Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مقدّمہ
حصہ اوّل : ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ایک تاریخی جائزہ
تقدیم{ FR 2891 }
باب ۱: آنے والا انقلاب اور مسلمان
باب ۲ : حالات کا جائزہ اور آئندہ کے امکانات
باب ۳ : ہمارا سیاسی نصب ُالعین
باب ۴ : راہِ عمل
حصہ دوم : اِصلاح کا راستہ قرآن و سنّت کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے صحیح راہِ عمل
باب ۵ : مسائلِ حاضرہ میں
باب ۶ اسلام … ایک جامع تہذیب دین و دنیا کی علیحدگی کا جاہلی تصوّر اور ہماری قومی سیاست میں اس کے اثرات
باب ۷ : شُبہات اور جوابات
حصہ سوم : کانگریس، متحدہ قومی تحریک اور مسلمان
تقدیم
باب ۸: مسلمانوں کی غلط نمائندگی اوراس کے نتائج
باب ۹: آزادی اور قومی تشخّص
باب ۱۰ : قوم پرستوں کے نظریات
باب ۱۱ : آزادی کی فوج کے مسلمان سپاہی
باب ۱۲ : حصول آزادی کا طریقہ
باب ۱۳ : جنگ ِ آزادی کا مطمح نظر
باب ۱۴ : قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟
باب ۱۵: بنیادی حقوق
باب ۱۶ : متحدہ قومیّت اور اسلام
باب ۱۷ : کیا ہندستان کی نجات نیشل ازم میں ہے؟
باب ۱۸ : اسلامی قومیّت کا حقیقی مفہوم 
باب ۱۹ : جنگِ آزادی کی نوعیت
باب ۲۰ : کانگریس اور مسلمان
حصہ چہارم : ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کے حل کی راہیں تین تجاویز
باب ۲۱ : مسلمان کیا کریں؟ تین تجاویز

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

باب ۱۴ : قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟

اس بحث کو شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے‘ کہ عام ناظرین کی سہولت کے لیے چند اصلاحات کی تشریح کر دی جائے۔
لفظ اسٹیٹ جس کا مترادف ہماری زبان میں ’’ریاست‘‘ کا لفظ ہے علم سیاست کی اصطلاح میں اس نظام کو کہتے ہیں‘ جو ایک متعین رقبہ زمین میں رہنے والی آبادی کو قاہرانہ طاقت (coercive power) سے ضبط میں رکھتا ہو۔ قوّتِ قاہرہ کا وجود ایک طرف، اور اطاعت کا پایا جانا دوسری طرف، ان دو چیزوں کے بہم ہو جانے سے وہ نظمی ہیئت بن جاتی ہے‘ جسے اسٹیٹ یا ریاست کہا جاتا ہے۔
اسٹیٹ کی اس تعریف کو سمجھنے کے بعد قدرتی طور پر یہ سوال سامنے آتا ہے‘ کہ وہ قوّت قاہرہ جس کی اطاعت ایک آبادی کر رہی ہے خود اس آبادی کے اندر اس کے مجموعہ میں سے اُبھرتی ہے‘ یا کہیںباہر سے آتی ہے؟ اگر اس کے اجتماعی وجود سے الگ کوئی طاقت ایسی ہے‘ جو اس پر حاکمانہ اختیار استعمال کرتی ہے‘ تو وہ غلام ہے۔ اور اگر وہ آبادی خود حاکمیّت (sovereignty) کی مالک ہے‘ اور اپنی رضا مندی سے ایک نظمی ہیئت کو قوّتِ قاہرہ فراہم کرکے دیتی ہے تاکہ وہ اس کے معاملات کی تنظیم کرے تو وہ خود مختار جماعت ہے۔ کسی آبادی کا اس طور پر اپنے اوپر حکمراں ہونا، یا بالفاظِ دیگر حاکمیّت سے متمتع ہونا، جمہوریت کا اصل الاصول ہے۔ جب ہم کسی اسٹیٹ کو ’’جمہوری اسٹیٹ‘‘ کہتے ہیں‘ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے‘ کہ یہ اسٹیٹ جن باشندوں سے مرکب ہے وہی اس کی حاکمیّت کے مالک ہیں۔ گورنمنٹ جو ان کے اسٹیٹ کا انتظام کرتی ہے، ان کی اجتماعی رضا مندی کی تابع ہے، اور اس کا منصب اس کے سوا کچھ نہیں ہے‘ کہ ان کی خواہشات کو وضع قوانین اور تنقید قوانین میں رو بعمل لائے۔
مغرب کے جمہوری نظام کا عمل اس کے نظریہ سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ نظری حیثیت سے تو اسٹیٹ کے ہر فرد کو حاکمیّت حاصل ہے‘ اور وہ اس کے استعمال کا حق رکھتا ہے۔ لیکن عملاً یہ ممکن نہیں ہے‘ کہ ہر ہر شخص کی خواہش کے مطابق قوانین بنیں اور حکومت کی جائے۔ لہٰذا عملی اغراض کے لیے جمہوریت کا قاعدہ یہ قرار دیا گیا کہ حکومت ہمیشہ اکثریت کی خواہشات کے مطابق ہو گی۔ یہی وہ مقام ہے‘ جہاں سے مشکلات کا آغاز ہوتا ہے۔ جمہوری حکومت جن خوش نما نظریات سے شروع ہوتی ہے،عمل کی سرحد میں آکر وہ رخصت ہو جاتے ہیں‘ اور ان سب کا خلاصہ یہ نکلتا ہے‘ کہ مملکت کے باشندوں کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو حاکمیّت سے عملاً محروم کرکے ان پر اپنی خواہشات مسلط کر دے۔ ہر ملک میں مختلف گروہ مختلف قسم کے مفاد، مذاق، خواہشات اور اغراض رکھنے والے ہوتے ہیں۔ ان سب کے اشتراکِ عمل ہی سے تمدّن کی مشین چلتی ہے۔ ان میں سے ہر ایک مملکت کی اجتماعی خوش حالی اور فلاح و بہبود میںکسی نہ کسی حیثیت سے اپنا حصہ ادا کرتاہے۔ ہر ایک کے لیے اس کی اغراض اور خواہشات اتنی ہی اہمیت رکھتی ہیں جتنی دوسرے کے لیے اس کی اغراض و خواہشات، لیکن جمہوری نظام میں جب اکثریت کی حکومت کا اصول اختیار کیا جاتا ہے‘ تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیںکہ جو گروہ کثیر تعداد میں ہے وہ حاکم بن جائے‘ اور حکومت کے زور سے اپنی اغراض و خواہشات حاصل کرے اور جو گروہ قلیل تعداد میں ہے وہ غلام بنا لیا جائے‘ اور اکثریت کی اغراض و خواہشات پر اس کی اغراض و خواہشات اسی طرح قربان کی جائیں جس طرح کسی زاریا کسی قیصر کی انتہائی ظالمانہ حکومت میں کی جا سکتی ہیں۔ یہی چیز ہے‘ جس کو اکثریت کا استبداد (tyranny of the majority) کہتے ہیں‘ اور جو اس زمانہ کی جمہورتیوں کے چہرے پر سب سے زیادہ بد نما داغ ہے۔
