Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مقدّمہ
حصہ اوّل : ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ایک تاریخی جائزہ
تقدیم{ FR 2891 }
باب ۱: آنے والا انقلاب اور مسلمان
باب ۲ : حالات کا جائزہ اور آئندہ کے امکانات
باب ۳ : ہمارا سیاسی نصب ُالعین
باب ۴ : راہِ عمل
حصہ دوم : اِصلاح کا راستہ قرآن و سنّت کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے صحیح راہِ عمل
باب ۵ : مسائلِ حاضرہ میں
باب ۶ اسلام … ایک جامع تہذیب دین و دنیا کی علیحدگی کا جاہلی تصوّر اور ہماری قومی سیاست میں اس کے اثرات
باب ۷ : شُبہات اور جوابات
حصہ سوم : کانگریس، متحدہ قومی تحریک اور مسلمان
تقدیم
باب ۸: مسلمانوں کی غلط نمائندگی اوراس کے نتائج
باب ۹: آزادی اور قومی تشخّص
باب ۱۰ : قوم پرستوں کے نظریات
باب ۱۱ : آزادی کی فوج کے مسلمان سپاہی
باب ۱۲ : حصول آزادی کا طریقہ
باب ۱۳ : جنگ ِ آزادی کا مطمح نظر
باب ۱۴ : قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟
باب ۱۵: بنیادی حقوق
باب ۱۶ : متحدہ قومیّت اور اسلام
باب ۱۷ : کیا ہندستان کی نجات نیشل ازم میں ہے؟
باب ۱۸ : اسلامی قومیّت کا حقیقی مفہوم 
باب ۱۹ : جنگِ آزادی کی نوعیت
باب ۲۰ : کانگریس اور مسلمان
حصہ چہارم : ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کے حل کی راہیں تین تجاویز
باب ۲۱ : مسلمان کیا کریں؟ تین تجاویز

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

باب ۱۷ : کیا ہندستان کی نجات نیشل ازم میں ہے؟

جناب مولانا عبید اللہ سندھی ایک طویل مدّت کی جلا وطنی کے بعد جب ہندستان واپس تشریف لائے تو جمعیت علمائے بنگال نے ان کو اپنے کلکتہ کے اجلاس میں خطبۂ صدارت ارشاد فرمانے کی دعوت دی، اور اس خطبہ کے ذریعہ سے ہندستان میں پہلی مرتبہ لوگ ان کے مخصوص نظریات سے روشناس ہوئے۔خصوصیت کے ساتھ ان کے جن فقروں پر مسلمانوںمیں عموماً ناراضی پھیلی وہ حسب ذیل ہیں :
۱- اگر میرا وطن اس انقلاب کے نقصان سے بچنا چاہتا ہے‘ جو اس وقت دنیا پر چھا گیا ہے‘ اور روز بروز چھاتا جا رہا ہے‘ تو اسے یورپین اصولوں پر نیشنل ازم کو ترقی دینا چاہیے۔ پچھلے زمانہ میں ہمارا ملک جس قدر نامور رہا ہے اسے دنیا جانتی ہے‘ مگر اس سے ہم کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے‘ جب تک ہم آج کی قوموں میں اپنا وقار ثابت نہ کر سکیں۔
۲- میں سفارش کرتا ہوں کہ ہمارے اکابر مذہب و ملّت برٹش گورنمنٹ کے دو صد سالہ عہد سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کی کوشش کریں۔ جس طرح ہم نے یورپ سے تنفّربرت کر اپنی ترقی کو محدود کر لیا ہے اسے اب خیر باد کہیں اس معاملہ میں میں نے ترکی قوم کے اس انقلاب کا پوری طرح مطالعہ کیا ہے‘ جو سلطان محمود سے شروع ہو کر مصطفی کمال کی جمہوریت پر ختم ہوتا ہے … میں چاہتا ہوں کہ یورپ کے انٹرنیشنل اجتماعات میں ہمارا وطن ایک معزز ممبر مانا جائے۔ اس کے لیے ہمیں اپنی معاشرت میں انقلاب کی ضرورت محسوس ہوگی۔
اس معاشرتی انقلاب کی تشریح آگے چل کر مولانا نے اپنے اس انقلابی پروگرام میں کی ہے، جو انہوں نے صوبہ سندھ کے لیے تجویز کیا ہے۔ چنانچہ اس میں فرماتے ہیں:
سندھی اپنے وطن کا بنا ہوا کپڑا پہنے گا مگر وہ کوٹ پتلون کی شکل میں ہو گا یا کالر دار قمیص اور نِکّر کی صورت میں۔ مسلمان اپنا نِکّر گھٹنے سے نیچے تک استعمال کر سکتے ہیں۔ ہیٹ دونوں صورتوں میں بے تکلف استعمال کیا جائے گا۔ جب مسلمان مسجد میں آئے گا ہیٹ اتار کر ننگے سر نماز پڑھ لے گا۔
مولانا سندھی ایک تجربہ کار اور جہاں دیدہ عالمِ دین ہیں۔انہوںنے جو قربانیاں اپنے اصول اور مشن کی خاطر سالہا سال تک دی ہیں وہ ان کے خلوص کو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر ثابت کرتی ہیں۔ لہٰذا اگر ان جیساایک مخلص اور جہاں دیدہ عالم ہمارے سامنے بعض اجتماعی مسائل پر اپنے کچھ نظریات، جو ظاہر ہے‘ کہ ان کے طویل تجربات اور برسوںکے غور و فکر پر مبنی ہیں، پیش کرتا ہے، تو ہمارے لیے مناسب تر بات یہ ہے‘ کہ اپنے ذہن کو شکوہ و شکایت یا شبہات میں الجھانے کے بجائے ان کے نظریات کو علمی حیثیت سے جانچ کر دیکھیں، اور سنجیدگی کے ساتھ ان پر تنقید کریں۔ ایک ذی علم اور فہیم آدمی جو نیک نیت بھی ہو، اس سے ہم بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں‘ کہ جب اس کی غلطی اس پر واضح ہو جائے گی‘ تو وہ اس سے رجوع کر لے گا۔ اور بالفرض اگر وہ اپنی غلطی کا معترف نہ بھی ہو، تب بھی اس کے غلط نظریے کو زمین میںجڑ پکڑنے سے صرف سنجیدہ علمی تنقید ہی روک سکتی ہے۔ شکوہ و شکایت اور طنز و تعریض سے اس کا سدّباب نہیں کیا جا سکتا۔
نیشنل ازم بربنائے مصلحت
یورپین اصول پر نیشنل ازم کو ترقی دینے کا مشورہ مولانا نے جن وجوہ و دلائل کی بناپر دیا ہے وہ خود ان کے الفاظ میں یہ ہیں :
۱- ’’اگر میرا وطن اس انقلاب کے نقصان سے بچنا چاہتا ہے‘ جو اس وقت دنیا پر چھا گیا ہے‘ اور چھاتا چلا جا رہا ہے‘ تو …‘‘ اسے ایسا کرنا چاہیے۔
۲- پچھلے زمانہ میںہمارا ملک جس قدر نامور رہا ہے اسے دنیا جانتی ہے‘ مگر اس سے ہم کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے‘ جب تک ہم آج کی قوموں میں اپنا وقار ثابت نہ کر سکیں …‘‘۔اور وقار اسی طرح قائم ہو سکتا ہے جس طرح آج کل مغربی اقوام نے قائم کیا ہے۔
۳- ہماری ہندستانی تہذیب کا عہد ِقدیم جو ہندو تہذیب کہلاتا ہے‘ اور عہد ِجدید جسے اسلامی تہذیب سمجھا جاتا ہے، دونوں مذہبی اسکول ہیں۔ لیکن آج کل کا یورپین اسکول مذہب سے قطعی نا بلد ہے، اس کا مدار صرف سائنس اور فلسفہ پر ہے، اس لیے ہمارے وطن میں اگر اس انقلاب کو سمجھنے کی استعداد پیدا نہ ہوئی تو سر بسر نقصان ہمارے حصہ میں آئے گا۔
سمجھنے سے مراد غالباً صرف سمجھنا نہیں‘ بلکہ سمجھ کر اختیار کر لینا بھی ہے۔ کیونکہ مولانا کے سابق مقدّمات اسی نتیجہ کی طرف لے جاتے ہیں۔
ان تینوں وجوہ پر غور کیجئے۔ ایک چیز کو اختیار کرنے کا مشورہ اس بنا پر نہیں دیا جا رہا ہے‘ کہ وہ حق اور صداقت ہے‘ یا اخلاقاً بجا اور درست ہے، بلکہ محض مصلحت اور ضرورت (expediency) کی بنا پر دیا جا رہا ہے۔ اس کے بعدایک مسلمان کی نگاہ میں، بلکہ کسی با اصول شخص کی نگاہ میں بھی مولانا کے مشورے کی کیا قدر و قیمت ہو سکتی ہے؟ کسی مسلک یا کسی اصول کو اس دلیل سے قبول کرنا کہ فلاں نقصان سے بچنا ہے، اور فلاں فائدہ حاصل کرنا ہے، اور فلاں چیز اب دنیا میں نہیں چل رہی ہے‘ بلکہ اس کی جگہ یہ چیز چل پڑی ہے، کسی ایسے شخص کا کام نہیںہو سکتا جو خود اپنا کوئی اخلاقی اور عقلی نظریہ رکھتا ہو‘ اور اپنے ضمیر کے تقاضے سے اپنے آپ کو اس کے پھیلانے اور قائم کرنے پر مامور سمجھتا ہو۔ یہ تو نری مصلحت پرستی اور ابن الوقتی (opportunism) ہے۔ اس کو عقلیت اور اخلاقیت سے کیا واسطہ؟ عقلیت اور اخلاقیت کا تقاضا تو یہ ہے‘ کہ تحقیق سے جس اصول کو ہم نے حق پایا ہے‘ اور اخلاقاً جس کے برحق ہونے کا ہم یقین رکھتے ہیں اس پر سختی کے ساتھ قائم رہیں۔ اگر دنیا میں اس کے خلاف کوئی غلط اصول چل پڑا ہے‘ تو ہمارا کام دنیا کے پیچھے دوڑنا نہیں ہے‘ بلکہ دنیا کو کھینچ کر اپنے اصول کی طرف لانا ہے۔ اپنے اعتقاد میں ہماری راستی کا امتحان اسی میں ہے‘ کہ دنیا کے پیچھے نہ چلنے سے جو نقصان ہمیں پہنچتا ہو اسے صبر و ثبات کے ساتھ برداشت کریں۔ اگر دنیا ہماری وقعت اس لیے نہیں کرتی کہ ہم اس کے پیچھے نہیں چلتے تو ایسی دنیا کو ہمیں ٹھوکر مارنی چاہیے۔ وقار ہمارا معبود نہیں ہے‘ کہ اس کی خوشامد کرتے ہوئے ہم ہر اس راستے پر دوڑتے پھریں جس پر اس کی جھلک نظر آئے۔ اگر اس چیز کا زمانہ گزر گیا ہے‘ جو ہمارے اعتقاد میں حق ہے‘ تو ہم میں اتنا بل بوتا ہونا چاہیے‘ کہ زمانہ کا کان پکڑ کر اسے پھر سے حق کی طرف کھینچ لائیں۔ یہ سوچنا پست ہمت، شکست خوردہ لوگوں کا کام ہے‘ کہ اب زمانہ میں فلاں چیز کا چلن ہے‘ تو چلو، اس کو سمجھیں اور سمجھتے سمجھتے حلق سے نیچے بھی اتار لیں۔
اس باب میں مسلمان کو اتنی استقامت تو دکھانی چاہیے جتنی مارکس کے پیروؤں نے جنگ عظیم کے موقع پر دکھائی تھی۔ ۱۹۱۴ء میں جب جنگ چھڑی تھی‘ تو سکینڈ انٹرنیشنل کے ارکان میں اسی نیشنل ازم کے سوال پر زبردست اختلاف برپا ہوا تھا۔ بہت سے وہ سوشلسٹ جو اشتراکیوںکے بین الاقوامی محاذ پر مجتمع تھے، اپنی اپنی قوموں کو میدان جنگ میں کودتے دیکھ کر قوم پرستی کے جذبہ سے مغلوب ہو گئے‘ اور انہوں نے جنگ میں اپنی قوم کا ساتھ دینا چاہا۔ مگر مارکس کے پیروؤں نے کہا کہ ہم ایک ایسے اصول کے لیے جنگ کرنے اٹھے ہیں‘ جس کے لحاظ سے تمام قوموں کے سرمایہ دار ہمارے دشمن اور تمام قوموں کے مزدور ہمارے دوست ہیں۔ پھر ہم کس طرح اس نیشنل ازم کو قبول کر سکتے ہیں‘ جو مزدوروں کو تقسیم کرتاہے‘ اور انہیں سرمایہ دار کے ساتھ ملا کر ایک دوسرے کے مقابلہ میں لڑاتا ہے۔اس بنا پر مارکسیوں نے اپنے سالہا سال کے پرانے رفیقوں سے تعلقات منقطع کر لیے۔ انہوں نے سکینڈ انٹرنیشنل کا ٹوٹ جانا گوارا کر لیا مگر اپنے اصول سے دستبردار ہونا گوارا نہ کیا۔ صرف یہی نہیں‘ بلکہ جو سچے کمیونسٹ تھے‘ انہوں نے عملاً خود اپنے ہاتھوں سے قوم پرستی کے بت کو توڑا۔ جرمن کمیونسٹ نے اپنے اصول کی خاطر جرمنی کے خلاف اور روسی کمیونسٹ نے اپنے اعتقاد کی خاطر روس کے خلاف اور اسی طرح ہر ملک کے کمیونسٹ نے اپنے مسلک کی خاطر اپنے ملک کی حکومت کیخلاف کام کیا۔
جس طرح کمیونسٹ اپنا ایک نظریہ رکھتا ہے، اسی طرح مسلمان بھی اپنا ایک نظریہ رکھتا ہے۔ پھر وہ کیوں اتنا ادنیٰ اور پست ہو جائے‘ کہ کسی نقصان سے بچنے یا کسی کی نگاہ میں وقار قائم کرنے کے لیے اپنے مقام سے ہٹ جائے؟ اور اگر وہ اپنے مقام سے ہٹتا ہے‘ تو اس میں کم از کم اس بات کا شعور تو ہونا چاہیے‘ کہ وہ کس چیز سے ہٹ رہا ہے ا ور کس چیز کی طرف جا رہا ہے، کیونکہ اپنی جگہ چھوڑنا تو محض کمزوری ہے۔ مگر ایک جگہ سے ہٹ جانے کے باوجود اپنے آپ کو اسی جگہ سمجھنا کمزوری کے ساتھ بے شعوری بھی ہے۔ میں ’’مسلمان‘‘ صرف اس وقت ہوں جب تک میں زندگی کے ہر معاملہ میں اسلامی نظریہ رکھتا ہوں۔ جب میں اس نظریہ سے ہٹ گیا‘ اور کسی دوسرے نظریہ کی طرف چلا گیا‘ تو میری جانب سے یہ سرا سر بے شعوری ہو گی اگر میں یہی سمجھتا رہوں‘ کہ اس نئے مقام پر بھی مسلمان ہونے کی حیثیت میرے ساتھ لگی چلی آئی ہے۔ مسلمان ہوتے ہوئے غیر اسلامی نظریہ اختیار کرنا صریح بے معنی بات ہے۔ ’’مسلمان نیشنلسٹ‘‘ اور ’’مسلمان کمیونسٹ‘‘ ایسی ہی متناقض اصطلاحیں ہیں جیسے ’’کمیونسٹ فاشسٹ‘‘ یا ’’جینی قصائی‘‘ یا ’’اشتراکی مہاجن‘‘ یا ’’موّحد بُت پرست‘‘۔
