Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مقدّمہ
حصہ اوّل : ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ایک تاریخی جائزہ
تقدیم{ FR 2891 }
باب ۱: آنے والا انقلاب اور مسلمان
باب ۲ : حالات کا جائزہ اور آئندہ کے امکانات
باب ۳ : ہمارا سیاسی نصب ُالعین
باب ۴ : راہِ عمل
حصہ دوم : اِصلاح کا راستہ قرآن و سنّت کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے صحیح راہِ عمل
باب ۵ : مسائلِ حاضرہ میں
باب ۶ اسلام … ایک جامع تہذیب دین و دنیا کی علیحدگی کا جاہلی تصوّر اور ہماری قومی سیاست میں اس کے اثرات
باب ۷ : شُبہات اور جوابات
حصہ سوم : کانگریس، متحدہ قومی تحریک اور مسلمان
تقدیم
باب ۸: مسلمانوں کی غلط نمائندگی اوراس کے نتائج
باب ۹: آزادی اور قومی تشخّص
باب ۱۰ : قوم پرستوں کے نظریات
باب ۱۱ : آزادی کی فوج کے مسلمان سپاہی
باب ۱۲ : حصول آزادی کا طریقہ
باب ۱۳ : جنگ ِ آزادی کا مطمح نظر
باب ۱۴ : قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟
باب ۱۵: بنیادی حقوق
باب ۱۶ : متحدہ قومیّت اور اسلام
باب ۱۷ : کیا ہندستان کی نجات نیشل ازم میں ہے؟
باب ۱۸ : اسلامی قومیّت کا حقیقی مفہوم 
باب ۱۹ : جنگِ آزادی کی نوعیت
باب ۲۰ : کانگریس اور مسلمان
حصہ چہارم : ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کے حل کی راہیں تین تجاویز
باب ۲۱ : مسلمان کیا کریں؟ تین تجاویز

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

باب ۱۹ : جنگِ آزادی کی نوعیت

اب ہم اپنی آخری تنقیح کی طرف توجہ کرتے ہیں، یعنی یہ کہ وطن پرستوں کی یہ جنگ جس کو ’’جنگِ آزادی‘‘ کہا جا رہا ہے، دراصل ہے کس نوعیت کی جنگ؟ آیا یہ خالص انقلابی جنگ ہے‘ یا نیم انقلابی اور نیم دستوری؟ عام طورپر سیاسی معاملات سے دلچسپی رکھنے والے مسلمان اس سوال کی اہمیت کو نظر انداز کر جاتے ہیں، حالانکہ یہ سوال فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے۔
انقلابی جنگ کے معنی یہ ہیں‘ کہ حکومت متسلّطہ کو بالکلیہ ختم کر دینے کے لیے جنگ کی جائے‘ اور جب تک اس کا تختہ الٹ نہ دیا جائے، اس وقت ملک کے نظم و نسق سے کوئی سرو کار نہ رکھا جائے۔اس قسم کی جنگ کی مثال ایسی ہے جیسے آپ کسی عمارت کو بالکل ناپسند کرتے ہوں‘ اور اس میں رہ کر آہستہ آہستہ ترمیم کرنے کے قائل نہ ہوں، بلکہ اس کو قطعی طور پر منہدم کرکے دوسری عمارت بنانا چاہیں۔
نیم انقلابی نیم دستوری جنگ کے معنی یہ ہیں‘ کہ پہلے انقلابی شورش سے حکومت متسلّطہ پر دباؤ ڈال کر نظامِ حکومت میں ترمیم و اصلاح کرائی جائے، پھر اصلاح شدہ نظام کو چلا کر اتنی طاقت حاصل کی جائے‘ کہ دوبارہ انقلابی شورش برپا کرکے کچھ مزید اختیارات حاصل کیے جا سکیں، اور اس طرح بتدریج پرانے نظامِ حکومت کو ہٹا کر نیا نظامِ حکومت اس کی جگہ لیتا چلا جائے۔ اس قسم کی جنگ کی مثال ایسی ہے جیسے آپ ایک عمارت کو رفتہ رفتہ توڑتے جائیں، اور ساتھ ساتھ دوسری عمارت بناتے بھی جائیں، یہاں تک کہ پرانی عمارت کا انہدام اور نئی عمارت کی تکمیل دونوں ساتھ ساتھ انجام کو پہنچیں۔
دونوں طرح کی لڑائیوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ پہلی قسم کی لڑائی میں دو ایسے فریق بھی مل کر لڑ سکتے ہیں‘ جو موجودہ نظامِ حکومت کی مخالفت میں تو متفق ہوں مگر اس امر میں اختلاف رکھتے ہوں کہ آئندہ نظامِ حکومت کس نقشہ پر بنایا جائے۔ ان کے لیے یہ ممکن ہے‘ کہ تعمیر نو کے سوال کو جنگ کے خاتمہ پر اُٹھا رکھیں۔ وہ اس امر پر اتفاق کر سکتے ہیں‘ کہ آؤ ہم متحدہ قوّت کے ساتھ پہلے اس نظامِ حکومت کو ختم کر دیں، اس کے بعد یا تو ہم باہمی مفاہمت سے کوئی بیچ کی راہ نکال لیں گے، یا پھر بدرجہ آخر قوّت آزمائی کرکے دیکھیں گے، اور ہم میں سے جو فریق بھی زیادہ طاقتور ہو گا اس کی مرضی کے مطابق نیا نظامِ حکومت بن جائے گا۔ لیکن دوسری قسم کی لڑائی میں آئندہ کے سوال کو بعد پر اُٹھا کرنہیں رکھا جا سکتا۔ اس میں فریقین کے درمیان پہلے ہی مرحلہ پر یہ تصفیہ ہونا ضروری ہے‘ کہ تدریجی تخریب کے ساتھ تدریجی تعمیر کس نقشہ پر ہو۔ اس لیے کہ یہاں تخریب اور تعمیر دونوں ساتھ ساتھ ہو رہی ہیں‘ اور ساتھ ساتھ تکمیل کو پہنچنے والی ہیں۔اگر ایک فریق اپنے نقشہ پر تعمیر کرتا رہے،ا ور دوسرا فریق نقشہ کے سوال کو بعد پر چھوڑ کر اس کا ساتھ دیتا چلا جائے، تو اس کے معنی یہ ہیں‘ کہ وہ ایک غلامی کے بند کھولنے کے ساتھ دوسری غلامی کے بند میں اپنے آپ کو خود جکڑواتا رہے، اور اپنی آزادی کے سوال کو اس وقت تک کے لیے اٹھارکھے جب یہ دوسری غلامی اس پر پوری طرح مسلط ہو چکی ہو۔ا س قسم کی جنگ اس عقلمند فریق کے لیے تو ضرور جنگِ آزادی کہی جا سکتی ہے‘ جو آہستہ آہستہ پرانے آقا کی جگہ لے رہا ہو، مگر اس بیوقوف فریق کے لیے یہ دراصل جنگ ِغلامی ہو گی‘ جو ایک آقا کی جگہ محض دوسرا آقا لانے کے لیے لڑ رہا ہو۔
اگر ہندوستان میں آزادی کی جدوجہد فی الواقع خالص انقلابی نوعیت کی ہوتی‘ تو ہم اس کی کوئی پرواہ نہ کرتے کہ مستقبل کا نقشہ جواہر لال اور سوباش چندر بوس کیاپیش کرتے ہیں، اور بھولا بھائی اور ستیا مورتی کیا فرماتے ہیں۔ ہم بزدل ہوتے اگر ان باتوں سے ڈر کے جنگ سے منہ موڑ جاتے۔ ہم بہادروں کی طرح ان سے کہتے کہ جو کچھ آپ حضرات کے ارادے ہیں آپ انہی پر قائم رہیں، مگر آئیے، پہلے ہم اور آپ مل کر اس بد اصل عمارت کو تو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں جسے باہر والوں نے ہمارے سروں پر تعمیر کر دیا ہے، اس کے بعد ہم دیکھ لیں گے کہ یہاں ایک قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ بنتا ہے‘ یا کچھ اور اس صورت میں جو فریق بھی آزادیٔ کامل (بیرون سایہ سلطنت برطانیہ) کے لیے انقلابی لڑائی سے منہ پھیرتا وہی بزدل قرار پاتا۔
مگر یہاں صورتحال کچھ دوسری ہے۔ نام آزادیٔ کامل کا لیا جاتا ہے‘ اور منزلِ مقصود ٹھہرائی جاتی ہے کینیڈا اور آسٹریلیا کی سی آزادی (یعنی برٹش کامن ویلتھ کے اندر نہ کہ باہر) کہا جاتا ہے‘ کہ ہماری جنگ انقلابی ہے‘ اور طریقہ اختیار کیا جاتا ہے وہی نیم انقلابی‘ نیم دستوری جس کا مفہوم اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔ دعویٰ یہ کیا جاتاہے‘ کہ ہم دوسرے کے بنائے ہوئے دستور کو قبول کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں، اور ان کے مسلط کیے ہوئے نظام کو توڑ کر ایسا دستور چاہتے ہیں‘ جو ہندوستان کے باشندے خود اپنے لیے بنائیں، مگر دوسروںنے جو دستوربنا دیا ہے اس کو عملاً قبول کرکے حکومت کے نظم و نسق کا چارج لے لیا جاتا ہے، اور خوب دل لگا کر اسے چلایا جاتا ہے۔ اس طرح ایک عجیب پر فریب طلسّمی جال تیار کر لیا گیا ہے‘ جس کے پھندے دن کی روشنی میں بھی ہمارے بہت سے بھائیوں کو نظر نہیں آتے۔ لہٰذا ضرورت ہے‘ کہ اس جال کے ایک ایک پھندے کو پوری طرح نمایاں کیا جائے‘ تاکہ مادر زاد اندھوں کے سوا ہر ایک اس کو دیکھ سکے۔
۱- سوراج
آزادیٔ کامل، پورن سوراج(complete Independence) کے الفاظ سُن کر ہر ذی ہوش آدمی یہی سمجھے گا کہ اس سے مراد وہ آزادی ہے‘ اور وہی آزادی ہونی چاہیے‘ جو فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، روس اور ایسے ہی دوسرے آزاد ملکوں کو حاصل ہے‘ لیکن ہندوستان میں ان الفاظ کا یہ مفہوم نہیں ہے۔ یہاں اصرار تو انہی الفاظ کے استعمال پر کیا جاتا ہے‘ لیکن اگر ان کی تعبیر بیرون سایہ عاطفت برطانیہ کے ساتھ کر دی جائے‘ تو مہاتما گاندھی پران دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ یہاں آج بھی اس سے مراد وہی ہے‘ جس کو آج سے دس سال پہلے نہرو رپورٹ میں مطلوب و مقصود ٹھہرایا گیا تھا، یعنی برطانوی دولت مشترکہ میں خود مختار نوآبادیات کی سی حقیقت۔ مگر اس کو نہرو رپورٹ کی طرح صاف الفاظ میں بیان نہیں کیا جاتا بلکہ زیادہ تر کوشش یہ کی جاتی ہے‘ کہ اس کی تشریح و تفسیر کی نوبت ہی نہ آئے، اور اگر کبھی مجبوراً کچھ کہنا پڑ جاتا ہے‘ تو پھر یونانی زبان میں کلام کیا جاتا ہے تاکہ کوئی نہ سمجھ سکے۔ تاہم انتہائی سعی اخفاء کے باوجود اصل مقاصد کسی نہ کسی طرح زبان پر آہی جاتے ہیں۔ چنانچہ اسی سال ہری پورہ کانگریس کے خطبہ صدارت میں مسٹر سو باش چندر بوس نے فرمایا :
برطانوی سلطنت اس وقت تاریخ کے دوراہوں میں سے ایک دوراہے پر کھڑی ہے، یا تو وہ اسی انجام سے دوچار ہو گی‘ جو دوسری سلطنتوں کا ہو چکا ہے، یا اسے اپنے آپ کو آزاد قوموں کے ایک وفاق میں تبدیل کرنا ہو گا … برطانیہ عظمیٰ کے لیے اپنے نظام سلطنت کے اندرونی تضاد و تباین کو ختم کرنے کی صرف ایک صورت ہے‘ اور وہ یہ ہے‘ کہ وہ سلطنت کو آزاد قوموں کے ایک وفاق میں تبدیل کرے۔
ابھی حال میں پنڈت جواہر لال نہرو کا ایک مضمون یورپ کی صورتحال پر شائع ہوا ہے‘ جس میں وہ فرماتے ہیں :
اگر برطانیہ جمہوریت کا اب بھی معتقد ہے‘ تو اس کے لیے ایک ہی ممکن العمل صورت ہے‘ اور وہ یہ ہے‘ کہ قیصریت کو جلدی سے جلدی‘ اور بالکلیہ ترک کرکے ہندوستان اور فلسطین وغیرہ میں آزاد جمہوری ادارے قائم کر دے۔ اس سے برطانیہ کمزور نہ ہو گا بلکہ یہ ممالک اس کے طاقتور مدد گار بن جائیں گے۔
(نیشنل ہیرلڈ بحوالہ نیشنل کال مورخہ ۴ نومبر ۱۹۳۸ء)
اور اسی سال اگست میںجب پنڈت جی پراگ (prague) تشریف لے گئے تھے تو انہوں نے ایک بیان میں فرمایا کہ :
انگستان کے دشمن ہمارے دشمن ہیں۔ (ٹریبیون مورخہ ۱۹؍ اگست ۱۹۳۸ء)
ٹریبیون ہی کا بیان ہے‘ کہ اس پر انڈیا آفس کی طرف سے پنڈت جی کا شکریہ ادا کیا گیا تھا۔
یہ کانگریس کے ان دو لیڈروں کے اقوال ہیں‘ جو انتہا پسند کانگریسیوں کا صنم سمجھتے جاتے ہیں۔ جن میں سے ایک اس وقت کانگریس کا صدر ہے‘ اور دوسرا بھی مسلسل دو سال تک صدر رہ چکا ہے۔ اس کا مطمح نظر بھی اس سے زیادہ اونچا نہیں ہے‘ کہ ہندوستان برطانوی دولت مشترکہ کے اندر آزاد قوموں کے اس دائرے میں جگہ پا لے جس کا مرکز و محور تاج برطانیہ ہو، جس کا مفاد مرکزی سلطنت کے مفاد سے متحد ہو جائے، جس کی دفاعی، اور لازمی نتیجہ کے طور پر خارجی پالیسی بھی انگلستان کے دامن سے بندھی ہوئی ہو۔ یہی رائے قریب قریب تمام بڑے بڑے کانگریسی رہنماوں کی ہے‘ اور ان میںکوئی ایک شخص بھی آپ کو ایسا نہیں مل سکتا جو آزادیٔ کامل بول کر آزادیٔ کامل مراد لیتا ہو۔
اس کی وجہ یہ نہیں ہے‘ کہ دنیا کی آزاد قوموں کے ساتھ ہمسری و مساوات حاصل کرنے کی خواہش، جو فطرتاً ہر خوددار ہندوستانی میں ہونی چاہیے، ان کے اندر مفقود ہے، بلکہ دراصل اس کی وجہ یہ ہے‘ کہ ان میں ایک کھلی اور بے لاگ مسابقت (open & fair competition) کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ یہ اس کے لیے تیار نہیں ہیں‘ کہ کھلے میدان میں گھوڑا کھڑا ہو، مقابلہ آزاد نہ ہو، اور ان کا اس گھوڑے کی پیٹھ پر متمکن ہونا محض اس کی قوّت و شہسواری پر موقوف ہو۔ ان کی خواہش تو یہ ہے‘ کہ سرکار سہارا دے کر انہیں گھوڑے پر چڑھا دیں اور جب تک یہ دوسرے امکانی مدعیوں کا خاتمہ نہ کر دیں، یا جب تک وہ ان کی سائیسی قبول کرنے پر مجبور نہ ہو جائیں، اس وقت تک سرکار ان کی پشتیابی کے لیے کھڑے رہیں، یہ اور صرف یہی ایک وجہ ہے اس امر کی کہ ان کے بڑے سے بڑے مدعی حریّت کو بھی جب اوپر سے کھرچا جاتا ہے‘ تو اندر سے وہ درجہ نو آبادیات کا پرستار ہی نکلتا ہے۔
پھر جب ان کا اصلی مدعا یہ ہے‘ تو یہ آزادیٔ کا مل کا نام کیوں لیتے ہیں؟ لبرل پارٹی کی طرح صاف کیوں نہیں کہتے کہ ہم درجہ نو آبادیات چاہتے ہیں؟ آخر اس منافقت کی ضرورت کیا ہے‘ کہ زبان پر وہ بات لائی جائے‘ جو دل میں نہیں ہے‘ اور دل میں وہ بات رکھی جائے‘ جو زبان پر لانی مناسب نہیں؟ خصوصاً وہ لوگ جن کے ایمان میں اہنسا سے بھی پہلے ستیہ (صداقت) کا مرتبہ ہے وہ اس جھوٹ کو کیوں جائز رکھتے ہیں؟ اس سوال کا جواب جو گزشتہ دس سال کی تاریخ پر غور کرنے سے مجھے ملا ہے اسے میںبغیر کسی لاگ لپیٹ کے ظاہر کر دینا چاہتا ہوں۔ اس منافقت کی وجہ صرف یہ ہے‘ کہ درجہ نو آبادیات یا اس سے فرو تر درجہ کی اصلاحات کا نام لیتے ہی فورا ملک کی دوسری قوموں کے حقوق کا سوال پیدا ہو جاتا ہے‘ اور اس صورت میں دوہری مشکل پیش آتی ہے۔ اگر ان حقوق کے مسائل کو انصاف کے ساتھ ابتدائی مراحل میں طے کر دیا جائے‘ تو ہندوستان کو ’’ایک قوم‘‘ کا ملک بنا دینے کا خواب پریشان ہو جاتا ہے۔ اور اگر اپنے اصل ارادے بے نقاب کر دئیے جاتے ہیں‘ تو پھر اس دام فریب کے سارے بند کھل جاتے ہیں‘ جس میں ہندوستان کی دوسری قوموں کو پھانسنا مقصود ہے، اور کوئی توقع نہیں کی جا سکتی کہ حقیقی ’’بندگانِ وطن‘‘ کی قلیل تعداد کے سوا کوئی ایسا ’’بندہ خدا‘‘ بھی اس کام میں تعاون کا ہاتھ بڑھائے گا جو اپنے قومی تشخص کو برقرار رکھنا ضروری سمجھتا ہو۔ اس دوگو نہ اشکال کا عملی تجربہ ان حضرات کو نہرو رپورٹ کی اشاعت کے بعد اچھی طرح ہو گیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے یہ دانشمندانہ پالیسی اختیار کی کہ نہرو رپورٹ کو تو دریائے راوی میں غرق کرکے آزادیٔ کامل کا اعلان کر دیا اور اس جھوٹ کے پردے میں اپنے اصلی مقصد، یعنی تدریجی حصول اقتدار کی کوشش برابر جاری رکھی۔
اگرچہ جاننے والوں کے لیے یہ راز اس وقت بھی راز نہ تھا، اور جن کے پاس کچھ عقل تھی ان کے لیے اس کے بعد بھی بہت سے مواقع آئے جب ان کے چہرے سے نقاب اٹھتا رہا،مثلاً جب سول نافرمانی کے بعد گاندھی جی دوسری راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں لندن تشریف لے گئے تھے تو کامل آزادی لینے کے لیے نہ گئے تھے، نہ کامل آزادی دینے کے لیے ان کو بلایا گیا تھا، اور جب ۱۹۳۵ء کا گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ پاس کر دیا گیا‘ تو جدید اسمبلیوں میں داخلہ کامل آزادی حاصل کرنے کا ذریعہ نہ تھا‘ اورنہ ہو سکتا تھا۔ مگر باوجود اس کے یہ رازہمارے بہت سے سادہ لوح بھائیوںکے لیے راز ہی رہا اور آج بھی، جب کہ برطانوی پارلیمنٹ کے دستور کو علانیہ چلایا جا رہا ہے، ان کے لیے یہ بدستور راز ہے۔ چنانچہ وہ متحدہ قومیّت کے راگ یہی سمجھ کر الاپ رہے ہیں‘ اور ماس کانٹیکٹ کے جال میں مسلمانوں کو یہی سمجھ کر پھنسوا رہے ہیں‘ کہ کانگریس کی جنگ کامل آزادی کے لیے ہے۔ یہ فائدہ ہے اس منافقت کا جو ستیہ اور اہنسا کے معتقدین نے آٹھ نو سال سے اختیار کر رکھی ہے۔
۲- ’’کامل آزادی‘‘ کی اصل حقیقت
جب آزادی کامل کا اعلان کیاگیا تھا تو ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا گیا تھا‘ کہ ہماری جنگ انقلابی جنگ ہے، یعنی ہم اس ظالمانہ نظامِ حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں، اور جب تک یہ جڑ سے اکھڑ نہ جائے ہم اس سے کوئی ربط و تعلق رکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بات بظاہر نہایت معقول تھی۔کیونکہ آزادی کامل صرف انقلابی جنگ ہی سے ہو سکتی ہے۔چنانچہ بہت سے لوگوں کو یقین آگیا کہ جب یہ انقلابی جنگ کا علم بلندکر رہے ہیں‘ تو ضرور ان کا مقصد آزادی کامل ہی کا حصول ہو گا۔