اکثریت کی حکومت کا اصول صرف اس جگہ صحیح ہو سکتا ہے‘ جہاں کے باشندے اساسی امور (fundamentals) میںمتفق ہوں‘ اور ان کے درمیان اختلاف محض آراء کا ہو، نہ کہ اغراض کا۔ ایسی جگہ تو یہ ممکن ہے‘ کہ آج کی اقلیت کل اکثریت بن جائے‘ اور آج کی اکثریت کل اقلیت بن جائے۔ رائے عام اگر محض رائے عام ہے‘ تو وہ بدل سکتی ہے‘ اور بدلی جا سکتی ہے۔ کل رائے عام لبرل پارٹی کی موید تھی‘ تو آج وہ لیبر پارٹی کے حق میں ہموار ہو سکتی ہے۔ ایسی حالت میں کوئی اکثریت نہ مستقبل اور دائمی اکثریت ہو گی نہ کبھی ظلم و جور کا طریقہ اختیار کر سکے گی، اور نہ اقلیت کو اس سے یہ اندیشہ ہو گا کہ وہ اساسی امور پر ضرب لگائے گی لیکن اغراض یا خود غرضی کا اختلاف، اور مذہبی اصولوں کا، یا قومی جذبات کا، یا طرز زندگی کا اختلاف وہ چیز نہیں ہے‘ جو دلائل سے دور کیا جا سکے۔اس اعتبار سے جو گروہ اکثریت میںہے وہ مستقل طور پر اکثریت میں رہے گا۔ ایسی اکثریت کو حکومت کا حق دینے کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک زار کی جگہ لاکھوں زار اور ایک قیصر کی جگہ کروڑوں قیصر پیدا ہو جائیں‘ اور محض اس بنا پر کہ ان کے سروں کی تعداد زیادہ ہے، ان کے لیے یہ جائز ہو جائے‘ کہ اپنے ہی ہم وطن لوگوں کی ایک معتدبہ جماعت پر جس طرح چاہیں ظلم و ستم کریں۔ یہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی صریح اور کلی نفی ہے۔ اس چیز پر لفظ جمہوریت کا اطلاق ہی غلط ہے۔ا سے بڑے پیمانہ پر چنگیزیت کہنا چاہیے۔
جن ممالک میں باشندوں کے درمیان قومی تفریق موجود ہے، یعنی مذہب، نسل، زبان، رنگ وغیرہ امور میں اختلاف پایا جاتا ہے، اور اسی طرح جہاں نظریات ااور اصولِ زندگی کا اساسی اختلاف ہے، یا باشندوں کے مختلف گروہوں کی اغراض باہم متصادم ہیں، وہاں مختلف عناصر کو ملا کر ایک اسٹیٹ بنانے اور اس میں جمہوریت کا اصول نافذ کر دینے کا نتیجہ ظلم کے سوا کچھ نہیں نکلا، اور ہمیں دنیا کی پوری تاریخ میںایک مثال بھی نہیں ملی جس کو مستثنیٰ قرار دیا جا سکتا ہو۔
روس میںمزدوروں کی حکومت قائم ہونے کے بعد متوسط طبقہ کے لوگ، چھوٹے زمین دار، تجارت پیشہ اور دکان دار، اور ان سب سے زیادہ مذہبی گروہ جس بری طرح پیسے گئے‘ اور آج بھی جس طرح وہ غلام بنا کر رکھے گئے ہیں، اس حالت کا تقابل اگر زار کی حکومت کے مظالم سے کیا جائے‘ تو شاید زاریت ہی کو اشتراکیت کے آگے سر نیاز جھکا دینا پڑے۔ یہ اس امر کا کھلا ہوا ثبوت ہے‘ کہ جہاں خود غرضی بنائے اختلاف ہو وہاں ایک قسم کی اغراض رکھنے والوں کا حکمران بن جانا یہ معنی رکھتا ہے‘ کہ وہ دوسرے تمام گروہوں کا خون چوس لیں‘ اور ان کو اپنی خود غرضی کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیں۔
مغرب میں وطنیت کے تجربات
چیکوسلواکیہ میں اب سے ۲۰ سال قبل مختلف چھوٹی اور بڑی قوموں کو ملا کر ایک جمہوری اسٹیٹ بنایا گیا تھا۔ اس سیاسی حماقت کا جو انجام ہوا آج اسے ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ سب سے بڑھ کر جن قوموں سے توقع تھی‘ کہ ان سے مل کر ایک قوم بن جائے گی انہی نے مصنوعی قوم سازی کے نظریہ کی دھجیاں بکھیر دیں۔ اس نئی ریاست کے اصل اجزائے ترکیبی دو ہیں۔ ایک چیک (czech)، دوسرے سلاوک (slavaks) نسل اور قومی روایات کے لحاظ سے دونوں بالکل مختلف ہیں۔ گزشتہ ہزار برس کی تاریخ میں کہیں ان کے درمیان کسی اور ارتباط کا نشان نہیں ملتا۔ صرف ایک چیز ان کے درمیان مشترک تھی۔ اور وہ یہ تھی‘ کہ دونوں آستریا ہنگری کے غلام تھے۔ا ور دونوں کو ظالم سلطنت کی نفرت اور آزادی کی خواہش نے ایک دوسرے سے قریب تر کر دیا تھا۔ سیاسی مدبرین یہ سمجھے کہ مشترک دشمن کی عداوت اور اس کے پنجہ سے آزادی حاصل کرنے کا مشترک جذبہ دو قوموں کو ایک قوم بنا دینے کے لیے کافی بنیاد ہے۔چنانچہ انہوں نے ان دونوںکو ملا کر ایک نئی قوم ’’چیکوسلاوک‘‘ وضع کر دی‘ اور اس کو بالفعل موجود فرض کرکے ان کی ایک قومی جمہوری ریاست بھی بنا دی۔ لیکن اس جدید ریاست کی تشکیل پر کچھ زیادہ زمانہ نہ گزرا تھا‘ کہ تجربہ نے ثابت کر دیا کہ دو قوموں کو ساتھ ملا کر باندھ دینے سے ایک قوم نہیں بن جایا کرتی۔ مصنوعی قومیّت آزمائش کی کسوٹی سے رگڑ کھاتے ہی کھوٹی ثابت ہو گئی۔چیک کثیر التعداد تھے، زیادہ تعلیم یافتہ اور زیادہ سرمایہ دار تھے، اور آسٹریا ہنگری کے مظالم نے ان کو سلطنت کے ساتھ مذہب سے بھی متنفر کر دیا تھا۔ ان کے برعکس سلاوک لوگ سخت پابند مذہب، تعلیم میں بہت پیچھے، زیادہ تر زراعت پیشہ اور خستہ حال، اور تعداد میں بھی چیکوں کی بہ نسبت ۳/۱، اس تفاوت سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر چیک اکثریت نے دستورِ حکومت میں یہ طے کر لیا کہ ’’قومی اسٹیٹ بالکل ایک دنیوی اسٹیٹ (secular state) ہو گا۔ اس میں تمام مذاہب کے ساتھ رواداری تو ضرور برتی جائے گی، مگر کسی مذہب یا مذہبی نظام کو سرکاری طور پر تسلیم نہ کیا جائے گا۔ تعلیم کا پورا نظام اسٹیٹ کے ہاتھ میںہو گا۔ اور ایسی تعلیم دی جائے گی‘ جو سائینٹی فک تحقیقات کے نتائج سے متصادم نہ ہوتی ہو‘‘۔{ FR 2952 } دستور العمل کی ان دفعات سے فائدہ اُٹھا کر چیک اکثریت کی حکومت نے سلاوک علاقے کے مدارس میں لامذہب اسکول ماسٹر بھیجنے شروع کر دئیے اور نظامِ تعلیم سے مذہبی تعلیم کو قطعی خارج کر دیا۔ سلاوک لوگوں نے اپنی مذہبی تعلیم کے لیے بطور خود کوئی انتظام کرنا چاہا تو اسے سرکاری امداد دینے سے انکار کر دیا گیا۔ حکومت کے نظم و نسق اور خصوصا بڑے ذمّہ داری کے مناصب کو چیکوں کے لیے مخصوص کر دیا گیا‘ اور خود سلاوک علاقوں میں چیک افسر حکمران بن کر آنے لگے۔انہی باتوں نے آخر کار سلاوک لوگوں کو اس بات کا قائل کردیا کہ ایک چھوٹی اور ایک بڑی قوم کو ملا کر ایک قومی جمہوری اسٹیٹ بنانا دراصل چھوٹی قوم کو بڑی قوم کی غلامی میں دینا ہے۔چنانچہ اب وہ کئی سال سے اپنے علاقے کے لیے حکومت خود اختیاری (autonomous self government) کا مطالبہ کر رہے ہیں۔{ FR 2953 }
اسی ’’قومی جمہوری ریاست‘‘ میں تقریبا ۳۵ لاکھ جرمن بھی شامل کر دئیے گئے تھے (یعنی کل آبادی کا ۲/۱ حصہ) جن کی قومیّت، نسل، زبان، تاریخی روایات چیک اور سلاوک دونوں قوموں سے بالکل مختلف تھیں، بلکہ صدیوں سے چیک اور جرمن نسل میں کھلی عداوت چلی آتی تھی۔ مدارس میں، کارخانوں میں، کلیساؤں میں، جہاں کہیں چیک اور جرمن جمع ہوتے وہاں اکثر ہنگامے ہو جایا کرتے تھے۔ ایک دوکان میں دونوں سے یکجا کام لینا مشکل تھا۔ حتیٰ کہ ایک اسٹیشن سے ان کا ریل پر سوال ہونا بھی دشوار تھا جس کی وجہ سے اکثر چھوٹے چھوٹے مقامات پر بھی دو اسٹیشن بنائے جاتے تھے تاکہ ایک سے چیک سوار ہوں‘ اور دوسرے سے جرمن ۔{ FR 2954 } اس قدر شدید اختلافات کے باوجود ان دونوں کو ایک قومیّت میں شامل کرکے ایک قومی جمہوری اسٹیٹ بنا دیا گیا جس میں چیک اپنی اکثریت کی بنا پر حاکم اور جرمن اپنی اقلیت کی بنا پر محکوم تھے، حالانکہ صدیوں تک اسی سر زمین میں جرمن حاکم اور چیک محکوم رہ چکے تھے۔ اس کا نتیجہ جو کچھ ہوا اسے ابھی حال ہی میں ساری دنیا دیکھ چکی ہے۔ ثابت ہو گیا کہ محض ایک قومی اسٹیٹ بنا دینے سے دو مختلف قومیں ایک قوم نہیں بن سکتیں اور نہ ان میں ایک جمہوری اسٹیٹ بنا دینے سے جمہوریت کی حقیقی روح پیدا ہو سکتی ہے۔البتہ مصنوعی طور پر دو قوموں کی ایک قومیّت اور ایک جمہوریت بنا دینے کا یہ اور صرف یہی نتیجہ نکلتا ہے‘ کہ کثیر التعداد قوم عملاً قلیل التعداد قوم کو غلام، اور جمہوری نظام میں اس کو حاکمیّت کے فطری حقوق سے محروم کر کے رکھ دے۔ چیک اکثریت نے جرمن اقلیت کے ساتھ یہی کیا۔ تعلیم کے ذریعہ سے جرمنوں کو چیک قومیّت میں جذب کرنے کی کوشش کی گئی۔ جرمن زبان و ادب کو مٹانے اور دبانے میں کوئی کثر اُٹھا نہ رکھی گئی۔ سرکاری ملازمتوں میں جرمن اور چیک کا قومی امتیاز کبھی نہ بھولا گیا‘ اور ہمیشہ چیکوں کو جرمنوں پر ترجیح دی گئی۔ تجارتی کاروبار اور سرکاری کام کے ٹھیکوں تک میں جرمنوں کو دبانے اور چیکوں کو بڑھانے کا ہر ممکن طریقہ اختیار کیا گیا۔ حتیٰ کہ خاص ان علاقوں میں جہاں ۸۰ اور ۶۰ فیصد جرمن آبادی تھی، سرکاری ضروریات کے لیے چیکوں کو ٹھیکے دئیے جانے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سڈٹین جرمنوں کی معاشی حالت روز بروز گرنی شروع ہو گئی اور ان کے کاروبار بیٹھنے لگے۔ یہ سب کچھ اس قومی جمہوری اسٹیٹ میں ہوا جس کی ’’متحدہ وطنی قومیّت‘‘ کا ایک جزیہ جرمن بھی تھے۔ جس کے جمہوری نظام میں ان کو دستور کی رو سے پورے شہری حقوق عطا کیے گئے تھے‘ اور جس کی دولت مشترکہ (common wealth) کی ملکیت میں وہ بھی ازروئے دستور یکساں حصہ دار تھے۔ لیکن ۲۰ سال کے تجربے نے بتا دیا کہ ’’قومی‘‘ اور ’’جمہوری‘‘ کے معنی لغت میں کچھ اور ہوتے ہیں‘ اور حقیقت میں کچھ اور، آخر جرمنوں میںوہ عظیم الشان ہیجان رونما ہوا جو قریب تھا‘ کہ تمام دنیا کے امن و امان کو پھونک دیتا اگر عین وقت پر عقل مندی سے کام لے کر جرمنوںکو جرمنی کے حوالہ نہ کر دیا جاتا۔
اسی قسم کے حالات ان دوسرے ممالک کے بھی ہیں جہاں مختلف قوموں کو ایک قومیّت فرض کرکے ایک جمہوری اسٹیٹ میں ضم کر دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر یوگوسلافیا کو لیجئے۔ انیسویں صدی کے آخری دور میں آسٹریا ہنگری کے ظالمانہ تسلّط سے نجات حاصل کرنے کے لیے کروٹ (croats) اور سلافینی (slovenes) قوموں میں آزادی کا زبردست جذبہ پیدا ہوا اور انہوں نے اپنے ہمسایہ سربیوں (serbs) سے اتحاد کر لیا۔ ان مختلف عناصر کے درمیان آسٹریا کی عداوت اور آزادی کی مشترک خواہش کے سوا اور کوئی وجہ اتحاد نہ تھی۔ نسل میں اختلاف، مذہب میں اختلاف، زبان میں اختلاف، اور طرز زندگی میں اختلاف، مگر طلب آزادی کے نشے میں ان سب اختلافات کو نظر انداز کرکے یہ سب گھل مل گئے، اپنی متحدہ قومیّت کا نام انہوں نے ’’یوگوسلافیا‘‘ رکھ لیا، اور اپنی الگ زبانوں کے نام ملا کر ایک متحدہ قومی زبان کا عجیب و غریب نام (serbo-croation solovene) رکھا، جس کا مسمیٰ کہیں دنیا میں موجود نہ تھا بلکہ تین الگ الگ زبانیں مختلف رسم الخطوں اور مختلف لسانی خصوصیات کے ساتھ موجود تھیں‘ اور ’’ہندوستانی‘‘ کی طرح بس ان کا ایک متحد نام رکھ دیا گیا۔ جنگ عظیم کے دوران میں جب یہ تینوں قومیں آسٹریا ہنگری کے خلاف بر سر پیکار ہوئیں تو جولائی ۱۹۱۷ء میں سربیا کے وزیر اعظم اور جوگو سلا کمیٹی کے صدر کا ایک مشترک بیان اس مضمون کا شائع ہوا کہ :