نیشنل ازم اور اسلام
سرسری نظر میں جو شخص نیشنل ازم کے معنی اور اس کی حقیقت پر غور کرے گا اس سے یہ بات چھپی نہیں رہ سکتی کہ اسلام اور نیشنل ازم، دونوں اسپرٹ اور اپنے مقصد کے لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اسلام کا خطاب انسان من حیث الانسان سے ہے۔ وہ سارے انسانوں کے لیے ایک اعتقادی و اخلاقی بنیاد پر عدل اور تقویٰ کا ایک اجتماعی نظام پیش کرتا ہے‘ اور سب کو اس کی طرف بلاتا ہے۔ پھر جو اس نظام کو قبول کر لے اسے مساویانہ حقوق کے ساتھ اپنے دائرہ میں لے لیتا ہے۔ اس کی عبادات میں، اس کی معیشت میں، اس کی سیاست میں، اس کی معاشرت میں، اس کے قانونی حقوق اور فرائض میں، غرض اس کی کسی چیز میںبھی ان لوگوں کے درمیان کسی قسم کی قومی یا نسلی یاجغرافی یا طبقاتی تفریقات کی گنجائش نہیں ہے‘ جو اسلام کے مسلک کی پیروی اختیار کر لیں۔ اس کا منتہائے نظر ایک ایسا جہانی معاشرہ اور ریاست (world state) ہے‘ جس میں نسلی اور قومی تعصبات کی زنجیریں توڑ کر تمام انسانوں کو مساوی حقوق اور مساوی مواقع ترقی کے ساتھ ایک تمدّنی و سیاسی نظام میں حصہ دار بنایا جائے‘ اور مخالفانہ مقابلہ کی جگہ دوستانہ تعاون پیدا کیا جائے‘ تاکہ لوگ ایک دوسرے کی مادّی خوش حالی اور روحانی ترقی میں مدد گار ہوں۔ اسلام انسانی فلاح کے لیے جو اصول اور نظامِ حیات پیش کرتا ہے وہ عام انسانوں کو اپیل ہی اس وقت کر سکے گا جب کہ ان کے اندر جاہلیت کے تعصبات نہ ہوں، اور وہ اپنی قومی روایات کی وابستگی سے، نسلی تفاخر کے جذبات سے، خونی اور خاکی رشتوں کی محبت سے پاک ہو کر محض انسان ہونے کی حیثیت سے یہ جانچنے کی لیے تیار ہوں کہ حق کیا ہے، عدل و انصاف اور راستی کس چیز میں ہے، ایک طبقہ یا ایک قوم یا ایک ملک کی نہیں‘ بلکہ مجموعی حیثیت سے انسانیت کی فلاح کا راستہ کون سا ہے۔
برعکس اس کے نیشنل ازم انسان اور انسان کے درمیان اس کی قومیّت کے لحاظ سے تمیز کرتا ہے۔ نیشنل ازم کے معنی ہی یہ ہیں‘ کہ ہر قوم کا نیشنلسٹ اپنی قومیّت کو دوسری تمام قومیّتوں پر ترجیح دے۔ اگر وہ جفا کار قوم پرست (aggressive nationalist) نہ بھی ہو تب بھی قوم پرستی کا کم سے کم تقاضا یہ ہے‘ کہ وہ تمدّنی، سیاسی اور قانونی حیثیت سے ’’قومی‘‘ اور غیر قومی میں فرق کرے، اپنی قوم والوں کے لیے زیادہ سے زیادہ فوائد محفوط کرے، قومی مفاد کے لیے معاشی امتیازات کی دیواریں کھڑی کرے، جن تاریخی روایات اور روائتی تعصبات پر اس کی قومیّت قائم ہے ان کی سختی کے ساتھ حفاظت کرے اور اپنے اندر قومی تفاخر کے جذبات پرورش کرے۔ وہ دوسری قومیّت کے لوگوں کو مساوات کے اصول پر زندگی کے کسی شعبہ میں بھی اپنے ساتھ شریک نہ کرے گا۔ جہاں اس کی قوم دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ فوائد و منافع سے متمتع ہو رہی ہو یا ہو سکتی ہو، وہاں عدل و انصاف کے لیے اس کا دل اندھا ہو جائے گا۔ اس کا منتہائے نظر جہانی ریاست کے بجائے قومی ریاست (national state) ہو گا۔ اور اگر وہ کوئی جہانی نظریہ اختیار کرے گا بھی تو اس کی صورت لازماً امپیریل ازم یا قیصریت کی صورت ہو گی، کیونکہ اس کے اسٹیٹ میں دوسری قومیّتوں کے لوگ کسی طرح برابر کے حصہّ دار کی حیثیت سے داخل نہیں ہو سکتے، بلکہ صرف غلام کی حیثیت ہی سے داخل ہو سکتے ہیں۔
ان دونوںمسلکوں کے اصول، مقاصد اور روح کا یہ محض ایک سرسری سا خاکہ ہے‘ جس کو دیکھ کر بآسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے‘ کہ یہ دونوں مسلک ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جہاں نیشنل ازم ہے وہاں اسلام کبھی پھل پھول نہیں سکتا، اور جہاں اسلام ہے وہاں نیشنل ازم کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ نیشنل ازم کی ترقی کے معنی یہ ہیں‘ کہ اسلام کے لیے پھیلنے کا راستہ بند ہو جائے، اور اسلام کی ترقی کے معنی یہ ہیں‘ کہ نیشنل ازم جڑ بنیاد سے اُکھاڑ دیا جائے۔ا ب یہ ظاہر ہے‘ کہ ایک شخص ایک وقت میں ان دونوں میں سے کسی ایک ہی کی ترقی کا حامی ہو سکتا ہے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ بیک وقت دونوں کشتیوں پر سوار رہ سکے۔ ایک مسلک کی پیروی کا دعویٰ کرنا اور پھر ساتھ ہی اس کے بالکل مخالف مسلک کی حمایت و وکالت کرنا صاف طورپر نظر کے الجھاؤ اور ذہن کی پراگندگی کا پتہ دیتا ہے، اور جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں ان کے متعلق مجبورا ہمیں یہ رائے قائم کرنی پڑتی ہے‘ کہ وہ یا تو اسلام کو نہیں سمجھتے یا نیشنل ازم کو یا دونوں سے ناواقف ہیں۔
یورپین نیشنل ازم کی حقیقت
یہ تو وہ بات تھی‘ جو نیشنل ازم کے بالکل ابتدائی مفہوم پر غور کرنے سے نکلتی ہے۔ اب ہمیں ذرا آگے بڑھ کر یہ دیکھنا چاہیے‘ کہ وہ’’یورپین نیشنل ازم‘‘ کیا چیز ہے‘ جس کے اصول پر مولانا سندھی ہندوستان میںنیشنل ازم کی ترقی چاہتے ہیں۔
قدیم جاہلیت میں قومیّت کا تصوّر اچھی طرح پختگی کو نہیں پہنچا تھا۔ قوم کی جگہ انسان کے جذبات زیادہ تر نسل یا قبیلہ کے ساتھ وابستہ ہوتے تھے۔ا س لیے اس زمانہ میں قوم پرستی کے بجائے نسل پرستی کا زور تھا، اور اس نسلی عصبیت میں بڑے بڑے عالی دماغ فلسفی اور حکیم تک اندھے ہو جاتے تھے۔ ارسطو جیسا بلند پایہ مفکر اپنی کتاب ’’السیاست‘‘ میں یہ خیال ظاہر کرتا ہے‘ کہ ’’فطرت نے وحشی قوموںکو صرف اس لیے پیدا کیا ہے‘ کہ وہ غلام بن کر رہیں ‘‘۔{ FR 2975 } اس کے نزدیک دولت حاصل کرنے کے لیے فطری اور جائز ذرائع میں سے ایک یہ بھی ہے‘ کہ ’’نوع انسانی کے ایسے طبقات کو غلام بنانے کے لیے جنگ کی جائے جنہیں فطرت نے اسی غرض کے لیے پیدا کیا ہے‘‘۔{ FR 2976 }یہ نظریہ اور زیادہ بھیانک ہو جاتا ہے‘ جب ہم اس کے ساتھ اس حقیقت کو بھی پیشِ نظر رکھتے ہیں‘ کہ یونانیوں کے نزدیک وحشی (barbarians) کے معنی محض ’’غیر یونانی‘‘ کے تھے‘ اور ان کا بنیادی تصوّر یہ تھا‘ کہ یونانی لوگوں کے اخلاق اور انسانی حقوق دوسرے انسانوں سے بالکل مختلف ہیں۔
یہ نیشنل ازم کا ابتدائی جرثومہ تھا جس نے بعد کو یورپ میں ترقی کی۔ اس جرثومہ کے نشوونما کو جو طاقت ایک مدت تک روکتی رہی وہ مسیحیت کی طاقت تھی۔ ایک نبی کی تعلیم، اگرچہ کیسی ہی بگڑی ہوئی صورت میں موجود ہو، بہرحال نسل پرستی اور قوم پرستی کی جگہ ایک وسیع انسانی نقطۂ نظر ہی لیے ہوئے ہو سکتی تھی‘ اس کے ساتھ رومن ایمپائر (roman empire) کے عالمگیر سیاسی نظام نے بھی کم از کم اتنا کام کیا کہ بہت سی چھوٹی قوموں کو ایک مشترک اقتدار کا مطیع و فرماں بردار بنا کر قومی اور نسلی تعصبات کی شدّت کو کم کر دیا۔ اس طرح صدیوں تک یورپ کا روحانی اور شہنشاہ کا سیاسی اقتدار، دونوں مل جل کر عالم مسیحی کو ایک رشتے میں باندھے رہے۔ مگر یہ دونوں طاقتیں ظلم و ستم میں اور علمی و عقلی ترقی کی مخالفت میں ایک دوسرے کی مدد گار تھیں۔ اور دنیوی اقتدار اور مادّی فوائد کی تقسیم میں باہم حریف و معاند تھیں۔ا یک طرف ان کی آپس کی کش مکش نے، دوسری طرف ان کی بداعمالیوں اور ظلم و ستم نے اور تیسری طرف جدید علمی بیداری نے سولہویں صدی میں وہ سیاسی اور مذہبی تحریک پیدا کی جسے تحریک اصلاح (reformation) کہتے ہیں۔
اس تحریک کا یہ فائدہ تو ضرور ہوا کہ یورپ اور شہنشاہ کے اس اقتدار کا خاتمہ ہو گیا جو ترقی اور اصلاح کا دشمن تھا۔ لیکن اس سے یہ نقصان بھی ہوا کہ جو قومیں ایک رشتہ میں بندھی ہوئی تھیں وہ بکھر گئیں۔ ریفارمیشن اس روحانی رابطہ کا بدل فراہم نہ کر سکا‘ جو مختلف مسیحی اقوام کے درمیان قائم تھا۔ مذہبی اور سیاسی وحدت کا تعلق ٹوٹنے کے بعد جب قومیں ایک دوسرے سے الگ ہوئیں تو ان کی جدا جدا خود مختار قومی ریاستیں وجود میں آنے لگیں۔ ہر قوم کی زبان اور لٹریچر نے الگ الگ ترقی کرنی شروع کی۔ اور ہر قوم کے معاشی مفاد دوسری ہمسایہ قوموں سے مختلف ہوتے گئے۔ اس طرح نسلی، سیاسی، معاشی اور تہذیبی بنیادوں پر قومیّت کا ایک نیا تصوّر پیدا ہوا جس نے نسلی عصبیت کے قدیم جاہلی تصوّر کی جگہ لے لی۔ پھر مختلف قوموں میں نزاع، چشمک اور مسابقت (competition) کا سلسلہ شروع ہوا۔ لڑائیاں ہوئیں۔ ایک قوم نے دوسری قوموں کے حقوق پر ڈاکے ڈالے۔ ظلم اور شقاوت کے بدترین مظاہرے کیے گئے جن کی وجہ سے قومیّت کے جذبات میں روز بروز تلخی پیدا ہوتی چلی گئی، یہاں تک کہ قومیّت کا احساس رفتہ رفتہ ترقی کرکے قوم پرستی (نیشنل ازم) میں تبدیل ہو گیا۔
یہ قوم پرستی جس کا نشوونما اس طور پر یورپ میں ہوا ہے، چونکہ ہمسایہ قوموں کے ساتھ مطابقت اور تصادم سے پیدا ہوئی ہے، اس لیے اس میں لازماً چار عناصر پائے جاتے ہیں۔
(۱) قومی افتخار کا جذبہ جو اپنی قومی روایات اور خصوصیات کی محبت کی پرستش کی حد تک بڑھالے جاتا ہے، اور تمام قوموں کے مقابلہ میں اپنی قوم کو ہر لحاظ سے بالا وبرتر قرار دیتا ہے‘ اور ہر طرح کے اصلی اور جعلی مفاخر اپنی قوم کے لیے مخصوص کرتاہے۔{ FR 2977 }
(۲) قومی حمیت کا جذبہ جو حق اور انصاف کے سوال کو نظر انداز کرکے آدمی کو ہر حال میں اپنی قوم کا ساتھ دینے پر آمادہ کرتا ہے خواہ وہ حق پر ہو یا نا حق پر۔
(۳) قومی تحفظ کا جذبہ جو قوم کے واقعی اور خیالی مفادات کی حفاظت کے لیے ہر قوم کو ایسی تدابیر اختیار کرنے پر آمادہ کرتاہے جو مدافعت سے شروع ہو کر حملہ پر ختم ہوتی ہیں۔ مثلاً معاشی مفاد کی حفاظت کے لیے محصولات درآمد و برآمد کو گھٹانا بڑھانا، غیر قوتوں کی مہاجرت پر پابندیاں عائد کرنا، اپنے حدود میں دوسروں کے لیے کسب معاش اور شہری حقوق کے دروازے بند کرنا، دفاع ملکی کے لیے دوسروں سے بڑھ چڑھ کر فوجی طاقت فراہم کرنا اور دوسروں کے ملک میں اپنی قوم والوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے دوڑ جانا۔
(۴) استیلا و استکبار (national aggrendisment) کا جذبہ جو ہر ترقی یافتہ اور طاقت ور قوم کے اندر یہ داعیہ پیدا کرتا ہے‘ کہ وہ دنیا کی دوسری قوموں پر غالب اور برتر ہو، دوسروں کے خرچ پر اپنی خوش حالی بڑھائے، اپنے آپ کو پسماندہ قوموں میں تہذیب پھیلانے کی خدمت پر خود بخود مامور سمجھے اور دوسرے ممالک کی قدرتی دولت سے استفادہ کرنے کو اپنا پیدائشی حق قرار دے۔