اس کے بعد جب گورنمنٹ اف انڈیا ایکٹ پاس ہو گیا‘ اور جدید اسمبلیوںکے لیے انتخابات شروع ہوئے تو کہا گیا کہ ہم اسمبلیوںمیںجائیںگے مگر اس لیے کہ اس دستور کو اندر سے توڑیں۔
پھر جب اسمبلیوںمیں پہنچ گئے‘ تو وزارتیں قبول کرنے یا نہ کرنے کا سوال پیدا ہوا۔کچھ مدت تک محبوبانہ ادا کے ساتھ ہاں اور نہیںکا سلسلہ جاری رہا اور آخر کار وزارت کے قلم دان بھی سنبھال لیے گئے۔ اور جب وزارتیں بھی قبول کر لی گئیں تو کہا گیا کہ اس سے مقصود ہز میجسٹی کی حکومت کو چلانا نہیں ہے‘ بلکہ دستورجدید کے نفاذ کو عملاً ناممکن بنا دینا ہے۔چنانچہ عہدے قبول کرتے وقت کانگریس نے جس پالیسی کا اعلان کیا تھا وہ یہ تھی‘ کہ:
دستور جدید کا مقابلہ کرکے (یا اس کی مزاحمت کرکے) اسے ختم کر دیا جائے۔ ووٹروں کی بڑی اکثریت کانگریس کی اس پالیسی اور اس کے پروگرام کی توثیق کر چکی ہے۔ عوام النّاس خود برطانوی حکومت ہی کے مقرر کیے ہوئے طریقہ پر آئین جدید کو نا منظور کرنے کا اعلان کر چکے ہیں، (یعنی انہوں نے کانگریس کے نمائندوںکو بھاری اکثریت سے نمائندہ منتخب کیا ہے‘ جس کے معنی یہ ہیں‘ کہ وہ اس دستورکو قبول نہیں کرتے) وہ صاف طور پرا س امر کا اعلان کرچکے ہیں کہ ہم دستور حکومت خود بنانا چاہتے ہیں … لہٰذا باشندگانِ ہند کی جانب سے کانگریس اس دستور کو از اوّل تا آخر مسترد کرتی ہے…
کانگریس اپنے تمام ارکان پر واضح کر دینا چاہتی ہے۔ کہ مجالس قانون ساز میں اس کا کام اس دستور کا مقابلہ کرنے اور اسے ختم کر دینے کی پالیسی پر مبنی ہونا چاہیے… اسی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے آل انڈیا کانگریس کمیٹی اپنے نمائندوںکو ان صوبوں میں وزارتیں قائم کرنے کی اجازت دیتی ہے‘ جن کی مجالس قانون ساز میں ان کو اکثریت حاصل ہے۔
لیکن آج عملاً کیا ہو رہا ہے؟ اور عملاً کو بھی چھوڑ ئیے، وہی زبانیں جو پچھلے سال کے وسط تک دستور کو توڑنے کا اعلان کر رہی تھیں، آج بلا کسی شرم و لحاظ کے کیا کہہ رہی ہیں اس کا جواب ہم سے نہیں خود انہی کی زبانوں سے سن لیجئے۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل ہری پورہ کانگریس کے بھرے اجلاس میںفرماتے ہیں:
چند مہینہ کی مختصر مدت میں کانگریسی وزارتوں نے اس سے زیادہ کام کیا ہے جتنا برطانوی حکومت ڈیڑھ سو برس میں نہ کر سکی تھی۔ (ٹائمز آف انڈیا، مورخہ ۲۳ فروری ۱۹۳۸ء)
یعنی وہی دستور جو بالکل ناکارہ تھا اس قدر کارآمد بن گیا ! اور سنیے۔ کانگریس کے صدر مسٹر سوباش چندر بوس فرماتے ہیں :
کانگریس محض تخریبی طریق کار پر اعتماد نہیں رکھتی۔ بلکہ اندر رہ کر تعمیری طریق کار کو انسب سمجھتی ہے۔ (ٹریبیون مورخہ ۵ جون۱۹۳۸ء)
اس سے بھی زیادہ کھل کر مسٹر بوس نے ابھی حال میں آسام کے قضیہ وزارت پر تبصرہ کرتے ہوئے اس امر کی شکایت کی تھی‘ کہ جب یورپین گروپ ملک ِمعظم کی حکومت چلانے کے لیے ہے‘ تو کانگریس پارٹی کی مخالفت پر کیوں کمر بستہ ہو گیا؟ درآنحالیکہ کانگریس پارٹی بھی اس حکومت کو چلانے ہی کے لیے وزارت سنبھال رہی ہے۔
اس کے صاف معنی یہ ہیںکہ اب دستور کو توڑنے کے بجائے اس کو چلانے کی پالیسی علانیہ اختیار کی جا چکی ہے‘ اور اس کا عملی ثبوت یہ ہے‘ کہ آج ڈیڑھ سال سے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کی حدود کا پورا پورا لحاظ رکھ کر ہزمیجسٹی کی حکومت چلائی جا رہی ہے۔ کانگریسی وزارتیں اگر حقیقت میں دستور کو توڑنا چاہتیں تو ان کے لیے بہت آسان تھا‘ کہ عوام النّاس کی فلاح و بہبود کے لیے ایسی تدابیر اختیار کرتیں جن کی اجازت دینے سے گورنر انکار کر دیتے،ا ور اس پر استعفیٰ دے کر آئینی انقباض (deadlock) پیدا کر دیتیں۔ مگر یہاں ہم دیکھتے ہیںکہ وہ پوری وفاداری کے ساتھ اس دستور کو اسی طرح چلا رہی ہیں‘ جس طرح کوئی لبرل جماعت چلاتی۔ وہ پوری کوشش کر رہی ہیں‘ کہ گورنروں سے تصادم نہ ہونے پائے خواہ عوام النّاس کی فلاح و بہبود کے وہ بہت سے کام رہ جائیں جن کا انہوں نے وعدہ کرکے عوام سے ووٹ حاصل کیے تھے۔
انہوں نے عوام سے کہا تھا‘ کہ ہم شرح مال گزاری میں ۵۰ فی صدی کمی کر دیں گے۔ مگر کس صوبہ میں تخفیف کی گئی؟ یوپی میں جب اس وعدہ کو یاد دلایا گیا‘ تو وزارت نے صاف جواب دے دیا کہ سابقہ حکومت جتنی تخفیف کر چکی ہے اس سے زیادہ نہیں کی جا سکتی۔{ FR 2995 } اور یہ صرف اس لیے کہ مال گذاری کم کرنے سے بجٹ کا توازن بگڑ جاتا ہے، اور بجٹ کا توازن بگڑنا اس سامراج کے مفاد کے خلاف ہے‘ جس کی وفادارانہ خدمت انجام دینے کے لیے یہ حضرات ایوان وزارت میں تشریف لے گئے ہیں۔
انہوں نے عوام کو سبز باغ دکھایا تھا‘ کہ ہم تمہاری غریبی کا علاج کریں گے۔ مگر کون صداقت پسند آدمی یہ دعویٰ کر سکتا ہے‘ کہ احمد آباد، شولا پور، کانپور، بمبئی وغیرہ مقامات پر کانگریسی حکومتوں نے مزدوروں کے ساتھ جو برتاؤ کیا وہ سابقہ حکومت کے ظالمانہ برتاؤ سے کچھ بھی مختلف ہے؟ اور اس پر طرفہ ماجرا یہ ہے‘ کہ غریب مزدور اپنے حقوق تسلیم کرانے کے لیے ہڑتال یا پکٹنگ کرتے ہیں‘ تو وہی گاندھی جی جو ان سب ہتھیاروں کو برٹش گورنمنٹ کے خلاف استعمال کر چکے ہیں، ان پر تشدد کا الزام عائد کرتے ہیں‘ اور بے تکلف فرماتے ہیں‘ کہ ’’کارخانہ داروں کے خلاف پولیس کی امداد طلب کرنے میںاور کانگریسی حکومت ایسی امداد بہم پہنچانے میں بالکل حق بجانب ہیں‘‘۔{ FR 2996 } انہوںنے وعدہ کیا تھا‘ کہ ہم ظالمانہ قوانین کو منسوخ کرائیں گے‘ جو انگریزی کی حکومت نے نافذ کر رکھے ہیں‘ اور باشندگانِ ہند کو ان کی کھوئی ہوئی مدنی آزادیاں (civil liberties) واپس دلائیں گے۔ مگر واقعات کیا ہیں؟ کیا وہ اکثر و بیشتر قوانین بدستور موجود نہیںہیں جو انگریزی حکومت نے نافذ کیے تھے؟ کیا خود کانگریس حکومتیں ان قوانین کواستعمال نہیںکر رہی ہیں؟ اور کیا انہیں استعمال کرنے میں ٹھیک انہی دلائل سے کام نہیں لیا جا رہا ہے‘ جو کسی زمانے میں انگریزی حکام پیش کیا کرتے تھے؟ وہی کانگریسی حکام جو کہتے تھے‘ کہ بغاوت ہمارا مذہب ہے، مدارس میں مسٹر باٹلی والا پر بغاوت کا مقدّمہ چلاتے ہیں‘ اور بمبئی اور سی پی میں مسٹر باپت اور مسٹر جگناتھ پرشاد ورما پر بغاوت کا مقدّمہ چلانے کی دھمکی دیتے ہیں۔ شولا پور میں ’’یوم استقلال‘‘ کے موقع پر بہت سے آدمیوںکو گرفتار کیا جاتا ہے‘ اور ایک شخص کو سزائے تازیانہ بھی دی جاتی ہے۔ حالانکہ اس سزا کے خلاف کسی زمانہ میں شور قیامت برپا کر دیا جاتا تھا۔ سیاسی ایجی ٹیشن کو روکنے کے لیے دفعہ ۱۴۴ کا نفاذ، گولیاں چلانا اور لاٹھی چارج کرنا آج بھی اسی طرح جاری ہے۔ جس طرح پہلے تھا۔ کریمنل لاامنڈمنٹ ایکٹ، جس کے خلاف کانگریس نے سب سے زیادہ شور مچایا تھا، آج کانگریسی حکومت بے تکلف اس کو استعمال کر رہی ہیں۔ احمد آباد میںمزدوروں کا سر کچلنے کے لیے اسے استعمال کیا گیا ہے، اور مدراس میں ہندی کی اشاعت کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر آج پوری آزادی کے ساتھ اس سے کام لیا جا رہا ہے۔ وہی سی آئی ڈی جس کی زیادتیوں پر کسی زمانہ میں ماتم کیا جاتا تھا، آج کانگریس حکومتیں اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف اس کی خدمات سے پورا فائدہ اُٹھا رہی ہیں‘ اور مدراس کا وزیر اعظم صاف کہتا ہے‘ کہ جب ہم نے حکومت کا انتظام ہاتھ میں لیا ہے، (یعنی جب ہم اس حکومت کو توڑنے کے لیے نہیں‘ بلکہ چلانے کے لیے نکلے ہیں)، تو سی آئی ڈی سے کام لیے بغیر چارہ نہیں۔ وہی پریس کی آزادی جس کو باشندوںکے مدنی حقوق کی فہرست میں نمایاں جگہ دی جاتی تھی، آج اس کو خود پامال کیا جا رہا ہے۔ اخبارات کی ضمانتیں بھی ضبط ہوتی ہیں، نئی ضمانتیںبھی مانگی جاتی ہیں‘ اور ایڈیٹروں پر مقدّمے بھی چلائے جاتے ہیں۔ اس سے بھی عجیب تربات یہ ہے‘ کہ حکومت بمبئی نے حال ہی میں پولیس کمشنر کو پورے اختیارات عطا کیے ہیں‘ کہ جس شخص کو چاہے بغیر مقدّمہ چلائے شہر بدر کر دے۔{ FR 2997 }
اس پورے کارنامہ کا خلاصہ خود ایک صاف گو کانگریسی مسٹر ایم این رائے کی زبان میںیہ ہے‘ کہ :
اسمبلیوںمیں جانے کا پروگرام اختیار کرنے کے بعد، خصوصاً وزارتیں قبول کرنے کے بعد کانگریسی سیاست تیزی کے ساتھ دستوریت (constitutionalism) کی طرف ترقی معکوس کر رہی ہے‘ اور برطانوی امپیریل ازم سے لڑنے کی انقلابی ذہنیت کافور ہو گئی ہے۔{ FR 2998 }
کانگریسی وزیروںنے امپریلسٹ اسٹیٹ کی مشن کو اندر سے توڑنے کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کی۔ جو جنگی مورچے (strategic positions) ان کے قابو میں آئے ان کو بھی غنیم پر حملہ کرنے کے لیے انہوں نے استعمال نہیںکیا۔ وہ تو کانگریس ہائی کمانڈ کی اجازت سے، بلکہ اس کی ہدایت کے تحت، اسی امپریلسٹ اسٹیٹ کے انتظام کو چلا رہے ہیں جسے توڑنے کا ارادہ ظاہر کرکے وہ گئے تھے۔
ایمانداری کا تقاضا یہ ہے‘ کہ اس امر کا صاف صاف اعتراف کر لیا جائے‘ کہ کانگریسی وزارتیں عوام کی معاشی حالت کو درست کرنے کے لیے کچھ بھی نہ کر سکیں‘ اور نہ موجودہ دستور کی حدود میں رہ کر وہ آئندہ کچھ کر سکیں گی۔{ FR 2999 }
کانگریس کے اصل عزائم
اب یہ بات بالکل عیاں ہو چکی ہے‘ کہ کانگریس کی ’’جنگِ آزادی‘‘ کوئی انقلابی جنگ نہیں ہے، بلکہ جیسا میں اوپر بیان کر چکا ہوں، نیم انقلابی نیم دستوری ہے۔ اس کا نقشہ جنگ یہ نہیں ہے‘ کہ مسلسل لڑ کر انگریزی سلطنت کے نظام کو توڑ ڈالا جائے۔ بلکہ نقشہ جنگ دراصل یہ ہے‘ کہ اسی نظام سلطنت کے اندر رہ کر حکمراں جماعت پر دباؤ ڈالا جائے‘ اور اس سے تبدریج اختیارات حاصل کرکے اپنا اقتدار جمایا جائے۔ پہلے انہوںنے سول نافرمانی کی تاکہ ۱۹۱۹ء کی اصلاحات کا دائرہ وسیع ہو اور زیادہ سے زیادہ اختیارات مل سکیں۔ اس کے نتیجہ میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء حاصل ہو گیا۔ اب یہ اس ایکٹ کے مطابق صوبوں کی حکومتیں چلا رہے ہیں‘ اور اپنے پروگرام کے مطابق… جس کی تشریح میں آگے کروں گا… ملک میں اپنا اقتدار حاصل کر لینا چاہتے ہیں‘ کہ دوبارہ آئینی یا نیم انقلابی ذرائع سے برطانوی سلطنت پر دباؤ ڈال کر مرکزی حکومت میں زیادہ سے زیادہ اختیار حاصل کریں۔ چنانچہ آج کل اسی غرض کے لیے دوڑ دھوپ ہو رہی ہے۔ جواہر لال یورپ کا چکر لگا رہے ہیں۔ گاندھی جی وائسرائے اور نائب وزیر ہند سے راز کی ملاقاتیں فرما رہے ہیں۔ ستیہ مورتی وفاقی دستور کو قبول کرنے کی شرائط پیش کر رہے ہیں۔ اور سوباش چندر بوس دھمکیوںپر دھمکیاں دئیے چلے جاتے ہیں۔ ایک ہی ٹیم ہے‘ جس کا ہر کھلاڑی اپنا اپنا کام خوبی کے ساتھ کر رہا ہے‘ اور سب کی منزلِ مقصود ایک ہے، یعنی ہندو راج زیر سایہ برطانیہ۔
۳- کانگریس اور ہندو مہاسبھا
یہاں پہنچ کر ہندو مہاسبھا اور کانگریس دونوں نظری اور عملی حیثیت سے ایک ہو جاتی ہیں، گو ان کے نام اور کام مصلحتاًجدا ہیں۔
نظری حیثیت سے دونوں میں نہ پہلے فرق تھا نہ آج ہے۔ دونوں وطنی قومیّت کی علمبردار ہیں۔ دونوں اس ملک میں ’’فرقوں‘‘ (قوموں) کے امتیازی وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہیں۔ دونوں علیحدگی کے ہر رجحان (separatist tendency) کی دشمن ہیں۔ حتیٰ کہ کسی معاملہ میں بھی وہ مسلمانوں کے جُدا گانہ مفاد کا نام تک سننے کی روادار نہیں۔ دونوں کا آخری نصب العین یہ ہے‘ کہ یہاں ایک قومیّت پیدا ہو جائے‘ جو تہذیب، تمدّن، اخلاق، معاشرت، زبان، ادب، جذبات وحسیات، غرض ہر لحاظ سے بالکل یک رنگ ہو۔ فرق صرف اتنا ہے‘ کہ کانگریس جہاں ’’ہندوستانی‘‘ کا لفظ بولتی ہے وہاں مہاسبھا ’’ہندو‘‘ کا لفظ استعمال کرتی ہے۔ مگر معنی دونوں کے ایک ہیں۔
عملی حیثیت سے بظاہر چند سال تک دونوں میں فرق رہا۔مگر اب اس حیثیت سے بھی کوئی فرق باقی نہیں۔ کانگریس یہ دعویٰ کرتی تھی‘ کہ اس کا نصب العین کامل آزادی ہے‘ اور وہ انقلابی جدوجہد سے اسے حاصل کرے گی۔ بخلاف اس کے ہندو مہاسبھا کہتی تھی‘ کہ انگریزی سلطنت سے آزاد ہو جانے کے بعد ’’ایک قوم‘‘ بنانے کا عمل دشوار بلکہ محال ہو جائے گا۔ یہ عمل صرف اسی طرح پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے‘ کہ انگریزی سلطنت کے زیر سایہ رفتہ رفتہ حکومت کے اختیارات پر قبضہ کرو۔ انگریز اپنی فطرت سے مجبور ہے‘ کہ یہاں جمہوریت کے انہی تصوّرات کو درآمد کرے گا جو اس کے اپنے ملک میں صدیوں سے پرورش پا رہے ہیں۔ وہ چاہے لڑا کر حکومت کرنے کی پالیسی پر کتنا ہی عمل کرے اور اس غرض کے لیے یہاں مختلف قومیّتوں کے وجود سے فائدہ اٹھانے کی کتنی ہی کوشش کرے، مگر جب کبھی وہ جمہوری ادارات قائم کرنے کا ارادہ کرے گا تو اس کا ذہن کوئی ایسی صورت نہ سوچ سکے گا جو اس کے اپنے ملک کے جمہوری ادارات سے اصولاً مختلف ہو۔ لہٰذا اس پر دباؤ ڈال کر جتنی بھی آئینی اصلاحات ملیں گی وہ سب ہندوؤں ہی کو بوجہ ان کی عدد اکثریت کے سیاسی قوّت و اقتدار کا مالک بنائیں گی۔ اور اس قوّت و اقتدار کو اگر ہوشیاری کے ساتھ استعمال کیا جائے‘ تو معاشی دباؤ، تعلیمی انقلاب اور حاکمانہ نفوذ و اثر سے رفتہ رفتہ ہندوستان کی مختلف قومیّتوں کو ’’ایک قومیّت‘‘ میں تحلیل کیا جا سکتا ہے۔ یہ اور صرف یہی ایک صورت ہے‘ جس سے یہاں ’’ایک قوم‘‘بنائی جا سکتی ہے، لہٰذا جب تک یہ عمل پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ جائے آزادیٔ کامل کا نام بھی نہ لینا چاہیے۔ا س سے پہلے انگریزی اقتدار کو مٹانے کی کوشش کرنا بھارت ورش کے ساتھ دشمنی کرنا ہے۔
پالیسی کا یہ اختلاف چند سال تک محض ظاہری طور پر کانگریس اور مہاسبھا میں رہا۔ مگر آج ہر شخص دیکھ سکتا ہے‘ کہ کانگریس ٹھیک اسی مقام پر آگئی ہے‘ جہاں ہندو مہاسبھا تھی‘ اور دونوںمل کر سامراج کے تحت ناظم (administrator) کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ بہار میں، سی پی میں، یو پی میں اور دوسرے صوبوں میںکھلے ہوئے بدنام مہاسبھائی کانگریس کے ذمّہ دار عہدوں پر فائز ہیں۔ سی پی کی سابق کانگریسی وزارت میں ایک صاحب مسٹر ویسمکھ بھی شامل تھے‘ اور یہ وہ صاحب ہیں‘ جو راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے موقع پر ہندو مہاسبھا کی طرف سے ایک وفد لے کر لندن پہنچے تھے۔ سی پی کے موجودہ وزیر اعظم مسٹر شکلا وہ صاحب ہیں جنہوں نے سوراج پارٹی کے داخلہ کونسل کے زمانہ میں مالوی جی کے زیر قیادت کانگریس سے الگ انڈی پنڈنٹ پارٹی بنائی تھی‘ اور جنہوں نے بعد میں کمیونل اوارڈ کے متعلق کانگریس کی پالیسی سے اختلاف کرکے اس کو انتخابات کا نزاعی مسئلہ بنایا۔ سی پی اسمبلی کا صدر بھی کھلا ہوا مہاسبھائی ہے۔ کانگریس کی طرف سے اسمبلی کی صدارت بھی کرتا ہے‘ اور مسٹر ساور کر سے مل کر حیدر آباد میں ریاست کے خلاف شورش برپا کرنے کی تدبیریں بھی کرتا ہے۔ بہار میں بھاگلپور اور دوسرے مقامات پر جو فساد ہوئے ان میں کانگریس کے ذمّہ دار کارکنوں نے پورا پورا مہاسبھائی پارٹ ادا کیا۔ یوپی میں دوری اور ٹانڈہ وغیرہ کے فسادات ان مہاسبھائیوں نے برپا کرائے جو کانگریس کے عہدوں پر فائز تھے۔ اس قسم کی بیسوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں‘ اور ان سے صاف معلوم ہوتا ہے‘ کہ ’’قومیّت متحدہ‘‘ کی خدمت کرنے والے حضرات کس آسانی کے ساتھ کانگریس سے مہاسبھا میں اور مہاسبھا سے کانگریس میں آتے جاتے رہتے ہیں۔