سرب کروٹ اور سلافینی ایک قوم ہیں۔ آئندہ کے لیے یہ اپنا ایک قومی اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں‘ جو جمہوری اسٹیٹ ہو گا۔ اس متحدہ اسٹیٹ کا جھنڈا الگ ہو گا‘ اور تینوں شرکاء کے جھنڈے الگ الگ ہوں گے جن کی حیثیت مساویانہ ہو گی۔ اسی طرح سریلک (cyrillic) اور لیٹن (latin) دونوں رسم الخط سرکاری طور پر مساوی ہوں گے‘ اور مذاہب یعنی آرتھوڈوکس کیتھولک اور اسلام کا درجہ بھی مساویانہ تسلیم کیا جائے گا۔
مگر جنگ ختم ہونے کے بعد جب آزادی ملی اور نومبر ۱۹۲۰ء میں نئی ریاست کی بنا رکھی گئی‘ تو صورت حال کچھ اور ہی تھی۔ ریاست کی ایک کروڑ بیس لاکھ آبادی میں پچاس لاکھ کے قریب سرب تھے، تیس لاکھ کیتھولک کروٹس اوردس لاکھ سلافینی، ان کے علاوہ جرمن، مگیار، رومانی، بلغاری اور البانوی بھی کئی کئی لاکھ کی تعداد میں شامل ہو گئے تھے۔ اگرچہ ان سب کو ملا کر سربی گروہ اقلیت میں تھا، لیکن الگ الگ ہر گروہ کے مقابلہ میں اس کی بڑی اکثریت تھی، اور ان اقلیتوں کے درمیان کامل اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے اس کی پوزیشن اور زیادہ مضبوط ہو گئی تھی۔ا س پوزیشن سے فائدہ اُٹھا کر سربیوں نے عملاً حاکم قوم کی حیثیت اختیار کر لی، تمام اقلیتوں کو محکوم بنا لیا، متحدہ قومیّت کا تخیل ہوا میں اڑ گیا، اور حکومت کے زور سے سربی قومیّت تمام قلیل التعداد جماعتوں پر مسلط کی جانے لگی۔ تاسیس ریاست کے بعد پہلی مرتبہ جب ملک کا دستور بنانے کے لیے نیشنل کونسل منعقد ہوئی تو سربی قوم پرستوں نے یوگوسلانی قومیّت کا لبادہ اتار کر پھینک دیا اورخود مختار صوبوں کا ایک وفاق بنانے کے بجائے ایک مضبوط مرکزی طاقت رکھنے والی بادشاہی کی بنا رکھ دی جس کا فرماں روا سربیا کا بادشاہ تھا‘ اور جس کا پایہ تخت سربیا کا پایہ تخت تھا۔ آج اس ’’قومی جمہوری حکومت‘‘ کا کھلا ہوا مسلک یہ ہے‘ کہ اقلیتوں کی قومیّت کے ایک ایک نشان کو مٹائے اور تمام اقلیتیں تقریبا ۱۸ سال سے پیہم کوشش کر رہی ہیں‘ کہ اس پھندے سے، جس کو خود انہوں نے خوشی خوشی پہنا تھا، کسی طرح بچ نکلیں۔ { FR 2955 }
جمہوریّت کے بڑے مرکز
ان چھوٹی ریاستوں کو چھوڑ کر ان بڑے ممالک کو لیجئے جو آج جمہوریت اور دستوریت کے ابوآلاباء سمجھے جاتے ہیں۔ان میں بھی جہاں کہیں مختلف مذاہب یا مختلف نسلی قومیّتوں کو ملا کر ایک قومیّت بنی ہے، جبر اور ظلم ہی سے بنی ہے‘ اور قومی جمہوری اسٹیٹ وہاں اسی طرح بنا ہے‘ کہ آبادی کے ایک کثیر التعداد اور منظم گروہ نے چھوٹے گروہوں پر زبردستی اپنی خواہشات اور اپنے اصولوں کو مسلط کیا اور ان کے امتیازی وجوہ کو مٹا کر رکھ دیا۔
سوئس قوم اور اس کی جمہوری وفاقی ریاست کس طرح بنی؟ ابتداً ۲۲ آزاد جمہوری ریاستوں کامحض ایک تحالُف (confederation) تھا۔ انیسویں صدی کی ابتداء میں مذہبی آزاد خیالی کے اثرات سوئٹزر لینڈ پہنچے اور مذہب کو تعلیم اور سیاست دونوں سے خارج کرنے کا ارادہ کیا گیا۔ سات کیتھولک ریاستوں نے اس کی مخالفت کی۔ ۱۵ آزاد خیال ریاستوں نے ان پر زبردستی اپنے خیالات کو مسلط کرنا چاہا، جس کا انہیں ازروئے آئین کوئی حق نہ تھا۔ آخر ۱۸۴۷ء میں ساتوں کیتھولک ریاستیں تحالُف سے الگ ہو گئیں اور تحائف کے اصول کی رو سے وہ پوری طرح اس کی مجاز تھیں۔ مگر آزاد خیال ریاستوں نے اپنی غالب اکثریت سے ان کے اس فعل کو ناجائز ٹھہرایا اور ان کے علاقوں پر حملہ کرکے انہیں زبردستی ایک وفاقی اسٹیٹ میں شامل ہونے پر مجبور کر دیا۔ پھر ۱۸۴۸ء میں جو نیا دستور بنایا گیا۔ اس میں وفاقی ریاستوں کے اختیارات محدود کرکے مرکز کے اختیارات نہایت وسیع کر دئیے گئے، تاکہ اکثریت پوری طرح اقلیت پر اپنی مرضی اور اپنے اصولوں کو نافذ کر سکے اور اقلیت مجبور ہو کر اس واحد قومیّت میں اپنے آپ کو گم کر دے جسے آزاد خیال لوگ (radicals) وجود میں لانا چاہتے تھے۔{ FR 3052 }