یہی ہے وہ یورپ کا نیشنل ازم جس کے نشہ میں سرشار ہو کر کوئی پکارتا ہے۔ ’’جرمنی سب سے اوپر‘‘ کوئی نعرہ بلند کرتا ہے ’’امریکہ خدا کا اپنا ملک ہے‘‘کوئی اعلان کرتا ہے ’’اٹلی ہی مذہب ہے‘‘۔ کسی کی زبان سے دنیا کو یہ پیغام دیا جاتا ہے‘ کہ ’’حکومت کرنا برطانیہ کا حق ہے‘‘۔ اور ہر قوم پرست اس مذہبی عقیدے پر ایمان لاتا ہے‘ کہ ’’میرا ملک ! خواہ حق پر ہو یا ناحق پر‘‘ یہ قوم پرستی کا جنون آج دنیا میں انسانیت کے لیے سب سے بڑی لعنت ہے۔ انسانی تہذیب کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ یہ انسان کو اپنی قوم کے سوا ہر دوسری قوم کے لیے درندہ بنا دیتا ہے۔
اس نیشنل ازم کے معنی صرف یہی نہیں ہیں‘ کہ آدمی اپنی قوم سے محبت رکھتا ہے‘ اور اس کو آزاد، خوش حال اور بر سر ترقی دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ ایک شریف جذبہ ہوتا۔ لیکن درحقیقت محبت سے زیادہ عداوت، نفرت اور انتقام کے جذبات اس کو جنم دیتے اور پرورش کرتے ہیں۔ اس کا مادہ حیات دراصل وہ آگ ہے‘ جو قومیّت کے مجروح جذبات اور کچلے ہوئے قومی حوصلوں سے دل میں بھڑک اٹھتی ہے۔ اور یہ آگ، یہ حمیت ِجاہلیہ، قومی محبت کے شریفانہ جذبہ کو بھی حد سے بڑھا کر ایک ناپاک چیز بنا دیتی ہے۔ بظاہر اس کا آغاز ان بے انصافیوں کی تلافی کرنے کی غرض سے ہوتا ہے‘ جو کسی قوم کے ساتھ کسی دوسری قوم یا قوموں نے، واقعی یاخیالی طور پر کی ہوں۔لیکن چونکہ کوئی اخلاقی ہدایت، کوئی روحانی تعلیم، کوئی الٰہی شریعت اس کی رہنمائی کرنے والی اور اس کو ضابطہ میں رکھنے والی نہیں ہوتی، اس لیے یہ اپنی حد سے گزر کر قیصریت (imperialims)، معاشی قوم پرستی (economic nationalism)، نسلی منافرت، جنگ اور بین الاقوامی بد امنی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ زمانہ حال کا ایک مصنف فرانسِس کوکر (Francis, W, Coker) لکھتا ہے :
بعض قوم پرست اہلِ قلم دعویٰ کرتے ہیں‘ کہ آزادانہ زندگی بسر کرنے کا حق دنیا کی صرف ترقی یافتہ قوموں کو ہے۔ ان قوموں کو جو ایسا اعلیٰ درجہ کا تہذیبی اور روحانی سرمایہ رکھتی ہیں‘ جو اس کا مستحق ہے‘ کہ دنیا میں باقی رکھا جائے‘ اور پھیلایا جائے۔ ان کا استدلال یہ ہے‘ کہ ایک اعلیٰ درجہ کی مہذب قوم کا حق اور فریضہ صرف یہی نہیں ہے‘ کہ وہ اپنی آزادی کی حفاظت کرے اور اپنے اندرونی معاملات کو دوسروں کی مداخلت کے بغیر سر انجام دے، بلکہ اس کا حق اور فرض یہ بھی ہے‘ کہ اپنے دائرہ اثر کو ان قوموں پر پھیلائے جو نسبتاً پس ماندہ ہیں، خواہ اس کے لیے قوّت ہی کیوں نہ استعمال کرنی پڑے۔ وہ کہتے ہیں‘ کہ ایک اونچے درجے کی قوم اپنا ایک عالمگیر منصب رکھتی ہے، اسے اپنی قابلیتوں کو صرف اپنی ہی سر زمین میں مدفون کر دینے یا خود غرضی کے ساتھ صرف اپنی ہی ترقی کے لیے استعمال کرنے کا حق نہیںہے۔ یہی نظریہ اور یہی استدلال تھا‘ جسے عموماً انیسویں صدی کے آخری دور میں ملک گیری کی تائید کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اسی حجت کو پیش کرکے افریقہ اور بحرالکاہل کی ’’نیم مہذّب‘‘ قوموں کو یورپ اور امریکہ کی سلطنتوںکا تابع فرمان بنایا گیا تھا…۔
آگے چل کر وہ لکھتا ہے :
یہ بھی کہا جاتا ہے‘ کہ ایک بڑی قوم صرف یہی حق نہیں رکھتی کہ براہِ راست جو حملہ اس پر کیا جائے اس کی مدافعت کرے، بلکہ یہ بھی اس کا حق ہے‘ کہ ہر اس چیز کی مزاحمت کرے جس سے اس کے ایسے مفاد پر زد پڑتی ہو‘ جو اس کی خود مختارانہ زندگی اور خوش حالی کے لیے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کی زندگی کے لیے صرف یہی کافی نہیںہے‘ کہ بس اپنی سرحدوں کی حفاظت کرے، اور اپنے مادّی وسائل پر خود قابو یافتہ رہے، اور اپنی عزت کو پامال نہ ہونے دے۔ نہیں، اگر اسے زندہ رہنا ہے‘ تو اس سے زیادہ بھی کچھ کرنا پڑے گا۔ اس کو بڑھنا چاہیے، پھیلنا چاہیے، اپنی فوجی طاقت بڑھانی چاہیے، اپنا قومی دبدبہ قائم کرنا چاہیے، ورنہ وہ رفتہ رفتہ گرتی چلی جائے گی‘ اور بالآخر قوموں کی مسابقت میں اس کا وجود محو ہو کر رہ جائے گا۔ جو قومیں اپنے مفاد کی حفاظت کرنے اور اپنے سیاسی و معاشی نفوذ و اثر کا دائرہ بڑھانے میں زیادہ کامیاب ہوتی ہیں وہی زندہ رہنے کی زیادہ حق دار ہیں۔ جنگ قومی توسیع کا فطری ذریعہ ہے، اور جنگ میں فتح یاب ہونا قوم کے اصلح (fittest) ہونے کی دلیل ہے۔ ڈاکٹر بیج ہاٹ کے بقول وہ جنگ ہی ہے‘ جو قوموں کو بناتی ہے‘‘۔
اس کے بعد وہ لکھتا ہے :
ڈارون کے نظریہ ارتقا کو بھی ان خیالات کی تائید میں غلط طور پر استعمال کیا گیا ہے) ارنسٹ ہیکل(Earnest Haekeel) جو جرمنی میں ڈاروینیت کا پہلا اور سب سے پہلا با اثر پیغمبر گزار ہے،ا ور جس نے اپنے علم الحیات کے(biological) نظریات کو نہایت ہوشیاری کے ساتھ فلسفہ اور اجتماعیات (socialogy) میں استعمال کیا ہے، خود غرضی و خود پرستی کو عالم گیر قانون حیات قرار دیتا ہے‘ اور کہتا ہے‘ کہ یہ قانون انسانی سوسائٹی کے اندر ایک طرح کی نسلی مردم خوری کی صورت میں جاری ہوتا ہے۔ اس کی رائے میں زمین ان تمام نسلی گروہوںکے لیے کافی سامان زندگی نہیں رکھتی جو اس کی آغوش میں جنم لیتے ہیں۔ لہٰذا کمزور گروہ فنا ہو جاتے ہیں، نہ صرف اس وجہ سے کہ زمین کے محدود وسائل زندگی سے فائدہ اٹھانے کے لیے جو عام تنازع برپا ہوتا ہے اس میں وہ دوسرے گروہوںکاکامیاب مقابلہ نہیںکر سکتے، بلکہ اس وجہ سے بھی کہ زیادہ طاقت ور گروہوں کے فاتحانہ اقدامات کی مدافعت کا کس بل ان میں نہیںہوتا۔ اسی طرح کارل پیرسن (Karl Pearson) بین الاقوامی کشمکش کو ’’نوع انسانی کی فطری تاریخ کا ایک شعبہ‘‘ قرار دیتا ہے۔ اس کا دعویٰ یہ ہے‘ کہ زندگی کے علمی تصوّر (scientific view of life) کی رو سے انسانی تہذیب و تمدّن کا ارتقاء دراصل اس نزاع و جدال کی وجہ سے ہوتا ہے‘ جو صرف افراد ہی کے درمیان نہیں‘ بلکہ قوموں کے درمیان بھی دائماً برپا رہتی ہے۔ جب ایک اعلیٰ درجہ کی قوم اپنی کمزور نسلوں کو مٹانے اور صرف طاقت ور نسلیں پیدا کرنے کا انتظام کرکے اندرونی حیثیت سے اپنی صلاحیّت بڑھا لیتی ہے،تب وہ دوسری قوموں سے مقابلہ کرکے بیرونی حیثیت سے اپنی صلاحیّت (fitness) کو ترقی دینا شروع کرتی ہے۔ اس نزاع میں کمزور (غیر صالح) قومیں… (صالح) قومیں باقی رہتی ہیں۔ اور اس طرح مجموعی حیثیت سے پوری نوع انسانی کا قدم ترقی کی طرف بڑھتا ہے۔ ایک قوم دوسری عالی مقام قوموں کے ساتھ اپنی برابری کا ثبوت اسی طرح دے سکتی ہے‘ کہ وہ ان سے تجارتی راستوںاور خام پیداوار کے وسائل اور سامان غذا کے ذخائر کے لیے پیہم مجاہدہ کرتی رہے۔ فرو تر درجہ کی قوموں (کمزور قوموں) سے واسطہ پڑنے کی صورت میں اگر وہ ان کے ساتھ مساوات کا برتاؤ کرتی اور ان سے گھلتی ملتی تو گویا خود ہی اپنے دعوائے بالا تری سے دست بردار ہو جاتی ہے۔ اوراگر وہ انہیں زمین سے نکال کر خود قبضہ کر لیتی ہے، یا انہیں زمین میںباقی رکھ کر اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہے‘ تو اپنی بالا تری ثابت و قائم کر دیتی ہے ۔{ FR 3055 }
ایک دوسرا مصنف جوزف لیٹن (Joseph Lighten) لکھتا ہے :
پندرہویں صدی سے دنیا کی تاریخ زیادہ تر قومی ریاستوں کے درمیان معاشی رقابتوں کی د استان ہے۔ معاشی قوم پرستی روز بروز قوموں کے درمیان تصادم کا سبب بنتی چلی گئی ہے۔پہلے تجارت کے میدان میں مزاحمت کا سلسلہ چلتا ہے، پھر جنگ ہوتی ہے، امریکہ، افریقہ، سات سمندروں کے جزائر، اور ایشیا کے ایک بڑے حصے پر تسلّط، نو آبادیوں کا قیام اور ان ممالک کے معاشی وسائل سے انتفاع (exploitation)، یہ سب کچھ اسی داستانِ قزاقی کے مختلف ابواب ہیں۔ اگرچہ یہی سب ذرا چھوٹے پیمانہ پر اس وقت بھی ہوا تھا جب زوالِ روما کے بعد وحشی قومیں تاخت و تارج کرتی ہوئی پھیل گئی تھیں۔ مگر فرق یہ ہے‘ کہ رومن ایمپائر کے باقیات میں سے تو مذہبی، اخلاقی اور تہذیبی بنیادوں پر ایک بین الاقوامی نظام تعمیر ہو گیا تھا، لیکن دنیائے جدید میں یہ نہ ہو سکا۔{ FR 3056 }
جب ایک ایسی قوم جو تہذیبی وحدت رکھتی ہو، سیاسی حیثیت سے خود مختار، اور معاشی حیثیت سے متحد الاغراض ہوتی ہے، اور اس تہـذیبی و سیاسی اور معاشی قومیّت میں اپنی عظمت اور برتری کے احساسات اُبھر آتے ہیں، تب معاشی قوم پرستی اپنی شدید تر صورت میں رونما ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ کیونکہ دنیا کی مختلف قوموں کے درمیان مسابقت و مزاحمت کا جو سسٹم اس وقت قائم ہے اس کا لازمی نتیجہ یہی قوم پرستی ہے۔ اوریہ قوم پرستی بہت جلدی معاشی امپریل ازم میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ قومیں تجارتی فوائد کے لیے ایک دوسرے کے خلاف جدوجہد کرتی ہیں‘ اور بیرونی ممالک کی منڈیوں اور پس ماندہ ممالک کی معاشی دولت پر قبضہ کرنے کے لیے ان کے درمیان کشمکش ہوتی ہے…۔
سیاسی اور معاشی نیشنل ازم کی گتھی (جس کو سلجھانے کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوئی) یہ ہے‘ کہ ایک طرف قومی ریاست کا وجود ایک قوم کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے، اور اس کی محض معاشی خوش حالی ہی نہیں‘ بلکہ اس کی تہذیبی ترقی، اس کی تعلیم، اس کے سائنس، اس کے فنون، غرض اس کی ہر چیز کے نشوونما کا انحصار قومی ریاست کے پھلنے پھولنے ہی پر ہے، لیکن دوسری طرف موجودہ مسابقت کے ماحول میں خود بخود معاشی نیشنل ازم پیدا ہو جاتاہے۔ ہر قوم دوسری قوموں کے نقصان پر پھلنے پھولنے کی کوشش کرتی ہے‘ اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے‘ کہ قوموں کے درمیان رقابت، شبہات، خوف اور نفرت کے جذبات پرورش پاتے ہیں۔ معیشت کے میدان میں بین الاقوامی مسابقت سے لے کر کھلے میدان میں فوجی تصادم تک سیدھا راستہ جاتا ہے۔ اوریہ بہت قریب کا راستہ ہے۔{ FR 2980 }
مغربی نیشنل ازم اور خدائی تعلیم کا بنیادی اختلاف