ان دونوں جماعتوں میں اب اگر کوئی فرق باقی ہے‘ تو وہ صرف یہ ہے‘ کہ ایک ہندو مہاسبھا ہے‘ اور دوسری انڈین نیشنل کانگریس۔ مہاسبھا صریح طور پر ہندوؤں کی جماعت ہے۔ کوئی مسلمان اس میں شریک نہیں ہو سکتا۔ نہ وہ مسلمانوں کو اپنی طرف دعوت دے سکتی ہے۔ نہ مسلمانوںمیں جا کر ماس کانٹیکٹ کر سکتی ہے۔ نہ کسی صوبہ کی حکومت پارٹی سسٹم کی بنیاد پر قائم کر سکتی ہے۔ نہ کہیں خالص ہندو وزارت قائم کرکے یہ دعویٰ کر سکتی ہے‘ کہ ’’یہ قومی وزارت‘‘ ہے۔ نہ مسلمانوں سے یہ کہہ سکتی ہے‘ کہ ہمارے عہد نامہ (pledge) پر دستخط کرو تب تمہیں وزارت میں شریک کیا جائے گا۔ نہ اس کو مولانا ابوالکلام کی خدمات حاصل ہو سکتی ہیں‘ کہ مسلمانوں کی جماعت میں سے کمزور کیرکٹر کے آدمیوں کو ڈھونڈ دھونڈ کر لائیں اور اس کے آستانہ پر جھکا دیں۔ نہ اسے ڈاکٹر ذاکر حسین کی خدمات میسر آسکتی ہیں‘ کہ واردھا اسکیم تیار کریں۔ نہ وہ خان عبد الغفار خان سے کام لے سکتی ہے‘ کہ ۹۵ فی صدی اکثریت رکھنے والے سرحدی صوبہ کو فیڈریشن کے قیام سے پہلے ہی اس وحدانی طرز حکومت (unitary form of govenrment) کا تابع بنا دیں جس کے مرکز پر ہندوؤں کا کامل اقتدار ہو۔ نہ وہ بہت سے علما کرام کی خدمات حاصل کر سکتی ہے‘ کہ مسلمانوں کو مذہبی اقتدار کے زور سے اس کے دائرے میں کھینچ کھینچ کر لائیں اور فتویٰ دیں‘ کہ اس جماعت میں شریک ہونا وجوب کا درجہ رکھتا ہے۔ نہ اس کے لیے یہ دعویٰ کرنا ممکن ہے‘ کہ اس کے لیڈر مسلمانوں کے بھی ویسے ہی نمائندے ہیں جیسے ہندوؤں کے ہیں‘ اور جو کچھ وہ بولتے ہیں ’’پوری قوم‘‘ کی طرف سے بولتے ہیں۔ نہ وہ اسلامی اکثریت رکھنے والے صوبوں میں وزارتوں کی توڑ پھوڑ اس خوبی کے ساتھ کرا سکتی ہے‘ کہ وزارت مسلمانوں ہی پر مشتمل رہے گی مگر اشاروں پر ہائی کمانڈ کے رقص کیا کرے۔ نہ اقلیت ہی کے صوبوں میں اس کو مسلمانوں پر اقتدار حاصل ہو سکتا ہے‘ کہ ان کے منتخب کردہ نمائندوں میں جسے چاہے وزارت پر سرفراز کرے اور جس کو چاہے کان سے پکڑ کر نکال دے۔ یہ سب کام کانگریس ہی سے بن آسکتے ہیں کیونکہ وہ ہندو مہاسبھا نہیں، انڈین نیشنل کانگریس ہے۔
اس فرق کے ساتھ یہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کر رہی ہیں۔ جو کام کانگریس کر سکتی ہے وہ مہاسبھا نہیں کر سکتی۔ اور جو کام مہاسبھا کر سکتی ہے وہ کانگریس نہیں کر سکتی۔ کانگریس پیش قدمی کرنے و الی فوج ہے‘ جو آگے بڑھ کر غنیم کے علاقہ پر قبضہ کرتی ہے‘ اور مہاسبھا وہ محافظ دستہ ہے‘ جو عقب میں رہتاہے تاکہ آگے کی فوج کو حسب ضرورت مدد پہنچاتا رہے۔ کانگریس پر جب کبھی مشترک وطنی جماعت ہونے کی حیثیت سے دباؤ پڑتا ہے، ہندو مہاسبھا فورا آگے بڑھ کر پشت کو سہارا دیتی ہے، اور مسٹر ساور کر، ڈاکٹر مونجے، بھائی پرمانند وغیرہ شور مچانے لگتے ہیںکہ ہندوؤں کے نمائندے ہم ہیں، گاندھی اور جواہر لال نہیں ہیں۔ ایسے نازک موقع پر اگر عقب میںمحفوظ فوج موجود نہ ہو تو مقدّمۃ الجیش کو اپنی ’’قوم پرستی‘‘ کا دعویٰ نباہنا مشکل ہو جائے۔ اس فوج کی مدد کام بھی نکال دیتی ہے‘ اور بات بھی بنی رہتی ہے۔
۴- کانگریس اور انگریزی حکومت
ہندو مہاسبھا کے ساتھ برٹش گورنمنٹ سے بھی کانگریس کا مفاد اسی نقطہ پر متحد ہوتا ہے۔ مسلمانوںمیںشخصی اغراض رکھنے والی ایک قلیل جماعت کے سوا کوئی آپ کو ایسا نہ ملے گا جو برطانوی اقتدار سے کسی قسم کی مصالحت کرنے پر آمادہ ہو۔ مسلمان نہ صرف ہندوستان میںبلکہ تمام مشرقی ممالک میںاس قیصریت کا فوری، کلی اور قطعی زوال چاہتا ہے۔برعکس اس کے ہندوؤں کی قومی پالیسی یہ ہے‘ کہ انگریزی حکومت سے اچھی شرائط پر مصالحت کی جائے۔ یعنی ہندو لڑتا ہے نفع پر سودا کرنے کے لیے اور مسلمان لڑتا ہے معاملہ ختم کرنے کے لیے۔ مزید برآںمسلمان انگریزوںکے کسی کام کا نہیں کہ اس کی جیب خالی ہے۔ اور ہندو ایک سرمایہ دار قوم ہے‘ جس کے ساتھ تجارتی معاملہ بھی کیا جا سکتا ہے‘ اور آڑے وقت میںمالی مدد بھی اس سے مل سکتی ہے۔ لہٰذا جس طرح فلسطین میں ایک سرمایہ دار قوم کا تعاون حاصل کرنے کے لیے مسلمانوںکو بھینٹ چڑھانا مفید تھا، اسی طرح ہندوستان میںبھی ایک دوسری قوم کا تعاون حاصل کرنے کے لیے اس کوبھینٹ چڑھانا فائدے سے خالی نہیں۔ اسی بنا پر یہاں ہم دیکھتے ہیںکہ برٹش گورنمنٹ اور کانگریس کے درمیان سوداگرانہ معاملہ ہو رہا ہے۔ صوبوں کی حکومت میں تو سودا پٹ چکا ہے۔ اور اب جو کچھ کھینچ تان ہو رہی ہے صرف مرکزی اقتدار کے معاملہ میں ہے۔ یہ کچھ زیادہ مانگتے ہیں‘ اور وہ کچھ کم پر راضی ہیں۔ اس کے ساتھ ابھی چونکہ معاملہ نیا نیا ہے، اس لیے کچھ بد گمانیاں بھی ہیں۔ وہ ابھی پوری طرح اعتماد بھی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ تحفظات کی رسی انہوں نے ان کے گلے میں باندھ رکھی ہے۔ جب یہ سلطنت برطانیہ کی محفوظ چراگاہ کی طرف بڑھتے ہیں‘ تو وہ پوری طاقت کے ساتھ رسی کھینچ لیتے ہیں‘ اور جب یہ کھلے میدان میں اقلیتوںکی کھیتی چرنے کے لیے بڑھتے ہیں، تو وہ اطمینان کے ساتھ رسی ڈھیلی چھوڑ دیتے ہیں۔ دستور میں اقلیتوں کی حفاظت کے لیے گورنروں کو جو مخصوص اختیارات دئیے گئے ہیں ان کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ اگر کبھی خدانخواستہ کانگریسوں نے اس سازش، گاندھی جی کے بقول ’’شریف آدمیوں کی سی قراردار‘‘ (gentlement’s agreement)سے جو ان کے اور برٹش گورنمنٹ کے درمیان ہو چکی ہے، انحراف کیا اور تاج کے مفاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو اس وقت تاج کے بجائے اقلیتوں کے مفاد کی حفاظت کا بہانہ کرکے ان کی گوشمالی کی جا سکے۔
۵- کانگریس کا اصلی مقصد
اس ملی بھگت میںبرطانیہ کا مفاد پوری طرح محفوظ ہے۔ سول سروس پر ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔ یورپین باشندوں کے حقوق سے بھی تعرض نہیںکیا جا سکتا۔ سرکار کے مالی مفاد کو بھی نہیں چھیڑا جا سکتا۔ مختصر یہ کہ جن جن چیزوں سے انگریزی سلطنت کی اغراض کا تعلق ہے دستور حکومت میں ان سب کی حفاظت اچھی طرح کر لی گئی ہے، اور کانگریسی وزارتیں جو ا س دستور کو عملاً قبول کرکے حکومت کا نظم و نسق چلا رہی ہیں، ان حدود میں نہ قدم رکھ سکتی ہیں‘ اور نہ قدم رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اب یہ ظاہر ہے‘ کہ موجودہ دستور کی حدود میں رہ کر کسی ایسے پروگرام پر تو عمل کرنا ممکن ہی نہیں ہے‘ جس پر حقیقت میں ’’جنگِ آزادی‘‘ کا اطلاق ہو سکے۔ کیونکہ ’’جنگ ِ آزادی‘‘کو خواہ آپ کتنا ہی نیچے گرا دیں، بہرحال اس کا منشا یہ تو ہونا چاہیے‘ کہ جہاں باشندگانِ ہند کا مفاد سرکار برطانیہ کے مفاد سے متصاد ہوتا ہو وہاں سرکار کے مفاد کو گرایا جائے‘ اور ہندوستان کی ’’جنتا‘‘ کے مفاد کو ابھارا جائے۔ مگر جس دستور میں سرکار کا مفاد محفوظ ہے اس کی پابندی قبول کرنے کے بعد ایسا کرنا غیر ممکن ہے۔ پھر یہ سوال خود بخود پیدا ہوتا ہے‘ کہ جنگ آزادی کا دعویٰ لے کر اٹھنے والی جماعت اس دستور کو کس لیے قبول کر رہی ہے‘ اور کیوں اسے چلانے پر مصر ہے؟
اس سوال کی تحقیق اگر آپ واقعات کی روشنی میں کریں گے‘ تو یہ حقیقت آفتاب کی طرح نمایاں ہو جائے گی کہ اس وقت کانگریس کے سامنے کوئی پروگرام اس کے سوا نہیں ہے‘ کہ پراونشل اٹانومی سے جو اختیارات بھی حاصل ہو سکیں، انہیں لے کر جدید ہندوستانی قومیّت کی تخلیق میں استعمال کیا جائے، اور اس ملک کی مختلف قلیل التعداد قوموں میں اپنے امتیازی وجود کو برقرار رکھنے کی جس قدر طاقت باقی ہے اسے حکومت کے زور سے ختم کر دیا جائے۔ نئے دستور کی بنیادی کمزوریوں کے باوجود اس کے پراونشل اٹانومی والے حصہ کو اسی بنا پر قبول کیا گیا ہے۔ کہ اس کا یہی ایک پہلو روشن ہے‘ اور ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں‘ کہ اس کے فیڈریشن والے حصہ کو بھی با ہزاراں عشوہ وناز آخر کار اسی روشن پہلو کی خاطر قبول کیا جائے گا تاکہ مسلم اکثریت والے صوبوںکو مرکزی اقتدار کے واسطہ سے قابو میں لایا جائے۔
اس پروگرام کی ایک ایک دفعہ کو میں الگ الگ بیان کروں گا اور تفصیل کے ساتھ بتاؤں گا کہ اس پر کس طرح عمل ہو رہا ہے‘ اور کے نتائج کیا ہیں۔
۶- پارٹی سسٹم اور اس کے اثرات
دستور جدید کے مطابق حکومت کے نظام کو چلانے کے لیے کانگریس نے پارٹی سسٹم اختیار کیا ہے۔ پارٹی سسٹم کی مختصر تشریح یہ ہے‘ کہ جس مجلس قانون ساز میں کسی پارٹی کی اکثریت ہو وہاں خالصۃً اسی کی حکومت قائم ہو جائے‘ اور وہ دوسری جماعتوںکو من حیث الجماعت، حکومت میں شریک نہ کرے۔ یہ حکمران جماعت اپنی اکثریت کے زور پر جو قانون چاہے گی بنائے گی‘ اور جس تجویز یا مسوّدہ قانون کو چاہے گی مسترد کر دے گی۔ پھر اپنے بنائے ہوئے قوانین کو نافذ کرنا بھی اسی پارٹی کے اختیار میںہو گا۔ کیونکہ حکومت کا نظم و نسق کلیۃً اسی کی وزارت کے ہاتھ میں رہے گا۔ جو لوگ اس کے اندر داخل ہوں وہ صرف اسی صورت میں داخل ہو سکتے ہیں‘ کہ پارٹی کے عہد نامہ پر دستخط کریں‘ اور اس کے ڈسپلن میں جکڑ دئیے جائیں۔ پھر جب وہ اس طرح پارٹی ڈسپلن کے تابع فرمان ہو جائیں گے‘ تو ان کے لیے یہ ناممکن ہو گا کہ کسی ایسی تجویز یا مسوّدہ قانون کی مخالفت کریں جو پارٹی کی طرف سے پیش ہو، یا خود اپنی طرف سے کوئی ایسی چیز پیش کریں جس کی اجازت پارٹی نے نہ دی ہو، یا حکومت کی پالیسی پر نکتہ چینی کریں۔ ان کو ہر حال میں پارٹی کی فرمانبرداری کرنی ہو گی‘ اور اگر آزادی رائے استعمال کرنا چاہیں گے‘ تو انہیں پارٹی سے باہر نکل جانا ہو گا۔ نیز وہ پارٹی کے اندر رہ کر بھی اس کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیںکر ا سکتے‘ جب تک کہ وہ پارٹی میں اکثریت کو اپنا حامی نہ بنا لیں۔
حکومت کا یہ سسٹم کانگریس نے ان تمام صوبوںمیں اختیار کیا ہے‘ جہاں ہندوؤں کی اکثریت ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں‘ کہ مسلمانوںکو عملاً قانون سازی اور تنفیذ قانون، دونوں سے بیدخل کر دیا گیا ہے۔ اگر مسلمان کانگریس پارٹی سے الگ رہیں تو وہ اپنی اقلیت کی وجہ سے نہ اپنے مفاد کے لیے کوئی قانون بنوا سکتے ہیں، نہ اپنے مفاد کے خلاف کسی قانون کی منظوری کو روک سکتے ہیں‘ اور نہ قوانین کو نافذ کرنے والی مشین یعنی وزارت میں ان کا کوئی پرزہ شریک ہو سکتا ہے۔ اور اگر وہ اس پارٹی میں شامل ہو جائیں تو انہیں پارٹی ڈسپلن کے طوق و سلاسل پہننے پڑتے ہیں‘ اور اس کا کوئی فائدہ اس کے سوا حاصل نہیں ہوتا کہ باہر رہتے ہوئے زبان کی جو آزادی وہ استعمال کر سکتے تھے وہ بھی چھن جائے، رہا اندر سے پارٹی کی پالیسی پر اثر ڈالنا، تو اقلیت ہونے کی وجہ سے یہاں بھی اس کا کوئی موقع نہیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہے‘ کہ اڑیسہ اور سی پی میں تو علانیہ وہ حکومت کے نظم و نسق سے بے دخل ہیں، اور جن صوبوں میںایک یا دو مسلمان وزیر بنائے گئے ہیں وہاں دراصل مسلمانوں کی جماعت کو بحیثیت جماعت کے حکومت میں حصہ نہیں دیا گیا ہے‘ بلکہ ان کے ایک فرد یا دو افراد کو انفرادی حیثیت سے نوکر رکھا گیا ہے تاکہ محض اس بات کی نمائش کی جا سکے کہ وزارت میں مسلمان بھی شریک ہیں۔
آئینی حیثیت سے دیکھئے تو ان ملازموں کی حیثیت ذمّہ دار وزراء کی نہیںہے، کیونکہ ذمّہ دار وزیر وہ ہوتا ہے‘ جس کو اپنی جماعت کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہو، اور انہیں اپنی ذات کے سوا کسی کا اعتماد حاصل نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے‘ کہ انہیں ان مسلمان ووٹروں کا اعتماد حاصل ہے جنہوں نے ان کو منتخب کیا۔ مگر کلی مسلمان ووٹروں میں ان کے ووٹروں کا تناسب شاید پانچ فیصدی سے زیادہ نہیںہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ وزارت میں، جہاں تک مسلمانوںکا تعلق ہے، اکثریت کی نہیں‘ بلکہ اقلیت کی حکومت ہے، اور جہاں تک ہندوؤں کا تعلق ہے، ان کی اکثریت حکمران ہے کیونکہ ہندو وزیر ہندو ووٹروں کی اکثریت کا اعتماد رکھتے ہیں۔
عملی حیثیت سے دیکھئے تو یہ بالکل بے زور ہیں۔ ان کی پشت پر کوئی طاقت نہیں جس کے بل بوتے پر یہ کوئی بات زور کے ساتھ کہہ سکیں، بخلاف اس کے ہندو وزراء کی پشت پر مجلسِ قانون ساز کی اکثریت کا زور ہے۔ یہ بچارے بعض صوبوں میں تو کانگریس پارٹی کے اندر بالکل اکیلے ہیں‘ اور بعض جگہ صرف دو چار مسلمان ان کی مدد پر موجود ہیںبھی تو وہ غریب خود پارٹی ڈسپلن میں جکڑے ہوئے ہیں۔
اس طرح ہندو اکثریت کے صوبوں میں مسلمان وزراء کی حیثیت ایک نوکر سے زیادہ نہیں ہے‘ اور اس حیثیت کا کھلا ہوا مظاہرہ سی پی کے سابق مسلمان وزیر مسٹر شریف کے معاملہ میں ہو چکا ہے۔ انہوں نے جب ایک مسلمان قیدی کو اپنے اختیارات سے کام لے کر رہا کیا اور اس پر مہاسبھائی ہندوؤں نے شور مچایا تو کانگریس ہائی کمانڈ نے کان پکڑ کر ان کو ایوان وزارت سے باہر کر دیا، درآنحالیکہ باقاعدہ تحقیقات سے یہ ثابت ہو چکا تھا‘ کہ انہوں نے نہ تو اس معاملہ میں مذہبی عصبیت سے کام لیا، نہ کسی قسم کی بد دیانتی کی‘ اور نہ جائز قانونی حدود سے تجاوز کیا۔{ FR 3000 }اس کے برعکس ابھی حال میں مسٹر شریف کے جانشین ہندو وزیر نے اسی قسم کے ایک مجرم کو جسے ہائی کورٹ سے سزا ہو چکی تھی، اپنے اختیارات سے کام لے کر رہا کر دیا اور اس سے کوئی باز پرس نہ ہوئی۔ مسٹر شکلا نے وزارت کا قلم دان سنبھالتے ہی فسادات جبل پور کے ملزموں کو جنہیں سشن سپرد کیا جا چکا تھا، بلا کسی قانونی وجہ کے رہا کر دیا اور اس پر بھی کسی تحقیقات کی ضرورت نہ سمجھی گئی۔{ FR 3001 }پنڈت شُکلا سے پہلے ڈاکٹرکَھرے کی وزارت پر خود کانگریسیوں نے رشوت، خیانت، غبن اور اپنے متعلقین کو ملازمتوں میں بھرنے کے سخت الزامات عائد کئے تھے، مگر ان کے معاملہ کو گاندھی جی نے یہ کہہ کر رفع دفع کر دیا تھا کہ:
کانگریس بہرحال انسانوںپر مشتمل ہے‘ اور وہ خوبیوں اور برائیوں دونوں میں اس قوم کے ساتھ برابر کے حصہ دار ہیں‘ جس کی وہ نمائندگی کر رہے ہیں۔{ FR 3002 }
اس میں شک نہیں کہ ڈاکٹر کھرے کے ساتھ بعد میں بہت سخت معاملہ کیا گیا، مگر کس وقت، جب کہ انہوں نے کھلم کھلا خدایانِ کانگریس کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔ مسٹر شریف کی طرح اگر وہ گھٹنے ٹیک کر ناک رگڑتے تو انہیں کبھی وزارت سے نہ نکالا جاتا۔

۷- جُدا گانہ انتخابات
