک قوم کے افراد اپنے قومی مفاد کی حفاظت اور اپنے قومی وجود کی حمایت کے لیے مجتمع ہو سکتے اور مشترک جدوجہد کر سکتے ہیں۔
یہاں اتنا موقع نہیںکہ اس دوسرے انقلاب کے تمام پہلوؤں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا سکے۔ تاہم مختصراً اس کے چند نمایاں پہلوؤں کی طرف ہم اشارہ کریں گے تاکہ ہندوستان میں اسلام کی موجودہ پوزیشن واضح طور پر سامنے آجائے‘ اور یہ اندازہ کیا جا سکے کہ اب جو تیسرا انقلاب سامنے آرہا ہے، وہ ان حالات میں مسلمانوں پر کس طرح اثر انداز ہو گا۔
(الف) انگریزی حکومت کی پالیسی
جس روز سے برطانوی سامراج نے ہندستان میں قدم رکھا ہے، اسی روز سے اس کی یہ مستقل پالیسی رہی ہے‘ کہ مسلمانوں کا زور توڑا جائے۔ اسی غرض کے لیے مسلمان ریاستوں کو مٹایا گیا‘ اور اس نظامِ عدل و قانون کو بدلا گیا‘ جو صدیوں سے یہاں قائم تھا۔ اسی غرض کے لیے انتظامِ مملکت کے قریب قریب ہر شعبے میں ایسی تدبیریں اختیار کی گئیں‘ جن کا مآل یہ تھا‘ کہ مسلمانوں کو معاشی حیثیت سے تباہ و برباد کر دیا جائے‘ اور ان پر رزق کے دروازے بند کر دئیے جائیں۔ چنانچہ گزشتہ ڈیڑھ سو سال کے اندر اس پالیسی کے جو نتائج ظاہر ہوئے ہیں‘ وہ یہ ہیں‘ کہ جو قوم کبھی اسی ملک کے خزانوں کی مالک تھی وہ اب دو روٹیوں کی محتاج ہو چکی ہے۔ا س کو معیشت کے ذرائع سے ایک ایک کرکے محروم کر دیا گیا ہے‘ اور اب اس کی ۹۰ فیصد آبادی غیر مسلم سرمایہ دار کی معاشی غلامی میں مبتلا ہے۔ ساہو کار سے برطانوی سامراج کا مستقل اتحاد ہے‘ اور برطانوی نظام عدالت اس کے لیے وہی خدمت انجام دے رہا ہے‘ جو سود خوار پٹھان کے لیے اس کا ڈنڈا انجام دیتا ہے۔
(ب) مغربی تعلیم کا اثر
سیاسی اقتدار سے محروم ہونے کے بعد مسلمانوںمیں جاہ اور عزت کی بھوک پیدا ہوئی اور معاشی وسائل سے محروم ہونے کے بعد روٹی کی بھوک۔ ان دونوں چیزوں کے حصول کا دروازہ صرف ایک ہی رکھا گیا، اور وہ مغربی تعلیم کا دروازہ تھا۔روٹی اور عزت کے بھوکے لاکھوں کی تعداد میں ادھر لپکے۔ وہاں ہاتف ِغیب نے پکار کر کہا کہ آج روٹی اور عزت مسلمان کے لیے نہیں ہے۔ یہ چیزیں اگر چاہتے ہو تو نا مسلمان بن کر آؤ۔ اپنے دل کو، اپنے دماغ کو، اپنے دین اور اخلاق کو، اپنی تہذیب اور آداب کو، اپنے اصولِ حیات اور طرز معاشرت کو، اپنی غیرت اور خودداری کو قربان کرو، تب روٹی کے چندٹکڑے اور عزت کے چند کھلونے تم کو دئیے جائیںگے۔ انہوں نے خیال کیا کہ بہت ہی سستے داموں بہت ہی قیمتی چیز مل رہی ہے۔ بیچو اس کباڑ خانے کو۔ یہ چیزیں جو روٹی اور خطاب و منصب جیسی بے بہا چیزوں کے معاوضے میں مانگی جا رہی ہیں، آخر ہیں کس کام کی؟ انہیں تو رہن رکھ کر بنئے سے چار پیسے بھی نہیں مل سکتے۔