میں نے مغربی نیشنل ازم اور اس کے اندازِفکر اور طریق کار کو اپنے الفاظ میں بیان کرنے کے بجائے خود اہلِ مغرب کے الفاظ میں نقل کرنا زیادہ پسند کیا ہے تاکہ اس کی پوری تصویر خود گھر والوں کے موقلم سے کھنچی ہوئی آپ کے سامنے آجائے، اوپر کے اقتباسات اس امر کی بیّن شہادت پیش کرتے ہیںکہ یورپ میں جن تخیلات اور جن اصولوں پر نیشنل ازم کا نشوونما ہوا ہے وہ انسانیت کی عین ضد ہیں۔ انہوں نے انسان کو حیوانیت بلکہ درندگی کے مقام تک گرادیا ہے۔ وہ خدا کی زمین کو فساد، ظلم اور خونریزی سے بھرنے والے اور انسانی تہذیب کے پر امن نشوو ارتقاء کو روکنے والے اصول ہیں۔ ابتداء سے خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر دنیا میں جن پاک مقاصد کے لیے سعی کرتے رہے ہیں، یہ اصول ان سب پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ الٰہی شریعتیںجن اغراض کے لیے دنیا میں آئی ہیں، اور آسمانی کتابیںجن اخلاقی و روحانی تعلیمات کو لے کر نازل ہوئی ہیں، یہ شیطانی اصول ان کے مدّمقابل، ان کے مزاحم اور معاند واقع ہوئے ہیں۔ یہ انسان کو تنگ دل، تنگ نظر{ FR 2981 }اور متعصب بناتے ہیں۔ یہ قوموں اور نسلوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا کر حق اور انصاف اور انسانیت کی طرف سے اندھا کر دیتے ہیں۔ یہ مادّی طاقت اور حیوانی زور کو اخلاقی حق کا قائم مقام قرار دے کر شرائع الٰہیہ کی عین بنیاد پر ضرب لگاتے ہیں۔
الٰہی شریعتوں کا مقصد ہمیشہ سے یہ رہا ہے‘ کہ انسانوں کے درمیان اخلاقی و روحانی رشتے قائم کرکے انہیں وسیع پیمانے پر ایک دوسرے کا معاون بنایا جائے۔ مگر نیشنل ازم نسلی اور وطنی امتیاز کی قینچی لے کر ان رشتوں کو کاٹ دیتا ہے‘ اور قومی منافرت پیدا کرکے انسانوںکو ایک دوسرے کا معاون بنانے کے بجائے مزاحم اور دشمن بنا دیتا ہے۔{ FR 2982 }
الٰہی شریعتیں چاہتی ہیں‘ کہ انسان اور انسان کے درمیان آزادانہ ربط کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں کیونکہ انہی پر انسانی تہذیب و تمدّن کی ترقی کا انحصار ہے۔ مگر نیشنلزم اس ترقی کی راہ میں ہر قسم کی رکاوٹیں پیدا کرتا ہے، حتیٰ کہ ایک قوم کے حلقہ اثر میں دوسری قوم والوں کے لیے سانس لینا تک مشکل کر دیتا ہے۔
الٰہی شریعتوں کا منشاء یہ ہے‘ کہ ہر فرد ہر قوم اور ہر نسل کو اپنی طبعی خصوصیات اور پیدائشی قابلیتوں کے نشوونما کا پورا موقع ملے تاکہ وہ مجموعی حیثیت سے انسانیت کی ترقی میں اپنا حصہ ادا کر سکے۔ مگر نیشنل ازم ہر قوم اور ہر نسل میں یہ داعیہ پیدا کرتا ہے‘ کہ وہ طاقت حاصل کرکے دوسری قوموں اور نسلوںکو ادنیٰ اور ذلیل اور بے قدرو قیمت قرار دے، اور انہیں غلام بنا کر ان کی پیدائشی قابلیتوں کو بڑھنے اور کام کرنے کا موقع ہی نہ دے۔ بلکہ ان سے زندگی کا حق ہی سلب کرکے چھوڑے۔
الٰہی شریعتوں کا اساسی اصول یہ ہے‘ کہ طاقت کے بجائے اخلاق پر انسانی حقوق کی بنیاد قائم ہو۔ حتیٰ کہ ایک طاقت ور شخص یا گروہ کمزور شخص یا گروہ کے حق کو بھی ادا کرے جبکہ قانون اخلاق اس کی تائید میں ہو۔ لیکن نیشنل ازم اس کے مقابلہ میں یہ اصول قائم کرتا ہے‘ کہ طاقت ہی حق ہے‘ اور کمزور کا کوئی حق نہیں، اس لیے کہ وہ اسے حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
شرائع الٰہیہ جس طرح اخلاقی حدود کے اندر نفس پروری کی مخالف نہیں ہیں اسی طرح وہ قوم پروری کی بھی مخالف نہیں ہیں۔ درحقیقت وہ اس کی تائید کرتی ہیں، کیونکہ ایک ایک قوم کے اپنی اپنی جگہ ترقی کرنے ہی پر مجموعی حیثیت سے انسانیت کی ترقی کا مدار ہے۔ لیکن آسمانی شریعتیں ایسی قوم پروری چاہتی ہیں‘ جو انسانیت عامہ (humanity at large) کی طرف ہمدردی، معاونت اورخیر خواہی لیے ہوئے بڑھے اور وہ خدمت انجام دے جو سمندر کے لیے زمین کے دریا انجام دیتے ہیں۔ برعکس اس کے نیشنلزم انسان کے اندر یہ ذہنیت پیدا کرتا ہے‘ کہ وہ اپنی تمام قوتیں اور قابلیتیں صرف اپنی قوم کی بڑائی کے لیے مخصوص کرے اور انسانیت عامہ کا نہ صرف یہ کہ مدد گار نہ ہو بلکہ اپنی قوم کے مفاد پر انسانیت کے عمومی مفاد کی قربانی چڑھا دے۔ انفرادی زندگی میں جو حیثیت ’’خود غرضی‘‘ کی ہے، اجتماعی زندگی میں وہی حیثیت ’’قوم پرستی‘‘ کی ہے۔ ایک قوم پرست فطرۃً تنگ دل ہوتا ہے۔ وہ دنیا کی ساری خوبیاں صرف اپنی قوم یا اپنی نسل ہی میں دیکھتا ہے۔ دوسری قوموں یا نسلوں میں اسے کوئی چیز ایسی قابلِ قدر نظر نہیں آتی جو زندگی اور بقا کی مستحق ہو۔ اس ذہنیت کا مکمل نمونہ ہم کو جرمنی کے نیشنل سوشل ازم میں نظر آتا ہے۔ ہٹلر کی زبان میںنیشنل سوشلسٹ کی تعریف یہ ہے‘ کہ :
ہر وہ شخص جو قومی نصب العین کو اس حد تک اپنانے کے لیے تیار ہو‘ کہ اس کے نزدیک اپنی قوم کی فلاح سے بالا تر کوئی نصب العین نہ ہو، اور جس نے ہمارے قومی ترانے ’’جرمنی سب سے اوپر‘‘ کے معنی و مقصود کو اچھی طرح سمجھ لیا ہو، یعنی اس وسیع دنیا میں جرمن قوم اور جرمنی سے بڑھ کر کوئی چیز اس کی نگاہ میں عزیز اور محترم نہ ہو، ایسا شخص نیشنل سوشلسٹ ہے۔{ FR 3057 }
اپنی کتاب’’میری جدوجہد‘‘ میں ہٹلرلکھتا ہے :
’’اس زمین میں جو کچھ قابلِ قدر ہے۔ سائنس، آرٹ، فنی کمالات اور ایجادات، وہ سب کا سب چند گِنی چُنی قوموں کی تحقیقی قابلیتوں کا نتیجہ ہے۔ اور یہ قومیں اصل میں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتی ہیں … اگر ہم نوعِ انسانی کو تین قسموں میں تقسیم کریں، کلچر بنانے والے، اس کی حفاظت کرنے والے، اس کو غارت کرنے و الے، تو صرف آریہ نسل ہی کا شمار پہلی قسم میںکیا جا سکے گا ۔{ FR 3058 }
اس نسلی تفاخر کی بنیاد پر جرمنی میں غیر آریہ لوگوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے‘ اور اسی بنیادپر جرمنی کی جہاں گیری کا نظریہ قائم ہے۔ ایک نیشنل سوشلسٹ کے نزدیک دنیا میںجرمن قوم کا مشن یہ ہے‘ کہ وہ ’’ادنیٰ درجہ‘‘ کی قوموں کوغلام بنا کر ’’تہذیب‘‘ پھیلانے میں آلہ کے طور پر استعمال کرے۔ اور یہ محض جرمنی ہی کی خصوصیت نہیں ہے۔ جمہوریت پسند امریکہ میں بھی رنگ کاامتیاز اسی بنیاد پر ہے۔ سفید فام امریکن سیاہ فام حبشی کو انسان سمجھنے کے لیے کسی طرح تیار نہیں‘ اور یہی مسلک یورپ کی ہر قوم کا ہے، خواہ وہ برطانیہ ہو یا فرانس یا اٹلی یا ہالینڈ۔
پھر اس قوم پرستی کی ایک لازمی خصوصیت یہ ہے‘ کہ یہ انسان کو مطلب پرست بناتی ہے۔ شرائع الٰہیہ تو دنیا میں اس لیے آئی ہیں‘ کہ آدمی کو اصول پرست بنائیں اور اس کے طرزِعمل کو ایسے مستقل اصولوںکا پابند بنا دیں جو اغراض اور خواہشات کے ساتھ بدلنے والے نہ ہوں۔ لیکن قوم پرستی اس کے برعکس آدمی کو بے اصولا بنا دیتی ہے۔ قوم پرست کے لیے دنیا میں کوئی اصول اس کے سوا نہیں ہے‘ کہ وہ اپنی قوم کا فائدہ چاہتا ہے۔ اگر اخلاق کے اصول، مذہب کے احکام اور تہذیب کے نظریات اس مقصد میں اس کے مدد گار ہوں تو وہ ان پر ایمان لانے کا خوشی سے دعویٰ کرتا رہے گا۔ اور اگر وہ اس کے ر استے میں حائل ہوں تو ان سب کو بالائے طاق رکھ کر کچھ دوسرے اصول و نظریات اختیار کر لے گا۔ مسولینی کی سیرت میں ہم کو ایک قوم پرست کے کیرکٹر کا پورا نمونہ ملتا ہے۔ جنگ عظیم سے پہلے وہ اشتراکی تھا۔ جنگ عظیم میں اس لیے اشتراکیوں سے الگ ہو گیا کہ اٹلی کے شریک جنگ ہونے میں اس کو قومی فائدہ نظر آتا تھا۔ پھر جب غنائم جنگ میں اٹلی کو مطلوبہ فوائد حاصل نہ ہوئے تو اس نے جدید فاشستی تحریک کاعلم بلند کیا۔ اس نئی تحریک میں بھی وہ برابر اپنے اصول بدلتا چلا گیا۔ ۱۹۱۹ء میں وہ لبرل سوشلسٹ تھا۔ ۱۹۲۰ء میں انارکسٹ بنا۔۱۹۲۱ء میں چند مہینہ تک سوشلسٹ اور جمہوری طبقوں کا مخالف رہا۔ چند مہینہ ان کے ساتھ اتحاد کی کوشش کرتا رہا۔ اور بالآخر ان سے کٹ کر اس نے ایک نئی پالیسی وضع کر لی۔ یہ تلّون، یہ بے اصولی اور یہ ابن الوقتی مسولینی کے لیے مخصوص نہیںہے بلکہ یہ نیشنلزم کی فطرت کا طبعی خاصہ ہے۔ انفرادی زندگی میں جو کچھ ایک خود غرض آدمی کرتا ہے وہی قومی زندگی میں قوم پرست کرتا ہے۔ کسی اصول اور نظریہ پر مستقل ایمان رکھنا اس کے لیے ناممکن ہے۔
مگر نیشنل ازم اور الٰہی شریعتوں میں سب سے زیادہ کُھلا ہوا تصادم ایک اور صورت سے ہوتاہے۔ یہ ظاہر ہے‘ کہ خدا کی طرف سے جو نبی بھی آئے گا وہ بہرحال کسی ایک قوم اور کسی ایک سر زمین ہی میں پیدا ہو گا۔ اسی طرح جو کتاب اس نبی کو دی جائے گی وہ بھی لامحالہ اسی ملک کی زبان میں ہو گی جس میں وہ مبعوث ہوا ہے۔ پھر اس نبوت کے مشن سے تعلق رکھنے و الے جن مقامات کو عزت و احترام اور تقدیس کی حیثیت حاصل ہو گی وہ بھی زیادہ تر اسی ملک میں واقع ہوں گے۔ مگر ان سب محدودیتوں کے باوجود وہ صداقت اور تعلیم ہدایت جو ایک نبی خدا کی طرف سے لے کر آتا ہے،کسی قوم اور ملک کے لیے محدود نہیں ہوتی بلکہ تمام انسانوں کے لیے عام ہوتی ہے۔ پوری نوعِ انسانی کو اس نبی پر اور اس کی لائی ہوئی صداقت پر ایمان لانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ خواہ کسی نبی کا مشن محدود ہو جیسا کہ ہود اور صالح علیہما السلام اور بہت سے پیغمبروں کا تھا، یا اس کا مشن عام ہو جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور سیّدنا محمد a کا تھا، بہر صورت ہر نبی پر ایمان لانے اور اس کا احترام کرنے کے لیے تمام انسان مامور ہیں۔ اور جب کہ کسی نبی کا مشن عالم گیر ہو تو یہ قدرتی بات ہے‘ کہ اس کی لائی ہوئی کتاب کو بین الاقوامی حیثیت حاصل ہو گی۔ اس کی زبان کا تہذیبی اثر بین الاقوامی ہو گا۔ اس کے مقدّس مقامات ایک ملک میں واقع ہونے کے باوجود بین الاقوامی مرکزیت حاصل کریں گے۔اور نہ صرف وہ نبی بلکہ اس کے حواری اور اس کے مشن کی اشاعت میں نمایاں حصہ لینے والے ابتدائی لوگ بھی ایک قوم سے تعلق رکھنے کے باوجود تمام قوموں کے ہیرو قرار پائیں گے۔ یہ سب کچھ ایک نیشنلسٹ کے مذاق، اس کی افتادِ طبع، اس کے جذبات اور اس کے نظریات کے خلاف ہے۔نیشنلسٹ کی غیرت قومی اس کو کسی طرح گوارا نہیںکر سکتی کہ وہ ایسے لوگوں کو ہیرو بنائے جو اس کی اپنی قوم کے نہیںہیں، ایسے مقامات کی مرکزیت اور تقدس و احترام قبول کرے جو اس کے اپنے وطن کے نہیں ہیں، ایسی زبان کا تہذیبی اثر قبول کرے جو اس کی اپنی زبان نہیں ہے۔ان روایات سے روحانی تحریک (Inspiration) حاصل کرے جو باہر سے آئی ہوں۔ وہ ان سب چیزوں کو نہ صرف اجنبی (foreign) قرار دے گا بلکہ انہیں اس نفرت اور ناگواری کی نگاہ سے دیکھے گا‘ جس سے بیرونی حملہ آوروں کی ہر چیز دیکھی جاتی ہے، اور ان تمام خارجی اثرات کو اپنی قوم کی زندگی سے نکال دینے کی کوشش کرے گا۔ اس کے جذبہ قومیّت کا فطری اقتضا یہ ہے‘ کہ اپنے جذباتِ تقدیس و احترام کو اپنے ہی وطن کی سر زمین سے وابستہ کرے، اپنے ہی وطن کے دریاؤں اور پہاڑوں کی حمد میں گیت گائے، اپنی ہی قوم کی پرانی تاریخی روایات کو (انہی روایات کو جنہیں یہ باہر سے آنے والا مذہب ’’عہد ِجاہلیت‘‘ سے تعبیر کرتاہے) زندہ کرے اور ان پر فخر کرے، اپنے حال کا رشتہ اپنے ہی ماضی سے جوڑے اور اپنی ثقافت کا تسلسل اپنے اسلاف ہی کی ثقافت کے ساتھ قائم کرے، اپنی ہی قوم کے تاریخی یا افسانوی بزرگوں کو اپنا ہیرو بنائے اور انہی کے خیالوں یا واقعی کارناموں سے روحانی تحریک حاصل کرے، غرض یہ بات نیشنل ازم کی عین طبیعت میں شامل ہے‘ کہ وہ ہر اس چیز سے جو باہر کی ہو، منہ موڑ کر ان چیزوںکی طرف رخ کرے جو اس کے اپنے گھر کی ہوں۔ یہ راستہ جس آخری منزل پر پہنچتا ہے وہ یہ ہے‘ کہ باہر سے آئے ہوئے مذہب کو بھی کلّی طورپر چھوڑ دیا جائے‘ اور ان مذہبی روایات کو زندہ کیا جائے‘ جو خود اپنی قوم کے عہد جاہلیت سے کسی نیشنلسٹ کو پہنچی ہوں۔ ممکن ہے‘ کہ بہت سے نیشنلسٹ اس آخری منزل تک نہ پہنچے ہوں، اور ابھی بیچ ہی کی کسی منزل میں ہوں، مگر جس راستے پر وہ گامزن ہیں وہ جاتا اسی طرف ہے۔