برطانیہ میں کیا ہوا؟ انیسویں صدی کے ثلث اوّل تک برطانیہ عظمی میں انتخاب کا قانون اس قسم کا تھا‘ کہ انگلینڈ کو، اسکاٹ لینڈ، ویلز ا ور آئرلینڈ، تینوںکی مجموعی طاقت سے قریب قریب تین گنی زیادہ اکثریت پارلیمنٹ میں حاصل ہوتی تھی۔ انگلستان کی صرف ایک کاؤنٹی (کارنوال) کے نمائندے پورے اسکاٹ لینڈ کے نمائندوں کے برابر تھے حالانکہ اسکاٹ لینڈ کی آبادی کارنوال سے آٹھ گنی تھی۔ کوئی یہودی‘ اور کوئی ایسا شخص جو اینگلیکن چرچ کو نہ مانتا ہو، ازروئے قانون نہ تو پارلیمنٹ کا ممبربن سکتا تھا، نہ کسی سرکاری عہدے پر مامور ہو سکتا تھا‘ اور نہ کسی میونسپلٹی میں داخل ہو سکتا تھا۔ ان سب فرقوں کو چرچ آف انگلینڈ کے لیے عُشر دینا پڑتا تھا۔ نکاح کے لیے چرچ آف انگلینڈ کے پادری کے پاس جانا ہوتا تھا۔ اپنی عبادت گاہ کو چرچ آف انگلینڈ میں رجسٹر کرانا پڑتا تھا۔آکسفورڈ اور کیمرج میں داخلہ کے لیے ایسی مذہبی شرائط رکھی گئی تھیں جنہیں اینگلیکن چرچ کے پیروؤں کے سوا کوئی پورا نہ کر سکتا تھا اس لیے ان دونوںیونی ورسٹیوں کے دروازے گویا دوسرے فرقوں کے لیے بند تھے۔ چرچ آف انگلینڈ کو نہ ماننے والے لوگ ووٹ دینے کے حق دار تو تھے، مگر وہ اپنے ہم مذہب لوگوں کو ووٹ نہ دے سکتے تھے، کیونکہ انہیں پارلیمنٹ میں داخل ہونے کی اجازت ہی نہ تھی۔ ۱۸۲۸ء میں ان قیود کو اٹھانے اور نرم کرنے کا میلان پیدا ہوا اور قریب قریب ۶۰ برس کی مسلسل اور تدریجی اصلاح نے بالآخر ان کو بالکلیہ منسوخ کیا۔ اس قسم کی تھی وہ جابرانہ طاقت، اور اس قسم کا تھا وہ مادّی و اخلاقی غلبہ جس سے انگلینڈ کے لوگوں نے برطانیہ عظمیٰ کی مختلف قوموں اور مختلف مذہبی جماعتوںکومغلوب کرکے اپنی تہذیب اور اپنی قومیّت میں جذب کیا اور وہ واحد قومیّت بنائی جسے آج ’’ایک ملک اور ایک قوم‘‘ کا نعرہ بلند کرنے والے سب سے پہلے مثال میں پیش کرتے ہیں۔ شاید کہ ان کے پیشِ نظربھی ایک قوم بنانے کے ایسے ہی طریقے ہوں گے۔
یہاں مثالوںکا استقصاء مقصود نہیں ہے۔ اگرچہ عہد حاضر کی تاریخ اور خود ہمارے موجود دور کے واقعات سے ایسی ہی بکثرت مثالیں اور بھی پیش کی جا سکتی ہیں۔ مگر جو بات میں ثابت کرنا چاہتا ہوں اس کے لیے یہی مثالیں بہت کافی ہیں۔ ان سے بآسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے‘ کہ مختلف قوموں کو ایک قوم قرار دے کر ایک جمہوری اسٹیٹ بنانے کے معنی کیا ہیں۔ اور یہ بات جو بظاہر نہایت معصوم الفاظ میں بیان کی جاتی ہے اس میں کس قدر غیر معصوم مقصد پوشیدہ ہوتا ہے۔
اب ذرا ہندستان کے حالات پر ایک نظر ڈالئے اور دیکھئے کہ یہاں ایک قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ بنانے کے معنی کیا ہو سکتے ہیں۔
ہندستان اور قومی ریاست
جمہوری اسٹیٹ کے معنی یہ ہیں‘ کہ تمام باشندگانِ ہند کو اسٹیٹ میں حاکمیّت حاصل ہو مگر عملاً اس حاکمیّت کو وہ جماعت استعمال کرے جو اکثریت میں ہو۔
جمہوری کے ساتھ ’’قومی‘‘ کی قید لگانے سے یہ نتیجہ نکلا کہ یہاں مختلف قومیّتوں کے وجود کی نفی کر دی جائے‘ اور تمام باشندوں کو ایک قوم قرار دیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہندستان کی حکومت میں کسی شخص کا حصہ اس حیثیت سے نہ ہو گا کہ وہ ہندو یا مسلمان ہے۔ اسٹیٹ کی رکنیت میں شامل ہونا خود بخود اس امر کو مستلزم ہو گا کہ وہ اپنے ہندو یا مسلمان ہونے کی حیثیت کی خود نفی کر دے۔ اس کی جُدا گانہ قومی حیثیت خواہ بالفعل برقرار رہے، مگر وہ اس حیثیت میں اسٹیٹ سے کسی چیز کا مطالبہ نہ کر سکے گا، بلکہ اسے ان فیصلوں کو قبول کرنا ہو گا جو مجموعی طور پر ملک کے باشندوں کی اکثریت ملک کی مجالس قانون ساز میں طے کر دے۔
لادینی کی قید اس میں ایک اور چیز کا اضافہ کرتی ہے۔ا س کے معنی یہ ہیں‘ کہ کوئی شخص اور کوئی گروہ وہ کسی مذہب کا پیرو ہونے کی حیثیت سے اسٹیٹ میں حصہ دار نہیں ہے۔وہ اسٹیٹ کے دائرے میں اپنی اس حیثیت کو لے کر بھی نہیں آسکتا۔ اس دائرے میں اس کوخود اپنی اس حیثیت کی نفی کرنی ہو گی۔ اخلاق، تمدّن، معاشرت، معیشت، تعلیم اور زندگی کے دوسرے مسائل کے متعلق اس کے اپنے نظریات خواہ کچھ ہوں، وہ ان سب کو اس وقت بھلا دینے پر مجبور ہو گا جب باشندوں کی اکثریت ان مسائل میں کوئی دوسرا نظریہ اختیار کرے گی، وہ اس وقت یہ نہ کہہ سکے گا کہ میرے مذہب اور میری تہذیب کا نظریہ دوسرا ہے‘ اور میں اکثریت کے نظریہ کو قبول نہیں کر سکتا۔ اگر وہ ایسا کہے گا تو اس کو جواب دیا جائے گا کہ اسٹیٹ میں جناب کا حصہ اس حیثیت سے ہے ہی کہاں کہ آپ فلاں مذہب اور فلاں تہذیب کے پیرو ہیں۔ مجلسِ قانون ساز میں آپ ایک مذہبی آدمی کی حیثیت سے آئے کب ہیں‘ کہ آپ کو اس قسم کے عذرات پیش کرنے کا حق حاصل ہو۔ یہاں تو آپ کی حیثیت محض ہندستانی ہونے کی ہے‘ اور جمہوریت کا اصول آپ تسلیم کر چکے ہیں۔ لہٰذا ہندستانیوں کی اکثریت جو نظریہ رکھتی ہے اسے طوعاً و کرہاً آپ کو قبول ہی کرنا ہو گا۔ اس پر مزید یہ کہ اگر وہ اپنے گروہ کی حد تک اپنی مذہبی تنظیم کرنے کے لیے حکومت کے وسائل و ذرائع میں سے کوئی حصہ مانگے گا تو اس سے کہہ دیا جائے گا کہ جناب یہ کوئی مذہبی اسٹیٹ نہیں ہے، ایک دنیوی لادینی اسٹیٹ ہے۔ اس کی حاکمیّت میں جب آپ کا کوئی حصہ مذہبی آدمی ہونے کی حیثیت سے ہے ہی نہیں تو آپ کو مذہبی تنظیم کے لیے حکومت کے اختیارات اور وسائل و ذرائع میں سے کوئی حصہ کیسے مل سکتا ہے۔ آپ کو یہ کام کرنا ہے‘ تو جائیے، خود اپنے مذہبی گروہ کے وسائل سے کیجئے۔