مسلمان جب مغربی تعلیم کی طرف گئے‘ تو یہی کچھ سمجھ کر گئے۔ زبانوں نے گو ایسا نہیں کہا، مگر جذبات اور تخیلات تو ایسے ہی کچھ تھے۔ یہی وجہ ہے‘ کہ کم و بیش ۹۰ فیصدی لوگوں پر اس تعلیم کے وہی اثرات ہوئے‘ جو ہم نے اوپر بیان کیے ہیں۔ اسلامی تعلیم سے وہ قطعی کورے ہیں۔ ان میں بیشتر ایسے ہیں‘ جو قرآن کو ناظرہ بھی نہیں پڑھ سکتے۔ اسلامی لٹریچر کی کوئی چیز ان کی نظروں سے نہیں گزرتی۔ وہ کچھ نہیں جانتے کہ اسلام کیا ہے‘ اور مسلمان کس کو کہتے ہیں‘اور اسلام اور غیر اسلام میں کیا چیز مابہ الامتیاز ہے۔ خواہشاتِ نفس کو انہوںنے اپنا معبود بنا لیا ہے‘ اور یہ معبود اس مغربی تہذیب کی طرف انہیں لیے جا رہا ہے‘ جس نے نفس کی ہر خواہش اور لذتِ نفس کی ہر طلب کو پورا کرنے کا ذمہ لے رکھا ہے۔ وہ مسلمان ہونے پر نہیں‘ بلکہ ماڈرن ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ وہ اہلِ فرنگ کی ایک ایک ادا پر جان نثار کرتے ہیں۔ لباس میں، معاشرت میں، کھانے اور پینے میں، میل جول اور بات چیت میں، حتیٰ کہ اپنے ناموں تک میں‘ وہ ان کا ہُو بہو چربہ بن جانا چاہتے ہیں۔ انہیں ہر اس طریقہ سے نفرت ہے‘ جس کا حکم مذہب نے ان کو دیا ہے۔ اور ہر اس کام سے رغبت ہے‘ جس کی طرف مغربی تہذیب انہیںبلاتی ہے۔ نماز پڑھنا ان کے ہاں معیوب ہے، اتنا معیوب کہ جو شخص نما زپڑھتا ہے ان کی سوسائٹی میں نکّو بنایا جاتا ہے‘ اور اگر بنانے کی جرأت نہیںہوتی‘ تو کم از کم حقارت آمیز حیرت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے‘ کہ آخر یہ کون سی مخلوق ہے‘ جو اب تک خدا کا نام لیے جا رہی ہے۔ بخلاف اس کے سینما جانا ان کے نزدیک نہ صرف مستحسن ہے‘ بلکہ ایک مہذب انسان کے لوازمِ حیات میں سے ہے‘ اور جو شخص اس سے اجتناب کرتا ہے، اس پر حیرت کی جاتی ہے‘ کہ یہ کس قسم کا تاریک خیال ملا ہے‘ جو بیسوی صدی کی اس برکت عظمیٰ سے محروم رہنا چاہتا ہے۔ ان میں اب وہ طبقہ سرعت سے بڑھ رہا ہے‘ جو مذہب اور خدا سے اپنی بیزاری کو چھپانے کی بھی ضرورت نہیں سمجھتا۔ اور صاف کہنے لگا ہے‘ کہ ہمیں اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ چیز اب تک ہمارے مردوں میں تھی، مگر اب عورتوں میںبھی پہنچ رہی ہے۔ جو طبقے ہماری سوسائٹی کے پیش رو اور مقتداء ہیں، وہ اپنی عورتوں کو کھینچ کھینچ کر باہر لارہے ہیں۔ ان کو بھی اسلام اور اس کی تہذیب سے بیگانہ اور مغربی تہذیب اور اس کے طور طریقوں اور اس کے تخیلات سے آراستہ کیا جارہا ہے۔ عورت میں انفعال اور تاثر کا مادہ فطری طور پر مردوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ جو راستہ مردوں نے ستر برس میں طے کیا ہے، عورتیں اس کو بہت جلد طے کر لیں گی‘ اور ان کی گودوں میں جو نسلیں پرورش پا کر اٹھیں گی ان میں شاید اسلام کا نام بھی باقی نہ رہے گا۔
