Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مقدّمہ
حصہ اوّل : ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ایک تاریخی جائزہ
تقدیم{ FR 2891 }
باب ۱: آنے والا انقلاب اور مسلمان
باب ۲ : حالات کا جائزہ اور آئندہ کے امکانات
باب ۳ : ہمارا سیاسی نصب ُالعین
باب ۴ : راہِ عمل
حصہ دوم : اِصلاح کا راستہ قرآن و سنّت کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے صحیح راہِ عمل
باب ۵ : مسائلِ حاضرہ میں
باب ۶ اسلام … ایک جامع تہذیب دین و دنیا کی علیحدگی کا جاہلی تصوّر اور ہماری قومی سیاست میں اس کے اثرات
باب ۷ : شُبہات اور جوابات
حصہ سوم : کانگریس، متحدہ قومی تحریک اور مسلمان
تقدیم
باب ۸: مسلمانوں کی غلط نمائندگی اوراس کے نتائج
باب ۹: آزادی اور قومی تشخّص
باب ۱۰ : قوم پرستوں کے نظریات
باب ۱۱ : آزادی کی فوج کے مسلمان سپاہی
باب ۱۲ : حصول آزادی کا طریقہ
باب ۱۳ : جنگ ِ آزادی کا مطمح نظر
باب ۱۴ : قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟
باب ۱۵: بنیادی حقوق
باب ۱۶ : متحدہ قومیّت اور اسلام
باب ۱۷ : کیا ہندستان کی نجات نیشل ازم میں ہے؟
باب ۱۸ : اسلامی قومیّت کا حقیقی مفہوم 
باب ۱۹ : جنگِ آزادی کی نوعیت
باب ۲۰ : کانگریس اور مسلمان
حصہ چہارم : ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کے حل کی راہیں تین تجاویز
باب ۲۱ : مسلمان کیا کریں؟ تین تجاویز

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

باب ۱۸ : اسلامی قومیّت کا حقیقی مفہوم 

زمانہ حال میں مسلمانوں کی جماعت کے لیے لفظ ’’قوم‘‘ کا استعمال کثرت کے ساتھ کیا گیا ہے‘ اور عموماً یہی اصطلاح ہماری اجتماعی حیثیت کو ظاہر کرنے کے لیے رائج ہو چکی ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے‘ اور بعض حلقوں کی طرف سے اس کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی بھی کوشش کی گئی ہے‘ کہ قرآن اور حدیث میں مسلمانوں کے لیے لفظ ’’قوم‘‘ (یا نیشن کے معنی میں کسی دوسرے لفظ کو) اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔ میں مختصراً یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان الفاظ میں اصلی قباحت کیا ہے‘ جس کی وجہ سے اسلام میں ان سے پرہیز کیا گیا، اور وہ دوسرے الفاظ کون سے ہیں‘ جن کو قرآن و حدیث میں استعمال کیا گیا ہے۔یہ محض ایک علمی بحث نہیں ہے، بلکہ اس سے ہمارے ان بہت سے تصوّرات کی غلطی واضح ہو جاتی ہے‘ جن کی بدولت زندگی میں ہمارا روّیہ بنیادی طور پر غلط ہو کر رہ گیا ہے۔
لفظ ’’قوم‘‘ اور اس کا ہم معنی انگریزی لفظ(nation)، یہ دونوں دراصل جاہلیت کی اصطلاحیں ہیں۔ اہلِ جاہلیت نے ’’قومیّت‘‘ (nationality) کو کبھی خالص تہذیبی بنیاد (cultural basis) پر قائم نہیں کیا، نہ قدیم جاہلیت کے دور میں اور نہ جدید جاہلیت کے دور میں۔ ان کے دل و دماغ کے ریشوں میں نسلی اور روائتی علائق کی محبت کچھ اس طرح پلا دی گئی ہے‘ کہ وہ نسلی روابط اور تاریخی روایات کی وابستگی سے قومیّت کے تصوّر کو کبھی پاک نہ کر سکے۔ جس طرح قدیم عرب میں قوم کا لفظ عموماً ایک نسل یا ایک قبیلہ کے لوگوں پر بولا جاتا تھا اسی طرح آج بھی لفظ ’’نیشن‘‘ کے مفہوم میں مشترک جنسیت (common descent) کا تصوّر لازمی طورپر شامل ہے۔ اور یہ چیز چونکہ بنیادی طور پر اسلامی تصوّر اجتماع کے خلاف ہے،ا س وجہ سے قرآن میں لفظ قوم اور اس کے ہم معنی دوسرے عربی الفاظ مثلاً شعب وغیرہ کو مسلمانوں کی جماعت کے لیے اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ ایسی اصطلاح اُس جماعت کے لئے کیونکر استعمال کی جا سکتی تھی جس کے اجتماع کی اساس میں خون اور خاک اور رنگ اور اس نوع کی دوسری چیزوںکا قطعاً کوئی دخل نہ تھا، جس کی تالیف و ترکیب محض اصول اور مسلک کی بنیاد پر کی گئی تھی،ا ور جس کا آغاز ہی ہجرت اور قطعِ نسب اور ترکِ علائق مادّی سے ہوا تھا۔
قرآن نے جو لفظ مسلمانوں کی جماعت کے لیے استعمال کیا ہے وہ ’’حزب‘‘ہے جس کے معنی پارٹی کے ہیں۔ قومیں نسل و نسب کی بنیاد پر اٹھتی ہیں، اور پارٹیاں اصول و مسلک کی بنیاد پر۔ا س لحاظ سے مسلمان حقیقت میں قوم نہیں‘ بلکہ ایک پارٹی ہیں۔ کیونکہ ان کو تمام دنیا سے الگ، اور ایک دوسرے سے وابستہ صرف اس بنا پر کیا گیا ہے‘ کہ یہ ایک اصول اور مسلک کے معتقد اورپیرو ہیں۔ اور جن سے ان کا اصول و مسلک میں اشتراک نہیںوہ خواہ ان سے قریب ترین مادّی رشتے ہی کیوں نہ رکھتے ہوں،ان کے ساتھ ان کا کوئی میل نہیں ہے۔ قرآن روئے زمین کی اس پوری آبادی میں صرف دو ہی پارٹیاں دیکھتا ہے۔ ایک اللہ کی پارٹی (حزب اللہ)، دوسرے شیطان کی پارٹی (حزب الشیطان) شیطان کی پارٹی میں خواہ باہم اصول و مسلک کے اعتبار سے کتنے ہی اختلاف ہوں،قرآن ان سب کو ایک سمجھتا ہے، کیونکہ ان کا طریقِ فکر اور طریقِ عمل بہرحال اسلام نہیںہے‘ اور جزئی اختلافات کے باوجود بہرحال وہ سب شیطان کے ا تباع پر متفق ہیں۔ قرآن کہتا ہے:
اِسْتَحْوَذَ عَلَيْہِمُ الشَّيْطٰنُ فَاَنْسٰـىہُمْ ذِكْرَ اللہِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ المجادلہ 58:19
شیطان ان پر غالب آگیا اور اس نے خدا سے انہیں غافل کر دیا۔ وہ شیطان کی پارٹی کے لوگ ہیں‘ اور جان رکھو کہ شیطان کی پارٹی آخر کار نامراد ہی رہنے والی ہے۔
برعکس اس کے اللہ کی پارٹی والے خواہ نسل اور وطن اور زبان اور تاریخی روایات کے اعتبار سے باہم کتنے ہی مختلف ہوں، بلکہ چاہے ان کے آباؤ اجداد میں باہم خونی عداوتیں ہی کیوں نہ رہ چکی ہوں، جب وہ خدا کے بتائے ہوئے طریق فکر اور مسلک حیات میں متفق ہو گئے‘ تو گویا الٰہی رشتے (حبل ا للہ) سے باہم جڑ گئے‘ اور اس نئی پارٹی میں داخل ہوتے ہی ان کے تمام تعلقات حزب الشیطان والوں سے کٹ گئے۔
پارٹی کا یہ اختلاف باپ اور بیٹا تک کا تعلق توڑ دیتا ہے، حتیٰ کہ بیٹا باپ کی وراثت تک نہیںپا سکتا۔ حدیث کے الفاظ ہیں لایتوارث اھل ملتین۔ دو ملتوں کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیںہو سکتے۔
پارٹی کا یہ اختلاف بیوی کو شوہر سے جدا کر دیتا ہے حتیٰ کہ اختلاف رونما ہوتے ہی دونوں پر ایک دوسرے کی مواصلت حرام ہو جاتی ہے، محض اس لیے کہ دونوں کی زندگی کے راستے جدا ہو چکے۔قرآن میں ہے۔ لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ يَحِلُّوْنَ لَہُنَّ۝۰ۭ الممتحنہ10:60 نہ وہ ان کے لیے حلال، نہ یہ ان کے لیے حلال۔
پارٹی کا یہ اختلاف ایک برادری، ایک خاندان کے آدمیوں میں پورا معاشرتی مقاطعہ کرا دیتا ہے حتیٰ کہ حزب اللہ والے کے لیے خود اپنی نسل برادری کے ان لوگوں میں شادی بیاہ کرنا حرام ہو جاتا ہے‘ جو حزب الشیطان سے تعلق رکھتے ہوں۔ قرآن کہتا ہے :
وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ۝۰ۭ وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْكُمْ۝۰ۚ البقرہ 221:2
مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں۔مومن لونڈی مشرک بیگم سے بہتر ہے، خواہ وہ تمہیں کتنی ہی پسند ہو، اور اپنی عورتوں کے نکاح بھی مشرک مردوں سے نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں۔ مومن غلام مشرک آزاد شخص سے بہتر ہے چاہے وہ تمہیں کتنا ہی پسند ہو۔
پارٹی کا اختلاف نسلی ووطنی قومیّت کا تعلق صرف کاٹ ہی نہیں دیتا بلکہ دونوں میں ایک مستقل نزاع قائم کر دیتا ہے‘ جو دائما قائم رہتی ہے تاوقتیکہ وہ اللہ کی پارٹی کے اصول تسلیم نہ کر لیں۔ قرآن کہتا ہے :
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَۃٌ حَسَـنَۃٌ فِيْٓ اِبْرٰہِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗ۝۰ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۡكَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٗٓ اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰہِيْمَ لِاَبِيْہِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ الممتحنہ60:4
تمہارے لیے بہترین نمونہ ابراہیم اور اس کے ساتھیوںمیں ہے۔ ان لوگوںنے اپنی (نسل) قوم والوں سے صاف کہہ دیا تھا‘ کہ ہمارا تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جن کی تم خدا کو چھوڑ کر بندگی کرتے ہو، کوئی واسطہ نہیں۔ ہم تم سے بے تعلق ہو چکے اور ہمارے تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت پڑگئی تاوقتیکہ تم خدائے واحد پر ایمان نہ لاؤ۔ مگر تمہارے لیے ابراہیم کے اس قول میں نمونہ نہیںہے‘ کہ اس نے اپنے کافر باپ سے کہا کہ میں تیرے لیے بخشش کی دعا کروں گا۔
وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِيْمَ لِاَبِيْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاہُ۝۰ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ۝۰ۭ التوبہ 114:9
ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش کی دعا کرنا محض اس وعدے کی بنا پر تھا جو وہ اس سے کر چکا تھا۔ مگر جب اس پر کھل گیا کہ اس کا باپ خدا کا دشمن ہے‘ تو وہ اس سے دست بردار ہو گیا۔
پارٹی کا یہ اختلاف ایک خاندان والوں اور قریب ترین رشتہ داروںکے درمیان بھی محبت کا تعلق حرام کر دیتا ہے، حتیٰ کہ اگر باپ اور بھائی اور بیٹے بھی حزب الشیطان میں شامل ہوں تو حزب اللہ والا اپنی پارٹی سے غداری کرے گا اگر ان سے محبت رکھے۔ قرآن میں ارشاد ہے:
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَہُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِيْرَتَہُمْ۝۰ۭ… … … اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ اللہِ۝۰ۭ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo المجادلہ 22:58