یہ نتائج تو محض ان تین اصطلاحوں کے معانی پر غور کرنے سے حاصل ہوتے ہیں۔ اب عملی حیثیت سے دیکھیے تو یہ تصویر اور زیادہ خوف ناک ہو جاتی ہے۔ اوپر میں بیان کر چکا ہوں کہ جمہوری نظام کے صحیح یا غلط ہونے کا تمام تر انحصار اس سوال پر ہے‘ کہ اس میں اکثریت اور اقلیت کس طرح بنتی ہے، اگر باشندوں کے درمیان زندگی کے بنیادی مسائل (fundamentals) میں اتفاق ہے، اور صرف وسائل و طریقہ ہائے کار (means and methods)میں اختلاف آرا پایا جاتا ہے، تب تو اکثریت اقلیت میں اور اقلیت اکثریت میں تبدیل ہوتی رہے گی۔ نہ کوئی اکثریت مستقل اور دائمی ہو گی نہ اقلیت۔ ایسی حالت میں اس امر کا کوئی خطرہ نہیں کہ اکثریت ظلم و استبداد کا طریقہ اختیار کرے اور اقلیت کو حاکمیّت سے محروم کرکے اسے غلام اور محکوم بنا لے۔ لیکن اگر صورت حال برعکس ہو۔ اگر باشندوں کے درمیان زندگی کے اساسی امور میں اختلاف ہو، اور اس اختلاف نے ان کو الگ الگ ممتاز گروہوں میں تقسیم کر دیا ہو، اور ان گروہوں میں ترجیح ہم جنس کی اسپرٹ پائی جاتی ہو، اور اس گروہ بندی نے ان کی دنیوی اغراض کو بھی بڑی حد تک ایک دوسرے سے متصادم کر دیا ہو، تو ایسی جگہ اکثریت دائمی اکثریت ہو گی‘ اور اقلیت دائمی اقلیت ہو گی۔ وہاں رائے عام کو ہموار کرکے اقلیت کا اکثریت بن جانا غیر ممکن ہے۔ وہاں سب باشندوں کو ایک قوم قرار دینے اور اس بنیاد پر جمہوری لادینی اسٹیٹ بنانے کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ اکثریت کو اقلیت پر ظلم کرنے اور اس کو غلام بنا کر رکھنے اور تباہ و برباد کرنے کا لائسنس دیا جائے۔ وہاں قومی اسٹیٹ دراصل اکثریت کی قوم کا اسٹیٹ ہو گا‘ اور لادینی ہو گا۔ اس میں اکثریت کو نہیں‘ بلکہ صرف اقلیت کو اپنی جُدا گانہ قومی حیثیت اور اپنی مذہبیت کی نفی کرنی ہو گی۔ اکثریت اپنی ان سب حیثیتوں کو برقرار رکھ کر سب کچھ کر سکے گی، مگر اقلیت اپنے مذہب کا یا اپنی تہذیب یا زبان و ادب و فلسفہ کا نام نہ لے سکے گی۔ ایسی جگہ تمام باشندوں کو ایک قوم قرار دینے کے معنی یہ نہیں کہ وہ فی الواقع ایک قوم ہے، بلکہ اس کے معنی دراصل یہ ہیں‘ کہ جو قوم کثیر التعداد ہے وہ جمہوری اسٹیٹ کی تمام طاقتوں پر قابض ہو کر قلیل التعداد جماعتوںکی قومیّتوں کو مٹانا اور اپنی قومیّت میں جذب کرکے ایک قوم بنانا چاہتی ہے۔
آنکھیں کھول کر انصاف کی نظر سے دیکھئے۔ کیا ہندستان میں فی الواقع یہی صورتحال موجود نہیں ہے؟{ FR 2957 }
۱- ہر شخص دیکھ سکتا ہے‘ کہ یہاں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان قومیّت کا اختلاف اس اختلاف سے بھی زیادہ نمایاں پایا جاتا ہے‘ جو یورپ میں جرمن اور فرنچ اور انگریز اور اطالوی قوموں کے درمیان ہے۔ وہاں کم از کم اخلاقی شعور ایک سا ہے، تہذیب کے بنیادی اصول ایک ہیں، اور آداب و اطوار اور طرز زندگی میںبھی اساسی اختلافات موجود نہیں ہیں، یا اگر ہیں بھی تو بہت خفیف، مگر یہاں آٹھ سو برس تک ایک آب و ہوا اور ایک خطّہ زمین میں پہلو بہ پہلو رہنے کے باوجود قوموں کی زندگی کے دھارے الگ الگ بہہ رہے ہیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو دیہاتی ہندوؤں اور مسلمانوں کو کچھ ایک جیسے لباس پہنتے دیکھ کر اور معیشت کے میدان میں ایک ساتھ محنت مزدوری کرتے دیکھ کر حکم لگا سکتے ہیں‘ کہ یہ ایک قوم ہیں۔ وہ ہندستان میں پیدا تو بیشک ہوئے ہیں مگر ان کا دماغ انگلستان میں بنا ہے‘ اور اس پر روسی وارنش تازہ تازہ چڑھا ہے۔ اس لیے وہ رات دن ہندستانیوں میں رہ کر بھی ان کو صرف اوپر سے اور باہر سے ہی دیکھ سکتے ہیں‘ جس طرح کوئی امریکن سیاح دیکھ سکتا ہے۔ وہ ان کے دل میں اتر کر اور ان کی زندگی میں گُھس کر نہیں دیکھ سکتے کہ ان کے درمیان کتنا بڑا اور گہرا تفاوت ہے۔د ونوں قوموں کے جذبات و احساسات ایک دوسرے سے اس قدر مختلف بلکہ باہم متصادم ہیں‘ کہ ہندو جس چیز کو الٰہی تقدیس و احترام کی نظر سے دیکھتا ہے، مسلمان اس کو شوق سے کھاتا ہے۔ا ور یہ فرق گاندھی جی اور مولانا ابوالکلام سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے گاؤں کے جلا ہے‘ اور پاسی تک کے درمیان یکساں ہے۔بلکہ مہاتما اور مولاناتو اس باب میں مدارات سے بھی کام لے سکتے ہیں، لیکن گاؤں والے اس پر لٹھ چلا بیٹھتے ہیں۔ شہری ہندو اور مسلمان تو کبھی کبھار ایک میز پر کھا بھی لیتے ہیں، مگر دیہاتی ہندو تو مسلمانوں کا ہاتھ لگا ہوا پانی تک نہیں پیتا۔ وہ ریل میں بھی اس تختہ پر جہاں مسلمان کھانا کھا رہا ہو، بادل نخواستہ ہی بیٹھتا ہے‘ اور دل میں چھی چھی کرتا رہتا ہے۔ ان دونوں کی زندگی کے اندر داخل ہونے والے دروازے ایک دوسرے کے لیے بالکل بند ہیں۔ پیدائش سے لے کر موت تک ہر رسم، ہر تہوار، ہر خوشی اور ہر غمی میں ہندو ہندو کے ساتھ ہوتا ہے‘ اور مسلمان مسلمان کے ساتھ۔ ان بین اختلافات کے ہوتے ہوئے کون انہیں ایک کہہ سکتا ہے؟