(ج) قومی انتشار
خود غرضی، انفرادیت اور نفس پرستی کے غلبہ کا فطری نتیجہ یہ ہے‘ کہ مسلمانوں سے قومیّت کا احساس مٹتا جا رہا ہے‘ اور ان کی اجتماعی طاقت فنا ہو رہی ہے۔ پندرہ سال سے ان کے اندر سخت انتشار برپا ہے۔ان کی کوئی قومی پالیسی نہیں، کوئی ایک شخص نہیں جو ان کا لیڈر ہو، کوئی ایک جماعت نہیں جو ان کی نمائندہ ہو، کسی بڑی سے بڑی مصیبت پر بھی وہ جمع نہیں ہو سکتے، ایک بن سری فوج ہے‘ جو راس کماری سے پشاور تک پھیلی ہوئی ہے۔ ایک ریوڑ ہے‘ جس میں کوئی نظم نہیں۔ ایک بھیڑ ہے‘ جس میںکوئی رابطہ نہیں۔ ہر فرد آپ ہی اپنا لیڈر اور اپنا پیرو ہے۔ انجمنیں اور جمعیتیں ہزاروں ہیں، مگر حال یہ ہے‘ کہ ایک ہی انجمن کے ارکان باہم بر سر پیکار ہو جاتے ہیں، اور علانیہ ایک دوسرے کے مقابلہ پر آجاتے ہیں۔ اوّل اول ان کو اپنی اس طاقت کا گھمنڈ تھا جو کبھی ان میں پائی جاتی تھی۔ مگر ہمسایہ قوموںنے دس سال کے اندر ان کو بتا دیا کہ طاقت کس چیز کا نام ہے۔ یہ آپس میں لڑتے رہے‘ اور وہ منظم ہو گئیں۔ انہوں نے خود اپنے سرداروں میں سے ایک ایک کو کھینچ کر زمین پر گرا دیا، اور انہوں نے ایک سردار کی اطاعت کرکے اسے تمام ملک میں بے تاج و تخت کا بادشاہ بنادیا۔ یہ اپنی قوتیں اپنی تخریب میں ضائع کرتے رہے‘ اور وہ حکومت سے پیہم مقابلہ کرکے اپنا زور بڑھاتے رہے۔ انہوں نے ملک کے تازہ انتخابات{ FR 2893 } میں شخصی اغراض کو سامنے رکھا اور بیسیوں پارٹیاں بن کر اسمبلیوں میں پہنچے۔ انہوں نے اجتماعی اغراض کو مقدّم رکھ کر تمام ملک میں منضبط جدوجہد کی‘ اور ایک مستحکم جمعیت کی شکل میں حکومت کے ایوانوں پر قبضہ کر لیا۔ ان نتائج کو دیکھ کر مسلمانوں پر اب وہی اثر ہو رہا ہے‘ جو ایک باقاعدہ فوج کو دیکھ کر ایک منتشر انبوہ پر ہوا کرتاہے۔ ایک منظم جماعت کی کامیابیوں سے وہ مرعوب ہو گئے ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں‘ کہ حکومت کا اقتدار اب بہت جلد انگریز کے ہاتھ سے منتقل ہو کر اس نئی جماعت کے ہاتھ میں آنے والا ہے۔ لہٰذا اب وہ سمت قبلہ بدلنے کی تیاریاں کر رہے ہیں، اس کے سجدوں کا رخ وائسریگل لاج سے ہٹ کر آئند بھون کی طرف پھرنے لگا ہے، اور آج نہیں تو کل پھر کر رہے گا۔
آنے والے انقلاب کی نوعیت
یہ ہے مسلمانوںکی موجودہ پوزیشن۔ اب دیکھئے کہ جو انقلاب آرہا ہے‘ وہ کس نوعیت کا ہے۔