تم ایسا ہرگز نہ پاؤ گے کہ کوئی جماعت اللہ اور یوم آخر پر ایمان بھی رکھتی ہو‘ اور پھر اللہ اور رسول کے دشمنوں سے دوستی بھی رکھے خواہ وہ ان کے باپ، بیٹے، بھائی یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں‘ اور جان رکھو کہ آخر کار اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں۔
دوسرا لفظ جو پارٹی ہی کے معنی میں قرآن نے مسلمانوں کے لیے استعمال کیا ہے وہ لفظ ’’امت‘‘ ہے۔ حدیث میں بھی یہ لفظ کثرت سے مستعمل ہوا ہے۔ اُمت اس جماعت کو کہتے ہیںجس کو کسی امر جامع نے مجتمع کیا ہو۔ جن افراد کے درمیان کوئی اصل مشترک ہو ان کو اسی اصل کے لحاظ سے ’’امت‘‘ کہا جاتا ہے۔ مثلا ایک زمانہ کے لوگ بھی ’’امت‘‘ کہے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو جس اصلِ مشترک کی بنا پر اُمت کہا گیا ہے وہ نسل یا وطن یا معاشی اغراض نہیں ہیں‘ بلکہ وہ ان کی زندگی کا مشن اور ان کی پارٹی کا اصول اور مسلک ہے۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے :
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ آل عمران 110:3
تم وہ بہترین اُمت ہو‘ جسے نوع انسانی کے لیے نکالا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو۔ بدی سے روکتے ہو‘ اور خدا پر ایمان رکھتے ہو۔
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۝۰ۭ البقرہ 143:2
اور اس طرح ہم نے تم کو ایک بیچ کی اُمت بنایا ہے تاکہ تم نوع انسانی پر نگران رہو اور رسولؐ تم پر نگران ہو۔
ان آیات پر غور کیجئے۔ ’’بیچ کی امت‘‘ سے مراد یہ ہے‘ کہ ’’مسلمان‘‘ ایک بین الاقوامی جماعت (international party) کا نام ہے۔ دنیا کی ساری قوموں میں سے ان اشخاص کو چھانٹ کر نکال لایا گیا ہے‘ جو ایک خاص اصول کوماننے، ایک خاص پروگرام کو عمل میں لانے ا ور ایک خاص مشن کو انجام دینے کے لیے تیار ہوں۔ یہ لوگ چونکہ ہر قوم میں سے نکلے ہیں‘ اور ایک پارٹی بن جانے کے بعد کسی قوم سے ان کا تعلق نہیں رہا ہے اس لیے یہ بیچ کی اُمت ہیں۔ لیکن ہر ہر قوم سے تعلق توڑنے کے بعد سب قوموں سے ان کا ایک دوسرا تعلق قائم کیا گیا ہے‘ اور وہ یہ ہے‘ کہ دنیا میں خدائی فوج دار کے فرائض انجام دیں۔ ’’تم نوع انسانی پر نگران ہو‘‘کے الفاظ بتا رہے ہیں‘ کہ مسلمان خدا کی طرف سے دنیا میں فوج دار مقرر کیا گیا ہے۔اور ’’نوع انسانی کے لیے نکالا گیا ہے‘‘کا فقرہ صاف کہہ رہا ہے‘ کہ مسلمان کا مشن ایک عالم گیرمشن ہے۔ اس مشن کا خلاصہ یہ ہے‘ کہ ’’حزب‘‘ کے رہبر سیّد نا محمدa کو فکر و عمل کا جو ضابطہ خدا نے دیا تھا اس کو تمام ذہنی، اخلاقی اور مادّی طاقتوں سے کام لے کر دنیا میں نافذ کیا جائے‘ اور اس کے مقابلہ میں ہر دوسرے طریقہ کو مغلوب کر دیا جائے۔ یہ ہے وہ چیز جس کی بنیاد پر مسلمان ایک اُمت بنائے گئے ہیں۔
تیسرا اصطلاحی لفظ جو مسلمانوں کی اجتماعی حیثیت ظاہر کرنے کے لیے نبی a نے بکثرت استعمال کیا ہے وہ لفظ ’’جماعت‘‘ ہے۔ اور یہ لفظ بھی ’’حزب‘‘ کی طرح پارٹی کا ہم معنی ہے۔ علیکم بالجماعۃ اور ید اللہ علی الجماعۃ اور ایسی ہی بکثرت احادیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے‘ کہ رسول اللہ a نے لفظ ’’قوم‘‘ یا ’’شعب‘‘ یا اس کے ہم معنی دوسرے الفاظ استعمال کرنے سے قصداً احتراز فرمایا اور ان کے بجائے ’’جماعت‘‘ ہی کی اصطلاح استعمال کی۔آپؐ نے کبھی یہ نہ فرمایا کہ ’’ہمیشہ قوم کے ساتھ رہو‘‘ یا ’’قوم پر خدا کا ہاتھ ہے‘‘ بلکہ ایسے تمام مواقع پر آپؐ جماعت ہی کا لفظ استعمال فرماتے تھے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے‘ اور یہی ہو سکتی ہے‘ کہ مسلمانوں کے اجتماع کی نوعیت ظاہر کرنے کے لیے ’’قوم‘‘کے بجائے جماعت، حزب اور پارٹی ہی کے الفاظ ہی زیادہ مناسب ہیں۔ قوم کا لفظ جن معنوں میں عموماً مستعمل ہوتا ہے ان کے لحاظ سے ایک شخص خواہ وہ کسی مسلک اور کسی اصول کا پیرو ہو، ایک قوم میں شامل رہ سکتا ہے‘ جب کہ وہ اس قوم میں پیدا ہوا ہو‘ اور اپنے نام، طرز زندگی اور معاشرتی تعلقات کے اعتبار سے اس قوم کے ساتھ منسلک ہو۔ لیکن پارٹی، جماعت اور حزب کے الفاظ جن معنوںمیں مستعمل ہوتے ہیں، ان کے لحاظ سے اصول اور مسلک ہی پر پارٹی میں شامل ہونے یا اس سے خارج ہونے کا مدار ہوتا ہے۔ آپ ایک پارٹی کے اصول و مسلک سے ہٹ جانے کے بعد ہرگز اس میں شامل نہیں رہ سکتے، نہ اس کا نام استعمال کر سکتے ہیں، نہ اس کے نمائندے بن سکتے ہیں، نہ اس کے مفاد کے محافظ بن کر نمودار ہو سکتے ہیں‘ اور نہ پارٹی والوں سے آپ کا کسی طور پر تعاون ہو سکتا ہے۔ اگر آپ یہ کہیںکہ میں پارٹی کے اصول و مسلک سے تو متفق نہیں ہوں۔لیکن میرے والدین اس پارٹی کے ممبر رہ چکے ہیں، اور میرا نام اس کے ممبروں سے ملتا جلتا ہے،اس لیے مجھ کو بھی ممبروں کے سے حقوق ملنے چاہئیں تو آپ کا یہ استدلال اتنا مضحکہ انگیز ہو گا کہ شاید سننے والوں کو آپ کی دماغی حالت پر شبہ ہونے لگے گا۔ لیکن پارٹی کے تصوّر کو قوم کے تصوّر سے بدل ڈالیے۔ اس کے بعد یہ سب حرکات کرنے کی گنجائش نکل آتی ہے۔