پارٹی گورنمنٹ اور پارٹی ڈکٹیٹر شپ قائم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ جُدا گانہ انتخاب ہے، کیونکہ اس کی بدولت مسلمانوں کی آواز نمایاں طور پر بلند ہو سکتی ہے، اور اگر مسلمان نمائندوں کی بڑی اکثریت کانگریس پارٹی سے الگ رہے ‘تو پارٹی گورنمنٹ قائم کرنے کی صورت میں کانگریس کی مہاسبھائیت بالکل بے پردہ ہونے لگتی ہے۔
مخلوط انتخاب کا مطالبہ اسی بد نمائی کو دور کرنے کے لیے بار بار پیش کیا جاتا تھا۔ مگر انگریز ابھی اس ’’شریف آدمیوں کی سی قرارداد‘‘ پر پوری طرح اعتماد کرنے کے لیے تیار نہ تھا جو اس کے اور کانگریس کے درمیان زیر تجویز تھی۔ اس لیے مسلمانوں کے مفاد کی خاطر نہیں‘ بلکہ اپنے مفاد کی خاطر اس نے جُدا گانہ انتخاب کو برقرار رکھا۔
اس میں ناکام ہونے کے بعد دوسری تدبیر یہ نکالی گئی کہ جُدا گانہ انتخاب میں اندر سے نقب لگائی جائے۔ یعنی کانگریس براہِ راست مسلمان حلقہ ہائے انتخاب میں جا کر مسلمان ووٹروں کو ہموار کرے، اور ایسے مسلمانوں کو خود مسلمان رائے دہندگان ہی سے منتخب کرا لائے جو پارٹی ڈسپلن اور ڈکٹیٹر شپ کو بخوبی قبول کرنے والے ہوں، اپنے صوبہ کی کانگریس پارٹی کے اور پھر اس پر ہائی کمانڈ کے غلام بن کر رہیں، جس طرح یہ آقا انہیں بٹھائیں اسی طرح بیٹھیں اور جس طرح اٹھائیں اسی طرح اُٹھ جائیں، جس قسم کے قوانین ہندو اکثریت پاس کرنا چاہے انہیں مسلمانوں کی طرف سے بے چون و چرا منظور کر لیں، اور مسلمانوں کی قومیّت کو فنا کرنے کے لیے جو تدبیریں کوئی مہاتما یا کوئی پنڈت سوچے ان کو مسلمانوں میں نافذ کرنے کی زحمت خود مہاتما یا پنڈت صاحب کو نہ اٹھانی پڑے بلکہ یہ خدمت کوئی خاں صاحب یا کوئی سیّد صاحب انجام دیں۔ اس کا نہایت پاکیزہ نام مسلم ماس کانٹیکٹ رکھا گیا ہے۔
اگر یہ چیز کامیاب ہو جائے‘ اور مسلمانوں کے حلقہ ہائے انتخاب اس حد تک کانگریس پارٹی کے زیرِ اثر آجائیں کہ وہ اپنے مطلب کے جس مسلمان کو چاہے ان سے منتخب کرا سکے، اور جو مسلمان اس کے مقابلہ پر کھڑا ہو وہ ناکام ہو جائے، تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اگر کبھی کسی موقعہ پر مسلمانوںکے مفاد کی شدید پامالی دیکھ کر کانگریس پارٹی کے کسی مسلمان رکن کو غیرت بھی آگئی اور وہ رکنیت سے مستعفی بھی ہو گیا‘ تو کانگریس پارٹی خود اس کے حلقہ انتخاب میں اس کو شکست دے گی‘ اور اس سے کم تر غیرت رکھنے والے کسی مسلمان کومسلمان ووٹروں سے منتخب کرا لائے گی تاکہ وہ اس سے زیادہ بے پروائی کے ساتھ اپنی قوم کے مفاد کو پامال کرائے۔ ماس کانٹیکٹ اس انتہائی نتیجہ تک پہنچ کر رہے گا، اگر اس کی تائید میں ہمارے علمائے کرام چند سال اسی سرگرمی کے ساتھ کوشش کرتے رہے۔ پھر جب تیر ہاتھ سے نکل چکے گا، تو اس کو واپس لانے کے لیے بخاری شریف کا ختم پڑھایا جائے گا۔
۸- مسلمانوں کی حالت
اس کے بعد مسلم اکثریت کے صوبوں کا سوال باقی رہ جاتا ہے، سو اس کے لیے اجتماعی ماہی گیر (mass contact) اور انفرادی صیدافگنی (Individual contact) دونوں سے آج کل کام لیا جا رہا ہے۔
مسلمان دس پندرہ برس سے جس خواب غفلت میں مبتلا تھے اس کے بدترین نتائج آج ہم دیکھ رہے ہیں۔جدید آئین کے نافذ ہونے پر جب اسمبلیوں کے لیے انتخابات ہوئے تو یہاں کوئی ایسی منظم پارٹی نہ تھی‘ جو قوم کے مفاد کو سامنے رکھ کر کام کرتی اور مسلمان رائے دہندوں کو صحیح سیاسی تعلیم دے کر ایسے نمائندے منتخب کراتی جو بے غرض، مخلص اور ایک مرکزی نظام کے مطیع ہوتے۔ جگہ جگہ مختلف جماعتوں نے محض شخصی اغراض اور طائفہ بندی کی بنیاد پر الیکشن لڑے۔ جس شخص کو کسی قسم کا اثر حاصل تھا وہ ایک پارٹی بنا کر کھڑا ہو گیا‘ اور دوسری پارٹی کے مقابلہ میں نبرد آزما ہوا۔ قومی پروگرام اور قومی پالیسی نہ اِس کے پاس نہ اُس کے پاس، ہر ایک کے سامنے وزارتیں، مناصب اور عزت و جاہ۔ اس طرح یہ لوگ اسمبلیوں میں پہنچے اور ان کی بدولت مسلمانوں کی اکثریت ایک بندھے ہوئے جتھے کا زور رکھنے کے بجائے بہت سی ٹکڑیوں میں بٹ کر بے زور ہو گئی۔ ان چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ ایک اچھی خاصی تعداد میں انڈی پنڈنٹ ارکان بھی منتخب ہو کر پہنچے۔ انڈی پنڈنٹ کے معنی عام فہم زبان میں مرغِ باد نما کے ہیں‘ جو کوئی قومی مقصد یا قومی پروگرام لے کر نہیں جاتا بلکہ اس لیے جاتا ہے‘ کہ شخصی حیثیت سے قسمت آزمائی کرے اور جدھر کامیابی کا موقع دیکھے ادھر چلا جائے۔ عام مسلمان ووٹر ایسے جاہل کندہ ناتراش تھے‘ کہ انہوں نے نہ ان مرغان بادنما سے پوچھا اور نہ ان جتھے بند لیڈروں سے کہ آپ حضرات کے پاس پروگرام کیا ہے؟ آپ کس لیے اسمبلی میں جانا چاہتے ہیں؟ آپ کس کیرکٹر کے لوگ ہیں؟ آپ نے پہلے ہماری قوم کے لیے کیا کیا اور اب کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ یہاں کسی کے ذہن میں یہ تھا ہی نہیں کہ اسمبلی کیا بلا ہوتی ہے، جدید دستور کیا ہے،ا ور ان اسمبلیوںمیں جو کچھ ہو گا اس کے کیا اثرات ہماری زندگی پر پڑیں گے۔ یہاں تو دیکھنے و الوں نے بس یہ دیکھا کہ اسمبلی کی کرسی عزت کی کرسی ہے‘ تو کیوں نہ ہمارے قبیلہ کا آدمی اس کرسی پر پہنچے؟ چاہے وہ خِرنا مشخص ہی کیوں نہ ہو۔ غرض اس قومی حماقت کا، جو نہایت وسیع پیمانہ پر ملک کے کئی صوبوں میں کی گئی، یہ انجام ہوا کہ مسلم اکثریت کے صوبوں میںکوئی منظم جماعت ایسی پیدا ہی نہ ہو سکی جو ہندو اکثریت کے صوبوں کی طرح مضبوط ہاتھوں سے حکومت کے اقتدار پر قبضہ کرتی اور ایک بنیان مرصوص بن کر جم جاتی۔
ادھر کانگریس جب ہندو اکثریت کے صوبوں میں ٹھوس بنیاد پر وزارتیں قائم کر چکی تو اس نے مسلم اکثریت والے صوبوں کی طرف دیکھا اور ان کی کمزوری کوبھانپ لیا۔ ان کے لیے اس نے جو پروگرام مرتب کیا وہ یہ تھا‘ کہ ان صوبوںمیں جو پارٹیاں بر سر پیکار ہیں ان کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا جائے، ان کے افراد کی نفسانی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا جائے، ان میں جو ضعیف ترین کیرکٹر کے لوگ ہوں انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر اور چھانٹ چھانٹ کر آلۂ کار بنایا جائے، اور اسی طرح مسلمانوں کی جمعیت میں سے جتنے آدمی توڑے جا سکیں انہیںکانگریسی اقلیت کے چھوٹے مگر منظم بلاک کے ساتھ ملا کر ایسی وزارتیں قائم کرا دی جائیں جو کانگریس ہائی کمانڈ کی تابع فرمان ہوں، یا اگر اس میں کامیابی نہ ہو سکے تو کم از کم وہاں وزارت کو اس قدر کمزور اور اس قدر بے اثر بنا دیا جائے‘ کہ وہ ادھ موئی ہو کر رہ جائے۔ ماتم کا مقام ہے‘ کہ کانگریس کی طرف سے اس جلیل القدر خدمت کا بیڑا ہماری ہی قوم کے ایک شخص نے اٹھایا، اور اس سے بھی بڑھ کر ماتم کا مقام یہ ہے‘ کہ یہ شخص وہ تھا جس سے ہم شیخ احمد مجدد سر ہندی‘ اور شاہ اسماعیل شہید کی جانشینی کے متوقع تھے۔جو کبھی اسلامی نظامِ جماعت کا سب سے بڑا دعی تھا، جس نے برسوں مسلمانوں کو وحدت و مرکزیت کی دعوت دی، جس کی زبان سے ہم کبھی ایاکم والتفرقہ فان الشاذ من النّاس للشیطان کما ان الشاذ من الغنم للذئب{ FR 3003 } پر درس موعظت سنایا کرتے تھے، جو کسی زمانہ میں ہم کو تلقین کیا کرتا تھا‘ کہ ’’جماعتی زندگی کی معصیت کا تخم (یعنی نظامِ جماعت کا نہ ہونا) ایسا تخم ہلاکت ہے‘ جو فورا بربادی کا پھل لاتا ہے‘ اور پوری قوم کی قوم تباہ ہو جاتی ہے‘‘۔ مسلمانوں کی بد قسمتی کہ بالآخر وہ اُمت کے پراگندہ سروں سے چوسر کھیلنے نکلا اور اس نے تمام ہندوستان کو اپنی قوم کا یہ تماشا دکھایا کہ اس قوم کے چیدہ اور سربرآوردہ لوگ بھی کتنے ذلیل، کتنے بودے کیریکٹر کے لوگ ہیں، کس آسانی کے ساتھ ان کو آپس میں لڑایا جا سکتا ہے، اور کس بے شرمی کے ساتھ یہ لیلائے وزارت کے پیچھے اس پارٹی سے اس پارٹی میں اور اس سے اس میں منتقل ہو جاتے ہیں۔
خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا جو شدّت الم سے بے اختیارانہ قلم سے نکل گیا۔ میں بتانا یہ چاہتا تھا‘ کہ اس وقت مسلم اکثریت کے صوبوںمیں کانگریس کی پالیسی کا منتہائے مقصود یہ ہے‘ کہ جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں بھی ان کو خود مختارانہ حکومت نہ کرنے دی جائے بلکہ ان کے مناقشات سے فائدہ اُٹھا کر یا ماس کانٹیکٹ کے ذریعہ سے ان کے بڑے حصہ کو شدھ کرکے وہاں ایسی وزارتیں قائم کرائی جائیں جو کانگریس ہائی کمانڈ کی تابع فرمان ہوں۔ اگر اس مقصد میں کانگریس کامیاب ہو گئی (اور کیوں نہ ہو گی جب کہ آج ہماری قوم اٹھارہویں صدی سے بھی زیادہ فیاضی کے ساتھ اپنے فاتح خود مہیا کر رہی ہے) تو یوں سمجھئے کہ یہ فیڈریشن سے بھی پہلے ایک ایسے فیڈریشن کا قیام ہو گا‘ جس میں مرکزی اقتدار تمام تر ہندو اکثریت کے ہاتھ میں رہے گا۔ اور یہ مرکز برطانوی حکومت کے تجویز کردہ وفاقی مرکز سے بدرجہا زیادہ سخت و ہمہ گیر ہو گا۔ اس میں بات بات پر وزراء کے کان کھینچے جائیں گے، ذرا ذرا سے قصور پر ان کو پکڑ بلایا جائے گا، ان پر تحقیقاتی کمیشن بٹھا دئیے جائیں گے، اور اگر انہوں نے کچھ مقابلہ کی ہمت کی تو لات مار کر ان کو ایوانِ وزارت سے باہر کر دیا جائے گا۔ جب وزارتیں مرکزی اقتدار کے ہاتھ میںاس درجہ بے بس ہوں‘ اور پھر اقتدار ہندو اکثریت کے ہاتھ میں ہو، تو اس کے معنی یہ ہیں‘ کہ مسلم اکثریت کے صوبوں میں پراونشل اٹانومی حرفِ غلط کی طرح مٹ گئی اور ہندو اس جگہ بھی مسلمانوںپر حکمران ہو گئے جہاں وہ اقلیت میں ہیں۔
صوبہ سرحد کی مثال اس نتیجہ کی توضیح کے لیے بالکل کافی ہے۔ ہم دیکھتے رہے ہیں‘ کہ جہاں ۹۵ فی صدی مسلم اکثریت ہے وہاں بھی حکومت کی پالیسی اور وزارت کی گردن کانگریس ہائی کمانڈ کے ہاتھ میں ہے۔واردھا اسکیم اور ودیا مندر اسکیم کو سمجھنے اور صوبہ سرحد میں نافذ کرنے کے لیے پشاور سے ماہرین تعلیم دہلی اور واردھا بھیجے جاتے ہیں۔{ FR 3004 } سرحد کا وزیر اعظم ہندوؤں کو خوش کرنے کے لیے وعدہ کرتا ہے‘ کہ انجمن حمایت ِاسلام کی ریڈریں مسلمان بچوں کو بھی نہ پڑھائی جائیں گی، اور ایک ہندو کے معاوضہ میں قبائل کے دس مسلمانوں کو پکڑا جائے گا۔ اس نیاز مندی پر بھی یہ حالت ہے‘ کہ وزیر اعظم صاحب اگر ایک مسلمان ملزم کو الزام سے بری پا کر ملازمت پر بحال کر دیتے ہیں‘ تو ہندو مہاسبھا ان کے خلاف شورِمحشر برپا کر دیتی ہے‘ اور کانگریس ہائی کمانڈ اس کی باز پرس کے لیے وزیر صاحب کو بمبئی کھینچ بلاتی ہے۔ اس کے بعد جو بھی شخص نہ دیکھ سکے کہ سڑک سیدھی ہندو راج کو جا رہی ہے، اس کے حق میں بس یہی دعا کرنی چاہیے‘ کہ خدا اسے آنکھیں دے۔
یہ تمام تفصیلات جو نمبر ۶،۷، اور ۸ میں بیان کی گی ہیں ان پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے‘ کہ جدید دستوری اصلاحات سے فائدہ اٹھانے کا جو طریقہ کانگریس نے اختیار کیا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہی ہو سکتا ہے‘ کہ اس دستور کی بدولت جس قدر سیاسی طاقت برطانوی قیصریت سے ہندستان کی طرف منتقل ہو وہ کلی طور پر ہندوؤں کے ہاتھ میں آجائے۔ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں تو وہ براہِ راست ہندو اکثریت کے محکوم ہوں گے، اور جہاں ان کی اکثریت ہے وہاں ان کی حکومت کو کانگریس ہائی کمانڈ کا مطیع بنا لیا جائے گا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ماس کانٹیکٹ کے ذریعہ سے یہ کوشش برابر جاری رکھی جائے گی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا علیحدہ سیاسی وجود ختم ہو جائے، نہ ان کی اپنی کوئی علیحدہ سیاسی پالیسی رہے‘ اور نہ مستقل سیاسی قیادت، بلکہ وہ اس بڑے سیاسی مجموعہ (body bolitcs) میں گم ہو کر رہ جائیں جس میں اصولِ جمہوریت کی بنا پر ہندو عنصر کی حیثیت بہرحال غالب اور فیصلہ کن رہے گی۔ اس مجموعہ میں گم ہو جانے کے بعد جو مجموعہ کے لیڈر ہوں گے وہی مسلمانوں کے بھی لیڈر ہوں گے، اور ظاہر ہے‘ کہ اکثریت کی طاقت ہندوؤں ہی کو لیڈر بنائے گی۔ اسی طرح مسلمانوں کی سیاسی پالیسی بھی وہی ہو گی‘ جو مجموعہ کی ہو گی، اور کھلی ہوئی بات ہے‘ کہ جہاں سر شماری پر ہر بات کا فیصلہ ہو وہاں ہر پالیسی کا ہندو پالیسی ہونا لازم ہے۔
ہندستان کے آئندہ سیاسی ارتقاء کو ہندو لیڈر جس راستہ پر لے جانا اور جس منزل تک پہنچانا چاہتے ہیں اس کا پہلا اور ضروری مرحلہ یہی ہے۔ اگر اس مرحلہ پر وہ سیاسی ارتقا کا رخ اپنی منزل کی طرف پھیرنے میں کامیاب ہو جائیں تو پھر لازماً آئندہ جو قدم بھی اٹھے گا اسی منزل کی طرف اٹھے گا، کیونکہ اس مرحلہ پر ان کی کامیابی کے معنی یہ ہیں‘ کہ گھوڑے کی باگیں پوری طرح ان کے ہاتھ میں آجائیں۔ اسی لیے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء کو نا منظور کرنے کا بار بار اعلان کرنے پر انہوں نے اسے منظور کر لیا۔
اب ہمارے بہت سے سادہ لوح بھائی بار بار پلٹ کر ہم سے پوچھتے ہیں‘ کہ بتاؤ اس ڈیڑھ سال کی حکومت میں کانگریسی وزارتوں نے کہاں اور کیا مسلمانوں پر ظلم کیا؟ ایک صاحب نے تو اخبارات میں چیلنج بھی چھپوایا تھا۔ ہمارا جواب یہ ہے‘ کہ بالفرض انہوں نے کوئی ظلم نہیں کیا۔ مان لیجئے کہ بڑی ہی اچھی حکومت کی۔ مگر یہ کون سی عقل مندی ہے‘ کہ اپنی باگیں بالکل دوسروں کے ہاتھوں میں دے دی جائیں؟ سوال ان اشخاص کا نہیں ہے‘ جو آج بر سر اقتدار ہیں، بلکہ سوال ادارہ کی نوعیت کا ہے۔ جس ادارہ کی نوعیت یہ ہو‘ کہ ایک قوم دوسری قوم پر حکمران بن جائے‘ اور ایک قوم دوسری قوم کے قبضہ تصرف و اختیار میں چلی جائے، ظلم ایسے ادارہ کی عین فطرت میں داخل ہوتا ہے۔ آج بالقوہ ہے توکل بالفعل ہو گا‘ اور بالفعل ہوئے بغیر نہ رہے گا۔
۹- واردھا اسکیم
مختلف قوموں اور تہذیبوں کے ملک میں اگر سیاسی اقتدار کسی ایک قوم کے ہاتھ میں مرتکز ہو جائے‘ اور پھر وہ تمام ملک کے لیے ایک قومیّت اور ایک تہذیب و تمدّن کی تشکیل کرنا چاہے ‘تو یہ فطری اور لازمی بات ہے‘ کہ اس قومیّت اور اس تہذیب و تمدّن کی شکل اسی بر سر اقتدار قوم کے منشا کے مطابق ہو گی۔ دوسری قوموں کی تہذیب اور قومیّت کا رنگ اس میں پھیکا ہو گا‘ اور پھیکا ہوتا چلا جائے گا۔ یہاں تک کہ بالکل تحلیل ہو جائے گا۔ نا مساوی آمیزش میں انصاف ممکن ہی نہیں، خواہ کتنی ہی نیک نیتی کے ساتھ انصاف کی کوشش کی جائے۔ کانگریس نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد مستقبل کے ہندستان کی تشکیل جس ڈھنگ پر شروع کی ہے،ا س کو آنکھیں کھول کر دیکھیئے۔ آپ کو خود نظر آجائے گا کہ اس نقشہ میں مسلمانوں کی قومیّت اور تہذیب کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