اب تک ہندستان کی حکومت ایک ایسی قوم کے ہاتھ میں رہی ہے‘ جو اس ملک کی آبادی میں آٹے میں نمک کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے اثرات تو وہ تھے جو اوپر آپ نے دیکھ لیے۔ اب جو جماعت بر سر اقتدار آرہی ہے، وہ ملک کی آبادی کا سوادِاعظم ہے۔ گزشتہ ڈھائی سو برس میں مسلمانوں نے جو زنانہ خصوصیات اپنے اندر پیدا کی ہیں، ان کو پیشِ نظر رکھ کراندازہ کیجئے‘ کہ ان کو جدید ہندی قومیّت میں جذب ہوتے کتنی دیر لگے گی۔
جدید ہندی قومیّت کا لیڈر وہ شخص { FR 2894 }ہے، جو مذہب کا علانیہ مخالف ہے۔ ہر اس قومیّت کا دشمن ہے‘ جس کی بنا کسی مذہب پر ہو۔ اس نے اپنی دہریت کو کبھی نہیں چھپایا۔ یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ وہ کمیونزم پر ایمان رکھتا ہے۔ اس امر کا بھی وہ خود اعتراف کر چکا ہے‘ کہ میں دل اور دماغ کے اعتبار سے مکمل فرنگی ہوں۔ یہ شخص ہندستان کی نوجوان نسل کا رہنما ہے، اور اس کے اثر سے وہ جماعت نہ صرف غیر مسلم قوموں میں، بلکہ خود مسلمانوں کی نو خیز نسلوں میں بھی روز افزوں تعداد میں پیدا ہو رہی ہے‘ جو سیاسی حیثیت سے ہندوستانی وطن پرستی اور اعتقادی حیثیت سے کمیونسٹ اور تہذیبی حیثیت سے مکمل فرنگی ہے۔ سوال یہ ہے‘ کہ اس ڈھنگ پر جو قومیّت تیار ہو رہی ہے‘ اس سے مغلوب اور متاثر ہو کر ہندستان کے مسلمان کتنی مدت تک اپنی قومی تہذیب کے باقی ماندہ آثار کو زندہ رکھ سکیں گے۔
مسلمانوں کے انتشار اور بد نظمی کو دیکھ کر اب ان کے مستقل قومی وجود کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کیا جا رہا ہے۔ جن لوگون کی عمریں عوام کی رہنمائی اور اقوام کی نبض شناسی میں گزری ہیں‘ ان سے یہ راز کب تک چھپا رہ سکتا تھا‘ کہ اس قوم کا شیرازہ قومیّت بڑی حد تک بکھر چکا ہے، وہ خصوصیات اس سے فنا ہو رہی ہیں‘ جو کسی جماعت کو ایک قوم بناتی ہیں‘ اور اب اس کے افراد کسی دوسری قومیّت میں جذب ہونے کے لیے کافی حد تک مستعد ہو چکے ہیں۔ یہی چیز ہے‘ جس کی بنا پر اب یہ سکیم بنائی جا رہی ہے‘ کہ مسلمانوں کی جماعتوں کو خطاب کرنے کے بجائے ان کے افراد کو خطاب کیا جائے‘ اور ان کو جدا جدا اکائیوں کی شکل میں رفتہ رفتہ اپنی طرف کھینچا جائے۔{ FR 2895 }یہ کس چیز کی تمہید ہے؟ جس شخص کو اللہ نے تھوڑی سی بصیرت بھی عطا کی ہے وہ اس کو سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا۔ مسلمان انگریزی اقتدار کے زمانہ میں جس کیرکٹر کا اظہار کرتے رہے ہیں اس کو سامنے رکھ کر غور کیجئے، کیا اسمبلیوں کی نشستوں اور آئندہ معاشی اور سیاسی فائدوں کا لالچ ان کے افراد کو فوج در فوج اس طرف کھینچ کر نہ لے جائے گا‘ جس طرف انہی کھینچا جا رہا ہے؟ اور کیا یہ وہی سب کچھ نہ کریں گے‘ جو انگریزی اقتدار کی غلامی میں کر چکے ہیں؟