اسلام نے اپنی بین الاقوامی پارٹی کے ارکان میں یکجہتی اور ان کی معاشرت میں یکسانی پیدا کرنے کے لیے اور ان کو ایک سوسائٹی بنادینے کے لیے حکم دیا تھا‘ کہ آپس ہی میں بیاہ شادی کرو۔ اس کے ساتھ ہی ان کی اولاد کے لیے تعلیم و تربیت کا ایسا انتظام تجویز کیا گیا تھا‘ کہ وہ خود بخود پارٹی کے اصول و مسلک کے پیرو بن کر اٹھیں اور تبلیغ کے ساتھ ساتھ افزائش نسل سے بھی پارٹی کی قوّت بڑھتی رہے۔ یہیں سے اس پارٹی کے قوم بننے کی ابتداء ہوتی ہے، بعد میں مشترک معاشرت، نسلی تعلقات اور تاریخی روایات نے اس قومیّت کو زیادہ مستحکم کر دیا۔
اس حد تک جو کچھ ہوا درست ہوا۔ لیکن رفتہ رفتہ مسلمان اس حقیقت کو بھولتے چلے گئے کہ وہ دراصل ایک پارٹی ہیں، اور پارٹی ہونے کی حیثیت ہی پر ان کی قومیّت کی اساس رکھی گئی ہے۔ یہ بھلاوا بڑھتے بڑھتے اب یہاں تک پہنچ گیا ہے‘ کہ پارٹی کا تصوّر قومیّت کے تصوّر میں بالکل ہی گم ہو گیا۔ مسلمان اب صرف ایک قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ اسی طرح کی قوم جیسی کہ جرمن ایک قوم ہے‘ یا جاپانی ایک قوم ہے‘ یا انگریز ایک قوم ہے۔ وہ بھول گئے ہیں‘ کہ اصلی چیز وہ اصول اور مسلک ہے‘ جس پر اسلام نے ان کو ایک اُمت بنایا تھا، وہ مشن ہے‘ جس کو پورا کرنے کے لیے اس نے اپنے پیروؤں کو ایک پارٹی کی صورت میں منظم کیا تھا۔ اس حقیقت کو فراموش کرکے انہوں نے غیر مسلم قوموں سے ’’قومیّت‘‘ کا جاہلی تصوّر لے لیا ہے۔ یہ ایسی بنیادی غلطی ہے‘ اور اس کے قبیح اثرات اتنے پھیل گئے ہیں‘ کہ احیائے اسلام کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھ سکتا جب تک کہ اس غلطی کو دور نہ کر دیا جائے۔
ایک پارٹی کے ارکان میں باہمی محبت، رفاقت اور معاونت جو کچھ بھی ہوتی ہے شخصی یا خاندانی حیثیت سے نہیں ہوتی۔ بلکہ صرف اس بنا پر ہوتی ہے‘ کہ وہ سب ایک اصول کے معتقد اور ایک مسلک کے پیرو ہوتے ہیں۔ پارٹی کا ایک رکن اگر جماعتی اصول اور مسلک سے ہٹ کر کوئی کام کرے تو صرف یہی نہیں کہ اس کی مدد کرنا پارٹی والوں کا فرض نہیں ہوتا، بلکہ اس کے برعکس پارٹی والوں کا فرض یہ ہوتا ہے‘ کہ اس کو ایسے غدارانہ اور باغیانہ طرزِعمل سے روکیں، نہ مانے تو اس کے خلاف جماعتی ضوابط کے تحت سخت کارروائی کریں، پھر بھی نہ مانے تو جماعت سے نکال باہر کریں۔ ایسی مثالیں بھی دنیا میں نا پید نہیں ہیں‘ کہ جو شخص پارٹی کے مسلک سے شدید انحراف کرتا ہے اسے قتل کر دیا جاتا ہے۔{ FR 3059 } لیکن ذرا مسلمانوں کا حال دیکھیے کہ اپنے آپ کو پارٹی کے بجائے قوم سمجھنے کی وجہ سے یہ کیسی شدید غلط فہمی میںمبتلا ہو گئے ہیں۔ ان میں سے جب کوئی شخص اپنے فائدے کے لیے غیر اسلامی اصولوں پر کوئی کام کرتا ہے‘ تو دوسرے مسلمانوں سے توقع رکھتا ہے‘ کہ اس کی مدد کریں گے۔ اگر مدد نہیں کی جاتی تو شکایت کرتا ہے‘ کہ دیکھو، مسلمان مسلمان کے کام نہیں آتے۔ سفارش کرنے والے ان کی سفارش ان الفاظ میں کرتے ہیں‘ کہ ایک مسلمان بھائی کا بھلا ہوتا ہے، اس کی مدد کرو، مدد کرنے و الے بھی اگر اس کی مدد کرتے ہیں‘ تو اس فعل کو اسلامی ہمدردی سے موسوم کرتے ہیں۔ اس سارے معاملہ میں ہر ایک کی زبان پر اسلامی ہمدردی،اسلامی برادری، اسلام کے رشتہ دینی کا نام بار بار آتا ہے۔ حالانکہ درحقیقت اسلام کے خلاف عمل کرنے میں خود اسلام ہی کا حوالہ دینا اور اس کے نام سے ہمدردی چاہنا یا ہمدردی کرنا صریح لغویات ہے۔جس اسلام کایہ لوگ نام لیتے ہیں اگر حقیقت میں وہ ان کے اندر زندہ ہو تو جوں ہی ان کے علم میںیہ بات آئے کہ اسلامی جماعت کا کوئی شخص کوئی کام اسلامی نظریہ کے خلاف کر رہا ہے، یہ اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جائیں اوراس سے توبہ کرا کے چھوڑیں۔ کسی کا مدد چاہنا تو درکنار، ایک زندہ اسلامی سوسائٹی میں تو کوئی شخص اصولِ اسلام کے خلاف ورزی کا نام تک نہیں لے سکتا۔ لیکن آپ کی اس سوسائٹی میں رات دن یہی معاملہ ہو رہا ہے‘ اور اس کی وجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ آپ کے اندر جاہلی قومیّت آگئی ہے۔ جس چیز کو آپ اسلامی اخوت کہہ رہے ہیں یہ دراصل جاہلی قومیّت کا رشتہ ہے‘ جو آپ نے غیر مسلموں سے لے لیا ہے۔اسی جاہلیت کا ایک کرشمہ یہ ہے‘ کہ آپ کے اندر ’’قومی مفاد‘‘ کا ایک عجیب تصوّر پیدا ہو گیا ہے‘ اور آپ اس کو بے تکلف ’’اسلامی مفاد‘‘ جبھی کہہ دیا کرتے ہیں۔ یہ نام نہاد اسلامی مفاد کیا چیز ہے؟ یہ کہ جو لوگ ’’مسلمان‘‘ کہلاتے ہیں ان کا بھلا ہو، ان کے پاس دولت آئے، ان کی عزت بڑھے، ان کو اقتدار نصیب ہو، اور کسی نہ کسی طرح ان کی دنیا بن جائے بلا اس لحاظ کے یہ سب فائدے اسلامی نظریہ اور اسلامی اصول کی پیروی کرتے ہوئے حاصل ہوں یا خلاف ورزی کرتے ہوئے۔ پیدائشی مسلمان یا خاندانی مسلمان کو آپ ’’مسلمان‘‘ کہتے ہیں، چاہے اس کے خیالات اور اس کے طرزِعمل میں اسلام کی صفت کہیں ڈھونڈے نہ ملتی ہو۔ گویا آپ کے نزدیک مسلمان روح کا نہیں‘ بلکہ جسم کا نام ہے‘ اور صفت ِاسلام سے قطع نظر کرکے بھی ایک شخص کو مسلمان کہا جا سکتا ہے۔اس غلط تصوّر کے ساتھ جن جسموں کا اسم ذات آپ نے مسلمان رکھ چھوڑا ہے ان کی حکومت کو آپ اسلامی حکومت، ان کی ترقی کو آپ اسلامی ترقی، ان کے فائدے کو آپ اسلامی مفاد قرار دیتے ہیں، خواہ یہ حکومت اور یہ ترقی اور یہ مفاد سرا سر اصولِ اسلام کے منافی ہو۔ جس طرح جر منیت کسی اصول کا نام نہیں، محض ایک قومیّت کا نام ہے، اور جس طرح ایک جرمن قوم پرست صرف جرمنوں کی سر بلندی چاہتا ہے خواہ کسی طریقے سے ہو، اسی طرح آپ نے ’’مسلمانیت‘‘ کو محض ایک قومیّت بنا لیا ہے‘ اور آپ کے مسلمان قوم پرست محض اپنی قوم کی سر بلندی چاہتے ہیں خواہ یہ سر بلندی اصولاً اور عملاً اسلام کے بالکل برعکس طریقوں کی پیروی کا نتیجہ ہو۔ کیا یہ جاہلیت نہیں ہے؟ کیا درحقیقت آپ اس بات کو بھول نہیں گئے ہیں‘ کہ مسلمان صرف اس بین الاقوامی پارٹی کا نام تھا جو دنیا میں انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ایک خاص نظریہ اور ایک عملی پروگرام لے کراٹھی تھی؟ اس نظریہ اور پروگرام کو الگ کرنے کے بعد محض اپنی شخصی یا اجتماعی حیثیت سے جو لوگ کسی دوسرے نظریہ اور پروگرام پر کام کرتے ہیں ان کے کاموں کو آپ ’’اسلامی‘‘ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ کیا فاشستی طرز ادارہ کاآپ جمہوری طرز ادارہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں؟ اگر کوئی شخص اس طرح اصطلاحوں کو بے جا استعمال کرے تو آپ شاید اسے جاہل اور بے وقوف کہنے میں ذرا تامل نہیں کریں گے۔ مگر یہاں ہم دیکھتے ہیں‘ کہ اسلام اور مسلمان کی اصطلاح کو بالکل بیجا استعمال کیا جا رہا ہے‘ اور اس میں کسی کو جاہلیت کی بو تک محسوس نہیں ہوتی۔
مسلمان کا لفظ خود ظاہر کر رہا ہے‘ کہ یہ’’اسم ذات‘‘ نہیں‘ بلکہ ’’اسم صفت‘‘ ہی ہو سکتا ہے، اور ’’پیرو اسلام‘‘ کے سوا اس کا کوئی دوسرا مفہوم سرے سے ہے ہی نہیں۔ یہ انسان کی اس خالص ذہنی، اخلاقی اور عملی صفت کو ظاہر کرتا ہے‘ جس کا نام’’اسلام‘‘ ہے۔ لہٰذا آپ اس لفظ کو شخص مسلمان کے لیے اس طرح استعمال نہیں کر سکتے‘ جس طرح آپ ہندو یا جاپانی یا چینی کے الفاظ شخص ہندو، شخص جاپانی یا شخص چینی کے استعمال کرتے ہیں۔ مسلمانوں کا سا نام رکھنے والا جونہی اصولِ اسلام سے ہٹا، اس سے مسلمان ہونے کی حیثیت خود بخود سلب ہو جاتی ہے۔ اب وہ جو کچھ کرتا ہے اپنی شخصی حیثیت میں کرتا ہے۔ اسلام کا نام استعمال کرنے کا اسے کوئی حق نہیں ہے۔ اسی طرح ’’مسلمان کا مفاد‘‘، ’’مسلمان کی ترقی‘‘، ’’مسلمان کی حکومت و ریاست‘‘، ’’مسلمان کی وزارت‘‘، ’’مسلم کی تنظیم‘‘ اور ایسے ہی دوسرے الفاظ آپ صرف ان مواقع پر بول سکتے ہیں جب کہ یہ چیزیں اسلامی نظریہ اور اصول کے مطابق ہوں‘ اور اس مشن کو پورا کرنے سے متعلق ہوں‘ جو اسلام لے کر آیا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہو تو ان میں سے کسی چیز کے ساتھ بھی لفظ مسلمان کا استعمال درست نہیں۔ آپ ان کو جس دوسرے نام سے چاہیں موسوم کریں، بہرحال مسلمان کے نام سے موسوم نہیں کر سکتے کیونکہ صفت اسلام سے قطع نظر کرکے مسلمان سرے سے کوئی شے ہی نہیں ہے۔ آپ کبھی اس بات کا تصوّر نہیں کر سکتے کہ اشتراکیت سے قطع نظر کرکے کسی شخص یا قوم کا نام اشتراکی ہے‘ اور اس معنی میں کسی مفاد کو اشتراکی مفاد، یا کسی حکومت یا کسی تنظیم کو اشتراکیوں کی حکومت یا تنظیم، یا کسی ترقی کو اشتراکیوں کی ترقی کہا جا سکتا ہے۔ پھر آخر مسلمان کے معاملہ میں آپ نے یہ کیوں سمجھ رکھا ہے‘ کہ اسلام سے قطع نظر کر کے مسلمان کسی شخص یا قوم کا ذاتی نام ہے‘ اور اس کی ہر چیز کو اسلامی کہہ دیا جا سکتا ہے۔
اس غلط فہمی نے بنیادی طور پر اپنی تہذیب، اپنے تمدّن اور اپنی تاریخ کے متعلق آپ کے روّیہ کو غلط کر دیا ہے۔ جو بادشاہتیں اور حکومتیں غیر اسلامی اصولوں پر قائم ہوئی تھیں آپ ان کو ’’اسلامی حکومتیں‘‘ کہتے ہیں، محض اس لیے کہ ان کے تخت نشین مسلمان تھے۔ جو تمدّن قرطبہ و بغداد اور دہلی و قاہرہ کے عیش پرست درباروں میں پرورش پایا تھا، آپ اسے ’’اسلامی تمدّن‘‘ کہتے ہیں۔ حالانکہ اسلام سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔ آپ سے جب اسلامی تہذیب کے متعلق سوال کیا جاتا ہے‘ تو آپ جھٹ سے آگرہ کے تاج محل کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں گویا یہ ہے اس تہذیب کا سب سے زیادہ نمایاں نمونہ، حالانکہ اسلامی تہذیب سرے سے یہ ہے ہی نہیں کہ میت کو سپرد خاک کرنے کے لیے ایکٹروں زمین مستقل طور پر گھیر لی جائے‘ اور اس پر لاکھوں روپے کی عمارت تیار کی جائے۔ آپ جب اسلامی تاریخ کے مفاخر بیان کرنے پر آتے ہیں‘ تو عباسیوں، سلجوقیوں اور مغلوں کے کارنامے بیان کرتے ہیں۔ حالانکہ حقیقی اسلامی تاریخ کے نقطۂ نظر سے ان کارناموں کا بڑا حصہ آب زر سے نہیں‘ بلکہ سیاہ روشنائی سے جرائم کی فہرست میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ آپ نے مسلمان بادشاہوں کی تاریخ کا نام ’’اسلامی تاریخ‘‘ رکھ چھوڑا ہے۔ بلکہ آپ اسے ’’تاریخ اسلام‘‘ بھی کہہ دیتے ہیں، گویا ان بادشاہوں کا نام اسلام ہے۔ آپ بجائے اس کے کہ اسلام کے مشن اور اس کے اصول و نظریات کو سامنے رکھ کر گزشتہ تاریخ کا احتساب کریں، اور پورے انصاف کے ساتھ اسلامی حرکات کو غیر اسلامی حرکات سے ممتاز کرکے دیکھیں‘ اور دکھائیں، اسلامی تاریخ کی خدمت آپ اس کو سمجھتے ہیں‘ کہ مسلمان حکمرانوں کی حمایت و مدافعت کریں۔ آپ کے زاویۂ نظر میں یہ کجی صرف اس لیے پیدا ہوئی کہ آپ مسلمان کی ہر چیز کو ’’اسلامی‘‘ سمجھتے ہیں‘ اور آپ کاگمان یہ ہے‘ کہ جو شخص مسلمان کہلاتا ہے وہ اگر غیر مسلمانہ طریق پر بھی کام کرے تو اس کے کام کو مسلمان کا کام کہا جا سکتا ہے۔
یہی ٹیڑھا زاویۂ نظر آپ نے اپنی ملی سیاست میں بھی اختیار کر رکھا ہے۔ا سلام کے اصول و نظریات اور اس کے مشن سے قطع نظر کرکے آپ ایک قوم کو ’’مسلم قوم‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں‘ اور اس قوم کی طرف سے، یا اس کے نام سے، یا اس کے لیے ہر شخص اور ہر گروہ من مانی کاروائیاں کر سکتا ہے۔ آپ کے نزدیک ہر وہ شخص مسلمانوں کا نمائندہ بلکہ ان کا لیڈر بھی بن سکتا ہے‘ جو ’’مسلمانوں کی قوم‘‘ سے تعلق رکھتا ہو۔ خواہ اس غریب کو اسلام کے متعلق کچھ بھی معلوم نہ ہو۔ آپ ہر اس پارٹی کے ساتھ لگ چلنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ جس کی پیروی میں آپ کو کسی نوعیت کا فائدہ نظر آئے، خواہ اس کا مشن اسلام کے مشن سے کتنا ہی مختلف ہو۔ آپ خوش ہو جاتے ہیں جب مسلمانوں کو چار روٹیاں ملنے کا کوئی انتظام ہو جائے خواہ اسلام کی نگاہ میں وہ حرام کی روٹیاں ہی کیوں نہ ہوں۔ آپ پھولے نہیں سماتے جب کسی جگہ مسلمان آپ کو اقتدار کی کرسی پر بیٹھا نظر آتا ہے، خواہ وہ اس اقتدار کو بالکل اسی طرح غیر اسلامی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہو‘ جس طرح ایک غیر مسلم کر سکتا ہے۔ آپ اکثر ان چیزوں کا نام اسلامی مفاد رکھتے ہیں‘ جو حقیقتاً غیر اسلامی ہیں، ان اداروں کی حمایت و حفاظت پر اپنا زور صرف کرتے ہیں‘ جو اصولِ اسلام کے بالکل خلاف قائم ہوئے ہیں، اور ان مقاصد کے پیچھے اپنا روّیہ اور اپنی قومی طاقت ضائع کرتے ہیں‘ جو ہرگز اسلامی نہیں ہیں۔ یہ سب نتائج اسی ایک بنیادی غلطی کے ہیں‘ کہ آپ نے اپنے آپ کو محض ایک ’’قوم‘‘ سمجھ لیا ہے‘ اور اس حقیقت کو آپ بھول گئے ہیں‘ کہ دراصل آپ ایک ’’بین الاقوامی پارٹی‘‘ ہیں‘ جس کا کوئی مفاد اور کوئی مقصد اپنی پارٹی کے اصولوں کو دنیا میں حکمران بنانے کے سوا نہیں ہے۔ جب تک آپ اپنے اندر قوم کے بجائے پارٹی کا تصوّر پیدا نہ کریں گے‘ اور اس کو ایک زندہ تصوّر نہ بنائیں گے، زندگی کے کسی معاملہ میںبھی آپ کا روّیہ درست نہ ہو گا۔ (ترجمان القرآن، صفر ۵۸ھ (اپریل ۱۹۳۹ء)
استدراک
اس مضمون کی اشاعت کے بعد متعدّد اصحاب نے اس شبہ کا اظہارکیا کہ ’’اسلامی جماعت‘‘ کو ’’قوم‘‘ کے بجائے ’’پارٹی‘‘ کہنے سے اس امر کی گنجائش نکلتی ہے‘ کہ وہ کسی وطنی قومیّت کی جزو بن کر رہے۔ جس طرح ایک قوم میں مختلف سیاسی پارٹیاںہوتی ہیں‘ اور اپنا الگ الگ مسلک رکھنے کے باوجود سب کی سب اس بڑے مجموعہ میں شامل رہتی ہیں‘ جس کو ’’قوم‘‘ کہا جاتا ہے، اسی طرح اگر مسلمان ایک پارٹی ہیں‘ تو وہ بھی اپنے وطن کی قوم کا جزو بن کر سکتے ہیں۔
چونکہ جماعت یا پارٹی کے لفظ کو عام طور پر لوگ سیاسی یا پولیٹیکل پارٹی کے معنی میں لیتے ہیں اس وجہ سے وہ غلط فہمی پیدا ہوئی جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن یہ اس لفظ کا اصلی مفہوم نہیں ہے‘ بلکہ ایک خاص معنی میں بکثرت استعمال ہونے سے پیدا ہو گیا ہے۔ اصلی مفہوم اس لفظ کا یہ ہے‘ کہ جو لوگ ایک مخصوص عقیدے، نظریے، مسلک اور مقصد پر مجتمع ہوں وہ ایک جماعت ہیں۔ اس معنی میں قرآن نے ’’حزب‘‘اور ’’امت‘‘کے الفاظ استعمال کئے ہیں، اور اسی معنی میں ’’جماعت‘‘ کا لفظ احادیث اور آثار میںمستعمل ہوا ہے‘ اور یہی مفہوم ’’پارٹی‘‘ کا بھی ہے۔
اب ایک جماعت تو وہ ہے‘ جس کے پیشِ نظر ایک قوم یا ملک کے مخصوص حالات کے لحاظ سے سیاسی تدبیرکاایک خاص نظریہ اور پروگرام ہوتا ہے۔ اس قسم کی جماعت محض ایک سیاسی جماعت ہوتی ہے۔ اس لیے وہ اس قوم کا جزو بن کر کام کر سکتی ہے‘ اور کرتی ہے‘ جس میں وہ پیدا ہو۔