آج{ FR 2985 } جرمنی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ نیشنل ازم کے اس فطری خاصہ کی مکمل توضیح و تبیین ہے۔ نازیوں میں سے ایک گروہ تو علانیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بیزاری کا اظہار کر رہا ہے۔ اس لیے کہ وہ یہودی النسل تھے‘ اور کسی شخص کا یہودی ہونا اس بات کے لیے کافی وجہ ہے‘ کہ ایک آریہ نسل پرست اس کی تمام تہذیبی، اخلاقی اور روحانی قدرو قیمت سے انکار کر دے۔ چنانچہ اس گروہ کے لوگ بلا تکلف کہتے ہیں‘ کہ ’’مسیح ایک پرولتاری یہودی تھا، مارکس کا پیشرو، اسی لیے تو ا س نے کہا کہ جو مسکین ہیں وہی زمین کے وارث ہوں گے‘‘۔ اس کے برعکس جن نازیوں کے دل میں ابھی تک مسیح کے لیے جگہ باقی ہے وہ ان کو نارڈک نسل کا ثابت کرتے ہیں۔ گویا ایک جرمن قوم پرست یاتو مسیح کو مانے گا نہیں، کیونکہ وہ یہودی تھے، یا اگر مانے گا تو اسرائیلی مسیح کو نہیں‘ بلکہ نارڈک نسل کے مسیح کو مانے گا۔ بہر صورت اس کا مذہب اس کی نسل پرستی کے تابع ہے۔ کسی غیر آریہ کو روحانی و اخلاقی تہذیب کا پیشوا ماننے کے لیے کوئی جرمن قوم پرست تیار نہیں۔{ FR 2986 } حدیہ ہے‘ کہ جرمن قوم پرستوںکے لیے وہ خدا بھی قابلِ قبول نہیں جس کا تصوّر باہر سے درآمد ہوا ہے۔ بعض نازی حلقوں میں کوشش ہو رہی ہے‘ کہ ان دیوتاؤں کو پھر زندہ کیا جائے جنہیںپرانے ٹیوٹن قبائل پوجا کرتے تھے۔چنانچہ تاریخ قدیم کی چھان بین کرکے پوری دیو مالا تیار کر لی گئی ہے‘ اور ووٹا (wotan) نامی دیوتا کو، جسے عہد ِجاہلیت کے ٹیوٹن لوگ ’’طوفان کاخدا‘‘ کہتے تھے، مہادیو قرار دیا گیا ہے۔ یہ مذہبی تحریک تو ابھی نئی نئی شروع ہوئی ہے۔ لیکن سرکاری طور پر نازی نوجوانوں کو آج کل جس عقیدہ کی تعلیم دی جا رہی ہے اس میں بھی خدا کو رب العالمین کی حیثیت سے نہیں‘ بلکہ محض رب الالمانین کی حیثیت سے خدا تسلیم کیا گیا ہے۔ اس عقیدے کے الفاظ یہ ہیں :
ہم خدا پر اس حیثیت سے ایمان رکھتے ہیں‘ کہ وہ قوّت و حیات کا ازلی مظہر ہے،زمین میں اور کائنات میں خدا کا خیال جرمن انسان کے لیے فطری ہے۔ خدا اور ازلیت کے متعلق ہمارا تصوّر کسی دوسرے مذہب یا عقیدے کے تصوّرات سے کسی قسم کی مماثلت نہیں رکھتا۔ ہم جرمن قوم اور جرمنی کی ازلیت پر ایمان رکھتے ہیں کیونکہ قوّت و حیات کی ازلیت پر ہمار ایمان ہے۔ ہم زندگی کے نیشنل سوشلسٹ تصوّر پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہم اپنے قومی مقاصد کی حقانیت پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہم اپنے قائد اڈولف ہٹلر پر ایمان رکھتے ہیں۔
یعنی خدا اس قوّت و حیات کا نام ہے‘ جو جرمن قوم میں حلول کر گئی ہے۔ جرمن قوم اس خدا کا ارضی ظہور ہے۔ ہٹلر اس کا رسول ہے‘ اور ’’قومی مقاصد‘‘ اس رسول کا لایا ہوا مذہب ہے۔ ایک قوم پرست کی ذہنیت سے اگر کوئی مذہبی تصوّر مناسبت رکھتا ہے‘ تو وہ بس یہی ہے۔
مغربی نیشنل ازم کا انجام
یورپین اصول پر جب نیشنل ازم کی ترقی دی جائے گی‘ تو وہ بالآخر اسی مقام پر پہنچ کر دم لے گی، جو لوگ ابھی بیچ کی منزلوں میں ہیں‘ اور اس حد تک نہیں پہنچے ہیں، ان کے نہ پہنچنے کی وجہ صرف یہ ہے‘ کہ ابھی تک ان کے جذبات قومیّت کو ویسی سخت ٹھیس نہیں لگی ہے‘ جیسی جرمنی کو گزشتہ جنگ عظیم میں لگی تھی۔ لیکن یقین رکھیے کہ جب وہ نیشنل ازم کے راستہ پر گامزن ہوئے ہیں‘ تو ان کی آخری منزلِ مقصود بہرحال وہی کمال درجہ کی جاہلی عصبیت ہے‘ جو خدا اور مذہب تک کو قومی بنائے بغیر مطمئن نہیں ہوتی۔ یہ نیشنل ازم کی فطرت کا تقاضا ہے۔ نیشنل ازم اختیار کرکے اس کے فطری تقاضے سے کون بچ سکتا ہے؟ غور کیجئے، آخر وہ کیا چیز ہے‘ جو قوم پرستانہ طرزِفکر اختیار کرتے ہی ایک مصری نیشنلسٹ کا رخ خود بخود عہد ِفراعنہ کی طرف پھیر دیتی ہے؟ جو ایرانی کو شاہنامے کی افسانوی شخصیتوں کا گرویدہ بنا دیتی ہے؟ جو ہندستانی کو ’’پراچین سمے‘‘ کی طرف کھینچ لے جاتی ہے ا ور گنگ وجمن کی تقدیس کے ترانے اس کی زبان پر لاتی ہے؟ جو ترک کو مجبور کرتی ہے‘ کہ اپنی زبان، اپنے ادب اور اپنی تمدّنی زندگی کے ا یک ایک شعبے سے عربی اثرات کو خارج کرے اور ہر معاملہ میں عہد ِجاہلیت کی تُرکی روایات کی طرف رجوع کرے؟ اس کی نفسیاتی توجیہ بجز اس کے آپ اور کیا کر سکتے ہیں‘ کہ نیشنل ازم جس دل و دماغ میں پیدا ہوتا ہے اس کی تمام دل چسپیاں قومیّت کے دائرے میں محدود ہو جاتی ہیں‘ اور اس دائرے سے باہر کی ہر چیز سے اس کا رخ پھر جاتا ہے۔
میرے سامنے اس وقت انقرہ کے ڈائریکٹر جنرل آف پریس کا ایک مضمون رکھا ہے‘ جس کا عنوان ہے ’’ترکی عورت تاریخ میں‘‘ اس کے ابتدائی فقرے حسب ذیل ہیں:
قبل اس کے کہ ہم اس بلند اور معزز رتبے سے بحث کریں جو ہماری نوخیز جمہوریت نے ترکی عورتوں کو دینا پسند کیا ہے، ہمیں ایک نظریہ دیکھ لینا چاہیے‘ کہ تاریخ کے مسلسل ادوار میں ترکی عورت کی زندگی کیسی رہی ہے۔ اس مختصر تبصرے سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ آج ترکی مردوں اور عورتوں میں جو مساوات پائی جاتی ہے وہ ہماری قومی تاریخ میں نئی چیز نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو گا کہ جب ترکی خاندان اور ترقی نظام تمدّن بیرونی اثرات سے آزاد تھا، ترکی عورت ہمیشہ ہر تمدّنی تحریک میں حصہ لیتی تھی۔ ہمارے مشہور ماہر اجتماعیات ضیاء گوک الپ نے اس مضمون کو خوب تحقیق کی ہے،ا ور ا س کی تحقیقات سے ان بہت سے حقوق کا پتہ چلا ہے‘ جو ترکی عورت کو پرانی ترکی تہذیب (ترکی کے عہد جاہلیت)میں حاصل تھے۔ ان شہادتوںسے یہ بات صاف ہو جاتی ہے‘ کہ قدیم ترکی عورت اور آج کی ترکی عورت کے درمیان تمدّنی اور سیاسی اٹھان (emancipation) کے اعتبار سے گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔
ان فقروںکو دیکھیے۔ قوم پرست ترک کس طرح اپنی تاریخ کے اس دور سے منہ موڑتا ہے‘ جس میں اس کی قوم اس ’’بیرونی اثر‘‘میں آگئی تھی، اور کس طرح اپنے حال کے لیے اپنے اس ماضی کو ’’اسوئہ حسنہ‘‘ بناتا ہے‘ جب کہ اس کی قوم اس بیرونی اثر سے آزاد تھی۔ یوں یہ نیشنل ازم آدمی کے دماغ کو اسلام سے جاہلیت کی طرف پھیر دیتا ہے۔ گوک الپ ضیاء جو دراصل تمدّنی اور تہذیبی اعتبار سے ترکی جدید کا بانی ہے، اور جس کے بنائے ہوئے راستے پر آج ترکی قوم چل رہی ہے، وہ خالدہ ادیب کے الفاظ میں :
ایک نئی ترکی بنانا چاہتا تھا جو عثمانی ترکوں اور ان کے تورانی اسلاف کے درمیان کی خلیج کو پر کر سکے … وہ اس مواد کی بنا پر تمدّنی اصلاح کرنا چاہتا تھا جو اس نے ترکوں کے زمانہ قبل اسلام کی سیاسی و تمدّنی تنظیمات کے متعلق فراہم کیا تھا۔ اسے یقین تھا‘ کہ عربوں کا قائم کیا ہوا اسلام ہمارے مناسب حال نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم اپنے ’’عہد جاہلیت‘‘ کی طرف رجعت نہ کریں تو پھر ہمیں ایک مذہبی اصلاح (reformation) کی ضرورت ہے‘ جو ہماری طبائع سے مناسبت رکھتی ہو۔
یہ الفاظ کسی مغربی پروپیگنڈسٹ کے نہیں ہیں‘ جو ترکوں کو بدنام کرنا چاہتا ہو، بلکہ خود ایک قوم پرست ترک عورت کے ہیں۔ ان میں آپ صاف طور پر یہ منظر دیکھ سکتے ہیں‘ کہ مسلمان کے دل و دماغ میں جب ایک راستہ سے قوم پرستی گھسنی شروع ہوتی ہے‘ تو کس طرح دوسرے راستے سے اسلام نکلنے لگتا ہے۔ا ور یہ چیز کچھ بے چارے ترکوں ہی کے ساتھ مخصوص نہیںہے۔ جس مسلمان نے بھی نیشنل ازم کے شیطان سے بیعت کی ہے،اسلام کے فرشتوں سے اس کا رخصتی مصافحہ ہو گیا ہے۔ ابھی حال میں ہندستان کے ایک ’’مسلمان‘‘ شاعر نے ترانہ وطن کے عنوان سے ایک نظم لکھی ہے، جس میں وہ اپنی بھارت ماتا کو خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے
جس کا پانی ہے امرت وہ مخزن ہے تو

جس کے دانے ہیںبجلی وہ خرمن ہے تو
جس کے کنکر ہیں ہیرے وہ معدن ہے تو

جس سے جنت ہے دنیا وہ گلشن ہے تو
دیویوں دیوتاؤں کا مسکن ہے تو
تجھ کو سجدوں سے کعبہ بنا دیں گے ہم
آخری بیت کو پڑھ کر اس امر میں کیا شبہ باقی رہ جاتا ہے‘ کہ نیشنل ازم اور اسلام، دو بالکل الگ اور قطعی متضاد ذہنیتوں سے تعلق رکھتے ہیں‘ اور ان دونوں کا ایک جگہ جمع ہو جانا محالات سے ہے۔ درحقیقت نیشنل ازم خود ایک مذہب ہے‘ جو شرائع الٰہیہ کا مخالف ہے۔ بلکہ عملی حیثیت سے بھی وہ انسان کی زندگی کے ان تمام پہلوؤں پر ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے‘ جنہیں شرائع الٰہیہ اپنی گرفت میں لینا چاہتی ہیں۔{ FR 2987 }اب ایک مرد عاقل کے لیے صرف یہی ایک صورت باقی ہے‘ کہ دل و دماغ اور جسم و جان کا مطالبہ کرنے والے ان دونوں مدعیوں میں سے کسی ایک کو پسند کرکے اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دے اور جب ایک کی آغوش میں چلا جائے‘ تو دوسرے کا نام تک نہ لے۔
دنیا نیشنل ازم کی لعنت میںکیوں مبتلا ہے؟