مسلمانوںکی اصلی کمزوری کو تاڑ لیا گیاہے۔ آپ نے سنا کہ انہیں کھینچنے کے لیے جو صدا بلند کی جا رہی ہے وہ کون سی صدا ہے؟ وہی پیٹ اور روٹی کی ذلیل صدا جو ہمیشہ خود غرض اور شکم پرست حیوانات کو اپنی طرف کھینچتی رہی ہے۔ ان سے کہا جا رہا کہ تہذیب کیا ہے؟ اور تمہاری تہذیب کی خصوصیت بجز پاجامے اور ڈاڑھی اور لوٹے کے اور ہے ہی کیا{ FR 2896 } اس میں آخر کون سی اہمیت ہے؟ اصلی سوال تو پیٹ کا سوال ہے، اسی سوال کو حل کرنے کے لیے ہم اٹھے ہیں۔ اب اگر دہریت اور کمیونزم کا زہر بھی تھوڑا تھوڑا ہر نوالے کے ساتھ پیٹ میں اتر جائے‘ تو اس سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں۔ جو قوم اس سے پہلے انہی نوالوں کے ساتھ الحاد اور فرنگیت کا زہر بھی اتار چکی ہے، اس کے حلق میں ویسی ہی چند اور چٹنیاں کیوں پھنسنے لگیں۔
جدید انقلابی دور کی ابتدائی علامتیں
اس نوعیت کا ہے وہ انقلاب جو اب آرہا ہے۔ مسلمانوں میں سے جو لوگ اس انقلاب کے دامن سے وابستہ ہیں‘ ان کی زندگیاں ہمارے سامنے ہیں۔ ان کی صورتیں، ان کے لباس، ان کی بات چیت، ان کی چال ڈھال، ان کے آداب و اطوار، ان کے خیالات‘ سب کچھ ہمارے سامنے اس مسلمان کا نمونہ پیش کر رہے ہیں‘ جو اس آنے والے انقلاب میں پیدا ہو گا۔ ہم ابھی سے دیکھ رہے ہیں‘ کہ مسٹروں کے بجائے شری یت اور مسوں کے بجائے شریمتیاں ہمارے ہاں پیدا ہونے لگی ہیں۔ گڈ مارننگ کی جگہ ہاتھ جوڑ کر نمستے کیا جانے لگا ہے۔ ہیٹ کی جگہ گاندھی کیپ لے رہی ہے، اور بعض علمائے دین فتویٰ دے رہے ہیں‘ کہ یہ تشبُّہ کی تعریف سے خارج ہے۔ غرض دماغ اور دل اور جسم سب اپنا رنگ بدل رہے ہیں۔ اور کُوْنُوْا قِرَدَۃً خَاسِئِیْن{ FR 2897 }کی لعنت جو ان پر ستر سال پہلے نازل ہوئی تھی اب ایک دوسری شکل اختیار کر رہی ہے۔
انقلاب کی تیز رفتاری
دنیا میں انقلاب کی رفتار بہت تیز ہے‘ اور روز بروز تیز ہوتی چلی جا رہی ہے۔ پہلے جو تغیرّات صدیوںمیں ہوا کرتے تھے، اب وہ برسوں میں ہو رہے ہیں۔ پہلے انقلاب بیل گاڑیوں اور ٹٹوؤں پر سفر کیا کرتا تھا، اب ریل اور تار اور اخبار اور ریڈیو پر حرکت کر رہا ہے۔ آج وہ حالت ہے‘ کہ
یک لحظہ غافل بودم و صد سالہ راہم دُور شد
اگر ہندستان کے باہر کوئی اچانک واقعہ نہ بھی پیش آیا‘ تب بھی اس متوقع انقلاب کے رونما ہونے میں کچھ زیادہ دیر نہ لگے گی، اور کوئی عالم گیر جنگ چھڑ گئی جو قضائے مبرم کی طرح دنیا کے سر پر لٹک رہی ہے، تو غالبا فیصلہ کا وقت اور بھی زیادہ قریب آجائے گا۔
خ خ خ

شیئر کریں