سب سے پہلے واردھا اسکیم کو لیجئے۔{ FR 3005 }یہ اسکیم مہاتما گاندھی کی رہنمائی میں بنائی گئی ہے{ FR 3006 }اس کی خصوصیت یہ ہے‘ کہ اسکیم کے مطابق عام باشندگانِ ہند کے بچوں کو سات برس سے چودہ برس کی عمر تک لازمی جبری تعلیم دی جائے گی۔{ FR 3007 } لازمی اور جبری تعلیم کا مفہوم خوب ذہن نشین کر لیجئے۔ جس علاقے میں حکومت کے زور سے یہ اسکیم نافذ ہو گی وہاں کا کوئی باشندہ نہ تو اپنی اولاد کو اس نظامِ تعلیم میں شریک ہونے سے روک سکے گا اور نہ کوئی دوسرا نظامِ تعلیم ایسا موجود ہو گا‘ جس میں وہ انہیں داخل کر سکے۔ آدمی کا کیرکٹر جس عمر میں بنتا ہے‘ یا یوں کہیئے کہ جس عمر میں آدمیت کی تشکیل ہوتی ہے۔ وہ بیشتر بلکہ تمام تر اس اسکیم کے قبضہ و تصرف میں آجاتی ہے۔ انگریزوں کا بنایا ہوا نظامِ تعلیم لازمی و جبری نہ تھا۔ اس میں جبر کا عنصر صرف اس حیثیت سے تھا‘ کہ جو اس کے دائرے سے باہر رہے گا وہ مادّی کامیابی کے مواقع سے محروم رہے گا۔ تاہم اس میں آدمی کے لیے یہ اختیار باقی تھا‘ کہ اگر اس محرومی کو قبول کر لے تو اس نظامِ تعلیمی سے آزاد رہ کر جس نظام کو پسند کرے اس میں شریک ہو جائے۔ لیکن واردھا اسکیم میں سرے سے یہ اختیار باقی نہیں رہتا۔ یہاں آدمی مجبور ہے‘ کہ اپنی آئندہ نسل کو اسی نوعیت کا آدمی بنانے کے لیے سپرد کر دے جس نوعیت کے آدمی یہ اسکیم بنانا چاہتی ہے۔
اچھا اب دیکھئے کہ یہ اسکیم کس نوعیت کے آدمی بنانا چاہتی ہے؟ وہ بنیادی تصوّرات جن پر یہ پوری اسکیم تیار کی گئی ہے حسب ذیل ہیں:
۱- ہندستان کی پوری آبادی کو ’’ایک قوم‘‘ فرض کیا گیا ہے۔ اسکیم میں جگہ جگہ ہم کو اس قسم کے فقرے ملتے ہیں:
(مہاتما گاندھی) نے اس کا بیڑہ اٹھایا ہے‘ کہ تعلیم کی ایک ایسی راہ نکالیں گے‘ جو ہندستانیوں کی طبیعت کے مناسب ہو‘ اور جس سے ساری قوم کی تعلیم کا کام کم سے کم وقت میں چلے نکلے۔ (صفحہ ۱۱۱)
اسے تعلیم کی اچھی پالیسی اور قوم کی ترقی کی ضروری تدبیر سمجھ کر قبول کر لینا چاہیے۔
(صفحہ ۱۱۴)
اورقوم کے بچوں کو اس تعلیمی اسکیم کا مقصد اور اس کی قیمت سمجھا سکے۔ (صفحہ ۲۳۸)
اسکیم کا نام ہی ’’بنیادی قومی تعلیم‘‘ کی اسکیم ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں‘ کہ اس نظامِ تعلیم کی بنیاد ہی قومیّتوں کی نفی پر رکھی گئی ہے۔ اس میں کسی کی جُدا گانہ قومیّت کا رنگ نہیں آسکتا۔ یہ بنایا ہی اس لیے گیا ہے‘ کہ ہماری آئندہ نسل کے ذہن سے اس تخیل کو نکال دے کہ ’’ہندستانی‘‘ کے سوا ان کی‘ اور قومیّت بھی ہے۔
۲- شُدھ ہندستانی بن جانے کے بعد سب سے پہلی اور سب سے اہم صفت جس سے بچہ کو متصف ہونا چاہیے وہ یہ ہے‘ کہ وہ ایک اچھا کاروباری آدمی ہو، ہر علم اس کو اس لیے سکھایا جائے او وہ اسی لیے اس کو سیکھے کہ روٹی پیدا کرنے میں اس سے مدد ملے۔ اسکیم کے واضعین کی نگاہ میں آدمیت اور کمانے کی قابلیت دونوں مترادف المعنی الفاظ ہیں۔ پوری اسکیم پر تعلیم کا مادّی نقطۂ نظر اس قدر غالب ہے‘ کہ اس کے زیرِ اثر جو نسل پرورش پائے گی وہ مادّہ پرست بن کر اٹھے گی‘ اور خوردن برائے زیستن کے بجائے زیستن برائے خوردن کی معتقد ہو گی۔ ایک طرف تعلیم دینے والی حکومت رعایا کے بچوں کی تعلیم کا انتظام اس ذہنیت کے ساتھ کرے گی کہ اس پر تعلیمی مصارف کا کم سے کم بار پڑے اور بچے کسی ایسی دست کاری کے ذریعہ سے تعلیم حاصل کریں جس کی آمدنی سے استادوں کی تنخواہیں‘ اور مدرسے کا خرچ نکل آئے۔ دوسری طرف پورا نظامِ تعلیم بچے میں یہ ذہنیت پیدا کرے گا کہ کما کھانا اس کی زندگی کا اولین بلکہ شاید ایک ہی مقصد ہے۔ تعلیم کا مرکز و محور کسی نہ کسی بنیادی دست کاری، مثلاً زراعت یا پارچہ بانی یا لکڑی یا دھات کے کام کو رکھا گیا ہے‘ اور پورے تعلیمی کورس کو اسی محور کے گرد گھمایا گیا ہے۔ اس میں دو بنیادی مقصد واضعین کے پیشِ نظر ہیں۔ ایک یہ کہ:
ہر سمجھ دار شہری کو سماج کا کام کرنے والا رکن ہونا چاہیے۔(صفحہ ۱۱۴)
یہ اسکیم اس لیے بنائی گئی ہے‘ کہ ملک میں کام کرنے والے پیدا ہوں‘ جو ہر مفید کام کو چاہے وہ میلا اٹھانے ہی کا کام ہو عزت کے قابل سمجھیں، جو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہتے ہوں۔ (صفحہ ۱۱۴)
ہمارا مقصد عالم فاضل پیدا کرنا نہیں‘ بلکہ ہوشیار سمجھ دار پڑھے لکھے دست کار پیدا کرنا ہے‘ جو صحیح خیالات اور سماج کی خدمت کا شوق رکھتے ہوں۔ (صفحہ ۱۲۸)
دوسرا مقصد یہ ہے‘ کہ :
مہاتما جی نے صاف لفظوں میں کہا ہے‘ کہ حکومت کو اس کا ذمہ لینا چاہیے‘ کہ اپنے ہونے والے شہریوں کے کام کی پیداوار کو اس بھاؤ (بازار کے بھاؤ) پر خریدلے گی … ہم اس رائے کی پوری طرح تائید کرتے ہیں۔ اس آمدنی سے جو مالی فائدہ ہو گا اسے چھوڑ کر یوں بھی ہمارا خیال ہے‘ کہ سکھانے و الوں اور سیکھنے والوں کے کام کی اچھائی کو جانچنے اور ناپنے کا کوئی پیمانہ ہونا چاہیے۔(صفحہ ۱۱۵)
یعنی تعلیم کی کامیابی کو جانچنے اور ناپنے کا پیمانہ یہ ہے‘ کہ طلبہ نے کتنا کمایا اور استادوں نے ان کو کتنا کمانے کے قابل بنایا۔ اسی مادّی نقطۂ نظر کی بنا پر ساڑھے پانچ گھنٹہ کے اوقات تعلیمی میں سے ۳ گھنٹہ ۲۰ منٹ دست کاری کے لیے وقف کیے گئے ہیں، اور باقی اوقات میں جو دوسرے علوم پڑھائے جائیں گے ان میں بھی بنیادی مقصد یہ رکھا گیا ہے‘ کہ وہ کاروباری زندگی میں مدد گار ہوں۔ اس پوری اسکیم پر نظر ڈالنے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے‘ کہ اس کے پیشِ نظر ایک صنعتی سماج (industrial society) پیدا کرنا ہے‘ جس کے افراد زیادہ تر مادّی قدروں ہی سے واقف ہوں، مادّی پیمانے ہی سے زندگی کی ہر چیز کو ناپیں، اور بلند تر اخلاقی و روحانی چیزوں کی قدر کرنے کا ذوق ہی ان میں پرورش نہ پا سکے۔ ایسے سماج کے ماحول میں ہر روحانی تہذیب خود ٹھٹھر کر رہ جائے گی۔{ FR 3009 }
۳- اس مادہ پرست سوسائٹی میں ’’شہریت‘‘ (citizenship)کا جو مطمح نظر (idea) اختیار کیا گیا ہے وہ یہ ہے‘ کہ :
یہ ہونے والی بات ہے‘ کہ نئے ہندستان کی سماجی زندگی، سیاست، معیشت اور تہذیب میںجمہوریت کا رنگ دن بہ دن بڑھتا جائے گا۔ (صفحہ ۱۱۳)
جمہوریت کے رنگ کا مفہوم شاید عام لوگ نہ سمجھ سکیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے‘ کہ ہندستان کے باشندے اپنی معاشرت اور تہذیب میں آئندہ یک رنگ ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ دراصل اسکیم کے واضعین کا نصب العین ہے‘ جس کو انہوں نے شدّتِ یقین کی بنا پر پیشین گوئی کے انداز میں بیان کیا ہے۔ اس نصب العین کو سامنے رکھ کر وہ آئندہ نسل کو ایسی تعلیم دینا چاہتے ہیں‘ جس سے :
بچے کو عام طور پر انسانوں اور خاص طور پر ہندستان کے لوگوں کی ترقی سے دل چسپی ہو جائے۔
اس کے دل میں وطن کی محبت ہو۔ وہ ہندستان کے پچھلے زمانے کی عزت کرے اور آنے والے زمانے کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے کہ یہ ایک ایسے سماج کا گھر ہو گا‘ جس کی نیومل کا کام کرنے اور محبت، سچائی اور نیاؤ پر رکھی جائے گی۔
سب کے دل میں ایک دوسرے کے مذہب کی‘ اور دنیا کے سب مذہبوں کی عزت پیدا ہو جائے … دنیا کے مذہبوں کے اصول بتا کر یہ ثابت کیا جائے‘ کہ خاص باتوں میں سب مذہب ایک ہیں۔
قومی تہواروں اور قومی ہفتے کا منانا ہر اسکول کی زندگی میں ایک خاص چیز ہونا چاہیے۔
(صفحہ ۱۱۸،۱۱۹)
ان سب بیانات کا خلاصہ یہ ہے‘ کہ اسکیم بنانے والوں کے پیشِ نظر مختلف مذاہب کے پیروئوں کو ملا کر ایک سماج، یعنی ایک ہیئت ِاجتماعی، یا ایک سوسائٹی بنانا ہے، اس لیے وہ ہر مذہب کی ایسی تعلیمات کو بچوں کے ذہن سے خارج رکھنا ضروری سمجھتے ہیں‘ جو ان میں مذہبی انفرادیت پیدا کرتی ہوں۔ تمام مذاہب کے متعلق یہ نظریہ ان کے ذہن میں بٹھانا چاہتے ہیں‘ کہ ان میں اصلاً کوئی فرق نہیں ہے۔ وطن پرستی ان میں پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ مذہبیت کی بنیاد پر الگ الگ رہنے کے بجائے وطنیت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے پیوست ہو جائیں۔ ہندستان کے پچھلے زمانے کی عزت ان کے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان سب میں قومی افتخار کے جذبات ایک ہی سر چشمے یعنی ہندستان کے زمانہ ماضی سے پیدا ہوں‘ اور بیرونِ ہند کی تاریخ سے ان کے جذبات کا تعلق منقطع ہو جائے۔
وطنی قومیّت بنانے کے لیے یہ چار عناصر ضروری ہیں، اور ہر وہ تعلیمی اسکیم جس کا بنیادی مقصد وطنی قومیّت بنانا ہو اس پر مجبور ہے‘ کہ مذاہب کے ایسے علم کو آئندہ نسل کے دل و دماغ سے دور رکھے جو ان کے فرق اور اختلافات کو نمایاںکرنے والا ہو۔ اگر وہ شرک اور توحید، خدا پرستی اور بت پرستی، پیغمبر اور اوتار، عقیدہ آخرت اور عقیدہ تناسخ کے فرق کو بچوں کے ذہن میں اتر جانے دے گی‘ تو اپنے عین مقصدکو نقصان پہنچائے گی۔ اس کے لیے تو ناگزیر ہے‘ کہ بچوں کے مذہبی علم کو صرف اس قسم کی باتوں تک محدود رکھے کہ دیکھو جھوٹ بولنا سب مذہبوں میں گناہ ہے، چوری سب میں حرام ہے، زنا کو سب منع کرتے ہیں۔ وغیرذلک۔ اسی طرح وہ اس پر بھی مجبور ہے‘ کہ جن قوموں کو افتخار کے جذبات بیرون ہند کی تاریخ سے ملتے ہیں ان کے اس سر چشمے کو بند کرے اور پراچین سمے کے ہندوستان سے ان کا تعلق جوڑے۔ اگر وہ محمد a اور عمر و علی اور خالد رضی اﷲ عنہم سے وابستگی کو یوں ہی قائم رہنے دے گی‘ تو اپنے اساسی مقصد پر خود ضرب لگائے گی۔ا س چیز کو مہاتما گاندھی نے صاف طور پر بیان کر دیا ہے۔
ہم نے وَارْدھا کی تعلیمی سکیم سے مذاہب کی تعلیم کو باہر رکھا ہے۔ اس لیے کہ آج مذاہب جس طرح پڑھائے جاتے ہیں‘ اور جس طرح ان پر عمل کیا جاتا ہے وہ وحدت پیدا کرنے کے بجائے اختلاف پیدا کرنے کا موجب ہے۔ مگر میں یہ رائے رکھتا ہوں کہ جو سچائیاں تمام مذاہب میںمشترک ہیں وہ سکھائی جا سکتی ہیں‘ اور سکھائی جانی چاہئیں۔{ FR 3010 }
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے‘ کہ مذہبی عقائد کی تعلیم دینا اس پالیسی اور اس مقصد ہی کے خلاف ہے‘ جس کے لیے یہ ساری اسکیم بنائی گئی ہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین خاں صاحب اپنے ایک بیان میں فرماتے ہیں‘ کہ ’’واردھا اسکیم میں یہ تو کہیں نہیں لکھا کہ مذہبی تعلیم نہ ہونی چاہیے۔ اس وقت جو طریقہ جاری ہے ہم نے اسی کو برقرار رکھا ہے یعنی مدرسہ کے اوقات کے ما سوا جو گروہ چاہے اپنے بچوں کی مذہبی تعلیم کا انتظام کرے‘‘۔{ FR 3011 } لیکن مہاتما گاندھی کا بیان اور خود ڈاکٹر ذاکر حسین کی اپنی اسکیم ان کے اس قول کی تکذیب کے لیے کافی ہے۔ جس قسم کی شہریت پیدا کرنے کو انہوں نے اپنی تعلیمی اسکیم کا مقصود ٹھہرایا ہے، اس کو یہ چیز بھی نقصان پہنچائے گی کہ مسلمان یا دوسرے مذاہب کے پیرو اپنے بچوں کو مذہبی عقائد کی تعلیم خارج از اوقات مدرسہ دیںَ اگر وہ متضاد باتیں نہیں کرنا چاہتے تو انہیں یوں کہنا چاہیے‘ کہ ہماری خواہش تو یہی ہے‘ کہ کوئی گروہ اپنے بچوں کو ایسے عقائد کی تعلیم نہ دے جو ہمارے نصابِ تعلیم کے برعکس انہیں یہ سکھاتے ہوں کہ سب مذاہب کے اصول ایک نہیں ہیں۔ لیکن اگر کوئی گروہ اوقات مدرسہ کے ماسوا ایسی تعلیم دینا چاہے ‘تو ہم مجبورا برداشت کریں گے‘ کیونکہ جبراً ہم اسے روک بھی نہیں سکتے۔ ڈاکٹر صاحب ایک معقول اور تعلیم یافتہ آدمی ہیں۔ وہ کم از کم اضداد میں تمیز تو کر سکتے ہیں۔ ان کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے‘ کہ ایک نظامِ تعلیمی کی پالیسی یا تو یہ ہو سکتی ہے‘ کہ بچے میں اسلامی قومیّت کا شعور پیدا کیا جائے یا یہ ہو سکتی ہے‘ کہ اس میں ہندستانی قومیّت کا (ہندوستانیت کا نہیں…بلکہ ہندستانی قومیّت کا) شعور پیدا کیا جائے۔ اگر ان کے تجویز کردہ نظام کی پالیسی پہلی ہے‘ تو وہ بتائیں کہ ان کے نصاب میں کون سی چیز ہے‘ جو کسی مسلمان بچے میں اسلامی قومیّت کا شعور پیدا کرتی ہو۔ یا پیدا کرنا تو درکنار اس کو کم از کم باقی ہی رکھتی ہو؟ اور اگر ان کی پالیسی دوسری ہے‘ تو وہ صاف صاف اس بات کا اقرار کیوں نہیں کرتے کہ ہم اسلامی قومیّت کا شعور مٹا کر ہندستانی قومیّت کا شعور پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ کیا ہے‘ کہ وہ صریحاً دوسری پالیسی اختیار بھی کرتے ہیں‘ اور پھر مسلمانوں کو یہ بھی یقین دلانا چاہتے ہیں‘ کہ ہم تمہارے بچوں میں سے اسلامی قومیّت کا شعور مٹانا نہیں چاہتے۔ اگر وہ شمال کی طرف چل کر یہ سمجھتے ہیں‘ کہ جو لوگ جنوب کی طرف جانا چاہتے ہیں ان کا مقصود بھی فوت نہ ہو گا، تو وہ ہمیں معاف فرمائیں، ہمیں ان کے ذی عقل ہونے میں بھی شبہ ہے۔ اور اگر وہ ارادہ یہی رکھتے ہیں‘ کہ جنوب کی طرف پہنچنے کی خواہش رکھنے والوں کو مقصد فوت ہو جائے، مگر انہیں یقین یہ دلانا چاہتے ہیں‘ کہ ان کا مقصد فوت نہ ہو گا، تو پھر منافقت کا شدید تر الزام ان پر عائد ہوتا ہے‘ اور بہتر ہے‘ کہ وہ اس سے بچنے کی کوشش فرمائیں۔
واردھا اسکیم کے انگریزی ایڈیشن میں جو تفصیلی نصاب درج کیا گیا ہے افسوس کہ اس کا ترجمہ اردو میں شائع نہیں کیا گیا، ورنہ اسے دیکھنے کے بعد ہر شخص اندازہ کر سکتا تھا‘ کہ اس نصاب میں مسلمان بچوں کے شعور اسلامی کو فنا کرنے کا کس قدر مکمل انتظام کیا گیا ہے۔
مادری زبان کے شعبہ میں تیسرے درجہ والوں کو بودھ، عیسیٰ ؈ اور محمدa کی اور چوتھے درجہ والوں کو بڑے بڑے آدمیوں مثلاً زرتشت، سقراط، حسینؓ، ابراہام لنکن، ٹالسٹائے، سن یات سین اور گاندھی کی کہانیاں پڑھائی جائیں گی۔
سماج کے علم میں ویدک عہد کی کہانیوں کے ساتھ موسیٰ ؈، ابراہیم ؈ اور مارکس اریلیس کے حالات اور درجہ چہارم میں قدیم ہندستان، بودھ مت چین اور عیسائیوں کے حالات بتائے جائیں گے۔
درجہ پنجم میں خاص طور پر اسلامی دور کو رکھا گیا ہے‘ اور اس کے خاص خاص مضامین یہ ہیں :
۱- محمدa، عمرؓ، حسین ؓ، عمر ؒ ابن عبدالعزیز کے حالات
۲- ہندستان سے مسلمانوں کے تعلق کی ابتداء۔ محمد بن قاسم، خواجہ معین الدین چشتی۔
۳- ہندی اسلامی تہذیب کے ارتقاء کی داستان۔
۴- ہندوؤں اور مسلمانوں کے مذہب ایک دوسرے پر کس طرح اثر انداز ہوئے۔ اس کی توضیح، امیر خسرو، کبیر، گرونانک، اکبر اور داراشکوہ کے حالات سے۔
۵- مشرک تمدّنی زندگی کا ارتقاء، غذا، لباس، تفریحات، مشترک تہوار، معاشرتی رسوم اور آداب و اطوار۔
۶- مشترک سیاسی زندگی اور ملکی نظم و نسق : شیر شاہ، اکبر اور ٹوڈرمل۔
۷- زبان و ادب میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے تعلقات اور ’’ہندوستانی‘‘ کا ارتقا بحیثیت مشترک زبان کے۔
۸- فنون لطیفہ اور موسیقی، امیر خسرو، تان سین، ہندو مسلم فنِ تعمیر اور اس کے نمونے۔
۹- حسب ذیل شخصیتوں کے حالات زندگی: البیرونی، ابن بطوطہ، فیروز شاہ تغلق، بابر، چاند بی بی، نور جہاں اور چند صوفی بزرگ مثلاً داؤد، کبیر، نانک، بابا فرید۔
۱۰- دنیا کو اسلامی تہذیب نے کیا دیا؟ علیؓ بحیثیت انسان اور عالم، بلال ؓ بحیثیت نمائندہ حبشی جمہوریت، ہارون الرشید کی علمی سر پرستی، صلاح الدین بحیثیت نمائندہ شجاعت مسلمین، عبد الرحمن الناصر اور اندلس کی اسلامی تہذیب۔ اسلامی سلطنت کی وسعت جغرافی تعلق کے ساتھ۔