اس میں شک نہیں کہ موجودہ زمانہ میں آزادی اور ترقی اور وقار و شرف حاصل کرنے کا ایک ہی مجرّب نسخہ دنیا کی قوموں کو معلوم ہے، اور وہ یہی نیشنل ازم کا نسخہ ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے‘ کہ ہر وہ قوم جو اُبھرنا چاہتی ہے، اس نسخہ کی طرف دوڑنے لگتی ہے۔ مگر قبل اس کے کہ دوسروں کو اس کی طرف دوڑتے دیکھ کر ہم بھی اسی کی طرف دوڑ جائیں، ہمیں سوچنا چاہیے‘ کہ دنیا کی یہ حالت کیوں ہے۔ دنیا اس حالت میں صرف اس لیے مبتلا ہے‘ کہ انفرادی‘ اور اجتماعی خواہشات کو ضابطہ میں لانے والی، حوصلوں اور تمناؤں کو جائز حدود میں رکھنے والی، سعی و عمل کی قوتوں کو سیدھا راستہ دکھانے و الی، اور آزادی، ترقی اور عزت و وقار کے حصول کا صحیح طریقہ بتانے والی کوئی تعلیم حکمت و اخلاق دنیا کے پاس نہیں ہے۔ اسی چیز نے قوموں کو بھٹکا دیا ہے۔ یہی محرومی اور یہی فقدان ہے‘ جس نے قوموں کو جاہلیت اور ظلم و عدوان کی طرف دھکیل دیا ہے۔ خود ہمارے اپنے ملک کے ہندو اور سکھ اور پارسی وغیرہ بھی جس وجہ سے مغرب کے قوم پرستانہ خیالات قبول کر رہے ہیں، وہ یہی ہے‘ کہ یہ بے چارے اس ہدایت و رہنمائی سے محروم ہیں۔ اس مصیبت کا علاج اور گم راہی کی اصلاح اگر کہیں ہے‘ تو وہ شرائع الٰہیہ کی نمائندگی کرتی ہے۔ دراصل یہ مسلمان کا کام تھا‘ کہ وہ آگے بڑھ کر اس عصبیت ِجاہلیہ کی جڑیں کاٹتا جو اکاس بیل کی طرح دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے، اور دنیا کی ہر قوم کو بتاتا کہ تمہارے لیے نہ صرف آزادی، ترقی اور وقار و شرف کا، بلکہ اس کے ساتھ سلامتی، امن اور حقیقی خوش حالی کا راستہ بھی وہی ہے‘ جو خدا کی طرف سے اس کے رسول لائے ہیں،نہ کہ وہ جو شیطان کی طرف سے فتنہ و شر کے امام تمہیں دکھا رہے ہیں۔ لیکن یہ دور حاضر کا سب سے زیادہ دردناک المیہ ہے‘ کہ دنیا کو تباہی اور گم راہی سے بچانے والی وہ ایک ہی جماعت، مسلمان،جس کو اللہ نے زمین پر انبیاء علیہم السلام کا مشن قائم کرنے اور پھیلانے پر مامور کیا تھا،ا پنے فرائض منصبی کو فراموش کر بیٹھی ہے،اور اب بجائے اس کے کہ وہ ہدایت کی شمع لے کر تاریکیوں میں بھٹکنے والی دنیا کو روشنی دکھائے،و ہ خود ان بھٹکنے والوں ہی کے پیچھے پیچھے چلنے پر آمادہ ہو رہی ہے۔ افسوس اس بیمارستان میں ایک ہی ڈاکٹر تھا‘ اور وہ بھی بیماروں میں شامل ہوا جاتا ہے۔
مژدہ باد اے مرگ عیسیٰ آپ ہی بیمار ہے
نیشنل ازم ہندوستان میں
پچھلے صفحات میں یہ بات اصولی حیثیت سے ہم ثابت کر چکے ہیں‘ کہ اجتماعیات میں نیشنل ازم کا نقطۂ نظر اسلام کے نقطۂ نظر سے کلّی طور پر متناقض ہے۔لہٰذا مسلمان اگر اس شخص کا نام ہے‘ جو زندگی کے ہر معاملہ میں اسلامی نقطۂ نظر رکھتا ہو، اور اگر اس کے سوا لفظ مسلمان کا کوئی دوسرا مفہوم نہیں ہے، تو یہ بات آپ سے آپ لازم ہو جاتی ہے‘ کہ مسلمان جہاں اور جس حال میں بھی ہو، اسے بھی نیشنل ازم کی مخالفت کرنی چاہیے۔ یہ اصول طے ہو جانے کے بعد درحقیقت اس سوال میں کوئی خاص اہمیت باقی نہیںرہتی کہ کسی خاص ملک کی تحریک قوم پرستی میں مسلمان کا روّیہ کیا ہو۔ لیکن جب ہم سے یہ کہا جاتا ہے‘ کہ ہندوستان میں نیشنل ازم کو فروغ دینا چاہیے، اور یہ کہ اسی چیز کے فروغ پانے پر اس ملک کی نجات مضمر ہے، تو ضرورت محسوس ہوتی ہے‘ کہ مخصوص طو رپر ہندستان کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ دیکھیں کہ یہاں نیشنل ازم کے فروغ پانے کا نتیجہ کیا ہے، یا کیا ہو سکتا ہے، اور یہ کہ آیا فی الواقع ہندستان کی نجات اسی طریقہ میں ہے؟
نیشنل ازم کے لوازم
کسی ملک میں نیشنل ازم پیدا ہونے کے لیے ضروری ہے‘ کہ وہاں پہلے سے ایک قومیّت موجود ہو‘ اور اگر وہ پہلے سے موجود نہیں ہے‘ تو اب وجود میں آئے۔ کیونکہ جہاں قومیّت ہی سرے سے موجود نہ ہو وہاں قوم پرستی کسی طرح پیدا نہیں ہو سکتی۔ قوم پرستی تو قومیّت کے اشتعال ہی کا دوسرا نام ہے۔ جب شعلہ ہی موجود نہ ہو گا‘ تو اشتعال کیسے ہو گا۔
اب دیکھنا چاہیے‘ کہ قوم پرستی کا شعلہ بھڑکنے کے لیے کس قسم کی قومیّت درکار ہے۔قومیّت کی ایک قسم وہ ہے‘ جسے سیاسی قومیّت (poltical nationality) کہتے ہیں، یعنی جو لوگ ایک سیاسی نظام سے وابستہ ہوں وہ محض اس وحدت سیاسی کے لحاظ سے ایک قوم سمجھے جاتے ہیں۔ اس نوع کی قومیّت کے لیے یہ ضروری نہیں ہے‘ کہ جو لوگ اس میں شریک ہوں ان کے جذبات و حسّیات،ان کے خیالات و نظریات، ان کے اخلاقی خصائص، ان کی روایات، ان کی زبان اور لٹریچر اور ان کے طرز زندگی میں کسی قسم کی یکسانی پائی جائے۔ ان تمام حیثیات سے بالکل مختلف ہونے کے باوجود ان کی ایک سیاسی قومیّت ہوتی ہے‘ اور اس وقت تک رہتی ہے‘ جب تک کہ وہ ایک سیاسی نظام سے وابستہ رہیں۔ اگر ان کے مختلف گروہ آپس میں مختلف ہی نہیں‘ بلکہ مخالف بھی ہوں، حتیٰ کہ اگر ان کے مقاصد اور قومی حوصلے باہم متضاد ہوں‘ اور وہ ایک دوسرے کے خلاف عملاً جدوجہد کر رہے ہوں، تب بھی ان کی سیاسی قومیّت ایک ہی رہتی ہے۔ قومیّت کا لفظ ایسی وحدت کے لیے بولا ضرور جاتا ہے، مگر ظاہر ہے‘ کہ یہ وہ قومیّت نہیں ہے‘ جس کی بنیاد پر کہیں قوم پرستی پیدا ہو سکتی ہو۔
دوسری قسم کی قومیّت وہ ہے‘ جسے تہذیبی قومیّت (cultrual natioanlity) کہا جاتا ہے۔ یہ قومیّت صرف ان لوگوں میں پائی جاتی ہے‘ جن کا مذہب ایک ہو، جن کے خیالات و نظریات اور جذبات و حسیات یکساں ہوں۔ جن میں ایک ہی طرح کے اخلاقی اوصاف پائے جاتے ہوں۔ جو زندگی کے تمام اہم معاملات میں ایک مشترک زاویہ نگار رکھتے ہوں‘ اور اسی زاویہ نگاہ کے اثر سے ان کی زندگی کے تہذیبی و تمدّنی مظاہر میں بھی یک رنگی پیدا ہو گئی ہو۔ جو پسندیدگی و ناپسندیدگی اور حرمت و حلت اور تقدیس و استکراہ کے مشترک معیار رکھتے ہوں۔ جو ایک دوسرے کے احساسات کو سمجھتے ہوں۔ جو ایک دوسرے کی عادات و خصائل اور دلچسپیوں سے مانوس ہوں۔ جن میں آپس کی شادی بیاہ اور مشترک معاشرت کی وجہ سے خونی اور قلبی رشتے پیدا ہو گئے ہوں۔ جنہیں ایک ہی قسم کی تاریخی روایات حرکت میں لاسکتی ہوں۔ مختصر یہ کہ جو ذہنی، روحانی، اخلاقی اور تمدّنی و معاشرتی حیثیت سے ایک گروہ، ایک جماعت، ایک وحدت بن گئے ہوں۔ قوم پرستی اگر پیدا ہو سکتی ہے‘ تو صرف اسی قومیّت کی بنیاد پر ہو سکتی ہے۔ جن لوگوں میں یہ قومیّت پائی جاتی ہے صرف انہی کے درمیان ایک مشترک نیشنل ٹائپ (joint national type) اور ایک مشترک نیشنل آئیڈیا (joint national idea) کا نشوونما ہوتا ہے۔ اسی نیشنل ٹائپ کے عشق اور نیشنل آئیڈیا کے استحکام سے نیشنل ازم کا آغاز ہوتا ہے۔ یہی چیز آگے بڑھ کر وہ قومی خودی (national self) پیدا کر دیتی ہے‘ جس میں فرد اپنی انفرادی خودی کو جذب کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ پھر جب قومی خودی کے ارتقا میں کوئی واقعی یا خیالی چیز مانع ہوتی ہے‘ تو اس کو دفع کرنے کے لیے وہ جذبہ مشتعل ہوتا ہے‘ جس کا نام نیشنل ازم ہے۔
کیا ہندستان کی نجات نیشنل ازم میں ہے؟
اس تجزیہ کو سامنے رکھ کر ہندستان کے حالات پر نظر ڈالیے۔ کیا فی الواقع یہاں نیشنل ازم کی بنیاد موجود ہے؟ بلا شبہ سیاسی قومیّت یہاں ضرور پائی جاتی ہے، کیونکہ یہاں کے باشندے ایک سیاسی نظام کے تابع ہیں، ایک قسم کے قوانین ان کی تمدّنی و معاشی زندگی پر حکمران ہیں، اور ایک فولادی ڈھانچہ ان سب کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ مگر جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں محض سیاسی قومیّت، قوم پرستی پیدا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ یہ قومیّت آسٹریا ہنگری، برطانیہ و آئر لینڈ، سلطنت روس، سلطنت عثمانیہ، چیکوسلواکیا، یوگوسلاویا، اور بہت سی دوسری سلطنتوں میں بھی پائی جاتی تھی، اور اب بھی بکثرت ملکوں میں پائی جاتی ہے۔ مگر کہیں بھی اس نے نیشنل ازم پیدا نہیں کیا۔ آزادی کے جذبہ میں مشترک ہونا، یا مصائب و خطرات میں مشترک ہونا بھی نیشنل ازم کی پیدائش کے لیے ناکافی ہے۔ نیشنل ازم اگر پیدا ہو سکتا ہے‘ تو صرف تہذیبی قومیّت ہی سے پیدا ہو سکتا ہے‘ اور ہر وہ شخص جو آنکھیں رکھتا ہو اس حقیقت کو دیکھ سکتا ہے‘ کہ ہندستان کے باشندوں میں تہذیبی قومیّت موجود نہیں ہے۔
پھر جب امر واقعی یہ ہے‘ تو یہاں نیشنل ازم کا ذکر کرنا کیا معنی رکھتاہے؟ جہاں سرے سے ماں ہی نہیں ہے وہاں بچے کا ذکر کرنا ظاہر ہے‘ کہ نادانی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ جو لوگ اس ملک میں نیشنل ازم کو فروغ دینے کا خیال ظاہر کرتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے‘ کہ یہ بچہ تہذیبی قومیّت ہی کے بطن سے پیدا ہو سکتا ہے۔ا ور اس کے پیدا ہونے سے پہلے اس کی ماں کا پیدا ہونا ضروری ہے۔اس حقیقت کو جب وہ اچھی طرح جان لیں گے‘ تو انہیں اپنے دعوے میں ترمیم کرنی پڑے گی۔ قبل اس کے کہ وہ ہندستان میں نیشنل ازم کو فروغ دینے کا نام لیں، انہیں یہ کہنا پڑے گا کہ یہاں ہم ایک تہذیبی قومیّت پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہندستانی نیشنل ازم فروغ پا سکے۔
ہندستانی نیشنل ازم کس طرح پیدا ہو سکتا ہے؟
اچھا اب اس سوال پر غور کیجئے‘ کہ یہاںایک تہذیبی قومیّت کس طرح پیدا ہو سکتی ہے‘ اور اس کے امکانی نتائج کیا ہوں گے؟
جس ملک میں مختلف تہذیبی قومیّتیں پائی جاتی ہوں، وہاں ایک قومیّت کی پیدائش دو ہی صورتوں میں ممکن ہے:
(۱) ایک قوم کی تہذیب باقی سب قوموں کو فتح کرلے یا
(۲)سب کے اختلاط اور امتزاج سے ایک مشترک تہذیب پیدا ہو جائے۔
پہلی صورت یہاں خارج از بحث ہے، کیونکہ ہندستانی نیشنل ازم کے حامی اس کو اپنا نصب العین نہیں بنا سکتے۔ یہ چیز اگر نصب العین بن سکتی ہے‘ تو ’’ہندو نیشنل ازم‘‘ یا ’’مسلم نیشنل ازم‘‘۔{ FR 2988 }کے حامیوں کی بن سکتی ہے۔ رہے ہندستانی نیشنلسٹ تو ان کے درمیان اتفاق صرف دوسری صورت پر ہی ہو سکتا ہے، چنانچہ ان کے حلقوں میں اکثر اس مسئلہ پر بحث بھی ہوتی ہے‘ کہ اس ملک کی مختلف قوموں کے امتزاج سے کسی طرح ایک قومیّت پیدا کی جائے۔ لیکن ا س سلسلہ میں وہ ایسی طفلانہ باتیں کرتے ہیں‘ جن سے صاف معلوم ہوتا ہے‘ کہ نہ تو وہ تہذیبی قومیّت کے حقیقی مفہوم کو سمجھتے ہیں، نہ انہیں یہ خبر ہے‘ کہ اس قسم کی قومیّتوں کا امتزاج کس طرح کن قوانین کے تحت ہوتا ہے، اور نہ انہوں نے کبھی اس پہلو پر غور کیا ہے‘ کہ ایسے امتزاج سے کس شان کی قومیّت بنتی ہے۔وہ اسے بچوں کا کھیل سمجھتے ہیں‘ اور بچوں ہی کی طرح اس کھیل کو کھیلنا چاہتے ہیں۔
تہذیبی قومیّت دراصل نام ہے ایک قوم کے مزاج عقلی اور نظام اخلاقی کا۔ اوریہ چیز مصنوعی طور پر ایک دو دن میں نہیںبن جاتی، بلکہ صدیوں میںاس کا نشوونما فطری تدریج کے ساتھ ہوتا ہے۔ صد ہا برس تک جب کچھ لوگ نسلاًبعد نسل ایک قوم کے عقائد اور رسوم و عادات کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں،تب کہیںجا کر ان میں ایک مشترک روح پیدا ہوتی ہے،مشترک اخلاقی اوصاف مستحکم ہوتے ہیں، ایک مخصوص مزاج عقلی بنتا ہے، وہ روایات جڑ پکڑتی ہیںجن سے ان کے جذبات وحسیات (sentiments) وابستہ ہوتے ہیں،وہ لٹریچر پیدا ہوتا ہے‘ جو ان کے دل و دماغ کا ترجمان ہوتاہے‘ اور وہ ذہنی و روحانی یک رنگی رونما ہوتی ہے‘ جس سے ان میںباہمی انس اور تفاہم (mutual intelligibility) پیدا ہوتا ہے۔ پھر جب ان گہرے اور مضبوط اثرات کے تحت کسی گروہ کی مستقل قومیّت بن جاتی ہے، یا دوسرے الفاظ میںجب اس کا اخلاقی اور عقلی مزاج مستحکم ہو جاتا ہے، تو اس کے لیے کسی دوسرے گروہ کے ساتھ خلط ملط ہو کر کسی دوسری قومیّت میں تبدیل ہوجانا تقریبا محال ہوتا ہے۔بسا اوقات ایسے گروہ سیکڑوں برس تک ایک ہی آب و ہوا اور ایک ہی سر زمین میں پہلو بہ پہلو رہتے ہیں، مگر کسی قسم کا امتزاج واقع نہیںہوتا۔ یورپ میں جرمن، مگیار، پول، چیک، یہودی، سلافی اور ایسی دوسری قومیںمدتوں سے ایک جگہ زندگی بسر کر رہی ہیں مگر آج تک ان کے درمیان امتزاج پیدا نہیںہوا۔ انگریز اور آئرش صدیوں ایک ساتھ رہے مگر کسی طرح مل کر ایک نہ ہو سکے۔ کہیںکہیں ایسے گروہوں کی زبانیں بھی مشترک ہوتی ہیں۔ مگر زبان کے اشتراک سے دل و دماغ کا اشتراک رونما نہیں ہوتا۔الفاظ مشترک ہوتے ہیں مگر وہ ہر قوم کے دل میں جو جذبات و خیالات پیدا کرتے ہیں وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔
یک جا بود و باش اور طویل مدت تک باہمی اختلاط سے مختلف تہذیبی گروہوںکا مل کر ایک صحیح قسم کی مکمل اور متحدہ قومیّت پیدا کرنا اس صورت میں ممکن ہے‘ اور صرف اسی صورت میں وہ اعلیٰ درجہ کے تمدّنی نتائج پیدا کر سکتا ہے، جب کہ ایسے گروہوں کے نظام اخلاقی اور مزاج عقلی میںکوئی بڑا اور اہم تفاوت نہ ہو، بلکہ وہ بڑی حد تک متشابہ الاخلاق ہوں۔ اس صورت میں ان کی الگ الگ خصوصیات اور ان کے جداگانہ قومی تشخصات مٹ جاتے ہیں‘ اور ایک متحد نظام اخلاق بن جاتا ہے۔ مگر یہ عمل بھی اس طرح نہیں ہوتا جیسے ہتھیلی پر سرسوں جمائی جائے، بلکہ مدت ہائے دراز تک کسرو انکسار ہوتا رہتا ہے۔ تب کہیں مختلف اجزا میں گھل مل کر ایک مزاج پیدا ہوتا ہے۔ انگلستان میں برائٹن، سیکسن اور نارمنڈی قوموں نے ایک قوم بنتے بنتے سینکڑوںبرس لیے ہیں۔ فرانس میں دس صدیوںسے یہ عمل جاری ہے‘ اور اب تک قومیّت کا خمیر پوری طرح تیار نہیں ہو سکا ہے۔ اٹلی میں اس وقت تک کوئی قومی روح پیدا نہیںہو سکی ہے۔ حالانکہ وہ مختلف عناصر جن سے اطالوی قومیّت کی ترکیب ہوئی ہے اخلاقی حیثیت سے باہم کوئی بیّن تفاوت نہیں رکھتے۔ ممالک متحدہ امریکہ میں ایک قومیّت صرف ان عناصر کے امتزاج سے بن سکی ہے‘ جو بہت کچھ متشابہ الاخلاق تھے‘ اور جن کو مشترک اغراض نے مجبور کر دیا تھا‘ کہ اپنے خفیف سے اختلاف و تفاوت کو جلدی سے دفن کرکے یکجان ہو جائیں۔ تاہم اس عمل نے بھی پایۂ تکمیل کو پہنچتے پہنچتے ڈھائی تین سو برس لیے ہیں۔
متشابہ الاخلاق قوموں کے امتزاج سے ایک صحیح اور عمدہ قسم کی قومیّت بننا صرف اس لیے ممکن ہوتا ہے‘ کہ انہیں اس عمل امتزاج کے دوران میں اپنے عقائد و نظریات اور اپنے اخلاقی معیاروں کو طلاق دینے اور اپنے اعلیٰ درجہ کے اخلاقی اوصاف کو جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ یہ چیزیں ان کے درمیان پہلے ہی سے مشترک ہوتی ہیں۔ صرف روایات کے ردّو بدل اور جذبات و حیات اور مقاصد و اغراض کی جدید تنصیب (readjustment) سے ہی ان کی نئی قومیّت بن جاتی ہے۔بخلاف اس کے جہاں مختلف الاخلاق قوموں میں کسی مصنوعی دباؤ، کسی جعلی کوشش اور بعض ادنیٰ درجہ کے محرکات سے امتزاج واقع ہوتا ہے وہاں ایک نہایت ذلیل قوم کی قومیّت پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ اس صورت میں ان کے عقائد کی جڑیں ہل جاتی ہیں، ان کے اعلیٰ درجہ کے اخلاقی خصائص (جو ان کے امتیازی اوصاف تھے‘ اور جن کی موجودگی میں امتزاج ممکن نہ تھا) مٹ جاتے ہیں، ان کے حسیّات ملی (جن پر ان کی قومیّت کی اساس قائم تھی) فنا ہو جاتے ہیں، ان میں سے ہر قوم کو اپنے اپنے معیارات فضل و شرف بدلنے پڑتے ہیں، اور ان کی نئی قومیّت ان میں سے ہر ایک کے رذائل اخلاق کا مجموعہ بن کر رہ جاتی ہے۔ اس نوعیت کا امتزاج قوموں کے نظام اخلاق کو درہم برہم کر دیتا ہے‘ اور نیا نظام اخلاق بننے کے لیے ایک طویل مدت درکار ہوتی ہے۔ اپنی اپنی سابق روایات سے ان کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے، اور نئی روایات بننے میں بہت دیر لگتی ہے۔اپنے اپنے نیشنل ٹائپ کو وہ خود مسمار کر دیتے ہیں‘ اور نیا ٹائپ ڈھلنے کے لیے بڑا وقت لیتا ہے۔ اس خطرناک حالت میں جو لوگ مبتلا ہو جاتے ہیںان کی سیرت میں کوئی مضبوطی نہیںہوتی۔ وہ دنیٔ الاخلاق، کم ظرف، تنگ حوصلہ، چھچھورے، متلون اور بے اصول ہوتے ہیں۔ ان کی حالت اس پتے کی سی ہوتی ہے‘ جو درخت سے ٹوٹ کر میدان میںجا پڑا ہو‘ اور ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ اڑتا پھرتا ہو، کہیں اس کو قرار نہ ہو۔ براذیل (جنوبی امریکہ) میں مختلف الاخلاق قوموں کے اختلاط و امتزاج کا حال جن لوگوں نے دیکھا ہے وہ گواہی دیتے ہیں‘ کہ یہ بلا تمام ان قوموں کے محاسن کو یکساں طور پر برباد کر رہی ہے‘ جو اس کے زیرِ اثر آگئی ہیں، اور اس کی بدولت وہاں عقلی اور جسمانی حیثیت سے نہایت گھٹیا درجہ کی نسل پیدا ہو رہی ہے۔
ہندستان میں جو تہذیبی قومیّتیںپائی جاتی ہیں انہیں کوئی ایسا شخص متشابہ الاخلاق نہیں کہہ سکتاجو اجتماعیات میںکچھ بھی بصیرت رکھتا ہو، اور جو سیاسی خواہشات سے قطع نظر کرکے محض حقائقِ نفس الامری کی بنا پر رائے قائم کرتا ہو۔ ان قوموں کے درمیان اس سے زیادہ گہرے اختلافات پائے جاتے ہیں جتنے یورپ کی مختلف تہذیبی قومیّتوں کے درمیان موجود ہیں۔ یہاں عقائد میں بعد المشرقین ہے۔اصولِ تہذیب ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ نظام اخلاق میں بیّن تفاوت ہے۔ روایات کے سر چشمے قطعی طور پر الگ الگ ہیں۔ جذبات و حسیات باہم متناقض ہیں۔ اور ایک کا نیشنل ٹائپ اپنے خط و خال میں دوسرے کے نیشنل ٹائپ سے کوئی مماثلت نہیں رکھتا۔ یہاں محض سیاسی و معاشی اغراض کی خاطر ان مختلف قومیّتوں کو مٹا کر ایک ممزوج و مخلوط قومیّت پیدا کرنے کی کوشش لامحالہ وہی نتیجہ پیدا کرے گی جس کی طرف ہم نے پہلے اشارہ کیا ہے۔بد قسمتی سے ڈیڑھ سو سال کے انگریزی اقتدار نے ان قوموں کو پہلے ہی اخلاقی انحطاط میں مبتلا کر دیا ہے۔غلامی کا گُھن ان کے جوہر شرافت کو پہلے ہی کھا چکا ہے۔ان کی سیرتیں کمزور ہو چکی ہیں۔ ان کے عقائد جڑوں سے ہل چکے ہیں۔ ان کا تعلق اپنی ر وایات سے بہت کچھ ٹوٹ گیا ہے۔ان کے نیشنل ٹائپ مضحمل ہو گئے ہیں۔ ان کا معیار اخلاق پست ہو گیا ہے۔ ان کے اخلاقی خصائص میں استحکام باقی نہیں رہا۔ اور نئی نسلوں میں اس تنزل و انحطاط کے نہایت مکروہ نتائج دیکھے جا رہے ہیں۔ اس حالت میں قوم سازی کا عمل جاری کرنے کے لیے جب ان کی رہی سہی تہذیبی بنیادوں پر ضرب لگائی جائے گی‘ تو یقین رکھیے کہ پورے ملک کا نظام اخلاق درہم برہم ہو جائے گا‘ اور اس کے نتائج نہایت ہولناک ہوں گے۔
کیا ہندستان کا کوئی بہی خواہ یہاں نیشنل ازم کا خواہش مند ہو سکتا ہے؟
وہ محض طفلانہ خام خیالی ہے‘ جس کی بنا پر اس ملک کے سیاسی لیڈر بغیر سوچے سمجھے رائے قائم کر لیتے ہیں‘ کہ اجنبی طاقت کے تسلّط سے نجات حاصل کرنے کے لیے یہاں نیشنل ازم پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اور نیشنل ازم پیدا کرنے کے لیے ایک قومیّت بنا ڈالو۔ حالانکہ اگر ان لوگوں میں صحیح بصیرت موجود ہو‘ اور یہ مغرب کی ذہنی غلامی سے آزاد ہو کر خود سوچنے سمجھنے کی کوشش کریں تو انہیں معلوم ہو جائے‘ کہ یہ راستہ ہندستان کی نجات کا نہیں، اس کی تباہی کا ہے۔
اولاً اس راستے سے آزادی حاصل کرنا درحقیقت نہایت دیر طلب کام ہے۔ سینکڑوں ہزاروں برس کی روایات پر جو تہذیبی قومیّتیں قائم ہیں ان کا مٹنا، ان کی جگہ ایک نئی قومیّت کا وجود میں آنا، اور پھر اس قومیّت کا مستحکم اور مشتعل ہو کر نیشنل ازم کی حد تک پہنچنا کھیل نہیں ہے۔ا س کے لیے بہرحال ایک طویل مدت درکار ہے، اور اگر آزادی کا حصول اسی پر موقوف ہے‘ تو ہندستان کو کم از کم ابھی دو تین نسلوں تک اس کا انتظار کرنا پڑے گا۔
ثانیاً اگر اس راستے سے آزادی حاصل ہو بھی جائے‘ تو جیسا کہ ہم اوپر لکھ چکے ہیں، اس میں خطرہ یہ ہے‘ کہ آخر کار تمام ملک اخلاقی انحطاط کے ہاویہ میں گر جائے گا۔
ثالثاً یہ ایک یقینی امر ہے‘ کہ جن قوموںکو اپنی انفرادیت سے کچھ بھی لگاؤباقی ہے وہ اس نوعیت کی قوم سازی کے خلاف پوری جدوجہد کریں گی، اور اس کش مکش میں آزادیٔ وطن کے لیے کوئی متحدہ کوشش نہ کی جا سکے گی۔لہٰذا اجنبی تسلّط سے نجات حاصل کرنے کے لیے شاید یہ دور کا راستہ بھی نہیں ہے، کجا کہ قریب کا راستہ ہو، اگر اس راستہ کو اختیار کرنے پر یوں ہی اصرار کیا جاتا رہا تو کچھ بعید نہیں کہ سیاسی آزادی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر ہو ہی نہ سکے۔
ان وجوہ سے میرے نزدیک وہ لوگ سخت نادان ہیں‘ جو محض مغربی قوموں کی تقلید میں یہ سمجھے بیٹھے ہیں‘ کہ ملکی آزادی کے لیے بس نیشنل ازم ہی ایک کار گر آلہ ہے۔ میں پہلے بھی بار ہا کہہ چکا ہوں‘ اور اب پھر کہتا ہوں کہ ہندستان کی آزادی اور سیاسی و معاشی ترقی کے لیے سرے سے قومی وحدت اور نیشنل ازم کی حاجت ہی نہیںہے۔ جہاں مختلف تہذیبی قومیّتیں موجود ہوں وہاں قومی وحدت قائم کرنے کی کوشش کرنا نہ صرف یہ کہ غیرضروری ہے، نہ صرف یہ کہ اصولاً غلط ہے، بلکہ نتائج کے اعتبار سے بھی مفید ہونے کے بجائے الٹا نقصان دہ ہے۔ ایسی جگہ وحدت نہیں‘ بلکہ صرف وفاق کے اصول (federal principles) ہی چل سکتے ہیں۔ ہر قوم کی مستقل حیثیت تسلیم کی جائے‘ اور صرف مشترک وطنی اغراض کی حد تک تمام قوموں کے درمیان اشتراکِ عمل(joint action)کامعاہدہ ہو جائے۔ بس یہی ایک صورت ہے‘ جس سے ملک کی تمام جماعتوں میں اپنی انفرادیت کے بقاء و تحفظ کا اطمینان پیداہو سکتا ہے، اور یہی چیز ملک کی تمام قوتوں کو سیاسی ترقی کی جدوجہد میں ایک محاذ جنگ پر مجتمع کر سکتی ہے۔
فرنگی لباس
اب مجھے چند الفاظ مولانا سندھی کے اس آخری فقرے کے متعلق بھی عرض کرنے ہیںجس میں انہوں نے نِکّر اور پتلون اور ہیٹ کے استعمال کا مشورہ دیا ہے۔