۲- منڈی اور دفتر اور کارخانے میں یہ دونوں یکجا ضرور ہوتے ہیں، مگر کیا ان کے قومی اختلاف کا اثر ان کے معاشی مفاد اور کاروباری اغراض میں ظاہر نہیں ہوتا؟ تخیل کی بلندیوں پر پہنچ کر کہنے والا جو چاہے‘ کہہ دے اور لکھنے والا جو چاہے لکھ دے، مگر روز مرہ کے کاروبار میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے کاروباری زندگی کے اندر اتر کر دیکھئے اور جو لوگ یہاں کام کر رہے ہیں ان سے پوچھئے، کیا آدمی کو ملازم رکھنے میں اور مزدور سے خدمت لینے میں اور دوسرے چھوٹے اور بڑے معاملات میں ہندو اور مسلمان کی تمیز نہیں کی جاتی؟ کیا دیہاتی آبادیوں تک میں مسلمانوں کا تمدّنی اور اقتصادی بائیکاٹ نہیں ہو رہا ہے؟ کیا یہ واقعہ نہیں ہے‘ کہ جو پیشے مسلمانوں کے ہاتھ میں تھے ان کے لیے ہندو تیار کیے جاتے ہیں تاکہ مسلمانوں سے کام نہ لینا پڑے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے‘ کہ آڑھت کے کاروبار میں مسلمانوں کا گھسنا قریب قریب نا ممکن کر دیا گیا ہے، اور اگر کوئی مسلمان آڑھتیہ منڈی میںآتا ہے‘ تو پوری ہندو برادری اس کا دیوالہ نکلوانے کے لیے متحد ہو جاتی ہے؟ پھر کیا ابھی حال ہی میں سارے ہندستان نے یہ نہیں دیکھا کہ پنجاب کے جدید زرعی قوانین پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے معاشی مفاد صریحاً ایک دوسرے کی ضد نکلے۔ سود خواروں کے غاصبانہ تسلّط سے زمینداروں کا نکلنامسلمانوں کے نزدیک رحمت تھا تو ہندو کے نزدیک لعنت، اور اس تقسیم میں ہندو اور مسلمان اس طرح ایک دوسرے کے مقابل آکھڑے ہوئے کہ بہت سے کانگریسی خیال کے مسلمان مسلمانوں کے ساتھ تھے‘ اور قریب قریب تمام کانگریسی ہندو… بھولا بھائی ڈیسائی تک… ہندوؤں کے ساتھ‘ کیا یہ اس امر کا صریح ثبوت نہیں ہے‘ کہ معاشی معاملات میں بھی دونوں قوموں کی اغراض بری حد تک متصادم ہیں؟
۳- پھر کیا کسی سیاسی معاملہ میں یہ لوگ قومی امتیاز اور ترجیحِ ہم جنس کا طریقہ برتنے سے بچے ہوئے ہیں؟ بے شمار مثالوں کو چھوڑ کر میں صرف کانگریس کے حدود عمل سے چند کھلی ہوئی مثالیں پیش کرتا ہوں، اس لیے کہ یہی جماعت ہندستانی قومیّت کی مدعی ہے‘ اور اس لیے بھی کہ اس کے دائرے میںجو قومی امتیاز پایا جاتا ہے اس کا الزام برطانوی سامراج کے سر تھوپنے کی جرأت شاید پنڈت جواہر لال بھی نہیں کر سکتے۔
۱- بہار اسمبلی میں ۲۹ اپریل ۱۹۳۸ء کو خود کانگریسی حکومت نے سوال نمبر ۶۶۹ کا جواب دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ صوبہ بہار کی ۲۴ میونسپل کمیٹیوں میں مخلوط انتخاب کے ذریعہ ۲۹۹ نشستوں میں سے ۴۷ نشستیںمسلمانوں کو ملنی چاہیے تھیں، کیونکہ ان میونسپلٹیوں کے حدود میں مسلمانوں کی آبادی تقریبا ۳۳ فیصدی ہے۔ یہ تو انتخابی نشستوں کا حال تھا۔خود اس کانگریسی حکومت نے نامزدگی سے جو نشستیں پر کیں ان کے متعلق خود اس کا اپنا اعتراف ہے‘ کہ ۵۷ میں سے ۶۱غیر مسلموںکو اور صرف ۱۵مسلمانوںکو دی گئیں، حالانکہ تناسب آبادی کے لحاظ سے ۲۵ نشستیں مسلمانوں کو ملنی چاہیے تھیں ۔
(ملاحظہ ہو سوال نمبر ۲۷۰ کا جواب، مورخہ ۲۹ اپریل ۱۹۳۸ء)
۲- سی پی کے ضلع بلڈانہ میں تعلقہ بورڈ کے ۷۲ حلقے ہیں‘ اور ان میںسے کسی حلقہ میں بھی مخلوط انتخاب کے ذریعہ سے کوئی مسلمان منتخب نہ ہو سکا۔ (ملاحظہ ہوقاضی سیّد محمود علی صاحب ملکا پوری کا خط مہاتما گاندھی کے نام جو ۲۵ ستمبر ۱۹۳۸ء کے اخبار ’’مدینہ‘‘ میں شائع ہواہے)
۳- سی پی میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے ارکان کا جو انتخاب ہوا اس میں مخلوط انتخاب کی وجہ سے ایک مسلمان بھی منتخب نہ ہو سکا اور نہ کسی اچھوت پر کانگریسی ہندوؤں کی نظرِ انتخاب پڑ سکی۔
(ملاحظہ ہو سی پی کے کانگریسی مسلمانوں کا شکایت نامہ ‘مدینہ۲۸ جولائی ۹۳۸ء)
۴- اسی صوبہ متوسط میں ایک درجن سے زیادہ میونسپل کمیٹیاں ایسی ہیں‘ جن میں ایک مسلمان بھی مخلوط انتخاب کی وجہ سے منتخب نہیں ہوا۔ یہی حال اکثر لوکل اور ڈسٹرکٹ بورڈوں کا ہے‘ کہ وہ منتخب شدہ مسلمان نمائندوں سے بالکل خالی ہیں۔
(ملاحظہ ہو مسٹر تاج الدین کا مراسلہ۔ اسٹار آف انڈیا مورخہ ۲ جولائی ۱۹۳۸ء، نیز یہ خیال رہے‘ کہ صاحب ِمراسلہ صوبہ متوسط کے مشہور نیشنلسٹ مسلمان ہیں)
۵- خود کانگریس ہائی کمانڈ انتخاب کے معاملہ میں جو ذہنیت رکھتی ہے اس کا حال کانگریسی صوبوں کی وزارتوں پر ایک نظر ڈالنے ہی سے کھل جاتا ہے، جن صوبوں میں ہندو اکثریت ہے وہاں ہندو وزیر اعظم ہیں‘ اور جہاں مسلمان اکثریت ہے وہاں مسلمان کو وزیر انتخاب کیا گیا ہے۔ ہندو اکثریت کے کسی صوبہ میںکوئی کٹّے سے کٹّا وطن پرست بھی اسلامی نام سے موسوم ہونے اور اسلامی سوسائٹی کے تعلق سے متہم ہونے کی بدولت وزارت عظمیٰ پر بار نہ پا سکا۔ حتیٰ کہ بچارے ڈاکٹر سیّد محمود بھی اس شرف سے محروم رہے حالانکہ اگر ان کا نام محمود کے بجائے سنہا ہوتا تو یقینا ان کی وطن پرستانہ خدمات ایسی تھیں کہ وہی وزیر اعظم بنائے جاتے۔ اس کے بعد وزیروں اور پارلیمنٹری سیکرٹریوں کی فہرست اُٹھا کر دیکھئے تو معلوم ہو گا کہ زیادہ تر اسی تناسب آبادی کا لحاظ کیا گیا ہے‘ جس کے متعلق کہا جاتا ہے‘ کہ صرف فرقہ پرست ہی اس کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ بلکہ بعض جگہ تناسب آبادی سے بھی کم مسلمان لیے گئے ہیں۔