اس پورے نقشہ میں دیکھئے، مسلمانوں کے پیغمبر اور مذہبی پیشوا عام مشاہیر کی صف میں بیٹھے ہیں، بلکہ کہیں کہیں ان لوگوںکو گوّیوں کے ساتھ بٹھایا گیا ہے۔ مسلمان بچے ان کو اس حیثیت سے نہ جانیں گے کہ وہ ان کے دین کے ستون ہیں، بلکہ اس حیثیت سے جانیں گے کہ دنیا کے دوسرے بڑے بڑے آدمیوں میںسے وہ بھی ہیں۔ ہندستان میں اسلامی تہذیب کی تاریخ اس طرح ان کے دماغوں میں اتاری جائے گی کہ ہندو اور مسلمانوں کے مذہب اور تہذیب کے میل جول سے جو چیز اکبر اور داراشکوہ اور کبیر اور نانک نے پیدا کی اس کی خوبی اور معقولیت ان پر نقش ہو جائے۔ اس سے ان میں کبیر پنتھی‘ اور برہمو سماجی شعور تو پیدا ہو سکتا ہے‘ مگر اسلامی شعور ہرگز پیدا نہیں ہو سکتا۔ اس تعلیم کے ساتھ اگر ہمارے علما نے لڑ بھڑ کر کچھ مذہبی تعلیم کا پیوند لگوا بھی دیا تو اس سے کیا حاصل ہو گا؟ سارا نظامِ تعلیمی جس بنیاد پر اٹھایا گیا ہے، جو مقصد اس کی اساس میں رکھ دیا گیا ہے‘ اور جس تعلیمی پالیسی پر یہ تعمیر شروع سے آخر تک ہوئی ہے اس میں دینیات کی تعلیم کا جوڑ قطعاً بے نتیجہ ہو گا۔ اسلامی ہائی اسکولوں میں دینیات کی تعلیم سے جو کچھ نتائج حاصل کیے گئے ہیں بس ویسے ہی کچھ نتائج اس وردھا اسکیم میں بھی دینیات کی قلم لگانے سے حاصل ہو جائیں گے۔
۴- واحد قومیّت، مادہ پرست سوسائٹی اور مخلوط سماج کی اس تشکیل میں اخلاقی رنگ بھی ضروری تھا، اس لیے کہ اخلاق کے بغیر نئی ہندی تہذیب نامکمل رہ جاتی ہے۔ مذاہب اور ان کی شریعتوں کو تو تعلیم سے خارج کر دیا گیا۔ اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوا کہ آخر ان شہریوں کی اخلاقی تربیت کس بنیاد پر ہو؟ واردھا اسکیم نے ا س سوال کو اس طرح حل کیا کہ ہند جدید کے ’’پیغمبر‘‘ مہاتما گاندھی کی روحانی تعلیم پر ’’ہندستانی قوم‘‘ کے اخلاق کی بنیاد رکھ دی:
ہندستان کی زندگی کا راستہ الگ ہے۔ اس نے ہر طرح کی آزادی حاصل کرنے کے لیے اہمسا کا طریقہ لیا ہے۔ ہمارے بچوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے‘ کہ اہمسا کا طریقہ ہمسا سے اچھا ہے۔ (جامعہ صفحہ ۱۱۱)
جن لوگوں نے قوموں کو آزاد کرایا ہے‘ اور امن کے ذریعہ سے صلح حاصل کی ہے ان کی کہانیاں کورس کی کتابوں میں خاص طور پر ہونی چاہئیں۔ انسانوں کی زندگی سے ایسے سبق سکھانے چاہئیںجن سے اہمسا اور اس کے ساتھ کی خوبیوں کا ہمسا اور دھوکے اور دغا سے اچھا ہونا ثابت ہو۔ (صفحہ ۱۱۹)
اس طرح تمام مذاہب کی تعلیم خارج کرکے مہا تما گاندھی کے مذہب کی تعلیم داخل کر دی گئی۔ اب جو نسل ہندستان کی درسگاہوں سے پرورش پا کر نکلے گی اس کے اخلاقی تصوّرات دین گاندھی پر مبنی ہوں گے۔ ہندستان کی زندگی کا راستہ اور مذہب کا مفہوم اس کے سوا نہیں کہ وہ زندگی کا راستہ ہی ہے، یہ ہو گاکہ وہ جہاد بالسیف کو دھوکے اور دغا کا قریبی رشتہ دار سمجھے گا اور اہمساکو عقیدۃً اس پر ترجیح دے گا۔
سات برس سے چودہ برس کی عمر تک لڑکوں اور لڑکیوں کو یہ تعلیم لازماً اور جبراً دی جائیگی۔ اس عمر میں بچے اس نظامِ تعلیمی کے سوا کسی دوسرے نظامِ تعلیم میں شامل نہ ہو سکیں گے،ا ور جو والدین خود غیر تعلیم یافتہ ہیں یا جن کے پاس مالی ذرائع مفقود ہیں وہ بطور خود بھی ان کی مذہبی تعلیم کا کوئی انتظام نہ کر سکیں گے۔ حد سے حد پانچ فیصدی آدمیوں نے اگر اپنے بچوںکی مذہبی تعلیم کا کوئی انتظام کر بھی لیا تو وہ بس موجودہ نسل تک ہے۔ دوسری نسل جو واردھا اسکیم کے مدرسوں سے تعلیم پا کر اٹھے گی اس پر مادّی نقطۂ نظر اور جدید ہندی قومیّت کے تصوّرات کا اتنا غلبہ ضرور ہو گا کہ اسے اپنی اولاد کو مذہبی تعلیم دینے کی زیادہ پروانہ ہو گی۔ لہٰذا یقین رکھنا چاہیے‘ کہ تیسری نسل تک پہنچتے پہنچتے ہندستان ’’ایک قوم‘‘ بن جائے گا۔ انگریزوں نے کامل سیاسی اقتدار حاصل کرکے میکالے کی تعلیمی اسکیم نافذ کی تھی‘ جو نہ آدھے ہندستانیوں کو پورا انگریز بنا سکی‘ نہ پورے ہندستانیوں کو آدھا انگریز۔ ہندوؤں نے ابھی سیاسی اقتدار کی پہلی سیڑھی پر ہی قدم رکھا ہے‘ اور اسی مرحلہ پروہ اسکیم ہماری جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شیخ سے بنوا لی ہے‘ جو ان شاء اللہ سارے ہندستان کو پورا ’’ہندستانی‘‘ بنا کر چھوڑے گی۔ اس کے بعد کسے شک ہو سکتا ہے‘ کہ تاریخ میں ڈاکٹر ذاکر حسین خان کا مرتبہ میکالے سے بلند تر نہیں ہے‘ اور یہ مہاتما گاندھی کی مہربانی ہے‘ کہ انہوں نے یہ شرف خود حاصل کرنے کے بجائے ڈاکٹر صاحب کی طرف منتقل کر دیا۔
۱۰- ودیا مندر تعلیمی اسکیم
سی پی میںایک دوسری تعلیمی اسکیم بنائی گئی ہے‘ جو ’’ودیا مندر اسکیم‘‘کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے مصنف صوبہ کے وزیر اعظم پنڈت شُکلا ہیںجو مالوی جی کے خالص چیلوں میں سے ہیں۔انہوں نے یہ نام الٰہ آباد کے ودیا مندر ہائی سکول سے لیا ہے۔ جو مالوی خاندان کا قائم کیا ہوا ہے۔ تخیل اور نقشہ گرو کل سسٹم سے ماخوذ ہے۔{ FR 3012 }
کانگریس پارٹی نے ۳۰؍ جولائی کو ان کی صدارت میں ایک کمیٹی بنائی تھی جس کا مقصد دیہات میں عمومی لازمی تعلیم کے لیے ایک اسکیم وضع کرنا تھا۔ ۳۱؍ اگست کو یہ کام مکمل ہوا۔ ۵ نومبر کو حکومت سی پی کے تسلیم کردہ تعلیمی ادارات کی فیڈریشن نے اور ۱۴؍نومبر کو محکمہ تعلیم کے افسروں کی مجلس نے اور ۴ دسمبر کی سی پی اسمبلی کی کانگریس پارٹی نے اسے منظور کیا۔{ FR 3013 } مگر مارچ ۱۹۳۸ء تک اس کی زیارت نہ مسلم تعلیمی ادارات کو، نہ مسلمان اخبارات کو، نہ خود سی پی کے مسلمان ممبروں کو نصیب ہوئی۔ مسلمانوں کے سامنے یکایک مارچ کے اجلاس اسمبلی میں یہ اسکیم اس وقت آئی جب حکومت کے بجٹ میں اس کے لیے دو لاکھ روپیہ سالانہ کی امداد منظور کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔ اسمبلی کے ۱۴ مسلمان ممبروں میں سے ۱۳ نے سختی کے ساتھ اس کی مخالفت کی۔ چودھویں مسلمان مسٹر شریف تھے جنہیں اس وقت وزارت کا شرف حاصل تھا۔ مگر انہوں نے بھی رکن حکومت ہونے کے باوجود رائے دینے سے احتراز کیا۔ اس کے معنی یہ ہیںکہ جو لوگ ۸لاکھ مسلمانان صوبہ متوسط کے باضابطہ نمائندے ہیں وہ اسے بالا تفاق نا منظور کر چکے ہیں‘ اور اس کے بعد سے مسلمانوں کی تمام نمائندہ جماعتوں، حتیٰ کہ صوبہ متوسط کی مسلم قوم پرست جماعت اور مسلم اخبارات نے بالاتفاق اس کی مخالفت کی ہے۔ لیکن ۱۴؍ستمبر ۱۹۳۸ء کو کانگریسی حکومت کی جانب سے جو پریس کمیونک شائع کیا گیا ہے اس میں ’’چند مسلمان افراد اوربعض مسلمان جماعتوں کی مخالفت‘‘ کہہ کر اس متحدہ قومی مخالفت کو ہلکا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، بالکل اسی انداز میں جس میں انکے انگریز استاداب سے دو سال پہلے تک خود ان کی چیخ و پکار کو ہلکا قرار دیا کرتے تھے۔
اسکیم کو منظور کرنے کے بعد جو مجلسِ نصاب بنائی گئی ہے اس میں سی پی کا ایک مسلمان بھی نہ لیا گیا بلکہ باہر سے ڈاکٹر ذاکر حسین خاں اور ڈاکٹر اشرف کی خدمات حاصل کی گئیں تاکہ نئی سرکار کے منشاء کے مطابق کام کر سکیں۔ مسلمانوں کے یہ ’’نمائندے‘‘ بھی صرف نصاب کے اصول مقرر کرنے کی حد تک مامور بکار رکھے گئے۔ اصل کام تو نصاب کے اصولوںکو عملی جامہ پہنانا یعنی کتب نصاب مقرر کرنا ہے‘ جسے ٹکسٹ بک کمیٹی کرتی ہے، اور اس کمیٹی میں برائے نام بھی کوئی مسلمان نہ رکھا گیا۔ یہ بالکل اس کمیٹی کے اختیار میں ہے‘ کہ اصولوں کو جس شکل میں چاہے ڈھال دے اوریہ اختیار بالکل ہندوؤں کا حصہ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں‘ کہ سی پی کے محکوم مسلمان اپنی آئندہ نسل کی تعلیم کے معاملہ میں کچھ نہیں بول سکتے۔ ان کے نئے حکمران جو کچھ ان کے حق میں فیصلہ کر دیں اس کے آگے انہیں سر جھکا دینا چاہیے۔ یہ ہے اس ’’سوراج‘‘ کی حقیقی تصویر جس کے لیے کانگریس جدوجہد کر رہی ہے، اور اس تصویر کو قبولیت کا شرف جناب مولانا ابوالکلام نے عطا فرمایا ہے‘ کہ ۲۵ جون ۱۹۳۸ء کو آپ بنفس نفیس ودیا مندر ٹریننگ اسکول (واردھا) میں تشریف لے گئے‘ اور ’’قومی تہذیب‘‘ کو ترقی دینے والے اس ادارہ کی مدحت سرائی فرمائی۔{ FR 3014 }
یہ اسکیم خالصۃً دیہی علاقوں کے لیے بنائی گئی ہے،{ FR 3015 } یعنی اس کا اثر سی پی کے ان لاکھوں مسلمانوں پر پڑے گا جو ۳۹۷۶۲ دیہات ہیں ۸۹ فی صدی ہندو اکثریت میں گویا آٹے میں نمک کی حیثیت سے پھیلے ہوئے ہیں۔ نئی کانگریس حکومت ان کی تعلیم کا انتظام کرنے کا ذمہ نہیں لینا چاہتی بلکہ یہ چاہتی ہے‘ کہ یہ لوگ ۹۸ فی صدی ہندو اکثریت کے ساتھ مل کر اس تعلیمی انتظام کو قبول کریں جو مجموعی طور پر کیا جائے۔ اسی غرض کے لیے یہ اسکیم بنائی گئی ہے۔ خصوصیات حسب ذیل ہیں :
۱- جو مدارس اس اسکیم کے تحت قائم کیے جائیں گے ان کا نام ’’ودیا مندر‘‘ تجویز کیا گیا ہے۔{ FR 3016 } لفظ مندر سے صاف مذہبیت کی بو آتی ہے۔ ایک عام ہندستانی ’’مندر‘‘ کے معنی ہندوؤں کی عبادت گاہ ہی کے سمجھتا ہے۔ مگر سی پی کی حکومت اور مہاتما گاندھی، دونوں کو اصرا رہے‘ کہ یہ نام قابلِ ا عتراض نہیں ہے۔{ FR 3017 } گویا اس امر کا فیصلہ کہ مسلمانوں کے نزدیک کیا چیز قابلِ اعتراض ہونی چاہیے‘ اور کیا نہ ہونی چاہیے، خود مسلمانوں کے کرنے کا نہیں‘ بلکہ ان کے حکمرانوں کے کرنے کا ہے۔اس پر مزید فریب کاری ملاحظہ ہو۔ کہا جاتا ہے‘ کہ مسلمان اپنے خرچ سے جو مدرسے قائم کریں ان کا نام ودیا مندر نہیں، بیت العلم رکھ لیں۔{ FR 3018 } مگر اسکیم کے تحت مدرسہ صرف اس جگہ قائم کیا جا سکتا ہے‘ جہاں کم از کم چالیس لڑکے پڑھنے والے ہوں‘ اور جس کے لیے کم از کم دو سو روپے سالانہ آمدنی کی جائیداد وقف کی جائے ۔{ FR 3019 } اس کے معنی یہ ہیں‘ کہ جہاں مسلمان اتنی اقلیت میں ہیں‘ کہ ان کی آبادی سے ۴۰ لڑکے فراہم نہیں ہو سکتے، یا جہاں وہ اس قدر غریب ہیںکہ مطلوبہ زمین وقف نہیں کر سکتے، وہاں ان کے بچوں کو صبح اُٹھ کر مندر جانے کی تیاری کرنی ہوگی۔ اس کا نفسیاتی اثر جو کچھ آئندہ نسل پر ہو گا اس کا اندازہ ہر شخص کر سکتا ہے۔
۲- اسکیم سردست اختیاری ہے، مگر آگے چل کر اس کو جبری بنا دیا جائے گا۔ یعنی ہر اس گاؤں یا مجموعہ دیہات کو جس سے چالیس لڑکے لڑکیاں فراہم ہوں ایک ودیا مندر لازماً قائم کرنا ہو گا۔ وہاں لوگوں کو مجبور کیا جائے گا کہ دو سو روپے ماہانہ آمدنی کی جائیداد وقف کریں‘ اور اس علاقہ کی تمام خیرات بھی ودیا مندر کی طرف منتقل ہو گی۔{ FR 3020 } اسکیم کے آخر میں ارشاد ہوا ہے :
چھوٹے بڑے مٹھوں اور دیگر مذہبی خیراتی اداروں، مندروں، مسجدوں وغیرہ کے مالکوں کو احساس ہونا چاہیے‘ کہ ہندستان کی تاریخ میں اب وہ وقت آگیا ہے‘ کہ وہ از خود پیش قدمی کریں‘ اور اس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے اپنی خدمات پیش کرنے کا فخر حاصل کریں۔ (اسکیم، صفحہ ۱۵)
اس کے معنی یہ ہیں‘ کہ یہ ایک جبری و لازمی اسکیم ہے‘ اور مسلمانوں کے مذہبی اوقاف اور مساجد کے اوقاف بھی اس میں حصہ لینے پر مجبور کیے جائیں گے۔
۳- ہر مدرسہ کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے گی جس کے ارکان کا بیشتر حصہ حق رائے دہندگی بالغان کے اصول پر مخلوط انتخاب سے منتخب ہو گا، اور مدرسہ کی جائیداد منقولہ و غیر منقولہ دیہاتی پنچایت یا ڈسٹرکٹ کونسل یا حکومت صوبہ کی مِلک تصوّر{ FR 3021 } ہو گی۔ اس کے معنی یہ ہیں‘ کہ مسلمان انتظام سے بھی بے دخل اور ملکیت سے بھی بے دخل، ان کا کام صرف اپنا مال اور اپنے بچے حوالہ کر دینا ہے۔
۴- مدرسہ میں عموماً ایک ہی مدرس ہوا کرے گا جسے پانچ سال کے لیے امتحاناً مقرر کیا جائے گا۔ پھر بیس سال کے لیے مستقل کر دیا جائے گا۔ اگر کمیٹی کی رائے میں اس کا روّیہ نا مناسب ہو تو وہ اسے نکال دے گی۔ اس کے فرائض یہ ہوں گے کہ مقررہ نصاب کے مطابق تعلیم دے اور اس گاؤں کے تمام معاملات کو ’’قومی رنگ‘‘ (national outlook) میں رنگنے کی کوشش کرے۔{ FR 3022 } قومی رنگ کا مطلب صاف ہے۔بچوں میں اور اپنے زیرِ اثر آبادی میں واحد قومیّت کی روح پھونکنا اور اور ملی امتیاز کو مٹا دینا۔ یہ کام قریب قریب کلیۃً ہندو مدرسین ہی سے لیا جائے گا۔ مسلمان کا اوّل تو انتخاب میں آنا مشکل۔ اور اگر کوئی قسمت کا مارا آگیا‘ تو کمیٹی یہ کہہ کر بآسانی اسے نکال دے گی کہ یہ قومی رنگ نہیں دیتا یا مقررہ نصاب کے خلاف بھی کچھ (یہی کلمہ و نماز وغیرہ) سکھاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ سات برس تک مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کو (اس لیے کہ تعلیم مخلوط{ FR 3024 } ہو گی) کلیۃً ایک ہندو استاد کے زیرِ اثر اور کثیر التعداد ہندو بچوں میں گھرا ہوا رہنا پڑے گا۔ جہاں ’’قومی رنگ‘ ہر طرف سے ان کو محیط ہو گا‘ اور خدا اور رسول کا نام تک ان کے کانوں میں نہ پڑے گا کجا کہ اسلامی زندگی کا کوئی نشان وہ دیکھ سکیں۔
۵- اغراض و مقاصد میں تصریح کی گئی ہے‘ کہ گاؤں کے بچوں میں ’’قومی نقطۂ نظر‘‘ پیدا کیا جائے گا۔ ’’ودیا مندر ایک اہم سوشل مرکز کا کام دے گا جہاں استاد، بچوں کے والدین، لڑکے لڑکیاں سب جمع ہو کر ان مسائل کو جن سے ان کو سابقہ پڑتا ہے بحث مباحثہ کر کے حل کرنے کی کوشش کریں گے خواہ وہ مسائل ’’قومی‘‘ ہوں یا سوشل یا تعلیمی ‘‘۔{ FR 3025 } اس کا مطلب یہ ہے‘ کہ ان ودیا مندروں کے ذریعہ سے دیہات کی منتشر و پراگندہ مسلمان آبادی کو کثیر التعداد ہندو آبادی میںجذب کرنے کی ایک منظم کوشش کی جائے گی۔ اور تربیت یافتہ مہاشے تمام دیہی علاقوں میں پھیلا دئیے جائیں گے تاکہ وہ تمام گاؤں کی پوری زندگی کو اپنے گرد مرتکز کر لیں‘ اور نہ صرف تعلیم کے ذریعے سے بلکہ سوشل اور سیاسی سرگرمیوں کے ذریعہ سے بھی سب کو ایک اجتماعی وحدت بنا دیں۔ اس طرح رفتہ رفتہ دیہات کی مسلمان آبادی خود بخود ناپید ہو جائے گی اور چند سال بعد جو مسلمان آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھیں گے‘ تو انہیںمعلوم ہو گا کہ وہ صرف شہروں میں رہ گئے ہیں۔ اصلی ہندستان یعنی دیہی ہندستان میں ان کا کہیں پتہ نہیں۔
۶- ذریعہ تعلیم مادری زبان ہو گی‘ اور مادری زبان کی تفسیر حکومت کے کمیونک میں یہ کی گئی ہے‘ کہ اس سے مراد علاقہ کی زبان { FR 3026 }ہے۔ یعنی وہ زبان نہیں جو بچہ کی ماں بولتی ہے‘ بلکہ وہ زبان جو علاقہ کی ماں بولتی ہے۔ اب صوبہ متوسط میں تلاش کیجئے‘ کہ کون سا علاقہ ہے‘ جس کی ماں اردو بولتی ہو۔ وہاں کے آٹھ لاکھ مسلمانوں کی مائیں تو سب کی سب خالص اردو بولنے والی ہیں، مگر بحیثیت مجموعی علاقے دو ہی قسم کے ہیں، یا مرہٹی بولنے اور لکھنے یا ہندی (ناگری رسم الخط کے ساتھ) لکھنے اور بولنے والے۔ لہٰذا مادری زبان کی تفسیر علاقہ کی زبان سے کرنے کا مطلب یہ ہو اکہ اردو خود بخود خارج از بحث ہو گئی۔ مسلمان اگر چاہیں تو اردو مدرسہ قائم کر سکتے ہیں۔ مگر صرف اس جگہ جہاں وہ چالیس بچے اردو پڑھنے والے فراہم کریںاور دو سو روپے سالانہ کی جائیداد دے سکیں۔ جہاں اقلیت یا غُربت کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکیں (اور شاید سی پی میں بہت ہی کم مقامات پر وہ ایسا کر سکیں) وہاں ان کے بچوں کو مرہٹی یا ہندی میں ہی سب کچھ پڑھنا ہو گا۔ اس کے بعد ’’متحدہ قومیّت‘‘ آپ سے آپ پیدا ہو گی۔