دوسری جماعت وہ ہوتی ہے‘ جو ایک کلی نظریہ اور جہانی تصوّر (world Idea)لے کر اٹھتی ہے۔جس کے سامنے تمام نوع انسانی کے لیے(بلا لحاظ قوم و وطن) ایک عالم گیر مسلک ہوتا ہے۔ جو پوری زندگی کی تشکیل و تعمیر ایک ڈھنگ پر کرنا چاہتی ہے۔ جس کا نظریہ و مسلک، عقائد و افکار اور اصول اخلاق سے لے کر انفرادی برتاؤ اور اجتماعی نظام کی تفصیلات تک ہر چیز کو اپنے سانچے میںڈھالنا چاہتا ہے۔جو ایک مستقل تہذیب اور ایک مخصوص تمدّن (civilization) کو وجود میں لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ جماعت بھی اگرچہ حقیقت میں ایک جماعت ہی ہوتی ہے، لیکن یہ اس قسم کی جماعت نہیں ہوتی جو کسی قوم کا جزو بن کر کام کر سکتی ہو۔ یہ محدود قومیّتوںسے بالا تر ہوتی ہے۔ اس کا تو مشن ہی یہ ہوتا ہے‘ کہ ان نسلی و روایتی تعصبات کو توڑ دے جن پر دنیا میں مختلف قومیّتیں بنتی ہیں۔ پھر یہ خود اپنے آپ کو کس طرح ان قومیّتوں کے ساتھ وابستہ کر سکتی ہے؟ یہ نسلی و تاریخی قومیّتوںکے بجائے ایک عقلی قومیّت (rational nationality) بناتی ہے۔ جامد قومیّتوں کی جگہ ایک نامی قومیّت (expanding nationality) بناتی ہے۔ یہ خود ایک ایسی قومیّت بنتی ہے‘ جو عقلی و تہذیبی وحدت کی بنیاد پر روئے زمین کی پوری آبادی کو اپنے دائرے میں لینے کے لیے تیار ہوتی ہے۔ لیکن ایک قومیّت بننے کے باوجود حقیقت میں یہ ایک جماعت ہی رہتی ہے۔ کیونکہ اس ٍمیں شامل ہونے کا مدار پیدائش پر نہیںہوتا بلکہ اس نظریہ و مسلک کی پیروی ہوتا ہے‘ جس کی بنیاد پر یہ جماعت بنی ہے۔
مسلمان دراصل اسی دوسری قسم کی جماعت کا نام ہے۔ یہ اس قسم کی پارٹی نہیں ہے‘ جیسی پارٹیاں ایک قوم میں بنا کرتی ہیں۔ بلکہ یہ اس قسم کی پارٹی ہے‘ جو ایک مستقل نظام تہذیب و تمدّن (civilizatin) بنانے کے لیے اٹھتی ہے‘ اور چھوٹی چھوٹی قومیّتوں کی تنگ سرحدوں کو توڑ کرعقلی بنیادوں پر ایک بڑی جہانی قومیّت (world nationality)بنانا چاہتی ہے۔اس کو ’’قوم‘‘ کہنا اس لحاظ سے یقینا درست ہو گا کہ یہ اپنے آپ کو دنیا کی نسلی یا تاریخی قومیّتوں میں سے کسی قومیّت کے ساتھ بھی باعتبار جذبات وابستہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی بلکہ اپنے نظریہ حیات اور فلسفہ اجتماعی (social philosophy) کے مطابق خود اپنی تہذیب و مدنیت کی عمارت الگ بناتی ہے۔ لیکن اس معنی کے لحاظ سے ’’قوم‘‘ ہونے کے باوجود یہ حقیقت میں ’’جماعت‘‘ ہی رہتی ہے۔ کیونکہ محض اتفاقی پیدائش (mere accident of birth) کسی شخص کو اس قوم کا ممبر نہیں بنا سکتی جب تک کہ وہ اس کے مسلک کا معتقد اور پیرو نہ ہو۔ اور اسی طرح کسی شخص کا کسی دوسری قوم میں پیدا ہونا اس کے لیے اس امر میں مانع بھی نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنی قوم سے نکل کر اس قوم میں داخل ہو جائے جب کہ وہ اس کے مسلک پر ایمان لانے کے لیے تیار ہو۔ پس جو کچھ میں نے کہا ہے اس کا مطلب دراصل یہ ہے‘ کہ مسلم قوم کی قومیّت اس کے ایک جماعت یا پارٹی ہونے ہی کی بنا پر قائم ہے۔ جماعتی حیثیت جڑ کا حکم رکھتی ہے‘ اور قومی حیثیت اس کی فرع ہے۔ اگر جماعتی حیثیت کو اس سے الگ کر لیا جائے‘ اور یہ مجرد ایک قوم بن کر رہ جائے‘ تو یہ اس کا تنزل (degeneration) ہے۔
حقیقت یہ ہے‘ کہ انسانی اجتماعات کی تاریخ میں اسلامی جماعت کی حیثیت بالکل نرالی اور انوکھی واقع ہوئی ہے۔ اسلام سے پہلے بودھ مت اور مسیحیت نے قومیّتوں کے حدود کو توڑ کر تمام عالم انسانی کو خطاب کیا اور ایک نظریہ و مسلک کی بنیاد پرعالمگیر برادری بنانے کی کوشش کی۔ مگر ان دونوںمسلکوں کے پاس چند اخلاقی اصولوںکے سوا کوئی ایسا اجتماعی فلسفہ نہ تھا جس کی بنیاد پر تہذیب و تمدّن کا کوئی کلی نظام بنا سکتے۔ اس لیے یہ دونوں مسلک کوئی عالمگیر قومیّت نہ بناسکے بلکہ ایک طرح کی برادری (brotherhood) بنا کر رہ گئے۔ اسلام کے بعد مغرب کی سائنٹفک تہذیب اٹھی، جس نے اپنے خطاب کو بین الاقوامی بنانا چاہا، مگر اوّل یوم پیدائش سے اس پر نیشنلزم کا بھوت سوار ہو گیا لہٰذا یہ بھی عالمگیر قومیّت بنانے میں ناکام ہوئی۔ اب مارکسی اشتراکیت آگے بڑھی ہے‘ اور قومیّتوں کی حدوں کو توڑ کر جہانی تصوّر کی بنیاد پر ایک ایسی تہذیب وجود میں لانا چاہتی ہے‘ جو عالمگیر ہو۔ لیکن چونکہ ابھی تک وہ نئی تہذیب پوری طرح وجود میں نہیں آئی جو اس کے پیشِ نظر ہے، اس لیے ابھی تک مارکسیت بھی ایک عالمگیر قومیّت میں تبدیل نہیںہو سکی ہے۔ اس وقت تک میدان میں تنہا اسلام ہی ایک ایسا نظریہ و مسلک ہے‘ جو نسلی اور تاریخی قومیّتوںکو توڑ کر تہذہبی بنیادوں پر ایک عالمگیر قومیّت بناتا ہے۔ لہٰذا جو لوگ اسلام کی اسپرٹ سے اچھی طرح واقف نہیںہیں ان کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے‘ کہ ایک ہی اجتماعی ہیئت کس طرح بیک وقت قوم بھی اور پارٹی بھی ہوسکتی ہے۔ وہ دنیا کی جتنی قوموں کو جانتے ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسی نہیں ہے‘ جس کے ارکان پیدا نہ ہوتے ہوں بلکہ بنتے ہوں۔ وہ دیکھتے ہیں‘ کہ جو شخص اٹالین پیدا ہوا ہے وہ اٹالین قومیّت کا رکن ہے۔اور جو اٹالین پیدا نہیں ہوا وہ کسی طرح اٹالین نہیں بن سکتا۔ ایسی کسی قومیّت سے وہ واقف نہیں ہیںجس کے اندر آدمی اعتقاد اور مسلک کی بنا پرداخل ہوتا ہو، اور اعتقاد و مسلک کے بدل جانے پر اس سے خارج ہو جاتا ہو۔ ان کے نزدیک یہ صفت ایک قوم کی نہیں‘ بلکہ ایک پارٹی کی ہی ہو سکتی ہے۔ مگر جب وہ دیکھتے ہیں‘ کہ یہ نرالی پارٹی اپنی الگ تہذیب بناتی ہے، اپنی مستقل قومیّت کا ادعا کرتی ہے‘ اور کسی جگہ بھی مقامی قومیّت کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کرنے پر راضی نہیں ہوتی‘ تو ان کے لیے یہ معاملہ ایک چیستان بن کر رہ جاتا ہے۔
یہی نا فہمی غیر مسلموں کی طرح مسلمانوں کو بھی پیش آرہی ہے۔ مدتوں سے غیر اسلامی تعلیم و تربیت پاتے رہنے اور غیر اسلامی ماحول میں زندگی گزارنے کی وجہ سے ان کے اندر ’’تاریخی قومیّت‘‘ کا جاہلی تصوّر پیدا ہو گیا ہے۔ یہ اس بات کو بھول گئے ہیں‘ کہ ہماری اصلی حیثیت ایک ایسی جماعت کی تھی‘ جو دنیا میں ایک عالمگیر انقلاب برپا کرنے کے لیے وجود میں آئی تھی، جس کی زندگی کا مقصد اپنے نظریہ کو دنیا میں پھیلانا تھا جس کا کام دنیا کے غلط اجتماعی نظامات کو توڑ پھوڑ کر اپنے فلسفہ اجتماعی کی بنیاد پر ایک اجتماعی نظام مرتب کرنا تھا۔ یہ سب کچھ بھول بھال کر انہوں نے اپنے آپ کو بس اسی قسم کی ایک قو م سمجھ لیا ہے‘ جیسی اور بہت سی قومیں موجود ہیں۔ اب ان کی مجلسوں اور انجمنوں میں، ان کی کانفرنسوں اور جمعیتوں میں، ان کے اخباروں اور رسالوں میںِ کہیں بھی ان کی اجتماعی زندگی کے اس مشن کا ذکر نہیں آتا جس کے لیے ان کو دنیا بھر کی قوموں میں سے نکال کر ایک اُمت بنایا گیا تھا۔ اس مشن کے بجائے اب جو چیز ان کی تمام توجہات کا مرکز بنی ہوئی ہے وہ’’‘مسلمانوں کا مفاد‘‘ ہے۔ مسلمانوں سے مراد وہ سب لوگ ہیں‘ جو مسلمان ماںباپ کی نسل سے پیدا ہوئے ہیں، اور مفاد سے مراد ان نسلی مسلمانوں کا مادّی و سیاسی مفاد ہے‘ یا بدرجہ آخر اس کلچر کا تحفط ہے‘ جو ان کو آبائی ورثہ میں ملی ہے۔اس مفاد کی حفاظت و ترقی کے لیے جو تدبیر بھی کارگر ہو اس کی طرف یہ دوڑ جاتے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح مسولینی ہر اس طریقہ کو اختیار کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے‘ جو اطالویوں کے مفاد کے لیے مناسب ہو۔ کسی اصول اور نظریہ کا نہ وہ پابند ہے نہ یہ۔ وہ کہتا ہے‘ کہ جو کچھ اطالویوں کے لیے مفید ہو وہ حق ہے، یہ کہتے ہیں‘ کہ جو کچھ ’’مسلمانوں‘‘ کے لیے مفید ہو وہ حق ہے۔ یہی چیز ہے‘ جس کو میں مسلمان کا تنزل کہتا ہوں۔ اور اسی تنزل کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے مجھے یاد دلانے کی ضرورت پیش آئی ہے‘ کہ تم نسلی اور تاریخی قوموں کی طرح ایک قوم نہیں ہو بلکہ حقیقت میں ایک جماعت ہو، اور تمہاری نجات صرف اس چیز میں ہے‘ کہ اپنے اندر جماعتی احساس (party sense) پیدا کرو۔
اس جماعتی احساس کے فقدان یا خود فراموشی کے برے نتائج اتنے زیادہ ہیںکہ ان کا شمار کرنا مشکل ہے۔ یہ اسی بے حسی و خود فراموشی کا نتیجہ ہے‘ کہ مسلمان ہررہرو کے پیچھے چلنے اور ہر نظریے اور مسلک کی پیروی کرنے کے لیے تیار ہو جاتاہے، خواہ وہ اسلام کے نظریے اور اس کے مقاصد اور اس کے اصولوں سے کتنا ہی ہٹا ہوا ہو۔ وہ نیشنلسٹ بھی بنتا ہے۔ کمیونسٹ بھی بن جاتا ہے، فاشستی اصول تسلیم کرنے میں بھی اسے کوئی تامل نہیں ہوتا۔ مغرب کے مختلف اجتماعی فلسفوں اور ما بعد الطبیعی افکار اور علمی نظریات میں سے قریب قریب ہر ایک کے پیرو آپ کو مسلمانوں میں مل جائیں گے۔دنیا کی کوئی سیاسی، اجتماعی یا تمدّنی تحریک ایسی نہیں جس کے ساتھ کچھ نہ کچھ مسلمان شریک نہ ہوں، اور لطف یہ ہے‘ کہ یہ سب اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، سمجھتے ہیں‘ اور سمجھے جاتے ہیں۔ ان مختلف راہوں پر بھٹکنے اور دوڑنے والوں میںسے کسی ایک کو بھی یہ یاد نہیں آتا کہ ’’مسلمان‘‘ کوئی پیدائشی لقب نہیں ہے‘ بلکہ اسلام کی راہ پر چلنے والے کا اسم صفت ہے۔ جو شخص اسلام کی راہ سے ہٹ کر کسی دوسری راہ پر چلے اس کو مسلمان کہنا اس لفظ کا بالکل غلط استعمال ہے۔ مسلم نیشنلسٹ اور مسلم کمیونسٹ اور اسی قسم کی دوسری اصطلاحیں بالکل اسی طرح کی متناقض اصطلاحیں ہیںجس طرح ’’کمیونسٹ مہاجن‘‘ اور ’’بدھسٹ قصائی‘‘کی اصطلاحیں متناقض ہیں۔ (ترجمان القرآن، ربیع الثانی ۵۸ھ، جون ۱۹۳۹ء)

خ خ خ

شیئر کریں