یہ مشرقی قوم پرست بھی کچھ عجیب قسم کی مخلوق ہیں۔ ایک طرف یہ بڑے زور و شور کے ساتھ قوم پرستی کا پرچار کرتے ہیں، دوسری طرف انہیں غیر قوم اور غیر ملک کا لباس اور تمدّن اختیار کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ اور اس پر بھی بس نہیں، یہی اس اجنبی لباس و تمدّن کو اپنی قوم میں رواج دینے کی اس طرح کوشش کرتے ہیںکہ گویا یہ بھی قوم پرستی کے پروگرام کا کوئی حصہ ہے۔ حتیٰ کہ جہاں ان کا بس چلتا ہے وہاں یہ زبردستی اس کو لوگوں کے سر منڈھنے میں بھی دریغ نہیں کرتے۔ ہندوستان، ایران، مصر، ترکی ہر جگہ ان حضرات کی یہی روش ہے۔ حالانکہ قوم پرستی، اگر اس لفظ کے مفہوم میں قومی غیرت کا بھی کچھ حصہ ہو، اس بات کی فطری طورپر متقاضی ہے‘ کہ آدمی خود اپنی قوم کے لباس اور طرز تمدّن پر قائم رہے، اسی میں عزت اور شرف محسوس کرے، اور اسی پر فخر کرنا سیکھیے۔ جہاں سرے سے یہ چیز بالکل ہی مفقود ہے وہاںقوم پرستی خدا جانے کہاں سے آجاتی ہے؟ غیرتِ اسلامی کا فقدان اور قوم پرستی، دونوںصریح طورپر ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ مگر ہمارے مشرقی قوم پرست اضداد کو جمع کرنے میںکمال رکھتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے‘ کہ خیالات اور اعمال میں تناقض سے محفوظ رہنے کے لیے ذہن سلیم اور نظرِسدید درکار ہے، اور یہ چیز اگر حاصل ہو تو آدمی فطرت کی سیدھی صاف راہ چھوڑ کر قوم پرستی ہی کیوں اختیار کر لے؟
اسلام اس معاملہ میں بھی ان حضرات کا ساتھ دینے سے انکار کرتا ہے۔ زندگی کے ہر معاملہ میں سیدھا صاف، معقول اور فطری راستہ جو ہو سکتا ہے اسی کا نام اسلام ہے‘ اور وہ جس طرح قومیّت کے مبالغے اور اس کی افراط (یعنی قوم پرستی) کا ساتھ نہیں دیتا اسی طرح کسی ایسی چیز کا ساتھ بھی نہیں دیتا جو قومیّت کی جائز فطری حد بندیوںکو توڑنے والی، اور قوموں کی انفرادیت (Individuality) یا ان کے امتیازی خصائص کو مٹانے اور ان کے اندر رذائلِ اخلاق پیدا کرنے و الی ہو۔
قرآن مجید ہمیںیہ بتاتاہے‘ کہ انسان اگرچہ سب ایک ہی اصل سے ہیںمگر اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان دو قسم کے امتیاز رکھے ہیں۔ ایک عورت اور مرد کا امتیاز، دوسری نسب اور قبیلہ اور قومیّت کا امتیاز۔
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۝۰ۭ الحجرات 13:49
لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد و عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔
وَاَنَّہٗ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰىo النجم 45:53
اور اللہ نے مرد اور عورت دو صنفیں پیدا کیں۔
یہ دونوں قسم کے امتیازات انسانی تمدّن اور اجتماعی زندگی کی بنیاد ہیں۔ اور فطرت الٰہی کا تقاضا یہ ہے‘ کہ ان کو صحیح حدود کے ساتھ باقی رکھا جائے۔ عورت اور ہر مرد کا امتیاز اس لیے ہے‘ کہ ان کے درمیان نفسیاتی کشش ہو، لہٰذا ضروری ہوا کہ تمدّن و معاشرت میں دونوں کے اوصاف امتیازی پوری طرح محفوظ رکھے جائیں۔ اور قوموں کا امتیاز اس لیے ہے‘ کہ تمدّنی اغراض کے لیے انسانوں کے ایسے اجتماعی دائرے اور حلقے بن سکیں جن کے درمیان آسانی کے ساتھ باہمی تعاون ہو سکے۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ ہرگروہ یا ہر تمدّنی و اجتماعی حلقے کے کچھ امتیازی اوصاف ہوں جن کے ذریعہ سے ایک حلقہ کے آدمی ایک دوسرے کو پہچان سکیں، باہم مانوس ہوں، ایک دوسرے کو سمجھ سکیں، اور دوسرے حلقوں کے آدمیوں میں فرق کر سکیں۔ اس قسم کے امتیازی اوصاف ظاہر ہے‘ کہ زبان، لباس، طرزِ زندگی، اور شان تمدّن ہی ہو سکتے ہیں۔ پس یہ عین فطرت کا تقاضا ہے‘ کہ ان کی حفاظت کی جائے۔
اسی بنا پر اسلام میں تشبّہ کی ممانعت کی گئی ہے۔ حدیث میں آتا ہے‘ کہ نبی a نے لعنت فرمائی ہے اس عورت پر جو مرد کا سا لباس پہنے اور اس مرد پر جو عورت کا سا لباس پہنے۔{ FR 2989 } دوسری حدیث میں ہے‘ کہ آپؐ نے ملعون قرار دیا ان مردوںکو جو عورتوں کے مشابہ بنیں اور ان عورتوں کو جو مردوں کے مشابہ بنیں۔{ FR 2990 } یہ اس لیے کہ عورت اور مرد کے درمیان جو نفسیاتی کشش اللہ نے رکھی ہے، یہ تشبہ اس کو دباتا اور گھٹاتا ہے۔ اور اسلام اس کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔اسی طرح قوموں کے لباس و تمدّن اور شعائر کو بھی مٹانا اور انہیں خلط ملط کرنا، اجتماعی مفاد و مصالح کے خلاف ہے۔لہٰذا اسلام اس کی بھی مخالفت کرتا ہے۔ قومی امتیاز کو جب فطری حدود سے بڑھا کر قوم پرستی بنایا جائے گا تو اسلام اس کے خلاف جہاد کرے گا،کیونکہ اس مادے سے جاہلانہ حمیت، ظالمانہ تعصب اور قیصریت کی تخلیق ہوتی ہے۔ لیکن اسلام کی دشمنی قوم پرستی سے ہے نہ کہ قومیّت سے، قوم پرستی کے برعکس قومیّت کو وہ برقرار رکھنا چاہتا ہے‘ اور اسے مٹانے کا بھی وہ ویسا ہی مخالف ہے جیسا کہ اس کو حد سے بڑھانے کا مخالف ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں جو متوسط اور متوازن روّیہ اسلام نے اختیار کیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے حسب ذیل آثار بغور ملاحظہ فرمائیے:
(۱) ایک صحابی نے پوچھا کہ عصبیت کیا چیز ہے؟ کیا آدمی کا اپنی قوم سے محبت کرنا عصبیت ہے؟ رسول اللہ a نے فرمایا، ’’نہیں، عصبیت یہ ہے‘ کہ آدمی ظلم میںاپنی قوم کا ساتھ دے‘‘۔ (ابن ماجہ)
(۲) فرمایا ’’جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ اسی قوم میں شمار ہو گا‘‘۔
(ابو داؤد)
(۳) حضرت عمررضی اللہ عنہ نے آذربائجان کے گورنر عُتبہ بن فَرْقَد کو لکھا کہ کہ ’’خبردار اہلِ شرک (یعنی باشندگان آذربائجان) کے لباس اختیار نہ کرنا‘‘ (کتاب اللباس والزینۃ)
(۴) حضرت عمرؓ نے اپنے تمام گورنروں کو عام احکام دئیے تھے‘ کہ غیر مسلم باشندوں کو اہلِ عرب کے لباس اور وضع و ہیئت اختیار کرنے سے روکیں۔ حتیٰ کہ بعض علاقوں کے باشندوں سے صلح کرتے وقت باقاعدہ معاہدہ میں ایک مستقل دفعہ اس مضمون کی داخل کر دی گئی تھی‘ کہ تم ہمارے جیسے لباس نہ پہننا۔ (کتاب الخراج، امام ابو یوسف)
(۵) جو اہلِ عرب فوجی یا ملکی خدمات کے سلسلہ میں عراق و ایران وغیرہ ممالک میں مامور تھے، ان کو حضرت عمرؓ اور حضرت علی ؓ بار بار تاکید کرتے تھے‘ کہ اپنی زبان اور لہجہ کی حفاظت کریں‘ اور عجمی بولیاں نہ بولنے لگیں۔ (بیہقی)
ان روایات سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے‘ کہ اسلام جس بین الاقوامیت کا علم بردار ہے اس کا منشاء یہ ہرگز نہیں ہے‘ کہ قوموں کی امتیازی خصوصیات کو مٹا کر انہیں خلط ملط کر دیا جائے۔بلکہ وہ قوموں کو ان کی قومیّت اور خصوصیات کے ساتھ برقرار رکھ کر ان کے درمیان تہذیب و اخلاق اور عقائد و افکار کا ایک ایسا رشتہ پیدا کرنا چاہتا ہے‘ جس سے بین الاقوامی کشیدگیاں، رکاوٹیں، ظلم اور تعصبات دور ہو جائیں‘ اور ان کے درمیان تعاون و برادری کے تعلقات قائم ہوں۔
تشبہ کا ایک اور پہلو بھی ہے‘ جس کی بنا پر اسلام اس کا سخت مخالف ہے۔ اور وہ یہ ہے‘ کہ ایک قوم کے لوگ اپنی قومی خصوصیات کو صرف اسی وقت چھوڑتے ہیں جب ان کے اندر کوئی نفسی کمزوری اور اخلاقی ڈھیل پیدا ہو جاتی ہے۔ جو شخص دوسروں کا اثر قبول کر کے اپنا رنگ چھوڑ دے اور ان کے رنگ میں رنگ جائے، لامحالہ اس کے اندر تلوّن، چھچھورپن، سرعت ِانفعال اور خفیف الحرکتی کا مرض ضرور ہو گا۔ اگر اس کی روک تھام نہ کی جائے گی‘ تو یہ مرض ترقی کرے گا۔ اگر بکثرت لوگوں میں یہ پھیل گیا‘ تو ساری قوم نفسیاتی ضعف میں مبتلا ہو جائے گی۔اس کے اخلاق میں کوئی پختگی باقی نہ رہے گی۔ا س کے ذہن کی چولیں اتنی ڈھیلیں ہو جائیںگی کہ ان پر اخلاق اور خصائص کی مستحکم بنیادیں قائم ہی نہ ہو سکیں گی۔ لہٰذا اسلام کسی قوم کو بھی یہ اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہے‘ کہ وہ اپنے اندر اس نفسیاتی بیماری کی پرورش کرے۔ مسلمانوںہی کو نہیں، بلکہ جہاںاس کا بس چلتا ہے، وہ غیر مسلموں کو بھی اس سے بچانے کی کوشش کرتا ہے، کیونکہ وہ کسی انسان میںبھی اخلاقی کمزوری دیکھنا نہیں چاہتا۔
خصوصیت کے ساتھ مفتوح و مغلوب لوگوں میں یہ مرض زیادہ پھیلتا ہے۔ان کے اندر محض اخلاقی ضعف ہی نہیں ہوتا بلکہ درحقیقت وہ اپنی نگاہوں میں آپ ذلیل ہو جاتے ہیں۔ اپنے آپ کو خود حقیر سمجھتے ہیں‘ اور اپنے حکمرانوںکی نقل اتار کر عزت اور فخر حاصل کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ عزت، شرافت، بزرگی، تہذیب، شائستگی، غرض جس چیز کا بھی وہ تصوّر کرتے ہیں اس کا مثالی نمونہ انہیں اپنے آقاؤں کی صورت ہی میں نظر آتا ہے۔ غلامی ان کے جوہر آدمیت کو اس طرح کھا جاتی ہے‘ کہ وہ علانیہ اپنی ذلت اور پستی کا مجسم اشتہار بننے پر آمادہ ہو جاتے ہیں‘ اور اس میں شرم محسوس کرنے کے بجائے فخر محسوس کرتے ہیں۔{ FR 2991 }اسلام جو انسان کو پستیوں سے اُٹھا کر بلندی کی طرف لے جانے آیا ہے۔ ایک لمحہ کے لیے بھی اس کو جائز نہیں رکھتا کہ کوئی انسانی گروہ ذلت نفس کے اس اسفل السافلین میں گر جائے‘ جس سے نیچے پستی کا کوئی اور درجہ ہے ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے‘ کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں عجمی قومیں اسلامی حکومت کے زیر نگیں آئیں تو آپ نے ان کو سختی کے ساتھ اہلِ عرب کی نقّالی سے روکا۔ اسلامی جہاد کا مقصد ہی باطل ہو جاتا اگر ان قوموں میں غلامانہ خصائل پیدا ہونے دئیے جاتے۔ رسول اللہa نے عربوں کو اسلام کا پرچم اس لیے نہیں دیا تھا‘ کہ وہ قوموں کے آقا بنیں اور قومیںان کے ماتحت غلامی کی مشق بہم پہنچائیں۔
ان وجوہ سے اسلام اس بات کا مخالف ہے‘ کہ کوئی قوم دوسری قوم کا ہو بہو چربہ بننے کی کوشش کرے اور اس کے لباس و طرز معاشرت کی نقّالی کرنے لگے۔ رہا تہذیب و تمدّن کا وہ لین دین جو ایک دوسرے سے میل جول رکھنے والی قوموں میں فطری طور پر واقع ہوتا ہے‘ تو اسلام اس کو نہ صرف جائز رکھتا ہے‘ بلکہ فروغ دینا چاہتا ہے۔ وہ قوموںکے درمیان تعصبات کی ایسی دیواریں کھڑی کرنا نہیں چاہتا کہ اپنے تمدّن میں ایک دوسرے کی کوئی چیز سرے سے لیں ہی نہیں۔رسول اللہ a نے شامی جبہ پہنا جو یہودیوں کے لباس کا جزو تھا، چنانچہ حدیث میں ہے فتوضا وعلیہ جبۃ شامیۃ۔ آپؐ نے تنگ آستینوں والا رومی جُبّہ بھی پہنا ہے‘ جسے رومن کیتھولک عیسائی پہنتے تھے۔ نوشیروانی قبا بھی آپؐ کے استعمال میں رہی ہے‘ جسے حدیث میں جبۃ طیالسۃ کسروانیۃ کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے برنس پہنی ہے‘ جو ایک قسم کی اونچی ٹوپی ہوتی تھی‘ اور عیسائی درویشوں کے لبا س کا جزو تھی۔ اس قسم کی متفرق چیزوںکا استعمال تشبہ سے بالکل مختلف چیز ہے۔ تشبہ یہ ہے‘ کہ آدمی کی پوری وضع قطع کسی دوسری قوم کی مانند ہو‘ اور اس کو دیکھ کر یہ تمیز کرنا مشکل ہو جائے‘ کہ وہ کس قوم سے تعلق رکھتا ہے۔ بخلاف اس کے جسے ہم ’’‘لین دین‘‘کے لفظ سے تعبیر کر رہے ہیں وہ یہ ہے‘ کہ ایک قوم دوسری قوم کی کوئی اچھی یا مناسب حال چیز لے کر اسے اپنے وضع قطع کا جُزو بنا لے، اور اس جُزو کے شامل ہونے پر بھی اس کی قومی وضع بحیثیت مجموعی قائم رہے ‘‘ ۔{ FR 2992 }
(ترجمان القرآن ۵۸ھ، ۱۹۳۹ء)
خ خ خ

شیئر کریں