کیا یہ کھلی ہوئی علامات اس امر کی نہیں ہیں‘ کہ سیاسیات کے دائرے میں بھی خود متحدہ قومیّت کے علم برداروں کے ہاں قومی امتیاز اور ترجیحِ ہم جنس کی اسپرٹ پوری طرح موجود ہے؟ ایسی حالت میں واحد قومیّت کے اصول پر جمہوری اسٹیٹ بنانے کے معنی اس کے سوا کیا ہو سکتے ہیں‘ کہ جہاں مسلمان کثیر التعداد ہیں وہاں وہ ہندوؤں کو اور جہاں ہندو کثیر التعداد ہوں وہاں مسلمانوں کو اسٹیٹ کے کاروبار سے بے دخل کر دیں، اور چونکہ مجموعی طور پر ہندوؤں کی اکثریت ہے اس لیے وہ قومی اسٹیٹ کو ہندو قوم کا اسٹیٹ بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔
۶- متحدہ قومیّت کے اس سراسر جھوٹے دعوے پر جو قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ بنایا جائے گا وہ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں مسلمانوں کے لیے تو بلا شبہ غیر مسلم اسٹیٹ ہو گا، مگر ہندوؤں کے لیے لازم نہیں کہ وہ غیر ہندو اسٹیٹ ہو، بلکہ اپنی اکثریت کے بل پر وہ اس کو ایک ہندو اسٹیٹ بنا سکتے ہیں، اور واقعات سے روز بروز عیاں ہوتا جا رہا ہے‘ کہ وہ ایسا ہی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے لیے بھی میں صرف ایک صوبہ کے چند واقعات بطور نمونہ پیش کروں گا۔
(الف) سی پی کی کانگریسی حکومت کے تعلقہ بورڈ چاندور کا ہندو چیئرمین ۲۴ ستمبر ۱۹۳۸ء کو تمام مدارس کے نام سر کلر (نمبر ۴۴۶) جاری کرتا ہے‘ جس میں حکم دیا جاتاہے‘ کہ ۲ اکتوبر کو مہاتما گاندھی کی سالگرہ کے دن بچے اور استاد سب مل کر ان کی پوجا کریں۔ یہ سر کلر بلا امتیاز ہندو مسلم سب مدارس کو سرکاری طورپر بھیجا جاتا تھا‘ اور اس پر کوئی باز پرس نہیں ہوتی۔
(ب) اسی صوبہ کی کانگریسی حکومت محکمہ پولیس کے حکام کو (جن میںہندو اور مسلمان سب شامل ہیں) ہدایت نامہ بھیجتی ہے‘ کہ جس جلسہ یا تقریب میں ’’بندے ماترم‘‘ کا گیت گایا جائے‘ اور وہ وہاں موجود ہوں تو انہیں بھی عام حاضرین کے ساتھ قیامِ تعظیمی کرنا چاہیے۔ اس واقعہ کو خود وزیر اعظم نے اپنے ایک پریس نوٹ میں تسلیم کیا ہے (ٹائمز آف انڈیا مورخہ ۲۸ ؍جون۱۹۳۸ء)
(ج) ساگر (صوبہ متوسط) کی میونسپل کمیٹی کا صدر مسلمان طلبہ کو تنبیہہ کرتا ہے‘ کہ اگر وہ بندے ماترم گانے میں شریک نہ ہوں گے‘ تو انہیں مدرسے سے نکال دیا جائے گا۔ اس واقعہ کو بھی خود سی پی کے وزیر اعظم نے مذکور بالا پریس نوٹ میں تسلیم کیا ہے۔
(د) اسی صوبہ کے ایک سرکاری مدرسہ میں انجمن ترقی اردو کے نمائندے نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ مسلمان بچے ہندو بچوں کے ساتھ سرسوتی کی پوجا کر رہے تھے، اور ان کوسلام کرنے کے بجائے ہاتھ جوڑ کر ’’جے رام جی کی‘‘ کہنا سکھا دیا گیا تھا (ملاحظہ ہو مولوی عبد الحق صاحب سیکرٹری انجمن ترقی اردو کا خط گاندھی جی کے نام، اخبار ’’پیام‘‘ مورخہ یکم ستمبر ۱۹۳۸ء)
(ہ) خود کانگریسی کانسٹی ٹیوشن میں برار کو اس کا مشہور و معروف نام چھوڑ کر ’’وِدْربَھا‘‘ اور صوبہ متوسط کو ’’مہاکوشُل‘‘ سے موسوم کیا گیا ہے۔ گویا کہ اب رامائن کا عہد ہندستان میں واپس آرہا ہے۔
(و) مسٹر شریف، وزیر صوبہ متوسط کا واقعہ ابھی سب کے حافطہ میں موجود ہے۔ انہوں نے ایک مسلمان کو رہا کر دیا تھا‘ جسے ایک ہندو لڑکی کے ساتھ زنا کرنے کے الزام میں عدالت سے سزا ہوئی تھی۔ اس جرم کی پاداش میں کانگریس ہائی کمانڈ نے ان کو وزارت سے معزول کر دیا۔ مگر فسادات جبل پور کے سلسلہ میں جو ہندوملزمین ۴ مسلمانوں کے قتل کے الزام میں ماخوذ تھے، ان کو سی پی کی ہندو وزارت نے حکماً رہا کر دیا اور اس پر ڈسپلن کے ان دیوتاؤں کو جن سے ہائی کمانڈ مرکّب ہے، کسی باز پرس کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ حال ہی میں ہوشنگ آباد کے ایک ہندو و بابو سنگھ کو جسے ایک جوان لڑکی کو زہر دے کر مار ڈالنے کی پاداش میںہائی کورٹ سے سزائے موت کا حکم ہوا تھا۔ سی پی کے ہندو وزیر مسٹر ڈی کے مہتا نے رہا کر دیا اور اس پر بھی ہائی کمانڈکو کسی تحقیقات اور کسی تادیبی کارروائی کا خیال نہ آیا۔
(ز) اسی صوبہ میںمحض اکثریت کے زور پر ودیا مندر اسکیم نافذ کی جا رہی ہے‘ اور مسلمانوں کی مخالفت کا استخفاف کرنے میں گاندھی اور شکلا اور ہائی کمانڈ سب متفق ہیں۔
ان واقعات کے علاوہ بہار، یو پی، مدراس اور سی پی میں قربانی گاؤ کو حکماً بند کرنے اور ہندی کو ’’ہندستانی‘‘ کے پر فریب نام کی آڑ میں بزور رائج کرنے اور زبان سے عربی و فارسی زبان زد عام الفاظ کو نکال کر نئے غیر مانوس الفاظ گھڑنے، اور سرکاری ملازمتوں میں کُھلا کُھلا امتیاز برتنے کے واقعات اس قدر کثیر ہیںکہ ان سب کو یہاں نقل کرنا موجب تطویل ہو گا۔ جو کچھ ہمیں ثابت کرنا تھا اس کے لیے مذکورہ بالا شواہد کافی ہیں۔
اب ہر شخص خود دیکھ کر فیصلہ کر سکتا ہے‘ کہ جس ’’جنگ ِ آزادی‘‘ کی منزلِ مقصود مسلمانوں کے قومی مفاد بلکہ ان کی قومی ہستی ہی سے منافات کی نسبت رکھتی ہو‘ اس میں کوئی مسلمان کس طرح حصہ لے سکتا ہے۔ مسلمانوں کو آخر اتنا بے وقوف کیوں فرض کیا گیا ہے‘ کہ وہ اس نوعیت کے اسٹیٹ کو خود اپنے سر پر مسلط کرنے کے لیے جنگ کریں گے؟ کہیں وہ لوگ خود ہی تو عقل باختہ و ہوش ربودہ{ FR 2958 } نہیں ہو گئے ہیں‘ جو ایک قوم سے توقع رکھتے ہیں‘ کہ وہ جانتے بوجھتے اپنی قبر آپ کھودنے میں جانفشانی دکھائے گی؟

خ خ خ

شیئر کریں