۷- حکومت کی پوری طاقت اس اسکیم کو کامیاب بنانے میں صرف ہو گی۔ ابتداً ہر تعلقہ اور تحصیل میں حکومت اپنے خرچ سے چند ودیا مندر قائم کرے گی۔ مدرسوں کی تنخواہیں حکومت کے خزانہ سے ملیں گی۔ ودیا مندر تعمیر کرنے کے لیے ضروری سامان بھی حکومت دے گی۔{ FR 3027 } تمام سرکاری محکمے ودیا مندر کی پشت پر مدد کے لیے حاضر رہیں گے۔ محکمہ زراعت، محکمہ طبابت و حفظانِ صحت، محکمہ امداد باہمی، محکمہ علاج حیوانات، محکمہ تعلیم، غرض سب اپنے دائرہ میں ودیا مندروںکو مادی، علمی و فنی اور اخلاقی و نفسیاتی امداد دیں گے۔ یہ معنی ہیں قومی جمہوری حکومت کے‘ ۸۰ لاکھ مسلمان اس جمہوریت کا ایک جزو ہیں‘ تو ہوا کریں۔ دولتِ مشترکہ کی پیدائش میں ان کا حصہ ہے‘ تو ہوا کرے۔مگر ہیں‘ تو وہ اقلیت میں۔ لہٰذا جس دولت اور طاقت کے فراہم کرنے میں ان کا حصہ ہے اس کا مصرف متعین کرنے میں ان کا حصہ نہیں ہے۔ اس کو اکثریت اپنے منشا کے مطابق استعمال کرے گی۔ اور ایسے کاموں میں استعمال کرے گی‘ جو ان بے زور حصہ داروں کی ہستی ہی کو ختم کردیں۔
۸- سی پی میںابتدائی تعلیم لوکل بورڈوںاور میونسپل کمیٹیوں کے حدود عمل سے تعلق رکھتی ہے، اور چونکہ ہر جگہ اکثریت ہندوؤں کی ہے اس لیے یہ جماعتیں اردو مدرسوںکو بند کر رسکتی ہیں‘ اور ان کی جگہ ودیا مندر قائم کرنے پر تُلی ہوئی ہیں۔ مسلمان اپنی اقلیت کے باعث کسی طرح اس ظلم کو روک نہیں سکتے۔ آگے چل کر آپ دیکھیں گے کہ ان مجلسوں کی پوری طاقت ودیا مندر قائم کرنے میں صرف ہو گی۔ جو ٹیکس مسلمانوں سے لیا جائے گا وہ ان کی مرضی اور ان کے مفاد کے خلاف صرف کیا جائے گا۔ اور مسلمانوں کے احتجاج کو استحقار کے ساتھ ٹھکرا دیا جائے گا۔ حال میں ضلع امرائوتی کی دروڈ میونسپل کمیٹی نے اردو اسکول کو اردو ودیا مندر بنا دیا، مسلمانوںنے احتجاج کیا مگر پرکاہ کے برابر بھی اس کی پرواہ نہ کی گئی{ FR 3028 } سچ فرمایا پنڈت نہرو نے، جمہوریت کے معنی یہی ہیں‘ کہ اکثریت اقلیت کو دبا کر رکھے۔
۹- وردھا میں ودیا مندروں کے لیے اساتذہ تیار کرنے کا انتظام کیا گیا ہے‘ اور ایک ٹریننگ اسکول قائم کر دیا گیا ہے۔ اس میں ۱۶۲ہندو اور ۸ مسلمان تعلیم و تربیت حاصل کر رہے ہیں‘ اور حکومت صوبہ متوسط نے اپنے احسانات کی جو فہرست گنائی ہے اس میں ہمیں یہ بھی بتایا ہے‘ کہ تمام ہندوؤں اور مسلمانوں کو اردو کی تعلیم دی جاتی ہے تاکہ وہ ودیا مندروں میں جا کر بچوں کو اردو اور ہندی دونوں سکھا سکیں۔{ FR 3029 }مگر اصلی حالات کیا ہیں؟ اس صوبہ کے قوم پرست مسلمانوںتک نے اپنی کانفرنس میں شکایت کی ہے‘ کہ سارا زور صرف ہندی تعلیم پر صرف کیا جاتا ہے‘ اور اردو کی محض شد بد پیداکرکے چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ یہ ودیا مندروں میں اردو تعلیم کے انچارج ہوں۔ جن بے چاروں کا املاء اور تلفظ تک درست نہیں، جو اردو کی معمولی عبارت تک صحیح نہیں پڑھ سکتے وہ ہمارے بچوں کو اس زبان کی تعلیم دینے جائیں گے۔{ FR 3030 }
۱۰- سی پی اسمبلی کے ممبر مولوی عبد الرحمان خاں صاحب جب اس ٹریننگ اسکول کا معائنہ کرنے گئے‘ تو انہوں نے دیکھا کہ ہندو مسلمان سب کے سب دھوتیاں باندھے ہوئے تھے۔ یہ تمیز کرنا مشکل تھا‘ کہ ان میں مسلمان کون ہے، تمام مضامین ہندی‘ اور مرہٹی پر پڑھائے جاتے ہیں۔ محض اردو رسم الخط سکھانے کے لیے ایک مسلمان استاد نوکر رکھا گیا ہے۔ مسلمان طلبہ اچھوتوں کی طرح رہتے ہیں۔ الگ کھاتے ہیں۔ پانی پینے کے برتنوں تک کو ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ روزانہ بندے ماترم سے مدرسہ شروع ہوتا ہے‘ اور مسلمان طلبہ کو مجبور کیا جاتا ہے (یا اگر مجبور نہیں تو تربیت سے ایسا بنایا جاتا ہے) کہ پرارتھنا کے انداز میں ہاتھ جوڑ کر اور سر جھکا کر کھڑے ہوں{ FR 3031 } یہ ہے وہ مدرسہ جس میں ’’قومی تہذیب‘‘ کے نشوونما پر جناب مولانا ابوالکلام آزاد مدظلہٗ نے اظہار مسرت فرمایا ہے‘ اور جس کا افتتاح مہاتما گاندھی کی ’’برکتوں‘‘ کے ساتھ ہوا ہے۔{ FR 3032 }
بلجیم میں جہاں تک ابتدائی تعلیم کا تعلق ہے سرکاری ا ور غیر سرکاری دونوں قسم کے مدارس میں مذہبی تعلیم لازمی ہے‘ اور تسلیم شدہ مذہب کے کلیساؤں کو حق دیا گیا ہے‘ کہ مذہبی تعلیم کی نگرانی کے لیے اپنے انسپکٹر مقرر کریں۔ ناروے میں ابتدائی تعلیم تمام تر مذہبی تنظیمات کے ہاتھ میں دی گئی ہے۔ اٹلی میں مذہبی تعلیم لازمی ہے‘ اور کوئی بچہ اس سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے والدین استثنا کا مطالبہ نہ کریں۔ ہالینڈ میں مذہبی تنظیمات اپنے اپنے پیروؤں کی تعلیم کا انتظام خود کرتی ہیں‘ اور حکومت اس کا خرچ ادا کرتی ہے۔ سوئٹزر لینڈ میں سرکاری طور پر صرف اس مذہب کی تعلیم کا انتظام کیا جا تا ہے‘ جس کے پیرووں کی تعداد مدرسہ میں زیادہ ہو۔، لیکن جن اقلیتوں کی کافی تعداد موجود ہو ان کے لیے علیحدہ انتظام بھی کیا جاتا ہے۔
(ملاحظہ ہو انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا چودھواں اڈیشن، مضمون ایجوکیشن)
اس کے بعد یہ کہنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ پبلک مدارس میں مذہبی تعلیم کا انتظام ممکن نہیں ہے۔ صاف کیوں نہیں کہا جاتا کہ قومیّتوں کو فنا کرنے اور قوموں کے احساسِ خودی کو مٹانے کے لیے ہم اس چیز کو قصداً نہیں رکھنا چاہتے۔
۱۱- زبان کا مسئلہ
ان تفصیلات سے اچھی طرح اندازہ کیا جا سکتا ہے‘ کہ ’’جنگِ آزادی‘‘ کے نام سے برطانوی حکومت کے زیر سایہ بتدریج سیاسی طاقت حاصل کرنے کی جو پالیسی اختیار کی گئی ہے وہ کس طرح مسلمانوں کی قومیّت اور ان کی طاقت کو فنا کرنے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے‘ اور کس طرح ہمارے ہمسایہ رفیق قومی امپریلزم کے وہ تمام ہتھ کنڈے اختیار کرتے جا رہے ہیںجن کو انہوں نے اپنے انگریز استادوں سے سیکھا ہے۔ لیکن یہ بیان نامکمل رہ جائے گا اگر اسی سلسلہ میں ان کاروائیوںکا بھی ذکرنہ کر دیا جائے‘ جو زبان کے باب میں کی جا رہی ہیں۔
ایک قوم کی زبان اور اس کا رسم الخط، اس کی تہذیب اور اس کی قومیّت کے بقا وفنا میں فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے۔ کسی قوم کو اگر آپ دوسری قوم میں تبدیل کردینا چاہیں تو اس کی زبان ا ور رسم الخط کو بدل دیجئے۔ رفتہ رفتہ وہ خود بخود دوسرے سانچے میں ڈھلتی چلی جائے گی۔ ا س کی آنے والی نسلوں کا تعلق اپنے اسلاف سے منقطع ہو جائے گا‘ اور وہ بالکل نئی ذہنیت، نئے افکار اور نئی صورت قومی لے کر اٹھیں گی، جن جن لوگوں نے قومیّتوں کے بنانے اور بگاڑنے کا کھیل کھیلا ہے ان سب نے یہ ہتھیار ضرور استعمال کیا ہے۔زار روس کی حکومت نے اپنے امپیریل ازم کی بنیادیں مستحکم کرنے کے لیے روسی زبان اور رسم الخط کو تمام غیر روسی قوموں پر مسلط کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ یہ سب قومیں روسی بن جائیں‘ اور اس کی مملکت میں کوئی قوم ایسی نہ رہ جائے‘ جو اپنی زبان بولنے والی اور اپنے مذہب کا اتبّاع کرنے والی اور اپنے رسوم پر چلنے والی ہو۔ اصطلاح میں اس کو (russification) یعنی ’’روسی بنانے‘‘ کی پالیسی کہا جاتا ہے۔ بعد میں اسی پالیسی کی پیروی اشتراکی جماعت نے بھی کی۔ لینن نے انقلاب کے بعد ہی مشرقی قوموں کو نئے سانچے میں ڈھالنے کے لیے ان کے رسم الخط کو لاطینی رسم الخط سے بدل دیا اور اب تازہ اطلاع ہے‘ کہ روس کی ۲۹ قوموں کا رسم الخط لاطینی کے بجائے روسی کر دیا گیا ہے تاکہ اس علیحدگی کے احساس کو بالکل مٹا دیا جائے‘ جو ان کے روسی بن جانے میں مزاحم ہوتا ہے۔ ازبک، ترکمان، تاجیک، کرغیز اور داغستانی مسلمان، جن کو عربی رسم الخط نے اسلامی روایات سے وابستہ کر رکھا تھا، اس ضرب کے اثرات کو ابھی سے محسوس کر رہے ہیں۔ ابھی ایک چوتھائی صدی بھی اس انقلاب پر نہیں گزری ہے اوور وہ دیکھتے ہیںکہ ان کی قومیّت تحلیل ہو کر اشتراکی سوسائٹی میںتبدیل ہوتی چلی جا رہی ہے۔ یہی پالیسی فرانس نے شمالی افریقہ میں اختیار کی ہے۔ وہاں عربوں اور بربریوں کو فرانسیسی قومیّت میں ڈھالنے کے لیے ساری طاقت اس پر صرف کی جا رہی ہے‘ کہ عربی زبان اور رسم الخط کو مٹا دیا جائے۔ اسی پالیسی کا تختہ مشق ہندستان میں ہم کو بنایا جا رہا ہے۔
پنڈت جواہر لال کے بقول ہندستان میں ’’نیشنلسٹ‘‘ جماعت کی خواہش اور کوشش یہ ہے‘ کہ یہاں ’’ایک متحد قوم{ FR 3033 } پیدا ہو‘‘۔ اس غرض کے لیے زبان کی وحدت ناگزیر ہے۔ زبانیں الگ ہوں گی‘ تو الگ قومیں بھی رہیں گی۔ الگ قوموں کو فنا کرکے ایک قوم میں تبدیل کرنا ہو تو الگ زبانوں کو مٹا کر دولت، تنظیم اور حکومت کی طاقت سے ایک زبان تمام ملک میں پھیلانی ہی پڑے گی۔ یہاں تک تو بات کُھلم کُھلا ہے۔ اس کے بعد کام تقسیم ہو جاتا ہے۔ کچھ باتیں دکھانے کے لیے ہیں‘ اور کچھ کرنے کے لیے، دکھانے کے لیے تو یہ ہے‘ کہ ’’قومی‘‘ زبان ’’ہندستانی‘‘ ہے‘ جس کا اطلاق اردو ہندی دونوں پر ہوتا ہے۔ فارسی اور دیو ناگری دونوں رسم الخط مسلّم ہیں‘ اور دونوں کونشوونما کا پورا موقع ملنا چاہیے لیکن فی الواقع کیا‘ کیا جا رہا ہے؟ اس کے لیے ذیل کی تفصیلات ملاحظہ ہوں۔
۱- فارسی اور عربی کے وہ عام فہم الفاظ بھی جو ’’ہندستانی‘‘ کے مشترک سرمایہ میں مدتوں سے داخل ہو چکے ہیں، جن کو ہر ہندو اورمسلمان بولتا اور سمجھتا ہے، قصداً ترک کیے جا رہے ہیں، اور ان کی جگہ ٹھیٹھ سنسکرت اصل کے، یا بالکل نامانوس ہندی زبان کے الفاظ پھیلائے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر۔
سمے
بجائے
وقت
انتی
بجائے
ترقی
پرسدھ
//
مشہور
اتتھ
//
حاکم
جٹ پرانت
//
صوبہ متحدہ
پوتھی
//
مسل
سنگھ
//
شیر
لاگو
//
نافذ
اوشک
//
ضروری
پرستاؤ
//
تجویز
سبھا پتی
//
صدر
سدھانت
//
اصول
مترتا
//
دوستی
اگو
//
لیڈر یا رہنما
پرانت
//
صوبہ
گرہن
//
منظور
شکشا
//
تعلیم
پرانت کوشل
//
صوبہ متوسط
منش یا پرش
//
آدمی
مت بھید
//
اختلاف
نگر
//
شہر
جھگڑا سپھیڑو
//
مدعی
ٹنٹا
//
مقدّمہ
وَدْربھا
//
برار
وانر
//
بندر
سنشودھن
//
ترمیم
سوتنترتا
//
آزادی
گھوشن
//
اعلان
بھارت ورش
//
ہندوستان
جھگڑا دوجے
//
مدعا علیہ
یہ صرف چند مثالیں ہیں۔ اس فہرست کو بہت زیادہ طویل کیا جا سکتا ہے۔ مگر اتنی ہی مثالیں یہ اندازہ کر لینے کے لیے کافی ہیں‘ کہ یہاں ’’ہندستانی‘‘ کے پردے میں دراصل ہندی زبان کو قومی زبان بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جس کے معنی یہ ہیں‘ کہ ’’ہندستانی قوم‘‘ کے بجائے دراصل ’’ہندو قوم‘‘ میں اس ملک کی قوموںکو جذب کرنا مقصود ہے۔ ہندستانی زبان و ادب میں سے ہمارے حصہ کو اس طرح نکال پھینکنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جس طرح کوئی قوم کسی ظالم کی حکومت سے آزاد ہونے کے بعد جوش انتقام میں اس کے باقی ماندہ آثار کو مٹایا کرتی ہے۔
۲- متحدہ قومیّت کے علمبردار جو زبان اپنی تقریروں اور تحریروں میں استعمال کر رہے ہیں اس کے چند نمونے ملاحظہ ہوں۔ گاندھی جی بھارتیہ ساہتیہ پریشد کے اجلاس ناگپور میں فرماتے ہیں :
اس سبھا پتیتو مجھے دینے کا کارن جب میں ڈھونڈتا ہوں تو دو ہی پرتیت ہوتے ہیں۔ ایک میرا سا ہتیہ کار نہ ہونا اور اس لیے کم سے کم ودیش کا کارن ہونا۔ تتھا دوسرا میرا ہندستان کی سب بھاشاؤں کا پریم۔ جو کچھ ہو میں آشا کرتا ہوں کہ ہم کچھ نہ کچھ سیوا کریں گے اور بھوشیہ میں اپنا سیوا کشیتر بڑھائیں گے یدی ہم شری نگر سے لے کر کنیا کماری تک اور کراچی سے لے کر ڈبرو گڈھ تک جو پردیش ہے اسے ایک مانتے ہیں‘ اور اس کے لوگوں کو ایک پرجا سمجھتے ہیں، تو اس پردیش کے پرتیک بھاگ کے ساہتیہ کار بھاشا شاستری ایتادی آپس میں کیوں نہ ملیں اور بھن بھن بھاشاؤں ودارا ہندستان کی پتھا یوگیہ سیواکیوں نہ کریں۔{ FR 3034 }
آنر ایبل مسٹر سمپور نانند وزیر تعلیم صوبہ متحدہ کی ایک تقریر کا اقتباس یوپی کے محکمہ اطلاعات کی رپورٹ سے :
آدھنک کال جس میں کہ ہم رہ رہے ہیں اس کی یہ بھی ایک شبستا ہے‘ کہ شکشنڑ شمسیا کے پرت لوگوں کا اگر شٹر بہت وشدھ اور بیاپک ہو گیا ہے۔ یہ بات ادھکانش سبئے سنسار پرگھٹت ہوتی ہے‘ اور ترن سارہم اپنے دیش میں بھی اس بشیو بیانی اندولن کے بھن بھن پہلوؤں کو دیکھ رہے ہیں‘ اوران کا ان بھوے کر رہے ہیں۔ آج کل ہم اپنے کو جس مانسک اور پدھار تک پرستھت میں پاتے ہیں، اور ہماری اس استھت کا جو سماجک راج نیتک اور آرتھک آدھار ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ ہم نے اپنے پوروجوں سے جو سنسکرت پائی ہے، اس سے اس دشیو ویاپی پرگت کو ہمارے سنمکھ نش سندیہ ایک بشیس روپ میں ایشتھت کیا ہے‘ اور ایک وشیس بھارتیے شمسیہ بنا دیا ہے۔{ FR 3035 }
بابو موہن لال سکسینہ صدر صوبہ کانگریس کمیٹی کے خیر مقدّم میں پیلی بھیت کی کانگریس کمیٹی حسب ذیل اعلان شائع کرتی ہے :
ہمارے صوبہ کے پرسدنیتا شری یت موہن لال سکسینہ ایم ایل اے (سینٹر مل) جو پرانتی کانگریس کمیٹی کے پردھان ہیں۔ ۲۷ مئی ۱۹۳۸ء کو پرات کال ۵ بجے کی گاڑی سے پدھار رہے ہیں۔ جنتا کو چاہیے‘ کہ اس سنہرے اوسر سے لابھ اٹھانے کے لیے یوب ویش کے پرت اپنے سچے کرتو کو جاننے کے لیے ۲۶ تاریخ کی شام کو ادھکا دھک سنکھیا میں راشٹر ساکاؤں کے ساتھ میں آجانا چاہیے‘ اور ۲۷ مئی ۱۹۳۸ء کی صبح کو ۵ بجے ان کے سواگت کے جلوس کی رونق بڑھائیے۔

پروگرام ۲۷ مئی کا
پرت کال ۷ بجے سے ۹ بجے تک جلوس
۹ بجے سے ۱۰ بجے تک جل پان
مدھنان ۹ بجے سے ۲ بجے تک بھوجن و شرام
۲ بجے سے ۵ بجے تک کاریہ کارتاؤں کی بیٹھک
نویدک
دستخط پریذیڈنٹ دستخط اوپ منتری
شہر منڈل کانگریس کمیٹی ’’پیلی بھیت‘‘
اس حمام میں سوشلسٹ ہندو بھی بے تکلف کپڑے ا تار دیتے ہیں۔ حال میں آگرہ کی سوشلسٹ جماعت کی طرف سے ایک جلسہ کا اعلان بدیں الفاظ ہوا ہے :
’’آگرہ میں سماج وادی بہاشنٹر، لگا تار چھ دن تک،اکیل بھاریہ سماج وادی نیتاؤں کے دوارا‘‘۔ ’’ہمیں جنتا کو یہ سوچنا دیتے ہوئے پرسنتا ہوتی ہے‘ کہ تاریخ ۱۱ ،اکتوبر سے برابر چھ دن تک اکیل بھارتیہ سوشلسٹ نیتا راج نیتی کے انیک دشوںپر ایک سناگر بہت اور دو تا پورنٹر بھا شنتر دیں گے۔ آگرہ کی جنتا کے لیے یہ اپورد وسر ہے‘ کہ دے دیش کے وگج سوشلسٹوںکے سمپرک میں آکر یہ سمجھ لیںکہ برٹش سامراج واد کو کس پرکار اکھاڑ پھینکناچاہیے۔ بھاشنٹروں کے وشے کمونیزم، سوشل ازم، پونجی داد، درک بندہ، سامراجیہ داد،فیسزم،نرم و گرم وَل فیڈریشن،کسان، کرانتی،وشو شانتی کی سمیا ودیارتھی اندولن، کسان مزدوراندولن، روس کی کرانتی، سماج وادی روس، امترارشٹریہ، شرسبتھت آدی، آدی بھاشنٹر میں پردیش چار آنہ کے ٹکٹ سے ہو گا۔ آپ کو ٹکٹ ہر پڑمکھ کانگریس ودیار تھی کا یہ کرتا،تتھا وارڈ شہر کانگریس کمیٹی کے دفتر دوارا مل سکتا ہے۔ جن نیتاؤں کے آنے کی آشا ہے ان کے نام اس پرکار ہیں:
’’ڈاکٹر اشرف، کے ایم آبھاگا کانگریس کمیٹی کے راج نیتا وبھاگ کے پردھان، اچاریہ نریندر دیوا کیل بھارتیہ کانگریس سوشلسٹ پارٹی کی کارکارنی کے پڑمکھ سدسے تتھا کانگریس کا رشمتی کے بھوت پوردسدے۔ڈاکٹر زید اے اجمد اکیل بھارتیہ کانگریسی سوشلسٹ پارٹی کی کارِکارنی کے سدسے تتھا آبھاگا کانگریس کمیٹی کے آرتھک دیماگ کے بھوت پورد۔ ڈاکٹر رام منوہر لوہیہ بھارتی کانگریس کمیٹی کے ویدک یشکیار بھاگ کے منتری تتھا ابھاگا سوشلسٹ پارٹی کے کارِکانی کے سدسے سجاد ظہیر بار ایٹ لاآبھاگا سوشلسٹ پارٹی کی کارکارنی کے سدسے۔ کاہریش دیو مالوی یوپی کسان سبھا کی کارِکارنی کے پرمکھ سدسے‘‘۔
دھیان رہے یہ بھاشٹر ۱۱؍ اکتوبر سے شام کو ۵ بجے سے ۸ بجے تک ہوںگے۔ استھان کی سوچنا شکر دی جائے گی۔ یہ بھاشٹر شہر کانگریس کمیٹی سوشلسٹ پارٹی اور آگرہ دویار تھی سنگھ کے سنیکٹ پلیٹ فارم پر ہوں گے۔
مہادیو نرائن ٹنڈن
پردھان منتر ی کانگریس سوشلسٹ پارٹی، آگرہ‘‘۔
یہ محض چند نمونے ہیں۔ ورنہ یہ زبان جس طرح ذمّہ دار لیڈروں اور ذمّہ دار ’’قومی مجلسوں‘‘سے لے کر اخبارات، رسائل اور سینماؤں تک ہر آلہ نشرو اشاعت کے ذریعہ سے پھیلائی جا رہی ہے، اس کا مشاہدہ ہر آنکھوں والا کر رہا ہے‘ اور اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے‘ کہ اگر حکومت کی باگیں ان لوگوںکے ہاتھ میں پوری طرح آگئیں تو یہ ’’کیسی ہندستانی‘‘ زبان بنائیں گے۔
۳- اگرچہ ابھی سیاسی اقتدار پوری طرح ان کے ہاتھ میں نہیں آیا ہے، لیکن جس قدر بھی اقتدار انہیں مل چکا ہے اس کوانہوں نے عملاً اس کام میں استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ اقتدار تو حاصل کرتے ہیں یہ کہہ کر کہ ہم مشترک وطنی اغراض کے لیے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ مگر اقتدار کو استعمال کیا جاتا ہے اس کام میں کہ وطن کی ایک جماعت پر دوسری جماعت کی زبان کو بزور مسلط کر دیا جائے۔ صوبہ بہار میں ۳۵ ہزار سے زیادہ مسلمان بچے ہندی مدرسوں (پارٹھ شالاؤں) میںجانے پر مجبور ہیںکیونکہ انکے لیے تعلیم کا کوئی دوسرا انتظام ہی نہیں۔پٹنہ ڈویژن میں۷۸ فی صدی، چھوٹا ناگپور ڈویژن میں ۸۰ فی صدی، بھاگلپور ڈویژن میں ۷۱ فی صدی‘ اور ترہت ڈویژن میں ۵۵ فی صدی مسلمان طلبا ہندی زبان میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مجموعی طور پر جو مسلمان بچے صرف ایک صوبہ میں ہندی اللسان بنائے جا رہے ہیں‘ ان کی تعداد ۲۵ ہزار کے قریب ہے، یعنی کل مسلمان طلبہ کا ۷۰ فی صدی حصہ‘ اور ان کو پڑھایا کیا جاتا ہے؟ متعدّد کتب نصاب میں یہ چیز آپ کو ملے گی کہ ’’نبی‘‘ کے معنی ’’رام اوتار‘‘کے ہیں ۔{ FR 3036 } ایک چاول سے اندازہ کر لیجئے کہ پوری دیگ میں کیا ہے۔ پروفیسر عبد الحق سیکرٹری انجمن ترقی اردو نے رسالہ ’’اردو‘‘ کی ایک قریبی اشاعت میں اپنے ایک دوست کا خط نقل کیا ہے‘ جو یوپی میں ڈپٹی کلکٹر ہیں۔ وہ لکھتے ہیںکہ اس سال مجھے ڈسٹرکٹ بورڈ کے بہت سے مدرسوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا اور ان میں عموماً میں نے دیکھا کہ اردو پڑھانے والے مدرسوں کی بہت کمی ہے۔ مسلمان بچوں کو مجبورا ہندی پڑھنی پڑتی ہے، اور وہاں زبان کے واسطہ سے ان پر ہندو یت کا گہرا رنگ چڑھ رہا ہے۔ مثلا ایک ابتدائی مدرسہ میںبچے کو پکارئیے تو وہ ’’حاضر جناب‘‘ کہنے کے بجائے ’’اپستھت شریمان‘‘کہے گا۔ یہ اس صوبہ کا حال ہے‘ جو صدیوں سے ہماری قومی تہذیب کا گہوارارہا ہے۔ ان سب سے زیادہ بد تر حالت صوبہ متوسط کی ہے۔ ضلع بیتول کی ڈسٹرکٹ کونسل نے پورے ضلع میں جبری تعلیم نافذ کرنے کی جو سکیم بنائی ہے اس میں تعلیم کی زبان لازمی ہندی رکھی گئی ہے۔ اور حکومت نے اس شرط کے ساتھ اس کو مالی امداد دی ہے‘ کہ تمام تعلیم ہندی میںہو۔ اس جدید اسکیم کے ماتحت ۱۰۷ ہندی اسکول قائم کیے گئے‘ اور پورے ضلع میں اردو کا صرف ایک اسکول تھا سو وہ بھی بند کر دیا گیا۔{ FR 3037 } یہ صرف ابتداء ہے۔
ودیا مندرسکیم جب نافذ ہو گی‘ تو آپ دیکھیں گے کہ دیہات کی مسلمان آبادی کو ۲۵ سال کے اندر قریب قریب کلیۃً ہندی اللسان بنا دیا جائے گا۔ ابتدائی تعلیم تمام تر لوکل بورڈوں کے قبضہ میں ہے‘ اور وہاں حال یہ ہے‘ کہ ۱۵ سو انتخابی حلقوں سے نصف درجن مسلمان بھی منتخب نہ ہو سکے۔ یہ عصبیت جہاںکام کر رہی ہو، وہاں کیا توقع کی جا سکتی ہے‘ کہ پبلک کے خزانہ سے کہیں اُردوودیا مندر، یا ’’بیت العلم‘‘ بھی قائم کیا جائے گا۔ لوکل بورڈوں میں تو پھر بھی محدود نظر اور پست ذہنیت کے لوگ جاتے ہیں۔ صوبہ کی حکومت جن اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذمّہ دار کانگریسی لیڈروں کے ہاتھ میں ہے خود ہی کانگریس کے اس زبانی دعوے کو جھوٹا اور منافقانہ دعوے ثابت کر رہے ہیں‘ کہ ’’ہندستانی‘‘ زبان اردو اور دیوناگری دونوں رسم الخطوں کے ساتھ تسلیم شدہ سرکاری زبان ہے۔ سی پی اسمبلی میں خود صدر مجلس کے زیر ہدایت رولز کمیٹی نے جو قواعد بنائے ہیں ان میں ۸ لاکھ مسلمانوںکی زبان کا نام تسلیم شدہ زبانوںکی فہرست میں کہیں نظر ہی نہیں آتا۔ عبد الرحمن صاحب ایم ایل اے نے جب اپنے سوالات اردو زبان میں لکھ کر بھیجے تو اسمبلی کے سیکرٹری نے انہیں واپس کر دیا اور ہدایت کی کہ انگریزی زبان میں سوالات بھیجئے{ FR 3038 } اسمبلی کی کارروائی قلم بند کرنے کے لیے ہندی رپورٹر تورکھا جا سکتا ہے‘ مگر اردو رپورٹر رکھنے اور اردو میں کارروائی شائع کرنے کے لیے بجٹ میں گنجائش نہیں نکلتی۔ اسمبلی میں کانگریس کے کراچی ریزولیوشن کا حوالہ دے کر مطالبہ کیا جاتا ہے‘ کہ کارروائی ہندی‘ اور اردو دونوں میں لکھی جائے‘ تو کانگریسی حکومت کا وزیر عدل و انصاف جواب دیتا ہے‘ کہ :
جو لوگ کانگریس کو ایک قومی جماعت تسلیم نہیںکرتے، انہیں کانگریس کی کراچی والی تجویز پر ہماری توجہ مبذول کرانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ انہیں کیا حق ہے‘ کہ اس تجویز کا حوالہ دے کر وہ ہم پر نکتہ چینی کریں۔ ہم اقلیتوں کے معقول مطالبے ماننے کو تیار ہو سکتے ہیںلیکن اس ترمیم میں مسلمانوں کی طرف سے جو مطالبہ کیا گیا ہے وہ نہ تو معقول ہے‘ اور نہ قابلِ عمل۔کسی اقلیت کو یہ حق حاصل نہیں ہو سکتاکہ وہ ایوان کی اکثریت سے نامعقول مطالبے منوانے کی کوشش کرے۔ مسلمان ممبروںکو اس وقت بھی یہ رعایت حاصل ہے‘ کہ وہ چاہیں تو اردو میں تقریر کر لیں۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ اردو خط صوبہ کی سرکاری عدالتوں اور دفتروں میں رائج نہیں۔ اسمبلی میں بھی اسے رائج نہیں کیا جاسکتا۔اس سے بے انتہا مصارف بڑھ جائیں گے‘‘۔{ FR 3039 }
۴- عمل کے ساتھ زبانوںپر بھی علانیہ یہ بات آگئی ہے‘ کہ ’’قومی‘‘ زبان حقیقت میں’’ہندی‘‘ ہے نہ کہ وہ ’’ہندستانی‘‘ جو یوگوسلیویا کی ’’سر بوکر وٹو سلافینی‘‘ زبان کی طرح محض ایک دھوکے کی ٹٹی بنائی گئی ہے۔ اس تخیلی زبان کے متعلق توابھی حال میں گاندھی جی نے خود فرمایا ہے‘ کہ خارج میں اس کا وجود کہیں نہیں ہے، بلکہ وہ آئندہ پیداکی جانے والی ہے۔{ FR 3040 } اب مقابلہ رہ جاتا ہے اردو اور ہندی میں، تو اس کے متعلق ’’متحدہ ہندستانی قوم‘‘ کے لیڈر کا فیصلہ یہ ہے‘ کہ ہندی زبان ہی ہندستان کی قومی زبان ہے‘ اور دیو ناگری رسم الخط ہی ہندستان کا رسم الخط ہونا چاہیے ۔{ FR 3041 } ہری پورہ کانگریس کے موقع پر ’’راشٹر بھاشا سمین‘‘ (قومی زبان کی کانفرنس) کا ساتواں اجلاس مسٹر جمنا لال بزاز کے زیرصدارت ہوتا ہے‘ اور کانگریس کا صدر اس کو پیغام بھیجتا ہے‘ کہ :
صوبوں کے باہمی تعلقات کی ترقی کیلیئے ایک مشترک زبان کی ضرورت ہے‘ اور وہ زبان ہندی ہندستانی ہی ہو سکتی ہے، جن لوگوں نے ابھی تک ہندی نہیں سیکھی انہیںسیکھنی چاہیے‘ کہ یہ ہندستانی قوم کی تعمیر میں مدد گار ہو گی۔{ FR 3042 }
یوپی کا وزیر تعلیم ۱۹ اگست ۱۹۳۸ء کو ناگری پرچارنی سبھا، بنارس کے ایڈریس کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے‘ کہ :
اگر ہم چاہتے ہیں‘ کہ ہندی کو ’’جسے ہندستانی بھی کہا جاتا ہے، ہمارے جنوبی ہند کے ہم وطن آسانی سے سیکھ لیں تو لازم ہے‘ کہ ہم ہندستانی زبان میں سنسکرت کے کافی الفاظ استعمال کریں۔
اسی صوبہ کی اسمبلی کا صدر اسی وزیر تعلیم کے پاس وفد لے کے جاتا ہے‘ اور اس سے درخواست کرتا ہے‘ کہ ہندی کو ذریعہ تعلیم بنانے سے پہلے اس کو سرکاری زبان قرار دیا جائے‘ اور محکموں اور خصوصاً عدالتوں میں سارا کام ہندی کے ذریعے سے ہو۔ (مدینہ یکم ستمبر ۱۹۳۸ء)
یہ وہ لوگ ہیںجنہوں نے متحدہ ہندستان کے نام سے سیاسی طاقت حاصل کی ہے، اور اب یہ اس طاقت کو ہندستان کی ایک قوم کی زبان سارے ملک پر مسلط کر دینے میں استعمال کر رہے ہیں۔
خلاصہ مباحث
یہ ساری روداد آپ کے سامنے ہے۔ اسے آنکھیں کھول کر پڑھئے اور اندازہ کیجئے‘ کہ اس ’’جنگ ِ آزادی‘‘ کی حقیقی نوعیت کیا ہے۔ا س کی نوعیت یہ نہیں ہے‘ کہ میرا قید خانہ کا رفیق مجھ سے کہتا ہو‘ کہ آؤ میں اور تم دونوں مل کر لڑیں اور ہم دونوں اپنی بیڑیاں اورہتھ کڑیاں کاٹ پھینکیں۔ اگر معاملہ یہی ہوتا تو مجھ سے بڑھ کر کون احمق ہوتا کہ ایسے کار خیر میں اس کا ہاتھ بٹانے سے انکار کرتا؟ لیکن یہاں صورت معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ میرا رفیق زنداں اس تدبیر میں ہے‘ کہ جیلر کو ہٹا کر خود اس کی جگہ لے لے اور اپنے ہاتھ پاؤں کی ہتھکڑی اور بیڑیاںبھی میرے ہاتھ پاؤں میں ڈال کر مجھے اپنا قیدی بنا لے۔ وہ مجھ سے تو کہتا ہے‘ کہ آؤ اس قیدوبند سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جیلر سے لڑیں۔ مگر جیلر کے ساتھ یہ معاملہ طے کرتا ہے‘ کہ حضور مجھے برقنداز بنا دیں،جیل کا انتظام حضور کے حسب منشا ہو گا‘ اور قیدیوںکو میں قابو میں رکھوں گا۔ اس طرح جو کچھ اختیارات اسے جیلر سے ملتے جاتے ہیںان سے کام لے کر وہ اپنی قید کے طوق و سلاسل اتار کر مجھے کستا چلا جاتاہے، اور مزید غضب یہ ہے‘ کہ جیلر صاحب تو نرے جیلر تھے، مگر یہ ہمارے رفیق صاحب جو اب برقنداز بنے ہیں، ان کو مردم خوری کا لپکا بھی ہے۔ یہ مجھے فقط اپنا قیدی ہی نہیں بنانا چاہتے بلکہ میرے گوشت اور خون کو آہستہ آہستہ اپنا جزو بدن بھی بنا لینے کی فکر میں ہیں۔اب میری عقل ماری گئی ہے‘ تو میں ان کے ساتھ ضرور تعاون کروں گا، تاکہ یہ میری مدد سے جیلر پر دباؤ ڈال کر اور زیادہ اختیارات حاصل کریں‘ اور زیادہ آسانی سے مجھے نوش جان فرما سکیں۔اور اگر میری جیسے کی آنکھیں پھوٹ چکی ہیں‘ تو میں جیل کی کوٹھری میں بے فکر بیٹھا ان برقنداز صاحب کی ترقی کو دیکھتا رہوںگا۔ا ور اگر جیل کی زندگی نے مجھے پست ہمت اور ذلیل بنا دیا ہے‘ تو میں بوڑھے جیلر کی خدمت میں دوڑا ہوا جاؤں گا اور ہاتھ جوڑکر عرض کروں گا کہ حضور کا دم سلامت رہے، جب تک آپ جیتے ہیںاس وقت تک تو آپ ہی جیل کا انتظام فرمائیں، جب خدانخواستہ آپ کا وقت آن پورا ہو گا، اس وقت دیکھی جائے گی، جس کی قید بھی قسمت میں لکھی ہو گی بھگت لیں گے۔ لیکن اگر میں عقل و خرد سے کچھ بھی بہرہ رکھتا ہوں‘ اور میری رگوں میں ابھی شرافت کا بھی کچھ خون باقی ہے‘ تو میں ہمت کرکے اٹھوں گا اور جیل کی دیواریں اپنے ہاتھ سے توڑنے کی کوشش کروں گا۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے‘ کہ اس کوشش میں جیلر یا برقنداز کی گولی کا نشانہ بن جاؤں گا۔ تو بہت اچھا، مجھے اس کو گوارا کر لینا چاہیے۔قید کی زندگی سے، اور برقنداز کی غذا بننے سے لاکھ درجہ بہتر ہے‘ کہ لڑ کر مر جاؤں۔ اس مردانہ کام میں دور ہی کا سہی مگریہ امکان بھی ہے‘ کہ مجھے اپنی کوشش میں کامیابی نصیب ہو جائے‘ اور میں اپنے مکار رفیق زنداں سے کہہ سکوں کہ برادرم! جیل کی ہوا بھول جاؤ اور سیدھی طرح شریف ہمسایہ بن کر رہو۔
استدراک
اس باب کو ختم کرنے سے پہلے ایک چیز قابلِ ذکر ہے۔ ۱۹ نومبر ۱۹۳۸ء کے’’زمزم‘‘ میںجناب مولانا ابوالکلام آزاد کا ایک بیان شائع ہوا ہے‘ جس میںمولانا نے سی پی کے متعلق بعض شکایات کی تردید فرمائی ہے‘ اور بعض کے متعلق بیان فرمایا ہے‘ کہ جب وہ ان کے علم میں آئیں تو انہوںنے کانگریس پارلیمنٹری کمیٹی کو توجہ دلائی اور اس نے اس کی تحقیقات یا تلافی کرنے کی کوشش کی۔ یہاں اس بیان پر تفصیلی تبصرہ کی گنجائش نہیں۔ مگر مختصرا میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جن باتوں سے مولانا خود اطمینان حاصل فرما رہے ہیں‘ اور جن پر مسلمانوںکو مطمئن کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں وہ درحقیقت قابلِ اطمینان نہیںہیں،خود ان کے اپنے بیان سے یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے‘ کہ اس سراسر غلط جمہوری نظام میں طاقت تو سمٹ سمٹا کر اکثریت کے ہاتھ میں آگئی ہے‘ اور ہماری اصلی حیثیت اب یہ ہے‘ کہ اگر وہ ہم پر ظلم کریں تو ہمارا کوئی نمائندہ جا کر سردار پٹیل کی خدمت میں یاکسی اور سرکار کی خدمت میں عرض معروض کر دے، اور اس ظلم کی تلافی صرف اس وقت ہو سکے جب کہ وہ بربنائے عنایت و مہربانی یا بربنائے مصلحت وقت تلافی کرنا چاہیں۔ یہ پوزیشن کسی طرح بھی اس غلامی کی پوزیشن سے مختلف نہیں جواب تک انگریزی سلطنت میں ہمیں حاصل رہی ہے۔ یہاں بھی کوئی مصیبت مسلمانوں پر پیش آتی ہے‘ تو کوئی فضل حسین یا کوئی شفیع خود اس کا تدارک نہیں کر سکتا بلکہ جا کر وائسرائے بہادر سے عرض کرتاہے یا کسی صوبہ کے گورنر صاحب کو توجہ دلاتا ہے۔ا ور اگر وہ مہربان ہوں یا مصلحتاً اس کی ضرورت سمجھیں تو تدارک ہو جاتا ہے، ورنہ ایگزیکٹو کونسل کے ممبر صاحب اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں‘ اور بدستور اس اُمید میں رکنیت کی کرسی سے چپکے رہتے ہیں‘ کہ شاید کسی دوسرے موقع پر منصب کام آجائے۔ ہمارا اصلی اعتراض دراصل اسی پوزیشن پر ہے۔ مان لیا کہ کانگریسی صوبوں میں اس وقت بڑی حق پسندی‘ اور غایت درجہ کے عدل و انصاف کے ساتھ حکومت ہو رہی ہے‘ اور یہ بھی تسلیم کر لیا کہ جتنی شکایات اب تک مسلمان اخبارات میں شائع ہوئی ہیں سب کی سب جھوٹی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے‘ کہ دستوری نوعیت کیا ہے‘ اور آئندہ کی لڑائی کس نوعیت کے دستوری ارتقاء کے لیے ہو رہی ہے؟ اگر اس کی نوعیت یہی ہے‘ کہ ہم اس جھوٹے جمہوری نظام میں محض اپنے سروں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے محکوم ہیں‘ اور ہندو صرف اس لیے ہم پر حاکم ہوں کہ ان کے سر ہم سے زیادہ ہیں، تو ظلم اس نظام کی عین فطرت میں پوشیدہ ہے۔ آج اگر مولانا ابوالکلام کی اس لیے سن لی جاتی ہے‘ کہ ان سے کچھ زیادہ بڑا کام لینا ہے‘ تو کل کسی ابوالکلام کی نہ سنی جائے گی، اور کسی ابوالکلام میں یہ طاقت نہ ہو گی کہ جب اس کی نہ سنی جائے‘ تو وہ کچھ کر سکے۔ ہمارا اصلی جھگڑا اسی باطل اصول سے ہے‘ اور مولانا یہ سمجھ رہے ہیں‘ کہ بس تمام شکایت بیتول کے مدرسے اور ودیا مندر کے نام اور ایسی چند چھوٹی چھوٹی چیزوں کے متعلق ہے۔ جو لوگ مولانا کے علم اور ان کی دانائی کے معترف ہیں وہ اس سے کچھ زیادہ دانش مندی و بصیرت کی توقع ان سے رکھتے تھے۔
خ خ خ

شیئر کریں